63- بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَرَايَا وَالرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۶۳-باب: عاریت والی بیع کے جائزہونے کا بیان
1300- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ ثَابِتٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ، إِلاَّ أَنَّهُ قَدْ أَذِنَ لأَهْلِ الْعَرَايَا أَنْ يَبِيعُوهَا بِمِثْلِ خَرْصِهَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ. هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ. وَرَوَى أَيُّوبُ وَعُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ.
* تخريج: خ/البیوع ۷۵ (۲۱۷۲، ۲۱۷۳)، و۸۲ (۲۱۸۴)، و ۸۴ (۲۱۹۲)، والشرب والمساقاۃ ۱۷ (۲۳۸۰)، م/البیوع ۱۴ (۱۵۳۹)، د/البیوع ۲۰ (۳۳۶۲)، ن/البیوع ۳۲ (۴۵۳۶، ۴۵۴۰)، و ۳۴ (۴۵۴۳، ۴۵۴۳)، ق/التجارات۵۵ (۲۲۶۸، ۲۲۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۲۳)، وط/البیوع ۹ (۱۴)، وحم (۵/۱۸۱، ۱۸۲، ۱۸۸، ۱۹۲) ویأتي برقم ۱۳۰۲ (صحیح)
1300/م- وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۳۰۰- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺنے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اندازہ لگاکراسے اتنی ہی کھجور میں بیچنے کی اجازت دی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث کو محمد بن اسحاق نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اورایوب ، عبیداللہ بن عمر اور مالک بن انس نے نافع سے اورنافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺنے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایاہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۱۳۰۰/م- اوراسی سند سے ابن عمرنے زید بن ثابت سے اورانہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے کہ آپ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ اور یہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عرایاکی صورت یہ ہے مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے دوایک درخت کا پھل کسی مسکین کو دے دے لیکن دینے کے بعد بار باراس کے آنے جانے سے اسے تکلیف پہنچے توکہے: بھائی اندازہ لگاکرخشک یاترکھجورہم سے لے لو اور اس درخت کا پھل ہمارے لیے چھوڑدوہر چند کہ یہ مزابنہ ہے لیکن چونکہ یہ ایک ضرورت ہے، اور وہ بھی مسکینوں کومل رہا ہے اس لیے اسے جائزقرارادیا گیا ہے۔
وضاحت ۲؎ : مطلب یہ ہے کہ محمد بن اسحاق نے
''عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت'' کے طریق سے : محاقلہ اور مزابنہ سے ممانعت کو عرایا والے جملے کے ساتھ روایت کیا ہے، جب کہ ایوب وغیرہ نے
''عن نافع، عن ابن عمر'' کے طریق سے (یعنی مسند ابن عمر سے) صرف محاقلہ و مزابنہ کی ممانعت والی بات ہی روایت کی ہے، نیز
''عن أيوب، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت'' کے طریق سے بھی ایک روایت ہے مگر اس میں محمدبن اسحاق والے حدیث کے دونوں ٹکڑے ایک ساتھ نہیں ہیں، بلکہ صرف ''عرایا'' والاٹکڑا ہی ہے، اور بقول مؤلف یہ روایت زیادہ صحیح ہے (یہ روایت آگے آرہی ہے)۔
1301- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، أَوْ كَذَا.
* تخريج: خ/البیوع ۸۳ (۲۱۹۰)، والشرب والمساقاۃ ۱۷ (۲۳۸۲)، م/البیوع ۱۴ (۱۵۴۱)، د/البیوع ۲۱ (۳۳۶۴)، ن/البیوع ۳۵ (۴۵۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۴۳)، وحم (۲/۲۳۷) (صحیح)
۱۳۰۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ وسق سے کم میں عرایاکے بیچنے کی اجازت دی ہے یاایسے ہی کچھ آپ نے فرمایا۔ راوی کو شک ہے کہ حدیث کے یہی الفاظ ہیں یا کچھ فرق ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
1301/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، نَحْوَهُ. وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، أَوْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۳۰۱/م- اس سند سے سابقہ حدیث کی طرح روایت آئی ہے۔ مالک ۱؎ سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے پانچ وسق میں یا پانچ وسق سے کم میں عرایاکو بیچنے کی اجازت دی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ اسی سند سے اسی حدیث کی تکرار ہے، کیوں کہ سبھی کے یہاں یہ حدیث اسی سند (مالك، عن داود به)سے مروی ہے۔
1302- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْهُمْ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحاَقُ. وَقَالُوا: إِنَّ الْعَرَايَا مُسْتَثْنَاةٌ مِنْ جُمْلَةِ نَهْيِ النَّبِيِّ ﷺ. إِذْ نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ. وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَقَالُوا: لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَ مَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ. وَمَعْنَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَرَادَ التَّوْسِعَةَ عَلَيْهِمْ فِي هَذَا، لأَنَّهُمْ شَكَوْا إِلَيْهِ وَقَالُوا: لاَ نَجِدُ مَا نَشْتَرِي مِنَ الثَّمَرِ، إِلاَّ بِالتَّمْرِ، فَرَخَّصَ لَهُمْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَنْ يَشْتَرُوهَا، فَيَأْكُلُوهَا رُطَبًا.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۳۰۰ (صحیح)
۱۳۰۲- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اندازہ لگاکر عرایاکو بیچنے کی اجازت دی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے۔ جس میں شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی میں شامل ہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے منجملہ جن چیزوں سے منع فرمایاہے اس سے عرایا مستثنیٰ ہے، اس لیے کہ آپ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ان لوگوں نے زید بن ثابت اور ابوہریرہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے ان کاکہناہے کہ اس کے لیے پانچ وسق سے کم خریدنا جائز ہے،۳- بعض اہل علم کے نزدیک اس کامفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺکے پیش نظر اس سلسلہ میں توسّع اورگنجائش دیناہے، اس لیے کہ عرایا والوں نے آپ سے شکایت کی اورعرض کیاکہ خشک کھجور کے سواہمیں کوئی اور چیز میسر نہیں جس سے ہم تازہ کھجور خرید سکیں۔ تو آپ نے انہیں پانچ وسق سے کم میں خریدنے کی اجازت دیدی تاکہ وہ تازہ کھجور کھاسکیں۔