• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُسْلِمُ وَعِنْدَهُ أُخْتَانِ
۳۴-باب: جوشخص اسلام قبول کرے اور اس کی زوجیت میں دو بہنیں ہوں​


1129- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اخْتَرْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ".
* تخريج: د/الطلاق ۲۵ (۲۲۴۳)، ق/النکاح ۳۹ (۱۹۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۶۱) (حسن)
۱۱۲۹- فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اورمیرے نکاح میں دوبہنیں ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم ان دونوں میں سے جسے چاہو منتخب کرلو''۔


1130- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى ابْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ! أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ. قَالَ:"اخْتَرْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَأَبُو وَهْبٍ الْجَيْشَانِيُّ اسْمُهُ الدَّيْلَمُ بْنُ هَوْشَعَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن)
۱۱۳۰- فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اسلام قبول کیا ہے اور میرے نکاح میں دوبہنیں ہیں۔ آپ نے فرمایا:'' ان دونوں میں سے جسے چاہو ، منتخب کرلو''۔(اوردوسرے کوطلاق دے دو)
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي الْجَارِيَةَ وَهِيَ حَامِلٌ
۳۵-باب: آدمی کوئی لونڈی خریدے اور وہ حاملہ ہوتوکیا حکم ہے؟​


1131- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يَسْقِ مَائَهُ وَلَدَ غَيْرِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. لاَ يَرَوْنَ لِلرَّجُلِ إِذَا اشْتَرَى جَارِيَةً وَهِيَ حَامِلٌ، أَنْ يَطَأَهَا حَتَّى تَضَعَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: د/النکاح ۴۵ (۲۱۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۱۵)، حم (۴/۱۰۸)، دي/السیر ۳۷ (۲۵۲۰) (حسن)
۱۱۳۱- رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی (منی) کسی غیر کے بچے کو نہ پلائے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ اوربھی کئی طرق سے رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے، ۳- اہل علم کاعمل اسی پر ہے۔ یہ لوگ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں سمجھتے کہ وہ جب کوئی حاملہ لونڈی خریدے تو وہ اس سے صحبت کرے جب تک کہ اسے وضع حمل نہ ہو جائے، ۴- اس باب میں ابوالدرداء ، ابن عباس، عرباض بن ساریہ اور ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو لونڈی کسی اورسے حاملہ ہو پھروہ اسے خریدے تو اس سے صحبت نہ کرے جب تک کہ اسے وضع حمل نہ ہوجائے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَسْبِي الأَمَةَ وَلَهَا زَوْجٌ هَلْ يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَطَأَهَا
۳۶-باب: اگر کوئی شخص جہاد میں کسی عورت کو قید کرے اور وہ شوہر والی ہو تو کیا اس سے وطی کرنا جائز ہے​


1132- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ، وَلَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ. فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ، فَنَزَلَتْ: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ} [النساء: 24]. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَهَكَذَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُهُ صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ. وَرَوَى هَمَّامٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: م/الرضاع ۹ (۱۴۵۶)، والمؤلف في تفسیر النساء (۳۰۱۷)، وانظر الحدیث الآتي (تحفۃ الأشراف: ۴۰۷۷) (صحیح)
1132/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبدُ بْنُ حُمَيْدٍ. حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ.
* تخريج: م/النکاح (المصدر المذکور) د/النکاح ۴۵ (۲۱۵۵)، ن/النکاح ۵۹ (۳۳۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۳۴)، حم (۳/۸۴) والمؤلف في تفسیر النساء (۳۰۱۶) (صحیح)
۱۱۳۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے جنگ اوطاس کے دن کچھ عورتیں قید کیں۔ اوران کی قوم میں ان عورتوں کے شوہر موجود تھے، لوگوں نے اس کاذکررسول اللہ ﷺسے کیا تویہ آیت نازل ہوئی { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ} ( تم پر شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں الا یہ کہ وہ تمہاری ملکیت میں آگئی ہوں) (النساء: ۲۴)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسی طرح سے اسے ثوری نے بطریق: ''عثمان البتي، عن أبي الخليل، عن أبي سعيد'' روایت کیا ہے، ۳- ہمام نے اس حدیث کوبطریق: ''قتادة، عن صالح بن أبي الخليل، عن أبي علقمة، الهاشمي، عن أبي سعيد، عن النبي ﷺ '' روایت کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ مَهْرِ الْبَغِيِّ
۳۷-باب: زانیہ کی کمائی کی حرمت کا بیان​


1133-حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/البیوع ۱۱۳ (۲۲۳۷)، والاجارۃ ۲۰ (۲۲۸۲)، والطلاق ۵۱ (۵۳۴۶)، والطب ۴۶ (۵۷۶۱)، م/المساقاۃ ۹ (البیوع ۳۰)، (۱۵۶۷)، د/البیوع ۴۱ (۳۴۲۸)، و ۶۵ (۳۴۸۱)، ن/الصید والذبائح ۱۵ (۴۲۹۷)، البیوع ۹۱ (۴۶۷۰)، ق/التجارات ۹ (۲۱۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۱۰ و ط/البیوع ۲۹ (۶۸)، حم (۱/۱۱۸، ۱۲۰، ۱۴۰، ۱۴۱) ویأتي عند المؤلف في البیوع ۴۶ (۱۲۷۶)، والطب ۲۴ (۲۰۷۱) (صحیح)
۱۱۳۳- ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت ۱؎ ، زانیہ کی کمائی ۲؎ اور کاہن کی مٹھائی ۳ ؎ سے منع فرمایاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں رافع بن خدیج ، ابوجحیفہ، ابوہریرہ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کتا نجس ہے اس لیے اس سے حاصل ہو نے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتامنہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب سے کتے کی خریدوفروخت اوراس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، الایہ کہ کسی اشدضرورت مثلاً گھرجائداداورجانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔
وضاحت ۲؎ : چونکہ زناکبیرہ گناہ اورفحش امورمیں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہو نے والی اجرت بھی ناپاک اورحرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزادعورت ۔
وضاحت ۳؎ : علم غیب اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے، اس کا دعویٰ کرنا عظیم گناہ ہے، اسی طرح اس دعویٰ کی آڑمیں کاہن اورنجومی عوام سے باطل طریقے سے جومال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38-بَاب مَا جَاءَ أَنْ لاَ يَخْطُبَ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ
۳۸-باب: آدمی اپنے مسلمان بھائی کے شادی کے پیغام پر پیغام نہ دے​


1134- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَقُتَيْبَةُ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ (قَالَ قُتَيْبَةُ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ. وَقَالَ أَحْمَدُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ): "لاَ يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، وَلاَ يَخْطُبُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: إِنَّمَا مَعْنَى كَرَاهِيَةِ أَنْ يَخْطُبَ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، إِذَا خَطَبَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَرَضِيَتْ بِهِ، فَلَيْسَ لأَحَدٍ أَنْ يَخْطُبَ عَلَى خِطْبَتِهِ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ "لاَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ"، هَذَا عِنْدَنَا إِذَا خَطَبَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَرَضِيَتْ بِهِ وَرَكَنَتْ إِلَيْهِ، فَلَيْسَ لأَحَدٍ أَنْ يَخْطُبَ عَلَى خِطْبَتِهِ. فَأَمَّا قَبْلَ أَنْ يَعْلَمَ رِضَاهَا أَوْ رُكُونَهَا إِلَيْهِ، فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَخْطُبَهَا. وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ حَدِيثُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، حَيْثُ جَاءَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَتْ لَهُ أَنَّ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ وَمُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ خَطَبَاهَا. فَقَالَ: أَمَّا أَبُو جَهْمٍ، فَرَجُلٌ لاَيَرْفَعُ عَصَاهُ عَنِ النِّسَاءِ. وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لاَ مَالَ لَهُ. وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ. فَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا، وَاللهُ أَعْلَمُ، أَنَّ فَاطِمَةَ لَمْ تُخْبِرْهُ بِرِضَاهَا بِوَاحِدٍ مِنْهُمَا. وَلَوْ أَخْبَرَتْهُ، لَمْ يُشِرْ عَلَيْهَا بِغَيْرِ الَّذِي ذَكَرَتْ.
* تخريج: خ/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰)، م/النکاح ۶ (۱۴۱۳)، د/النکاح ۱۸ (۲۰۸۰)، ن/النکاح ۲۰ (۳۲۴۱)، ق/النکاح ۱۰ (۱۸۶۷)، والتجارات ۱۳ (۲۱۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۳)، حم (۲/۲۳۸) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الشروط ۸ (۲۷۲۳)، والنکاح ۴۵ (۵۱۴۴)، م/النکاح (المصدر المذکور)، ن/البیوع ۱۶ (۴۴۹۶)، و ۲۱ (۴۵۱۰)، حم (۲/۲۷۴، ۳۱۱، ۳۱۸، ۳۹۴، ۴۱۱، ۴۲۷، ۴۵۷، ۴۸۷، ۴۸۹، ۵۰۸، ۵۱۶، ۵۲۹)، دي/النکاح ۷ (۲۲۲۱)، (وانظر إیضا الارقام : ۱۱۹۰ و۱۲۲۲ و۱۳۰۴) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۳۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سمرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- مالک بن انس کہتے ہیں: آدمی کے اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے کسی عورت کو پیغام دیاہو اوروہ عورت اس سے راضی ہوگئی ہو، تو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے،۴- شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کہ آدمی اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب آدمی نے کسی عورت کو پیغام بھیجا ہو اور وہ عورت اس سے راضی ہوگئی ہواور اس کی طرف مائل ہوگئی ہو تو ایسی صورت میں کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ اس کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے ، لیکن اس کی رضامندی اور اس کا میلان معلوم ہونے سے پہلے اگر وہ اسے پیغام دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس کی دلیل فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر ذکر کیا کہ ابوجہم بن حذیفہ اور معاویہ بن ابی سفیان نے انہیں نکاح کا پیغام دیا ہے توآپ نے فرمایا:'' ابوجہم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنا ڈنڈا عورتوں سے نہیں اٹھاتے ( یعنی عورتوں کوبہت مارتے ہیں) رہے معاویہ تو وہ غریب آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے ، لہذا تم اسامہ بن زیدسے نکاح کرلو۔ہمارے نزدیک اس حدیث کا مفہوم (اور اللہ بہترجانتاہے) یہ ہے کہ فاطمہ نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی اپنی رضامندی کا اظہارنہیں کیاتھااور اگروہ اس کا اظہارکردیتیں تو اسے چھوڑکرآپ انہیں اسامہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کا مشورہ نہ دیتے ۔


1135- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوبَكْرِ ابْنُ أَبِي الْجَهْمِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ. فَحَدَّثَتْنَا أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلاَثًا، وَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا سُكْنَى وَلاَ نَفَقَةً. قَالَتْ: وَوَضَعَ لِي عَشَرَةَ أَقْفِزَةٍ عِنْدَ ابْنِ عَمٍّ لَهُ: خَمْسَةً شَعِيرًا وَخَمْسَةً بُرًّا. قَالَتْ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ. قَالَتْ: فَقَالَ: صَدَقَ، قَالَتْ: فَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ. ثُمَّ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ بَيْتَ أُمِّ شَرِيكٍ بَيْتٌ يَغْشَاهُ الْمُهَاجِرُونَ، وَلَكِن اعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ. فَعَسَى أَنْ تُلْقِي ثِيَابَكِ وَلاَ يَرَاكِ. فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُكِ فَجَاءَ أَحَدٌ يَخْطُبُكِ، فَآذِنِينِي". فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي، خَطَبَنِي أَبُو جَهْمٍ وَمُعَاوِيَةُ. قَالَتْ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ. فَقَالَ: "أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ لاَ مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَرَجُلٌ شَدِيدٌ عَلَى النِّسَاءِ". قَالَتْ: فَخَطَبَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَتَزَوَّجَنِي، فَبَارَكَ اللهُ لِي فِي أُسَامَةَ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَزَادَ فِيهِ: فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ: "انْكِحِي أُسَامَةَ".
* تخريج: م/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، ن/الطلاق ۱۵ (۳۴۴۷)، و ۷۲ (۳۵۸۱)، ق/الطلاق ۱۰ (۲۰۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳۷) (صحیح)
و أخرجہ کل من : م/النکاح (المصدر المذکور)، د/الطلاق ۳۹ (۲۲۸۴)، ن/النکاح ۸ (۳۲۲۴)، و۲۱ (۳۲۴۶)، والطلاق ۴ (۲۰۲۴)، و۹ ۲۰۳۲)، ط/الطلاق ۲۳ (۶۷)، حم (۶/۴۱۴، ۴۱۵) دي/النکاح ۷ (۲۲۲۳)، والطلاق ۱۰ (۲۳۲۰) من غیر ہذا الوجہ وانظر ما یأتي عند المؤلف برقم: ۱۱۸۰
1135/م- حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ. حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بِهَذَا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۱۳۵- ابوبکر بن ابی جہم کہتے ہیں: میں اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن دونوں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس آئے انہوں نے ہم سے بیان کیاکہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دی اورنہ ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا اور نہ کھانے پینے کا۔ اور انہوں نے میرے لیے دس بوری غلّہ، پانچ بوری جو کے اور پانچ گیہوں کے اپنے چچازادبھائی کے پاس رکھ دیں، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر آپ سے اس کا ذکر کیا ،توآپ نے فرمایا:'' انہوں نے ٹھیک کیا، اور مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ام شریک کے گھر میں عدت گزاروں، پھر مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ام شریک کے گھر مہاجرین آتے جاتے رہتے ہیں۔ تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو۔ وہاں یہ بھی سہولت رہے گی کہ تم (سروغیرہ سے)کپڑے اتاروگی تو تمہیں وہ نہیں دیکھ پائیں گے، پھر جب تمہاری عدت پوری ہوجائے اور کوئی تمہارے پاس پیغام نکاح لے کر آئے تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میری عدت پوری ہوگئی تو ابوجہم اور معاویہ نے مجھے پیغام بھیجا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پا س آکرآپ سے اس کا ذکر کیاتو آپ نے فرمایا:'' معاویہ توایسے آدمی ہیں کہ ان کے پاس مال نہیں، اور ابوجہم عورتوں کے لیے سخت واقع ہوئے ہیں۔پھر مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیجا اور مجھ سے شادی کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے اسامہ میں مجھے برکت عطافرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسے سفیان ثوری نے بھی ابوبکر بن ابی جہم سے اسی حدیث کی طرح روایت کیا ہے، اور اس میں انہوں نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ مجھ سے نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''تم اسامہ سے نکاح کرلو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39- بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَزْلِ
۳۹-باب: عزل کا بیان​


1136- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّا كُنَّا نَعْزِلُ. فَزَعَمَتِ الْيَهُودُ أَنَّهَا الْمَوْئُودَةُ الصُّغْرَى. فَقَالَ: "كَذَبَتِ الْيَهُودُ، إِنَّ اللهَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَهُ، فَلَمْ يَمْنَعْهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَالْبَرَائِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: ن/عشرۃ النساء (في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۲۵۸۷) (صحیح)
۱۱۳۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ عزل ۱؎ کرتے تھے، تو یہودیوں نے کہا: قبرمیں زندہ دفن کرنے کی یہ ایک چھوٹی صورت ہے۔ آپ نے فرمایا:'' یہودیوں نے جھوٹ کہا۔ اللہ جب اسے پیداکرنا چاہے گا تو اسے کوئی روک نہیں سکے گا '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عمر، براء اور ابوہریرہ، ابوسعیدخدری سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ عزل یہ ہے کہ جماع کے وقت انزال قریب ہوتو آدمی اپناعضوتناسل شرمگاہ سے باہر نکال کر منی باہر نکال دے تاکہ عورت حاملہ نہ ہو۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث میں صرف اس بات کا بیان ہے کہ یہودیوں کا یہ خیال غلط ہے کیوں کہ عزل کے باوجود جس نفس کی اس مرد و عورت سے تخلیق اللہ کو مقصود ہوتی ہے اس کی تخلیق ہوہی جاتی ہے، جیسا کہ ایک صحابی نے لونڈی سے عزل کیااس کے باوجود حمل ٹھہر گیا ۔ اس لیے یہ ''مودودۃ صغریٰ'' نہیں ہے۔


1137- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، قَالَ: كُنَّا نَعْزِلُ، وَالْقُرْآنُ يَنْزِلُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، فِي الْعَزْلِ. و قَالَ مَالِكُ ابْنُ أَنَسٍ: تُسْتَأْمَرُ الْحُرَّةُ فِي الْعَزْلِ، وَلاَ تُسْتَأْمَرُ الأَمَةُ.
* تخريج: خ/النکاح ۹۶ (۵۲۰۸، ۵۲۰۹)، م/النکاح ۲۲ (۱۴۴۰)، ق/النکاح ۳۰ (۱۹۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۶۸) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/النکاح ۹۶ (۵۲۰۷)، م/النکاح (المصدر المذکور) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۳۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم عزل کرتے تھے اور قرآن اتررہا تھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث اوربھی کئی طرق سے ان سے مروی ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کی اجازت دی ہے۔ مالک بن انس کا قول ہے کہ آزاد عورت سے عزل کی اجازت لی جائے گی اور لونڈی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اگر عزل منع ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کی ممانعت نازل کردیتا، البتہ آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل درست نہیں ہے، جیسا کہ امام مالک نے کہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْعَزْلِ
۴۰-باب: عزل کی کراہت کا بیان​


1138- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَقُتَيْبَةُ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ قَزَعَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: ذُكِرَ الْعَزْلُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: "لِمَ يَفْعَلُ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: زَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي حَدِيثِهِ: وَلَمْ يَقُلْ لاَ يَفْعَلْ ذَاكَ أَحَدُكُمْ. قَالاَ فِي حَدِيثِهِمَا: فَإِنَّهَا لَيْسَتْ نَفْسٌ مَخْلُوقَةٌ إِلاَّ اللهُ خَالِقُهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. وَقَدْ كَرِهَ الْعَزْلَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ.
* تخريج: خ/التوحید ۱۸ (تعلیقا عقب الحدیث رقم: ۷۴۰۹)، م/النکاح ۲۲ (۱۴۳۸)، د/النکاح ۴۹ (۲۱۷۰) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/البیوع ۱۰۹ (۲۲۲۹)، و العتق ۱۳ (۲۵۴۲)، والمغازي ۳۲ (۴۱۳۸)، والنکاح ۹۶ (۵۲۱۰)، والقدر ۶ (۶۶۰۳)، والتوحید ۱۸ (۷۴۰۹)، م/النکاح (المصدر المذکور)، ط/الطلاق ۳۴ (۹۵)، حم (۳/۲۲، ۲۶، ۴۷، ۴۹، ۵۱، ۵۳، ۵۹، ۸۶)، دي/النکاح ۳۶ (۲۲۶۹) من غیر ہذا الوجہ وبعضہم بتغیر یسیر في السیاق۔
۱۱۳۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عزل کا ذکر کیاگیا تو آپ نے فرمایا:''تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتاہے؟ ۔ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے: '' اور آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے''، اور ان دونوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا ہے کہ''جس جان کوبھی اللہ کوپیداکرناہے وہ اسے پیداکرکے ہی رہے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ اس کے علاوہ اوربھی طرق سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،۳- ا س باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کو مکروہ قراردیاہے۔
وضاحت ۱؎ : عزل کے جواز اور عدم جواز کی بابت حتمی بات یہ ہے کہ یہ ہے تو جائز مگر نامناسب کام ہے، خصوصا جب عزل کے باوجود کبھی نطفہ رحم کے اندر چلاہی جاتاہے، اور حمل ٹھہر جاتا ہے۔ تو کیوں خواہ مخواہ یہ عمل کیا جائے۔ واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِسْمَةِ لِلْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ
۴۱-باب: کنواری اورغیرکنواری بیوی کے درمیان باری تقسیم کرنے کا بیان​


1139- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَوْ شِئْتُ أَنْ أَقُولَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ. وَلَكِنَّهُ قَالَ: "السُّنَّةُ، إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْبِكْرَ عَلَى امْرَأَتِهِ، أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا. وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَى امْرَأَتِهِ، أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلاَثًا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَفَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسٍ. وَلَمْ يَرْفَعْهُ بَعْضُهُمْ. قَالَ: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالُوا: إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَأَةً بِكْرًا عَلَى امْرَأَتِهِ، أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا، ثُمَّ قَسَمَ بَيْنَهُمَا بَعْدُ، بِالْعَدْلِ، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلاَثًا. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ: إِذَا تَزَوَّجَ الْبِكْرَ عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلاَثًا. وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ أَقَامَ عِنْدَهَا لَيْلَتَيْنِ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: خ/النکاح ۱۰۰ (۵۲۱۳)، و۱۰۱ (۵۲۱۴)، م/الرضاع ۱۲ (۱۴۶۱) د/النکاح ۳۵ (۲۱۲۴)، ق/النکاح ۲۶ (۱۹۱۶)، دي/النکاح ۲۷ (۲۲۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۴) (صحیح)
۱۱۳۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگرمیں چاہوں توکہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا:'' سنت ۱؎ یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہوتے ہوے کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات رات ٹھہرے ، اورجب غیرکنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین رات ٹھہرے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے محمد بن اسحاق نے مرفوع کیا ہے، انہوں نے بسند ایوب عن ابی قلابہ عن انس روایت کی ہے اور بعض نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،۳- اس باب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے، ۴- بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی اور کنواری سے شادی کرے،تو اس کے پاس سات رات ٹھہرے ، پھراس کے بعد ان کے درمیان باری تقسیم کرے ، اورپہلی بیوی کے ہوتے ہوئے جب کسی غیرکنواری(بیوہ یامطلقہ) سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات ٹھہرے ۔ مالک ، شافعی ، احمداور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۵- تابعین میں سے بعض اہل علم نے کہاکہ جب کوئی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو وہ اس کے پاس تین رات ٹھہرے اور جب غیرکنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں دو رات ٹھہرے ۔ لیکن پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : صحابی کا ''سنت یہ ہے'' کہنا بھی حدیث کے مرفوع ہونے کا اشارہ ہے، تمام ائمہ کا یہی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الضَّرَائِرِ
۴۲- باب: سوکنوں کے درمیان باری کی تقسیم میں برابر ی کا بیان​


1140- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ فَيَعْدِلُ وَيَقُولُ: "اللّهُمَّ هَذِهِ قِسْمَتِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلاَ تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلاَأَمْلِكُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْسِمُ. وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، مُرْسَلاً أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْسِمُ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ. وَمَعْنَى قَوْلِهِ "لاَ تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلاَ أَمْلِكُ" إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ الْحُبَّ وَالْمَوَدَّةَ كَذَا فَسَّرَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: د/النکاح ۳۹ (۲۱۳۴)، ن/عشرۃ النساء ۲ (۳۹۵۳)، ق/النکاح ۴۷ (۱۹۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۹)، دي/النکاح ۲۵ (۲۲۵۳) (ضعیف)
(حماد بن زید اوردیگر زیادہ ثقہ رواۃ نے اس کو ایوب سے ''عن أبي قلابۃ عن النبي ﷺ'' مرسلاً بیان کیا ہے ، لیکن حدیث کا پہلا جزء اللهم هذا قسمي فيما أملك حسن ہے ، تراجع الالبانی ۳۴۶)
۱۱۴۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے : ''اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتاہوں ، لیکن جس کی قدرت تو رکھتا ہے ، میں نہیں رکھتا، اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بسند حماد بن سلمہ عن ایوب عن ابی قلابہ عن عبداللہ بن یزیدعن عائشہ روایت کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ باری تقسیم کرتے تھے جب کہ اسے حماد بن زید اوردوسرے کئی ثقات نے بسند ایوب عن ابی قلابہ مرسلاً روایت کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ باری تقسیم کرتے تھے اور یہ حماد بن سلمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور''جس کی قدرت تورکھتاہے میں نہیں رکھتا''سے مرادمحبت ومؤدّۃہے، اسی طرح بعض اہل علم نے اس کی تفسیرکی ہے۔


1141- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ، فَلَمْ يَعْدِلْ بَيْنَهُمَا، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ سَاقِطٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا أَسْنَدَ هَذَا الْحَدِيثَ هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى عَنْ قَتَادَةَ. وَرَوَاهُ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: كَانَ يُقَالُ: وَلاَ نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ هَمَّامٍ. وَهَمَّامٌ ثِقَةٌ حَافِظٌ.
* تخريج: د/النکاح ۳۹ (۲۱۳۳)، ن/عشرۃ النساء ۲ (۳۹۵۲)، ق/النکاح ۴۷ (۱۹۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۳)، حم (۲/۳۴۷، ۳۷۱)، دي/النکاح ۲۴ (۲۲۵۲) (صحیح)
۱۱۴۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جب کسی شخص کے پاس دوبیویاں ہوں اور ان کے درمیان انصاف سے کام نہ لے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکاہوا ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے مُسنداً ۱؎ روایت کیا ہے، ۲- اوراسے ہشام دستوائی نے بھی قتادہ سے روایت کیا ہے لیکن اس روایت میں ہے کہ ایسا کہاجاتاتھا...۳- ہم اس حدیث کو صرف ہما م ہی کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور ہمام ثقہ حافظ ہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی رسول اللہ ﷺ کے اپنے قول سے، نہ کہ عام مقولہ کے طور پر، جیسے''کہاجاتاتھا'' جیسا کہ ہشام دستوائی کی روایت میں ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس لیے ان کی روایت مقبول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب مَا جَاءَ فِي الزَّوْجَيْنِ الْمُشْرِكَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا
۴۳-باب: اگر مشرک وکافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟​


1142- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَهَنَّادٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي ابْنِ الرَّبِيعِ، بِمَهْرٍ جَدِيدٍ وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ. وَفِي الْحَدِيثِ الآخَرِ أَيْضًا مَقَالٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَسْلَمَتْ قَبْلَ زَوْجِهَا، ثُمَّ أَسْلَمَ زَوْجُهَا وَهِيَ فِي الْعِدَّةِ أَنَّ زَوْجَهَا أَحَقُّ بِهَا مَا كَانَتْ فِي الْعِدَّةِ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالأَوْزَاعِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: ق/النکاح ۶۰ (۲۰۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۷۲)، حم (۲/۲۰۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''حجاج بن ارطاۃ'' ایک تو ضعیف ہیں، دوسرے سند میں ان کے اور ''عمروبن شعیب'' کے درمیان انقطاع ہے، اس کے بالمقابل اگلی حدیث صحیح ہے)
۱۱۴۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی لڑکی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس نئے مہر اورنئے نکاح کے ذریعے لوٹادیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند میں کچھ کلام ہے اوردوسری حدیث میں بھی کلام ہے، ۲- اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ عورت جب شوہر سے پہلے اسلام قبول کرلے، پھر اس کا شوہر عدت کے دوران اسلام لے آئے تو اس کا شوہر ہی اس کا زیادہ حق دار ہے جب وہ عدت میں ہو۔ یہی مالک بن انس ، اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث ابن عباس کی حدیث کے جوآگے آرہی ہے مخالف ہے اس میں ہے کہ پہلے ہی نکاح پر آپ نے انہیں لوٹا دیا نیا نکاح نہیں پڑھایااوریہی صحیح ہے۔


1143- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي دَاوُدُ ابْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: رَدَّ النَّبِيُّ ﷺ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي ابْنِ الرَّبِيعِ، بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ، بِالنِّكَاحِ الأَوَّلِ. وَلَمْ يُحْدِثْ نِكَاحًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ، وَلَكِنْ لاَ نَعْرِفُ وَجْهَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَعَلَّهُ قَدْ جَاءَ هَذَا مِنْ قِبَلِ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: د/الطلاق ۲۴ (۲۲۴۰)، ق/النکاح ۶۰ (۲۰۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۷۳) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ داود کی روایت عکرمہ سے متکلم فیہ ہے)
۱۱۴۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس چھ سال بعد ۱؎ پہلے نکاح ہی پر واپس بھیج دیا اور پھر سے نکاح نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن ہم اس حدیث میں نقد کی وجہ نہیں جانتے ہیں۔ شاید یہ چیز داود بن حصین کی جانب سے ان کے حفظ کی طرف سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : احمد، ابوداوداورابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دوسال بعد انہیں واپس کیا، اور ایک روایت میں ہے تین سال کے بعد، حافظ ابن حجرنے ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ چھ سال سے مرادزینب کی ہجرت اور ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کاواقعہ ہے، اور دواورتین سے مراد آیت کریمہ ''لاهن حل لهم'' کے نازل ہونے اور ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کی مدت ہے جودوسال اورچندمہینوں پرمشتمل ۔


1144- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلاً جَاءَ مُسْلِمًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ، ثُمَّ جَاءَتِ امْرَأَتُهُ مُسْلِمَةً. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّهَا كَانَتْ أَسْلَمَتْ مَعِي فَرُدَّهَا عَلَيَّ. فَرَدَّهَا عَلَيْهِ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ، يَذْكُرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ. وَحَدِيثُ الْحَجَّاجِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي، بِمَهْرٍ جَدِيدٍ، وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ. قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَجْوَدُ إِسْنَادًا. وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ.
* تخريج: د/الطلاق ۲۳ (۲۲۳۸)، ق/النکاح ۶۰ (۲۰۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۶) (ضعیف)
(سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب پایاجاتاہے، الإرواء ۱۹۱۸، ضعیف سنن ابی داود ، ط۔ غراس رقم ۳۸۷، سنن ترمذی مطبوعہ مکتبۃ المعارف میں پہلی سند بروایت یوسف بن عیسیٰ پر صحیح لکھاہے ، اور دوسری سند سمعت عبد بن حميد پر ضعیف لکھا ہے )۔
۱۱۴۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک شخص نبی اکرمﷺ کے زمانے میں مسلمان ہوکر آیا پھر اس کی بیوی بھی مسلمان ہوکر آگئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اس نے میرے ساتھ اسلام قبول کیاتھا۔ توآپ اسے مجھے واپس دے دیجئے۔ توآپ نے اُسے اسی کو واپس دے دیا ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- حجاج نے یہ حدیث بطریق عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ عبداللہ بن عمروبن العاص روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص کے ہاں نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹایا،۳- یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے اچھی ہے لیکن عمل عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ کی حدیث پر ہے۔
وضاحت ۱؎ یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لے آئے تو وہ اس کے نکاح میں باقی رہے گی، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔
 
Top