اللہ اور انسان کے مزاج میں بڑا فرق ہے خالق اور مخلوق کے درجات کے علاوہ بھی فرق ہے۔۔۔
اگر تھوڑی دیر کے لئے کسی مسلمان کو دنیا کی خدائی دے دی جائے تو وہ اس دنیا میں کیا کیا تبدیلیاں کردےگا؟؟؟۔۔۔
کافروں کو نیست ونابود کردے گا۔۔۔
یہودیوں کو فی النار کردے گا غیر اسلامی معاشروں کو تباہ کردے گا غرضیکہ اس دنیا کو اپنے جیسا مسلمان بنا لے گا۔۔۔
یہ انسان کی خدائی ہوگی۔۔۔
مگر اللہ کی خدائی وہ ہے جو ازل سے ہے اور عبد تک قائم رہنے والی ہے۔۔۔
اللہ کے ہاں پسندیدہ دین اسلام ہی ہے۔۔۔
لیکن کافروں کو پیدا کرنا، انہیں طاقت دینا قوت دیتے رہنا مسلمانوں کی جو حالت ہے۔۔۔
اُسے خاموشی سے دیکھتے رہنا اللہ ہی کا کام ہے۔۔۔
لہذا!
اللہ اور انسان کے عمل میں جو واضح فرق ہے اُس پر غور کرن چاہئے۔۔۔
ہماری جو مرضی اللہ کے علاوہ ہے، غلطی ہے۔۔۔
اور اس غلطی سے توبہ کرنا لازم ہے۔۔۔
دراصل وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے لئے ایک زندگی چاہتے ہیں اپنے انداز کی زندگی۔۔۔
لیکن اللہ رب العالمین ہمارے لئے ایک زندگی چاہتا ہے ایک اور انداز کی زندگی۔۔۔
لہذا!
اگر ان دونوں میں فرق ہے تو غلطی موجود ہے۔۔۔
اللہ کی پسند کے علاوہ کسی انداز کی زندگی کو پسند کرنا گناہ ہے۔۔۔
اس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔۔۔
جب انسان کو گناہ سے شرمندگی نہیں تو توبہ سے کیا شرمندگی۔۔۔
کیونکہ!
جب گناہ کا احساس پیدا ہوجائے تو پھر گناہ سے نفرت ضرور پیدا ہوگی۔۔۔
اور نفرت ایک بار ہوجائے تو دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم پیدا ہوگا۔۔۔ نتیجہ!
دوبارہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ ہے توبہ ہے۔۔۔
اللہ کو گواہ بنا کر اپنی غلطی پر معذرت اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا وعدہ توبہ کہلاتا ہے۔۔۔
توبہ منظور ہوجائے تو وہ گناہ دوبارہ سرزد نہیں ہوتا۔۔۔
جب گناہ معاف ہوجائے تو گناہ کی یاد بھی نہیں رہتی۔۔۔
اگر اللہ احسان فرمادے تو انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں داخل کردیتا ہے۔۔۔
اُس کی سابقہ برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔۔۔
اللہ توبہ کرنے والوں پر بڑا مہربان ہوتا ہے۔۔۔ مثالیں موجود ہیں!
آدم علیہ السلام نے توبہ کی انہیں خلافت ارضی کا تاج پہنا دیا گیا۔۔۔
یونس علیہ السلام نے توبہ کی انہیں نجات ملی، ہر توبہ کرنے والے کو اللہ نے اپنا قُرب عطاء فرمایا۔۔۔
شرط صرف یہ ہے کہ توبہ صدق دل سے کی جائے اور اپنے آپ کو اُس راستے سے الگ کر دیا جائے جس راستے پر غلطی کے دوبارہ ہونے کا امکان ہو۔۔۔