" سنی جو یہ نام نہیں رکھتے یہ سراسر سبائیت اور مجوسیت ہے "
بہرام بھائی۔۔۔ جس نے بھی یہ الزام لگایا ہے۔۔۔ وہ بالکل درست ہے۔۔۔
کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے سب سے
زیادہ بغض سبائیت اور مجوسیت کو ہے۔۔۔
قبیصہ بن جابر اسدی کی باسند روایت ہے۔۔۔
آپ نے فرمایا۔۔۔
کیا میں تمہیں بتاؤں کے مجھے کس کس کی صحبت حاصل رہی میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مجلس میں رہا۔۔۔ آپ دین میں نہایت سمجھدار اور تعلیم دینے میں بہت اچھے اُستاد تھے۔۔۔ پھر میں طلحہ بن عبیداللہ کے پاس رہا۔۔۔ میں نے بغیر مانگے بےشمار مال دینے والا اُن سے بہر کوئی نہ دیکھا پھر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رہا۔۔۔ اُن سے زیادہ دوستوں سے نرمی کرنے والا اور ظاہر وباطن ایک جیسا رکھنے والا میں نے کوئی نہیں دیکھا
(تاریخ طبری جلد ٦ صحفہ ١٨٨)۔۔۔
رافضیوں کا ایک الزام کا ازالہ۔۔۔
تاریخی حوالے آپ نے شروع کئے ہیں اس لئے اب آپ کی خدمت تاریخی حوالے حاضر ہیں
٣۔ حضرت حسن کی موجودگی میں حضرت علی کو گالی نہیں دی جائے گی !!!!!!!!
تاریخ ابن کثیر ، جلد ہشتم ، صفحہ ٢٥، ناشر : نفیس اکیڈمی
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی ہمت کی بلندی اور عظیم توجہ کی بناء پر اس مقام پر پہنچ چکے تھے کہ آپ نے روم کے بادشاہ کو ڈانٹ پلائی۔۔۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان دنوں صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے برسرپیکار تھے انہیں معلوم ہوا کے روم کا بادشاہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر سرحدون کے قریب آگیا ہے تو آپ نے اُس کو ایک نہایت سخت خط لکھا اس خط کا مضمون یہ تھا۔۔۔
اگر تو اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا اور اپنے علاقے میں واپس اپنے پایائے تخت میں نہ چلا گیا تو میں اپنے بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صلح کر لوں گا اور تجھے تیرے تمام علاقہ سے محروم کردوں گا اور باوجود فراخ ہونے کے تجھ پر زمین تنگ کردوں گا۔۔۔
جب یہ خط روم کے بادشاہ نے پڑھا تو نہایت خوفزدہ ہوا اور اپنی فوج کے ساتھ واپس چلا گیا۔۔۔
(البدایہ والنھایہ جلد ٨ صفحہ ١١٩)۔۔۔
لہٰذا رافضیت ہو سبائیت ہو یا مجوسیت۔۔۔ جو یہ مغالطہ پیدا کرتے ہیں کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی کی بیعت کا انکار کیا تھا۔۔۔ یہ سراسر ایک گہری سازش ہے اللہ کے پسندیدہ بندوں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے خلاف اور ایک بہتان ہے۔۔۔ اُن پر جن کے بارے میں اللہ وحدہ لاشریک نہ یہ ارشاد فرمایا۔۔۔
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا
پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پاگئے۔۔۔
واقعہ یہ تھا۔۔۔
حضرت علی بن ابوطالب اور حضرت طلحہ، حضرت زبیر، اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھم کے درمیان اختلاف کا مشہور سبب یہ ہے۔۔۔
حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنھما اور اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا انتقام لینے کو نکلے تھے جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس غرض سے خروج نہیں کیا تھا کے اُن کے خروج کا سبب یہ تھا کے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھال لی تو انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے مقررکئے ہوئے بعض گورنروں کو معزول کردیا جن میں حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ شامل تھے۔۔۔
جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو معزولی کا حکم پہنچا تو اُنہوں نے معزولی کے حکم کو مسترد کردیا اور کہا میں کس طرف سے معزول سمجھا جاؤں؟؟؟۔۔۔
انہوں نے کہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے۔۔۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔۔۔ میرے چچا زاد بھائی کے قاتل کہاں ہیں؟؟؟۔۔۔ حضرت عثمان کے قاتل کہاں ہیں؟؟؟۔۔۔
انہوں نے کہا۔۔۔ پہلے ان کی بیعت کرو پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا مطالبہ کرو۔۔۔ آپ نے کہا نہیں!۔ بلکہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو میرے سپرد کردیں پھر میں اُن کی بیعت کروں گا۔۔۔
شائد اُس کی وجہ یہ تھی کے آپ سمجھتے تھے کے ان کے پاس شام کے صوبہ کی قوت ہے اور قوت کے بل بوتے پر حضرت عثمان کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لئے دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے۔۔۔
اس لئے آپ نے فرمایا۔۔۔
میں اس وقت تک بیعت نہیں کروں گا جب تک حضرت عثمان کے قاتلوں سے انتقام نہ لے لیا جائے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کے پہلے بیعت کرو اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے انتقام پر غور کیا جاسکتا ہے۔۔۔
اس سے معلوم ہوا کے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنھما کے درمیان اس بات پر اختلاف تھا کے بیعت پہلے کی جائے یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص پہلے لیا جائے۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عہن سمجھتے تھے کہ پہلے وہ بیعت کریں پھر جب حالات پرسکون ہوجائیں گے اور امن وامان بحال ہوجائے گا تو پھر قاتلان عثمان کے مسئلہ پر غؤر کیا جائے گا۔۔۔
جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے اس کے برعکس تھی، ان کا خیال تھا کہ منصب خلافت پر فائز ہونے والوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قاتلان عثمان سے قصاص لیں، اس کے بعد خلافت کے معاملے پر غور کیا جائے گا۔۔۔
اس سے معلوم ہوا کے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ کے درمیان اولیت پر اختلاف تھا کے پہلے کون سا کام کیا جائے قاتلان عثمان سے قصاص یا خلافت کو تسلیم کرنا۔۔۔
حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کی رائے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے موافق تھی کہ قاتلان عثمان سے جلد از جلد قصال لیا جائے البتہ حضرت طلحہ و زبیر اور حضرت معاویہ کے درمیان فرق یہ تھا کے یہ دونوں صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر چکے تھے جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابھی تک ان کی بیعت نہ کی تھی۔۔۔
صحابہ کرام اس مسئلہ پر تین گروہوں میں بٹ گئے۔۔۔
پہلا گروہ!
حضرت طلحہ وزبیر اور ام المومنین عائشہ صدیقہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنھم یہ گروہ وہ سمجھتا تھا کے قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ سے جلدی قصاص لیا جائے۔۔۔
دوسرا گروہ!۔
حضرت علی المرتٰضی اور ان کے رفقائے کرام، اس گروہ کا خیال تھا کے پہلے منصب خلافت کو مستحکم کرنا ضروری ہے۔۔۔
تیسرا گروہ!۔
حضر سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، احنف بن قیس، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوبکرۃ ثقفی رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ پر مشتمل تھا یہ وہ طبقہ تھا کہ اس موقع پر دونوں گروہوں سے علحیدگی اختیار کی جائے۔۔۔
یعنی ان جنگوں میں اختلاف کا سبب یہ تھا کے معاملات مشتبہ تھے اور فتنہ کا دور دور تھا جو سبائیت کا پھیلایا ہوا تھا۔۔۔ اس لئے کوئی بھی اس مسئلے پر تسلی بخش غور نہیں کرسکتا تھا۔۔۔
لہذا۔۔۔ حقائق وشواہد سے جو دعوٰی کیا گیا ہے وہ بالکل درست ہے۔۔۔سبائیت اور مجوسیت
عمروبن عاص سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کر کوئی بھی سردار نہیں دیکھا۔۔۔ تو جبلہ بن لحیم نے پوچھا۔۔۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی نہیں تھے؟؟؟۔۔۔ تو کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ معاویہ سے بہت بہتر تھے لیکن معاویہ سرداری میں اُن سے بڑھ کر تھے۔۔۔
(تاریخ ابن کثیر جلد ٨ صفحہ ١٣٥)۔۔۔
اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمہ رحمہ علیہ نے کہا ہے۔۔۔
اسلامی بادشاہوں میں سے کوئی امیر معاویہ سے اچھا بادشاہ نہیں ہوا اور جتنی خوبیاں اور بھلائیاں لوگوں میں اس کے دور میں پیدا ہوئیں اتنی کبھی نہ ہوئی تھیں۔۔۔ بشرطیکہ آپ امیر معاویہ کے بعد ک بادشاہوں سے مقابلہ کریں اور اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کریں تو بہت فرق ہے۔۔۔
(منہاج السنۃ جلد ٣ صفحہ ١٣٥)۔۔۔
ابوبکر اثرم اور بن بطۃ نے اپنے اپنے طریق سے حضرت قتادۃ سے باسند روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا۔۔۔
اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کے اعمال دیکھتے تو تم میں سے اکثر کہتے کے مہدی ہیں اور ابن بطۃ نے دو صحیح سندوں سے مجاہد کا قول نقل کیا ہے اگر معاویہ کو دیکھ لیتے تو کہتے یہ مہدی ہے اور اثرم نے باسند ابوہریرہ مکتب کا قول نقل کیا ہے کے ہم اعمش رحمۃ اللہ کے پاس بیٹھے تھے تو عمر بن عبدالعزیز اور اُس کے عدل وانصآف کے متعلق گفتگو شروع ہوگئی تو اعمش نے کہا اگر تم!۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمان دیکھ لیتے تو تمہیں معلوم ہوتا کے حکمرانی اور انصآف کیا چیز ہے تو لوگوں نے پوچھا ان کے حلم کی بابت آپ کہہ رہے ہیں؟؟؟۔۔۔ تو فرمایا نہیں اللہ کی قسم اس کے عدل کے بابت کہہ رہا ہوں۔۔۔
اور عبداللہ بن احمد بن حنبل نے باسند ابو اسحٰق سبیعی کا قول نقل کیا ہے انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اگر تم اُس کو اور اُس کے زمانے دیکھ لیتے تو کہتے یہ مہدی ہے اور یہ شہادت جو ان بڑے بڑے علماء سے امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق مل رہی ہے دراصل یہ حقیقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دُعا کی بازگشت ہے جو آپ نے اس نیک خلیفہ کے متعلق کی تھی کہ۔۔۔
یا الٰہی اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشینگوئیوں میں سے ہے۔۔۔
(جامع ترمذی کتاب المناقب)۔۔۔۔
ابن عباس سے ایک روایت ہے کے آپ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف نہیں دیکھتے تھے کہ وہ ایک ہی وتر پڑھتے ہیں تو آپ نے فریایا وہ فقیہ آمی ہے۔۔۔
(رواہ بخاری کتاب مناقب الصحابہ)۔۔۔
(امام مالک مدینہ میں) سے روایت کی ہے کہ وہ ربیعہ بن یزید ایادی (یہ بہت بڑے عالم ہیں) سے روایت کرتے ہیں وہ عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے دُعا کی۔۔۔
اے اللہ اسے کتاب اور حساب کا علم دے اور عذاب سے بچا۔۔۔
اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی تاریخ میں ابومہر سے روایت کیا ہے۔۔۔ جب عمیر بن سعد انصاری کو حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خلافت میں حمص کی گورنری سے معزول کیا گیا اور امیر معاویہ رضی اللہ کو وہاں مقرر کیا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہادت دی کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے دُعا کی ہے کے اے اللہ اس کو ہدایت دے اور امام احمد نے اس کو عرباض بن ساریہ کی روایت سے بیان کیا ہے اور ابن جریر نے ابن مہدی کی روایت سے اور اس حدیث کو اسد بن موسٰی اور بشر ابن السری اور عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے باسند روایت کیاہے اور بشربن سری کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں اور اسے جنت میں داخل کر اور ابن عدی وغیرہ نے اسے ابن عباس سے روایت کیا ہے اور محمد بن سعد نے اپنی سند سے سلمہ بن مخلد سے روایت کیا ہے (جو کہ مصر کو فتح کرنے میں شامل تھا) اور امیر معاویہ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دُعا کے روای صحابہ شمار سے بھی زیادہ ہیں
(البدایہ والنھایہ جلد ٩ صفحہ ١٢٠-١٢١ اور دیکھیں ابن عساکر کی تاریخ دمشق ترجمہ معاویہ ردیف میم)۔۔۔۔
لہذا جو اس حدیث کی تصدیق نہ کرے وہ شریعت اسلامی کی ہر اُس چیز کا انکار کرتا ہے جو سنت سے ثابت ہوئی ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے شیعہ ہی سے جو اپں پر لعن تعن کرتے ہیں ایسے بھی ہیں جو اپنے نانا سے بھی بغض رکھتے ہیں اور وہ امیر معاویہ سے خوش ہیں اور اس کی مدد بھی کرتے ہیں اور اس کے لئے دُعا کرتے ہیں سچ ہے جب تم میں شرم وحیا باقی نہ رہے تو جوچاہے کرو۔۔۔
اور حافظ ابن عساکر ن ابوزرعہ رازی سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے مجھے کہا میں معاویہ سے بغض رکھتا ہوں تو آپ نے اس سے پوچھا کیوں تو کہنے لگا کے اس نے علی سے لڑائی کی تو ابورزعہ نے اس کو جواب دیا تجھ پر افسوس معاویہ رضی اللہ عنہ کا رب رحیم ہے اور معاویہ سے جھگڑا کرنے والا کریم ہے پھر تو ان دونوں صحابہ میں دخل دینے والا کون ہے؟؟؟۔۔۔
ان تاریخی دلائل سے موضوع پر مزید بات کرنے کے شاید اب کچھ نہیں بچا۔۔۔
لہذا آخر میں۔۔۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت امام معصوم کے تعلق سے کے وہ جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں۔۔۔
کو ماننے والے اس حدیث پر سرخم تسلیم کرنے والے یہ بات ذہن میں رکھیں کے امام معصوم علیہ السلام نے خلافت کا منصب نبی پاک کی دوسری بشارت پر خلیفۃ المسلمین حضرت معاویہ کے سپرد کردیا تھا۔۔۔
تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے اپنے امام معصوم سے بالاواسطہ اسی بغض کا اظہار کررہے ہیں۔۔۔
جو نبی پاک کی بشارت پر مسلمان کے دوسرے گروہ کے ہاتھ پر خلافت سے دستبردار ہوگئے۔۔۔
اللہ رب العالمین سے دُعا ہے وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں۔۔۔۔
واللہ اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔