• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَعْتِقُ الأَمَةَ ثُمَّ يَتَزَوَّجُهَا
۲۴-باب: لونڈی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرنے کا بیان​


1115- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَعْتَقَ صَفِيَّةَ، وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ صَفِيَّةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُجْعَلَ عِتْقُهَا صَدَاقَهَا، حَتَّى يَجْعَلَ لَهَا مَهْرًا سِوَى الْعِتْقِ، وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: م/النکاح ۱۴ (۱۳۶۵)، د/النکاح ۶ (۲۰۵۴)، ن/النکاح ۶۴ (۳۳۴۴)، دي/النکاح ۴۵ (۲۲۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۷ و ۱۴۲۹) (صحیح)
و أخرجہ کل من : خ/الصلاۃ ۱۲ (۳۷۱)، وصلاۃ الخوف ۶ (۹۴۷)، والجہاد والمغازي ۳۸ (۴۲۰۰)، والنکاح ۱۳ (۵۰۸۶) و۶۸ (۵۱۶۹)، م/النکاح (المصدر المذکور) ق/النکاح ۴۲ (۱۹۵۷)، حم (۳/۹۹، ۱۳۸، ۱۶۵، ۱۷۰،۱۸۱،۱۸۶،۲۰۳،۲۳۹،۲۴۲) من غیر ہذا الوجہ وبعضہم بتغیر یسیر في السیاق۔
۱۱۱۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے صفیہ کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قراردیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں صفیہ رضی اللہ عنہا سے بھی حدیث آئی ہے، ۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۴- اور بعض اہل علم نے اس کی آزادی کواس کا مہرقرار دینے کومکروہ کہاہے،یہاں تک کہ اس کا مہر آزادی کے علاوہ کسی اور چیز کومقررکیاجائے۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ فِي الْفَضْلِ فِي ذَلِكَ
۲۵-باب: لونڈی کوآزاد کرکے اس سے شادی کرنے کی فضیلت کا بیان​


1116- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ابْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "ثَلاَثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ: عَبْدٌ أَدَّى حَقَّ اللهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، فَذَاكَ يُؤْتَى أَجْرَهُ مَرَّتَيْنِ. وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ جَارِيَةٌ وَضِيئَةٌ، فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا ثُمَّ تَزَوَّجَهَا، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللهِ. فَذَلِكَ يُؤْتَى أَجْرَهُ مَرَّتَيْنِ. وَرَجُلٌ آمَنَ بِالْكِتَابِ الأَوَّلِ. ثُمَّ جَاءَ الْكِتَابُ الآخَرُ فَآمَنَ بِهِ. فَذَلِكَ يُؤْتَى أَجْرَهُ مَرَّتَيْنِ".
* تخريج: خ/العلم ۳۱ (۹۷)، والجہاد ۱۴ (۳۰۱۱)، و أحادیث الأنبیاء ۴۷ (۳۴۴۶)، والنکاح ۱۳ (۱۳ (۵۰۸۳)، م/الإیمان ۷۰ (۱۵۴)، ن/النکاح ۶۵ (۳۳۴۶)، ق/النکاح ۴۲ (۱۹۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۰۷)، حم (۴/۳۹۵،۴۱۴)، دي/النکاح ۴۶ (۲۲۹۰) (صحیح)
1116/م- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ. حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ (وَهُوَ ابْنُ حَيٍّ) عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ، بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى اسْمُهُ عَامِرُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ قَيْسٍ. وَرَوَى شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحِ ابْنِ حَيٍّ. وَصَالِحُ بْنُ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ هُوَ وَالِدُ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۱۱۶- ابوموسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تین لوگ ہیں جنہیں دہرا اجر دیاجاتاہے: ایک وہ بندہ جو اللہ کا حق اداکرے اور اپنے مالک کا حق بھی، اسے دہرااجر دیاجاتاہے، اور دوسراوہ شخص جس کی ملکیت میں کوئی خوب صورت لونڈی ہو، وہ اس کی تربیت کرے اور اچھی تربیت کرے پھر اسے آزاد کردے ، پھر اس سے نکاح کرلے اور یہ سب اللہ کی رضا کی طلب میں کرے، تو اسے دہرا اجر دیاجاتاہے۔ اور تیسرا وہ شخص جوپہلے کتاب (تورات وانجیل ) پر ایمان لایا ہو پھرجب دوسری کتاب (قرآن مجید) آئی تو اس پربھی ایمان لایا تو اُسے بھی دہرا اجر دیا جاتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا. هَلْ يَتَزَوَّجُ ابْنَتَهَا أَمْ لاَ؟
۲۶-باب: جوکسی عورت سے شادی کرے پھر دخول سے پہلے ہی اُسے طلاق دے دے تو کیا وہ اس عورت کی بیٹی سے شادی کرسکتا ہے؟​


1117- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "أَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً فَدَخَلَ بِهَا، فَلاَ يَحِلُّ لَهُ نِكَاحُ ابْنَتِهَا. وَإِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِهَا فَلْيَنْكِحْ ابْنَتَهَا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً، فَدَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فَلاَ يَحِلُّ لَهُ نِكَاحُ أُمِّهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ يَصِحُّ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ. وَإِنَّمَا رَوَاهُ ابْنُ لَهِيعَةَ وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ. وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ وَابْنُ لَهِيعَةَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالُوا: إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَأَةً، ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، حَلَّ لَهُ أَنْ يَنْكِحَ ابْنَتَهَا. وَإِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الاِبْنَةَ، فَطَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، لَمْ يَحِلَّ لَهُ نِكَاحُ أُمِّهَا. لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ} وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۳) (ضعیف)
(مؤلف نے وجہ بیان کردی ہے)
۱۱۱۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کے ساتھ دخول کیاتو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح کرنا درست نہیں ہے، اور اگر اس نے اس کے ساتھ دخول نہیں کیا ہے تووہ اس کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے۔ اور جس مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا تو اس نے اس سے دخول کیا ہو یانہ کیا ہو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح کرنا حلال نہیں ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے، اسے صرف ابن لہیعہ اور مثنیٰ بن صالح نے عمروبن شعیب سے روایت کیا ہے۔ اورمثنی بن صالح اور ابن لہیعہ حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں۔ ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کسی کی ماں سے شادی کرلے اور پھر اسے دخول سے پہلے طلاق دے دے تو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح جائز ہے، اور جب آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح کرے اور اسے دخول سے پہلے طلاق دے دے تو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح جائزنہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے {وأمهات نسائكم} (النساء : ۲۳) یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا فَيَتَزَوَّجُهَا آخَرُ، فَيُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا
۲۷-باب: آدمی بیوی کوتین طلاق دیدے پھراس سے کوئی اور شادی کرکے دخول سے پہلے اسے طلاق دید ے تواس کے حکم کا بیان​


1118- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَتْ: إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ. فَطَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلاَقِي. فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَمَامَعَهُ إِلاَّ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ. فَقَالَ: "أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لاَ. حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَالرُّمَيْصَائِ أَوِ الْغُمَيْصَائِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا. فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ، فَطَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا أَنَّهَا لاَ تَحِلُّ لِلزَّوْجِ الأَوَّلِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ جَامَعَ الزَّوْجُ الآخَرُ.
* تخريج: خ/الشہادات ۳ (۲۶۳۹)، م/النکاح ۱۷ (۱۴۳۳)، ن/النکاح ۴۳ (۳۲۸۵)، والطلاق ۱۲ (۳۴۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۳۶)، حم ۶/۳۷)، دي/الطلاق ۴ (۲۳۱۳) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/الطلاق ۴ (۵۲۶)، و۷ (۵۲۶۵)، و۳۷ (۵۳۱۷) واللباس ۶ ۵۷۹۲)، والأدب ۶۸ (۶۰۸۴)، م/النکاح (المصدر المذکور)، ن/الطلاق ۹ (۳۴۳۷)، و ۱۰ (۲۴۳۸)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۱۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکرکہا: میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے۔پھر میں نے عبدالرحمن بن زبیر سے شادی کرلی، ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سواکچھ نہیں ہے ۱؎ ، آپ نے فرمایا:'' توکیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو؟ ایسانہیں ہوسکتاجب تک کہ تم ان (عبدالرحمن ) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، انس ، رمیصاء ، یا غمیصاء اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے پھر وہ کسی اور سے شادی کرلے اور وہ دوسراشخص دخول سے پہلے اسے طلاق دے دے تو اس کے لیے پہلے شوہر سے نکاح درست نہیں جب تک کہ دوسرے شوہر نے اس سے جماع نہ کرلیاہو۔
وضاحت ۱؎ یعنی انہیں جماع کی قدرت نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ '' حتی تذوقی عُسیلتہ ویذوق عُسیلتک''سے کنایہ جماع کی طرف ہے اورجماع کوشہدسے تشبیہ دینے سے مقصودیہ ہے کہ جس طرح شہد کے استعمال سے لذت وحلاوت حاصل ہوتی ہے اسی طرح جماع سے بھی لذت وحلاوت حاصل ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُحِلِّ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ
۲۸-باب: حلالہ کرنے اورکرانے والے پرواردوعید کا بیان​


1119- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ زُبَيْدٍ الأَيَامِيُّ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَعَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالاَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَعَنَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهَُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ حَدِيثٌ مَعْلُولٌ. وَهَكَذَا رَوَى أَشْعَثُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ (هُوَ الشَّعْبِيُّ) عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ. وَعَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَهَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَائِمِ. لأَنَّ مُجَالِدَ بْنَ سَعِيدٍ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ. مِنْهُمْ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ. وَرَوَى عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ عَلِيٍّ. وَهَذَا قَدْ وَهِمَ فِيهِ ابْنُ نُمَيْرٍ. وَالْحَدِيثُ الأَوَّلُ أَصَحُّ. وَقَدْ رَوَاهُ مُغِيرَةُ وَابْنُ أَبِي خَالِدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف من حدیث جابر، ومن حدیث علی أخرجہ کل من: د/النکاح ۱۶ (۲۰۷۶)، ق/النکاح ۳۳ (۱۹۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۴۸و۱۰۰۳۴)، حم (۱/۸۷) (صحیح)
شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ جابر کی حدیث میں ''مجاہد'' اور علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ''حارث اعور'' ضعیف ہیں)
۱۱۱۹- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے اورکرانے والے پرلعنت بھیجی ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی اور جابر رضی اللہ عنہما کی حدیث معلول ہے، ۲- اسی طرح اشعث بن عبدالرحمن نے بسند مجالد عن عامر الشعبی عن الحارث عن علی روایت کی ہے۔اور عامر الشعبی نے بسند جابر بن عبداللہ عن النبی ﷺ روایت کی ہے، ۳- اس حدیث کی سند کچھ زیادہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مجالد بن سعید کو بعض اہل علم نے ضعیف گردانا ہے۔ انہی میں سے احمد بن حنبل ہیں، ۴- نیزعبداللہ بن نمیر نے اس حدیث کو بسند مجالد عن عامرالشعبی عن جابربن عبداللہ عن علی روایت کی ہے، اس میں ابن نمیرکو وہم ہواہے۔پہلی حدیث زیادہ صحیح ہے،۵- اور اسے مغیرہ ، ابن ابی خالد اور کئی اورلوگوں نے بسند الشعبی عن الحارث عن علی روایت کی ہے،۶- اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ ، عقبہ بن عامر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : محلل وہ شخص ہے جوطلاق دینے کی نیت سے مطلقہ ثلاثہ سے نکاح ومباشرت کرے، اورمحلل لہ سے پہلا شوہرمرادہے جس نے تین طلاقیں دی ہیں، اورطریقہ سے اپنی عورت سے دوبارہ شادی کرناچاہتاہے یہ حدیث دلیل ہے کہ حلالہ کی نیت سے نکاح باطل اورحرام ہے کیونکہ لعنت حرام فعل ہی پر کی جاتی ہے، جمہوراس کی حرمت کے قائل ہیں، حنفیہ اسے جائز کہتے ہیں۔


1120- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو قَيْسٍ الأَوْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ ثَرْوَانَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو وَغَيْرُهُمْ. وَهُوَ قَوْلُ الْفُقَهَائِ مِنَ التَّابِعِينَ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقَُ. قَالَ: و سَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَذْكُرُ عَنْ وَكِيعٍ أَنَّهُ قَالَ بِهَذَا. و قَالَ: يَنْبَغِي أَنْ يُرْمَى بِهَذَا الْبَابِ مِنْ قَوْلِ أَصْحَابِ الرَّأْيَِ قَالَ جَارُودُ: قَالَ وَكِيعٌ: وَقَالَ سُفْيَانُ: إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ لِيُحَلِّلَهَا، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا فَلاَ يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا، حَتَّى يَتَزَوَّجَهَا بِنِكَاحٍ جَدِيدٍ.
* تخريج: ن/الطلاق ۱۳ (۳۴۴۵)، (في سیاق طویل) (تحفۃ الأشراف: ۹۵۹۵)، حم (۱/۴۴۸، ۴۵۰، ۴۵۱، ۴۶۲)، دي/النکاح ۵۳ (۲۳۰۴) (صحیح)
۱۱۲۰- عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اورکرانے والے (دونوں) پر لعنت بھیجی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث نبی اکرمﷺ سے کئی اورطرق سے بھی روایت کی گئی ہے، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ جن میں عمربن خطاب ، عثمان بن عفان، عبداللہ بن عمروغیرہم رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں۔ یہی تابعین میں سے فقہاء کابھی قول ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، وکیع نے بھی یہی کہاہے، ۴- نیز وکیع کہتے ہیں: اصحاب رائے کے قول کو پھینک دیناہی مناسب ہوگا ۱؎ ، ۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی جب عورت سے نکاح اس نیت سے کرے کہ وہ اسے (پہلے شوہر کے لیے) حلال کرے گا پھر اسے اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھ لینا ہی بھلا معلو م ہو تو وہ اسے اپنی زوجیت میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس سے نئے نکاح کے ذریعے سے شادی نہ کرے۔
وضاحت ۱؎ : اصحاب الرائے سے مرادامام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نکاح حلالہ صحیح ہے گوحلال کرنے کی ہی نیت سے ہو ۔ان کی رائے کوچھوڑدینااس لیے مناسب ہے کہ ان کا یہ قول حدیث کے مخالف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29- بَاب مَا جَاءَ فِي تَحْرِيمِ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ
۲۹-باب: نکاحِ متعہ کی حرمت کا بیان​


1121- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ وَالْحَسَنِ ابْنَيْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِمَا، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ زَمَنَ خَيْبَرَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَإِنَّمَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ شَيْئٌ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي الْمُتْعَةِ، ثُمَّ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ حَيْثُ أُخْبِرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَأَمْرُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى تَحْرِيمِ الْمُتْعَةِ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/المغازي ۳۸ (۴۲۱۶)، والنکاح ۳۱ (۵۱۱۵)، والذبائح ۲۸ (۵۵۳۳)، والحیل ۴ (۶۹۶۱)، م/النکاح ۳ (۱۴۰۷)، الصید والذبائح ۵ (۱۴۰۷)، ن/النکاح ۷۱ (۳۳۶۷)، والصید ۳۱ (۴۳۳۹)، ق/النکاح ۴۴ (۱۹۶۱)، ط/النکاح ۷۱ (۴۱)، حم (۱/۷۹)، دي/النکاح ۱۶ (۲۲۴۳) ویأتي عند المؤلف في الأطعمۃ ۶ (۱۷۹۴) (صحیح)
۱۱۲۱- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے خیبر کی فتح کے وقت عورتوں سے متعہ ۱؎ کرنے سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سبرہ جہنی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، البتہ ابن عباس سے کسی قدر متعہ کی اجازت بھی روایت کی گئی ہے، پھرانہوں نے اس سے رجوع کرلیا جب انہیں نبی اکرمﷺ کے بارے میں اس کی خبردی گئی ۔ اکثر اہل علم کا معاملہ متعہ کی حرمت کا ہے، یہی ثوری، ابن مبارک ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : عورتوں سے مخصوص مدّت کے لیے نکاح کرنے کونکاح متعہ کہتے ہیں، پھرعلی رضی اللہ عنہ نے خیبرکے موقع سے گھریلو گدھوں کی حرمت کے ساتھ متعہ کی حرمت کاذکرکیا ہے یہاں مقصد متعہ کی حرمت کی تاریخ نہیں بلکہ ان دوحرام چیزوں کا تذکرہ ہے متعہ کی اجازت واقعہ اوطاس میں دی گئی تھی۔
حرام ہوگیا، اوراب اس کی حرمت قیامت تک کے لیے ہے، ائمہ اسلام اورعلماء سلف کا یہی مذہب ہے۔


1122- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاْنَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُقْبَةَ أَخُو قَبِيصَةَ بْنِ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّمَا كَانَتِ الْمُتْعَةُ فِي أَوَّلِ الإِسْلاَمِ. كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْبَلْدَةَ لَيْسَ لَهُ بِهَا مَعْرِفَةٌ. فَيَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ بِقَدْرِ مَا يَرَى أَنَّهُ يُقِيمُ، فَتَحْفَظُ لَهُ مَتَاعَهُ وَتُصْلِحُ لَهُ شَيْئَهُ. حَتَّى إِذَا نَزَلَتِ الآيَةُ {إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَكُلُّ فَرْجٍ سِوَى هَذَيْنِ فَهُوَ حَرَامٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۴۴۹) (ضعیف)
(اس کے راوی ''موسیٰ بن عبیدہ''ضعیف ہیں ، نیز یہ شاذ بھی ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں: اس کی سند ضعیف ہے، اور یہ شاذ بھی ہے کیونکہ یہ متعہ کی اباحت کی علت کے خلاف ہے ، فتح الباری ۹/۱۴۸، حافظ ابن حجر بخاری کی اس روایت کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں جس میں ابوجمرہ کہتے ہیں:'' میں نے ابن عباس کو عورتوں سے متعہ کرنے کے سوال پر یہ سنا کہ آپ نے اس کی رخصت دی تو آپ کے غلام نے عرض کیا کہ یہ تو صرف سخت حالات اور عورتوں کی قلت کی بناپر تھایااس طرح کی بات کہی تو ابن عباس نے کہا : ہاں، ایسا ہی ہے '' بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عباس متعہ کی اباحت کے فتوے سے مطلقا رجوع ہوگئے تھے، اور اس کو مطلقا ناجائز کہتے تھے)۔
۱۱۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ متعہ ابتدائے اسلام میں تھا۔ آدمی جب کسی ایسے شہر میں جاتا جہاں اس کی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ اپنے قیام کی مدّت تک کے لیے کسی عورت سے شادی کرلیتا۔ وہ اس کے سامان کی حفاظت کرتی۔اس کی چیزیں درست کرکے رکھتی۔ یہاں تک کہ جب آیت کریمہ {إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ} (لوگ اپنی شرمگاہوں کو صرف دوہی جگہ کھول سکتے ہیں، ایک اپنی بیویوں پر ، دوسرے اپنی ماتحت لونڈیوں پر ) نازل ہوئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ان دوکے علاوہ باقی تمام شرمگاہیں حرام ہوگئیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ نِكَاحِ الشِّغَارِ
۳۰-باب: نکاح شغار کی حرمت کا بیان​


1123- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ وَهُوَ الطَّوِيلُ، قَالَ: حَدَّثَ الْحَسَنُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: “لاَ جَلَبَ وَلاَ جَنَبَ، وَلاَ شِغَارَ فِي الإِسْلاَمِ. وَمَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا”.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي رَيْحَانَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَمُعَاوِيَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ.
* تخريج: د/الجہاد ۷۰ (۲۵۸۱)، مقتصرا علی قولہ ’’لا جلب ولا جنب‘‘ د/النکاح ۶۰ (۳۳۳۷)، والخیل ۱۵ (۳۶۲۰)، و۱۶ (۳۶۲۱)، ق/الفتن ۳ (۳۹۳۵)، مقتصرا علی قولہ ’’من انتہب…‘‘ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۹۳) حم (۴/۴۲۹، ۴۳۹) (صحیح)
۱۱۲۳- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’ اسلام میں نہ جلب ہے، نہ جنب ۱؎ اور نہ ہی شغار، اور جوکسی کی کوئی چیز اچک لے، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس ، ابوریحانہ ، ابن عمر، جابر، معاویہ ، ابوہریرہ، اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : جلب اور جنب کے دومفہوم ہیں: ایک مفہوم کا تعلق زکاۃ سے ہے اور دوسرے کا گھوڑدوڑ کے مقابلے سے۔ زکاۃ میں جلب یہ ہے کہ زکاۃوصول کرنے والا کافی دور قیام کرے اور صاحب زکاۃ لوگوں کو حکم دے کہ وہ اپنے جانورلے کر آئیں اور زکاۃ ادا کریں ، یہ ممنوع ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو خود ان کی چراگاہوں یا پنگھٹوں پر جاکر زکاۃ کے جانور لینے چاہئیں۔ اس کے مقابلے میں جنب یہ ہے کہ صاحب زکاۃاپنے اپنے جانور لے کر دور چلے جائیں تا کہ زکاۃوصول کرنے والا ان کے ساتھ دوڑتاپھرے اور پریشان ہو۔ پہلی صورت یعنی جلب میں زکاۃ دینے والوں کو زحمت ہے اوردوسری صورت جنب میں زکاۃوصول کرنے کو ۔ لہذا یہ دونوں درست نہیں۔گھوڑدوڑ میں جلب اورجنب ایک دوسرے کے مترادف ہیں، مطلب یہ ہے کہ آدمی ایک گھوڑے پر سوار ہوجائے اور دوسرا تازہ دم گھوڑا ساتھ رکھے تاکہ درمیان میں جب یہ تھک جائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوجائے اور مقابلہ بہ آسانی جیت سکے۔اس میں چونکہ ناانصافی اور دھوکہ ہے، لہذا اس معنی میں بھی جلب اور جنب درست نہیں ہے ( اور شغار کی تشریح خود مؤلف کے الفاظ میں اگلی حدیث کے ضمن میں آرہی ہے۔)


1124- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَيَرَوْنَ نِكَاحَ الشِّغَارِ. وَالشِّغَارُ أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الآخَرُ ابْنَتَهُ أَوْ أُخْتَهُ وَلاَ صَدَاقَ بَيْنَهُمَا. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: نِكَاحُ الشِّغَارِ مَفْسُوخٌ وَلاَ يَحِلُّ، وَإِنْ جُعِلَ لَهُمَا صَدَاقًا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَرُوِيَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ أَنَّهُ قَالَ: يُقَرَّانِ عَلَى نِكَاحِهِمَا، وَيُجْعَلُ لَهُمَا صَدَاقُ الْمِثْلِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: خ/النکاح ۲۸ (۵۱۱۲)، م/النکاح ۷ (۱۴۱۵)، د/النکاح ۱۵ (۲۰۷۴)، ن/النکاح ۶۱ (۳۳۳۷)، ق/النکاح ۱۶ (۱۸۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۳) ط/النکاح ۱۱ (۲۴)، حم (۲/،۶۲)، دي/النکاح ۹ (۲۲۲۶) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الحیل ۴ (۶۹۶۰)، م/النکاح (المصدر المذکور) ن/النکاح ۶۰ (۳۳۳۶)، حم (۲/۱۹) من ہذا الوجہ۔
۱۱۲۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے، یہ لوگ نکاح شغارکو درست نہیں سمجھتے،۳- شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کانکاح کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن کانکاح اس سے کردے گا اور ان کے درمیان کوئی مہرمقررنہ ہو،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: نکاح شغار فسخ کردیاجائے گا اور وہ حلال نہیں، اگرچہ بعد میں ان کے درمیان مہر مقرر کرلیاجائے۔ یہ شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۵- لیکن عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ وہ اپنے نکاح پر قائم رہیں گے البتہ ان کے درمیان مہر مثل مقرر کردیا جائے گا،اور یہی اہل کوفہ کابھی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31- بَاب مَا جَاءَ لا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا وَلا عَلَى خَالَتِهَا
۳۱-باب: پھوپھی کے نکاحمیں ہوتے ہوئے اس کی بھتیجی سے نکاح کرنے اورخالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بھانجی سے نکاح کرنے کی حرمت کا بیان​


1125- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَبِي حَرِيزٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى أَنْ تُزَوَّجَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، أَوْ عَلَى خَالَتِهَا. وَأَبُو حَرِيزٍ اسْمُهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ حُسَيْنٍَ.
* تخريج: حدیث ابن عباس : د/النکاح ۱۳ (۲۰۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۶۰۷۰)، حم (۱/۲۱۷، ۳۷۲) (صحیح)
(متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ''ابوحریز'' حافظہ کے کمزور ہیں)


1125/م- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، بِمِثْلِهَِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي مُوسَى وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ.
* تخريج: حدیث أبي ہریرۃ : انظر تخریج الحدیث الآتي
۱۱۲۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے منع فرمایاکہ کسی عورت سے شادی کی جائے اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ (پہلے سے) نکاح میں ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوحریز کانام عبداللہ بن حسین ہے، ۲- نصر بن علی نے بطریق : ''عبدالأعلى، عن هشام بن حسان، عن ابن سيرين، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ'' اسی کے مثل روایت کی ہے، ۳- اس باب میں علی، ابن عمر، عبداللہ بن عمرو، ابوسعید ، ابوامامہ، جابر، عائشہ ، ابوموسیٰ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1126- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، أَوِ الْعَمَّةُ عَلَى ابْنَةِ أَخِيهَا، أَوِ الْمَرْأَةُ عَلَى خَالَتِهَا، أَوِ الْخَالَةُ عَلَى بِنْتِ أُخْتِهَا. وَلاَ تُنْكَحُ الصُّغْرَى عَلَى الْكُبْرَى، وَلاَ الْكُبْرَى عَلَى الصُّغْرَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ. لاَ نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ اخْتِلاَفًا أَنَّهُ لاَ يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا. فَإِنْ نَكَحَ امْرَأَةً عَلَى عَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا أَوْ الْعَمَّةَ عَلَى بِنْتِ أَخِيهَا، فَنِكَاحُ الأُخْرَى مِنْهُمَا مَفْسُوخٌ. وَبِهِ يَقُولُ عَامَّةُ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: أَدْرَكَ الشَّعْبِيُّ أَبَا هُرَيْرَةَ وَرَوَى عَنْهُ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا فَقَالَ: صَحِيحٌَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى الشَّعْبِيُّ عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/النکاح ۲۷تعلیقا عقب حدیث جابر (۵۱۰۸)، م/النکاح ۴ (۴۰۸/۳۹)، د/النکاح ۱۳ (۲۰۶۵)، ن/النکاح ۴۷ (۳۲۸۸) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/النکاح ۲۷ (۵۱۰۹، ۵۱۱۰)، م/النکاح ۴ (۱۴۰۸)، د/النکاح ۱۳ (۲۰۶۶)، ن/النکاح ۴۷ (۳۲۹۰-۳۲۹۶)، و ۴۸ (۳۲۹۷)، ق/النکاح ۳۱ (۱۹۲۹)، ط/النکاح ۸ (۲۰)، حم (۲/۴۲۶) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۲۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ عورت سے نکاح کیاجائے جب کہ اس کی پھوپھی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کیاجائے جبکہ اس کی بھتیجی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا بھانجی سے نکاح کیاجائے جب کہ اس کی خالہ(پہلے سے) نکاح میں ہو یا خالہ سے نکاح کیاجائے جب کہ اس کی بھانجی پہلے سے نکاح میں ہو۔ اور نہ نکاح کیاجائے کسی چھوٹی سے جب کہ اس کی بڑی نکاح میں ہو اور نہ بڑی سے نکاح کیاجائے جب کہ چھوٹی نکاح میں ہو ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ہمیں ان کے درمیان اس بات میں کسی اختلاف کا علم نہیں کہ آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بیک وقت کسی عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں رکھے۔ اگر اس نے کسی عورت سے نکاح کرلیا جب کہ اس کی پھوپھی یا خالہ بھی اس کے نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کرلیا جب کہ اس کی بھتیجی نکاح میں ہو تو ان میں سے جو نکاح بعد میں ہوا ہے، وہ فسخ ہوگا، یہی تمام اہل علم کا قول ہے، ۳- شعبی نے ابوہریرہ کو پایا ہے اور ان سے (براہ راست ) روایت بھی کی ہے۔ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح ہے، ۴- شعبی نے ابوہریرہ سے ایک شخص کے واسطے سے بھی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی خالہ پھوپھی نکاح میں ہوتو اس کی بھانجی یا بھتیجی سے اور بھانجی یا بھتیجی نکاح میں ہوتواس کی خالہ یا پھوپھی سے نکاح نہ کیاجائے ، ہاں اگرایک مرجائے یا اس کو طلاق دیدے تودوسری سے شادی کرسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32- بَاب مَا جَاءَ فِي الشَّرْطِ عِنْدَ عُقْدَةِ النِّكَاحِ
۳۲-باب: عقد نکاح کے وقت شرط لگانے کا بیان​


1127- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِاللهِ الْيَزَنِيِّ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوفَى بِهَا مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ".
* تخريج: خ/الشروط ۶ (۲۷۲۱)، والنکاح ۵۳ (۵۱۵۱)، م/النکاح ۸ (۱۴۱۸)، د/النکاح ۴۰ (۲۱۳۹)، ن/النکاح ۴۲ (۳۲۸۱)، ق/النکاح ۴۱ (۱۹۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۵۳)، حم (۴/۱۴۴، ۱۵۰، ۱۵۲)، دي/النکاح ۲۱ (۲۲۴۹) (صحیح)
1127م- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: إِذَا تَزَوَّجَ رَجُلٌ امْرَأَةً، وَشَرَطَ لَهَا أَنْ لاَ يُخْرِجَهَا مِنْ مِصْرِهَا، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُخْرِجَهَا، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَرُوِي عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّهُ قَالَ: شَرْطُ اللهِ قَبْلَ شَرْطِهَا. كَأَنَّهُ رَأَى لِلزَّوْجِ أَنْ يُخْرِجَهَا وَإِنْ كَانَتْ اشْتَرَطَتْ عَلَى زَوْجِهَا أَنْ لاَيُخْرِجَهَا. وَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَبَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۱۲۷- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سب سے زیادہ پوری کیے جانے کی مستحق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے تم نے شرم گاہیں حلال کی ہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے۔ انہیں میں عمر بن خطاب بھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے شادی کی اور یہ شرط لگائی کہ وہ اسے اس کے شہر سے باہر نہیں لے جائے گا تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے باہر لے جائے، یہی بعض اہل علم کا قول ہے۔اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۳- البتہ علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کی شرط یعنی اللہ کا حکم عورت کی شرط پر مقدم ہے، گویا ان کی نظر میں شوہر کے لیے اسے اس کے شہر سے باہر لے جانا درست ہے اگرچہ اس نے اپنے شوہرسے اسے باہر نہ لے جانے کی شرط لگارکھی ہو، اوربعض اہل علم اس جانب گئے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کابھی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُسْلِمُ وَعِنْدَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ
۳۳-باب: اگرکوئی مسلمان ہوجائے اور اس کے عقد میں دس بیویاں ہوں تووہ کیاکرے؟​


1128- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ غَيْلاَنَ بْنَ سَلَمَةَ الثَّقَفِيَّ أَسْلَمَ وَلَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَأَسْلَمْنَ مَعَهُ. فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَتَخَيَّرَ أَرْبَعًا مِنْهُنَّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَاهُ مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ. قَالَ: وَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ وَغَيْرُهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ، أَنَّ غَيْلاَنَ ابْنَ سَلَمَةَ أَسْلَمَ وَعِنْدَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَإِنَّمَا حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلاَ مِنْ ثَقِيفٍ طَلَّقَ نِسَائَهُ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَتُرَاجِعَنَّ نِسَائَكَ، أَوْ لأَرْجُمَنَّ قَبْرَكَ، كَمَا رُجِمَ قَبْرُ أَبِي رِغَالٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ غَيْلاَنَ بْنِ سَلَمَةَ عِنْدَ أَصْحَابِنَا. مِنْهُمْ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: ق/النکاح ۴۰ (۱۹۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۴۹) (صحیح)
۱۱۲۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ۱؎ ثقفی نے اسلام قبول کیا، جاہلیت میں ان کی دس بیویاں تھیں، وہ سب بھی ان کے ساتھ اسلام لے آئیں، تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے کسی چارکومنتخب کر لیں ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اسی طرح اسے معمر نے بسند'' الزهري عن سالم بن عبدالله عن ابن عمر'' روایت کیا ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے۔ اورصحیح وہ ہے جو شعیب بن ابی حمزہ وغیرہ نے بسند الزہری عن محمد بن سوید الثقفی روایت کی ہے کہ غیلان بن سلمہ نے اسلام قبول کیاتوان کے پاس دس بیویاں تھیں۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمرسے روایت کی ہے کہ ثقیف کے ایک شخص نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تو عمر نے اس سے کہا: تم اپنی بیویوں سے رجوع کرلو ورنہ میں تمہاری قبر کو پتھر ماروں گا جیسے ابورغال ۳؎ کی قبر کوپتھر مارے گئے تھے۔ ۴- ہمارے اصحاب جن میں شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی شامل ہیں کے نزدیک غیلان بن سلمہ کی حدیث پر عمل ہے ۔
وضاحت ۱؎ : غیلان بن سلمہ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے، فتح طائف کے بعدانھوں نے اسلام قبول کیا۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چارسے زائدبیویاں ایک ہی وقت میں رکھناجائزنہیں، لیکن اس حکم سے نبی اکرمﷺکی ذات گرامی مستثنیٰ ہے، آپ کے حرم میں بیک وقت نوبیویاں تھیں، یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی اوراس میں بہت سی دینی، سیاسی، مصلحتیں کارفرماتھیں آپ کے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں۔
وضاحت۳؎ : ابورغال کے بارے میں دومختلف روایتیں ہیں، پہلی روایت یہ ہے کہ یہ طائف کے قبیلہ ثقیف کا یک شخص تھا جس نے ابرہہ کی مکے کی جانب رہبری کی تھی وہ مغمس کے مقام پرمرا اور وہیں دفن کیا گیا اور اس کی قبر پر پتھراؤکرنا عام رسم بن گئی، دوسری روایت ہے کہ ابورغال قوم ثمود کا وہ واحدشخص تھا جو ہلاکت سے بچ گیا تھا، ثمود کی تباہی کے وقت وہ مکیّ میں مقیم تھااور اس جگہ کی حرمت کے باعث محفوظ رہا تاہم مکیّ سے نکلنے کے فوراً بعدمرگیا، رسول اللہ ﷺجب اپنی فوج کے ساتھ الحجرکے مقام سے گزررہے تھے تو آپ نے یہ بات بیان فرمائی تھی، الأغانی کی ایک حکایت میں ابورغال کو طائف کا بادشاہ اوربنوثقیف کا جدامجدبھی بیان کیا گیا ہے، اس کے معاملے میں حافظ ابن قتیبہ اورمسعودی ایسے مصنف ایک اورروایت نقل کرتے ہیں کہ بنوثقیف ہی نے ابورغال کو جو ایک ظالم اوربے انصاف شخص تھا قتل کیاتھا۔
 
Top