جہاں تک صفین کے لوگوں کا حال ھے، وہ ظاہری طور پر باغی تھے جیسا کہ رسول اللہ نے عمار سے کہا تھا کہ تم کو باغی گروہ ہلاک کرے گا، اور اس زمن میں یہی مطلوب ھے۔ اور معاویہ علی سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا
بہرام بھائی۔۔۔ یہ جو آپ بار بار عمار رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث پیش کرتے ہیں ذرا یہ بتانا پسند کریں گے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کس موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے کہ تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔۔۔ (مجھے انتظار رہے گا)۔۔۔
اور دوسرا الزام ملاحظہ کیجئے۔
اور معاویہ علی سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل عثمان کی بات اس لئے کی کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اُن کی پناہ میں تھے۔۔۔ جنہوں نے یہ شرط لگادی تھی کہ پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اُنکے والد کے قتل کا اُن بلوائیوں سے بدلہ لیا جائے پھر ہم سے بیعت کی بات کی جائے۔۔۔یعنی بلوائیوں کی طرف سے شام پر چڑھائی کی تیاریاں تو جنگ جمل سے پہلے ہورہی تھیں مگر یہ حادثہ پیش آگیا۔۔۔ اب بلوائیوں کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔۔۔
یہ لشکر شام کے شہر حلب کے مشرقی کنارے دریائے فرات کے پاس میدان میں خیمہ زن ہوا تاکہ بیعت نہ کرنے اور معزولی امارت کا حکم نہ ماننے اورقصاص کا مطالبہ کرنے والے امیر شام کو اطاعت کا سبق سکھایا جائے۔۔۔
طبری کا بیان ہے کہ عدن بن حاتم یزید بن قیس ارحبی شیث بن ربعی زیاد بن حفصہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے آپ کے فضائل بیان کئے اور جماعت سے ملنے کی دعوت دی پھر دھمکی دی۔۔۔
یا معاویۃ لایصبک اللہ اواصحابک بیوم مثل یوم الجمل فقال معایہ کانک انما جئت متھددا لم تات مصلحا الخ۔۔۔
اے معاویہ خدا تجھے وہی عذاب نہ دے جو جمل والوں کو ملا امیر معاویہ رضی اللہ عہ نے کہا تم تو دھمکی دینے آئے ہو صلح کرناے نہیں تم ہی تو عثمان پر حملہ آور تھے۔۔۔
(نہج البلاغہ صفحہ ٣٥٦)۔۔۔
کاش یہ سفارتی دعوت خود بلوائی نہ دیتے بلکہ حضرت ابن عباس ابو ایوب انصاری جیسے معتدال اکابر صحابہ اکابر صحابہ دیتے تو معاویہ رضی اللہ عنہ کو قائل کرلیتے اب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اللہ کی تعریف بیان کرنے کے بعد جواب میں کہتے ہیں کہ تم اطاعت وجماعت کی دعوت دینے آئے ہو۔۔۔ جماعت تو ہمارے پاس بھی ہے رہی تمہارے ساتھی کی اطاعت تو ہم نہیں کرتے کیونکہ اس نے ہمارے خلیفہ کو قتل کیا
(غلط فہمی ہے جضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہج البلاغہ میں ترید کی ہے ونحن منہ برآء) ہماری جماعت (مسلمین) کو متفرق کیا ہم پر حملہ آوروں اور عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو پناہ دی
اگر اُن کا یہ خیال ہے کہ وہ قاتل نہیں تو ہم آپ کو قاتل نہیں کہتے مگر یہ تو بتاؤ قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ تم جیسے لوگ ہیں تم ان کو جانتے ہو کہ وہی تمہارے ساتھی کے لشکری ہیں اور وہ قاتل ہمارے حوالے کردے کہ ان کو ہم بدلے میں قتل کردیں پھر ہم تمہاری اطاعت کرکے جماعت میں مل جائیں شبن کہنے لگا اے معاویہ کیا تجھے پسند ہے تو موقع پائے تو عمار کو بھی بدلہ میں قتل کرے [/
(الخ طبری جلد ٤ صفحہ ٢-٣)۔۔۔
اب اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور مسلمانوں کے دشمن، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو بھی قاتل عثمان اور مجرم بتا کر اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں ورنہ عمار قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے بری ہیں ان کے قاتل یہی سبائی ہیں کوئی اور نہیں۔۔۔ مطالبہ قصاص میں بلوائیوں کی صاف موت تھی اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے لشکر ہرگز نہ مان سکتے۔۔۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے موقف سے اس لئے نہ ہٹ سکتے تھے کے قتل عثمان سے چندہ ماہ پہلے ہی بلوائیوں نے آپ کو بھی دھمکی دی تھی تم نے شام میں ہمیں اپنا مشن (بغاوت عثمان) نہ چلانے دیا اور ہماری حکومت آنے والی ہے ہم تم سے نمٹیں گے (طبری حالات ٣٥ ہجری)۔۔۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر آیت بغاوت پڑھنے والے حضرات ان سبائیوں پر بھی پڑھ دیا کریں کیونکہ پہل انہوں نے کی اب اللہ کا قانون وہ نہیں چلنے
فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ
پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو جب تک وہ اللہ کے قانون کی طرف لوٹ نہ آئے اگر لوٹ آئے تو انصاف سے صلح کروالو اللہ انصاف کو پسندکرتا ہے۔۔۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی یہ دھمکی بھولی نہ تھی اب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بیعت تو بعد میں ہوتی مگر بلوائی معاویہ رضی اللہ عنہ کا سر اپنے ہی گھر میں پہلے قلم کردیتے حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنھم اُن کے سامنے تھا اس لئے بلوائیوں کے آگے سرجھکانے کی غلطی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہیں کی۔۔۔ بس! یہ ہی وہ جرم ہے کہ بلوائی نمایابلوائی نواز مورخ آپ کو باغی لکھتا آرہا ہے اور اُسے ہمارے بعض مؤرخین ومؤلفین اپنی کتابوں میں درج کرتے آرہے ہیں۔۔۔
ہر زی شعور اب غور کرے کہ اگر معزول ہوکر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کی بیعت کرکے مسلمانوں سے مل بھی جاتے تو کیابلوائی خوش ہوجاتے؟؟؟۔۔۔ اور قاتل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیتے اور آپ بدلہ لے کر مسلمانوں کو ایک اُمت بنالیتے؟؟؟۔۔۔یا خود آپ کے لشکر میں پھوٹ پڑجاتی جیسے تحکیم کے وقت پڑی؟؟؟۔۔۔ کیا یہ حقیقت نہیں کے بیعت ہو یا انکاری ان بلوائیوں رافضیوں کا مقصد صرف مسلمانوں کو باہم لڑانا تھا؟؟؟۔۔۔
تاریخ بتاتی ہے کے عراق کے جو سفیر بھی شام میں صلح کے لئے بھیجا گیا وہ معقول طریقے سے بات نہ کرتا بس صرف برا بھلا کہتا تلوار دکھاتا اور معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اُس کو تلوار دکھا کر باعزت وامن واپس پردیتے اور کوئی صحابی بزرگ معقول بات کرے تو کیا معاویہ رضی اللہ عنہ یہی کہتے؟؟؟۔۔۔ کہ میں بعیت کرتا ہوں آپ ان سے بدلہ دلوائیں چنانچہ حضرت ابوالدرداء، ابو امامہ باھلی، جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنھم جب بھی پیغام لے کر آئے تو ١٠ ہزار ٢٠ ہزار آپ کے لشکری یہ نعرے لگا کر کھڑے ہوجاتے کے ہم سب قاتل عثمان رضی اللہ عنہ ہیں معاویہ ہم سے بدلہ لے لے اس لئے یہ صحابہ کسی کے ساتھ شریک نہ ہوئے (البدایہ والنھایہ جلد ٧ صفحہ ٢٥٤)
طبری ابن اثیر ابن خلدون سیر الصحابہ وغیرھا پر اشترنخعی کا حضرت جریر بجلی کو بار بار ڈانٹنا بےعزتی کرنا حتی کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس محسن گورنر کا آپ سے الگ ہوجانا لکھا ہے۔۔۔
ان متضاد نظریات اور بلوائیوں کی سازش سے صلح وصفائی نہ ہوسکنے کی وجہ سے جنگ ناگزیر ہوگئی پانچ ماہ تک مسلمان ایک دوسرے کے خون کا بہت احترام کرے معمولی جھڑپیں ہوتیں خاص بہادر مبارزت کے جوہر دکھاتے جنازے اکھٹے پڑھتے ایک دوسرے کے دسترخوان پر کھانا کھاتے اور ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے پھر محرم ٣٧ھ میں جنگ بندی کردی پھر صفر میں آغاز ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا سب لشکر جمع کر کے جہاد پر خوب تقریر فرمائی اور
لیلۃ الھریر میں خوفناک جنگ شروع ہوگئی۔۔۔ شامی بصریوں کی طرح بےفرک سوئے ہوئے نہ تھے بلکہ وہ حملہ کے منتظر اور جواب پر تیار تھے ہائے افسوس کشتوں کے پشتے لگ گئے جگہ جگہ خون کے سیلاب لاشوں کو بہالے جارہے تھے منٰی میں قربانیوں کا سامنظر تھا تقریبا سترہزار نفوس کام آئے
(انا اللہ وانا الیہ راجعون)۔۔۔
بقول مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ صحابہ کو نظر لگ گئی۔۔۔ اگرچہ فریقین میں ان کی تعداد بہت کم تھی۔۔۔
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں۔۔۔
امام احمد بن حنبل امام محمد بن سیرین سے ناقل ہیں کے (خلافت علوی میں) فتنے اٹھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دسیوں ہزار صحابہ زندہ تھے مگر ان جنگوں میں ایک سو بھی شریک نہ ہوا بلکہ تیس تک بھی ان کی تعداد نہیں پہنچی بروایت ابن بطہ ازبکیربن الاشج کے حوالہ سے لکھا ہے کے بدری صحابہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد گھروں سے چمٹ بیٹھے پھر (چند کے سوا) قبروں کی طرف ہی نکلے
(البدیہ والنھایہ جلد ٧ صفحہ ٢٥٤)۔۔۔
تاریخ بتاتی ہے کہ شامی لشکر چالیس ہزار تھا مرکزی عراقی نوے ہزار تھا دونوں آدھے آدھے کٹ گئے کسی کی فتح واضح نہ ہوسکی۔۔۔ بروایت بہقی۔۔۔
البدایہ والنھایہ جلد ٧ صفحہ ٢٧٥
پر شامی ساٹھ ہزار تھے اور عراقی ایک لاکھ بیس ہزار تھے عراقی چالیس ہزار اور شامی بیس ہزار شہید ہوئے
لہذا اس جنگ میں اتنے عظیم نقصان کو صحابہ کرام اپنے دین کے خلاف جاننے لگے۔۔۔
بخاری ومسلم میں ہے!
کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گورنر سھل بن حنیف نے واپس آکر کہا اتھمواالراٰ اے لوگوں دین میں اپنی رائے پر تمہت لگاؤ (یعنی اس مسلم کشی کو کارثواب نہ جانو) میں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر ابو جندل کو (بیڑیوں) میں دیکھا اگر قادر ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو واپس کرتا۔۔۔ اللہ کی قسم جب سے ہم مسلمان ہوئے جس کام کے لئے بھی اپنی گردنوں پر تلواریں اٹھائیں اُسے آسان کردیا سوائے اس جنگ کے کہ ایک جانت سے ہم سوراخ بند کرتے ہیں تو دوسری سمت کھل جاتا ہے ہم نہیں جانتے اس کا کیا علاج کریں؟؟؟۔۔۔
(رواہ بخاری جلد ٢ صفحہ ٦٠٢)۔۔۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جنگ نہروان میں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف فرمائی تھی
یقاتلھم اولھم بالحق کہ ان خارجیوں (علی کی جماعت سے نکل کر خود آپ پر حملہ آور عثمان کے قاتلوں مصری عراقی بلوائیوں) سے جنگ لڑے گا وہ حق کے زیادہ قریب ہوگا(بخاری)۔۔۔
مگر جمل وصفین لڑنے کی کسی حدیث مرفوع میں تعریف نہیں ہے تمام محدثین نے ان کو کتاب الفتن میں درج کرکے محمد بن مسلمہ جیسے جنگ سے بچنے والوں کی خوب تعریف روایت کی ہے اور فرمایا کہ!۔
مسلمانوں کے دو بڑے لشکر آپس میں لڑیں گے تو دونوں کا دعوٰی ایک ہوگا (اتباع امام اور اجراء قانون الٰہی) اس میں کھڑے ہونے والا چلنے والے سے بیٹھا ہوا کھڑے سے بہتر ہوگا (یعنی قتل مسلمان سے بچنا ہی سب سے بڑی نیکی ہے) اسی لئے اپنے ریحانہ حسن المجتبٰی کو سردار کہا کہ اللہ اسکے ذریعے دو بڑے لشکروں میں صلح کرائے گا
(بخاری ومسلم، ابو داؤد کتاب الفتین)۔۔۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بھی حسن کے ساتھ گود میں بیٹھاکر اسی لئے فرمایا تھا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے اور ان کی محبت (واتباع) کرنے والوں سے محبت کر (صحیحین)۔۔۔ جبکہ اسامہ نے کہا تھا آپ مجھے چیتے کے منہ میں ڈال دیں منظور ہے مگر مسلمان کے خلاف تلوار نہیں اٹھاؤں گا۔۔۔
قاضی نور اللہ شوستری نے جس کو ہمایوں دور میں ہندوستان میں رفض پھیلانے کے لئے صفوی حکمرانوں نے ایران سے بھیجا تھا مجالس المومنین میں لکھا ہے۔۔۔ ملاحظہ کیجئے۔۔۔
گرد علی درصفین فتح نیافت پیغمبر ہم درحنین فتح نیافت(معاذ اللہ)۔۔۔
رفض نما مورخ لکھتے ہیں۔۔۔ کہ شامی شکست کے قریب تھے مگر انہوں نے نیزوں پر قرآن اٹھا کر جنگ بند کرادی اور عراقیوں میں پھوٹ پڑگئی حقیقت یہ ہے کہ شکست کے قریب ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ قتل عام روکنے کے لئے ٹیلے پر چڑھ کر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے کہا کون کس پر حکومت کرے گا عمرو! جنگ بند کراؤ ان کی تدبیر سے جنگ بند ہوئی حضرت علی نے عراقیوں کو ہزار سمجھایا کہ یہ جنگی چال ہے تم فتح پانے تک لڑے رہو۔۔۔
مگر آپ کا فرمانبردار لشکر تو تقریبا پچاس ہزار شہید ہوچکا تھا اب نیکوں کو جنگ کی آگ میں مسلیوں کی طرح آگے پھینکنے والے سبائی لیڈروں کو اپنی موت صاف نظر آرہی تھی ایسے بیس ہزار مومن بولے اے علی ہمیں جنگ پر آمادہ نہ کر۔۔۔۔۔۔ ہم آپ کا وہی حشر کریں گے جو عثمان کا کیا تھا آپ فورا جنگ ختم کریں۔۔۔ اگر مالک (اشترنخعی) نے آنے میں تاخیر کی تو پھر اپنی جان سے ہاتھ دھولیں
(ترجمہ نہج البلاغہ از جعفرحسین (طبری) جلد ٤ صفحہ ٣٤ پر ہے اور نفعل کما فعلنا بابن عفان یا ہم تجھے اسی طرح قتل کریں گے جیسے عثمان بن عفان کو کیا
(معاذ اللہ)،،،
اب پورے ١٤ ماہ بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے دوست نما دشمن (عمثان کے قاتل باغیوں) کا حال معلوم ہوا تو با بار یوں دعائیں دیں تمہیں ہدایت کی توفیق نہ ہو نہ سیدھی راہ دیکھنا نصیب ہو کاش تمہیں (نہ دیکھا ہوتا) چھوڑ کر کہیں چلا جاتا جب تک شمالی جنوبی ہوائیں چلتی رہتیں تمہیں کھبی طلب نہ کرتا (نہج البلاغہ خطبہ ١١٧)۔۔۔
دوستو!
ذرا غور فرمائیں یہ جنگ سے منہ موڑ کر عثمان کی طرح آپ کے قتل پر آمادہ وہی بیس ہزار تو نہیں جو بار بار کہتے تھے ہم سب قاتل عثمان ہیں معاویہ ہم سے بدلہ لے لے۔۔۔ کیا ان کا ایک بھی نہ مرا؟؟؟۔۔۔ کیسے خناس ہیں سوئے ہوئے ١٢ ہزار بصریوں کو کاٹا اب لاکھ بھر لشکر بڑے طمطراق سے لائے پچاس ہزار نیک تابعداران علی ایک ہی جنگ میں شامیوں کے آگے سلادیئے اللہ ہی جنگ کے پانسے بدلتا ہے اب علی رضی اللہ عنہ کی جان کے درپے ہیں
(معاذ اللہ)۔۔۔
اب نہج البلاغہ عام تاریخ اورکتب سبائیہ یہی رونا روتی ہیں کہ آپ نے جو قدم بھی اٹھایا یاالٹا پڑا بڑا نقصان ہوا سب سے مقبوضہ علاقے آپ کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے ان بلوائیوں کی نکتہ چینی اور چغل خوری سے قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جیسے بہترین مدبر (اللہ کی اس پر ہزار ہزار رحمتیں ہوں) کو ہٹنے سے مصر گیا پھر حجاز ویمن بھی گئے آپ کے بہترین مدبر وجرنیل دست بازو چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بصرہ کی گورنری سے علیحدہ ہوگئے ایک صاع تین کلو گندم بیت المال سے مانگنے کا الزام لگا کر آپ کے بڑے بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب کو معاویہ کے پاس بھیجدیا (فوااسفا)۔۔۔ (کیونکہ یہ مومن دربار مرتضوی میں کسی کو نہیں ٹکنے دیتے) چونکہ ان کے اصرار پر آپ نے تحکیم قبول کی کہ تحکمین مجھے اور معاویہ کو حکومت پر برقرار رکھیں یا معزول کریں سب منظور ہے تو دس ہزار جنگجو سپاہی آپ سے الگ ہوگئے اور خارجی کہلائے تو آپ تو (ہمارے عقیدہ میں) منصوص من اللہ امام ہیں۔۔۔ جو اب بھی فرقہ خاصہ کا عقیدہ ہے آپ کو خدا نے حکومت دی ہے تحکمین آپ کو معزول نہیں کرسکتے۔۔۔
ان الحکم الا اللہ (حکومت صرف اللہ کے دینے سے ملتی ہے) کا یہی مطلب ہے جو ابن سبا نے آپ کے اس لشکر کو سکھایا تھا آپ نے ان سے کامیاب جنگ نہروان میں لڑی جس کی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی۔۔۔۔
مفتی جعفر حسین بھی صفین میں فتح نہ پانے پر حضرت علی کے لشکر کے ایمان وکردار پر یوں حملہ کیا۔۔۔
١۔ کچھ لوگ جنگ کی طولانی مدت سے اکتا کر جی چھوڑ بیٹھے تھے اب ان کو جنگ رکوانے کا حیلہ مل گیا۔۔۔
٢۔کچھ لوگ حضرت کے اقتدار سے متاثر ہوکر ساتھ ہوگئے مگر دل سے ان کے ہمنوا تھے آپکی فتح وکامرانی نہ چاہتے تھے (دلوں کا حال یہ اللہ سے بہتر جانتا ہے رافضی)۔۔۔
٣۔ کچھ دوہ تھے کہ ان کی توقعات معاویہ سے وابسطہ تھیں۔۔۔
٤۔ کچھ پہلے سے اس سے ساز باز کئے ہوئے تھے
(ترجمہ نہچ البلاغہ صفحہ ٥٨٤) بالکل جھوٹ ہے ورنہ معاویہ سے پہلے مل جاتے کیا یہ بلوائی ہی قاتل عمار رضی اللہ عنہ تو نہیں ہے ؟؟؟۔۔۔ وہ سبائی باغی ٹولہ جو عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل زبیر وطلحہ رضی اللہ عنھما کا قاتل اور اب علی رضی اللہ عنہ کو بھی قتل کرنا چاہتا ہے تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کا قاتل اور باغی کیوں نہیں ہوسکتا؟؟؟۔۔۔۔
یہ مفاد پرست رافضی ٹولہ اپنے نام نہاد مومن حبداروں کی مٹی خود پلید کریں تو اچھا کام ٹھہرے اور ہم ان دشمنان صحابہ کو برا ثابت کریں تو غلط کیوں ہوں؟؟؟۔۔۔
واللہ تعالٰی اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔
ان شاء اللہ مروان پر بھی اعتراض کا جواب جلد ہی منظرعام پر آنے والا ہے۔۔۔