• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شان صحانہ رضی اللہ عنہ ایک ننھے اھل الحدیث کے منہ سے!!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,787
پوائنٹ
1,069
ہمارے محلے میں کافی عرصہ پہلے ایک فیملی کرائے کے مکان میں رہتی تھی ، ان کی ایک بیٹی جو سب سے چھوٹی غالبا 4 یا 5 سال کی تھی کچھ نفسیاتی تھی ۔ اس سے بات ہم اسکول کی پوچھتے تھے تو جواب میں اس نے جو کھانا رات کو کھایا ہوتا تھا اس کی تفصیل بتاتی تھی ، اگر اس کے بہن بھائیوں کے متعلق کچھ ہنسی مذاق میں کچھ دریافت کیا جاتا تو جواب میں اپنی ٹیچر کے متعلق کچھ بتادیتی
آپ سے گفتگو کرنے کے بعد نجانے مجھے وہ معصوم و ذھنی عدم توازن کا شکار بچی کیوں یاد آرہی ہے
آپ کے گفتگو کے دوران بھی کچھ یوں ہی ہوتا ہے موضوع کچھ ہوتا ہے اور آپ غیر متعلق امور کاپی پیسٹ کرنا شروع کردیتے ہیں

آپ نے یہاں ایک موضوع چھیڑا ہے کہ صف بندی کے دوران طریقہ کار کیا ہونا چاہئیے۔ ٹھیک ہے اسی موضوع پر بات کرلیتے ہیں اور آپ صرف اسی کے متعلق گفتگو کریں گے اور کوئی دوسرے موضوع نہ چھيڑیں گے اس تھریڈ کی حد ٹک نہ آپ سجدہ کے مسائل چھیڑیں گے نہ روزہ کے متعلق و علی ھذا القیاس
اگر کا پی پیسٹ بھی کریں گے تو صف بندی کے متعلق کریں گے ۔ اگر آپ یہ وعدہ کریں تو بات کو آگے بڑھالیتے ہیں اور دیکھ لیتے ہیں
جو مسئلہ آپ نے چھيڑا ہے اس میں حدیث پر عامل کون ہے غیر مقلد یا احناف
اگر اب بھی غیر متعلق جواب آیا تو پھر میری طرف سے کسی جواب کی امید نہ رکھیں


تلمیذ بھائی کیا یہ آپ نہ نہیں کہا ہے-
اسی طرح آپ کہیں بھی ثابت نہیں کرسکتے کہ احناف نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر امام کا قول اپنایا ہو
اس پر میں نے آپکو یہ چیزیں پوسٹ کی بھائی اللہ اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم کی کسی بھی بات کو آپ غیر متعلق نہ کہیں -

اللہ تعالیٰ ھم کو حق بات کہنے اور سمجھنے کی توفیق دے - آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,787
پوائنٹ
1,069
باب : صف میں مونڈھے سے مونڈھا ( کندھے سے کندھا ) اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونا:

وقال النعمان بن بشير رأيت الرجل منا يلزق كعبه بكعب صاحبه‏.‏
اور نعمان بن بشیر صحابی نے کہا کہ میں نے دیکھا ( صف میں ) ایک آدمی ہم میں سے ٹخنہ اپنے قریب والے دوسرے آدمی کے ٹخنہ سے ملا کر کھڑا ہوتا۔
حدیث نمبر : 725
حدثنا عمرو بن خالد، قال حدثنا زهير، عن حميد، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أقيموا صفوفكم فإني أراكم من وراء ظهري‏"‏‏. ‏ وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه‏.‏ - صحیح بخاری -> کتاب الاذان
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ نے حمید سے بیان کیا، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، صفیں برابر کر لو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ ( صف میں ) اپنا مونڈھا ( کندھا ) اپنے ساتھی کے مونڈھے ( کندھے ) سے اور اپنا قدم ( پاؤں ) اس کے قدم ( پاؤں ) سے ملا دیتا تھا۔ - صحیح بخاری -> کتاب الاذان

تشریح : حضرت امام الدین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں متفرق ابواب منعقد فرما کر اور ان کے تحت متعدد احادیث لاکر صفوں کو سیدھا کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلہ کا یہ آخری باب ہے۔ جس میں آپ نے بتلایا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صف میں ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے مونڈھے سے مونڈھا اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو۔ جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا بیان نقل ہوا کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہوا کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان بھی موجو دہے۔

نیز فتح الباری، جلد:2 ص:176 پر حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ لو فعلت ذلک باحدہم الیوم لنفر کانہ بغل شموس اگر میں آج کے نمازیوں کے ساتھ قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اس سے سرکش خچر کی طرح دور بھاگتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد صحابہ کے ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس درجہ غافل ہونے لگے تھے کہ ہدایت نبوی کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدموں سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بننے لگ گیا تھا۔ جس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ایسا کہنا پڑا۔ اس بارے میں اور بھی کئی ایک احادیث وارد ہوئی ہیں۔


روی ابوداود و الامام احمد عن ابن عمر انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام قال اقیموا صفوفکم و حاذوا بین المناکب و سدوا الخلل و لینوا بایدی اخوانکم لا تذروا فرجات الشیطان من وصل صفا و صلہ اللہ و من قطع صفا قطعہ اللہ و روی البزار باسناد حسن عنہ علیہ الصلوٰۃ و السلام من سد فرجۃ فی الصف غفر اللہ و فی ابی داود عنہ علیہ الصلوٰۃ و السلام قال خیارکم الینکم مناکب فی الصلوٰۃ۔
یعنی ابوداؤد اور مسند احمد میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں سیدھی کرو اور کندھوں کو برابر کرو۔ یعنی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاؤ اور جو سوراخ دو نمازیوں کے درمیان نظر آئے اسے بند کردو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو اور شیطان کے گھسنے کے لیے سوراخ کی جگہ نہ چھوڑو۔ یاد رکھو کہ جس نے صف کو ملایا خدا اس کو بھی ملا دے گا اور جس نے صف کو قطع کیا خدا اس کو قطع کرے گا۔ بزار میں سند حسن سے ہے کہ جس نے صف کی دراڑ کو بند کیا خدااس کو بخشے۔ ابوداؤد میں ہے کہ تم میں وہی بہتر ہے جو نماز میں کندھوں کو نرمی کے ساتھ ملائے رکھے۔

و عن النعمان بن بشیر قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسوی صفوفنا کانما یسوی بہ القداح حتی رای انا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوما فقام حتی کاد ان یکبر فرای رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال عباد اللہ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین وجوہکم رواہ الجماعۃ الا البخاری فان لہ منہ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین وجوہکم۔ ولاحمد و ابی داود فی روایۃ قال فرایت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ و رکبتہ برکبتہ و منکبہ بمنکبہ۔ ( نیل الاطار ج:3ص:199 )
یعنی نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس طرح سیدھا کراتے گویا اس کے ساتھ تیر کو سیدھا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ آپ کو اطمینان ہوگیا کہ ہم نے اس مسئلہ کو آپ سے خوب سمجھ لیا ہے۔ ایک دن آپ مصلے پر تشریف لائے اور ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو برابر کرلو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان باہمی طور پر اختلاف ڈال دے گا۔ بخاری شریف میں یوں ہے کہ اپنی صفوں کو بالکل برابر کر لیا کرو۔ ورنہ تمہارے چہروں میں آپس میں اللہ مخالفت ڈال دے گا۔ اور احمد اور ابوداؤد کی روایات میں ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہر نمازی اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھے اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخہ ملایا کرتا تھا۔

امام محمد کتاب الآثار باب اقامۃ الصفوف میں لکھتے ہیں: عن ابراہیم انہ کان یقول سووا صفوفکم و سووا مناکبکم تراصوا و لایتخللنکم الشیطان الخ قال محمد و بہ ناخذ لا ینبغی ان یترک الصف و فیہ الخلل حتی یسووا و ہو قول ابی حنفیۃ
یعنی ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ صفیں اور شانہ برابر کرو اور گچ کرو ایسا نہ ہو کہ شیطان بکری کے بچہ کی طرح تمہارے درمیان داخل ہو جائے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو لیتے ہیں کہ صف میں خلل چھوڑ دینا لائق نہیں۔ جب تک ان کو درست نہ کر لیا جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔

نیز بحر الرائق و عالمگیری و درمختار میں بھی یہی ہے کہ ینبغی للمامون ان یتراصوا و ان یسدو الخلل فی الصفوف و یسووا مناکبہم وینبغی للامام ان یامرہم بذلک و ان یقف وسطہم
یعنی مقتدیوں کو چاہئے کہ صفوں کو چونا گچ کریں صفوں میں درازوں کو بند کردیں اور شانوں کو ہموار رکھیں بلکہ امام کے لیے لائق ہے کہ مقتدیوں کو اس کا حکم کرے پھر بیچ میں کھڑا ہو۔ فتاوی تاتار خانیہ میں ہے کہ جب صفوں میں کھڑے ہوں تو گچ کریں اور کندھے ہموار کرلیں۔ ( شامی، ج:1ص:595 )

یہ تفصیل اس لیے پیش کی گئی ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنا، پیر سے پیر ملاکر کھڑا ہونا ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اس کے باوجود آج کل مساجد میں صفوں کا منظر یہ ہوتا ہے کہ ہر نمازی دوسرے نمازی سے دور بالکل ایسے کھڑا ہوتا ہے جیسے کچھ لوگ اچھوتوں سے اپنا جسم دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قدم سے قدم ملانے کی کوشش کی جائے تو ایسے سرک کر الگ ہو جاتے ہیں جیسے کہ کسی بچھو نے ڈنک ماردی ہو۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملت کے باہمی طور پر دل نہیں مل رہے ہیں۔ باہمی اتفاق مفقود ہے سچ ہے

صفیں کج، دل پریشان، سجدہ بے ذوق
کہ انداز جنوں باقی نہیں ہے

عجیب فتوی:
ہمارے محترم دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ اس سے مقصد پوری طرح صفوں کو درست کرنا ہے تاکہ درمیان میں کسی قسم کی کوئی کشادگی باقی نہ رہے۔ ( تفہیم البخاری پ:3 ص:108 )
بالکل درست اور بجا ہے کہ شارع کا یہ مقصد ہے اور لفظ تراصوا کا یہی مطلب ہے کہ نمازیوں کی صفیں چوناگچ دیواروں کی طرح ہونی ضروری ہیں۔ درمیان میں ہرگز ہرگز کوئی سوراخ باقی نہ رہ جائے۔ مگر اسی جگہ آگے ارشاد ہوتا ہے کہ فقہائے اربعہ کے یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان چار انگلیوں کا فرق ہونا چاہئے۔ ( حوالہ مذکور )
تفصیلات بالا میں شارع کا مقصد ظاہر ہوچکا ہے کہ صف میں ہر نمازی کا دوسرے نمازی کے قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ، کندھے سے کندھا ملانا مقصود ہے۔ اکابر احناف کا بھی یہی ارشاد ہے پھر یہ " دو آدمیوں کے درمیان چار انگل کے فرق کا فتوی " سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مطلب رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کمال ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی صحیح حدیث بطور دلیل پیش کی جاسکتی ہے نہ کسی صحابی و تابعی کا کوئی قول۔ پھر یہ چار انگل کے فاصلے کی اختراع کیا وزن رکھتی ہے؟
اسی فتویٰ کا شاید یہ نتیجہ ہے کہ مساجد میں جماعتوں کا عجیب حال ہے۔ چار انگل کی گنجائش پاکر لوگ ایک ایک فٹ دور کھڑے ہوتے ہیں اور باہمی قدم مل جانے کو انتہائی خطرناک تصور کرتے ہیں اور اس پرہیز کے لیے خاص اہتمام کیا جاتاہے۔ کیا ہمارے انصاف پسند و حقیقت شناس علمائے کرام اس صورت حال پر محققانہ نظر ڈال کر اصلاح حال کی کوشش فرما سکیں گے۔
ورنہ ارشاد نبوی آج بھی پکار پکا ر کر اعلان کر رہا ہے۔ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین قلوبکم صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی صفیں برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں باہمی اختلاف ڈال دے گا۔
صف میں مونڈھے سے مونڈھا ( کندھے سے کندھا ) اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونا

http://forum.mohaddis.com/threads/صف-میں-مونڈھے-سے-مونڈھا-کندھے-سے-کندھا-اور-قدم-سے-قدم-ملا-کر-کھڑے-ہونا.7567/
 
Top