عبداللہ بھائی، آپ نے تو بات کا بتنگڑ بنا دیا، میرا مؤقف صرف اتنا تھا کہ قرآن کریم شادی کے لیے ذہنی و جسمانی بلوغت کو ضروری قرار دیتا ہے اور "بنت" سے میری مراد لڑکی ہے، وہ لڑکی جسے ہم صحیح معنوں میں "لڑکی " کہتے ہیں۔ یعنی "سولہ سال سے کم عمر "فیمیل"۔ساری بحث کا ظلاصہ یہ ہے عائشہ کی جو عمر بخاری شریف میں لکھی ہے ، یعنی "چھ سال"بوقت نشادی اور "نو سال" بوقت "رخصتی"وہ غلط ہے۔کیونکہ سولہ سال تک کی عمر میں لڑکی کو "بنت" کہا جاتا ہے اور جوان عورت کو "امراۃ" کہا جاتا ہے۔ قران نے صرف رشتے گنواتے ہوئے بنت عم وغیرہ کہا ہے، ہیں تو وہ مکمل جوان عورتیں ہی۔ یہ عربی کا قاعدہ ہے کہ وہ رشتے "بنت" اور "ولد" سے شروع کرتے ہیں، ہماری طرح چچا ذاد بہن، پھوپھی ذاد، ماموں ذاد وغیرہ نہیں۔ لیکن جب صرف "بنت" یا "ولد" آئے گا تو اس کا مطلب "لڑکا " یا "لڑکی" ہی ہوتا ہے۔ اور لڑکا یا لڑکی کی شادی نہیں ہو سکتی، کیونکہ وہ جسمانی و ذہنی طور پر "مکمل"یعنی بالغ نہیں ہوتے۔اس آیت میں صرف "چچاذاد"، "پھوپھی ذاد"وغیرہ خواتین کے بارے میں آیا ہے کہ ان خواتین سے شادی کرنا آپ کے لیے جائز ہے۔ اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ نعوذباللہ، اللہ نابالغ "لڑکیوں" سے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو شادی کرنے کا کہہ رہا ہے، انتہائی گمراہ کن "تشریح" ہے۔ دور کیوں جائیں، ایک جوان مرد آج بھی اپنے لیے ولد لکھتا ہے، یا جوان عورت اب بھی بنت لکھتی ہے، مثلاً عمران ولد سروردین، سماءعلی بنت عمران علی۔ اب ان تعارفی اسماء میں جو "ولد" اور "بنت" استعمال ہوئے ہیں وہ "رشتہ" ظاہر کرتے ہیں، "عمر "نہیں۔ممکن ہے عمران علی کی عمر پچاس سال ہو اور سماء علی کی عمر تیس سال ہو، لیکن لکھنے میں "ولد" اور "بنت" ہی آئے گا۔ لیکن جب ان دونوں کی عمر کے مطابق اس کو پکارا جائے گا یا اسکا تذکرہ کیا جائے تو بالترتیب، "رجل" اور "امراۃ" کہا جائے گا۔ امید ہے کہ اب آپ کی سمجھ میں آ گیا ہو گا۔ لیکن اب بھی اگر آپ ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو آپ کا اللہ ہی حافظ ہے، آپ اپنا "عقیدہ" بچائیے اور ہم اپنا "ایمان"۔ "لکم ولی الدین"