43- بَاب مَا جَاءَ فِي الزَّوْجَيْنِ الْمُشْرِكَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا
۴۳-باب: اگر مشرک وکافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟
1142- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَهَنَّادٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي ابْنِ الرَّبِيعِ، بِمَهْرٍ جَدِيدٍ وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ. وَفِي الْحَدِيثِ الآخَرِ أَيْضًا مَقَالٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَسْلَمَتْ قَبْلَ زَوْجِهَا، ثُمَّ أَسْلَمَ زَوْجُهَا وَهِيَ فِي الْعِدَّةِ أَنَّ زَوْجَهَا أَحَقُّ بِهَا مَا كَانَتْ فِي الْعِدَّةِ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالأَوْزَاعِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: ق/النکاح ۶۰ (۲۰۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۷۲)، حم (۲/۲۰۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''حجاج بن ارطاۃ'' ایک تو ضعیف ہیں، دوسرے سند میں ان کے اور ''عمروبن شعیب'' کے درمیان انقطاع ہے، اس کے بالمقابل اگلی حدیث صحیح ہے)
۱۱۴۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی لڑکی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس نئے مہر اورنئے نکاح کے ذریعے لوٹادیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند میں کچھ کلام ہے اوردوسری حدیث میں بھی کلام ہے، ۲- اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ عورت جب شوہر سے پہلے اسلام قبول کرلے، پھر اس کا شوہر عدت کے دوران اسلام لے آئے تو اس کا شوہر ہی اس کا زیادہ حق دار ہے جب وہ عدت میں ہو۔ یہی مالک بن انس ، اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث ابن عباس کی حدیث کے جوآگے آرہی ہے مخالف ہے اس میں ہے کہ پہلے ہی نکاح پر آپ نے انہیں لوٹا دیا نیا نکاح نہیں پڑھایااوریہی صحیح ہے۔
1143- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي دَاوُدُ ابْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: رَدَّ النَّبِيُّ ﷺ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي ابْنِ الرَّبِيعِ، بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ، بِالنِّكَاحِ الأَوَّلِ. وَلَمْ يُحْدِثْ نِكَاحًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ، وَلَكِنْ لاَ نَعْرِفُ وَجْهَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَعَلَّهُ قَدْ جَاءَ هَذَا مِنْ قِبَلِ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: د/الطلاق ۲۴ (۲۲۴۰)، ق/النکاح ۶۰ (۲۰۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۷۳) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ داود کی روایت عکرمہ سے متکلم فیہ ہے)
۱۱۴۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس چھ سال بعد ۱؎ پہلے نکاح ہی پر واپس بھیج دیا اور پھر سے نکاح نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن ہم اس حدیث میں نقد کی وجہ نہیں جانتے ہیں۔ شاید یہ چیز داود بن حصین کی جانب سے ان کے حفظ کی طرف سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : احمد، ابوداوداورابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دوسال بعد انہیں واپس کیا، اور ایک روایت میں ہے تین سال کے بعد، حافظ ابن حجرنے ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ چھ سال سے مرادزینب کی ہجرت اور ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کاواقعہ ہے، اور دواورتین سے مراد آیت کریمہ
''لاهن حل لهم'' کے نازل ہونے اور ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کی مدت ہے جودوسال اورچندمہینوں پرمشتمل ۔
1144- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلاً جَاءَ مُسْلِمًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ، ثُمَّ جَاءَتِ امْرَأَتُهُ مُسْلِمَةً. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّهَا كَانَتْ أَسْلَمَتْ مَعِي فَرُدَّهَا عَلَيَّ. فَرَدَّهَا عَلَيْهِ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ، يَذْكُرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ. وَحَدِيثُ الْحَجَّاجِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي، بِمَهْرٍ جَدِيدٍ، وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ. قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَجْوَدُ إِسْنَادًا. وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ.
* تخريج: د/الطلاق ۲۳ (۲۲۳۸)، ق/النکاح ۶۰ (۲۰۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۶) (ضعیف)
(سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب پایاجاتاہے، الإرواء ۱۹۱۸، ضعیف سنن ابی داود ، ط۔ غراس رقم ۳۸۷، سنن ترمذی مطبوعہ مکتبۃ المعارف میں پہلی سند بروایت یوسف بن عیسیٰ پر صحیح لکھاہے ، اور دوسری سند سمعت عبد بن حميد پر ضعیف لکھا ہے )۔
۱۱۴۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک شخص نبی اکرمﷺ کے زمانے میں مسلمان ہوکر آیا پھر اس کی بیوی بھی مسلمان ہوکر آگئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اس نے میرے ساتھ اسلام قبول کیاتھا۔ توآپ اسے مجھے واپس دے دیجئے۔ توآپ نے اُسے اسی کو واپس دے دیا ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- حجاج نے یہ حدیث بطریق عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ عبداللہ بن عمروبن العاص روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص کے ہاں نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹایا،۳- یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے اچھی ہے لیکن عمل عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ کی حدیث پر ہے۔
وضاحت ۱؎ یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لے آئے تو وہ اس کے نکاح میں باقی رہے گی، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔