• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
59- بَاب النَّهْيِ أَنْ يُتَّخَذَ الْخَمْرُ خَلاَّ
۵۹-باب: شراب کا سرکہ بنانا منع ہے​


1294- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ: أَيُتَّخَذُ الْخَمْرُ خَلاَّ؟ قَالَ: "لاَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الأشربۃ ۲ (۱۹۸۳)، د/الأشربۃ ۳ (۳۶۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۸)، ودي/الأشربۃ ۱۷ (۲۱۶۱) (صحیح)
۱۲۹۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺسے پوچھا گیا: کیا شراب کا سرکہ بنایاجاسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا :'' نہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


1295-حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ مُنِيرٍ قَال: سَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي الْخَمْرِ، عَشْرَةً: عَاصِرَهَا وَمُعْتَصِرَهَا وَشَارِبَهَا وَحَامِلَهَا وَالْمَحْمُولَةُ إِلَيْهِ وَسَاقِيَهَا وَبَائِعَهَا وَآكِلَ ثَمَنِهَا وَالْمُشْتَرِي لَهَا وَالْمُشْتَرَاةُ لَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ.
وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/الأشربۃ ۶ (۳۳۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۰) (حسن صحیح)
۱۲۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کی وجہ سے'' دس آدمیوں پرلعنت بھیجی: اس کے نچوڑوانے والے پر، اس کے پینے والے پر، اس کے لے جانے والے پر، اس کے منگوانے والے پر،اورجس کے لیے لے جائی جائے اس پر، اس کے پلانے والے پر،اوراس کے بیچنے والے پر، اس کی قیمت کھانے والے پر،اس کو خریدنے والے پراور جس کے لیے خریدی گئی ہواس پر''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے غریب ہے، ۲- اوراسی حدیث کی طرح ابن عباس ، ابن مسعود اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے جسے یہ لوگ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
60- بَاب مَا جَاءَ فِي احْتِلاَبِ الْمَوَاشِي بِغَيْرِ إِذْنِ الأَرْبَابِ
۶۰-باب: مالک کی اجازت کے بغیر جانورکے دوہنے کا بیان​


1296- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ عَلَى مَاشِيَةٍ، فَإِنْ كَانَ فِيهَا صَاحِبُهَا فَلْيَسْتَأْذِنْهُ. فَإِنْ أَذِنَ لَهُ فَلْيَحْتَلِبْ وَلْيَشْرَبْ. وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا أَحَدٌ فَلْيُصَوِّتْ ثَلاَثًا. فَإِنْ أَجَابَهُ أَحَدٌ فَلْيَسْتَأْذِنْهُ. فَإِنْ لَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ فَلْيَحْتَلِبْ وَلْيَشْرَبْ وَلاَ يَحْمِلْ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: سَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي رِوَايَةِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، وَقَالُوا: إِنَّمَا يُحَدِّثُ عَنْ صَحِيفَةِ سَمُرَةَ.
* تخريج: د/الجہاد ۹۳ (۲۶۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۱) (صحیح)
۱۲۹۶- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی کسی ریوڑ کے پاس (دودھ پینے ) آئے تواگران میں ان کا مالک موجود ہوتو اس سے اجازت لے، اگروہ اجازت دے دے تو دودھ پی لے۔ اگران میں کوئی نہ ہوتو تین بار آواز لگائے، اگر کوئی جواب دے تو اس سے اجازت لے لے، اور اگر کوئی جواب نہ دے تو دودھ پی لے لیکن ساتھ نہ لے جائے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سمرہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں عمراور ابوسعیدخدری سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے، احمد اوراسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ۴- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ سمرہ سے حسن کا سماع ثابت ہے،۵- بعض محدّثین نے حسن کی روایت میں جسے انہوں نے سمرہ سے روایت کی ہے کلام کیا ہے، وہ لوگ کہتے ہیں کہ حسن سمرہ کے صحیفہ سے حدیث روایت کرتے تھے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم اس پرپشان حال اور مضطرومجبورمسافر کے لیے ہے جسے کھانا نہ ملنے کی صورت میں اپنی جان کے ہلاک ہوجانے کا خطرہ لاحق ہو یہ تاویل اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ حدیث ایک دوسری حدیث '' للايحلبنّ أحد ماشية أحدٍ بغير إذنه''کے معارض ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے پاس بھی لکھی ہوئی احادیث کا صحیفہ تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
61- بَاب مَا جَاءَ فِي بَيْعِ جُلُودِ الْمَيْتَةِ وَالأَصْنَامِ
۶۱- باب: مردار کی کھالوں اور بتوں کے بیچنے کا بیان​


1297- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ، عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ، يَقُولُ: "إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالأَصْنَامِ". فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ؟ فَإِنَّهُ يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ؟ قَالَ: "لاَ، هُوَ حَرَامٌ". ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ: "قَاتَلَ اللهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ الشُّحُومَ فَأَجْمَلُوهُ ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: خ/البیوع ۱۱۲ (۲۲۳۶)، والمغازي ۵۱ (۴۲۹۶)، وتفسیر سورۃ الأنعام ۶ (۴۶۳۳)، م/المساقاۃ ۱۳ (۱۵۸۱)، د/البیوع ۶۶ (۲۴۸۶)، ن/الفرع والعتیرۃ ۸ (۴۲۶۷)، والبیوع ۹۳ (۴۶۷۳)، ق/التجارات ۱۱ (۲۱۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۹۴)، وحم (۳/۳۲۴)، ۳۲۶، ۳۷۰) (صحیح)
۱۲۹۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ کے اندر رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''اللہ اور اس کے رسول نے شراب ، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قراردیاہے'' ، عرض کیاگیا ، اللہ کے رسول !مجھے مردار کی چربی کے بارے میں بتائیے، اسے کشتیوں پہ ملاجاتاہے، چمڑوں پہ لگایاجاتاہے، اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں، یہ جائزنہیں،یہ حرام ہے''،پھر آپ نے اسی وقت فرمایا:'' یہود پر اللہ کی مارہو، اللہ نے ان کے لیے چربی حرام قراردے دی ، تو انہوں نے اس کو پگھلایا پھراسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمراور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کااسی پرعمل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
62- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّجُوعِ مِنَ الْهِبَةِ
۶۲-باب: ہبہ کوواپس لینے پرواردوعید کا بیان​
1298- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السُّوئِ، الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، يَرْفَعَانِ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: خ/الہبۃ ۳۰ (۲۶۲۲)، والحیل ۱۴ (۶۹۷۵)، ن/الہبۃ ۳ (۳۷۲۸، ۳۷۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۹۲)، وحم (۱/۲۱۷) وانظر الحدیث الآتي، مایأتي برقم: ۲۱۳۱ و ۲۱۳۲ (صحیح)
وانظر أیضا : خ/الہبۃ ۱۴ (۲۵۸۹)، م/الہبات ۲ (۱۶۲۲)، ن/الہبۃ ۲ (۳۷۲۱-۳۷۲۲)، و۳ (۳۷۲۳، ۳۷۲۵-۳۷۲۷، ۳۷۳۰)، و۴ (۳۷۳۱-۳۷۳۳)۱۲۹۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' بُری مثال ہمارے لیے مناسب نہیں، ہدیہ دے کر واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کرکے چاٹتاہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے ہبہ کو واپس لینے کی شناعت وقباحت واضح ہوتی ہے، ایک تو ایسے شخص کو کُتے سے تشبیہ دی گئی ہے، دوسرے ہبہ کی گئی چیز کو قے سے تعبیرکیا جس سے انسان انتہائی کراہت محسوس کرتاہے۔


1299- قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "لاَ يَحِلُّ لأَحَدٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً فَيَرْجِعَ فِيهَا، إِلاَّ الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. قَالُوا: مَنْ وَهَبَ هِبَةً لِذِي رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيهَا، وَمَنْ وَهَبَ هِبَةً لِغَيْرِ ذِي رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيهَا، مَا لَمْ يُثَبْ مِنْهَا. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: لاَ يَحِلُّ لأَحَدٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً فَيَرْجِعَ فِيهَا إِلاَّ الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ. وَاحْتَجَّ الشَّافِعِيُّ بِحَدِيثِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ يَحِلُّ لأَحَدٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً فَيَرْجِعَ فِيهَا، إِلاَّ الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ".
* تخريج: د/البیوع ۸۳ (۳۵۳۹)، ن/الہبۃ ۲ (۳۷۲۰)، و ۴ (۳۷۳۳)، ق/الہبات ۱ (۲۳۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۳ و ۷۰۹۷)، وحم (۲/۲۷، ۷۸) (ویأتي برقم ۲۱۳۲) (صحیح)
۱۲۹۹- عبداللہ بن عمر اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:''کسی کے لیے جائزنہیں کہ کوئی عطیہ دے کراسے واپس لے سواے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کسی ذی محرم کو کوئی چیز بطورہبہ دے تو پھر اسے واپس لینے کا اختیار نہیں، اورجو کسی غیر ذی محرم کو کوئی چیز بطورہبہ دے تو اس کے لیے اسے واپس لیناجائز ہے جب اُسے اس کابدلہ نہ دیاگیا ہو،یہی ثوری کا قول ہے،۳- اورشافعی کہتے ہیں: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کوکوئی عطیہ دے پھر اسے واپس لے، سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے،شافعی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال کیا ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ''کسی کے لیے جائزنہیں کہ کوئی عطیہ دے کراسے واپس لے سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
63- بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَرَايَا وَالرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۶۳-باب: عاریت والی بیع کے جائزہونے کا بیان​


1300- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ ثَابِتٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ، إِلاَّ أَنَّهُ قَدْ أَذِنَ لأَهْلِ الْعَرَايَا أَنْ يَبِيعُوهَا بِمِثْلِ خَرْصِهَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ. هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ. وَرَوَى أَيُّوبُ وَعُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ.
* تخريج: خ/البیوع ۷۵ (۲۱۷۲، ۲۱۷۳)، و۸۲ (۲۱۸۴)، و ۸۴ (۲۱۹۲)، والشرب والمساقاۃ ۱۷ (۲۳۸۰)، م/البیوع ۱۴ (۱۵۳۹)، د/البیوع ۲۰ (۳۳۶۲)، ن/البیوع ۳۲ (۴۵۳۶، ۴۵۴۰)، و ۳۴ (۴۵۴۳، ۴۵۴۳)، ق/التجارات۵۵ (۲۲۶۸، ۲۲۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۲۳)، وط/البیوع ۹ (۱۴)، وحم (۵/۱۸۱، ۱۸۲، ۱۸۸، ۱۹۲) ویأتي برقم ۱۳۰۲ (صحیح)
1300/م- وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۳۰۰- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺنے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اندازہ لگاکراسے اتنی ہی کھجور میں بیچنے کی اجازت دی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث کو محمد بن اسحاق نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اورایوب ، عبیداللہ بن عمر اور مالک بن انس نے نافع سے اورنافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺنے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایاہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۱۳۰۰/م- اوراسی سند سے ابن عمرنے زید بن ثابت سے اورانہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے کہ آپ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ اور یہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عرایاکی صورت یہ ہے مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے دوایک درخت کا پھل کسی مسکین کو دے دے لیکن دینے کے بعد بار باراس کے آنے جانے سے اسے تکلیف پہنچے توکہے: بھائی اندازہ لگاکرخشک یاترکھجورہم سے لے لو اور اس درخت کا پھل ہمارے لیے چھوڑدوہر چند کہ یہ مزابنہ ہے لیکن چونکہ یہ ایک ضرورت ہے، اور وہ بھی مسکینوں کومل رہا ہے اس لیے اسے جائزقرارادیا گیا ہے۔
وضاحت ۲؎ : مطلب یہ ہے کہ محمد بن اسحاق نے ''عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت'' کے طریق سے : محاقلہ اور مزابنہ سے ممانعت کو عرایا والے جملے کے ساتھ روایت کیا ہے، جب کہ ایوب وغیرہ نے ''عن نافع، عن ابن عمر'' کے طریق سے (یعنی مسند ابن عمر سے) صرف محاقلہ و مزابنہ کی ممانعت والی بات ہی روایت کی ہے، نیز ''عن أيوب، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت'' کے طریق سے بھی ایک روایت ہے مگر اس میں محمدبن اسحاق والے حدیث کے دونوں ٹکڑے ایک ساتھ نہیں ہیں، بلکہ صرف ''عرایا'' والاٹکڑا ہی ہے، اور بقول مؤلف یہ روایت زیادہ صحیح ہے (یہ روایت آگے آرہی ہے)۔


1301- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، أَوْ كَذَا.
* تخريج: خ/البیوع ۸۳ (۲۱۹۰)، والشرب والمساقاۃ ۱۷ (۲۳۸۲)، م/البیوع ۱۴ (۱۵۴۱)، د/البیوع ۲۱ (۳۳۶۴)، ن/البیوع ۳۵ (۴۵۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۴۳)، وحم (۲/۲۳۷) (صحیح)
۱۳۰۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ وسق سے کم میں عرایاکے بیچنے کی اجازت دی ہے یاایسے ہی کچھ آپ نے فرمایا۔ راوی کو شک ہے کہ حدیث کے یہی الفاظ ہیں یا کچھ فرق ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔


1301/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، نَحْوَهُ. وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، أَوْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۳۰۱/م- اس سند سے سابقہ حدیث کی طرح روایت آئی ہے۔ مالک ۱؎ سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے پانچ وسق میں یا پانچ وسق سے کم میں عرایاکو بیچنے کی اجازت دی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ اسی سند سے اسی حدیث کی تکرار ہے، کیوں کہ سبھی کے یہاں یہ حدیث اسی سند (مالك، عن داود به)سے مروی ہے۔


1302- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْهُمْ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحاَقُ. وَقَالُوا: إِنَّ الْعَرَايَا مُسْتَثْنَاةٌ مِنْ جُمْلَةِ نَهْيِ النَّبِيِّ ﷺ. إِذْ نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ. وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَقَالُوا: لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَ مَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ. وَمَعْنَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَرَادَ التَّوْسِعَةَ عَلَيْهِمْ فِي هَذَا، لأَنَّهُمْ شَكَوْا إِلَيْهِ وَقَالُوا: لاَ نَجِدُ مَا نَشْتَرِي مِنَ الثَّمَرِ، إِلاَّ بِالتَّمْرِ، فَرَخَّصَ لَهُمْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَنْ يَشْتَرُوهَا، فَيَأْكُلُوهَا رُطَبًا.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۳۰۰ (صحیح)
۱۳۰۲- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اندازہ لگاکر عرایاکو بیچنے کی اجازت دی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے۔ جس میں شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی میں شامل ہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے منجملہ جن چیزوں سے منع فرمایاہے اس سے عرایا مستثنیٰ ہے، اس لیے کہ آپ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ان لوگوں نے زید بن ثابت اور ابوہریرہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے ان کاکہناہے کہ اس کے لیے پانچ وسق سے کم خریدنا جائز ہے،۳- بعض اہل علم کے نزدیک اس کامفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺکے پیش نظر اس سلسلہ میں توسّع اورگنجائش دیناہے، اس لیے کہ عرایا والوں نے آپ سے شکایت کی اورعرض کیاکہ خشک کھجور کے سواہمیں کوئی اور چیز میسر نہیں جس سے ہم تازہ کھجور خرید سکیں۔ تو آپ نے انہیں پانچ وسق سے کم میں خریدنے کی اجازت دیدی تاکہ وہ تازہ کھجور کھاسکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
64- بَاب مِنْهُ
۶۴-باب: بیع عرایا سے متعلق ایک اور باب​


1303- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ مَوْلَى بَنِي حَارِثَةَ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ وَسَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ حَدَّثَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْمُزَابَنَةِ، الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ، إِلاَّ لأَصْحَابِ الْعَرَايَا. فَإِنَّهُ قَدْ أَذِنَ لَهُمْ، وَعَنْ بَيْعِ الْعِنَبِ بِالزَّبِيبِ وَعَنْ كُلِّ ثَمَرٍ بِخَرْصِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/البیوع ۸۳ (۲۱۹۱)، والشرب والمساقاۃ ۱۷ (۲۳۸۴)، م/البیوع ۱۴ (۱۵۴۰)، د/البیوع ۲۰ (۲۳۶۳)، ن/البیوع ۳۵ (۴۵۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۲و۴۶۴۶) وحم (۴/۲) (صحیح)
۱۳۰۳- رافع بن خدیج اورسہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع مزابنہ یعنی سوکھی کھجوروں کے عوض درخت پرلگی کھجور بیچنے سے منع فرمایا، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اجازت دی،اور خشک انگور کے عوض تر انگور بیچنے سے اوراندازہ لگاکرکوئی بھی پھل بیچنے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
65- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّجْشِ فِي الْبُيُوعِ
۶۵-باب: بیع میں نجش کے حرام ہونے کا بیان​


1304- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ. وَقَالَ قُتَيْبَةُ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لاَتَنَاجَشُوا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. كَرِهُوا النَّجْشَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالنَّجْشُ أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ الَّذِي يَفْصِلُ السِّلْعَةَ إِلَى صَاحِبِ السِّلْعَةِ. فَيَسْتَامُ بِأَكْثَرَ مِمَّا تَسْوَى. وَذَلِكَ عِنْدَمَا يَحْضُرُهُ الْمُشْتَرِي يُرِيدُ أَنْ يَغْتَرَّ الْمُشْتَرِي بِهِ وَلَيْسَ مِنْ رَأْيِهِ الشِّرَائُ. إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَخْدَعَ الْمُشْتَرِيَ بِمَا يَسْتَامُ. وَهَذَا ضَرْبٌ مِنَ الْخَدِيعَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنْ نَجَشَ رَجَلٌ، فَالنَّاجِشُ آثِمٌ فِيمَا يَصْنَعُ وَالْبَيْعُ جَائِزٌ. لأَنَّ الْبَائِعَ غَيْرُ النَّاجِشِ.
* تخريج: خ/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰)، و۶۴ (۲۱۵۰)، و۷۰ (۲۱۶۰)، والشروط ۸ (۲۷۲۳)، م/النکاح ۶ (۱۴۱۳/۵۲)، د/البیوع ۴۶ (۳۴۳۸)، ن/البیوع ۱۶ (۴۵۱۰)، ق/التجارات ۱۳ (۲۱۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۳)، و ط/البیوع ۴۵ (۹۶)، وحم (۲/۲۳۸، ۴۷۴، ۴۸۷)، وانظر ما تقدم بأرقام: ۱۱۳۴، ۱۱۹۰، ۱۲۲۲) (صحیح)
۱۳۰۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تم نجش نہ کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اوربعض اہل علم کااسی پرعمل ہے، ان لوگوں نے نجش کو ناجائزکہا ہے، ۴- نجش یہ ہے کہ ایساآدمی جوسامان کے اچھے بُرے کی تمیزرکھتاہوسامان والے کے پاس آئے اور اصل قیمت سے بڑھا کر سامان کی قیمت لگائے اور یہ ایسے وقت ہوجب خریداراس کے پاس موجودہو، مقصدصرف یہ ہوکہ اس سے خریدار دھوکہ کھاجائے اوروہ(دام بڑھاچڑھاکر لگانے والا) خریدنے کا خیال نہ رکھتاہو بلکہ صرف یہ چاہتاہو کہ اس کی قیمت لگانے کی وجہ سے خریدار دھوکہ کھاجائے۔یہ دھوکہ ہی کی ایک قسم ہے،۵- شافعی کہتے ہیں: اگر کوئی آدمی نجش کرتا ہے تو اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ یعنی نجش کرنے والا گنہگار ہوگا اور بیع جائز ہوگی، اس لیے کہ بیچنے والاتونجش نہیں کررہاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
66- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّجْحَانِ فِي الْوَزْنِ
۶۶-باب: (ترازو) جھکاکر(زیادہ) تولنے کا بیان​


1305- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَفَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنْ هَجَرَ. فَجَاءَنَا النَّبِيُّ ﷺ فَسَاوَمَنَا بِسَرَاوِيلَ. وَعِنْدِي وَزَّانٌ يَزِنُ بِالأَجْرِ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِلْوَزَّانِ: "زِنْ وَأَرْجِحْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سُوَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَهْلُ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ الرُّجْحَانَ فِي الْوَزْنِ. وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سِمَاكٍ، فَقَالَ: عَنْ أَبِي صَفْوَانَ. وَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
* تخريج: د/البیوع ۷ (۳۳۳۶)، ن/البیوع ۵۴ (۴۵۹۶)، ق/التجارات ۳۴ (۲۲۲۰)، واللباس ۱۲ (۳۵۷۹) (تحفۃ الأشراف: ۴۸۱۰)، وحم ۴/۳۵۲)، ودي/البیوع ۴۷ (۲۶۲۷) (صحیح)
۱۳۰۵- سوید بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں اور مخرمہ عبدی دونوں مقام ہجر سے ایک کپڑالے آ ئے، نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اورآپ نے ہم سے ایک پائجامے کا مول بھاؤکیا۔ میرے پاس ایک تولنے ولا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھاتو نبی اکرمﷺنے تولنے والے سے فرمایا:'' جھکاکرتول''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سوید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اہل علم جھُکاکرتولنے کو مستحب سمجھتے ہیں،۳- اس باب میں جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اورشعبہ نے بھی اس حدیث کو سماک سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے ''عن سویدبن قیس'' کی جگہ ''عن ابی صفوان'' کہاہے پھرآگے حدیث ذکرکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
67- بَاب مَا جَاءَ فِي إِنْظَارِ الْمُعْسِرِ وَالرِّفْقِ بِهِ
۶۷-باب: تنگ دست قرض دار کو مہلت دینے اور تقاضے میں نرمی کرنے کا بیان​


1306- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَهُ، أَظَلَّهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْيَسَرِ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَحُذَيْفَةَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعُبَادَةَ، وَجَابِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر حم (۲/۳۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۲۴) (صحیح)
۱۳۰۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جوشخص کسی تنگ دست (قرض دار) کومہلت دے یااس کاکچھ قرض معاف کردے،تو اللہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ کے نیچے جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابویسر(کعب بن عمرو)، ابوقتادہ ، حذیفہ، ابن مسعود ، عبادہ اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1307- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "حُوسِبَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئٌ، إِلاَّ أَنَّهُ كَانَ رَجُلاً مُوسِرًا، وَكَانَ يُخَالِطُ النَّاسَ، وَكَانَ يَأْمُرُ غِلْمَانَهُ أَنْ يَتَجَاوَزُوا عَنْ الْمُعْسِرِ. فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: { نَحْنُ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ. تَجَاوَزُوا عَنْهُ }".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو الْيَسَرِ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو.
* تخريج: م/المساقاۃ ۶ (البیوع ۲۷)، (۱۵۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۹۲)، وحم (۴/۱۲۰) (صحیح)
۱۳۰۷- ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم سے پہلی امتوں میں سے ایک آدمی کا حساب (اس کی موت کے بعد)لیاگیا، تواس کے پاس کوئی نیکی نہیں ملی، سوائے اس کے کہ وہ ایک مال دار آدمی تھا، لوگوں سے لین دین کرتاتھا اوراپنے خادموں کو حکم دیتا تھا کہ (تقاضے کے وقت) تنگ دست سے درگزر کریں،تو اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں سے ) فرمایا: ہم اس سے زیادہ اس کے (در گزرکے) حقدار ہیں،تم لوگ اسے معاف کردو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
68- بَاب مَا جَاءَ فِي مَطْلِ الْغَنِيِّ أَنَّهُ ظُلْمٌ
۶۸-باب: مال دار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے​


1308- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَالشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ.
* تخريج: خ/الحوالۃ ۲ (۲۲۸۸)، والاستقراض ۱۲ (۲۴۰۰)، م/المساقاۃ ۷ (البیوع ۲۸) (۱۵۶۴)، د/البیوع ۱۰ (۳۳۴۵)، ن/البیوع ۱۰۰ (۴۶۹۲)، و ۱۰۱ (۴۶۹۵)، ق/الصدقات ۸ (الأحکام ۴۸)، (۲۴۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۶۲)، وط/البیوع ۴۰ (۸۴)، وحم (۲/۲۴۵، ۲۵۴، ۲۶۰، ۳۱۵، ۳۷۷، ۳۸۰، ۴۶۳، ۴۶۵)، دي/البیوع ۴۸ (۲۶۲۸) (صحیح)
۱۳۰۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺفرمایا:'' مال دار آدمی کاقرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۱؎ اور جب تم میں سے کوئی کسی مالدارکی حوالگی میں دیا جائے توچاہئے کہ اس کی حوالگی اسے قبول کرے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابن عمر اور شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : قرض کی ادائیگی کے باوجودقرض ادانہ کرنا ٹال مٹول ہے، بلاوجہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیناکبیرہ گناہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : اپنے ذمہ کاقرض دوسرے کے ذمہ کردینا یہی حوالہ ہے، مثلاً زیدعمروکا مقروض ہے پھرزید عمروکا مقابلہ بکرسے یہ کہہ کر کرادے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکرکے سرہے اوربکراسے تسلیم بھی کرلے توعمروکویہ حوالگی قبول کرنی چاہئے ، اس میں گویاحسن معاملہ کی ترغیب ہے۔


1309- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْهَرَوِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُحِلْتَ عَلَى، مَلِيئٍ فَاتْبَعْهُ. وَلاَ تَبِعْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَمَعْنَاهُ: إِذَا أُحِيلَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ. فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى مَلِيئٍ فَاحْتَالَهُ فَقَدْ بَرِئَ الْمُحِيلُ، وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْمُحِيلِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا تَوِيَ مَالُ هَذَا بِإِفْلاَسِ الْمُحَالِ عَلَيْهِ، فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الأَوَّلِ. وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِ عُثْمَانَ وَغَيْرِهِ حِينَ قَالُوا: لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى. قَالَ إِسْحاَقُ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ (لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوِيَ) هَذَا إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى آخَرَ، وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ مَلِيٌّ. فَإِذَا هُوَ مُعْدِمٌ، فَلَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى.
* تخريج: ق/الصدقات ۸ (الأحکام ۴۸)، (۲۴۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۳۵)، وحم (۲/۷۱) (صحیح)
۱۳۰۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' مال دار آدمی کاقرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔اور جب تم کسی مال دار کے حوالے کئے جاؤ تو اسے قبول کرلو، اور ایک بیع میں دوبیع نہ کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی قرض وصول کرنے میں کسی مالدار کے حوالے کیاجائے تواسے قبول کرنا چاہئے،۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کوکسی مال دار کے حوالے کیا جائے اور وہ حوالہ قبول کرلے تو حوالے کرنے والا بری ہوجائے گا اور قرض خواہ کے لیے درست نہیں کہ پھر حوالے کرنے والے کی طرف پلٹے۔یہی شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔ ۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں: کہ محتال علیہ (جس آدمی کی طرف تحویل کیاگیاہے) کے مفلس ہوجانے کی وجہ سے اس کے مال کے ڈوب جانے کا خطرہ ہوتو قرض خواہ کے لیے جائزہوگا کہ وہ پہلے کی طرف لوٹ جائے، ان لوگوں نے اس بات پر عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے،۵- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اس حدیث ''ليس على مال مسلم توي '' (مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قرض خواہ کسی کے حوالے کیاگیا اور اسے مال دار سمجھ رہاہو لیکن درحقیقت وہ غریب ہو تو ایسی صورت میں مسلمان کا مال ضائع نہ ہوگا ( اور وہ اصل قرض دار سے اپنا مال طلب کرسکتا ہے)
 
Top