29- بَاب مَا جَاءَ فِي تَحْرِيمِ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ
۲۹-باب: نکاحِ متعہ کی حرمت کا بیان
1121- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ وَالْحَسَنِ ابْنَيْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِمَا، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ زَمَنَ خَيْبَرَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَإِنَّمَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ شَيْئٌ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي الْمُتْعَةِ، ثُمَّ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ حَيْثُ أُخْبِرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَأَمْرُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى تَحْرِيمِ الْمُتْعَةِ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/المغازي ۳۸ (۴۲۱۶)، والنکاح ۳۱ (۵۱۱۵)، والذبائح ۲۸ (۵۵۳۳)، والحیل ۴ (۶۹۶۱)، م/النکاح ۳ (۱۴۰۷)، الصید والذبائح ۵ (۱۴۰۷)، ن/النکاح ۷۱ (۳۳۶۷)، والصید ۳۱ (۴۳۳۹)، ق/النکاح ۴۴ (۱۹۶۱)، ط/النکاح ۷۱ (۴۱)، حم (۱/۷۹)، دي/النکاح ۱۶ (۲۲۴۳) ویأتي عند المؤلف في الأطعمۃ ۶ (۱۷۹۴) (صحیح)
۱۱۲۱- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے خیبر کی فتح کے وقت عورتوں سے متعہ ۱؎ کرنے سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سبرہ جہنی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، البتہ ابن عباس سے کسی قدر متعہ کی اجازت بھی روایت کی گئی ہے، پھرانہوں نے اس سے رجوع کرلیا جب انہیں نبی اکرمﷺ کے بارے میں اس کی خبردی گئی ۔ اکثر اہل علم کا معاملہ متعہ کی حرمت کا ہے، یہی ثوری، ابن مبارک ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : عورتوں سے مخصوص مدّت کے لیے نکاح کرنے کونکاح متعہ کہتے ہیں، پھرعلی رضی اللہ عنہ نے خیبرکے موقع سے گھریلو گدھوں کی حرمت کے ساتھ متعہ کی حرمت کاذکرکیا ہے یہاں مقصد متعہ کی حرمت کی تاریخ نہیں بلکہ ان دوحرام چیزوں کا تذکرہ ہے متعہ کی اجازت واقعہ اوطاس میں دی گئی تھی۔
حرام ہوگیا، اوراب اس کی حرمت قیامت تک کے لیے ہے، ائمہ اسلام اورعلماء سلف کا یہی مذہب ہے۔
1122- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاْنَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُقْبَةَ أَخُو قَبِيصَةَ بْنِ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّمَا كَانَتِ الْمُتْعَةُ فِي أَوَّلِ الإِسْلاَمِ. كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْبَلْدَةَ لَيْسَ لَهُ بِهَا مَعْرِفَةٌ. فَيَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ بِقَدْرِ مَا يَرَى أَنَّهُ يُقِيمُ، فَتَحْفَظُ لَهُ مَتَاعَهُ وَتُصْلِحُ لَهُ شَيْئَهُ. حَتَّى إِذَا نَزَلَتِ الآيَةُ {إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَكُلُّ فَرْجٍ سِوَى هَذَيْنِ فَهُوَ حَرَامٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۴۴۹) (ضعیف)
(اس کے راوی ''موسیٰ بن عبیدہ''ضعیف ہیں ، نیز یہ شاذ بھی ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں: اس کی سند ضعیف ہے، اور یہ شاذ بھی ہے کیونکہ یہ متعہ کی اباحت کی علت کے خلاف ہے ، فتح الباری ۹/۱۴۸، حافظ ابن حجر بخاری کی اس روایت کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں جس میں ابوجمرہ کہتے ہیں:'' میں نے ابن عباس کو عورتوں سے متعہ کرنے کے سوال پر یہ سنا کہ آپ نے اس کی رخصت دی تو آپ کے غلام نے عرض کیا کہ یہ تو صرف سخت حالات اور عورتوں کی قلت کی بناپر تھایااس طرح کی بات کہی تو ابن عباس نے کہا : ہاں، ایسا ہی ہے '' بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عباس متعہ کی اباحت کے فتوے سے مطلقا رجوع ہوگئے تھے، اور اس کو مطلقا ناجائز کہتے تھے)۔
۱۱۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ متعہ ابتدائے اسلام میں تھا۔ آدمی جب کسی ایسے شہر میں جاتا جہاں اس کی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ اپنے قیام کی مدّت تک کے لیے کسی عورت سے شادی کرلیتا۔ وہ اس کے سامان کی حفاظت کرتی۔اس کی چیزیں درست کرکے رکھتی۔ یہاں تک کہ جب آیت کریمہ
{إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ} (لوگ اپنی شرمگاہوں کو صرف دوہی جگہ کھول سکتے ہیں، ایک اپنی بیویوں پر ، دوسرے اپنی ماتحت لونڈیوں پر ) نازل ہوئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ان دوکے علاوہ باقی تمام شرمگاہیں حرام ہوگئیں۔