• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوشل میڈپا پہ اسلام کی غلط ترجمانیاں

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آپ انسان کے جسم میں جن "جسے ہم بدروح یا خبیث روح بھی کہتے ہیں "تسلم نہیں کرتے مگر اس فورم کے آپ مسئول ہیں جس پہ جن کےانسان کے اندر دخول کا ثبوت موجود ہے، کیا آپ سے قیامت میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی ؟؟ فاعتبروا


میں آپ کی جانب سے پیش کی گئی فضول باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ، مختصرا یہی کہتاہوں جو شیخ محمد صالح المنجد نے محمد الحمود النجدی کے حوالے سے کہی ہے ۔


"جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا یقینی طور پر کتاب وسنت اور بااتفاق اہل وسنت والجماعت اور حسی اور مشاہداتی طور پر ثابت ہے اور اس معاملہ میں سوائے معتزلہ کے جنہوں نے اپنے عقلی دلائل کو کتاب وسنت پر مقدم کیا ہے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا".

===================================

1819: جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونے کے متعلق

پچھلے دنوں جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونے کا معاملہ پھیلا ہوا تھا اور یہ عقلی طور پر ناممکن ہے۔ اسکا سبب یہ ہے کہ ان کا پیدائشی طور پر آپس میں فرق ہے۔ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا جبکہ جن آگ سے پیدا ہوا ہے۔ اور یہ کہ شیطان صرف وسوسے ڈالنے پر قادر ہیں اور اللہ تعالی نے انہیں انسان پر کوئی سلطہ نہیں دیا کہ وہ انسان پر مسلط ہوسکیں۔ اور جو کیسٹیں لوگوں کے پاس چل رہی ہیں وہ کوئی دلیل نہیں۔ تو آپ کا اس پر کیا رد ہے؟

الحمدللہ

جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا یقینی طور پر کتاب وسنت اور بااتفاق اہل وسنت والجماعت اور حسی اور مشاہداتی طور پر ثابت ہے اور اس معاملہ میں سوائے معتزلہ کے جنہوں نے اپنے عقلی دلائل کو کتاب وسنت پر مقدم کیا ہے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا اور ہم دلائل میں جو آسان ہو ذکر کریں گے۔

فرمان باری تعالی ہے:

"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے یہ اس لئے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے۔" البقرہ275

قرطبی نے اپنی تفسیر میں (ج3ص355) میں کہا ہے کہ (یہ آیت اس انکار کو فاسد کرنے کی دلیل ہے جو کہتا ہے کہ دورے جن کی طرف سے نہیں اور وہ یہ گمان کرتا ہے کا یہ طبیعتوں کا فعل ہے اور شیطان انسان کے اندر نہیں چلتا اور نہ ہی اسے چمٹا ہے۔)

اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر (ج1ص32) میں مذکورہ آیت ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ (یعنی وہ قیامت کے دن اپنی قبروں سے ایسے کھڑے ہونگے جس طرح کہ مرگی والے کو دورے کی حالت ہوتی ہے اور شیطان اسے خبطی بنا دیتا ہے اور اس لئے کہ وہ منکر کام کیا کرتا تھا: اور ابن عباس (رضی اللہ عنہما) کا فرمان ہے کہ سود خور قیامت کے دن مجنون اور گلا گھونٹا ہوا اٹھے گا)

اور صحیح حدیث میں جسے نسائی نے ابو الیسر سے روایت کیا ہے وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے

(اے اللہ میں گرنے اور بہت زیادہ بڑھاپے اور غرق ہونے اور جل جانے سے پناہ مانگتا ہوں اور تیری پناہ میں آتا ہوں کہ مجھے شیطان موت کے وقت خبطی بنادے ۔)

مناوی نے اپنی کتاب فیض (ج2ص148) میں عبارت کی شرح میں کہا ہے (اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت خبطی کردے) کہ وہ مجھ سے چمٹ جائے اور میرے ساتھ کھیلنا شروع کردے اور میرے دین یا عقل میں فساد بپا کردے۔ (موت کے وقت) یعنی نزع کے وقت جس وقت پاؤں ڈگمگا جاتے اور عقلیں کام کرنا چھوڑ دیتی اور حواس جواب دے جاتے ہیں۔ اور بعض اوقات شیطان انسان پر دنیا کو چھوڑتے وقت غلبہ پالیتا ہے تو اسے گمراہ کردیتا یا پھر اسے توبہ سے روک دیتا ہے۔۔۔) الخ

اور ابن تیمیہ نے (مجموع الفتاوی 24/276) میں کہا ہے کہ جنوں کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بالاتفاق آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ سے ثابت ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے" البقرہ 275

اور صحیح (بخاری) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ (کہ شیطان ابن آدم کے اندر اس طرح دوڑتا ہے کہ جس طرح خون)1ھ

اور عبداللہ بن امام احمد کا قول ہے کہ۔ میں نے اپنے باپ سے کہا کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جن انسان کے بدن میں داخل نہیں ہوتا تو انہوں نے فرمایا (اے میرے بیٹے وہ جھوٹے ہیں حالانکہ وہ اسکی زبان سے بول رہا ہے۔)

تو ابن تیمیہ نے اس پر تعلیق لگاتے ہوئے فرمایا:

(یہ جو انہوں نے کہا وہ مشہور ہے کیونکہ جب آدمی کو دورہ پڑتا ہے تو زبان سے ایسی باتیں کرتا ہے جن کا معنی بھی نہیں جانتا اور اسکے بدن پر بہت زیادہ مارا جاتا ہے اگر اس طرح کی مار اونٹ کو ماری جائے تو وہ بھی متاثر ہو۔

اور جن چمٹے ہوئے شخص کو یہ مار محسوس بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے وہ کلام جو کہ وہ کرتا ہے محسوس ہوتا ہے اور بعض اوقات دورے والا اور بغیر دورے کے شخص کو کھینچا جاتا ہے اور بستر یا چٹائی جس پر وہ بیٹھا ہوتا ہے کھینچی جاتی ہے اور آلات واشیاء بدل جاتی ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل ہوتا اور اسکے علاوہ اور کئی امور واقع ہوتے ہیں جس نے یہ دیکھیں ہوں اسے یہ یقینی علم ہوجاتا ہے کہ انسان کی زبان پر بولنے والا اور ان جسموں کو حرکات دینے والا انسان کے علاوہ کسی اور جنس سے ہے)

حتی کہ رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا (اور آئمہ مسلمین کے اندر کوئی ایسا امام نہیں جو کہ جن کا انسان کے جسم میں داخل ہونے کا منکر ہو اور جو اسکا انکار کرے اور یہ دعوی کرے کہ شرع جھوٹ بول رہی ہے تو اس نے شرع پر جھوٹ بولا اور شرعی دلائل میں کوئی دلیل اس کی نفی نہیں کرتی)

تو جنوں کا انسان کے جسم میں داخل ہونا کتاب عزیز اور سنت مطہرہ اور اہل سنت والجماعۃ کے اتفاق سے ثابت ہے جنکے ہم نے بعض دلائل ذکر کئے ہیں۔

اور اللہ تعالی کا یہ ارشاد مبارک:

" اور دراصل وہ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے"

تو یہ بلاشک اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جن اللہ تعالی کے حکم کے بغیر یہ طاقت ہی نہیں رکھتے کہ وہ کسی کو جادو یا اس سے چمٹ کر یا اسی طرح کسی اور قسم کی ایذا دے سکیں یا اسے گمراہ کرسکیں۔

جیسا کہ حسن بصری کا قول ہے کہ:

اللہ تعالی جس پر چاہے انہیں مسلط کردیتا ہے اور جس پر نہ چاہے اس پر مسلط نہیں کرتا اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی پر طاقت نہیں رکھتے ۔

جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔

تو شیطان (اور وہ کافر جن ہے) بعض اوقات مومنوں پر انکے گناہوں کی وجہ اور اللہ تعالی کے ذکر اور اسکی توحید اور اسکی عبادت میں اخلاص سے دور ہونے کے سبب سے ان پر انہیں مسلط کردیتا ہے۔

لیکن جو اللہ تعالی کے نیک اور صالح بندے ہیں ان اسکی کوئی قدرت نہیں ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے۔

"میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نھیں اور تیرا رب کارسازی کرنے والا کافی ہے" الاسراء 65

اور اسے دور جاہلیت میں عرب بھی اچھی طرح جانتے اور اپنے اشعار میں اسکا تذکرہ کرتے تھے تو اسی لئے اعشی نے اپنی اونٹنی کو چستی کے لحاظ سے جنون کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اس کا قول ہے:

وہ کچھ دنوں کو رات کو چلنے کے بعد ایسے ہو جاتی ہے کہ اسے جنوں کی طرف سے کوئی جنون پہنچا ہے۔

اور الاولق جنون کی تشبیہ کو کہتے ہیں۔

اور جن چمٹنے کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے ابن تیمیہ نے (مجموع فتاوی 19/39) کہا ہے کہ۔

(بعض اوقات جن انسان کو شہوت اور خواہش اور عشق کی بنا پر چمٹتے ہیں جس طرح کہ انسان انسان کے سے متفق ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور بعض اوقات بغض اور سزا کے طور پر اور یہ کثرت سے ہے۔ مثلا انسانوں میں سے کوئی انہیں ایذا اور تکلیف دیتا ہے یا پھر وہ گمان کرتے ہیں کہ انسانوں نے جان بوجھ کر تکلیف دی ہے یہ تو کسی پر پیشاب کردینا اور یا پھر کسی جن پر گرم پانی بہا دینا اور یا کسی کو قتل کردینا اگرچہ انسان کو اسکا علم بھی نہیں ہوتا اور جنوں میں جہالت اور ظلم ہے تو وہ اسکی سزا کئے گئے فعل سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔

اور بعض اوقات بطور کھیل کود اور مذاق اور یا پھر شر کی بنا پر بے وقوف جنوں کی طرف سے یہ حاصل ہوتا ہے۔) انتہی۔

میں کہتا ہوں، امید ہے کہ ان سب چیزوں سے نجات اس وقت مل سکتی ہے جبکہ اللہ تعالی کا ذکر اور ہر کام شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ بہت سے کاموں کے وقت اللہ تعالی کا ذکر اور بسم اللہ پڑھنا مثلا کھانا کھاتے اور پانی پیتے اور جانور پر سوار ہوتے وقت اور ضرورت کے وقت کپڑے اتارتے وقت اور بیوی سے جماع کرتے وقت وغیرہ۔

اور اسکے علاج کے متعلق ابن تیمیہ (مجموع الفتاوی 19/42) میں فرماتے ہیں کہ:

(اور مقصد یہ ہے کہ اگر جن انسانوں پر زیادتی کریں تو انہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بتایا جائے اور ان پر حجت قائم کی جائے اور انہیں نیکی کا حکم اور برائی سے روکا جائے جس طرح کہ انسان کے ساتھ کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

"ہم کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک کہ رسول کو نہ بھیج دیں"

پھر اسکے بعد فرماتے ہیں کہ اگر جن امر اور نہی اور یہ سب بیان کرنے کے بعد بھی باز نہ آئے تو پھر اسے ڈانٹ ڈپٹ اور لعنت ملامت اور برا بھلا اور دھمکی وغیرہ دینا جائز ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کے ساتھ کیا جب وہ آپ پر انگارہ لے کر حملہ آور ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (میں تجھ سے اللہ تعالی کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ پر تین بار اللہ تعالی کی لعنت کرتا ہوں۔) اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

اور اسکے خلاف قرآن پڑھ کر اور اللہ تعالی کا ذکر کرکے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ اور خاص کر آیۃ الکرسی پڑھ کے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(بیشک جو اسے پڑھے گا اس پر اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ صبح تک کے لئے مقرر کردیا جائے گا اور شیطان اسکے قریب بھی نہیں بھٹک سکے گا۔) اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

اور اسی طرح معوذ تین (قل اعوذ برب الفلق۔۔ اور قل اعوذ برب الناس) دونوں سورتیں پڑھنا۔

اور لیکن نفسیاتی ڈاکٹر جن چمٹے ہوئے کے علاج میں ان چیزوں پر اعتماد نہیں کرتا کیونکہ وہ اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔

اور یہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ تفصیل کا محتاج ہے لیکن جو ہم نے ذکر کیا ہے اس میں ان شاء اللہ سنت کی پیروی کرنے والے کےلئے کفایت ہے۔

والحمدللہ رب العالمین۔ .

المرجع۔۔ : مسائل ورسائل ۔ تالیف۔ محمد الحمود النجدی ص23


لنک

http://islamqa.info/ur/1819
لگتا ہے کہ آپ کی دلیل شیخ محمد صالح المنجد نے محمد الحمود النجدی کا فتویٰ ہے - میں سمجھا تھا کہ آپ کی دلیل قرآن اور صحیح احادیث ہیں - خیر کوئی بات نہیں -

آپ کی ان ساری باتوں کو اس تھریڈ میں


زیر بحث لایا گیا ہے - شاہد آپ اس کو پڑھنے سے اور اس تھریڈ کا جواب دینے سے کترا رہے ہیں -

آپ نے یہاں شیخ محمد صالح المنجد نے محمد الحمود النجدی کا فتویٰ لگا دیا اور اس سے اتفاق بھی کیا - لیکن شاہد آپ نے شیخ محمد صالح المنجد نے محمد الحمود النجدی کا یہ والا فتویٰ نہیں پڑھا -


جاء في “طبقات الحنابلة” (1/233) للقاضي أبي الحسين بن أبي يعلى الفرَّاء : أن الإمام أحمد بن حنبل كان يجلس في مسجده فأنفذ إليه الخليفة العباس المتوكل صاحباً له يعلمه أن جارية بها صرع ، وسأله أن يدعو الله لها بالعافية ، فأخرج له أحمد نعلي خشب بشراك من خوص للوضوء فدفعه إلى صاحب له ، وقال له : امض إلى دار أمير المؤمنين وتجلس عند رأس الجارية وتقول له – يعني الجن – : قال لك أحمد : أيما أحب إليك تخرج من هذه الجارية أو تصفع بهذه النعل سبعين ؟ فمضى إليه ، وقال له مثل ما قال الإمام أحمد ، فقال له المارد على لسان الجارية : السمع والطاعة ، لو أمرنا أحمد أن لا نقيم بالعراق ما أقمنا به ، إنه أطاع الله ، ومن أطاع الله أطاعه كل شيء ، وخرج من الجارية وهدأت ورزقت أولاداً ، فلما مات أحمد عاودها المارد ، فأنفذ المتوكل إلى صاحبه أبي بكر المروذي وعرفه الحال ، فأخذ المروذي النعل ومضى إلى الجارية ، فكلمه العفريت على لسانها : لا أخرج من هذه الجارية ولا أطيعك ولا أقبل منك ، أحمد بن حنبل أطاع الله ، فأمرنا بطاعته . انتهى


قاضي أبي الحسين بن أبي يعلى کہتے ہیں کہ امام احمد مسجد میں تھے کہ خلیفہ المتوکل کا ایک آدمی آیا اور ان سے لونڈی میں جن نکالنے کے بارے میں پوچھا امام احمد نے اپنی نعل المتوکل کے آدمی کو دی اور کہا اس کو لونڈی کے سر پر رکھنا اور کہنا تجھے کیا پسند ہے لونڈی میں سے نکلنا یا ایسی ٧٠ جوتیوں سے تواضع؟ ادمی نے ایسا ہی کیا جیسا امام احمد نے کہا تھا جب وہ اپس آیا تو اس نے بتایا کہ جن نے کہا سمع و اطاعت، اگر امام احمد نے حکم کیا ہے تو ہم اب عراق میں نہیں رہیں گے… امام احمد کی موت کے بعد … أبي بكر المروذي نے اس کو حاصل کیا اور جن نکالتے



(ترجمہ کی غلطی ہو تو بندہ اصلاح کا طلبگار ہے)​


شیخ محمد صالح المنجد نے محمد الحمود النجدی واقعہ نقل کر رہے ہیں کہ امام احمد کے نعل مبارکسے نہ صرف زندگی بلکہ موت کے بعد بھی جن نکالنے کے لئے استعمال ہوتے تھے

اب ہو سکتا ہے کہ میرے بھائی کو یہ فتویٰ قبول نہ ہو- اور اگر میرا بھائی یہ فتویٰ مانتا ہے تو امام احمد کے نعل مبارکسے نہ صرف زندگی بلکہ موت کے بعد بھی جن نکالنے کی دلیل قرآن اور صحیح حدیث سے میرے پیارے بھائی ذمہ ہو گی -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
1819: جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونے کے متعلق

فرمان باری تعالی ہے:

"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے یہ اس لئے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے۔" البقرہ275

قرطبی نے اپنی تفسیر میں (ج3ص355) میں کہا ہے کہ (یہ آیت اس انکار کو فاسد کرنے کی دلیل ہے جو کہتا ہے کہ دورے جن کی طرف سے نہیں اور وہ یہ گمان کرتا ہے کا یہ طبیعتوں کا فعل ہے اور شیطان انسان کے اندر نہیں چلتا اور نہ ہی اسے چمٹا ہے۔)

اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر (ج1ص32) میں مذکورہ آیت ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ (یعنی وہ قیامت کے دن اپنی قبروں سے ایسے کھڑے ہونگے جس طرح کہ مرگی والے کو دورے کی حالت ہوتی ہے اور شیطان اسے خبطی بنا دیتا ہے اور اس لئے کہ وہ منکر کام کیا کرتا تھا: اور ابن عباس (رضی اللہ عنہما) کا فرمان ہے کہ سود خور قیامت کے دن مجنون اور گلا گھونٹا ہوا اٹھے گا)
جواب اس آیت میں کہاں ہے کہ جن انسان میں داخل ہوتا ہے صرف اس کی انسانی حواس پر طاری ہونا ہے کہ انسان الله کی بات سمجھ نہیں سکتا اور سود کی تعریف کرتا ہے دوم قبروں سے جب لوگ اٹھیں گے تو وہ سب ٹھیک ہوں گے قرآن کہتا ہے اس روز ان کی نظر تیز ہو گی اور سب غیب شہود ہو گا جن و انس دونوں اپنے انجام کے لئے موجود ہوں گے

ابن کثیر کی تفسیری رائے اس پر فٹ نہیں آ رہی اپ خود بھی دیکھئے

اس خاص آیت میں زبان و ادب کا انداز ہے جس طرح اردو میں بھوت سوار ہونے کا محاورہ ہے

مدینہ کے سود کے متوالوں کے لئے کہا جا رہا ہے کہ وہ سودی کاروبار کو اس قدر پسند کرتے ہیں کہ اس کے حق میں حواس باختہ ہیں کہ گویا اس کا شیطان کا خبط ہو

ہم اردو میں کہتے ہیں بھوت سوار ہے اور یہ عربی میں انداز ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
صحیح (بخاری) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ (کہ شیطان ابن آدم کے اندر اس طرح دوڑتا ہے کہ جس طرح خون)1ھ
اس حدیث کے سیاق و سباق میں ہے کہ ایک رات نبی اپنی بیوی صفية بنت حيي رضي الله عنها کے ہاں سے نکلے جبکہ اپ معتكف بھی تھے اور کچھ انصاری صحابہ نے ان کو دیکھا اور تیزی سے جانے لگے- تو آپ نے کہا یہ میری بیوی ہیں اور کہا کہ شیطان انسان کو ایسے بہکآتا ہے کہ اس کے خوں میں ہو-

چونکہ صحابہ کو کہا جا رہا ہے تو کیا ان میں شیطان داخل ہوا یا ہم کو شیطان نے بہکایا تو کیا ہم میں داخل ہوا ؟

زبان و ادب کو بھی اگر کھینچ تان کر کے کچھ سے کچھ کر دیا جائے تو یہی ہو گا جو اپ کہہ رہے ہیں کہ اردو میں بھوت سوار ہونا بھی حقیقی بھوت بنے گا

اگر شیطان انسان کے خوں میں داخل ہوتا ہے تو سب کے ہی ہوتا ہو گا لیکن سب مخبوط الحواس کیوں نہیں ہیں اگر اس کا مفہوم ظاہر پر لینا فرض ہے ؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

البانی اور جنات

البیہقی کتاب سنن الکبری ج ٧ ص ٧٣٣ ح ١٥٥٧٠ بَابُ مَنْ قَالَ بِتَخْيِيرِ الْمَفْقُودِ إِذَا قَدِمَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّدَاقِ وَمَنْ أَنْكَرَهُ میں روایت نقل کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو مُحَمَّدٍ عُبَيْدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مَهْدِيٍّ لَفْظًا قَالَا: نا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، نا يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ، أنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، نا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ” أَنَّ رَجُلًا مِنْ قَوْمِهِ مِنَ الْأَنْصَارِ خَرَجَ يُصَلِّي مَعَ قَوْمِهِ الْعِشَاءَ فَسَبَتْهُ الْجِنُّ فَفُقِدَ فَانْطَلَقَتِ امْرَأَتُهُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَقَصَّتْ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ فَسَأَلَ عَنْهُ عُمَرُ قَوْمَهُ فَقَالُوا: نَعَمْ خَرَجَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ فَفُقِدَ فَأَمَرَهَا ” أَنْ تَرَبَّصَ أَرْبَعَ سِنِينَ، فَلَمَّا مَضَتِ الْأَرْبَعُ سِنِينَ أَتَتْهُ فَأَخْبَرَتْهُ فَسَأَلَ قَوْمَهَا فَقَالُوا: نَعَمْ فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ فَتَزَوَّجَتْ فَجَاءَ زَوْجُهَا يُخَاصِمُ فِي ذَلِكَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: ” يَغِيبُ أَحَدُكُمُ الزَّمَانَ الطَّوِيلَ لَا يَعْلَمُ أَهْلُهُ حَيَاتَهُ ” , فَقَالَ لَهُ: إِنَّ لِي عُذْرًا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ: وَمَا عُذْرُكَ؟ قَالَ: خَرَجْتُ أُصَلِّي الْعِشَاءَ فَسَبَتْنِي الْجِنُّ فَلَبِثْتُ فِيهِمْ زَمَانًا طَوِيلًا فَغَزَاهُمْ جِنٌّ مُؤْمِنُونَ أَوْ قَالَ: مُسْلِمُونَ شَكَّ سَعِيدٌ فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ فَسَبَوْا مِنْهُمْ سَبَايَا فَسَبَوْنِي فِيمَا سَبَوْا مِنْهُمْ فَقَالُوا: نَرَاكَ رَجُلًا مُسْلِمًا وَلَا يَحِلُّ لَنَا سَبْيُكَ فَخَيَّرُونِي بَيْنَ الْمُقَامِ وَبَيْنَ الْقُفُولِ إِلَى أَهْلِي فَاخْتَرْتُ الْقُفُولَ إِلَى أَهْلِي فَأَقْبَلُوا مَعِي أَمَّا بِاللَّيْلِ فَلَيْسَ يُحَدِّثُونِي وَأَمَّا بِالنَّهَارِ فَعِصَارُ رِيحٍ أَتْبَعُهَا فَقَالَ لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: ” فَمَا كَانَ طَعَامُكَ فِيهِمْ؟ ” قَالَ: الْفُولُ وَمَا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ , قَالَ: فَمَا كَانَ شَرَابُكَ فِيهِمْ؟ قَالَ: الْجَدَفُ قَالَ قَتَادَةُ: وَالْجَدَفُ مَا لَا يُخَمَّرُ مِنَ الشَّرَابِ قَالَ: فَخَيَّرَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بَيْنَ الصَّدَاقِ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ ” قَالَ سَعِيدٌ: وَحَدَّثَنِي مَطَرٌ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ [ص:733] عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِثْلَ حَدِيثِ قَتَادَةَ إِلَّا أَنَّ مَطَرًا زَادَ فِيهِ قَالَ: أَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ أَرْبَعَ سِنِينَ وَأَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا


عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری عشاء کی نماز پڑھنے نکلے کہ جنوں نے ان کو اغوا کر لیا پس ان کی بیوی چار سال بعد عمر رضی الله عنہ کے پاس آئی اور کہا کہ میرا شوہر مفقود ہے …. پھر مومن جنوں نے کافر جنوں پر حملہ کیا اور ان صاحب کو چار سال بعد آزاد کرایا


اس کی سند میں عبد الوهاب بن عطاء الخفاف ، أبو نصر العجلى مولاهم البصرى المتوفی ٢٠٤ ھ جن کو امام بخاری اور النسائى ليس بقوى قوی نہیں کہتے ہیں. امام احمد ضَعِيْفُ الحَدِيْثِ، مُضْطَرِبٌ کہتے ہیں اور ایک قول ثقہ کا بھی ہے. کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل میں خطیب ان کو مدلس کہتے ہیں. میزان الاعتدال کے مطابق الرازي کہتے ہیں : كان يكذب، جھوٹ بولتا تھا

البانی کتاب إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل میں اس روایت کو صحیح کہتے ہیں

قلت: وإسناده من طريق قتادة والجريرى صحيح , وأما طريق مطر وهو الوراق فإنه ضعيف


البانی کہتے ہیں میں کہتا ہوں اس کی سند قتادة اور الجريرى کے طرق سے صحیح ہے لیکن مطر الوراق والا طرق ضعیف ہے


جن چڑھنے کا عقیدہ بہت سے علماء نے قبول کیا حالانکہ اس کے اثبات میں روایات نہایت کمرور ہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

نفسیاتی ڈاکٹر جن چمٹے ہوئے کے علاج میں ان چیزوں پر اعتماد نہیں کرتا کیونکہ وہ اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔

سب نفسیاتی بیماریاں تھیں جن کو جن چڑھنا اور بد روحوں کا کسی دوسرے جسم پر قبضہ کہا جا رہا ہے اور اس طرح کے مرگی کے دورے نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں بھی لوگوں کو پڑتے تھے جیسا کہ حدیث میں ایک عورت کے لئے اتا ہے لیکن کسی حدیث میں نہیں اتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس مرگی زدہ عورت کی بیماری کو جن چڑھنا قرار دیا ہو ابن قیم نے باب کے شروع میں یہی روایت دی لیکن پھر میں کہتا ہوں سے اپنے عقیدے کو بیان کرنا شروع کر دیا



یہ روایت صحیح ہے اور اس میں مرگی کو بیماری بتایا ہے نہ کہ بد روح کا فعل
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
آپ نے یہاں شیخ محمد صالح المنجد نے محمد الحمود النجدی کا فتویٰ لگا دیا اور اس سے اتفاق بھی کیا - لیکن شاہد آپ نے شیخ محمد صالح المنجد نے محمد الحمود النجدی کا یہ والا فتویٰ نہیں پڑھا -


جاء في “طبقات الحنابلة” (1/233) للقاضي أبي الحسين بن أبي يعلى الفرَّاء : أن الإمام أحمد بن حنبل كان يجلس في مسجده فأنفذ إليه الخليفة العباس المتوكل صاحباً له يعلمه أن جارية بها صرع ، وسأله أن يدعو الله لها بالعافية ، فأخرج له أحمد نعلي خشب بشراك من خوص للوضوء فدفعه إلى صاحب له ، وقال له : امض إلى دار أمير المؤمنين وتجلس عند رأس الجارية وتقول له – يعني الجن – : قال لك أحمد : أيما أحب إليك تخرج من هذه الجارية أو تصفع بهذه النعل سبعين ؟ فمضى إليه ، وقال له مثل ما قال الإمام أحمد ، فقال له المارد على لسان الجارية : السمع والطاعة ، لو أمرنا أحمد أن لا نقيم بالعراق ما أقمنا به ، إنه أطاع الله ، ومن أطاع الله أطاعه كل شيء ، وخرج من الجارية وهدأت ورزقت أولاداً ، فلما مات أحمد عاودها المارد ، فأنفذ المتوكل إلى صاحبه أبي بكر المروذي وعرفه الحال ، فأخذ المروذي النعل ومضى إلى الجارية ، فكلمه العفريت على لسانها : لا أخرج من هذه الجارية ولا أطيعك ولا أقبل منك ، أحمد بن حنبل أطاع الله ، فأمرنا بطاعته . انتهى


قاضي أبي الحسين بن أبي يعلى کہتے ہیں کہ امام احمد مسجد میں تھے کہ خلیفہ المتوکل کا ایک آدمی آیا اور ان سے لونڈی میں جن نکالنے کے بارے میں پوچھا امام احمد نے اپنی نعل المتوکل کے آدمی کو دی اور کہا اس کو لونڈی کے سر پر رکھنا اور کہنا تجھے کیا پسند ہے لونڈی میں سے نکلنا یا ایسی ٧٠ جوتیوں سے تواضع؟ ادمی نے ایسا ہی کیا جیسا امام احمد نے کہا تھا جب وہ اپس آیا تو اس نے بتایا کہ جن نے کہا سمع و اطاعت، اگر امام احمد نے حکم کیا ہے تو ہم اب عراق میں نہیں رہیں گے… امام احمد کی موت کے بعد … أبي بكر المروذي نے اس کو حاصل کیا اور جن نکالتے



شیخ محمد صالح المنجد نے محمد الحمود النجدی واقعہ نقل کر رہے ہیں کہ امام احمد کے نعل مبارکسے نہ صرف زندگی بلکہ موت کے بعد بھی جن نکالنے کے لئے استعمال ہوتے تھے
یہ عجب شوق دامن گیر ہوا؛
کہ جناب امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ،پر تنقید اور طعن کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے پائے ۔۔۔اگر چہ عربی کا ایک لفظ بھی نہ آتا ہو،
لیکن تاریخ و حدیث کے عظیم مصادر کی نصوص کا پیش کرنی ہیں ۔۔۔۔ہائے یہ عالم شوق کا ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس نقد و طعن سے امام المحدثین احمد بن حنبل کے درجات تو بڑھتے ہیں ۔ان شاء اللہ العظیم

بہرحال اس واقعہ کی اصل نص اور اس کا صحیح ترجمہ پیش کئے دیتے ہیں ،،اہل دل سے دعاء کی درخواست کے ساتھ؛
اور ملحوظ رہے کہ یہ واقعہ سنداً صحیح نہیں ،اسی لئے ہم نے سند ساتھ لکھ دی ہے
لیکن ناقدین امام یہ ضرور بتائیں کہ اس واقعہ میں کون سی بات خلاف شرع ہے؛
لیکن یاد رہے کہ ۔۔شرع۔۔سے مراد شرع محمدی ہے ۔۔لکھنو کے کسی گمراہ اور منکر کی شرع نہیں!

امام احمد کا جنوں کو بھگانا.jpg
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ عجب شوق دامن گیر ہوا؛
کہ جناب امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ،پر تنقید اور طعن کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے پائے ۔۔۔اگر چہ عربی کا ایک لفظ بھی نہ آتا ہو،
لیکن تاریخ و حدیث کے عظیم مصادر کی نصوص کا پیش کرنی ہیں ۔۔۔۔ہائے یہ عالم شوق کا ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس نقد و طعن سے امام المحدثین احمد بن حنبل کے درجات تو بڑھتے ہیں ۔ان شاء اللہ العظیم

بہرحال اس واقعہ کی اصل نص اور اس کا صحیح ترجمہ پیش کئے دیتے ہیں ،،اہل دل سے دعاء کی درخواست کے ساتھ؛
اور ملحوظ رہے کہ یہ واقعہ سنداً صحیح نہیں ،اسی لئے ہم نے سند ساتھ لکھ دی ہے
لیکن ناقدین امام یہ ضرور بتائیں کہ اس واقعہ میں کون سی بات خلاف شرع ہے؛
لیکن یاد رہے کہ ۔۔شرع۔۔سے مراد شرع محمدی ہے ۔۔لکھنو کے کسی گمراہ اور منکر کی شرع نہیں!

11680 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اچھا ہوا کہ آپ جواب دینا شروع ہو گیے - انشاء الله آپ ہمارے علم میں اضافہ کرتے رہیں گے -

شیخ محمد صالح المنجد نے محمد الحمود النجدی کا اس واقعہ کو اپنے فتویٰ میں پیش کرنے کا مقصد کیا ہے -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ روایت ابن ماجہ کی ہے جس کی سند بھی مظبوط نہیں اور متن بھی

اس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے

اس سلسلے میں کچھ روایات بھی پیش کی جاتی ہیں

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے

حدثنا محمد بن بشار . حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري . حدثني عيينة بن عبد الرحمن . حدثني أبي عن عثمان بن أبي العاص قال لما استعملني رسول الله صلى الله عليه و سلم على الطائف جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما أدري ما أصلي . فلما رأيت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال : ( ابن أبي العاص ؟ ) قلت نعم يا رسول الله قال ( ماجاء بك ؟ ) قلت يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي حتى ما أدري ما أصلي . قال ( ذاك الشيطان . ادنه ) فدنوت منه . فجلست على صدور قدمي . قال فضرب صدري بيده وتفل في فمي وقال ( اخرج . عدو الله ) ففعل ذلك ثلاث مرات . ثم قال ( الحق بعملك ) قال فقال عثمان فلعمري ما أحسبه خالطني بعد



اس کی سند میں محمد بن عبد الله بن المثنى بن عبد الله بن أنس بن مالك الأنصاري ہیں جن کو وقال أبو داود تغير تغيرا شديدا ابو داود کہتے ہیں یہ بہت تغیر کا شکار تھے-


یہی واقعہ صحیح مسلم میں بھی ہے جس میں جن نکالنے کا ذکر نہیں


یہی روایت مسلم میں بھی ہے جس میں جن نکالنے کا ذکر نہیں ہے اس میں صرف وسوسہ کا ذکر ہے جیسا کہ قرآن میں سوره المومنون میں ہمزات الشیطان کا ذکر ہے
مسلم کی روایت ہے

حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ طَلْحَةَ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيُّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: “أُمَّ قَوْمَكَ” قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي شَيْئًا قَالَ: “ادْنُهْ” فَجَلَّسَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ فِي صَدْرِي بَيْنَ ثَدْيَيَّ. ثُمَّ قَالَ: “تَحَوَّلْ” فَوَضَعَهَا فِي ظَهْرِي بَيْنَ كَتِفَيَّ، ثُمَّ قَالَ: “أُمَّ قَوْمَكَ. فَمَنْ أَمَّ قَوْمًا فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْكَبِيرَ، وَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ، وَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ، وَإِنَّ فِيهِمْ ذَا الْحَاجَةِ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ وَحْدَهُ، فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ”


عثمان بن ابی العاص روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اپنی قول کی امامت کرو! میں نے کہا اے رسول اللہ ،میں اپنے نفس میں کوئی چیز (خوف) پاتا ہوں اپ نے فرمایا یہ شیطان کا وسوسہ ہے پھر اپ میرے سامنے بیٹھے پھر میرے سینے کے بیچ میں ہاتھ رکھا اور کہا بدل جاؤ، پھر میری پیٹھ پر دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھا اور کہا اپنی قوم کی امامت کرو، پس جب امامت کرو تو کمی کرنا کیونکہ ان میں عمر رسیدہ ہوں گے، مریض ہوں گے ، کمزور ہوں گے اور ان میں ضرورت مند ہوں گے لیکن اگر کوئی اکیلا نماز پڑھے تو پھر جیسے چاہے پڑھے



ترجمہ کی غلطی ہو تو بندہ اصلاح کا طلبگار ہے

ابن ماجہ اور مسلم کی روایت الگ الگ ہے ایک میں اخرج کا لفظ ہے اور دوسری میں تحول کا دونوں میں فرق ہے اخرج نکلنا ہے اور تحول بدلنا دونوں کا مفھوم الگ ہے -

@اسحاق سلفی بھائی یہاں بھی آپ کا جواب باقی ہے -

قرآن و حدیث میں جن چڑھنے کی کوئی دلیل ہے یا نہیں اس کا بھی جواب دے دیں - شکریہ
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
464
پوائنٹ
209
چلیں اب میں پوچھ لیتا ہوں -


امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہ نے زاد المعاد میں پھونک لگاکر دم کرنے کے اسراراور شرعی حکم پرطویل گفتگو کرنے کے بعد آخرمیںفرمایاہے کہ :


’’مختصریہ ہے کہ دم کرنے والے شخص کا روح ان بَدروحوں کا مقابلہ کرتاہے اورتکلیف کو دورکردیتاہے۔ اسے دم کرنے اورتھوکنے کے ذریعے ا س کا اثر کے زائل کرنے میںمدد ملتی ہے۔ ا س کا ان سے مددلینا ایسے ہی ہے جیسے ان گھٹیا روحوں سے ڈسنے سے مددلینا۔



اگر قرآن اور صحیح احادیث سے دلیل ہے تو پیش کریں - ورنہ قیامت والے دن آپ سے پوچھ ہو گی -

اب آپ نے تو امام ابن قیم رحم الله کا حوالہ ان کی کتاب زاد المعاد سے دے دیا ہے - لیکن اسی کتاب کا اگر میں حوالہ دوں تو شاہد آپ کے لئے قابل قبول نہ ہو -




آپ نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ

"""""""

امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہ نے زاد المعاد میں پھونک لگاکر دم کرنے کے اسراراور شرعی حکم پرطویل گفتگو کرنے کے بعد آخرمیںفرمایاہے کہ :
’’مختصریہ ہے کہ دم کرنے والے شخص کا روح ان بَدروحوں کا مقابلہ کرتاہے اورتکلیف کو دورکردیتاہے۔ اسے دم کرنے اورتھوکنے کے ذریعے ا س کا اثر کے زائل کرنے میںمدد ملتی ہے۔ ا س کا ان سے مددلینا ایسے ہی ہے جیسے ان گھٹیا روحوں سے ڈسنے سے مددلینا۔

تھوکنے میں ایک اورراز ہے اور وہ یہ ہے کہ اچھی اوربری تمام روحیں اس سے مدد حاصل کرتی ہیں۔ اس بناپر اہل ایمان کی طرح جادوگر بھی ایسے ہی کرتے ہیں ‘‘۔


"""""""""


زبیر علی زئی رحم الله لکھتے ہیں

http://www.tohed.com/2014/09/blog-post_80.html


میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ کی کتابوں میں شرک اکابر کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، تاہم ابن القیم کی ثابت شدہ “کتاب الروح” اور دیگر کتابوں میں ضعیف و مردود روایات ضرور موجود ہیں۔
محترم کا کسی موضوع پہ بات کرنے کا یہ انداز ہے کہ اگر کسی شخص کی کوئی بات لی جائے تو ان کے سارے تناقضات و مغالطات کو سامنے رکھ دیتے ہیں جبکہ پوچھے گئے اصل سوال کے جواب سے انحراف ہوتا ہے ، اور وہ توجہ دوسری جانب مبذول کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس میں احترام علماء بھی بھول جاتے ہیں، کون علامہ ابن تیمیہ ؒ اور کون علامہ ابن القیم ؒ ؟ میرے بلاگ میں انہیں ایک بات ان کی سمجھ سے قابل نقد ملی اور پورا بلاگ سامنے رکھ کے عنداللہ جواب دہی کا جملہ لکھا۔ یہی بات میں نے ان سے پوچھی آپ جس فورم کے سینئر رکن ہیں اس کے فتاوی سیکشن میں ایک نہیں کئی ایک فتاوے جن کے انسان کے اندر داخل ہونے کے جواز پہ ہیں اور آپ اس کے منکر ہیں ، کیا آپ کی عنداللہ پوچھ نہیں ہوگی ؟ اور ان فتاوے کا آپ کے پاس کیا جواب ہے ؟
چند لنک ملاحظہ فرمائیں ۔
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/7458/392/

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2388/0/

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/949/0/

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/11449/0/

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/11107/9/

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2388/17/
یہ چیزیں آپ کو کتاب و سنت ڈاٹ کام میں بھی کئی جگہ مل جائیں گی ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
محترم کا کسی موضوع پہ بات کرنے کا یہ انداز ہے کہ اگر کسی شخص کی کوئی بات لی جائے تو ان کے سارے تناقضات و مغالطات کو سامنے رکھ دیتے ہیں جبکہ پوچھے گئے اصل سوال کے جواب سے انحراف ہوتا ہے ، اور وہ توجہ دوسری جانب مبذول کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس میں احترام علماء بھی بھول جاتے ہیں، کون علامہ ابن تیمیہ ؒ اور کون علامہ ابن القیم ؒ ؟ میرے بلاگ میں انہیں ایک بات ان کی سمجھ سے قابل نقد ملی اور پورا بلاگ سامنے رکھ کے عنداللہ جواب دہی کا جملہ لکھا۔ یہی بات میں نے ان سے پوچھی آپ جس فورم کے سینئر رکن ہیں اس کے فتاوی سیکشن میں ایک نہیں کئی ایک فتاوے جن کے انسان کے اندر داخل ہونے کے جواز پہ ہیں اور آپ اس کے منکر ہیں ، کیا آپ کی عنداللہ پوچھ نہیں ہوگی ؟ اور ان فتاوے کا آپ کے پاس کیا جواب ہے ؟
چند لنک ملاحظہ فرمائیں ۔
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/7458/392/

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2388/0/

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/949/0/

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/11449/0/

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/11107/9/

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2388/17/
یہ چیزیں آپ کو کتاب و سنت ڈاٹ کام میں بھی کئی جگہ مل جائیں گی ۔

شیطان انسان کو گمراہ کرتا ہے اس کو غصہ دلاتا ہے اس کو لڑواتا ہے اس کو بھلا دیتا ہے جادو میں اور کہانت میں اس کا عمل دخل ہے یہ سب قرآن سے ثابت ہے

اس میں بحث نہیں ہے -

بحث اس کے انسانی جسم میں داخل ہونے پر ہے اقوال رجال کو چھوڑ کر دلیل پیش کریں
 
Top