فاطمہ علیہ السلام کے لئے علیہ السلام کے الفاط پر دلیل سنی کتب سے
بہرام بھائی۔۔۔ بہت بہت شکریہ۔۔۔
جو آپ نے حوالے پیش کئے۔۔۔ اپنی بات کے آغاز سے پہلے میں آپ کو ایک بڑی دلچسپ بات بتاتا ہوں۔۔۔ اردو فورم کے حوالے ایک نہایت ہی قابل احترام اور معروف شخصیت جو کسی تعرف کی محتاج نہیں ہیں مجھے آج صبح ہی ذاتی پیغام میں، مجھے اپنی تحقیق کے حوالے سے معلومات فراہم پہنچائیں۔۔۔
ملاحظہ کیجئے!۔
یہ مسئلہ صرف آج کے علماء و محدثین نے رافضیت کی مخالفت میں اٹھایا ہوا ہے۔ جبکہ یہ کوئی بنیادی اصولی اور دینی مسئلہ نہیں ہے۔ ہاں ہم اختلاف کر سکتے ہیں ، وہ الگ بات ہے۔
کیونکہ ائمہ متقدمین نے بھی اکثر و بیشتر اہل بیت کو علیہ السلام لکھا اور بولا ہے۔ بطور خاص امام بخاری علیہ الرحمۃ نے بھی۔ خاص طور پر اگر صحیح بخاری کی عربی کتاب (آن لائن نہیں بلکہ اوریجنل پرنٹیڈ ورژن) دیکھ لی جائے تو وہاں حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کے نام کے آگے علیہ السلام ہی لکھا ملے گا میرا ذاتی خیال ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر رافضیوں سے الجھنے کے بجائے ان کے متنازعہ بنیادی عقائد کو۔۔۔۔۔ الخ)
اس پر میں نے اپنا موقف پیش کیا۔۔۔ملاحظہ کیجئے۔۔۔
اس پوری بحث میں جو ہم دو فریق کے درمیان چل رہی ہے۔۔۔ اس پورے بحث ومباحثے میں جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کے ان دونوں فریقوں کے بنیادی عقائد کی ابتداء ہی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔ جس کی طرف ہماری نظر تو ہے لیکن آپ وہاں سے نظریں چراتے ہیں۔۔۔ اب وہ کیسے پتہ چلے گی تو اس کے لئے میں ایک سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔۔۔
حافظ ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراھیم بن مغیرۃ بخاری کی جمع کی ہوئی احادیث میں جو علیہ السلام کی دلیل میں پیش کی جارہی ہیں۔۔۔ کے حوالے سے یہ بتائیں کے کیا اُن کا عقیدہ آج کے رافضوں جیسا تھا؟؟؟۔۔۔ کیا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جب اہل بیت کو علیہ السلام لکھتے تھے تو اس بناء پر کے وہ بھی روافض کے عقیدے کی نمائندگی کرنے کی بناء پر اہل بیت علیہ السلام کو معصوم مانتے تھے؟؟؟۔۔۔ یا اِن رافضیوں کے عقیدہ امامت کے قائل تھے؟؟؟ یا پھر رافضی کلمہ جو شیعان علی رضی اللہ تعالٰی عنہ پڑھتے ہیں پر راضی تھے؟؟؟۔۔۔ یا نماز کے طریقے اور اذان کے کلمات سے متفق تھے؟؟؟۔۔۔ یا ادائیگی طریقہ زکات پر امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ رافضی عقیدے کے حامی ہیں؟؟؟۔۔۔ یار اُم عائشہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو درست مانتے تھے؟؟؟۔۔۔ اگر آپ (بہرام) ابوعبداللہ سے اُن کا یہ عقیدہ ثابت کردیں تو ہمارا اعتراض رفع ہوجائے گا۔۔۔
لیکن اگر آپ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔۔۔ تو پھر یہ ہی سمجھا جائے گا کے اس طرح کی روایات کو امام بخاری سے لینے کا مقصد اُمت میں فتنہ وفساد برپا کرنا آپکی خالص نیت ہے۔۔۔ اور آپ اپنے ناپاک عزائم بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کے مجرمانہ عقائد کو درست ثابت کرنے کے لئے حب اہل بیت کے لبادے میں چھپ کر اُمت کے بھولے بھالے اور کم علم افراد کو گمراہی کی راہ پر ڈالنے کا سنگین جرم کرر رہے صرف اپنی بقاء کے لئے لیکن اُن سب کا فائدہ کیا ہوگا؟؟؟۔۔۔ یہ ایک بہت سنجیدہ سوال ہے؟؟؟۔۔۔ قتل وغارتگری۔۔۔ جو ہورہی ہے۔۔۔
لیکن اس قتل وغارتگری کا بازار سجایا کس نے ہے؟؟؟۔۔۔ پہلے ہم آپ کو اپنے کوٹ میں کھلا رہے تھے۔۔۔ لیکن اب وقت آگیا ہے ہم ایک ایسا شارٹ کھیلیں جس سے بازی پلٹے اور کھیل آپ کے کورٹ میں کھیلاجائے۔۔۔ یقین کیجئے میں کبھی نہیں چاہتا تھا کے نوبت یہاں تک آئے۔۔۔ لیکن ظاہر کے آپ مجھے یہاں تک لائے ہیں تو اب یہ میری مجبوری ہے کے میں بھی کچھ حقائق کو آپ کی کتابوں سے یہاں پر پیش کروں۔۔۔ ملاحظہ کیجئے۔۔۔
اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان عالیسان ہے!۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ۡ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ ٻوَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل (اے دیکھنے والے) تو انکو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے!۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ نے اپنے دور خلافت میں اور دارالخلافہ کوفہ میں خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ لوگو!۔ بےشک اُمت میں سب سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں تیسرے کا نام لینا چاہوں تو لے سکتا ہوں اور آپ سے مروی یہ بھی مروی ہے کہ منبر سے اترتے ہوئے فرمایا پھر عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ پھر عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ
(البدایۃ والنہایۃ جلد ٨ صفحہ ١٣)۔۔۔
رافضی عقائد پر ایک طائرانہ نظر!۔
١۔ عقیدہ امامت، شیعت کی اصل بنیاد ہے، اس عقیدہ امامت کا موجد عبداللہ بن سبا یہودی تھا، جو عقیدہ امامت ختم نبوت کے منافی ہے۔
رافضیت عقائد کی کتابوں میں عقیدہ امامت کا نمبر پانچواں ہے جس کی ترتیب یہ ہے۔۔۔
١۔ توحید۔
٢۔ نبوت۔
٣۔ معاد۔
٤۔ عدل۔
٥۔ امامت۔
عدل سے مراد عدل خداوندی ہے۔۔۔
اگرچہ رافضی حضرات، عقائد کی ترتیب میں اس کو پانچویں نمبر پر بیان کرتے ہیں لیکن ان کی تحریروں سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ اسی عقیدے کو اپنے مذہب کی اصل بنیاد سمجھتے ہیں شیخ حلی جن کی تحریر کا آنجناب نے حوالہ زیب رقم کیا ہے وہ اپنے رسال منہاج الکرامہ کا آغآز ان الفاظ سے فرماتے ہیں۔۔۔
امام بعد فھذہ رسالۃ شریفۃ ومقالۃ لطیفۃ اشتملت علی اھم المطلب فی احکام الدین، واشرف مسائل المسلمین، وھی مسئلہ الامامۃ، التی یحصل بسبب ادراکھانیل درجۃ الکرامۃ، وھی احد ارکان من غضب الرحمن، فقد قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ۔
چونکہ خدا عادل وحکیم ہے لطف اس کے ذمہ لازم وضروری ہے اور بندوں کے حق میں جو چیز انفع واصلح ہو وہ اللہ پر واجب ہے (یہ دعدل خداوندی کی تفسیر ہوئی) لہذا ناممکن تھا کے خدا تعالٰی کی زمین معصوموں سے خالی ہوتی، ورنہ ظلم وجور لازم آتا اور خدا غیر عادل ٹھہرتا لامحالہ اللہ تعالٰی کو سلسلہ نبوت جاری کرنا پڑا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چونکہ سلسلہ نبوت بند کردیا گیا لامحالہ اللہ تعالٰی کو سلسلہ امامت کا جاری کرنا ناگزیر ہوا۔
گویا!۔
لطف وعدل کا عقیدہ، تمہید نبوت ہے اور نبوت، تمہید امامت۔۔۔ ان تمام مطالب میں اہم المطالب بس امامت ہے۔۔۔
رافضیوں نے ان بزرگوں سے جن کو امام معصوم کہا جاتا ہے اس مضمون کی روایت بھی بڑی فراوانی سے نقل کی ہے کہ عقیدہ امامت پر تمام انبیاء کرام علیھم السلام سے عہد لیا گیا ہے یہ روایات رافضی تفسیروں کے علاوہ ‘بہار الانوار‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں یہاں میں اس کو بطور مثال پیش کررہا ہوں جو بہار الانوار کتاب الامامۃ باب تفصیلھیم علی الانبیاء میں کراجکی کی کنزالفوائد سے نقل کیا ہے۔۔۔
امام جعفر نے سورۃ آل عمران کی آیت ٧٤ تلاوت فرمائی اور اس کی تفسیر یہ فرمائی کے لتومنن بہ سے مراد یہ ہے کہ انبیاء کرام کو حکم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور ولتنصبرند کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدد کریں اور امام جعفر رحمہ اللہ نے فرمایا کے اللہ تعالٰی نے جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نبی کو بھی بھیجا اس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اور علی کی امامت کا عہد لیا۔
(بحارالانوار صفحہ ٢٠٧ جلد ٦)
یعنی انسان بس عقیدہ امامت ہی کا مطلف ہیں۔۔۔ اور معصوم اماموں سے اس مضمون کی روایات بھی نقل کی ہیں کہ لوگ بس امام کو پہچاننے اور اس کی ماننے ہی کے مکلف ہیں چنانچہ علامہ کلینی نے اصول کافی کتاب الحجۃ باب التسلیم وفضل المسلمین میں اسی مضمون کی سات روایات نقل کی ہیں یہاں میں پہلی روایت پیش کرنا چاہوں گا۔۔۔
سدیر کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر رحمہ اللہ سے عرض کیا میں نے آپ کے شیعوں کو اس حالت میں چھوڑ کہ وہ آپس میں اختلاف کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر تبرا کرتے ہیں فرمایا تجھے اس سے کیا پڑی لوگ صرف تین باتوں کے مکلف ہیں۔۔۔
١۔ اماموں کو پہچانیں۔
٢۔ اماموں کی طرف سے جو حکم ہو اس کو مانیں۔
٣۔ اور جس بات میں ان کا اختلاف ہو، اسے اماموں کی طرف لوٹائیں۔۔
(اصول کافی صفحہ ٣٩٠ جلد ١)
جس عقیدے کے بغیر خدا۔۔۔ نعوذ باللہ۔۔۔۔ عدل ولطف کی صفات سے محرم ہوجاتا ہو جس عقیدے کا تمام انبیاء کرام علیھم السلام سے، تمام فرشتوں سے اور تمام انسانوں سے عہد لیا گیا ہو اور تمام انسانوں کو بس اس ایک عقیدے کا مکلف بنایا گیا ہو اگر اس ناکارہ نے اس عظیم ترین عقیدے کو رافضی مذہب کا اصل الاصول قرار دیے دیا تو انصاف فرمایئے کہ کیا میں نے بےجابات کہی؟؟؟۔۔۔ نہیں بلکہ آنجناب کے مذہب کی صحیح ترجمانی کی۔۔۔
سلفیت اور رافضیت میں افتراق کا نقطہ آغآز مسئلہ امامت ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ اگرچہ دونوں فریقوں (سلفی اور رافضی) کے درمیان اختلاف وافتراق کی ایک طویل وعریض خلیج واقع ہے اور رافضیت نے کلمہ، نماز، حج اور زکات وغیرہ تمام اُصول وفروع میں اپنا الگ تشخص قائم کر لیا ہے۔۔۔ لیکن اگر غور وتامل سے اس افتراق کا منبع تلاش کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دونوں کے درمیان افتراق کا نقطہ آغاز مسئلہ امامت ہے۔۔۔
وجہ!۔
اہل سلف اس کے قائل ہیں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمت کی قیادت وسربراہی کا فریضہ علی الترتیب چار بزرگوں نے انجام دیا جن کو خلفائے راشدین قرآن نے کہا اور جن سے اللہ رضی ہے۔۔۔
رافضیت کے مذہب نے اپنے مذہب کی بسم اللہ یہاں سے کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام برحق حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی تھے، خلافت بلافصل انہی کا حق تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ورضوان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت سے انحراف کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خلافت ونیابت اور اپنے بعد امت کی امامت کے لئے جس شخص کو نامزد کیا تھا، صحابہ کرام نے اس کو چھوڑ کر ایک اور بزرگ کا خلیفہ بنالیا۔۔۔ ان کے بعد پھر ایک اور کو تاآنکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نامزد کردہ شخصیت کو چوتھے نمبر پر ڈال دیا افسوس کےاس کے بعد بھی اُمت ان کی امامت پر مجتمع نہ ہوسکی۔۔۔
الغرض شیعیت کی ابتداء نظریہ امامت سے ہوتی ہے چنانچہ شیخ حلی منہاج الکرامہ میں اسی نقطہ آغاز کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔
شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تھا اور ان کے بعد علی الترتیب گیارہ اماموں کو۔۔۔ لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے، ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ، ان کے بعد عثمان اور ان کے بعد حضر علی راضی اللہ عنہ۔ ( منہاج السنۃ صفحہ ٣٠ جلد ١)
لیکن حضرات رافضٰت کے نزدیک شرع کے دلائل صرف تین ہیں۔۔۔۔
١۔ کتاب اللہ۔
٢۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔
٣۔ آئمہ معصومین کے اقوال وارشادات۔
ان کے نزدیک امام معصوم کے بغیر اجماع باطل ہے تابہ قیاس چہ رسد؟؟؟۔۔۔
یہ تو ایک ظاہری اصول ہے لیکن اسی اصول کو اگر گہرائی میں اتر کر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کے رافضیت کے نزدیک ان تین دلائل کا مرجع اور خلاصہ بھی صرف ایک ہے یعنی قول امام۔۔۔۔ چنانچہ کتاب اللہ کی فلاں آیت کا قول خداوندی ہونا ان کے نزدیک قول امام سے معلوم ہوگا اگر امام معصوم یہ ارشاد فرمادیں کہ یہ آیت یوں نہیں یوں ہے تو رافضیوں کے نزدیک قول معصوم کی بناء پر اس آیت کو اسی طرح ماننا مقصود ہے جس طرح امام نے فرمایا۔۔۔
خلاصہ!۔
یہ کہ قرآن کلام الہٰی ہے مگر قرآن کریم کی کسی آیت کا قول خداوندی اور کلام الٰہی ہونا رافضیوں کے نزدیک امام معصوم کی تصدیق وتصویب پر موقوف ہے جہاں تک ارشادات نبویہ اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال ہے تو رافضیت کے نزدیک وہ بھی صرف اس صورت میں معتبر ہیں جبکہ وہ آئمہ معصومین کے ذریعے پہنچی ہوں یا اقوال آئمہ کے موافق ہوں ورنہ چونکہ ان کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عادل وثقہ نہیں لہذا ان کی ایسی روایات جو آئمہ معصومین کے ذریعے نہ پہنچی ہوں یا قول معصوم ان کی تائید نہ کرتا ہو، وہ رافضٰت کے نزدیک ساقط الاعتبار ہوں گی چنانچہ رافضیوں کے محدث اعظم علامہ باقر مجلسی بحار الانوار جزو دوم (طبع جدید) کتاب العلم میں بات (٢٨) کا عنوان ہے۔۔۔
ماترد بہ العامۃ من اخبار الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وآلہ وان الصحیح من ذلک عندھم علیھم السلام، والنھی عن الرجوع الی اخبار المخالفین وفیہ ذکر الکذابین
جو احادیث غیررافضیت کی روایت سے ہوں اُن میں سے صحیح وہی ہیں جو آئمہ کے پاس ہوں اور مخالفین کی روایت کردہ کی طرف رجوع کرنا ممنوع ہے اور اس باب میں جھوٹی روایتیں کرنے والوں کا بھی ذکر ہے۔۔۔
دیانتداری سے جواب دیں!۔
کیا ابوعبداللہ امام بخاری کا یہ عقیدہ ہے۔۔۔
تین صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے تھے۔۔۔ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ، اور ایک عورت (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عھنا (نعوذ باللہ)
بحار الانوار صفحہ ٢١٧ جلد ٣۔۔۔
اور اس سے اگلے صفحہ پر روایت ١٤ امام باقر رحمہ اللہ سے نقل کی ہے۔۔۔
جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا ہم اہل بیت کو ہمیشہ ذلیل کیا جاتا رہا دور کیا جاتا رہا محروم کیا جاتا رہا، قتل کیا جاتا رہا اور دھتکارا جاتا رہا اور جھوٹوں نے اپنے جھوٹ کے لئے یہ موقع پایا کہ وہ اپنے دوستوں، قاضیوں اور حاکموں کا ہرشہر میں تقرب حاصل کریں اور وہ ہمارے دشموں اور اُن کے گزشتہ دوستوں کے پاس باطل اور جھوٹی احادیث بیان کرتے اور ہماری جانب سے ایسی احادیث روایت کرتے ہیں جو ہم نے ہیں کہیں جس سے ان کا مقصد ہماری توہین کرنا، ہم پر ھوٹ باندھنااور جھوٹ طوفان کا ذریعہ اپنے دوستوں اور قاضیوں کا تقرب حاصل کرنا ہے
(بحار الانوار جلد ٢ صفحہ ٢١٨)۔۔۔
آئمہ معصومین کے ان گرانقدر ارشادات کو پڑھنے کے بعد کون عقلمند ہوگا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہ کی نقل کردہ احادیث پر اعتماد کرے گا؟؟؟۔۔۔ الغرض کسی آیت کا ارشاد خداوندی ہونا اور کسی حدیث کا ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونا رافضیت کے نزدیک قول امام پر منحصر ہے لہذا اصل الاصول وہی مسئلہ امامت ٹھہرا۔۔۔
واللہ اعلم۔
والسلام علیکم۔