جناب طلاق والی آیت سے آپکو کیا دشمنی ہے ؟؟؟؟
اور کلمہ " جنہیں حیض نہیں آیا " سے نابالغ نہیں تو کون مراد ہوسکتی ہیں ؟؟؟؟
کیونکہ جنہیں حیض آیا لیکن بند ہوگیا خواہ کبر سنی کی بناء پر خواہ بیماری کی بناء پر انکے لیے اس آیت میں لفظ " جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں" استعمال ہوا ہے ۔
طلاق والی آیت سے ہمیں تو کوئی دشمنی نہیں لیکن آپکی من مانی تشریحات سے ڈر لگتا ہے، پہلے ہم مذکورہ آیت تحریر کرتے ہیں ، پھراس پر بات ہوگی
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
ترجمہ: اور تمہاری (مطلقہ) عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں اگر تم کو (ان کی عدت کے بارے میں) شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور وہ بھی جن کو حیض نہیں آتا اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچّہ جننے) تک ہے۔ اور جو خدا سے ڈرے گا خدا اس کے کام میں سہولت پیدا کردے گا
اب فرمائیے کہ اس آيت میں ایسی کیا بات ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ "اس میں بچیوں " کے حیض آنے کا تذکرہ ہے؟اپنا تعصب کا چشمہ اتار کر دیکھیں تو یہ آيت شروع ہی "نساء" سے ہوتی ہے، اور نساء جوان عورت کو کہتے ہیں، بچیوں کو نہیں۔دوسرے اس میں طلاق کے حوالے سے حکم یہ اور اس میں واضح حکم ہے کہ "چاہے طلاق یافتہ "خواتین" (بچیوں کو نہیں) کو حیض آئے یا نہ آئے انکی عدت "تین مہینے " ہے۔ اب آپ محض اپنے مروجہ عقیدے اور "بخاری شریف"کی ایک حدیث کو درست ثابت کرنے کے "جن کو حیض نہ آتا ہو" کو نابالغ بچیاں ثابت کرنے پر تلے ہیں تو ہم اس پر ماسوائے افسوس کرنے کے اور کیا کر سکتے ہیں۔ اور ہم آپ کے لیے خدا کے حضور دست بدعا ہیں کہ وہ آپ کو ہدایت سے نوازے۔ آمین !
ثم تتفکروا