• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنی معاویہ نام کیوں نہیں رکھتے ؟

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
مروان بن الحكم بن أبي العاص بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن أقصى الأموي أبو عبد الملك
وولي إمرة المدينة أيام معاوية وبويع له بالخلافة بعد موت معاوية بن يزيد بن معاوية
تهذيب التهذيب ، ابن حجر العسقلاني
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مروان بن الحكم بن أبي العاص أبو عبد الملك الأموي القرشي
التاريخ الكبير، البخاري
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مروان بن الحكم الأموي
ميزان الاعتدال ،الذهبي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مروان بن الحكم بن أبي العاص بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي القرشي الأموي أبو عبد الملك
وكان كاتباً لعثمان وولي إمرة المدينة لمعاوية
تهذيب الكمال في أسماء الرجال ،المزي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو ہوئے اسماء رجال کی کتب سے حوالے اب باری ہے تاریخ کی کتب
عن عبدِ اللَّهِ بنِ الزُّبيرِ أنَّهُ قال وهوَ على المنبرِ وربِّ هذا البيتِ الحرامِ والبلدِ الحرامِ إنَّ الحَكمَ بنَ أبي العاصِ وولدَه ملعونونَ على لسانِ محمد صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّم
الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث: ابن عساكر - المصدر: تاريخ دمشق - الصفحة أو الرقم: 57/271

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر میں سب سے بھاری دلیل
حدثنا إسماعيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن يحيى بن سعيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن القاسم بن محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أنه سمعه يذكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن يحيى بن سعيد بن العاص،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ طلق بنت عبد الرحمن بن الحكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فانتقلها عبد الرحمن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأرسلت عائشة أم المؤمنين إلى مروان وهو أمير المدينة اتق الله وارددها إلى بيتها‏.‏ قال مروان في حديث سليمان إن عبد الرحمن بن الحكم غلبني‏.‏ وقال القاسم بن محمد أوما بلغك شأن فاطمة بنت قيس قالت لا يضرك أن لا تذكر حديث فاطمة‏.‏ فقال مروان بن الحكم إن كان بك شر فحسبك ما بين هذين من الشر‏.‏


صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5321

ترجمہ از داؤد راز
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے ، ان سے قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار نے ، وہ دونوں بیان کرتے تھے کہ یحییٰ بن سعید بن العاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی صاحبزادی (عمرہ) کو طلاق دے دی تھی اور ان کے باپ عبدالرحمٰن انہیں ان کے (شوہر کے) گھر سے لے آئے (عدت کے ایام گزرنے سے پہلے) عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے مروان بن حکم کے یہاں، جو اس وقت مدینہ کا امیر تھا، کہلوایا کہ اللہ سے ڈرو اور لڑکی کو اس کے گھر (جہاں اسے طلاق ہوئی ہے) پہنچا دو، جیسا کہ سلیمان بن یسار کی حدیث میں ہے۔ مروان نے اس کو جواب یہ دیا کہ لڑکی کے والد عبدالرحمٰن بن حکم نے میری بات نہیں مانی اور قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ (مروان نے ام المؤمنین کو یہ جواب دیا کہ) کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے معاملہ کا علم نہیں ہے؟ (انہوں نے بھی اپنے شوہر کے گھر عدت نہیں گزاری تھی) عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ اگر تم فاطمہ کے واقعہ کا حوالہ نہ دیتے تب بھی تمہارا کچھ نہ بگڑ تا (کیونکہ وہ تمہارے لیے دلیل نہیں بن سکتا) مروان بن حکم نے اس پر کہا کہ اگر آپ کے نزدیک (فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ان کے شوہر کے گھر سے منتقل کرنا) ان کے اور ان کے شوہر کے رشتہ داری کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے تھا تو یہاں بھی یہی وجہ کافی ہے کہ دونوں (میاں بیوی) کے درمیان کشیدگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حدثنا موسى بن إسماعيل،‏‏‏‏ حدثنا أبو عوانة،‏‏‏‏ عن أبي بشر،‏‏‏‏ عن يوسف بن ماهك،‏‏‏‏ قال كان مروان على الحجاز استعمله معاوية،‏‏‏‏ فخطب فجعل يذكر يزيد بن معاوية،‏‏‏‏ لكى يبايع له بعد أبيه،‏‏‏‏ فقال له عبد الرحمن بن أبي بكر شيئا،‏‏‏‏ فقال خذوه‏.‏ فدخل بيت عائشة فلم يقدروا ‏ {‏ عليه‏}‏ فقال مروان إن هذا الذي أنزل الله فيه ‏ {‏ والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني‏}‏‏.‏ فقالت عائشة من وراء الحجاب ما أنزل الله فينا شيئا من القرآن إلا أن الله أنزل عذري‏.‏

صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4827
ترجمہ ازداؤد راز
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے ابو بشر نے ، ان سے یوسف بن ماہک نے بیان کیا کہ مروان کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز کا امیر (گورنر) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ ”اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو“ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکر کے) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ ”تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی“۔
ابتسامۃ
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو اگر دینی نظام ختم کردینے اور اسلامی آئین برباد کردینے کا دور تصور کر لیا جائے تو پھر نبوت کی اُن دعاؤں کا کیا اثر ہوا؟؟؟۔۔۔ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رشد وہدایت کی دعائیں، علم وحلم کی دعائیں۔۔۔ معاذ اللہ سب بے اثر وبےتاثیر ثابت ہونگی۔۔۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔۔۔ کیسی منافقت ہے کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں دعائیں تو مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوں اور وہی دعائیں اگر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں مقدس زبان سے صادر ہوں تو کوئی ثمرہ مرتب نہ ہوسکے یہ مشکل ہے۔۔۔ مسلمانوں کو اس مسئلے میں غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے اللہ تعالٰی ہم لوگوں کو اپنے نبی مقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہماکے ساتھ صحیح عقیدت مندی نصیب فرمائے جس میں قبائلی تعصب نہ ہو اور افراط وتفریط سے پاک ہو۔۔۔

اچھا بہرام بھائی آپ کو پچھلی تحریر کا جواب دینے سے پہلے مجھے ایک بات جاننی ہے۔۔۔
بعض علی رضی اللہ عنہ سے کیا مراد ہے؟؟؟۔۔۔ یعنی آپ کا نظریہ کیا ہے۔۔۔ تاکہ ہر بات آن ریکارڈ رہے ۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132

ابتسامۃ
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو اگر دینی نظام ختم کردینے اور اسلامی آئین برباد کردینے کا دور تصور کر لیا جائے تو پھر نبوت کی اُن دعاؤں کا کیا اثر ہوا؟؟؟۔۔۔ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رشد وہدایت کی دعائیں، علم وحلم کی دعائیں۔۔۔ معاذ اللہ سب بے اثر وبےتاثیر ثابت ہونگی۔۔۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔۔۔ کیسی منافقت ہے کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں دعائیں تو مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوں اور وہی دعائیں اگر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں مقدس زبان سے صادر ہوں تو کوئی ثمرہ مرتب نہ ہوسکے یہ مشکل ہے۔۔۔ مسلمانوں کو اس مسئلے میں غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے اللہ تعالٰی ہم لوگوں کو اپنے نبی مقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہماکے ساتھ صحیح عقیدت مندی نصیب فرمائے جس میں قبائلی تعصب نہ ہو اور افراط وتفریط سے پاک ہو۔۔۔
معاویہ بن ابی سفیان کی شان میں جو احادیث بیان کی جاتی ہیں ان کی صحت سے آپ آگاہ ہیں پھر بھی ان احادیث کو منوانے کے لئے آپ دوسروں کو کیوں مجبور کرتے ہیں اس کے بر خلاف مولا علی علیہ السلام کی شان میں وادر صحیح احادیث کو آپ منکر اور موضوع احادیث کا درجہ دیتے ہیں اور ان احادیث کو اس فورم کے سیکشن " منکر اور موضوع روایات " میں پیش کرتے ہیں جیسا کہ درجہ ذیل لنک پر آپ نے کیا ہے
http://www.kitabosunnat.com/forum/%D9%85%D9%88%D8%B6%D9%88%D8%B9-%D9%88%D9%85%D9%86%DA%A9%D8%B1-%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%A7%D8%AA-46/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D9%85%D9%86-%DA%A9%D9%86%D8%AA-%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%DB%81-%D9%81%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D8%B1%D8%AC%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D9%85%D8%B9%D9%86%DB%8C-8358/
اللہ ہم سب کو ھدایت دے آمین
بعض علی رضی اللہ عنہ سے کیا مراد ہے؟؟؟۔۔۔ یعنی آپ کا نظریہ کیا ہے۔۔۔ تاکہ ہر بات آن ریکارڈ رہے ۔۔۔
صرف آپ کو سمجھنے کےلئے
بغض علی علیہ السلام سے مراد یہ ہے کہ مولا علی علیہ السلام کے مناقب بیان کرتی ہوئی احادیث صحیح کو موضوع منکر روایات میں پیش کیا جائے اور بنو امیہ کے بادشاہوں کے مناقب بیان کرتی ہوئی ضعیف موضوع اور منکر روایت کو صحیح احادیث کے طور پر پیش کیا جائے
اللہ اعلم و رسولہ اعلم
والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ابن تیمیہ کے بارے میں امام ابن حجر عسقلانی کی رائے
يوسف والد الحسن بن المطهر الحلي کے ضمن میں امام امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ " ابن مطہر حلی نے علی رضي الله عنه کے فضائل میں ایک کتاب لکھی تھی ابن تیمیہ نے ابن مطہر کے رد میں کتاب لکھی [یعنی منہاج السنہ ]
اور ابن تیمیہ نے ابن مطہر کے رد کرنے میں ایک بڑی تعداد احادیث کی جو حسن ا ور معتبر تھی رد کی اور ان احادیث کا انکار کیا ہےاور کبھی اس رافضی [ابن مطہر حلی ] کو رد کرنے میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ علی رضي الله عنه کی تنقیص تاک پہونچ گئے"
لسان الميزان ابن حجر العسقلاني الصفحة : 1137۔ 1136
امام ابن تیمیہ نے مسند اسحٰق بن راہویہ سے باسند اس روایت کو بالفاظ نقل کیا ہے۔۔۔
سفیان عن جعفر بن محمد عن ابیہ قال سمع علی رضی اللہ عنہ یوم الجمل ویوم الصفین رجلا یغلو فی القول فقال لا تقولوا الاخیرا انما ھم قوم زعمو انا بغینا علیھم وزعمنا انھ بغوا علینا فقاتلناھم۔۔۔

١۔ تاریخ ابن عساکر کامل، جلد اول صفحہ ٢٢٩ طبع دمشق سن طباعت ١٣٧١ھ۔
٢۔ تہذیب ابن عساکرلابن بدران جلد ١ صفحہ ٧٣ باب ماورد من اقوال المنصفین فیمن قتل من اہل الشام بصفین۔
٣۔ منہاج السنہ لابن تیمیہ جلد ٣ صفحہ ٦١۔
٤۔ المنتقی للذھبی صفحہ ٣٣٥ طبع مصر سن طباعت ١٣٧٤ھ۔


اب میں اس مطلب کو شیعہ بزرگوں کی روایت کے ذریعہ پختہ کردوں۔۔۔ سلفی اور رافضی احباب دونوں فریق کو اس مسئلہ پر غور وخوض کرنے کا موقع دستیاب ہوجائے گا۔۔۔

امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے امام محمد باقر رحمہ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ محمد باقر فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے اہل حرب (جن سے ان کو قتال کا سامنا ہوا) کے حق میں فرماتے تھے کہ ہم ان سے ان کی تکفیر کی بناء پر نہیں قتال کررہے اور نہ اس اس وجہ سے قتال کررہے ہیں کہ وہ ہماری تکفیر کرتے ہیں (یہ بات نہیں ہے) بلکہ بات یہ ہے ہم کہتے ہیں کہ یقینا ہم حق پر ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ یقینا وہ حق پر ہیں۔۔۔

جعفر عن ابیہ ان علیا علیہ السلام کان یقول لال حربہ انالم تقاتلھم علی التکفیر لھم ولم تقاتلھم علی التکفیر لنا ولکنار اینا انا علی حق وراوا انھم علی حق۔ (قرب الاسناد بعبداللہ بن جعفرالحمیری الشیعی بمع رسائل دیگر ازعلماء القرن الثالث صفحہ ٤٥ طبع ایران قدیمی طبع)۔۔۔

اب یہ جواب دیں کے امام ابن تیمیہ پر آپ نے اتنا بڑا الزام لگا دیا۔۔۔ مگر یہ جو رافضی ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کو بیان کررہے ہیں ان کے بارے میں آپ کیا خیال رکھیں گے۔۔۔ کیونکہ میرا بھی یہ ہی موقف ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے جس کو آپ اگر شروع سے پڑھیں تو آخرتک میں بھی یہ ہی دعوٰی دائر کررہا ہوں جو امام علیہ السلام نے کیا لیکن مجھے سب کچھ کہا گیا ناصبی، منافق، بغض رکھنے والا ناجانے کیا کیا۔۔۔

اب آپ بتائیں کے جو انسان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید کرے تو اس موقف پیش کرنے والے کے بارے میں بھی آپ کا حُسن ظن یہ ہی ہوگا؟؟؟۔۔۔

اگر ہم کہتے ہیں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر لعن طعن اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمررضی اللہ عنھما کی خلافت کو نہ ماننے والا رافضی ہے تو کیا ہم غلط ہیں۔۔۔ اگر ہم غلط ہیں تو پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کی بیعت تو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کی۔۔۔ اور یہ ہی نہیں بلکہ اپنی صاحبزادی کو بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دیا۔۔۔ یہ کیسا ظلم ہے؟؟؟۔۔۔ کے ایک معصوم جس کا حق غصب کیا جائے اور اُس کے ماننے والے ان غاصبوں پر کفر کے فتوٰی داغیں۔۔۔ وہ امام اپنی بیٹی کا نکاح خلیفہ دوم سے کردے۔۔۔ہے کوئی جواب کے اپنے امام معصوم کے اس عمل پراگر جواب ہے تو دیں ورنہ یہ ہی سمجھا جائے گا کے ان رافضیوں کو سانپ کیوں سونگ گیا ہےفتدبر!۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
معاویہ بن ابی سفیان کی شان میں جو احادیث بیان کی جاتی ہیں ان کی صحت سے آپ آگاہ ہیں پھر بھی ان احادیث کو منوانے کے لئے آپ دوسروں کو کیوں مجبور کرتے ہیں
بہرام بھائی!۔
بات بہت آسان ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اُس کو سمجھنے کے لئے آپ نے انتہائی پیچیدہ بنادیا ہے۔۔۔ لادینیت ہی اگر زندگی ہے تو پھر دین کیا ہے؟؟؟۔۔۔ آپ نے تو بہت اطمعنان سے کہہ دیا احادیث کی صحت سے ہم آگاہ ہیں اور منوانے کے لئے دوسروں کو مجبور کررہے ہیں۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیوں کسی کو محبور کریں گے؟؟؟۔۔۔

اگر میں یہ کہوں کہ سلفیت اور رافضیت کے درمیان کسی بنیاد پر بھی ہم آہنگی اور یکسانیت کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی تو یقین کیجئے آپ اُس کو غلط ثابت ہی نہیں کرسکتے۔۔۔ دیکھیں ہمارے اسلاف کی تعلیمات میں پاکیزگی، رعنائی، روشنی، انصاف پسندی، اپنے عفودرگذر، فیاضی، نرمی، ہمہ گیری، اپنے اخلاق کی بلندی اور انس وجن میں سے ہر ایک کے لئے اپنی عمومیت اور آفاقیت میں اپنی مثال آپ ہے۔۔۔ جبکہ روافض کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی قومیت پرستی، مذہبی تعصب، تنگ نظری اور تمام انسانیت سے اپنے بغض وحسد، کینہ وکدورت، اخلاقی انحطاط، گمراہی، کجروی، اپنی بخیلی، اور ہوس پرستی میں منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔۔۔

اہل سلف سے منسلک وہ لوگ ہیں جو حاملین قرآن کریم اور متبعین سنت رسول مبین ہیں اللہ تعالٰی کے ان کو اپنے دین اسلامی اور شریعت سماوی کا محافظ ونگہبان بنایا ہے لہذا انہوں نے دین کی بھرپور آبیاری کی یہی نہیں بلکہ دین کی حفاظت، ناموس رسالت کی پاسبانی اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے تک پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا اور یوں انہوں نے تاریخ دعوت وعزمیت کے باب میں ایک سنہرے باب کا اضافہ کیا ہے۔۔۔

اس کے برعکس روافض وہ لوگ ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو گالی دیتے ہیں اُن پر لعنت ملامت روا رکھتے ہیں اُن کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور اسلامی کو صفحہ ہستی سے مٹادینے پر بضد ہیں یہ انہی صحابہ کرام پر لعن طعن کرتے اور جملے کستے ہیں جنہوں نے اس دین کی بااحسن وخوبی آبیاری کرکے اسے ہم لوگوں تک پہنچایا اگر کسی صحابی رضی اللہ عنھم اجمعین میں سے ایک صحابی کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی تو گویا کہ اُس نے پوری اسلامی سرمائے کو نیست ونابود کرکے رکھ دیا اور اسی کی وجہ یہ عمارت اسلامیہ گویا کہ زمیں بوس ہوگئی۔۔۔

اب خود سوچیں کے اہل سلف اور اہل روافض کے درمیان کس بنیاد پر یکجہتی اور پیار محبت کا معاملہ طے پاسکتا ہے (یعنی مجبور)؟؟؟ِ۔۔۔ کیونکہ رافضی خلفائے ثلاثہ کو برا بھلا کہتے ہیں انہیں گالی گلوچ تک کرنے سے باز نہیں رہتے اگر وہ ذرا عقل وخرد سے کام لیں تو ان کی اس حرکت کے انجام کا پتہ چل جائے مگر وہ لوگ اس سلسلے میں صم بکم عمی فہم لا یعقلون کا مصداق ہیں کہ ان کو عقل ودانش سے واسطہ ہی نہیں ہے ورنہ ان کو ایسا کرتے ہوئے پس وپیش محسوس ہوتا کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو برا بھلا کہنا اور ان کو گالی گلوچ کا نشانہ بنانا گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر براہ راست لعن طعن کرنا ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما سے آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ قرابت ہے دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر ہیں۔۔۔ مزید یہ کہ ان اصحاب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت میں تمام غزوات میں حصہ لیا ہے لہذا عقیدہ رفض کے بطلان کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے۔۔۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے داماد ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں آپ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہیں اور آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب کی مصاحبت کے لئے افضل ترین لوگوں کا انتخاب فرمایا تھا اگر ایسا ہی ہے جیسا کے رافضیوں کا عقیدہ ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے ثلاثہ کے بارے میں اسلام دشمنی کا پردہ فاش کیوں نہیں کیا؟؟؟۔۔۔ اور اس قضیہ سے لوگوں کو متنبہ کیوں نہیں فرمایا؟؟؟۔۔۔ خلفائے ثلاثہ پر لعن طعن اور اُن کو گالی گلوچ کا نشانہ بنانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو بھی لعن طعن کی زد لے آتے ہیں کیونکہ آپنے ہی اپنی بیٹی اُم کلثوم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دیا تھا۔۔۔۔

بہرام بھائی!
میں کہتا ہوں رافضیوں کے اعتقاد کے مطابق کیا علی رضی اللہ عنہ کی ذات سے یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کسی کافر کو دیں؟؟؟۔۔۔ اور کیا یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی مرتد اور کافر کے ہاتھ پر بیعت خلافت کریں (سبحانک ھذا بھتان عظیم)۔

اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو لعنت وملامت کرنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ذات کو داغدار کرنا ہے جنہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے محض اللہ کی رضا وخوشنودی کی خاطر خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا اور جس میں توفیق الٰہی آپ رضی اللہ عنہ کی حلیف تھی اور نبی کریم صلی اللہ اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی پشن گوئی فرما کر اپنی زندگی ہی میں آپ رضی اللہ عنہ کی دلجوئی فرمادی تھی کیا نواسئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی کافر کے لئے بیعت کا جواز فراہم کرتے ہوئے اپنی خلافت سے دستبرداری کا اعلان کرے گا؟؟؟۔۔۔۔ (سبحانک ھذا بھتان عظیم)۔۔۔

حالانکہ ایسی ہے ایک بشارت کے میرے یہ دوبیٹھے حسن وحسین رضی اللہ عنھم جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں کو آپ دل سے قبول کرتے ہو لیکن اوپر والی بشارت اُس کا کیا؟؟؟۔۔۔

ایک اور مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ رافضی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پر کس منہ سے لعنت وملامت کرتے ہیں؟؟؟۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت تو وہ شخصیت ہے جس کو اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب کریم میں اُم المومنین کے زندہ وجاوید خطاب سے نوازا ہے۔۔۔ ارشادی بارٰی تعالٰی ہے!۔

النبی اولٰی بالمومنین من انفسھم وازواجہ امھتھم (الاحزاب)
پیغمبر مومنوں پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔۔۔
ادھر علیہ السلام یاد نہیں آتا جن کی گواہی اللہ دے رہا ہے۔۔۔ کج روی اسی کانام ہے،

میں حیرت اور استعجاب میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں!
اہل سلف اور رافضیوں کے درمیان کس طرح اتحاد ہوسکتا ہے؟؟؟۔۔۔ جبکہ رافضی خمینی کو معصوم قرار دیتے ہیں اور وہ لوگ اپنے باطل عقیدے کے مطابق اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان کے امام خمینی نائب امام مہدی ہیں اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ امام مہدی ان کے یہاں ایک خیالی شخصیت ہیں امام مہدی کے بارے میں رافضیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ سامراء کی سرنگ میں روپوش ہوگئے ہیں اب ان کے نائب موجود ہیں اور نائب اصل کے قائم مقام ہوتا ہے، لہذا اگر رافضی کے زعم کے مطابق مہدی معصوم ہیں تو خمینی بھی معصوم ہوئے کیونکہ وہ ان کے نائب ہیں اور نائب اصل کا قائم مقام ہوتا ہے۔۔۔۔

یار یہ کیسا تضاد ہے۔۔۔ کہ رافضی اپنے فقیہ کی ولایت کا عقیدہ رکھتے ہیں اگر ان کا عقیدہ یہ ہے تو انہوں نے اپنے اس قول کی وجہ سے اپنے مذہب کی گویا کہ اینٹ سے اینٹ بجادی ہے اور اپنے مذہب کی دیوار گرا کر اسے غیر محفوظ کردیا ہے کیونکہ باطل، باطل کو شہ دے کر اسے کیفرکردار تک پہنچادیتا ہے اور باطل، باطل سے ہی پروان چڑھ کر برگ وبار لاتا ہے اور پھر اس سے بہت سے اشکالات رونما ہوتے ہیں نتیجتا ایک دوسرے کا ٹکراؤ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور چنگاری سلگتے سلگتے دہکتا ہوا انگارہ بن جاتی ہے اور شعلہ بن کر پورے کے پورے خرمن کو نیست ونابود کردیتی ہے لہذا میں یہاں پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اہل بیت روافض کے دروغ گوئیوں اور تہمت طرازیوں سے بری الذمہ ہیں اور روافض کے مذہب باطلہ کے بطلان میں شرعا وعقلا دلائل وبراہین کی بہتات ہے جن کو گنوانا بڑا دشوار اور مشقت کن معاملہ ہے اس لئے ہماری رافضیوں کی خدمت میں یہی دعوت ہے کہ وہ پورے کے پورے دین اسلام میں داخل ہوجائیں۔۔۔

بقول امام حذیفی رحمہ اللہ۔۔۔
رافضی، یہود ونصارٰی سے بھی بڑھ کر دین اسلام کے لئے ضرر رساں ہیں اور ہم بحیثیت مسلمان ان پر زرہ برابر بھی بھروسہ نہیں کرسکتے۔۔۔

ھم العدو فاخذرھم قاتلھم اللہ انی یوفکون
یہی حقیقی دشمن ہیں ان سے بچو اور احتیاط برتو، اللہ تعالٰی انہیں غارت کرے یہ کہاں بہکائے جاتے ہیں (المنافقون)

رافضیوں کا نسب نامہ عبداللہ بن سباء یہودی سے جاکر مل جاتا ہے اور ابولؤلؤ مجسوی کا ان کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔۔۔

اثنا عشری جعفری فرقہ، رافضی فرقہ ہے۔
دلیل نمبر ١۔
غلام حسین نجفی رافضی نے اپنے کتاب جاگیرفدک میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ جناب ابوبکر اور مرزا صاحب میں کوئی فرق نہیں (صفحہ ٥۔٩)
اس نجفی بیان میں صدیق اکبر کو مرزا غلام احمد قادیانی کے برابر قرار دیا گیا ہے (العیاذ باللہ)۔۔۔

دلیل نمبر ٢!۔
محمد الرضی الرضوی الرافضی کہتا ہے۔۔۔
اما برائتنا من الشیخین فذاک من ضرورۃ دیننا۔۔۔۔ الخ

اور شیخین (ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھم ناقابل) سے برآت (تبرا) کرنا ہمارے دین کی ضرورت میں سے ہے (کذبواعلی الشیعہ صفحہ ٤٩)۔۔۔
واللہ تعالٰی اعلم۔
والسلام علیکم۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
النبی اولٰی بالمومنین من انفسھم وازواجہ امھتھم (الاحزاب)
پیغمبر مومنوں پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔۔۔
ادھر علیہ السلام یاد نہیں آتا جن کی گواہی اللہ دے رہا ہے۔۔۔ کج روی اسی کانام ہے،
چلیں آپ اپنی ہی کسی کتاب سے حضرت عائشہ کے لئے علیہ السلام دیکھا دیں جس طرح میں نے مولا علی علیہ السلام ، حضرت فاطمہ علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سنی کتب حدیث میں آپ کو دیکھا دیا ہے پھر بھی آپ اپنی ہی کتب حدیث میں لکھا ہوا نہیں مان رہے اب ایسے میں کیا نام دوں ؟؟؟؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اصل پیغام ارسال کردہ از: بہرام
شاید اس حدیث پر ایک اعتراض یہ ہو کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے مروان کے پیچھے نماز پڑھی اس بدعت کے باوجود
پورا نام کیا ہے؟؟؟۔۔۔
جن کو میں نے مارک کیا ہے۔۔۔
اُمید ہے کے جلد مطلع کریں گے۔۔۔
جواب تو میں دے چکا اب اس سوال کا مقصد بھی بیان کردیں تو نوازش ہوگی
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
چلیں آپ اپنی ہی کسی کتاب سے حضرت عائشہ کے لئے علیہ السلام دیکھا دیں جس طرح میں نے مولا علی علیہ السلام ، حضرت فاطمہ علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سنی کتب حدیث میں آپ کو دیکھا دیا ہے پھر بھی آپ اپنی ہی کتب حدیث میں لکھا ہوا نہیں مان رہے اب ایسے میں کیا نام دوں ؟؟؟؟؟
ابتسامۃ۔۔۔

اُم المومنین۔۔۔یعنی اُمت کی ماں۔۔۔ یعنی مولاعلی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین رضی اللہ عنھما کی ماں۔۔۔ اگر نہیں لکھتے تو یہ کوئی شہادت نہیں۔۔۔ بھائی جس کی شہادت اللہ نے دی ہو اسکو صرف قبول کیا جاتا ہے۔۔۔ سرخم تسلیم کیا جاتا ہے۔۔۔ اور آخرت میں بھی یہ ہی مقام ہوگا۔۔۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ صدیقہ (اُم المومنین) یعنی جنت میں خواتین کی سردار کی ماں، جنت میں نوجوانوں کے سرداروں کی ماں۔۔۔ یہ وہ احسان ہے جو اللہ نے کیا ہے کہ ابوبکررضی اللہ عنہ صدیق ایک گواہی پر اور آپ کی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہ صدیقہ کے جو تہمت لگی اس کی گواہی پر اللہ نے قرآن نازل کردیا۔۔۔ تو قیامت تک پڑھا جائے گا۔۔۔

واللہ تعالٰی اعلم۔
والسلام۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جہاں تک صفین کے لوگوں کا حال ھے، وہ ظاہری طور پر باغی تھے جیسا کہ رسول اللہ نے عمار سے کہا تھا کہ تم کو باغی گروہ ہلاک کرے گا، اور اس زمن میں یہی مطلوب ھے۔ اور معاویہ علی سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا
بہرام بھائی۔۔۔ یہ جو آپ بار بار عمار رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث پیش کرتے ہیں ذرا یہ بتانا پسند کریں گے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کس موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے کہ تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔۔۔ (مجھے انتظار رہے گا)۔۔۔

اور دوسرا الزام ملاحظہ کیجئے۔
اور معاویہ علی سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل عثمان کی بات اس لئے کی کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اُن کی پناہ میں تھے۔۔۔ جنہوں نے یہ شرط لگادی تھی کہ پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اُنکے والد کے قتل کا اُن بلوائیوں سے بدلہ لیا جائے پھر ہم سے بیعت کی بات کی جائے۔۔۔یعنی بلوائیوں کی طرف سے شام پر چڑھائی کی تیاریاں تو جنگ جمل سے پہلے ہورہی تھیں مگر یہ حادثہ پیش آگیا۔۔۔ اب بلوائیوں کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔۔۔

یہ لشکر شام کے شہر حلب کے مشرقی کنارے دریائے فرات کے پاس میدان میں خیمہ زن ہوا تاکہ بیعت نہ کرنے اور معزولی امارت کا حکم نہ ماننے اورقصاص کا مطالبہ کرنے والے امیر شام کو اطاعت کا سبق سکھایا جائے۔۔۔ طبری کا بیان ہے کہ عدن بن حاتم یزید بن قیس ارحبی شیث بن ربعی زیاد بن حفصہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے آپ کے فضائل بیان کئے اور جماعت سے ملنے کی دعوت دی پھر دھمکی دی۔۔۔

یا معاویۃ لایصبک اللہ اواصحابک بیوم مثل یوم الجمل فقال معایہ کانک انما جئت متھددا لم تات مصلحا الخ۔۔۔
اے معاویہ خدا تجھے وہی عذاب نہ دے جو جمل والوں کو ملا امیر معاویہ رضی اللہ عہ نے کہا تم تو دھمکی دینے آئے ہو صلح کرناے نہیں تم ہی تو عثمان پر حملہ آور تھے۔۔۔(نہج البلاغہ صفحہ ٣٥٦)۔۔۔

کاش یہ سفارتی دعوت خود بلوائی نہ دیتے بلکہ حضرت ابن عباس ابو ایوب انصاری جیسے معتدال اکابر صحابہ اکابر صحابہ دیتے تو معاویہ رضی اللہ عنہ کو قائل کرلیتے اب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اللہ کی تعریف بیان کرنے کے بعد جواب میں کہتے ہیں کہ تم اطاعت وجماعت کی دعوت دینے آئے ہو۔۔۔ جماعت تو ہمارے پاس بھی ہے رہی تمہارے ساتھی کی اطاعت تو ہم نہیں کرتے کیونکہ اس نے ہمارے خلیفہ کو قتل کیا (غلط فہمی ہے جضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہج البلاغہ میں ترید کی ہے ونحن منہ برآء) ہماری جماعت (مسلمین) کو متفرق کیا ہم پر حملہ آوروں اور عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو پناہ دی اگر اُن کا یہ خیال ہے کہ وہ قاتل نہیں تو ہم آپ کو قاتل نہیں کہتے مگر یہ تو بتاؤ قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ تم جیسے لوگ ہیں تم ان کو جانتے ہو کہ وہی تمہارے ساتھی کے لشکری ہیں اور وہ قاتل ہمارے حوالے کردے کہ ان کو ہم بدلے میں قتل کردیں پھر ہم تمہاری اطاعت کرکے جماعت میں مل جائیں شبن کہنے لگا اے معاویہ کیا تجھے پسند ہے تو موقع پائے تو عمار کو بھی بدلہ میں قتل کرے [/(الخ طبری جلد ٤ صفحہ ٢-٣)۔۔۔

اب اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور مسلمانوں کے دشمن، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو بھی قاتل عثمان اور مجرم بتا کر اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں ورنہ عمار قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے بری ہیں ان کے قاتل یہی سبائی ہیں کوئی اور نہیں۔۔۔ مطالبہ قصاص میں بلوائیوں کی صاف موت تھی اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے لشکر ہرگز نہ مان سکتے۔۔۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے موقف سے اس لئے نہ ہٹ سکتے تھے کے قتل عثمان سے چندہ ماہ پہلے ہی بلوائیوں نے آپ کو بھی دھمکی دی تھی تم نے شام میں ہمیں اپنا مشن (بغاوت عثمان) نہ چلانے دیا اور ہماری حکومت آنے والی ہے ہم تم سے نمٹیں گے (طبری حالات ٣٥ ہجری)۔۔۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر آیت بغاوت پڑھنے والے حضرات ان سبائیوں پر بھی پڑھ دیا کریں کیونکہ پہل انہوں نے کی اب اللہ کا قانون وہ نہیں چلنے
فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ۝
پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو جب تک وہ اللہ کے قانون کی طرف لوٹ نہ آئے اگر لوٹ آئے تو انصاف سے صلح کروالو اللہ انصاف کو پسندکرتا ہے۔۔۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی یہ دھمکی بھولی نہ تھی اب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بیعت تو بعد میں ہوتی مگر بلوائی معاویہ رضی اللہ عنہ کا سر اپنے ہی گھر میں پہلے قلم کردیتے حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنھم اُن کے سامنے تھا اس لئے بلوائیوں کے آگے سرجھکانے کی غلطی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہیں کی۔۔۔ بس! یہ ہی وہ جرم ہے کہ بلوائی نمایابلوائی نواز مورخ آپ کو باغی لکھتا آرہا ہے اور اُسے ہمارے بعض مؤرخین ومؤلفین اپنی کتابوں میں درج کرتے آرہے ہیں۔۔۔

ہر زی شعور اب غور کرے کہ اگر معزول ہوکر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کی بیعت کرکے مسلمانوں سے مل بھی جاتے تو کیابلوائی خوش ہوجاتے؟؟؟۔۔۔ اور قاتل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیتے اور آپ بدلہ لے کر مسلمانوں کو ایک اُمت بنالیتے؟؟؟۔۔۔یا خود آپ کے لشکر میں پھوٹ پڑجاتی جیسے تحکیم کے وقت پڑی؟؟؟۔۔۔ کیا یہ حقیقت نہیں کے بیعت ہو یا انکاری ان بلوائیوں رافضیوں کا مقصد صرف مسلمانوں کو باہم لڑانا تھا؟؟؟۔۔۔

تاریخ بتاتی ہے کے عراق کے جو سفیر بھی شام میں صلح کے لئے بھیجا گیا وہ معقول طریقے سے بات نہ کرتا بس صرف برا بھلا کہتا تلوار دکھاتا اور معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اُس کو تلوار دکھا کر باعزت وامن واپس پردیتے اور کوئی صحابی بزرگ معقول بات کرے تو کیا معاویہ رضی اللہ عنہ یہی کہتے؟؟؟۔۔۔ کہ میں بعیت کرتا ہوں آپ ان سے بدلہ دلوائیں چنانچہ حضرت ابوالدرداء، ابو امامہ باھلی، جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنھم جب بھی پیغام لے کر آئے تو ١٠ ہزار ٢٠ ہزار آپ کے لشکری یہ نعرے لگا کر کھڑے ہوجاتے کے ہم سب قاتل عثمان رضی اللہ عنہ ہیں معاویہ ہم سے بدلہ لے لے اس لئے یہ صحابہ کسی کے ساتھ شریک نہ ہوئے (البدایہ والنھایہ جلد ٧ صفحہ ٢٥٤)

طبری ابن اثیر ابن خلدون سیر الصحابہ وغیرھا پر اشترنخعی کا حضرت جریر بجلی کو بار بار ڈانٹنا بےعزتی کرنا حتی کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس محسن گورنر کا آپ سے الگ ہوجانا لکھا ہے۔۔۔

ان متضاد نظریات اور بلوائیوں کی سازش سے صلح وصفائی نہ ہوسکنے کی وجہ سے جنگ ناگزیر ہوگئی پانچ ماہ تک مسلمان ایک دوسرے کے خون کا بہت احترام کرے معمولی جھڑپیں ہوتیں خاص بہادر مبارزت کے جوہر دکھاتے جنازے اکھٹے پڑھتے ایک دوسرے کے دسترخوان پر کھانا کھاتے اور ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے پھر محرم ٣٧ھ میں جنگ بندی کردی پھر صفر میں آغاز ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا سب لشکر جمع کر کے جہاد پر خوب تقریر فرمائی اور لیلۃ الھریر میں خوفناک جنگ شروع ہوگئی۔۔۔ شامی بصریوں کی طرح بےفرک سوئے ہوئے نہ تھے بلکہ وہ حملہ کے منتظر اور جواب پر تیار تھے ہائے افسوس کشتوں کے پشتے لگ گئے جگہ جگہ خون کے سیلاب لاشوں کو بہالے جارہے تھے منٰی میں قربانیوں کا سامنظر تھا تقریبا سترہزار نفوس کام آئے (انا اللہ وانا الیہ راجعون)۔۔۔

بقول مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ صحابہ کو نظر لگ گئی۔۔۔ اگرچہ فریقین میں ان کی تعداد بہت کم تھی۔۔۔

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں۔۔۔
امام احمد بن حنبل امام محمد بن سیرین سے ناقل ہیں کے (خلافت علوی میں) فتنے اٹھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دسیوں ہزار صحابہ زندہ تھے مگر ان جنگوں میں ایک سو بھی شریک نہ ہوا بلکہ تیس تک بھی ان کی تعداد نہیں پہنچی بروایت ابن بطہ ازبکیربن الاشج کے حوالہ سے لکھا ہے کے بدری صحابہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد گھروں سے چمٹ بیٹھے پھر (چند کے سوا) قبروں کی طرف ہی نکلے (البدیہ والنھایہ جلد ٧ صفحہ ٢٥٤)۔۔۔

تاریخ بتاتی ہے کہ شامی لشکر چالیس ہزار تھا مرکزی عراقی نوے ہزار تھا دونوں آدھے آدھے کٹ گئے کسی کی فتح واضح نہ ہوسکی۔۔۔ بروایت بہقی۔۔۔

البدایہ والنھایہ جلد ٧ صفحہ ٢٧٥
پر شامی ساٹھ ہزار تھے اور عراقی ایک لاکھ بیس ہزار تھے عراقی چالیس ہزار اور شامی بیس ہزار شہید ہوئے

لہذا اس جنگ میں اتنے عظیم نقصان کو صحابہ کرام اپنے دین کے خلاف جاننے لگے۔۔۔

بخاری ومسلم میں ہے!
کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گورنر سھل بن حنیف نے واپس آکر کہا اتھمواالراٰ اے لوگوں دین میں اپنی رائے پر تمہت لگاؤ (یعنی اس مسلم کشی کو کارثواب نہ جانو) میں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر ابو جندل کو (بیڑیوں) میں دیکھا اگر قادر ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو واپس کرتا۔۔۔ اللہ کی قسم جب سے ہم مسلمان ہوئے جس کام کے لئے بھی اپنی گردنوں پر تلواریں اٹھائیں اُسے آسان کردیا سوائے اس جنگ کے کہ ایک جانت سے ہم سوراخ بند کرتے ہیں تو دوسری سمت کھل جاتا ہے ہم نہیں جانتے اس کا کیا علاج کریں؟؟؟۔۔۔ (رواہ بخاری جلد ٢ صفحہ ٦٠٢)۔۔۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جنگ نہروان میں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف فرمائی تھی یقاتلھم اولھم بالحق کہ ان خارجیوں (علی کی جماعت سے نکل کر خود آپ پر حملہ آور عثمان کے قاتلوں مصری عراقی بلوائیوں) سے جنگ لڑے گا وہ حق کے زیادہ قریب ہوگا(بخاری)۔۔۔

مگر جمل وصفین لڑنے کی کسی حدیث مرفوع میں تعریف نہیں ہے تمام محدثین نے ان کو کتاب الفتن میں درج کرکے محمد بن مسلمہ جیسے جنگ سے بچنے والوں کی خوب تعریف روایت کی ہے اور فرمایا کہ!۔

مسلمانوں کے دو بڑے لشکر آپس میں لڑیں گے تو دونوں کا دعوٰی ایک ہوگا (اتباع امام اور اجراء قانون الٰہی) اس میں کھڑے ہونے والا چلنے والے سے بیٹھا ہوا کھڑے سے بہتر ہوگا (یعنی قتل مسلمان سے بچنا ہی سب سے بڑی نیکی ہے) اسی لئے اپنے ریحانہ حسن المجتبٰی کو سردار کہا کہ اللہ اسکے ذریعے دو بڑے لشکروں میں صلح کرائے گا (بخاری ومسلم، ابو داؤد کتاب الفتین)۔۔۔

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بھی حسن کے ساتھ گود میں بیٹھاکر اسی لئے فرمایا تھا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے اور ان کی محبت (واتباع) کرنے والوں سے محبت کر (صحیحین)۔۔۔ جبکہ اسامہ نے کہا تھا آپ مجھے چیتے کے منہ میں ڈال دیں منظور ہے مگر مسلمان کے خلاف تلوار نہیں اٹھاؤں گا۔۔۔

قاضی نور اللہ شوستری نے جس کو ہمایوں دور میں ہندوستان میں رفض پھیلانے کے لئے صفوی حکمرانوں نے ایران سے بھیجا تھا مجالس المومنین میں لکھا ہے۔۔۔ ملاحظہ کیجئے۔۔۔

گرد علی درصفین فتح نیافت پیغمبر ہم درحنین فتح نیافت(معاذ اللہ)۔۔۔

رفض نما مورخ لکھتے ہیں۔۔۔ کہ شامی شکست کے قریب تھے مگر انہوں نے نیزوں پر قرآن اٹھا کر جنگ بند کرادی اور عراقیوں میں پھوٹ پڑگئی حقیقت یہ ہے کہ شکست کے قریب ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ قتل عام روکنے کے لئے ٹیلے پر چڑھ کر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے کہا کون کس پر حکومت کرے گا عمرو! جنگ بند کراؤ ان کی تدبیر سے جنگ بند ہوئی حضرت علی نے عراقیوں کو ہزار سمجھایا کہ یہ جنگی چال ہے تم فتح پانے تک لڑے رہو۔۔۔
مگر آپ کا فرمانبردار لشکر تو تقریبا پچاس ہزار شہید ہوچکا تھا اب نیکوں کو جنگ کی آگ میں مسلیوں کی طرح آگے پھینکنے والے سبائی لیڈروں کو اپنی موت صاف نظر آرہی تھی ایسے بیس ہزار مومن بولے اے علی ہمیں جنگ پر آمادہ نہ کر۔۔۔۔۔۔ ہم آپ کا وہی حشر کریں گے جو عثمان کا کیا تھا آپ فورا جنگ ختم کریں۔۔۔ اگر مالک (اشترنخعی) نے آنے میں تاخیر کی تو پھر اپنی جان سے ہاتھ دھولیں (ترجمہ نہج البلاغہ از جعفرحسین (طبری) جلد ٤ صفحہ ٣٤ پر ہے اور نفعل کما فعلنا بابن عفان یا ہم تجھے اسی طرح قتل کریں گے جیسے عثمان بن عفان کو کیا (معاذ اللہ)،،،

اب پورے ١٤ ماہ بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے دوست نما دشمن (عمثان کے قاتل باغیوں) کا حال معلوم ہوا تو با بار یوں دعائیں دیں تمہیں ہدایت کی توفیق نہ ہو نہ سیدھی راہ دیکھنا نصیب ہو کاش تمہیں (نہ دیکھا ہوتا) چھوڑ کر کہیں چلا جاتا جب تک شمالی جنوبی ہوائیں چلتی رہتیں تمہیں کھبی طلب نہ کرتا (نہج البلاغہ خطبہ ١١٧)۔۔۔

دوستو!
ذرا غور فرمائیں یہ جنگ سے منہ موڑ کر عثمان کی طرح آپ کے قتل پر آمادہ وہی بیس ہزار تو نہیں جو بار بار کہتے تھے ہم سب قاتل عثمان ہیں معاویہ ہم سے بدلہ لے لے۔۔۔ کیا ان کا ایک بھی نہ مرا؟؟؟۔۔۔ کیسے خناس ہیں سوئے ہوئے ١٢ ہزار بصریوں کو کاٹا اب لاکھ بھر لشکر بڑے طمطراق سے لائے پچاس ہزار نیک تابعداران علی ایک ہی جنگ میں شامیوں کے آگے سلادیئے اللہ ہی جنگ کے پانسے بدلتا ہے اب علی رضی اللہ عنہ کی جان کے درپے ہیں (معاذ اللہ)۔۔۔

اب نہج البلاغہ عام تاریخ اورکتب سبائیہ یہی رونا روتی ہیں کہ آپ نے جو قدم بھی اٹھایا یاالٹا پڑا بڑا نقصان ہوا سب سے مقبوضہ علاقے آپ کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے ان بلوائیوں کی نکتہ چینی اور چغل خوری سے قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جیسے بہترین مدبر (اللہ کی اس پر ہزار ہزار رحمتیں ہوں) کو ہٹنے سے مصر گیا پھر حجاز ویمن بھی گئے آپ کے بہترین مدبر وجرنیل دست بازو چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بصرہ کی گورنری سے علیحدہ ہوگئے ایک صاع تین کلو گندم بیت المال سے مانگنے کا الزام لگا کر آپ کے بڑے بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب کو معاویہ کے پاس بھیجدیا (فوااسفا)۔۔۔ (کیونکہ یہ مومن دربار مرتضوی میں کسی کو نہیں ٹکنے دیتے) چونکہ ان کے اصرار پر آپ نے تحکیم قبول کی کہ تحکمین مجھے اور معاویہ کو حکومت پر برقرار رکھیں یا معزول کریں سب منظور ہے تو دس ہزار جنگجو سپاہی آپ سے الگ ہوگئے اور خارجی کہلائے تو آپ تو (ہمارے عقیدہ میں) منصوص من اللہ امام ہیں۔۔۔ جو اب بھی فرقہ خاصہ کا عقیدہ ہے آپ کو خدا نے حکومت دی ہے تحکمین آپ کو معزول نہیں کرسکتے۔۔۔

ان الحکم الا اللہ (حکومت صرف اللہ کے دینے سے ملتی ہے) کا یہی مطلب ہے جو ابن سبا نے آپ کے اس لشکر کو سکھایا تھا آپ نے ان سے کامیاب جنگ نہروان میں لڑی جس کی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی۔۔۔۔

مفتی جعفر حسین بھی صفین میں فتح نہ پانے پر حضرت علی کے لشکر کے ایمان وکردار پر یوں حملہ کیا۔۔۔

١۔ کچھ لوگ جنگ کی طولانی مدت سے اکتا کر جی چھوڑ بیٹھے تھے اب ان کو جنگ رکوانے کا حیلہ مل گیا۔۔۔
٢۔کچھ لوگ حضرت کے اقتدار سے متاثر ہوکر ساتھ ہوگئے مگر دل سے ان کے ہمنوا تھے آپکی فتح وکامرانی نہ چاہتے تھے (دلوں کا حال یہ اللہ سے بہتر جانتا ہے رافضی)۔۔۔
٣۔ کچھ دوہ تھے کہ ان کی توقعات معاویہ سے وابسطہ تھیں۔۔۔
٤۔ کچھ پہلے سے اس سے ساز باز کئے ہوئے تھے
(ترجمہ نہچ البلاغہ صفحہ ٥٨٤) بالکل جھوٹ ہے ورنہ معاویہ سے پہلے مل جاتے کیا یہ بلوائی ہی قاتل عمار رضی اللہ عنہ تو نہیں ہے ؟؟؟۔۔۔ وہ سبائی باغی ٹولہ جو عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل زبیر وطلحہ رضی اللہ عنھما کا قاتل اور اب علی رضی اللہ عنہ کو بھی قتل کرنا چاہتا ہے تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کا قاتل اور باغی کیوں نہیں ہوسکتا؟؟؟۔۔۔۔

یہ مفاد پرست رافضی ٹولہ اپنے نام نہاد مومن حبداروں کی مٹی خود پلید کریں تو اچھا کام ٹھہرے اور ہم ان دشمنان صحابہ کو برا ثابت کریں تو غلط کیوں ہوں؟؟؟۔۔۔


واللہ تعالٰی اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔

ان شاء اللہ مروان پر بھی اعتراض کا جواب جلد ہی منظرعام پر آنے والا ہے۔۔۔
 

khurram

رکن
شمولیت
اکتوبر 19، 2011
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
99
پوائنٹ
63
usman r,a, ko qatl krwany walay marwan and muavia thy.
لعنت ہے اس شخص پر جو اصحاب رسول کو گالیاں دیتا ہے اور ان کی توہین کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
(١)(٢) اس حدیث میں کس جگہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام لکھا ہوا ہے ۔۔۔۔ بلکہ یہاں تو ان کی جماعت تک کا ذکر نہیں ہے ۔ حدیث میں کسی کی تعیین نہیں ہے ۔۔۔۔ کہیں کی اینٹ اورکہیں کا روڑا لے کر بھان متی کی طرح کنبہ جوڑنا یہ اعداء صحابہ کرام کا ہی نصیب ہے ۔ آج کل تو مزید آگ پر چلنے کی وجہ سے دماغ ابالے کھا رہا ہوگا ۔۔۔ ایک طرف آگ کی حرارت اور دوسری طرف بغض صحابہ ۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کا مل کر یہ اثر کرنا کوئی حیرانگی والی بات نہیں ہے ۔
ایک اور بات جن صحابہ کرام کی روایات کو توڑ مروڑ کر آپ اپنے حقد دفین کی ٹھنڈک کا سامان کرنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں کیا وہ آپ کے نزدیک اس قابل ہیں کہ ان کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے ؟
(٣) سب سے بڑے باغی تو وہ تھے جنہوں نے خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان کو نا حق قتل کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد سب کے سب حضرت علی کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس طرح نعوذ باللہ حضرت علی کی توہین کا جواز نکالا جا سکتا ہے ؟
حضرت علی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف شروع ہونے کا بنیادی سبب ہی یہ تھا کہ قاتلین عثمان نے حضرت علی کی جھوٹی بیعت کرکے ان کے ہاں پنا ہ لی ہوئی تھی اور حضر ت معاویہ ان کو کیفرکر دار تک پہنچانا چاہتے تھے ۔۔۔
آپ کی منطق کے مطابق حضرت معاویہ کا باغیوں ( قاتلین عثمان ) سے انتقام لینے کے لیے حضرت علی سے اختلاف کرنا جائز ہے ؟ کیا قاتلین عثمان باغی نہیں تھے ؟ کیا وہ حضرت علی کے لشکر میں شامل نہیں تھے ؟
حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے تھے ۔۔ حضرت حسن نے ایک باغی جماعت کے امیر کے حق میں خلافت سے تنازل کرنا جرح کیوں نہیں ہے ؟
اسی واقعہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ نے ان الفاظ میں پیشین گوئی فرمائی تھی :
( إنَّ ابنِي هذا سيدٌ ، ولعَلَ اللهَ أنْ يُصْلِحَ بهِ بينَ فِئَتَينِ عَظِيمَتَينِ من المسلمينَ )
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کو عظیم مسلمان جماعتیں قرار دیا ہے ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
امام ابن تیمیہ نے مسند اسحٰق بن راہویہ سے باسند اس روایت کو بالفاظ نقل کیا ہے۔۔۔
سفیان عن جعفر بن محمد عن ابیہ قال سمع علی رضی اللہ عنہ یوم الجمل ویوم الصفین رجلا یغلو فی القول فقال لا تقولوا الاخیرا انما ھم قوم زعمو انا بغینا علیھم وزعمنا انھ بغوا علینا فقاتلناھم۔۔۔

١۔ تاریخ ابن عساکر کامل، جلد اول صفحہ ٢٢٩ طبع دمشق سن طباعت ١٣٧١ھ۔
٢۔ تہذیب ابن عساکرلابن بدران جلد ١ صفحہ ٧٣ باب ماورد من اقوال المنصفین فیمن قتل من اہل الشام بصفین۔
٣۔ منہاج السنہ لابن تیمیہ جلد ٣ صفحہ ٦١۔
٤۔ المنتقی للذھبی صفحہ ٣٣٥ طبع مصر سن طباعت ١٣٧٤ھ۔


اب میں اس مطلب کو شیعہ بزرگوں کی روایت کے ذریعہ پختہ کردوں۔۔۔ سلفی اور رافضی احباب دونوں فریق کو اس مسئلہ پر غور وخوض کرنے کا موقع دستیاب ہوجائے گا۔۔۔

امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے امام محمد باقر رحمہ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ محمد باقر فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے اہل حرب (جن سے ان کو قتال کا سامنا ہوا) کے حق میں فرماتے تھے کہ ہم ان سے ان کی تکفیر کی بناء پر نہیں قتال کررہے اور نہ اس اس وجہ سے قتال کررہے ہیں کہ وہ ہماری تکفیر کرتے ہیں (یہ بات نہیں ہے) بلکہ بات یہ ہے ہم کہتے ہیں کہ یقینا ہم حق پر ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ یقینا وہ حق پر ہیں۔۔۔

جعفر عن ابیہ ان علیا علیہ السلام کان یقول لال حربہ انالم تقاتلھم علی التکفیر لھم ولم تقاتلھم علی التکفیر لنا ولکنار اینا انا علی حق وراوا انھم علی حق۔ (قرب الاسناد بعبداللہ بن جعفرالحمیری الشیعی بمع رسائل دیگر ازعلماء القرن الثالث صفحہ ٤٥ طبع ایران قدیمی طبع)۔۔۔
یہ تو مولا علی علیہ السلام کا اخلاق حسنا ہے لیکن اس کے برعکس معاویہ بن ابی سفیان کا کردار بھی آپ کے گوش گذار کرچکا کہ وہ مولا علی علیہ السلام سے ان کے وصال کے بعد بھی بغض رکھتے تھے اور دوسرے صحابہ کے سامنے مولا علی علیہ السلام کو برا بھلا کہتے تھے جس پر صحابہ معاویہ سے ناراض ہوجاتے تھے اب آپ اس چیز پر نظر نہیں ڈالتے کہ مولا علی علیہ السلام سے بغض سوائے منافق کے کوئی نہیں رکھ سکتا یہ فرمان مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے ۔۔۔غور کریں
والسلام
 
Top