محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
جزاک اللہ خیر کفایت صاحب
بھائی اگر اس کتاب کا نام اور لنک مل جائے تو آپ کی نوازش ہو گی یا سکین شدہ عبارت لگا دیں ۔جزاک اللہ خیرا شیخ محترم
اس بات کو ایک شیعہ عالم جسٹس ایم اے مشتہی اپنی کتاب میں تسلیم کر چکا ہے. بلکہ دلائل کے ساتھ ثابت بھی کر چکا ہے.
نوید عثمان صاحب انساب الاشراف کی کتاب میں اگر قریش کی باہمی رشتہ داریاں نہیں ملیں گی تو کس کا ذکر کیا جائے گا اور بلاذری رحمہ اللہ اس میں تنہا نہیں ہیں اور جتنی بھی علم الانساب کی کتب ہیں ان سب میں قبائل قریش کی باہمی رشتہ داریوں کا ذکر ملتا ہے اور دوسری بات یہ ہے بنو امیہ اور بنو ہاشم کی باہمی رشتہ داریوں کا ذکر کرنے سے کوئی بھی ناصبی ہو سکتا ہے یہ کس نے کہہ دیا اس طرح کی رشتہ داریوں کا بیان تو صحاح ستہ میں بھی ملتا ہے تو کیا وہ بھی ناصبی ہیں ؟رہی بات بلاذری کی وہ ناصبی تھا تو کیسے تھا اس کے لئے یہ ٢ باتیں ہیں کافی ہیں ۔
١- بلاذری کی تصانیف میں ایسا مواد وافر مقدار میں ملتا ہے جس سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات اقدس پر حرف آتا ہے جیسے بنو امیہ کی بنو ہاشم سے رشتہ داریاں صرف بلاذری کی تصانیف میں ہی کثیر تعداد میں ملتی ہیں ۔ کیا بلاذری اکیلا ہی دنیا میں مورخ پید ا ہوا ہے یا باقی مورخوں نے جان بوجھ کر ایسے مواد کو اپنی کتابوں میں جگہ نہیں دی یہ بات بلاذری کے ناصبی ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ ان رشتہ داریوں کو ثابت کرنے کا مقصد سوائے یزید کی محبت میں اس کی وکالت کرنے کے سوا کچھ نہیں۔۔
٢-بلاذری خلیفہ متوکل کا درباری تھا اور درباری اپنے بادشاہ کے زیر اثر ہوتے ہیں ان کے عقائد و خیالات بادشاہ سے مختلف نہیں ہوتے ۔ اور متوکل اہل بیت کا دشمن تھا اس کی دشمنی کو ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے جس میں اس نے ایک عالم سے سوال کیا کہ حضرت حسن و حسین رضوان اللہ علیھم اجمعین افضل ہیں یا میرے بیٹے تو اس عالم نے کہا کہ تمہارے بیٹے تو ان کے غلام قنبر کے قدموں کی خاک جیسے بھی نہیں تو متوکل نے اس عالم کی زبان کٹوا دی۔
امام بلاذری رحمہ اللہ بلاشک وشبہ ثقہ ہیں ، ثبوت ملاحظہ فرمائیں:
امام صفدي رحمه الله (المتوفى764)نے کہا:
وكان أحمد بن يحيى بن جابر عالماً فاضلاً شاعراً راوية نسّابة متقناً [الوافي بالوفيات 3/ 104]۔
فائدہ:
امام بلاذری رحمہ اللہ کو امام صفدی نے متقن کہا ہے اورامام ابن الصلاح فرماتے ہیں:
الأولى : قال ( ابن أبي حاتم ) : إذا قيل للواحد إنه ( ثقة أو : متقن ) فهو ممن يحتج بحديثه ،) . [مقدمة ابن الصلاح ص: 61]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى:748)نے کہا:
فاما الكبير فإنه احمد بن يحيى صاحب التاريخ المشهور من طبقة أبي داود السجستاني حافظ اخباري علامة[تذكرة الحفاظ للذهبي: 3/ 892]۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ان کی مروایات کی تحسین کی ہے مثلا ایک جگہ کہا:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وروى البلاذري بإسناد لا بأس به أن حفص بن أبي العاص كان يحضر طعام عمر الحديث[الإصابة لابن حجر: 2/ 98]۔
یادرہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہ مستدل روایت امام بلاذری کی کتاب أنساب الأشراف ہی میں ہے چنانچہ امام بلاذری نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ الزَّاهِدُ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يُونُسَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ أَنَّ حَفْصَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيَّ كَانَ يُحْضِرُ طَعَامَ عُمَرَ فَلا يَأْكُلُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا يَمْنَعُكَ مِنْ طَعَامِنَا؟ فَقَالَ: إِنَّ طَعَامَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔[أنساب الأشراف للبلاذري: 10/ 318]۔
اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی امام بلازری کی سند سے ایک روایت نقل کرکے اسے صحیح قراردیا۔
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
أخبرنا أبو سعيد أحمد بن يعقوب الثقفي ثنا أحمد بن يحيى ثنا محمد بن الصباح ثنا إسماعيل بن زكريا عن عثمان بن الأسود قال : جاء رجل إلى ابن عباس فقال : من أين جئت ؟ فقال : شربت من زمزم فقال له ابن عباس : أشربت منها كما ينبغي ؟ قال : و كيف ذاك يا أبا عباس ؟ قال : إذا شربت منها فاستقبل القبلة و اذكر اسم الله و تنفس ثلاثا و تضلع منها فإذا فرغت منها فاحمد الله فإن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : آية بيننا و بين المنافقين انهم لا يتضلعون من زمزم هذا حديث صحيح على شرط الشيخين و لم يخرجاه إن كان عثمان بن الأسود سمع من ابن عباس [المستدرك للحاكم: 1/ 645]۔
اورکسی روای کی روایت کی تصحیح یا تحسین اس راوی کی توثیق ہوتی ہے۔
امام ابن الملقن فرماتے ہیں:
وَقَالَ غَيره: فِيهِ جَهَالَة، مَا رَوَى عَنهُ سُوَى ابْن خُنَيْس. وَجزم بِهَذَا الذَّهَبِيّ فِي «الْمُغنِي» فَقَالَ: لَا يعرف لَكِن صحّح الْحَاكِم حَدِيثه - كَمَا ترَى - وَكَذَا ابْن حبَان، وَهُوَ مُؤذن بمعرفته وثقته.[البدر المنير لابن الملقن: 4/ 269]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)فرماتے ہیں:
الثقة: من وثَّقَه كثيرٌ ولم يُضعَّف. ودُونَه: من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17،]۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248]۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام بلاذری رحمہ اللہ ثقہ ہیں۔
نوٹ:
امام بلاذری رحمہ اللہ کو ناصبی کہنا سراسر بہتان ہے، کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
لیکن شیخ پھر بھی ایک شبہ تو ابھی بھی باقی رہتا ہے کیونکہ متقدمین میں سے کسی ایک نے بھی صریحا بلاذری کی توثیق نہیں کی ۔ اس شبہ کو دور فرمائیں۔ جزاک اللہ خیر۔ امام طبری رحمہ اللہ والی سند تو معتبر ہے جو آپ نے بعد میں نقل کی اور ثابت بھی کیا۔ اس روایت کی صحت کو ماشاء اللہ بہت مفید بحث کی ہے۔ میرے سوال کا جواب اس روایت سےہٹ کر صرف بلاذری کی توثیق اور عدالت پر ہے۔اس روایت پر میرا شبہ الحمد للہ دور ہو گیا ہے
امام أحمد بن يحيى، البَلَاذُري (المتوفى 279) نے کہا:
حدثنا سعدويه، حدثنا عباد بْن العوام، حَدَّثَنِي حصین، حَدَّثَنِي هلال بن إساف قال:أمر ابن زياد فأخذ مَا بين واقصة، إِلَى طريق الشَّام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يترك أحد يلج وَلا يخرج، فانطلق الْحُسَيْن: يسير نحو طريق الشَّام يريد يزيد بْن مُعَاوِيَة فتلقته الخيول فنزل كربلاء، وَكَانَ فيمن بعث إِلَيْهِ عمر ابن سعد بن أبي وقاص، وشمر ابن ذي الجوشن، وحصين بْن نمير، فناشدهم الْحُسَيْن أن يسيروه إِلَى يزيد فيضع يده فِي يده فأبوا إِلا حكم ابْن زياد.[أنساب الأشراف للبلاذري: 3/ 173 واسنادہ صحیح]۔
عبیداللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ واقصہ اورشام وبصرہ کے بیچ پہرہ لگادیا جائے اورکسی کو بھی آنے جانے سے روک دیا جائے، چنانچہ حسین رضی اللہ عنہ یزیدبن معاویہ سے ملنے کے لئے شام کی طرف چل پڑے ، پھر راستہ میں گھوڑسواروں نے انہیں روک لیا اوروہ کربلا میں رک گئے ، ان گھوڑ سواروں میں عمربن سعدبن بی وقاص ، شمربن ذی الجوشن اورحصین بن نمیرتھے ، حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے التجاکی کہ انہیں یزیدبن معاویہ کے پاس لے چلیں تاکہ وہ یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں ، اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ہم عبیداللہ بن زیاد کی اجازت کے بغیرایسا نہیں کرسکتے۔
اس روایت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
- حسین رضی اللہ عنہ ، یزید کی بیعت پررضامند تھے اور باقاعدہ اسے عملی شکل دینے پربھی آمادہ تھے۔
- حسین رضی اللہ عنہ کا سفرکوفہ جہاد کی نیت سے نہیں تھا ورنہ وہ کبھی بھی دشمن کے ہاتھ میں ہاتھ دینے پرآمادہ نہ ہوتے ۔
- حسین رضی اللہ عنہ کو یزید بن معاویہ سے ہمدردی ہی کہ امید تھی ورنہ وہ اہل کوفہ کی غداری دیکھ کر یزید کی طرف رخ نہ کرتے۔
آپ نے
فيضع يده فِي يده
کا جو ترجمہ کیا ہے کیا عربی لغت میں اس کا صرف یہی ترجمہ بنتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟