• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
49- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ
۴۹-باب: کتے اور بلی کی قیمت کی کراہت کا بیان​


1279- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالاَ: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ. وَلاَ يَصِحُّ فِي ثَمَنِ السِّنَّوْرِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ، عَنْ جَابِرٍ. وَاضْطَرَبُوا عَلَى الأَعْمَشِ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ ثَمَنَ الْهِرِّ. وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُهُمْ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَرَوَى ابْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: د/البیوع ۶۴ (۳۴۷۹) (تحفۃ الأشراف: ۲۳۰۹) و انظر أیضا ما عند م/المساقاۃ ۹ (۱۵۶۹)، ون/الذبائح ۶۱ (۴۳۰۰)، وق/التجارات ۹ (۲۱۶۱)، وحم (۳/۳۳۹) (صحیح)
۱۲۷۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے۔ بلی کی قیمت کے بارے میں یہ صحیح نہیں ہے،۲- یہ حدیث اعمش سے مروی ہے انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور اس نے جابر سے ، یہ لوگ اعمش سے اس حدیث کی روایت میں اضطراب کا شکارہیں،۳- اورابن فضل نے اس سندکے علاوہ دوسری سندسے بطریق: ''الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے،۴- اہل علم کی ایک جماعت نے بلی کی قیمت کو ناجائزکہاہے،۵- اور بعض لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، یہی احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔


1280- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ زَيْدٍ الصَّنْعَانِيُّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺ عَنْ أَكْلِ الْهِرِّ وَثَمَنِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَعُمَرُ بْنُ زَيْدٍ، لاَ نَعْرِفُ كَبِيرَ أَحَدٍ رَوَى عَنْهُ، غَيْرَ عَبْدِالرَّزَّاقِ.
* تخريج: د/البیوع ۶۴ (۳۴۸۰)، ق/الصید ۲۰ (۳۲۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۹۴)، وحم (۳/۲۹۷) (ضعیف)
(سند میں عمربن زید صنعانی ضعیف ہیں)
۱۲۸۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اورہم عبدالرزاق کے علاوہ کسی بڑے محدث کونہیں جانتے جس نے عمروبن زیدسے روایت کی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50- بَابٌ
۵۰-باب: کتے کی قیمت کھانے سے متعلق ایک اور باب​


1281- أَخْبَرَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، إِلاَّ كَلْبَ الصَّيْدِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ يَصِحُّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو الْمُهَزِّمِ، اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ. وَتَكَلَّمَ فِيهِ شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ. وَضَعَّفَهُ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوُ هَذَا. وَلاَ يَصِحُّ إِسْنَادُهُ أَيْضًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۳۴) (حسن)
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ اس کے راوی ''ابوالمہزم'' ضعیف ہیں)
۱۲۸۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ( رسول اللہ ﷺنے ) کتے کی قیمت سے منع فرمایاہے سوائے شکاری کتے کی قیمت کے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس طریق سے صحیح نہیں ہے، ۲- ابومہزم کانام یزید بن سفیان ہے، ان کے سلسلہ میں شعبہ بن حجاج نے کلام کیا ہے اور ان کی تضعیف کی ہے،۳- اورجابر سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،اور ا س کی سند بھی صحیح نہیں ہے، دیکھیے الصحیحۃ رقم: ۲۹۷۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
51- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الْمُغَنِّيَاتِ
۵۱-باب: گانے والی لونڈی کی بیع کی حرمت کا بیان​


1282- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَخْبَرَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: "لاَ تَبِيعُوا الْقَيْنَاتِ وَلاَتَشْتَرُوهُنَّ، وَلاَ تُعَلِّمُوهُنَّ، وَلاَ خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيهِنَّ، وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ"، فِي مِثْلِ هَذَا، أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ {وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ} [لقمان:6] إِلَى آخِرِ الآيَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ وَضَعَّفَهُ. وَهُوَ شَامِيٌّ.
* تخريج: ق/التجارات ۱۱ (۲۱۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۹۸) (ضعیف)
(سند میں عبیداللہ بن زحر اور علی بن یزید بن جدعان دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن ابن ماجہ کی سند حسن درجے کی ہے)
۱۲۸۲- ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گانے والی لونڈیوں کونہ بیچواورنہ انہیں خریدو، اور نہ انہیں (گانا) سکھاؤ ۱؎ ،ان کی تجارت میں خیر وبرکت نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔اور اسی جیسی چیزوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے:{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ} (اوربعض لوگ ایسے ہیں جو لغوباتوں کو خریدلیتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں)(لقمان: ۶)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوامامہ کی حدیث کو ہم اس طرح صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،اوربعض اہل علم نے علی بن یزید کے بارے میں کلام کیا ہے اور ان کی تضعیف کی ہے۔اوریہ شام کے رہنے والے ہیں،۲- اس باب میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ یہ فسق اورگناہ کے کاموں کی طرف لے جاتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
52- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْفَرْقِ بَيْنَ الأَخَوَيْنِ أَوْ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا فِي الْبَيْعِ
۵۲-باب : غلاموں کی بیع میں دوبھائیوں یا ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کی حرام ہے​


1283- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي حُيَيُّ ابْنُ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَانِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا، فَرَّقَ اللهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وأعادہ في السیر ۱۷ (۱۵۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۶۸)، وانظر حم (۵/۴۱۳، ۴۱۴) (حسن)
۱۲۸۳- ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا:'' جو شخص ماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اوراس کے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث ماں اوربچے کے درمیان جدائی ڈالنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے، خواہ یہ بیع کے ذریعہ ہو یاہبہ کے ذریعہ یا دھوکہ دھڑی کے ذریعہ، اوروالدہ کالفظ مطلق ہے اس میں والدبھی شامل ہیں۔


1284- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: وَهَبَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ غُلاَمَيْنِ أَخَوَيْنِ، فَبِعْتُ أَحَدَهُمَا، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَا عَلِيُّ! مَا فَعَلَ غُلاَمُكَ؟" فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: "رُدَّهُ رُدَّهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، التَّفْرِيقَ بَيْنَ السَّبْيِ فِي الْبَيْعِ. وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُوَلَّدَاتِ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي أَرْضِ الإِسْلاَمِ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ. وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فِي الْبَيْعِ. فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ؟ فَقَالَ: إِنِّي قَدْ اسْتَأْذَنْتُهَا بِذَلِكَ. فَرَضِيَتْ.
* تخريج: ق/التجارات ۴۶ (۲۲۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۸۵)، وحم (۱/۱۰۲) (ضعیف)
(میمون کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے ، لیکن پچھلی حدیث اور دیگر شواہد سے یہ مسئلہ ثابت ہے)
۱۲۸۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھے دوغلام دیئے جو آپس میں بھائی تھے، میں نے ان میں سے ایک کو بیچ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: ''علی! تمہارا غلام کیا ہوا؟'' میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے ایک کوبیچ دیا ہے) تو آپ نے فرمایا:'' اُسے واپس لوٹالو،اُسے واپس لوٹالو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم بیچتے وقت (رشتہ دار) قیدیوں کے درمیان جدائی ڈالنے کوناجائزکہا ہے،۳- اوربعض اہل علم نے ان لڑکوں کے درمیان جدائی کو جائزقراردیا ہے جو سرزمین اسلام میں پیداہوئے ہیں۔ پہلاقول ہی زیادہ صحیح ہے، ۴- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بیچتے وقت ماں اور اس کے لڑکے کے درمیان تفریق ،چنانچہ ان پر یہ اعتراض کیاگیا تو انہوں نے کہا: میں نے اس کی ماں سے اس کی اجازت مانگی تو وہ اس پر راضی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
53- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَشْتَرِي الْعَبْدَ وَيَسْتَغِلُّهُ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا
۵۳-باب: غلام خریدے اور اس سے مزدوری کرائے پھر اس میں کوئی عیب پاجائے توکیا کرے؟​


1285- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ خُفَافٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَضَى أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: د/البیوع ۷۳ (۳۵۰۸)، ن/البیوع ۱۵ (۴۴۹۵)، ق/التجارات ۴۳ (۲۲۴۲ و۲۲۴۳)، التحفۃ: ۱۶۵۵)، وحم (۶/۴۹، ۲۰۸، ۲۳۷) (حسن)
۱۲۸۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ فائدے کا ا ستحقاق ضامن ہو نے کی بنیاد پر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ اوربھی سندوں سے مروی ہے، ۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔


1286- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَى أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ. وَرَوَاهُ جَرِيرٌ عَنْ هِشَامٍ أَيْضًا. وَحَدِيثُ جَرِيرٍ، يُقَالُ: تَدْلِيسٌ دَلَّسَ فِيهِ جَرِيرٌ، لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ. وَتَفْسِيرُ الْخَرَاجِ بِالضَّمَانِ، هُوَ الرَّجُلُ يَشْتَرِي الْعَبْدَ فَيَسْتَغِلُّهُ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا فَيَرُدُّهُ عَلَى الْبَائِعِ. فَالْغَلَّةُ لِلْمُشْتَرِي. لأَنَّ الْعَبْدَ لَوْ هَلَكَ، هَلَكَ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِي. وَنَحْوُ هَذَا مِنْ الْمَسَائِلِ يَكُونُ فِيهِ الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: اسْتَغْرَبَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ هَذَا الْحَدِيثَ، مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ. قُلْتُ: تَرَاهُ تَدْلِيسًا؟ قَالَ: لاَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۲۶) (حسن)
۱۲۸۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرمﷺنے فیصلہ کیا کہ فائدہ کا استحقاق ضامن ہو نے کی بنیاد پر ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲- امام ترمذی کہتے ہیں: محمدبن اسماعیل نے اس حدیث کو عمربن علی کی روایت سے غریب جاناہے۔ میں نے پوچھا: کیاآپ کی نظر میں اس میں تدلیس ہے؟ انہوں نے کہا :نہیں، ۳- مسلم بن خالد زنجی نے اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے۔ ۴-جریر نے بھی اسے ہشام سے روایت کیا ہے، ۵- اورکہاجاتاہے کہ جریر کی حدیث میں تدلیس ہے، اس میں جریر نے تدلیس کی ہے، انہوں نے اسے ہشام بن عروہ سے نہیں سنا ہے، ۶- '' الخراج بالضمان'' کی تفسیر یہ ہے کہ آدمی غلام خریدے اوراس سے مزدوری کرائے پھر اس میں کوئی عیب دیکھے اور اس کو بیچنے والے کے پاس لوٹا دے، تو غلام کی جو مزدوری اور فائدہ ہے وہ خرید نے والے کا ہوگا۔ اس لیے کہ اگر غلام ہلاک ہوجاتا تو مشتری (خریدار) کا مال ہلاک ہوتا۔ یہ اور اس طرح کے مسائل میں فائدہ کااستحقاق ضامن ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
54- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي أَكْلِ الثَّمَرَةِ لِلْمَارِّ بِهَا
۵۴- باب: راہی کے لیے راستہ کے درخت کا پھل کھانے کی رخصت کا بیان​


1287- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ دَخَلَ حَائِطًا فَلْيَأْكُلْ، وَلاَ يَتَّخِذْ خُبْنَةً". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبَّادِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، وَرَافِعِ بْنِ عَمْرٍو، وَعُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَلِيمِ. وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لاِبْنِ السَّبِيلِ فِي أَكْلِ الثِّمَارِ. وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ إِلاَّ بِالثَّمَنِ.
* تخريج: ق/التجارات ۶۷ (۲۳۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۲۲) (صحیح)
۱۲۸۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جوشخص کسی باغ میں داخل ہو تو (پھل) کھائے ، کپڑوں میں باندھ کر نہ لے جائے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث غریب ہے۔ ہم اسے اس طریق سے صرف یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲- اس باب مین عبداللہ بن عمرو ، عباد بن شرحبیل، رافع بن عمرو،عمیر مولی آبی اللحم اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم نے راہ گیر کے لیے پھل کھانے کی رخصت دی ہے۔ اور بعض نے اسے ناجائزکہا ہے، الا یہ کہ قیمت اداکرکے ہو۔


1288- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ صَالِحِ ابْنِ أَبِي جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَرْمِي نَخْلَ الأَنْصَارِ، فَأَخَذُونِي فَذَهَبُوا بِي إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "يَا رَافِعُ! لِمَ تَرْمِي نَخْلَهُمْ؟" قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! الْجُوعُ، قَالَ: "لاَ تَرْمِ، وَكُلْ مَا وَقَعَ أَشْبَعَكَ اللهُ وَأَرْوَاكَ".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الجہاد ۹۴ (۲۶۲۲)، ق/التجارات ۶۷ (۲۲۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۵) (ضعیف)
( سند میں ''صالح'' اوران کے باپ ''ابوجبیر''دونوں مجہول ہیں، اور ابوداود وابن ماجہ کی سند میں ''ابن ابی الحکم '' مجہول ہیں نیز ان کی دادی مبہم ہیں)
۱۲۸۸- رافع بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : میں انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھرمارتاتھا، ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور نبی اکرمﷺکے پاس لے گئے آپ نے پوچھا:''رافع !تم ان کے کھجورکے درختوں پر پتھرکیوں مارتے ہو؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! بھوک کی وجہ سے، آپ نے فرمایا: ''پتھرمت مارو، جو خود بخود گرجائے اسے کھاؤ اللہ تمہیں آسودہ اور سیراب کرے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


1289- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ. فَقَالَ: "مَنْ أَصَابَ مِنْهُ مِنْ ذِي حَاجَةٍ، غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً، فَلاَ شَيْئَ عَلَيْهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: د/اللقطۃ ح رقم ۱۰ (۱۷۱۰) و الحدود ۱۲ (۴۳۹۰)، ن/قطع السارق ۱۱ (۴۹۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۹۸) (حسن)
۱۲۸۹- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺسے لٹکے ہوئے پھل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:'' جو ضرورت منداس میں سے ( ضرورت کے مطابق) لے لے اور کپڑے میں جمع کرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
55- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الثُّنْيَا
۵۵-باب: بیع میں استثناء کرنے کی ممانعت کا بیان​


1290- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ: أَخْبَرَنِي سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُخَابَرَةِ، وَالثُّنْيَا إِلاَّ أَنْ تُعْلَمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ.
* تخريج: خ/الشرب والمساقاۃ ۱۷ (۲۳۸۱)، م/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶)، د/البیوع ۳۴ (۳۴۰۵)، ن/الأیمان (والمزارعۃ)، ۴۵(۳۹۱۰)، والبیوع ۷۴ (۴۶۴۷)، ق/التجارات ۵۴ (۲۲۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۹۵)، وحم (۳/۳۱۳، ۳۵۶، ۳۶۰، ۳۶۴، ۳۹۱، ۳۹۲)، وانظر ما یأتي برقم ۱۳۱۳ (صحیح)
۱۲۹۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ، مزابنہ ۱؎ مخابرہ ۲؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کومستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ۳؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے بروایت یونس بن عبیدجسے یونس نے عطاء سے اورعطاء نے جابر سے روایت کی ہے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : محاقلہ اورمزابنہ کی تفسیرگزرچکی ہے دیکھئے حدیث نمبر(۱۲۲۴)۔
وضاحت ۲؎ : مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یاربع پیداوارپر زمین بٹائی پر لینا، یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں، بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوارمزارع کے لیے اورکسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کرلیتے تھے، ایساکرنے سے منع کیاگیاہے، کیونکہ بسااوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اورمالک والاتباہ ہوجاتاہے ،اورکبھی اس کے برعکس ہوجاتاہے، اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتاہے ،اس لیے ایساکرنے سے منع کیا گیاہے۔
وضاحت ۳؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپناباغ بیچتاہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیو نکہ مستثنیٰ کئے ہو ئے درخت مجہول ہیں۔اوراگرتعیین کردے توجائز ہے جیساکہ اوپرحدیث میں اس کی اجازت موجودہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الطَّعَامِ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ
۵۶-باب: قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا ناجائزہے​


1291- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلاَ يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ".
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَحْسِبُ كُلَّ شَيْئٍ مِثْلَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. كَرِهُوا بَيْعَ الطَّعَامِ حَتَّى يَقْبِضَهُ الْمُشْتَرِي. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِيمَنْ ابْتَاعَ شَيْئًا مِمَّا لاَ يُكَالُ وَلاَ يُوزَنُ، مِمَّا لاَ يُؤْكَلُ وَلاَ يُشْرَبُ، أَنْ يَبِيعَهُ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوْفِيَهُ. وَإِنَّمَا التَّشْدِيدُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، فِي الطَّعَامِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
تخريج: خ/البیوع ۵۴ (۲۱۳۲)، م/البیوع ۸ (۱۵۲۵)، د/البیوع ۶۷ (۳۴۹۶)، ن/البیوع ۵۵ (۴۶۰۴)، ق/التجارات ۳۷ (۲۲۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۶)، وحم (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۵۱، ۲۷۰، ۲۸۵، ۳۵۶، ۳۶۸، ۳۶۹) (صحیح)
۱۲۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''جو شخص غلہ خریدے تو اسے نہ بیچے جب تک کہ اس پر قبضہ نہ کرلے '' ۱؎ ، ابن عباس کہتے ہیں: میں ہرچیز کو غلّے ہی کے مثل سمجھتاہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر، ابن عمراور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئیہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے غلّہ کی بیع کو ناجائزکہا ہے۔ جب تک مشتری اس پر قبضہ نہ کرلے،۴- اور بعض اہل علم نے قبضہ سے پہلے اس شخص کو بیچنے کی رخصت دی ہے جو کوئی ایسی چیز خریدے جو ناپی اور تولی نہ جاتی ہو اور نہ کھائی اورپی جاتی ہو ،۵- اہل علم کے نزدیک سختی غلے کے سلسلے میں ہے۔ احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : خریدوفروخت میں شریعت اسلامیہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز پر خریدارجب تک مکمل قبضہ نہ کر لے ا سے دوسرے کے ہاتھ نہ بیچے، اوریہ قبضہ ہر چیز پر اسی چیز کے حساب سے ہوگا، نیز اس سلسلہ میں علاقے کے عرف (رسم ورواج) کا اعتباربھی ہوگا کہ وہاں کسی چیز پر کیسے قبضہ ماناجاتاہے مثلاً منقولہ چیزوں میں شریعت نے ایک عام اصول برائے مکمل قبضہ یہ بتایا ہے کہ اس چیز کو مشتری بائع کی جگہ سے اپنی جگہ میں منتقل کرلے یا ناپنے والی چیز کو ناپ لے اور تولنے والی چیز کو تول لے اور اندازہ کی جانے والی چیز کی جگہ بدل لے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الْبَيْعِ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ
۵۷-باب: اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا منع ہے​


1292- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَيَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلاَ يَخْطُبْ بَعْضُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ بَعْضٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "لاَ يَسُومُ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ"، وَمَعْنَى الْبَيْعِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، هُوَ السَّوْمُ.
* تخريج: خ/النکاح ۴۵ (۵۱۴۲)، م/النکاح ۶ (۱۴۱۲)، والبیوع ۱۴۱۲)، د/النکاح ۱۸ (۲۰۸۱)، ن/النکاح ۲۰ (۳۲۴۰)، و۲۱ (۳۲۴۵)، والبیوع ۲۰ (۴۵۰۷)، ق/النکاح ۱۰ (۱۸۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۸۴)، وحم (۲/۱۲۲، ۱۲۴، ۱۲۶، ۱۳۰، ۱۴۲، ۱۵۳)، دي/النکاح ۷ (۲۲۲۲)، والبیوع ۳۳ (۲۶۰۹) (صحیح)
۱۲۹۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور نہ کوئی کسی کے شادی کے پیغام پر پیغام دے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اور سمرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- نبی اکرمﷺسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایاآدمی اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ کرے ۔ ۴-اوربعض اہل علم کے نزدیک نبی اکرمﷺسے مروی اس حدیث میں بیع سے مراد بھاؤ تاؤ اور مول تول ہے۔
وضاحت ۱؎ : دوسرے کی بیع پر بیع کی صورت یہ ہے، بیع ہوجانے کے بعد مدت خیارکے اندر کوئی آکریہ کہے کہ تو یہ بیع فسخ کردے تو میں تجھ کو اس سے عمدہ چیز اس سے کم قیمت پر دیتاہوں کہ اس طرح کہنا جائزنہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58-بَاب مَا جَاءَ فِي بَيْعِ الْخَمْرِ وَالنَّهْيِ عَنْ ذَلِكَ
۵۸-باب: شراب کی بیع اور اس کی ممانعت کا بیان​


1293- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ لَيْثًا يُحَدِّثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ! إِنِّي اشْتَرَيْتُ خَمْرًا لأَيْتَامٍ فِي حِجْرِي. قَالَ: "أَهْرِقْ الْخَمْرَ وَاكْسِرْ الدِّنَانَ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي طَلْحَةَ، رَوَى الثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ كَانَ عِنْدَهُ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۷۷۲) (حسن)
۱۲۹۳- ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی ! میں نے ان یتیموں کے لیے شراب خریدی تھی جو میری پرورش میں ہیں۔ (اس کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا:'' شراب بہادو اور مٹکے توڑ دو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو ثوری نے بطریق: ''السدي، عن يحيى بن عباد، عن أنس'' روایت کیا ہے کہ ابوطلحہ آپ کے پاس تھے ۱؎ ، اور یہ لیث کی روایت سے زیادہ صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر ، عائشہ، ابو سعید ، ابن مسعود ، ابن عمر، اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس اعتبارسے یہ حدیث انس کی مسانیدمیں سے ہوگی نہ کہ ابوطلحہ کی ۔
 
Top