بہرام بھائی۔۔۔
چونکہ بحث ایک نئے موضوع میں داخل ہوچکی ہے جو اس فرضی موضوع کا اصل ماخذ تھی اور اب بآلاخر اس پر آپ سے رہا نہیں گیا تو آپ اب اصل موضوع کی طرف خود آگئے جو ایک خوش آئین بات ہے۔۔۔ دیر آے پر درست آئے۔۔۔
آپ نے مختصر صحیح مسلم کی حدیث ٣٦ کا حوالہ دیا۔۔۔
سوائے مومن کے تجھ سے کوئی محبت نہیں رکھے گا اور تجھ سے منافق کے علاوہ اور کوئی شخص بغض نہیں رکھے گا۔
حدیث پر کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ لیکن اُس سے پہلے اس حدیث سے معنی لئے جارہے اُن کو دفن کرنا بےحدضروری ہے۔۔۔
اصحاب رسول کلھم عدول!۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے معاملے میں ایک سمجھ لینی چاہئے کہ صحابہ کرام تمام کے تمام عدول ہیں یعنی دیانتدار، عادل اور انصاف کرنے والے حق پر ڈٹ جانے والے اور خواہشات کی طرف مائل نہ ہونے والے یہ سب عدول کے معنی میں شامل ہیں اور اُمت کا متفقہ فیصلہ ہے۔۔۔
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ عدول ہیں۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ساتھیوں کے متعلق قرآن مجید میں یہ ارشاد ہے رضی اللہ عنھم ورضواعنہ کے اللہ ان پر راضی ہوچکا ہے اور وہ سب اللہ پر راضی ہیں اس سے معلوم ہوا کے تمام صحابہ کرام نہ بدکردار تھے اور نہ بددیانت تھے اور یہ ہی وجہ ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ نے جب جنگ فتح مکہ کی مخبری مکہ والوں کو کردی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ نہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاطب کے قتل کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا اور عذر میں جو گفتگو حاطب نے کی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا۔۔۔ کیونکہ صحابہ کرام میں سے کوئی بھی نہ غدار تھا نہ بدیانت بلکہ خود اللہ تعالٰی کو بھی صحابہ کے خلاف کوئی گفتگو سُننا گوارہ نہیں۔۔۔
چنانچہ جب عبداللہ بن ابی منافق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے ساتھیوں کو ذلیل کہا تو حضرت زید جو بالکل ابھی بچے ہی تھے نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کردی کہ فلاں فلاں شخص نے یہ بکواس کی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر پچھا تو منافقوں نے قسمیں کھانا شروع کردیں کے ہم نے نہیں کہا تو حضرت زید کہتے ہیں کے مجھے بہت صدمہ ہوا کہیں گے کہ یہ بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی ہو کر جھوٹ بولتا ہے تو اللہ تعالٰی نے میری بریت قرآن مجید میں سورہ منافقون کی شکل میں نازل فرمائی جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی تو گویا کہ اللہ تعالٰی کو بھی یہ منظور نہیں کے کوئی شخص کسی صحابی کو متہمم یا بدنام کرے۔۔۔
اپنی بات شروع کرنے سے پہلے!
ہم تاریخ پر ایک گہری نظر دوڑانی پڑے گی۔۔۔ کیونکہ تاریخ کا فن تمام فنون سے اہم ہے اسکے ذریعے سے ہمیں سابقہ اقوام کے حالات کا پتہ لگتا ہے جس کی طرف اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشارہ فرمایا۔۔۔
فانظروا کیف کان عاقبہ المکذبین
کہ جن قوموں نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی اُن کے حالات دیکھو کس طرح تباہ وبرباد کردیئے گئے۔۔۔
یہ ایسا فن ہے جس کو تمام قومیں پڑھتی پڑھاتی ہیں اگر فن تاریخ سے پہلو تہی کرلی جائے تو کوئی قوم اپنی باقیات کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔۔۔ یہ بھی حقیقت ہے کے جس طرح فن تاریخ کی ایجاد کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے اُسی طرح اس فن کو بام عروج پر پہنچانے والے بھی مسلمان ہی اس کی اصلاح وتنقیح کرنے والے بھی مسلمان ہی ہیں کیونکہ اسلامی دنیا میں جو مقام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا وہ کسی اور کا تمام مخلوقات میں سے نہیں ہے یہ ہی وجہ تھی کے صحابہ کرام اور اُن کے بہت سے متبعین نے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و واقعات اکھٹے کرنے کے لئے زندگیاں وقف کردی تھیں اس والہانہ شیدائیت کا یہ حال تھا کے ہزار ہا میل کا سفر پا پیادہ کرتے اور وہ محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک ارشاد کے لئے پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تھا کہ جو شخص میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔۔۔
اس وعید کے ڈر سے خیرالقرون میں تو کسی کہ یہ حوصلہ نہ ہوا کہ کوئی غلط بات آپ کی طرف نسبت کریں پھر جب بعد کے لوگوں نے کچھ رطب ویابس کی ملاوٹ کرنا شروع کی تو اللہ تعالٰی نے ایک جماعت حقہ کو یہ توفیق دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرموادت وحالات کی جانچ پڑتال کے لئے کئی لاکھ انسانوں کے حالات مرتب کردیئے اور انسانی بس میں جتنی کوشش ہوسکتی تھی اس کی انتہاکردی۔۔۔
اسلامی تاریخ کا امتیاز!۔
یہ صرف اسلامی تاریخ کا ہی امتیاز ہے کہ صحیح واقعات کو نکھار کر وہ حقائق کردے جس کی اس نے پہلے صرف یہ حقیقت تھی کے اں کو اساطیر الاولین ہی کہا جاتا تھا پھر محدثین نے ان واقعات کو نکھارنے کے لئے روایت ودرایت کے ایسے اصول مقرر کئے جن پر پرکھ کر انسان محض قصے وکہانیوں سے صحیح واقعات سامنے لاسکتا ہے۔۔۔
افسوناک غلطی!۔
ہمارے آج کے دور میں ایک ایسا رجحان پایا جاتا ہے جو کہ حددرجہ افسوسناک ہے وہ یہ کہ جن لوگوں نے محج قصہ گوئی کی ہے اُن کو بھی مؤرخ کہا جانے لگا ہے حالانکہ یہ لوگ قصاص تھے یعنی صرف قصہ گو انہیں مورخ نہیں کہنا چاہئے کیونکہ ہماری مؤرخ دراصل وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمانہ رسالت کی ایک ایک بات کو اس طرح جانچا پرکھا اور پھر ان کو اپنے علمی دفاتر میں محفوظ کیا۔۔۔ لیکن بعد کے قصہ گو لوگوں نے تمام گفتگوئیں اکھٹی کرنا شروع کردیں اور مروجہ تاریخون میں سب سے قدیم تاریخ طبری ہے۔۔۔
اس نے بھی تمام رطب ویابس اکٹھاکردیا اگرچہ اہل علم کے لئے وہ نقصان دہ نہیں کیونکہ ابن جریر نے مواد اکٹھا کیا ان کی عادت ہے کہ عموما شروع میں صحیح واقعات پیش کردیتے اس کے بعد قیل اور یقالُ کے صیغوں سے جو باتیں محض قصہ گو لوگوں کی زبان پر مشہور ہوئیں وہ بھی بیان کردیتے ہیں تاکہ اہل علم دیکھ لیں کے اصل حقائق کیا ہیں اور قصہ گو لوگوں نے اسے کیا سے کیا بنادیا ہے لیکن کم علم عوام تو ہر اس کہانی کو پسند کریں گے جس میں لطافت ویزنگی زیادہ ہو خواہ وہ حقہقت سے کتنی ہی دور کیوں نہ ہو۔۔۔
بعد کے قصہ گو مورخین تو بالکل ہی بہہ گئے ایسے ایسے واقعات بیان کرتے رہتے جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔۔۔ علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمے میں اس کی اچھی خاصی وضاحت کی ہے کہ ان قصہ گو مؤرخوں نے ہماری تاریخ کو کس طرح بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ اس کے باوجود اہل تحقیق کے لئے اصل واقعات کو پہچاننا مشکل نہیں ہوتا اگرچہ یہ کتابیں عوام کے سطحی علم کے لئے مفید نہیں ہوتیں لیکن اہل علم ان سے استفادہ کرسکتے ہیں کیونکہ وہ صحیح اور غلط میں اپنے علم کی وجہ سے پوری پوری تمیز کرسکتے ہیں۔۔۔
اہلسنت جو ہر افراط وتفریط سے بچ کر میانہ روی پر چلتے ہیں انہیں خاص طور پر ایسے قصے کہانیوں میں اور صحیح تاریخی واقعات میں ضرور امتیاز کرنا چاہئے۔۔۔
اپنا مدعا!۔
چونکہ فن تاریخ کو بدنام کرنے میں زیادہ ہاتھ غیر مسلم سازشی لوگوں کا تھا جنہوں نے ایسی چیزیں گھڑ کر عوام میں پھیلانے کی کوشش کی تاکہ اسلام بدنام ہوجائے اور مسلمان خود اپنی تاریخ سے ناواقف ہوجائیں اور دوسرے نمبر پر اُن لوگوں کا بھی قصور تھا جنہوں نے تمام رطب ویابس تاریخ کے نام پر اکٹھا کردیا اور اس سے لوگ دھوکہ بھی کھاتے رہے تیسرے نمبر پر وہ لوگ بھی قدر کی نگاہوں سے نہیں دیکھے جاسکتے جنہوں نے بلاتحقیق تمام رطب ویابس کو تاریخ سمجھ کر سینے سے چٹا لیا حالانکہ تمام مسلمانوں کا بحیثیت قوم کے اُن پر فرض عائد ہوتا تھا کے اپنی تاریخ کی تنقید اور تنقیہ کریں اور رعوام کے سامنے وہ واقعات پیش کریں جو دُرست ہیں۔۔۔
اس چھوٹی سی تمہید کے بعد میں موضوع کی طرف آتا ہوں۔۔۔
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔۔۔
وَلٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ ۭاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَنِعْمَةً ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ
لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ راشدون ہیں اللہ کے احسان و انعام سے اور اللہ دانا اور با حکمت ہے۔ (حجرات)۔۔۔
اب حیرانگی تو یہ ہے قرآن تو صحابہ کرام کو
راشدون کہہ رہا ہے اور
رافضی شیعہ امیر معاویہ رضی اللہ کو صحابی ہونے کے باوجود رُشد وہدایت سے دور کررہے ہیں۔۔۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!۔
اے اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہدایت یافتہ اور لوگوں کو ہدایت دینے والا بنادے
(ترمذی مناقب معاویہ رضی اللہ عنہ)۔۔۔
اللہ تعالٰی کی وسیع رحمت ورُشد کو تنگ کرنے والوں کو اللہ ہدایت دے۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت بطور وصیت ارشاد فرمایا تھا!۔
خبردار میرے صحابہ کے معاملہ میں زبان درازی مت کرنا اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو میرے صحابہ کے ایک مٹھی بھر جوکے برابر نہیں پہنچ سکتا۔۔۔
حضرت عمر نے کہا اے ابن عباس مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم یہ کہتے ہو کہ انھوں نے بنی ہاشم کو حسد اور ظلم کی وجہ سے خلافت سے دور رکھا ابن عباس نے فرمایا جہاں تک ظلم کی بات ہے تو وہ تو ہر جاہل اور عقلمند پر ظاہر ہے جہاں تک حسد کا معاملہ ہے تو حسد تو ابلیس نے حضرت آدم سے بھی کیا تھا اور انھیں کی ہم اولاد ہیں جن پر حسد کیا جارہا ہے
بخاری میں حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کے قیامت کب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے قیامت کی کیا تیاری کی اس نے کہا میرے پاس تو اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں کہ میں صرف اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! پھر تو انہی کے ساتھ ہوگا جن سے محبت کرتا ہے۔۔۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سُن کر ہم اتنے خوش ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے خوش نہ ہوئے تھے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ اُن کی محبت کی وجہ میں بھی ان ساتھ اٹھوں گا اگرچہ میرے عمل اُن جیسے نہیں ہیں۔۔۔
یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہی مقام تھا کے جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو تمام مسلمان اُن سے خوش تھے اگرچہ آج کے مسلمان کہلانے والے بعض لوگ شاید ان کا نام لینا بھی پسند نہ کرتے ہوں۔۔۔
صحیح اور غلط کا فیصلہ قاری نے کرنا۔۔۔ یہ وہ فتنہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سبب بنا جن کے شر سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی محفوظ نہ رہے اور جن فتنہ گروں کی فتنہ گیری سے جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے ہولناک جنگیں ہوئیں۔۔۔
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے
"الاصابہ" کے دیباچے میں امام ابوزرعہ رازی کا قول نقل کیا ہے۔۔۔
ان رائت الرجل ینتقص احد من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاعلم انہ زندیق، وذلک ان الرسول حق، والقرآن حق، وما جاء بہ حق، وانما ادی الینا ذلک کلہ الصحابہ، والسنہ، والجرح بہم اولی وھم زنادقہ (الاصابہ صفحہ ١٠ جلد ١)۔۔۔
جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے وجہ اس کی یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں، قرآن برحق ہے، اور جو دین نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم لائے، وہ برحق ہے اور یہ ساری چیزیں ہم تک صحابہ کرام نے پہنچائی ہیں لہذا صحابہ ہمارے لئے رسال محمدیہ کے گواہ ہیں اور یہ لوگ ہمارے گواہوں کو مجروح کر کے کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتے ہیں لہذا یہ لوگ خود لائق جرح ہیں اور یہ بدترین زندیق ہیں۔۔۔
خلاصہ یہ کے ہمارا دین حق تعالٰی شانہ کی جانب سے نازل ہوا ہے اور چند واسطوں کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے دین پر اعتماد اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ ہم تک لائق اعتماد واسطوں سے پہنچا ہو۔۔۔ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور بعد کی اُمت کے درمیان سب سے پہلا واسطہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہیں اگر وہ لائق اعتماد نہیں تو دین کی کوئی چیز بھی لائق اعتماد نہیں رہتی لہذا صحابہ کرام کے اعتماد کو مجروح کرنا درحقیقت دین کے اعتماد کو مجروح کرنا ہے۔۔۔
حق تعالٰی شانہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کائنات میں سے منتخب فرمایا، اس لئے آپ زبدہ کائنات، سید البشر، خیرالبشر اور فخراولاد آدم ہیں۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب خیرالکتب ہے، آپ کا دین خیرالادیان ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت خیرالامم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ خیرالقرون ہے۔۔۔ تو لازما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بھی خیرالاصحاب ہیں (رضی اللہ عنھم)۔۔۔
چنانچہ مستدرک حاکم میں بسند صحیح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے۔۔۔
عن عویم بن ساعدۃ رضی اللہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال، ان اللہ تبارک وتعالٰی اختارنی واختار لی اصحابا، فجعل لی منھم وزارء وانصارا واصھارا، فمن سبہم فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین، لایقبل منہ یوم القیامۃ صرف ولا عدل، ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ، وقال الذھبی صحیح۔۔۔(مستدرک حاکم صفحہ ٦٣٢ جلد ٣)۔۔۔
حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں۔۔۔ کے بیشک اللہ تبارک وتعالٰی نے مجھے چن لیا، اور میرے لئے اصحاب کو چُن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزیر، میرے مددگار اور میرے سسرالی رشتہ دار بنادیا پس جو شخص ان کو برا کہتاہے اس پر اللہ تعالٰی کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت، قیامت کے دن نہ اس کا کوئی فرض قبول ہوگا، نہ نقل۔۔۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کے جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی نے تمام اولاد آدم علیہ السلام میں چھانٹ کر منتخب فرمایا اسی طرح لائق ترین افراد کو چھانٹ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے منتخب فرمایا۔۔۔اس انتخاب خداوندی کے نتیجہ میں یہ حضرات، جن کو صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چُنا گیا اپنی علواستعداد اور اپنے جوہری کمالات کے لحاظ سے انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد تمام انسانوں سے افضل تھے اسی بناء پر ان کو اللہ تعالٰی نے خیراُمت کا خطاب دیا پس اگر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سےبہتر اور افضل کوئی اور انسان ہوتے تو اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت وصحبت کے لئے اُن کا منتخب فرماتے۔۔۔ اس لئے صحابہ کرام کی تنقیص صرف محبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص نہیں بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ حق تعالٰی شانہ کے انتخاب کی بھی توہین وتنقیص ہے اور جو شخص صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر اور انتخاب خداوندی کی تنقیص کرتا ہو اس کے بارے میں شدید سے شدید وعید بھی قرین قیاس ہے۔۔۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں سوء ظن سے اجتناب کرنے اور حُسن ظن رکھنے کے لئے کچھ فرمودات پیش خدمت ہیں۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرمودات!۔
خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں متعدد فرمودات پائے جاتے ہیں ان میں سے چند ایک ذیل میں پیش خدمت ہیں۔۔۔
جن ایام میں
"جمل وصفین" کے واقعات پیش آچکے تھے اس کے بعد بعض لوگ اہل جمل وصفین کے حق میں غُلو کرنے لگے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو اُن کے جواب میں فرمایا۔۔۔
((لاتقولا الا خیرا۔۔۔۔۔ الخ)یعنی اُن لوگوں (اہل جمل وصفین) کے حق میں کلمہ خیر کے بغیر کچھ نہ کہو
(تاریخ ان عساکر کامل صفحہ٣٢٩ جلد ١ طبع دمشق (طبع ١٣٧١ھ، ١٩٥٧ء، منہاج السنۃ (ابن تیمیہ) صفحہ ٦١ جلد ٦، المنتقی (ذہبی) صفحہ ٣٣٥ طبع مصر)۔۔۔
مطلب یہ ہے کہ اگرچہ وقتی طور پر اُن کے اور ہمارے درمیان اختلاف رائے واقع ہوا تھا اور حالات برگشتہ ہوگئے تھے لیکن اب تم اُنہیں برائی سے یاد نہ کرو۔۔۔
اس سلسلے میں جناب سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک فرمان پیش کرنا چاہوں گا جو آنجناب سے ناقلین حضرات نے اس طرح نقل کیا ہے کہ صفین سے واپسی کے موقع پر سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بعض ایسی بیان فرمائیں جو اس سے قبل آپ ذکر نہیں فرمایا کرتے تھے ان میں یہ چیز بھی تھی کے جس کو بڑھے اہتمام سے بیان فرمایا۔۔۔
فتکلم باشیاء کان لایتکلم بھا، وحدث باحادیث کان لایتخدت بھا فقال فیما یقول ابھا الناس لاتکرھو امارۃ معاویۃ، واللہ! (لوقد فقد تموہ لقد رایتم الرءوس تبدر من کو اھلھا کالحنظل۔۔۔
یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ امارت وحکومت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مکرو مت جانو کیونکہ اگر یہ امارت ختم ہوجائے گی اور نہ رہے گی تو تم دیکھو گے کے تمہارے سروں کو تمہارے دوش سے حنظل (اندرائن) کی طرح زائل کردیا جائے گا
۔( مصنف ابن ابی شیبہ صفحہ ٢٩٣-٢٩٣ جلد ١٥ کتاب الجمل تحت باب ماذکر فی صفین، طبع کراچی، کتاب السنہ (امام احمد) صفحہ ١٩٤ طبع مکہ مکرمہ، انساب الاشرف (بلاذری) صفحہ ٤٠ جلد ٤ تحت ترجمہ معاویہ البدایہ (ابن کثیر) صفحہ ٢٨٨ جلد ٦ تحت اخبارہ علیہ الالسلام۔۔۔ الخ، کنزالعمال ( علی متقی الہندی) صفحہ ٨٧-٨٨ جلد ٦ تحت الصفین طبع اول تاریخ الاسلام (ذہبی) صفحہ ٣٣٠ جلد ٣ تحت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)۔۔۔
مقصد یہ ہے کہ اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کا عہد نہ رہا تو اس کے بعد حالات دگرگوں ہوجائیں گے اور شدید نوع کے فرماین کو بہت سے محدثین اور مورخین کیا جو اوپر پیش کرچکا ہوں۔۔۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں اگرچہ وقتی طور پر سیاسی اختلافات رونما ہوئے اور قتال تک نوبت پہنچی، تاہم آن موصوف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد خلافت اور اُن کی امارت کے متعلق ہدایت فرماتے تھے کہ اس کو مکروہ نہیں جاننا چاہئے یہ مذمت کے قابل نہیں۔۔۔
اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی کے آیندہ دور خلافت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی امارت بھی اور اُسے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ تسلیم نہ کرتے تھے۔۔۔
اسی طرح حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالٰی سے بھی ہمچوں قسم کا فرمان منقول ہے کہ جب باہمی صلح کے بعد آن موصوف کوفہ سے واپس مدینہ تشریف لائے تو بعض لوگوں نے بطور طعن واعتراض کہا یا مذال المومنین (اے مومنوں کو ذلت میں ڈالنے والے) تو حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب میں فرمایا کہ ایسا مت کہو! کیونکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایام ولیالی (دن رات) نہیں گذریں گے یہاں تک کے معاویہ حکمران ہوں گے۔
یقول صلی اللہ علیہ وسلم لاتذھب الایام واللیالی حتی یملک معاویۃ
مقصد یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا امیر وحکمران ہونا اُن حضرات کے نزدیک بُرا نہیں تھا، بلکہ بطور اعتراف حقیقت یہ امارت وحکومت درست ہے اور قابل اعتراض نہیں۔
(البدایہ (ابن کثیر) صفحہ ١٣١ جلد ٨ طبع الاول مصر، تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما)۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سیادات اور حکمرانی کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ
مارایت احدا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسود من معاویۃ
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے کسی کو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بہتر حکمران نہیں دیکھا۔۔۔
کسی نےان سے کہا کے سابق خلفاء راشدین سے بھی یہ بہترین حکمرانی کرنے والے تھے؟؟؟۔۔۔ تو ابن عمر نے فرمایا اللہ کی قسم! یہ سابق خلفاء امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے خیر اور بہتر تھے لیکن حکمرانی میں امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فائق اور بہترین فرماں روا تھے۔۔۔
(تاریخ ابن عساکر (محفوظ) صفحہ ٧٣٠ جلد ١٦ تحت معاویہ بن ابی سفیان تاریخ اسلام (ذھبی) صفحہ ٣٢١ جلد ٢ تحت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)۔۔۔
مطلب یہ ہے کہ نیکی، تقوٰی اور زہد وغیرہ اپنی جگہ پر کامل صفات ہیں لیکن اسلام میں حکمرانی اور فرمانروائی کے اُصول وضوابط الگ صفات خیر ہیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فطرت میں قدر تکی طرف سے ودیعت کئے گئے تھے اس چیز کو اکابر صحابہ رضی اللہ عنھم بیان فرمارہے ہیں۔۔۔
امام مالک رحمۃ اللہ کا فرمان (المتوفی ١٧٩ھ)۔۔۔
آئمہ اربعہ میں امام مالک رحمہ اللہ ایک اعلٰی وارفع مقام پر فائز ہیں۔۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سُب وشتم کرنے والے شخص کے بارے میں آنجناب نے فرمایا کہ!۔
ومن شتم اصحابہ ادب وقال ایضا من شتم احدا من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی ضلال قتل وان شتم بغیر ھذا من مشاتمۃ الناس نکل نکالا شدید
یعنی امام مالک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو سُب وشتم کرے تو اُس کی تادیب کی جائے نیز فرمایا کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی ایک صحابی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، یا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ وغیرھم کے حق میں کہے کہ یہ حضرات گمراہی پر تھے اُسے قتل کیا جائے، لیکن اگر اس لفظ کے بغیر عام لوگوں کی گالیوں کی طرح سُب وشتم کرے تو اس کو سخت سزا دی جائے۔۔۔
(رسائل ابن عابدین شامی صفحہ ٣٥٨ جلد ١ تحت الباب الثانی فی حکم ساب احد من الصحابہ)۔۔۔
مطلب یہ ہے کہ اس روایت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی شان میں بھی گستاخی اور بدگوئی کرنے والے شخص کو اسی فہرست میں شمار کیا گیا ہے جس میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کی شان میں بدگوئی اور بدکلامی کرنے والے شمار ہیں گویا حضرت معاویہ اور عمروبن عاص رضی اللہ عنھم کے حق میں بدکلامی کرنا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم کے متعلق سُب کرنےکے مترادف ہے۔۔۔
اس بدگوئی میں اگر وہ اُن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے کفر کے قائل ہوں تو یہ بدگوئی ان سے دراصل ان کے ایمان سے تبریہ اور بیزاری ہے انہیں مسلمان سمجھتے ہوئے برا بھلا کہنے کی سزا کوڑے ہیں لیکن یہ آخری درجے کی سزا (قتل) اس صورت میں ہے کہ وہ بدگوئی کرنے والا ان کے کفر کاعقیدہ رکھتا ہو۔۔۔
پھر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ قول امام مالک رحمۃ اللہ کا ہے کسی عام عالم کا نہیں۔۔۔ امام مجتہد کا یہ فرما دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے خوب غور فرمائیں۔۔۔
اعمش رحمۃ کا بیان!۔
مشہور عالم سلیمان بن مہران الاعمش رحمۃ اللہ کی خدمت میں حضرت عمر بن عبدالعریز رحمۃ اور ان کے عدل وانصاف کا تذکرہ ہوا تو اعمش رحمہ اللہ نے فرمایا!۔
کیف لو ادرکتم معاویۃ؟ قالوا فی حلمہ؟ قال لا واللہ بل فی علدہ
مطلب یہ ہے کہ تم کیا شان عمل دیکھتے ہو اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور پاتے؟ سامعین نے کہا ان کی بربادی کے متعلق؟ فرمایا نہیں بربادی تو ہے، ان کے عدل وانصاف کی بھی ایک عجیب شان تھی۔
(منھاج السنۃ صفحہ ١٨٥ جلد ٣ تحت السبب السابع، طبع لاہور، المتقٰی (ذہبی) صفحہ ٣٨٨ تحت ثناء الائمہ الاعلام علی معاویہ رضی اللہ عنہ - طبع مصر)۔۔۔
یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے حلم میں نہیں بلکہ اللہ کی قسم عدل وانصاف میں بھی فائق تھے۔۔۔
ابو اسحاق رحمہ اللہ کا قول!۔
اپنے دور کے مشہور فاضل ابواسحاق رحمہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق اپنا نظریہ مندرجی ذیل الفاظ میں ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں۔۔۔
روی ابوبکر بن عیاش عن ابی اسحاق قال ما رآیت بعدہ مثلہ یعنی معاویہ۔
یعنی ابوبکر بن عیاش نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان جیسا شخص نہیں دیکھا۔۔۔
(المتقٰی (ذھبی) صفحہ ٣٨٨ تحت ثناء الائمہ الاعلام علی معاویہ رضی اللہ عنہ-طبع مصر)۔۔۔
ابوتوبہ حلبی رحمۃ اللہ!۔
ان کا اسم ربیع بن نافع ابوتوبہ حلبی ہے اور مشہور محدث ابوداؤد رحمہ اللہ کے اساتذہ میں سے ہیں ابو توبہ حلبی رحمہ اللہ حضرت معاویہ رضی اللہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ!۔
یقول معاویۃ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ستر اصھاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ قاذا کشف الرجال الستر اجتری علی ماوراہ
یعنی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک پردہ کے درجہ میں ہیں اگر کوئی شخص پردہ کو کھول دے تو پھر وہ ہر چیز پر جرآت کرسکے گا
(تاریخ بغداد (خطیب بغدادی) صفحہ ٢٠٩ جلد ١ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رحمہ اللہ، تاریخ ابن عساکر (محفوظ) صفحہ ٧٤٧ جلد ١٦ تحت ترجمہ معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ، البدایہ والنہایہ (ابن کثیر) صفحہ ١٣٩ جلد ٨ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رحمہ اللہ)۔۔۔
ابو مسعود معافی بن عمران ازدی موصلی رحمہ اللہ (المتوفی ١٨٥ء)۔
معافی بن عمران رحمہ اللہ ایک مشہور محدث ہیں جب ان سے سوال کیا گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ؟؟؟۔۔۔ تو آپ نے ناراض ہوتے ہوئے سائل سے فرمایا کہ تو ایک صحابی کو تابعی کے برابر قرار دیتا ہے؟؟؟۔۔۔ پھر فرمایا کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ تو صحابی ہیں، کاتب ہیں اور وحی الٰہی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امین ہیں اور آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار ہیں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحاب اور اصبہا کو میرے لئے چھوڑ دو جو شخص ان کو سُب وشتم کرے گا اس پر اللہ تعالٰی، ملائکہ، اور تمام لوگوں کی لنعت ہو
(تاریخ بغداد خطیب بغدادی صفحہ ٢٠٩ جلد ١ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رحمہ اللہ علیہ، تاریخ ابن عساکر صفحہ ٧٤٦ جلد ١٦ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رحمہ اللہ، البدایہ والنھایہ (ابن کثیر) صفحہ ١٣٩ جلد ٨ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)۔۔۔
اور معافی بن عمران مذکور رحمہ اللہ ایک دوسری روایت میں اس طرح فرماتے ہیں کہ!۔
قال یوم من معاویۃ افضل من عمر بن عبدالعزیز عمر
یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی ایک روز عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی تمام عمر سے افضل ہے
(تاریخ ابن عساکر صفحہ ٧٤٦ جلد ١٦ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)۔۔۔
اس سلسلے میں بعض علماء نے اس مضمون کو اس طرح ذکر کیا ہے کہ۔
قال بعضھم فی معاویہ رضی اللہ عنہ وعمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ لیوم شھدہ معاویہ رضی اللہ عنہ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر من عمر بن عبدالعزیز واھل بیتہ۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ایک دن حاضر رہنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور اُن کے گھرانے سے بہت بہتر ہے مقصد یہ ہے کہ دربار نبوت میں ایک یوم کی حاضری عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی تمام زندگی سے فائق ہے (سبحان اللہ)۔۔۔
(الباعث الحثیث ابن کثیر صفحہ ١٨١ النوع(٣٩) معرفہ الصحابۃ طبع ثالث مصر۔
امام احمد بن حنبل (المتوفی ٢٤٠-٢٤١ھ) کا فرمان!۔
مسئلہ ہذا میں آئمہ اربعہ میں سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ارشاد ان کے ایک تلمیذ میمونی رحمہ اللہ نے اس طرح ذکر کیا ہے کہ میمونی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے امام احمد رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ آں موصوف نے فرمایا لوگوں کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں کیا ہوگیا ہے کہ اُن کی برائی ذکر کرنے لگے ہیں ہم اللہ تعالٰی سے معافی طلب کرتے ہیں اور پھر مجھے خطاب کرتے ہوئے امام موصوف نے فرمایا کہ اے ابوالحسن! جب ہم کسی شخص کو دیکھو کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صاحب کو برائی سے یاد کرتا ہے تو اس کے اسلام کو مشکوک سمجھو۔۔۔ (الصارم المسؤل (ابن تیمیہ)صفحہ ٥٧٣ تحت فصل فی حکم سُب اصحاب صلی اللہ علیہ وسلم وسب اہل بیتہ طبع دکن)۔۔۔
حاصل یہ ہے کہ آئمہ کرام اور فقہائے اُمت کی تعلیم یہ ہے کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی بھی صحابی کی بدگوئی کرنے سے مسلمان کا ایمان ضائع ہوجاتا ہے اور اس کا اسلام قابل اعتبار نہیں رہتا فلہذا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں بدگوئی کرنا اور سوء ظنی رکھنا ہرگز روا نہیں ایسا کرنے سے ایمان برباد ہوگا اور عاقبت خراب ہوگی۔ الصارم المسلول (ابن تیمیہ) صفحہ ٥٧٣ تحت فصل فی حکم سب اصحابہ صلی اللہ علیہ وسلم وسُب اہل بیتہ طبع دکن)۔۔۔
ابوشکور سالمی رحمہ اللہ (المتوفی ٤٦٥ھ)۔
عبدالشکور سالمی رحمہ اللہ “علم عقائد“ کے قدیم فاضل ہیں اور اپنی مشہور تصنیف
"کتاب التمہید" میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ کی توضیح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔۔
انا نقول ان معاویہ کان عالما من غیر فسق وکانت فیہ الدیانہ ولولم یکن متدینا لکان لایجوز الصلح معہ فلم یوجد منہ سوی البغی ثم علی رحمہ اللہ صالح معہ لان فی بغیہ ماجار المسلمین وکان یدعی الحق وکان عادلا فیما بین الناس ثم بعد علی رحمہ اللہ کان اماما علی الحق عادلا فی این اللہ وعمل الناس۔
یعنی فاضل سالمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ دین وشریعت کے عالم تھے ان میں فسق نہیں پایا گیا بلکہ ان میں کامل دیانت تھی اور اگر بالفرض معاویہ رضی اللہ عنہ متدین نہ ہوتے تو ان کے ساتھ (حضرت علی المرتضٰی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی) صلح صحیح اور جائز نہ ہوتی۔۔۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں بغاوت کے سوا کوئی قابل اعتراض چیز نہیں پائی گئی اور جناب علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے ان سے مصالحت کرلی تھی کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بغاوت کے دور میں کسی مسلمان پر جوردظلم نہیں روا رکھا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کے امام برحق تھے اللہ تعالٰی کے دین میں عادل تھے اور لوگوں کے معاملات میں منصف تھے
(کتاب التمہید (ابوشکور سالمی) صفحہ١٢٩ تحت القول الثامن فی قتل الحسین رضی اللہ عنہ (محمد بن عبدالسعید بن شعیب الکبشی السالی) حزب الاحناف، لاہور)۔۔۔
حاصل کلام!۔
١۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ دین وشریعت کے عالم تھے ( دین سے ناواقف نہیں تھے)۔
٢۔ آنجناب دیندار اور متدین تھے (کوئی فاسق نہیں ہے)۔
٣۔ ان میں بغی کی صفت پائی گئی لیکن اس مدت میں آپ نے مسلمانوں پر جوروظلم نہیں کیا۔
٤۔ دینی ودینوی امور میں عادل اور منصف تھے (ظالم جابر اور جائز نہیں تھے)۔
٥۔ سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کے بعد امام برحق تھے۔
امام غزالی رحمہ اللہ علیہ (المتوفی ٥٠٥ھ) کا فرمان!۔
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ تصوف کے مشہور مقتدا ہیں اور مشائخ صوفیہ میں ان کا بڑا مقام ہے انہوں نے اپنی تصنیف "کیمائے سعادت" میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی نجات اور مغفرت کے متعلق عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا رویائے صالحہ ذکر کیا ہے۔۔۔
اس سے امام موصوف کا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں حُسن ظن واضح طور پر ثابت ہے اور اُن کے حق میں سوء ظن اور بدگمانی کرنے سے اجتناب کی تلقین پائی جاتی ہے۔۔۔
اس رویائے صالح کی اصل عبارت ذیل میں درج کی جاتی ہے۔۔۔
عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ میگوید کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رابخواب دیدم ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھم نشتہ چوں باایشان نشتم ناگاہ علی ومعاویہ رضی اللہ عنہ رابیا وردندو درخانہ فرستاد ندودربہ بستد۔ در وقت علی رضی اللہ عنہ رادیدم کہ بیرون آمدوگفت قضی لی ورب الکعبہ یعنی حق مرانہا دند پس بزودی معاویہ رضی اللہ عنہ بیروں آمدوگفت غفرلی ورب الکعبہ مرانیز عفو کردندو بیامرزیدند
(کیمائے سعادت ازامام غزالی صفحہ ٤٨٤ تحت پیداکردن اموال مردگں کہ مشکوف شدہ است بطریق خواب (طبع محمدی ممبئی)۔۔۔
رئیس المشائخ حضرت شیخ جیلانی رحمہ اللہ علیہ (المتوفی ٥٦٠ھ) کابیان!۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ غنیہ الطالبین میں اہل السنہ کے عقائد بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ۔۔۔۔
امام خلافہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فثابتہ صحیحہ بعد موت علی وبعد خلع الحسن بن علی رضی اللہ عنہ نفسہ عن الخلافہ وتسلیمھا الی معاویہ رضی اللہ عنہ لرای ارہ الحسن رضی اللہ عنہ ومصلحہ عامہ تحققت لہ وھی حقن داماء المسلمین وتحقق قول النبی صلی اللہ علیہ ولم فی الحسن رضی اللہ عنہ ابنی ھذا سید یصلح اللہ تعالٰی بہ بین فئتین عظیمتین فوجیت امامتہ بعقد الحسن رضی اللہ عنہ لہ فسمی عامہ عام الجماعہ لارتفاع الخلاف بین الجمیع واتباع الکل لمعاویہ لانہ لم یکن ھناک منازع ثالث فی الخلافہ
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دست برداری اور امر خلافت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کرینے کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق ثابت اور صحیح ہے۔
(غنہ الطالبین (شیخ عبدالقادر جیلانی) مترجم صفحہ ١٣٨-١٣٩ فضل ویعتقد اہل السنہ طبع نول کشور لاہور)۔۔۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے مصلحت عامہ کے پیش نظر کہ مسلمانوں کے درمیان خون ریزی نہ ہو خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ فرمان کہ اللہ تعالٰٰی میرے اس فرزند کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان صلح کرادے گا صحیح ثابت ہوا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت حسن رضی اللہ کے عقد وعہد کر لینے کے سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی امات اور خلافت میں نزاع مرتفع ہوجانے کی بناء پر اس سال کا نام عام الجماعہ ٹھہرا اس وقت کوئی تیسرا شخص خلافت کا مدعی نہیں تھا فلہذا تمام حضرات نے اس مسئلے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اتباع اور اطاعت کرلی۔۔۔
حضرت شیخ جیلانی رحمہ اللہ علیہ کے بیان مندرجہ بالا کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کے حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کے انتقال اور حضرت سید حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دستبرداری کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق اور صحیح ہونے میں کوئی اشتباہ نہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحیح خلیفہ اور امام برحق ہیں اور طعن وتشنیع کے لائق نہیں۔۔۔
بعض لوگوں کا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک متغلب حکمران اور ایک عام دنیوی بادشاہ کی حیثیت سے ذکر کرنا درست نہیں اور ساتھ ہی اس طرح مطعون کرنا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی سیاست کو دین پر بالا رکھتے تھے اور سیاسی اغراض کے لئے شریعت کی حدود توڑنے والے تھے یہ چیز بھی ہرگز صحیح نہیں کیونکہ یہ نظریات حضرت شیخ موصوف رحمہ اللہ کے فرمودات بالا کے بالکل برعکس ہیں۔۔۔
مولانا جلال الدین رومی رحمہ اللہ علیہ (المتوفی ٦٧٢ھ) کا بیان بصور حکایت۔
مولانا جلال الدین رومی حمہ اللہ علیہ اکابر صوفیہ میں اہم مقام رکھتے ہیں ان کی مثنوی شریف مکارم اخلاق، نصائح اور حقائ تصوف کے بیان میں ایک دقیع تصنیف ہے جو مشائخ اور علماء میں نہایت مقبول اور معتمد ہے اس میں مولانا روم رحمہ اللہ علیہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ابلیس کا نماز کے لئے بیدار کرنے کا طویل مکالمہ ذکر کیا ہے اور اس پر کم وبیش بارہ عدد عنوانات قائم کئے ہیں۔۔۔
اس مفصل مکالے کا اجمالی مضمون اس طرح ہے کہ امیر المومنین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک روز اپنے مقام پر محوخواب تھے نماز باجماعت کا وقت ہوچکا تھا ابلیس نے آکر آن موصوف بیدار کیا کہ نماز باجماعت میں شمولیت کیجئے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ تو نے مجھے کیوں بیدار کیاہے؟؟؟۔۔۔ تیرا کام تو عبادت سے غفلت دلانا ہے ابلیس نے پہلے تو اصل بات بتلانے سے پس وپیش کی اور حیل وحجت سے کام لیا مگر آخر کار مجبور ہونے پر کہا کے حقیقت یہ ہے کہا اگر آپ سے نماز باجماعت چھوٹ جاتی تو آپ اس کوتاہی پر باری تعالٰی کی جناب میں آہ وزاری کرتے اور اس تضرع وعاجزی کی وجہ سے خداوندا کریم کے ہاں آپ کے درجات بلند ہوتے میں نے یہی بہتر جانا کے آپ نماز باجماعت میں شامل ہوجائیں تاکہ بلند درجات سے محروم رہیں۔۔۔
واقعہ ہذا مثنوی شریف میں مولانا روم رحمہ اللہ نے اپنی حسب عادت بہت سی تمثیلات ملا کر نہایت مفصل ذکر کیا ہے اس سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دینی مقام اور اخلاص فی الصلوۃ اور استقلال فی العبادۃ بہت نمایاں ہے آنجناب خلافت وامارت کے مشاغل کے باوجود اپنے رب تعالی کی عبادت میں مشغول ومصروف رہتے تھے اس میں قصور وفتور راہ نہیں پاتا تھا حتٰی کے شیطان بھی اس مسئلے میں ان کو اپنے مکائد میں پھنسا نہ سکا خداوند رکیم نے انہیں اپنے فضل وکرم سے محفوط فرمالیا۔۔۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں اس واقعے کو پیش کرنے کا میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے حق میں مشہور بزرگان دین کے جو نظریات موجود ہیں تو اس کو بطور نمونہ ذکر کروں تاکہ اکابر صوفیہ کی عقیدت مندی اور حُسن ظن آں موصوف کے بارے میں معلوم ہوسکے۔۔۔
امام نوری رحمہ اللہ (المتوفی ٦٧٦ھ) کا قول!۔
محدثین میں امام نوری رحمہ اللہ (ابوزکریا محی الدین بن شرف النووی) بڑے پایہ کے محدث ہیں شرح حدیث میں ان کا قول حضت قرار دیا جاتا ہے انہوں نے اپنی تالیف شرح مسلم کے باب فضل صحابہ کی ابتداء میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں مندرجہ ذیل الفاظ تحریر کئے ہیں۔۔۔
واما معاویۃ رضی اللہ عنہ فھو من العدول الفضلاء والصحابۃ النجباء۔۔۔۔۔۔ الخ
یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عادل فاضل اور صاحب نجات صحابہ کرام میں سے ہیں
(شرح مسلم (امام نووی) صفحہ ٢٧٢ جلد ٢ ابتداء کتاب فضائل الصحابہ)۔۔۔
مقصد یہ ہے کہ علماء حدیث کے نزدیک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے کردار اور اعمال میں عادل ہیں (ظالم نہیں) اور احکام شریعت کے عالم فاضل ہیں ( ناواقف نہیں) اور صاحب شرافت ونجابت ہیں (یعنی اعلٰی اخلاق کے حامل ہیں)۔۔۔
پھر جن لوگوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سیاسی اغراض کی خاطر شرعی قواعد کو توڑدینے والا قرار دیا ہے وہ سراسر تعصب کی بناء پر ہے اور واقعات کے برعکس ہونے کے ساتھ ساتھ اکابر محدثین کی تصریحات بالا کے برخلاف ہے۔۔۔
ابن تیمیہ اور حافظ ذھبی!۔
علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ذھبی رحمہ اللہ علیھما نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی سیرت اور اخلاق وکردار پر تبصرہ کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ۔۔۔
وفضائل معاویہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ فی حسن السیرۃ والعدل والاحسان کثیرۃ
مطلب یہ ہے کہ عمدہ سیرت عدل وانصاف اور حسن سلوک میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بہت سے فضائل پائے جاتے ہیں۔۔۔
منہاج السنہ (ابن تیمیہ) صفحہ ١٨٥ جلد ٣ تحت السبب السابع، طبع لاہور، المتقٰی (ذھبی) صفحہ ٣٨٨ طبع مصر، تحت ثناء الائمہ الاعلام علی معاویہ رضی اللہ عنہ)۔۔۔
ایک دوسرے مقام پر ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں!۔
وکانت سیرۃ معاویۃ رضی اللہ عنہ مع رعیتہ من خیار سیر الولاۃ وکانت رعیتہ یحبونہ وقد ثبت فی الصحیحین علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال خیار ائمگکم الذین تحبونھم ویحبونکم وتصلون علیھم ویصلون علیکم
عمدہ سیرت والے ولاۃ اور حکام کی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت بھی اپنی رعیت کی حق میں بہترین تھی اور ان کی رعیت ان کے ساتھ محبت کرتی تھی صحیحین میں جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے آئمہ اور والیوں میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ تم محبت رکھتے ہو اور وہ تمہارے ساتھ محبت رکھتے ہیں
(منہاج السنہ (ابن تیمیہ) صفحہ ١٨٩ جلد ٣ تحت جوابات مطاعن)۔۔۔
ملاعلی قاری کاقول!۔
جید علمائے حدیث میں ملا علی قاری رحمہ اللہ مشہور مصنف ہیں شرح مشکوۃ شریف میں جو مرقاۃ المفاتیح کے نام سے موسوم ہے اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقام کو بیان کرتے ہوئے رقم کرتے ہیں کہ۔۔۔
واما معاویۃ رضی اللہ عنہ فھو من العدول الفضلاء والصحابۃ الاخیار۔
یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عادل اور صاحب فضیلت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ہیں اور اُن کا شمار اخیار صحابہ میں ہوتا ہے
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ والمصابیح (ملاعلی قاری بن سلطان القاری متوفی ١٠١٤ھ) صفحہ ٢٧٢ جلد ١١ تحت مناقت الصحابہ طبع ملتان)۔۔۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کابیان!۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علمائے ہند میں ایک مقام رکھتے تھے اور مدح صحابہ میں ان کے بیان کو عندالعلماء بڑی اہمتی حاصل ہے شاہ صاحب محدث دہلوی اپنی مشہور تالیف
ازالۃ الخفاعن خلافۃ الخلفاء میں تنبیہ سوم کے تحت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقام ومنزلت کو تحریر فرماتے ہیں کہ!۔
باید دانست کہ معاویۃ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ یکے از اصحاب آنحضرت بود صلی اللہ علیہ وسلم وصاحب فضیلت جلیلہ در زمرہ صحابہ رضی اللہ عنھما زنہار درحق او سوء ظن نکنی و در ورطہ سب او نہ افتی تامرکت حرام نشوری
اخرج ابوداؤد عن ابی سعید قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاتسبوا اصحابی فو الذی نفسی بیدہ لو انفق احدکم مثل احد ذھبا ما بلغ مد احدھم ولا نصیفہ۔
متعدد احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم رقم کرنے کے بعد لکھا کہ۔۔۔
وعقل نیز برآن دلالت مے کند زیر انکہ از طرق کثیرہ معلوم شد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معلوم فرمودند کہ وی فی وقت من الاوقات خلیفہ خواہد شدد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چوں شفقت وافرہ برامت واشتند کما قال اللہ تعالٰی حریص علیکم بالمومنین رءوف رحیم پس رافت کاملہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم بنسبت امت اقتضا فرمود کہ خلیفہ ایشاں راد عا بہدایت واہتدا نماید۔۔۔
مزید احادیث فضیلت نبوی رقم کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ۔۔۔
وقد اسفاض ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم استکتبہ وھو لا یستکتب الاعدلا امینا۔۔۔۔ الخ
یعنی معلوم ہونا چاہئے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں اور فضیلت جلیلہ کے حامل اصحاب میں شامل ہیں خبردار! معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور سب وطعن کے چکر میں پڑ کر حرام فعل کا ارتکاب نہ کرنا کیونہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرے اصحاب کو سُب وشتم مت کرو اللہ کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تمہار ایک آدمی احد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرے تو وہ میرے اصحاب کے ایک مد کے جو کے برابر بھی نہیں (یعنی بہ نسبت دیگر لوگوں کے صحابہ کرام کا مقام ومرتبہ نہایت رفیع ہے)۔۔۔
ازلۃ الخفاعن خلافۃ الخلفاء کامل صفحہ ١٤٢-١٤٧ تحت تنبیہ سوم تمتہ مقصد بالاء فصل پنجم از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی طبع الاول بریلی)۔۔۔
(دیگر فضیلت اس طرح ذکر فرمائی) طرق کثیرہ کے ذریعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق معلوم تھا کہ ایک وقت میں وہ خلیفہ ہوں گے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی اُمت پر شفقت وافراہ ہے جس طرح کہ قرآن مجید میں ہے کہ حریص علیکم بالمومنین رؤف الرحیم امت پر شفت کے تقاضا کی بناء پر آپ نے اپنے اس خلیفہ (معاویہ رضی اللہ عنہ) کے حق میں ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ ہونے کی دعائیں فرمائیں
(اور دیگر یہ چیز ذکر کہ) یہ بات شہرت کا درجہ رکھتی ہے کہ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب اور منشی قرار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عادل اور امین شخص کے بغیر کسی کو یہ منسب نہیں عطاء کرتے۔۔۔
مختصر یہ ہے کہ یہ تنبیہ سوم تمام ہی فضیلت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر مشتمل ہے جس میں سے چند ایک چیزیں نقل کی ہیں اس سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نظریات واضح ہیں یعنی وہ انہیں عادل اور امین سمجھتے ہیں اور جلیل القدر صحابہ میں شمار کرتے ہیں اور ان کی بدگوئی اور بدکلامی سے منع کرتے ہیں۔۔۔
حضرت اعلٰی خواجہ شمس العارفین رحمہ اللہ علیہ (المتوفی ١٣٠٠ھ) کافرمان!۔
حضرت خواجہ شمس الدین رحمہ اللہ (سیال شریف، ضلع سرگودھا پنجاب) مشائخ چشت کے مشاہیر بزرگوں میں سے ہیں اور تصوف وطریقیت میں نہایت اعلٰی مقام ومرتبہ پر فائز ہیں۔ موصوف کے ملفوظات کو ایک عقیدت مند سید محمد سعید شاہ لاہوری نے مجالس کی شکل میں بزبان فارسی مدون کیا ہے جس کا نام مراۃ العاشقین ہے۔
حضرت اعلٰی خواجہ شمس الدین العارفین رحمہ اللہ کی مجلس کا بیان ذکر کرتے ہوئے سید محمد سعید شاہ صاحب لکھتے ہیں۔
بعدازں سخن درذکر جنگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ وامیر معاویہ رضی اللہ عنہ افتاد، خواجہ شمس العارفین فرمود آنچہ میاں حضرت علی و امیر معاویہ رضی اللہ عنھما نزاع وخصومت واقع شدہ است اجتہاد بودنہ از جہت عناد پس ا درویش اگرچہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ برخطابود لیکن فعل مجتہد اگر برخطا افتدہم یک ثواب حاصل شود پس درویش راباید کہ درحق ایشاں ہیچ نہ گوید۔
یعنی گزشتہ کلام کے بعد آپ موصوف کی خدمت میں حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنھما کے درمیان جنگ کا تذکرہ ہوا تو حضرت اعلٰی خواجہ شمس العارفین رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جو نزاع اور خصومت واقع ہوئی وہ از روئے اجتہاد تھی کسی عناد کی بنا پر واقع نہیں ہوئی تھی۔۔۔
(مراۃ العاشقین درملفوظات حضرت علی خواجہ شمس العارفین سیالوی رحمہ اللہ صفحہ ١٠٩ طبع قدیم لاہور، تالیف سید محمد سعید ساہ صاحب لاہور، تحت مراۃ بیست وسوم (٢٣) جہاد اصغر و جہاد اکبر)۔۔۔
فرمایا کہ اے درویش امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اگرچہ خطاء پر تھے لیکن مجتہد کا فعل اگر خطاء پر بھی ہو تو پھر بھی ایک ثواب اسے حاصل ہوتا ہے (یعنی وہ عیب شمار نہیں ہوتا) پس درویش کو چاہئے کہ ان حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کے حق میں کچھ نازیبا کلام ہرگز نہ کریں۔۔۔
علامہ شہاب الدین خفاجی رحمہ اللہ نسیم الریاض میں فرماتے ہیں!۔
ومن یکن یطعن فی معاویۃ رضی اللہ عنہ فذاک کلب من کلاب الھاویۃ
یعنی جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کُتا ہے۔
(نسیم الریاض شرح شفاء للقاضی عیاض (خفاجی) صفحہ ٤٧٥ جلد ٣ تحت فصل ومن توقیرہ وبرہ صلی اللہ علیہ وسلم توقیر اصحابہ وبرہ، طبع ترکی)۔۔۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (المتوفی ١٣٢٦ھ) کا بیان!۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ کے فتاوٰی کا مجموعہ “فتاوٰی امدادیہ“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ ایک سائل نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور مقام کے متعلق تحریرا سوال کیا تو اس میں مولانا صاحب موصوف نے درج ذیل جواب ذکر کیا کہ!۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ خود صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے والد بھی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور شان میں کسی کو کلام نہیں مگر کہ وہ شخص رافضی ہو
حضرت کا لقب اور رضی اللہ عنہ کے تحیہ وتحفہ کے ساتھ اس کا ذکر کرنا اہلسنت والجماعت کا شعار ہے اور جو شخص ان کے حق میں اپنی زبان پر طعن وتشنیع کے کلمات لاتا ہے وہ شعبہ رفض سے خالی نہیں۔۔۔
بعدہ حضرت موصوف نے فضیلت صحابہ رضی اللہ عنھم پر متعدد احادیث ذکر کی ہیں اور پھر لکھا ہے کہ!۔
از حضرت غوث الثقلین قدس سرہ، منقول است کہ اگر در رہگذر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نشینم وگردہم اسپ جناب برمن افتد باعث نجات می شناسم۔
پس تعجب کہ چنیں بزرگان دین چناں خیال فرمانید وچند کساں وناکساں زبان درازی کنند صدق من قال
چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد
میلش اندر طعنہ پاکان بر (فقط ١٦جمادی الاولٰی ١٣٠١ھ)
یعنی حضرت شیخ جیلانی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اگر میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رہگذر میں بیٹھ جاؤں اور اُن کے گھوڑے کے سم کی گرد مجھ پر پڑے تو اسے میں اپنی نجات کا باعث شمار کرتا ہوں پس تعجب کا مقام ہے کہ اس اعلٰی درجے کے بزرگان دین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق اس قسم کا اظہار عقیدت فرمائیں اور دوسرے کس وناکس زبان درازی کریں شاعر نے سچ کہا ہے کہ!۔ جب اللہ تعالٰی کسی کا پردہ پھاڑ دیتا ہے تو وہ نیک لوگوں کے خلاف زبان درازی کی طرف مائل ہوجاتا ہے
(فتاوٰی امدایہ صفحہ ١٢٢-١٢٣جلد ٤ کتاب العقائد والکلام، طبع مجتبائی دیلی قدیم)۔۔۔
رائے گرامی حضرت مولانا عبدالستار تونسوی دامت برکاتہمالحمداللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی خاتم الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین امابعد۔
اس پر آشوب دور میں جہاں شعائر اسلام کا استحفاف اور استحقار اور امور دین سے اعراض وانکار روز مرہ کے مشاغل بن گئے ہوں اور دین متین داخلی وخارجی فتنوں سے ہمکنار ہو آئے دن فتنوں کا ایک سیلاب امنڈتا چلا آرہا ہوں اور اہل باطل کی ریشہ دوانیاں اور کارستانیاں من کل حذب ینسلون کی صورت نمودار ہو رہی ہو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریف وانکار کے نشے میں دنیا میں روز افزوں ہوں اور حب اہل بیت کے نام پر صحابہ سے نفرت وبیزاری کا بیج بویا جارہا ہو حتٰی کہ اسلام کے نام پر کفر مسلط کیا جارہا ہو ایسی سنگین صورت حال میں معاندین کی یہ روش کتنی دلسوز ہے کہ تربیت یافتگان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدف طعن وتشنیع بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے اور خلفائے ثلاثہ حضرات صدیق وفاروق وغنی رضی اللہ عنھم کی تکفیر وسب وشتم میں طبع آزمائی کر کے دل کی آگے بجھائی جائے گویا نام نہاد محبان شجر اسلام کی جڑ کاٹنے کو تیار بیٹھے ہیں (نعوذ باللہ)۔۔۔۔
چوں کر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
اس کربناک داستان کا آغاز اس تحریک وتخریب سے ہوا جس کے پرچار کنندگان شیعہ اثناعشری اور روافض کے نام سے مشہور ہیں مگر شیعی نظریات کے اولین موجد عبداللہ بن سبا یہودی اور اس کے رفقاء تھے جنہوں نے یہودیت کی شہ پر اسلامی فتوحات وترقی کو روکنے اور امت مسلمہ کی وحدانیت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے خطرناک چالیں چلیں ابن سبا نے سب سے پہلے نظریہ امامت ایجاد کرکے اس کا خوب پرچار کیا اور پھر ساتھ ہی اصحاب ثلاثہ پر تکفیر اور ان پر واشگاف الفاظ میں سُب وتبرا کرنے کا آغاز کیا جس کا اقرار شیعہ مجتہدین مثلا ابوعمروکشی، مامقانی اور باقر مجلسی جیسے لوگ بھی کُتب معتبرہ میں کرچکے ہیں بلکہ شیعہ مجتہدین نے لکھا ہے کہ!۔
فمن ھھنا قال من خالف الشیعہ اصل التشیع والرفض ماخوذ من الیھود
یہیں سے وہ لوگ جو شیعہ کے مخالف ہیں یہ کہتے ہیں کہ شیعت ورافضٰت یہودیت سے ماخوذ ہے
(فرق الشیعہ صفحہ ٣٠ رجال کشی صفحہ ١٠٨، تنقیح المقال صفحہ ٨٧، بحارالانوار صفحہ ٢٥، تفسیر مراۃ الانوار صفحہ ٦٢)۔۔۔
نیز مرزا غلام احمد قادیانی دجال بھی اپنی کتاب میں ایک موقع پر لکھتا ہے کہ “ میرے ایک استاد ایک بزرگ شیعہ تھے ان کا مقولہ تھا کہ وباء کا علاج فقط تولا اور تبرا ہے یعنی آئمہ اہل بیت کی محبت کو پرستش کی حد تک پہنچادینا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو گالیاں دیتے رہنا اس سے بہتر کوئی علاج نہیں
(دافع البلاء صفحہ ٧)۔۔۔
اس سے واضح ہوگیا کے قادیانیت، شیعیت کی پیداوار ہے جبکہ شیعیت، یہودیت کا چربہ ہے۔۔۔
کندہم جنس باہم جنس پرواز
بہرحال شیعہ مجتہدین کی صراحت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابن سباء نے عقیدہ امامت کے ذریعے سے حب آل رسول کا لبادہ اوڑھ کر نفاق اور تقیہ کے سیاہ ودبیز پردے میں شیعیت کی بنیاد رکھی اس اسلام دشمن تحریک میں ظاہرا صحابہ کو مورد طعن بنایا گیا مگر اہل علم سے مخفی نہیں کہ شیعہ امامیہ کے اصالتا جو کچھ عداوت تھی وہ اسلام، قرآن اور صاحب قرآن سے تھی صحابہ کو موردطعن اس لئے بنایا گیا کہ قرآن حکم اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے چشم دیدگواہ صحابہ ہی ہیں جب عینی گواہ مجروح ہوجائیں گے تو سارے دین سے اعتماد اٹھ جائے گا اسی لئے امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ نے فرمایا!۔
اذا رایت الرجل ینتقص احدا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاعلم انہ زندیق
جب تم ایسے شخص کو دیکھو کہ جو صحابہ کہ تنقیص وتردید کرتا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق ہے
(ابوزرعہ رازی صفحہ ١٩٩ صفحہ ٢٣١)۔۔۔
پس اسی سبب سے ہم سمجھتے ہیں کہ فتنہ رفض کئی وجوہ کی بناء پر کھلے عام کفروزندقہ سے کہیں زیادہ سنگین ہے لیکن عوام الناس بیچارے حب اہل بیت کے خوشمنا نعرے سے دھوکہ کھا گئے اور اہل تشیع کو مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ تصور کرنے لگے یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی کہ شیعوں کی کتب اصلیہ نایاب تھیں اور ان کے عقائد ونظریات کا کما ینبغی کسی کو علم نہ ہوسکا اور ساتھ ہی شیعیت پر کتمان وتقیہ کی سیاہ چادر تنی رہی، ورنہ شیعہ اثناعشریہ مذہب نہ صرف بےشمار ضروریات دین کا منکر ومکذب ہے بلکہ اس کا کلمہ سے لیکر قرآن تک مسلمانوں سے جدا ہے انہیں مسلمان کہنا خود اسلام کی نفی ہے علمائے امت ہمیشہ مسلمانوں کو ان کی شقاوت ضلالت اور کفر ونفاق سے آگاہ کرتے رہے ۔۔۔ مثلا علامہ ابوبکر ابن العربی، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی وغیرھم آج سے تقریبا پون صدی قبل استاذی المکرم امام اہلسنت حضرت علامہ مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی نے اثناء عشریہ کے کفریہ عقائد مثل تحریف قرآن، عقیدہ بداء، عقیدہ امامت، تکفیر صحابہ اور قذف عائشہ رضی اللہ عنھا کی بنیاد پر ان کی تکفیر کا فتوٰی جاری کیا جس پر مشائخ دیوبند شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا ومرشد سیدحسین احمد صاحب مدنی، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا محمد ابراھیم صاحب بلیاوی، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ جیسے اساطین کے تصدیقی دستخط ثبت ہیں۔۔۔
( ماہنامہ بینات صفحہ ٩٣-٩٣-١٧٠-١٧٥ کراچی خمینی اور شیعہ اثناعشریہ کے بارے میں علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ)۔۔
خلاصہ کلام!۔
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے درمیان مسئلہ خلافت کا نہیں تھا۔۔۔ اختلاف کی وجہ قصاص عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ بنا۔۔۔ اور جس گروہ نے اپنے مذموم عزام کے حصول کے مقصد کے لئے اس کو اختلافی مسئلہ بنایا اور اصحاب رسول صلی اللہ وسلم کی شان میں گستاخیوں کی داغ بیل ڈالی۔۔۔ اُن سے ہم برآت کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے۔۔۔۔
کہ میرے اصحاب اور اصبہا کو میرے لئے چھوڑ دو جو شخص ان کو سُب وشتم کرے گا اس پر اللہ تعالٰی، ملائکہ، اور تمام لوگوں کی لعنت ہو
(تاریخ بغداد خطیب بغدادی صفحہ ٢٠٩ جلد ١ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رحمہ اللہ علیہ، تاریخ ابن عساکر صفحہ ٧٤٦ جلد ١٦ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رحمہ اللہ، البدایہ والنھایہ (ابن کثیر) صفحہ ١٣٩ جلد ٨ تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)۔۔۔
لہذا اس اختلاف کو لیکر مسلمانوں کے درمیان جس فتنے کی پرورش پچھلے چودہ سو سالوں سے ہورہی ہے الحمداللہ اس حقیقت کو ہر خاص وعام بہت اچھی طرح سمجھ رہا ہے بلکہ سمجھ چکا ہے کہنا صحیح ہوگا۔۔۔ اہلسنت والجماعت کا موقف حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بالکل واضح ہے اسی لئے صحابہ کرام سے لئے کر ہمارے دور کے علماء مشائخ تک کا عقیدہ پیش کیا اور ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا ہے الحمداللہ ہمارے دل حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بغض سے اللہ نے محفوظ کررکھے ہیں۔۔۔ کیونکہ اہلسنت کا موقف بالکل واضح ہے کہ اختلاف کی وجہ اقتدار کی حوس نہیں بلکہ قصاص عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ تھی جو کہ اجتہادی مسئلہ تھا۔۔۔ اور جب اس اختلاف پر باہم اتفاق ہوگیا تو رافضیت نے رات کی تاریکی میں دونوں گروہوں پر تیر اندازی شروع کر کےاس فتنے کو ہوا دی جس سے امت مسلمہ کو شدید نقصان پہنچا۔۔۔ لیکن پھر بھی ہم اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہیں۔۔۔ اور الحمداللہ آج ہم اپنے دشمن کو پہچان چکے ہیں۔۔۔
واللہ اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔