- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
قیاس عقلی
اس کے بعد قیاس عقلی کا درجہ ہے، قیاس عقلی کے یہ معنی نہیں کہ ہر کس و ناکس صرف اپنی عقل سے شریعت کے احکام کا فیصلہ کر دے ، بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ علماء جو شریعت کے راز داں اور علوم دینی کے ماہر ہیں ، کتاب و سنت کی ممارست سے ان میں یہ ملکہ پیدا ہو جاتا ہے، کہ ان کے سامنے جب کوئی نیا مسئلہ پیش کیا جاتا ہے ، تو وہ اس ملکہ کی بناء پر سمجھ لیتے ہیں کہ اگر شارع علیہ السلام زندہ ہوتے ، تو اس کا یہ جواب دیتے ، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی لائق وکیل کے سامنے کسی خاص عدالت کے نظائر اس کثرت سے گزریں کہ گذشتہ نظائر پر قیاس کر کے کسی خاص مقدمہ کی نسبت یہ رائے دیدے کہ اگر اس عدالت کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہو گا تو یہ فیصلہ ہو گا، شریعت کے نظائر اور فیصلوں سے حضرت عائشہؓ جس قدر آگاہ تھیں ، آپ کو معلوم ہے، اس لئے ان کے قیاسِ عقلی کی غلطی کی بہت کم امید ہو سکتی ہے۔
آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں عموماً عورتیں مسجدوں میں آتی تھیں اور جماعت کی نماز میں شریک ہوتی تھیں ، مردوں کے بعد بچوں کی اور ان کے پیچھے عورتوں کی صفیں ہوتی تھیں ، آپؐ نے عام حکم دیا تھا کہ لوگ عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکیں ۔ارشاد تھا۔
عمرہ حضرت عائشہؓ سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا عورتوں نے جو نئی باتیں پیدا کی ہیں اگر آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) اس زمانہ میں ہوتے اور دیکھتے تو جس طرح یہود کی عورتیں مسجدوں میں آنے سے روکی گئی ہیں یہ بھی روک دی جاتیں ۔
حضرت ابو ہریرہؓ کا فتوی تھا کہ جو مردہ کو غسل دے ۔ اس کو غسل کرنا چاہئے اور کوئی جنازہ اٹھائے تو دوبارہ وضو کرے ، حضرت عائشہؓ نے سنا تو فرمایا:’’کیا مسلمان مردہ بھی ناپاک ہوتا ہے اور اگر کوئی لکڑی اٹھائے تو اس کو کیا ہوتا ہے۔‘‘
اس کے بعد قیاس عقلی کا درجہ ہے، قیاس عقلی کے یہ معنی نہیں کہ ہر کس و ناکس صرف اپنی عقل سے شریعت کے احکام کا فیصلہ کر دے ، بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ علماء جو شریعت کے راز داں اور علوم دینی کے ماہر ہیں ، کتاب و سنت کی ممارست سے ان میں یہ ملکہ پیدا ہو جاتا ہے، کہ ان کے سامنے جب کوئی نیا مسئلہ پیش کیا جاتا ہے ، تو وہ اس ملکہ کی بناء پر سمجھ لیتے ہیں کہ اگر شارع علیہ السلام زندہ ہوتے ، تو اس کا یہ جواب دیتے ، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی لائق وکیل کے سامنے کسی خاص عدالت کے نظائر اس کثرت سے گزریں کہ گذشتہ نظائر پر قیاس کر کے کسی خاص مقدمہ کی نسبت یہ رائے دیدے کہ اگر اس عدالت کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہو گا تو یہ فیصلہ ہو گا، شریعت کے نظائر اور فیصلوں سے حضرت عائشہؓ جس قدر آگاہ تھیں ، آپ کو معلوم ہے، اس لئے ان کے قیاسِ عقلی کی غلطی کی بہت کم امید ہو سکتی ہے۔
آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں عموماً عورتیں مسجدوں میں آتی تھیں اور جماعت کی نماز میں شریک ہوتی تھیں ، مردوں کے بعد بچوں کی اور ان کے پیچھے عورتوں کی صفیں ہوتی تھیں ، آپؐ نے عام حکم دیا تھا کہ لوگ عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکیں ۔ارشاد تھا۔
عہد نبوت کے بعد مختلف قوموں کے میل جول، تمدن کی وسعت ، اور دولت کی فراوانی کے سبب سے عورتوں میں زیب و زینت اور رنگینی آ چلی تھی، یہ دیکھ کر حضرت عائشہؓ نے فرمایا اگر آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) زندہ ہوتے تو عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے رو ک دیتے:لاتمنعوا اماء اللہ من مساجد اللہ۔
’’خدا کی لونڈیوں کو خدا کی مسجدوں سے نہ روکا کرو۔‘‘
عمرہ حضرت عائشہؓ سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا عورتوں نے جو نئی باتیں پیدا کی ہیں اگر آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) اس زمانہ میں ہوتے اور دیکھتے تو جس طرح یہود کی عورتیں مسجدوں میں آنے سے روکی گئی ہیں یہ بھی روک دی جاتیں ۔
حضرت ابو ہریرہؓ کا فتوی تھا کہ جو مردہ کو غسل دے ۔ اس کو غسل کرنا چاہئے اور کوئی جنازہ اٹھائے تو دوبارہ وضو کرے ، حضرت عائشہؓ نے سنا تو فرمایا:’’کیا مسلمان مردہ بھی ناپاک ہوتا ہے اور اگر کوئی لکڑی اٹھائے تو اس کو کیا ہوتا ہے۔‘‘