آپ انسان کے جسم میں جن "جسے ہم بدروح یا خبیث روح بھی کہتے ہیں "تسلم نہیں کرتے مگر اس فورم کے آپ مسئول ہیں جس پہ جن کےانسان کے اندر دخول کا ثبوت موجود ہے، کیا آپ سے قیامت میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی ؟؟
فاعتبروا
میں آپ کی جانب سے پیش کی گئی فضول باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ، مختصرا یہی کہتاہوں جو شیخ محمد صالح المنجد نے محمد الحمود النجدی کے حوالے سے کہی ہے ۔
"جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا یقینی طور پر کتاب وسنت اور بااتفاق اہل وسنت والجماعت اور حسی اور مشاہداتی طور پر ثابت ہے اور اس معاملہ میں سوائے معتزلہ کے جنہوں نے اپنے عقلی دلائل کو کتاب وسنت پر مقدم کیا ہے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا".
===================================
1819: جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونے کے متعلق
پچھلے دنوں جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونے کا معاملہ پھیلا ہوا تھا اور یہ عقلی طور پر ناممکن ہے۔ اسکا سبب یہ ہے کہ ان کا پیدائشی طور پر آپس میں فرق ہے۔ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا جبکہ جن آگ سے پیدا ہوا ہے۔ اور یہ کہ شیطان صرف وسوسے ڈالنے پر قادر ہیں اور اللہ تعالی نے انہیں انسان پر کوئی سلطہ نہیں دیا کہ وہ انسان پر مسلط ہوسکیں۔ اور جو کیسٹیں لوگوں کے پاس چل رہی ہیں وہ کوئی دلیل نہیں۔ تو آپ کا اس پر کیا رد ہے؟
الحمدللہ
جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا یقینی طور پر کتاب وسنت اور بااتفاق اہل وسنت والجماعت اور حسی اور مشاہداتی طور پر ثابت ہے اور اس معاملہ میں سوائے معتزلہ کے جنہوں نے اپنے عقلی دلائل کو کتاب وسنت پر مقدم کیا ہے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا اور ہم دلائل میں جو آسان ہو ذکر کریں گے۔
فرمان باری تعالی ہے:
"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے یہ اس لئے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے۔" البقرہ275
قرطبی نے اپنی تفسیر میں (ج3ص355) میں کہا ہے کہ (یہ آیت اس انکار کو فاسد کرنے کی دلیل ہے جو کہتا ہے کہ دورے جن کی طرف سے نہیں اور وہ یہ گمان کرتا ہے کا یہ طبیعتوں کا فعل ہے اور شیطان انسان کے اندر نہیں چلتا اور نہ ہی اسے چمٹا ہے۔)
اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر (ج1ص32) میں مذکورہ آیت ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ (یعنی وہ قیامت کے دن اپنی قبروں سے ایسے کھڑے ہونگے جس طرح کہ مرگی والے کو دورے کی حالت ہوتی ہے اور شیطان اسے خبطی بنا دیتا ہے اور اس لئے کہ وہ منکر کام کیا کرتا تھا: اور ابن عباس (رضی اللہ عنہما) کا فرمان ہے کہ سود خور قیامت کے دن مجنون اور گلا گھونٹا ہوا اٹھے گا)
اور صحیح حدیث میں جسے نسائی نے ابو الیسر سے روایت کیا ہے وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے
(اے اللہ میں گرنے اور بہت زیادہ بڑھاپے اور غرق ہونے اور جل جانے سے پناہ مانگتا ہوں اور تیری پناہ میں آتا ہوں کہ مجھے شیطان موت کے وقت خبطی بنادے ۔)
مناوی نے اپنی کتاب فیض (ج2ص148) میں عبارت کی شرح میں کہا ہے (اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت خبطی کردے) کہ وہ مجھ سے چمٹ جائے اور میرے ساتھ کھیلنا شروع کردے اور میرے دین یا عقل میں فساد بپا کردے۔ (موت کے وقت) یعنی نزع کے وقت جس وقت پاؤں ڈگمگا جاتے اور عقلیں کام کرنا چھوڑ دیتی اور حواس جواب دے جاتے ہیں۔ اور بعض اوقات شیطان انسان پر دنیا کو چھوڑتے وقت غلبہ پالیتا ہے تو اسے گمراہ کردیتا یا پھر اسے توبہ سے روک دیتا ہے۔۔۔) الخ
اور ابن تیمیہ نے (مجموع الفتاوی 24/276) میں کہا ہے کہ جنوں کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بالاتفاق آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ سے ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے" البقرہ 275
اور صحیح (بخاری) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ (کہ شیطان ابن آدم کے اندر اس طرح دوڑتا ہے کہ جس طرح خون)1ھ
اور عبداللہ بن امام احمد کا قول ہے کہ۔ میں نے اپنے باپ سے کہا کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جن انسان کے بدن میں داخل نہیں ہوتا تو انہوں نے فرمایا (اے میرے بیٹے وہ جھوٹے ہیں حالانکہ وہ اسکی زبان سے بول رہا ہے۔)
تو ابن تیمیہ نے اس پر تعلیق لگاتے ہوئے فرمایا:
(یہ جو انہوں نے کہا وہ مشہور ہے کیونکہ جب آدمی کو دورہ پڑتا ہے تو زبان سے ایسی باتیں کرتا ہے جن کا معنی بھی نہیں جانتا اور اسکے بدن پر بہت زیادہ مارا جاتا ہے اگر اس طرح کی مار اونٹ کو ماری جائے تو وہ بھی متاثر ہو۔
اور جن چمٹے ہوئے شخص کو یہ مار محسوس بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے وہ کلام جو کہ وہ کرتا ہے محسوس ہوتا ہے اور بعض اوقات دورے والا اور بغیر دورے کے شخص کو کھینچا جاتا ہے اور بستر یا چٹائی جس پر وہ بیٹھا ہوتا ہے کھینچی جاتی ہے اور آلات واشیاء بدل جاتی ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل ہوتا اور اسکے علاوہ اور کئی امور واقع ہوتے ہیں جس نے یہ دیکھیں ہوں اسے یہ یقینی علم ہوجاتا ہے کہ انسان کی زبان پر بولنے والا اور ان جسموں کو حرکات دینے والا انسان کے علاوہ کسی اور جنس سے ہے)
حتی کہ رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا (اور آئمہ مسلمین کے اندر کوئی ایسا امام نہیں جو کہ جن کا انسان کے جسم میں داخل ہونے کا منکر ہو اور جو اسکا انکار کرے اور یہ دعوی کرے کہ شرع جھوٹ بول رہی ہے تو اس نے شرع پر جھوٹ بولا اور شرعی دلائل میں کوئی دلیل اس کی نفی نہیں کرتی)
تو جنوں کا انسان کے جسم میں داخل ہونا کتاب عزیز اور سنت مطہرہ اور اہل سنت والجماعۃ کے اتفاق سے ثابت ہے جنکے ہم نے بعض دلائل ذکر کئے ہیں۔
اور اللہ تعالی کا یہ ارشاد مبارک:
" اور دراصل وہ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے"
تو یہ بلاشک اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جن اللہ تعالی کے حکم کے بغیر یہ طاقت ہی نہیں رکھتے کہ وہ کسی کو جادو یا اس سے چمٹ کر یا اسی طرح کسی اور قسم کی ایذا دے سکیں یا اسے گمراہ کرسکیں۔
جیسا کہ حسن بصری کا قول ہے کہ:
اللہ تعالی جس پر چاہے انہیں مسلط کردیتا ہے اور جس پر نہ چاہے اس پر مسلط نہیں کرتا اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی پر طاقت نہیں رکھتے ۔
جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔
تو شیطان (اور وہ کافر جن ہے) بعض اوقات مومنوں پر انکے گناہوں کی وجہ اور اللہ تعالی کے ذکر اور اسکی توحید اور اسکی عبادت میں اخلاص سے دور ہونے کے سبب سے ان پر انہیں مسلط کردیتا ہے۔
لیکن جو اللہ تعالی کے نیک اور صالح بندے ہیں ان اسکی کوئی قدرت نہیں ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے۔
"میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نھیں اور تیرا رب کارسازی کرنے والا کافی ہے" الاسراء 65
اور اسے دور جاہلیت میں عرب بھی اچھی طرح جانتے اور اپنے اشعار میں اسکا تذکرہ کرتے تھے تو اسی لئے اعشی نے اپنی اونٹنی کو چستی کے لحاظ سے جنون کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اس کا قول ہے:
وہ کچھ دنوں کو رات کو چلنے کے بعد ایسے ہو جاتی ہے کہ اسے جنوں کی طرف سے کوئی جنون پہنچا ہے۔
اور الاولق جنون کی تشبیہ کو کہتے ہیں۔
اور جن چمٹنے کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے ابن تیمیہ نے (مجموع فتاوی 19/39) کہا ہے کہ۔
(بعض اوقات جن انسان کو شہوت اور خواہش اور عشق کی بنا پر چمٹتے ہیں جس طرح کہ انسان انسان کے سے متفق ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور بعض اوقات بغض اور سزا کے طور پر اور یہ کثرت سے ہے۔ مثلا انسانوں میں سے کوئی انہیں ایذا اور تکلیف دیتا ہے یا پھر وہ گمان کرتے ہیں کہ انسانوں نے جان بوجھ کر تکلیف دی ہے یہ تو کسی پر پیشاب کردینا اور یا پھر کسی جن پر گرم پانی بہا دینا اور یا کسی کو قتل کردینا اگرچہ انسان کو اسکا علم بھی نہیں ہوتا اور جنوں میں جہالت اور ظلم ہے تو وہ اسکی سزا کئے گئے فعل سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔
اور بعض اوقات بطور کھیل کود اور مذاق اور یا پھر شر کی بنا پر بے وقوف جنوں کی طرف سے یہ حاصل ہوتا ہے۔) انتہی۔
میں کہتا ہوں، امید ہے کہ ان سب چیزوں سے نجات اس وقت مل سکتی ہے جبکہ اللہ تعالی کا ذکر اور ہر کام شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ بہت سے کاموں کے وقت اللہ تعالی کا ذکر اور بسم اللہ پڑھنا مثلا کھانا کھاتے اور پانی پیتے اور جانور پر سوار ہوتے وقت اور ضرورت کے وقت کپڑے اتارتے وقت اور بیوی سے جماع کرتے وقت وغیرہ۔
اور اسکے علاج کے متعلق ابن تیمیہ (مجموع الفتاوی 19/42) میں فرماتے ہیں کہ:
(اور مقصد یہ ہے کہ اگر جن انسانوں پر زیادتی کریں تو انہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بتایا جائے اور ان پر حجت قائم کی جائے اور انہیں نیکی کا حکم اور برائی سے روکا جائے جس طرح کہ انسان کے ساتھ کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
"ہم کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک کہ رسول کو نہ بھیج دیں"
پھر اسکے بعد فرماتے ہیں کہ اگر جن امر اور نہی اور یہ سب بیان کرنے کے بعد بھی باز نہ آئے تو پھر اسے ڈانٹ ڈپٹ اور لعنت ملامت اور برا بھلا اور دھمکی وغیرہ دینا جائز ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کے ساتھ کیا جب وہ آپ پر انگارہ لے کر حملہ آور ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (میں تجھ سے اللہ تعالی کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ پر تین بار اللہ تعالی کی لعنت کرتا ہوں۔) اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
اور اسکے خلاف قرآن پڑھ کر اور اللہ تعالی کا ذکر کرکے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ اور خاص کر آیۃ الکرسی پڑھ کے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(بیشک جو اسے پڑھے گا اس پر اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ صبح تک کے لئے مقرر کردیا جائے گا اور شیطان اسکے قریب بھی نہیں بھٹک سکے گا۔) اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
اور اسی طرح معوذ تین (قل اعوذ برب الفلق۔۔ اور قل اعوذ برب الناس) دونوں سورتیں پڑھنا۔
اور لیکن نفسیاتی ڈاکٹر جن چمٹے ہوئے کے علاج میں ان چیزوں پر اعتماد نہیں کرتا کیونکہ وہ اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔
اور یہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ تفصیل کا محتاج ہے لیکن جو ہم نے ذکر کیا ہے اس میں ان شاء اللہ سنت کی پیروی کرنے والے کےلئے کفایت ہے۔
والحمدللہ رب العالمین۔ .
المرجع۔۔ : مسائل ورسائل ۔ تالیف۔ محمد الحمود النجدی ص23
لنک
http://islamqa.info/ur/1819