• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر پر اعتراضات کیوں ؟؟؟

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
آپ نے لم یحضن کا ترجمہ "جنہیں حیض نہیں آتا" کس اصول کے تحت کیا ہے ؟؟؟؟
لم یحضن ماضی منفی کے معنى میں ہے یعنی "جنہیں حیض نہیں آیا" !!! یا "جو حائضہ نہیں ہوئیں" !!!
اور عورت کے بالغ ہونے کی نشانی حیض کا آنا ہوتا ہے ۔
جنہیں حیض نہیں آیا وہ نابالغ ہی ہیں !!!!
اللہ سے ڈریں اور قرآن میں تحریف کرنے سے باز آ جائیں
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
عمران علی ! آپ کو کیسے علم ہوا کہ قرآن ، حدیث سے پہلے ہے ؟؟ اور حدیث بعد میں آئ ہے ؟؟

چونکہ آپ نے قرآن کے پہلے ہونے کو مسلمہ حقیقت کہا ہے ، لہذا اسی مسلمہ پر ہمیں اعتراض ہے ۔

براہ کرم صرف قرآن سے ثابت کریں کہ قرآن، حدیث سے پہلے ہے، کیونکہ آپ کے نزدیک ، کوئ اور چیز حجت نہیں ہے۔
آپکا سوال اتنا بچگانہ ہے کہ فوراً حضرت علامہ اقبال کے مشہور زمانہ شعر کا مصرا یاد آ گیا۔
"شکوہ بھی کوئی کرے تو لازم ہے شعور"
میرے بھائی قرآن کو جھٹلانے اور اپنے خود ساختہ عقائد کر درست ثابت کرنے کے لیے بسا اوقات آپ بہت ہی غیراخلاقی بلکہ کفریہ حد تک اتر آتے ہیں۔ تھوڑا سو تؤقف کیجیے اور ایک لمحہ کے لیے سوچیئے کہ اگر قیامت کے دن خدا آپ سے یہی سوال کرے کہ "تم کس کی پیروی کرتے رہے "؟ تو کیا آپ خدا سے بھی یہ سوال کرنے کی ہمت کريں گے کہ "پہلے قرآن آیا تھا یا حدیث"؟ پھر سوچیئے کہ "کیا آپ کا یہ سوال کہیں آپ کو کفر و شرک اور کلام الہی کے متعلق شک و شبہ میں نہیں لے گیا"؟ جبکہ قرآن کریم کا باقاعدہ آغاز ہی اسی بات سے ہوتا ہے
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ 2:2
ترجمہ : یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے) اس میں ہدایت ہے (خدا سے) ڈرنے والوں کے لیے۔
کہیے کیا آپ قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کے بارے میں شک کر کے اس آیت اور اس طرح قرآن کریم کا انکار نہیں کررہے؟اور جو لوگ اس کتاب پر شک و شبہ کرتے ہیں انہیں اللہ تبارک وتعالی کھلا چیلنج کرتے ہیں، مندرجہ ذیل آیات دیکھیے:
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ 2:23
ترجمہ : اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ 10:94
ترجمہ: اگر تم کو اس (کتاب کے) بارے میں جو ہم نے تم پر نازل کی ہے کچھ شک ہو تو جو لوگ تم سے پہلے کی (اُتری ہوئی) کتابیں پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس حق آچکا ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا
اب دیکھیے کہ خود جناب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اللہ کیا حکم دیتے ہیں ۔
أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ 6:114
(کہو) کیا میں خدا کے سوا اور منصف تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہاری طرف واضع المطالب کتاب بھیجی ہے اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب (اہل کتاب) دی ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق نازل ہوئی ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔

اب ہم آپ کے سوال کے دوسرے حصے کی طرف چلتے ہیں، جہاں آپ قرآن کریم کو حدیث سے پہلے ثابت کرنے کا "بزعم خود"بہت ہی مشکل سوال پوچھ رہے ہیں۔ صاحب ہم یہ دعوی تو نہیں کرسکتے کہ ہم قرآن کریم پر مکمل عبور رکھتے ہیں، لیکن معاف کیجیے گا یہ ایک ایسا سوال ہے ، جسکا جواب معمولی قرآن فہمی رکھنے والا بھی دے سکتا ہے۔مشکل تو "منکرین قرآن" کے لیے ہے ، کیونکہ "منکرین قرآن" کبھی بھی اس "کتاب عظیم" سے اپنی مروجہ"حدیث /روایات" ثابت نہیں کرسکتے ۔لیجیے پہلا ثبوت
وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ 10:37
اور یہ قرآن ایسا نہیں کہ خدا کے سوا کوئی اس کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں مگر یہ خدا کا کلام ہےاور جو کتابیں اس سے پہلے (کی) ہیں۔ ان کی تصدیق بھی کرتا ہے اور ان ہی کی تفصیل بھی بیان کرتا ہے اس میں کچھ شک نہیں (کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے (نازل ہوا) ہے۔
مگر کیا کہیے کہ آپ جیسے نام نہاد مسلمان ہی اس کو جھٹلانے کے درپے ہیں دیکھیے اس قرآن کو جھٹلانے والوں کے بارے میں اللہ کیا فرماتاہے
وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ 2:99
اور ہم نے تمہاری طرف واضح المطالب آیتیں نازل کی ہیں، اور ان سے انکار وہی کرتے ہیں جو فاسق (قانون شکن) ہیں۔
اب دیکھیے ایک ایسی آیت جس میں انتہائی واضح طور پر بتایا گیا ہے اس کتاب یعنی "قرآن کریم " سے پہلے لوگوں کے پاس کوئی ہدایت نہیں تھی اور ہر طرف "گمراہی پھیلی ہوئی تھی، اللہ نے انسانیت پر تر س کھایا اور ان میں اپنا رسول مبعوث کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے اس سے قبل "آپکی خود ساختہ حدیث/سنت" کہیں بھی نہیں تھی، اگرچہ اس وقت اہل کتاب کے پاس تورات و انجیل موجود تھیں، لیکن اللہ نے "ان کو بھی گمراہی " میں شمار کیا ہے۔ دیکھیے یہ آیت
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ 3:164
خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجا۔ جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو کتاب کی تعلیم دیتا اور اسکی حکمت سے آگاہ کرتا ہے۔اگرچہ اس سے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔
آپ کے اس سوال کے جواب میں سینکڑوں آیات پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن ہم ایک آخری آیت پیش کرکے آپ سے اجازت چاہیے۔
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ 10:58
ترجمہ: کہہ دو کہ (یہ کتاب) خدا کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل ہوئی ہے) تو چاہیئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں
کچھ سمجھے بھائی صاحب! یہ اس سے بہتر ہے جو آپ جمع کرتے ہیں، اور جسے آپ قرآن کریم سے افضل سمجھتے ہیں۔یعنی صحاح ستّہ۔
والسّلام،
خادم عمران علی
وما علینا الابلاع المبین
ثم تتفکروا
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
عمران علی نے جو آیات قرآن کریم کے ثبوت کے لیے پیش کی ہیں ، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔

((ذلک الکتاب لا ریب فیہ ))
دوسری آیت (( وما کان ھذا القرآن ان یفتری))

عمران علی سے سوال ہے ، کہ ہوسکتا ہے کہ پرانے وقتوں میں ، کسی غیر مسلم نے یہ آیات (( لا ریب فیہ )) اور (( ما کان ھذا القرآن ان یفتری )) ، "نقل" قرآن میں ڈال دی ہوں ، تا کہ مسلمان اس نقل " قرآن" میں شک نہ کریں ، اور اللہ کا کلام سمجھتے رہیں پھر اسے مسلمانوں میں "قرآن" کے نام سے پھیلادیا ، اور اصلی " قرآن" جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا ، اسکو کہیں چھپا دیا ہو ؟؟

عمران علی سے سوال ہے کہ جو مذکورہ بالا ٢ آیات اوپر بیان ہوی ہیں ، قرآن کریم سے ثابت کریں ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، ان ٢ آیات کی تلاوت، اپنی زبان مبارک فرمائ ہے ، اور کسی غیر مسلم نے ، اپنی طرف سے نہیں ڈالیں؟؟ تاکہ مسلمان دھوکا دہی سے بچ سکیں۔
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
محترم عبداللہ ہارون صاحب ؛افسوس کے ساتھ میں آپ سے اجازت چاہوں گا، اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں
1. پہلی بات ، چونکہ آپ کسی ایک موضوع پر بحث کو محدود نہیں رکھتے بلکہ ہمارے "سابقہ پوسٹ "میں ہمارے مدلل دلائل کا جواب نہ پا کر آپ ہر دفعہ موضوع بدل دیتے ہیں۔ یا دیگر اعتراضات اٹھا دیتے ہیں۔کیا یہ اس موضوع پر آپکی کھلی شکست نہیں؟اس لیے ہم اس "پوسٹ "سے دستبردار ہوتے ہیں۔
2. چونکہ اس پوسٹ کا مقصد آپ ہی کے مکتبہ فکر کی جانب سے آپ عائشہ کی شادی کے درست جواز کے متعلق تھا، اور اس پوسٹ میں مسئلہ زیر بحث قرآن کریم کی حقانیت یا حدیث کی حجیّت تھا ہی نہیں، پھر بھی میں نے اپنے آخری پوسٹ میں قرآن کریم کے متعلق آپکے شکوک و شبہات کو دور کرنے خود قرآن کریم سے ثبوت فراہم کیے، لیکن افسوس کہ آپ نے اس کا بھی کفر کیا۔ لہذا میں اس پوسٹ سے دستبردار ہوتا ہوں، تاوقتیکہ آپ عائشہ کی شادی کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں درست ثابت کردیں، یا قرآن کریم سے مہیا کیے گئے ثبوتوں کو درست تسلیم کرتے ہوئے توبہ کیجیے اور آئندہ سے قرآن کریم کو ہی منجانب اللہ آخری کتاب مانتے ہوئے اپنا مسلک درست کر لیں۔
3. تیسری بات ،آپ عائشہ کی شادی کے متعلق قرآن کریم سے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہ کرسکے ، یعنی شادی کے لیے "رشد" ضروری ہے ، آپ اپنے دلائل سے یہ ثابت نہ کرسکے کہ ہم غلط اور آپکا مروجہ اور خود ساختہ عقیدہ درست ہے۔قرآن کریم میں سے آپ سب حضرات "بچوں کی شادی ثابت نہیں کر سکے، اور نہ ہی کبھی کر سکیں گے، کیونکہ یہ کلام منجانب اللہ ہے اور اسکی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے، کسی بخارہ یا خراسان کے امام نے اس کتاب عظیم کی حفاظت کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔اگر لیا ہوتا تو ممکن ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر میں تحریف کی طرح اسکے الفاظ میں تحریف کر لیتے ، لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔
4. آخری اور سب سے اہم بات، ہر طرف سے لاجواب ہو کر آپ نے اب اپنے مروجہ عقائد کو درست ثابت کرنے کے لیے ، آپ ایڑی چوٹی کا زور صرف کرکے "قرآن کریم" کو مستشرقین کی پیروی میں، غیرا للہ کی کتاب ثابت کرنے پر تلے ہیں۔کیونکہ آپکے پاس قرآن کریم کی دلیلوں کا کوئی معقول جواب نہیں۔میرے بھائی انٹرنیٹ کو ہار یا جیت کا میدان نہ سمجھیں، بلکہ اپنی اصلاح کرنے کا زریعہ سمجھیں، خدا کی قسم اگر "قرآن کریم " سے کوئی میری رہنمائی کرتا ہےاور وہ بات ہر لحاظ سے درست ہو، تو مجھے اسے ماننے میں کوئی تامل نہیں ہوگا ۔بحث مباحثے کا مقصد کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنا ہوتا ہے، تا کہ موضوع زیر بحث پر ہر لحاظ سے غور و تدبر کے بعد کسی معاملے کا حل نکالا جائے، اور جو غلطی پر ہے،وہ اپنی اپنی اصلاح کر لیں۔اور اپنی آخرت اچھی کر لیں۔چونکہ آپ میں ان سب باتوں کا فقدان ہے، فلہذا میں اس پوسٹ سے دستبرار ہوتا ہوں۔
فی امان اللہ،
و ما علینا الاالبلاغ المبین
ثم تتفکروا

والسّلام،عمران علی
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
علی عمران کو نابالغ بچیوں سے نکاح کی دلیل ، قرآن سے دی جاتی ہے ۔

چونکہ عمران علی، سورہ طلاق کی آیت#٤(( والائ یئسن من المحیض من نسآءکم )) ، میں لفظ (( نسآء)) سے ، صرف بالغ عورتیں ، مراد لے رہے ہیں، اسی وجہ سے آیت کا اگلہ ٹکڑا (( لم یحضن)) میں بھی بالغ عورت مراد لے رہے ہیں ، جو کہ غلط ہے ۔

کیونکہ بعض دفعہ (( نسآء)) میں ، نابالغ بچیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ آیت ملاحظہ ہو(( الذی خلقکم من نفس واحدہ وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیرا ونسآء))سورہ نسآء آیت#١

اس آیت میں آدم علیہ السلام اور انکی بیوی سے ہونے والی اولاد پر ، اللہ تعالی نے لفظ(( رجالا )) مردوں پر ، اور لفظ(( نسآء)) عورتوں پر بولاہے ۔

آدم علیہ السلام کی اولاد میں ،جو نابالغ بچے ہیں، وہ (( رجالا)) میں آ گئے ، اور جو نابالغ بچیاں ہیں ، وہ(( نسآء )) کے اندر آگیئں۔

معلوم ہوا کہ لفظ(( نسآء)) کے اندر نابالغ بچیاں ، بھی شامل ہیں۔

اگر نہیں ، تو کیا آدم علیہ السلام کی اولاد ،صرف بالغ مرد وعورت ہی ہوتی تھی ، بچے پیدا نہیں ہوتے تھے؟؟

معلوم ہوا کہ لفظ (( نسآء)) کا مطلب ، صرف بالغ عورت لینا ، غلط ہے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
موضوع کو انتشار سے بچانے کی غرض سے ہماری کوشش ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے سوالات کے جوابات دئے بغیر آگے بات نہ بڑھائیں۔

پہلے عمران صاحب سے گزارش ہے کہ آپ نے جو یہ ترجمہ کیا ہے:

لَمْ يَحِضْنَۚ جنہیں حیض نہیں آتا (کسی بیماری کے سبب انکی بھی تین مہینے ہے)

اس ترجمہ کے بارے میں رفیق طاھر بھائی کے اس سوال (اور دلیل) کا بدلائل جواب دیجئے :

آپ نے لم یحضن کا ترجمہ "جنہیں حیض نہیں آتا" کس اصول کے تحت کیا ہے ؟؟؟؟
لم یحضن ماضی منفی کے معنى میں ہے یعنی "جنہیں حیض نہیں آیا" !!! یا "جو حائضہ نہیں ہوئیں" !!!
اور عورت کے بالغ ہونے کی نشانی حیض کا آنا ہوتا ہے ۔
جنہیں حیض نہیں آیا وہ نابالغ ہی ہیں !!!!
اس آیت کا مفہوم طے ہو جائے، اس کے بعد دیگر آیات اور ان کے مفاہیم پر بات شروع کریں۔
اس سوال کے جواب کے ساتھ آپ کو بھی اجازت ہے کہ آپ بھی اپنا کوئی (صرف) ایک اہم سوال پیش کر دیں۔ جس کے جواب کے لئے ہم فریق مخالف رفیق طاھر اور ھارون عبداللہ برادران کو پابند کریں گے۔
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
محترم ہارون عبداللہ صاحب۔
میں بعد میں توبہ کرلوں گا، میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اس پوسٹ پر دیگر موضوعات کو نہ پکڑیں۔صرف اپنی بحث کو "نابالغ بچوں کی قرآن سے شادی کا ثبوت" تک رکھیں۔آدم اور قرآن و حدیث کی حجیّت بالکل الگ موضوعات ہیں، اور اس پوسٹ پر یہ تحریر نہیں کیے جاسکتے، میں ایک ثبوت دیتا ہوں، آپ اس پر دس نئے اعتراضات کر دیتے ہیں۔ لہذا، میں ایک بار پھر آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ اس پوسٹ پر ہم صرف اپنے موضوع پر بات کریں گے اور اس موضوع کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات نہیں کريں گے۔برسبیل تذکرہ میں یہ بتاتا چلوں کہ سورۃ نساء کی آیت نمبر ایک میں وارد لفظ "نفس" کے ہم نے "اصطلاحی" معنی لیے ہیں، لغوی معنی نہیں۔

لہذا آپ "نفس" کی بحث کو چھوڑ کر "نساء اور امراۃ" کی طرف آئیں ، اور ثابت کریں کہ اس کے معنی "بچیوں " کے ہیں، یا آپ بچیوں کا نکاح ہی قرآن کریم سے ٹابت کردیں۔
اگر آپ اپنے پچھلے پوسٹ دیکھیں تو آپ خود تذبذب کا شکار ہیں۔

کبھی آپ کہتے ہیں کہ "چونکہ عرب میں موسم شدید گرم ہوتا ہے لہذا وہاں بچیاں جلد سن بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں۔ لہذا وہ بالغ ہو جاتی ہیں اور انکی شادی جائز ہے۔اس لیے اماں عائشہ کا نکاح بلوغت میں ہوا تھا"

دوسری طرف آپکا اپنا ضمیر یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ "چھ یا نو سال" کی بچی جوان ہو سکتی ہے، لہذا آپ بوکھلاہٹ میں
کبھی سورۃ طلاق کی آیت نمبر چار سے "لم یحضن" سے "نابالغ بچیاں ثابت کرتے ہیں
اور کبھی سورۃ نساء میں وارد لفظ "نساء" کا اطلاق بچیوں پر کر دیتے ہیں۔
تو کھبی آپ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر پچاس میں وارد لفظ " بنت "سے بچیوں کی شادی جائز قرار دیتے ہیں۔ دریں حالیکہ ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ "یہاں پر بنت صرف رشتوں کی پہچان کے لیے ہے، نا کہ شادی کی عمر کا تعین کرنے کے لیے"

لہذا آپ کے سابقہ پوسٹس اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ کے اپنے بیانات بوکھلاہٹ میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ اور بوکھلاہٹ کا شکاروہی لوگ ہوتے ہیں، جو اپنی بنیادیں جھوٹ پر استوار کرتے ہیں۔ سچ سچ ہوتا ہے اور سچ بولنے والا کبھی بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔کیونکہ سچ، سچ ہی ہوتا ہے۔آئیں بائيں شائیں وہی لوگ کرتے ہیں جو جھوٹ و فریب کا سہارا لیے ہوتے ہیں۔

فی امان اللہ،
و ما علینا الاالبلاغ المبین
ثم تتفکروا

والسّلام،عمران علی
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
موضوع کو انتشار سے بچانے کی غرض سے ہماری کوشش ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے سوالات کے جوابات دئے بغیر آگے بات نہ بڑھائیں۔

پہلے عمران صاحب سے گزارش ہے کہ آپ نے جو یہ ترجمہ کیا ہے:

لَمْ يَحِضْنَۚ جنہیں حیض نہیں آتا (کسی بیماری کے سبب انکی بھی تین مہینے ہے)

اس ترجمہ کے بارے میں رفیق طاھر بھائی کے اس سوال (اور دلیل) کا بدلائل جواب دیجئے :



اس آیت کا مفہوم طے ہو جائے، اس کے بعد دیگر آیات اور ان کے مفاہیم پر بات شروع کریں۔
اس سوال کے جواب کے ساتھ آپ کو بھی اجازت ہے کہ آپ بھی اپنا کوئی (صرف) ایک اہم سوال پیش کر دیں۔ جس کے جواب کے لئے ہم فریق مخالف رفیق طاھر اور ھارون عبداللہ برادران کو پابند کریں گے۔
برادر شاکر صاحب،
السّلام علیکم،

میں اس آیت کا "حیض نہیں آتا"ترجمہ کرنے والاانوکھا نہیں ہوں۔ذیادہ تو نہیں میں یہاں صرف دو (غیر جانبدار) مترجمین کے تراجم پیش کررہا ہوں، آپ مطالعہ کر لیں۔

اور جو تمہاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہو چکی ہیں اگر تمہیں شک ہو تو انکی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض نہیں آتا۔ترجمہ: قرآن مجید از مولانا "محمد علی صاحب"
ترجمہ ڈاؤن لوڈ کریں
Urdu Translation of the Holy Quran with Arabic Text by Maulana Muhammad Ali @ aaiil.org

Now as for such of your women as are beyond, the age of monthly courses, as well as for such as do not have any courses,10 their waiting-period - if you have any doubt [about it] - shall be three [calendar] months;(Translation by Allama Mohammad Asad in “The Message of the Quran)
Foot Note by Allama Mohammad Asad:

10 i.e., for any physiological reason whatever.

بالفرض محال "بحث کے لیے ہم آپکا مؤقف درست بھی تسلیم کرلیں تو محض "آتا" یا "آیا " سے آپ قرآن کریم سے نابالغوں کی شادی درست قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ آپ ایک انتہائی اہم نکتہ اس آیت میں فراموش کررہے ہیں، اور وہ نکتہ "اس آیت میں مخاطبین ہیں۔اس آیت میں "مخاطب" "نساءکم"سے ہے، یعنی "تمہاری عورتیں" اور عورتیں "عاقل ،بالغ اور شادی لائق ہوتی ہیں، بچیاں نہیں ہوتیں۔ اس آیت میں وارد "إِنِ " حرف شرط ہے جو دونوں طرح کی خواتین پر دلالت کرتا ہے، یعنی وہ جنہیں ضیعف العمری کی وجہ سےحیض آنابند ہو گیا ہے، اور وہ بھی جنہیں کسی بیماری کے سبب حیض نہیں آتا۔اب آپ آیا ترجمہ کریں یا آتا ترجمہ کریں، بات تو ہر صورت خواتین تک محدود رہے گی، "بنات" تک نہیں۔ خدارا اب "بنات" کے مردہ پھر سے نہ اکھاڑیے گا، کیونکہ اس کا مدلل جواب میں اپنے پہلے ایک پوسٹ میں دے چکا ہوں اور میرا مؤقف آپکی طرح لمحہ بہ لمحہ بدلنے والا نہیں ، اب بھی وہی ہے۔

فی امان اللہ،
و ما علینا الاالبلاغ المبین
ثم تتفکروا

والسّلام،عمران علی
 
Top