اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں ۔
اولا:
تفصیل کے لئے انساب الاشراف کے محقق کا مقدمہ پڑھ لیں محقق نے اس کتاب کو ثابت کیا ہے۔
ثانیا:
یہ کتاب خود امام بلاذری رحمہ اللہ نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہے اور انہیں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخہ سے اسے ناسخ نے نقل کیا ہے پھر بیچ میں کتاب کے راوی اورسند کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا دیکھے کتاب کے محقق کا مقدمہ ۔
ثالثا:
یہ ایک مشہور و معروف کتاب ہے مستند ائمہ ومحدثین نے اس پر اعتماد کیا ہے اور اسے بطور حجت روایات نقل کی ہیں ایسی مشہور اور معتبر کتاب کے ثبوت کے لئے ناسخ کتاب یا ناقلین کتاب پر بحث کی ضرورت ہی نہیں دیکھئے ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
لأن الكتاب المشهور الغني بشهرته عن اعتبار الإسناد منا إلى مصنفه: كسنن النسائي مثلا لا يحتاج في صحة نسبته إلى النسائي إلى اعتبار حال رجال الإسناد منا إلى مصنفه. [النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 1/ 271]
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر نے انساب الاشراب کو ثابت مانا ہے اور اس سے نقل کردہ ایک روایت کی سند کو لاباس بہ کہا ہے چنانچہ :
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
و
روى البلاذري بإسناد لا بأس به أن حفص بن أبي العاص كان يحضر طعام عمر الحديث[الإصابة لابن حجر: 2/ 98]۔
یادرہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہ مستدل روایت امام بلاذری کی کتاب أنساب الأشراف ہی میں ہے چنانچہ امام بلاذری نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ الزَّاهِدُ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يُونُسَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ أَنَّ حَفْصَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيَّ كَانَ يُحْضِرُ طَعَامَ عُمَرَ فَلا يَأْكُلُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا يَمْنَعُكَ مِنْ طَعَامِنَا؟ فَقَالَ: إِنَّ طَعَامَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔[أنساب الأشراف للبلاذري: 10/ 318]۔
عصرحاضر کے عظیم محدث علامہ البانی رحمہ اللہ نےنے بھی یہی بات کہی ہے ملاحظہ ہو:
السؤال
ما رأيك في أسانيد الكتب؟ هل يشترط فيها ما يشترط في رواية الأحاديث أم يتساهل فيها؟
الجواب
رأيي يختلف من كتاب إلى آخر: فإذا كان كتاباً مشهوراً متداوَلاً بين أيدي العلماء ووثقوا به، فلا يشترط. أما إذا كان غير ذلك فإنه يُشتَرط.
[الهدى والنور 85/ 13]
رابعا:
خود حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے بھی کئی جگہ اس کتاب کو ثابت مانا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے بلکہ خطبہ سے پہلے سلام کرنے سے متعلق اسی کتاب کی ایک روایت کودلیل بناکر کہا ہے کہ خطبہ سے پہلے سلام کرنا ثابت ہے ملاحظہ ہو درج ذیل ویڈیو دیکھیں:
خامسا:
اس روایت کے ثابت ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ یہ روایت اسی صحیح سند کے ساتھ تاریخ طبری میں بھی موجود ہے چنانچہ:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثنا محمد بن عمار الرازي قال حدثنا سعيد بن سليمان قال حدثنا عباد بن العوام قال حدثنا حصين ۔۔۔قال حصين فحدثني هلال بن يساف أن ابن زياد أمر بأخذ ما بين واقصة إلى طريق الشأم إلى طريق البصرة فلا يدعون أحدا يلج ولا أحدا يخرج فأقبل الحسين ولا يشعر بشيء حتى لقي الأعراب فسألهم فقالوا لا والله ما ندري غير أنا لا نستطيع أن نلج ولا نخرج قال فانطلق يسير نحو طريق الشأم نحو يزيد فلقيته الخيول بكربلاء فنزل يناشدهم الله والإسلام قال وكان بعث إليه عمر بن سعد وشمر بن ذي الجوشن وحصين بن نميم فناشدهم الحسين الله والإسلام أن يسيروه إلى أمير المؤمنين فيضع يده في يده
ہلال بن یساف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : عبیداللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ واقصہ اورشام وبصرہ کے بیچ پہرہ لگادیا جائے اورکسی کو بھی آنے جانے سے روک دیا جائے، چنانچہ حسین رضی اللہ عنہ ان باتوں سے بے خبر آگے بڑھے یہاں تک بعض اعرابیوں سے آپ کی ملاقات ہوئی تو آپ نے سے پوچھ تاچھ کی تو انہوں نے کہا : نہیں اللہ کی قسم ہمیں کچھ نہیں معلوم سوائے اس کی کہ ہم نہ وہاں جاسکتے ہیں اورنہ وہاں سے نکل سکتے ہیں۔پھرحسین رضی اللہ عنہ شام کے راستہ پر یزیدبن معاویہ کی طرف چل پڑے ، ، پھر راستہ میں گھوڑسواروں نے انہیں کربلا کے مقام پر روک لیا اوروہ رک گئے ، اورانہیں اللہ اوراسلام کا واسطہ دینے لگے ،عبیداللہ بن زیاد نے عمربن سعدبن بی وقاص ، شمربن ذی الجوشن اورحصین بن نمیرکو ان کی جانب بھیجاتھا
حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے اللہ اوراسلام کا واسطہ دے کرکہا : وہ انہیں امیرالمؤمنین یزیدبن معاویہ کے پاس لے چلیں تاکہ وہ یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں[تاريخ الأمم والرسل والملوك- الطبري 3/ 299 واسنادہ صحیح]۔
یہ سند بالکل صحیح ہے امام طبری کے استاذ ’’محمد بن عمار الرازي‘‘ یہ ’’ أبو جعفر، محمد بن عمار بن الحارث، الوازعي، الرازي‘‘ ہیں ۔ یہ ثقہ ہیں چنانچہ:
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
كتبت عنه وهو صدوق ثقة [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 43]۔
اس کے اوپر پوری سند وہی ہے جو انساب الاشراب للبلاذری میں ہے ۔ اور ان راویوں کی توثیق اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں پیش کی جاچکی ہے۔
فائدہ:
ابن جریر طبری کی روایت میں یزید کے ساتھ ’’امیر المؤمنین‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔معلوم ہواکہ حسین رضی اللہ عنہ یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کو امیرالمؤمنین تسلیم کرتے تھے اور ان کی بیعت کرنے پر راضی بلکہ اس کے خواہش مند تھے ۔ والحمدللہ۔
صحیح تاریخ الطبری کے محققین نے بھی اس روایت کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے اور اسے صحیح تاریخ الطبری میں نقل کیا ہے۔
دکتور شیبانی نے بھی طبری کی اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے دیکھئے مواقف المعارضہ ص 342 ۔