• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شان صحانہ رضی اللہ عنہ ایک ننھے اھل الحدیث کے منہ سے!!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ جو صفات آپ نے اھل حدیث کی بتائی تھیں جن کو میں نے اوپر نمبر وار تحریر کیا وہ آپ میں ہیں یا نہیں؟؟؟؟
کیوں کہ بقول آپ کے جو اہل حدیث ہو گا اس کی مندرجہ بالا خصوصیات ہوں گیں ۔

ٹو دی پوائنٹ جواب دیں

1002890_433240113456006_90712290_n.jpg
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ نے اہل حدیث کی جو صفات بیان کیں تھیں ان میں سے ایک یہ تھی وہ صحیح اور ضعیف حدیث میں تمیز کرتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں اہل حدیث کی صرف رجوع کیا جاتا ہے ۔
آپ نے کہا الحمد للہ یہ صفات آپ میں موجود ہیں (آپ کے نامکمل جواب سے میں یہی سمجھا ہوں ) ویسے ابھی اگر یہ صفات آپ میں موجود نہیں تو آپ اہل حدیث نہیں
تو ذرا اپ نے جو صحیح اور ضعیف حدیث کی تمییز میں خدمات انجام دیں ہیں اور جن لوگوں میں اختلاف کی صورت میں آپ کی طرف رجوع کیا ہے ذرا وہ علمی خدمات میں سے کچھ ہمیں بھی بتائيے گا
الحمد اللہ
ویسے آپ کی علمی استعداد کا ایک نمونہ یہاں بھی نظر آرہا ہے
الحمد اللہ نہیں ہوتا الحمد لله ہوتا ہے
اللہ ہی سے ہدایت کا سوال ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
آپ نے اہل حدیث کی جو صفات بیان کیں تھیں ان میں سے ایک یہ تھی وہ صحیح اور ضعیف حدیث میں تمیز کرتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں اہل حدیث کی صرف رجوع کیا جاتا ہے ۔
آپ نے کہا الحمد للہ یہ صفات آپ میں موجود ہیں (آپ کے نامکمل جواب سے میں یہی سمجھا ہوں ) ویسے ابھی اگر یہ صفات آپ میں موجود نہیں تو آپ اہل حدیث نہیں
تو ذرا اپ نے جو صحیح اور ضعیف حدیث کی تمییز میں خدمات انجام دیں ہیں اور جن لوگوں میں اختلاف کی صورت میں آپ کی طرف رجوع کیا ہے ذرا وہ علمی خدمات میں سے کچھ ہمیں بھی بتائيے گا


ویسے آپ کی علمی استعداد کا ایک نمونہ یہاں بھی نظر آرہا ہے
الحمد اللہ نہیں ہوتا الحمد لله ہوتا ہے
اللہ ہی سے ہدایت کا سوال ہے

جزاکم اللہ خیرا تلمیذ بھائی آپ نے مجھے میری غلطی سے آگاہ کیا کاش یہی چیز ھم سب کہ اندر پیدا ھو جائے کہ جب بھی کوئی شخص آپکی اصلاح کریں اور آپ کی بات غلط ھو تو وہ اس کی بات کو قبول کر لیں
اور کاش یہی چیز بھی ھم سب کہ اندر پیدا ھو جائے جب ھمارے سامنے قرآن اور صحیح حدیث آ جائے اور سامنے کسی امام کا قول ھو جو قرآن و صحیح حدیث سے ٹکراتا ھو تو ھم امام کے اس قول کو چھوڑ دیں اور قرآن و صحیح حدیث کی بات کو قبول کر لیں -

الله تعالیٰ قرآن و صحیح حدیث کہ سمجھنے میں ھماری مدد فرمائیں - آمین
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
جزاکم اللہ خیرا تلمیذ بھائی آپ نے مجھے میری غلطی سے آگاہ کیا کاش یہی چیز ھم سب کہ اندر پیدا ھو جائے کہ جب بھی کوئی شخص آپکی اصلاح کریں اور آپ کی بات غلط ھو تو وہ اس کی بات کو قبول کر لیں
آمین​

اور کاش یہی چیز بھی ھم سب کہ اندر پیدا ھو جائے جب ھمارے سامنے قرآن اور صحیح حدیث آ جائے اور سامنے کسی امام کا قول ھو جو قرآن و صحیح حدیث سے ٹکراتا ھو تو ھم امام کے اس قول کو چھوڑ دیں اور قرآن و صحیح حدیث کی بات کو قبول کر لیں -
آمین
اولا
جس طرح نہ آپ اپنے آپ کو یا اس بچہ کو اہل حدیث ثابت کرسکے اور قرطبی والے واقعہ میں کوئي شرکیہ بات نکال سکے وہاں بھی آپ کو صحیح حدیث سے جواب دیا گيا ، اسی طرح آپ کہیں بھی ثابت نہیں کرسکتے کہ احناف نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر امام کا قول اپنایا ہو
اگر آپ کا زعم صحیح ہے تو مجھے صرف ایک حنفی (عربی ہو یا عجمی ، موجودہ زمانہ میں ہو یا ماضی میں ) دکھادیں جس نے ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ کی بات پر عمل کیا اور کہیں بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے خلاف نہ چلا ہو

ثانیا
اختلاف اس میں نہیں اگر امام کا قول قرآن و حدیث کے خلاف معلوم ہو تو امام کا قول رد ہو گا یا نہیں بلاشبہ رد ہو گا ،
اختلاف اس میں ہے کہ اس کو کون رد کرسکتا ہے
۔ ہم کہتے ہیں کہ صرف وہ شخص جو اجتھادی صفات سے متصف ہے اگر وہ اپنے اجتھاد سے سمجھتا ہے کہ امام کا قول قران و حدیث سے مخالف ہے تو وہ امام کے قول پر نہیں چلے گا (کئی حنفی فقہاء نے بالکل ایسا ہی کیا ) اور
آپ کہتے ہیں کہ ہر شخص کو یہ اختیار ہے وہ صرف ترجمہ پڑھ کر مجتھدانہ استنباط کرسکتا ہے اور امام کے قول کو رد بھی کرسکتا ہے خواہ اس کی عقل کشمش کے دانے کے برابر ہو ، خواہ وہ صرف دوسروں کے مقالات کو کاپی پیسٹ کرکے خود کو محدث سمجھنے لگ جائے ۔


الله تعالیٰ قرآن و صحیح حدیث کہ سمجھنے میں ھماری مدد فرمائیں - آمین
آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
آمین​


آمین
اولا
جس طرح نہ آپ اپنے آپ کو یا اس بچہ کو اہل حدیث ثابت کرسکے اور قرطبی والے واقعہ میں کوئي شرکیہ بات نکال سکے وہاں بھی آپ کو صحیح حدیث سے جواب دیا گيا ، اسی طرح آپ کہیں بھی ثابت نہیں کرسکتے کہ احناف نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر امام کا قول اپنایا ہو
اگر آپ کا زعم صحیح ہے تو مجھے صرف ایک حنفی (عربی ہو یا عجمی ، موجودہ زمانہ میں ہو یا ماضی میں ) دکھادیں جس نے ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ کی بات پر عمل کیا اور کہیں بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے خلاف نہ چلا ہو

ثانیا
اختلاف اس میں نہیں اگر امام کا قول قرآن و حدیث کے خلاف معلوم ہو تو امام کا قول رد ہو گا یا نہیں بلاشبہ رد ہو گا ،
اختلاف اس میں ہے کہ اس کو کون رد کرسکتا ہے
۔ ہم کہتے ہیں کہ صرف وہ شخص جو اجتھادی صفات سے متصف ہے اگر وہ اپنے اجتھاد سے سمجھتا ہے کہ امام کا قول قران و حدیث سے مخالف ہے تو وہ امام کے قول پر نہیں چلے گا (کئی حنفی فقہاء نے بالکل ایسا ہی کیا ) اور
آپ کہتے ہیں کہ ہر شخص کو یہ اختیار ہے وہ صرف ترجمہ پڑھ کر مجتھدانہ استنباط کرسکتا ہے اور امام کے قول کو رد بھی کرسکتا ہے خواہ اس کی عقل کشمش کے دانے کے برابر ہو ، خواہ وہ صرف دوسروں کے مقالات کو کاپی پیسٹ کرکے خود کو محدث سمجھنے لگ جائے ۔



آمین


933907_492334390841590_641432980_n.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
كيا صف بندى پاؤں كے ساتھ ہو گى يا كندھوں سے

نماز ادا كرنے كے ليے ہمارى صف بندى پاؤں برابر كر كے ہو گى يا كہ كندھے برابر كر كے ؟

الحمد للہ:
صحيح يہ ہے كہ: صف بندى كندھوں اور پاؤں دونوں برابر كر كے ہو گى.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنى صفيں سيدھى كرو، كيونكہ ميں تمہيں پيچھے سے بھى ديكھتا ہوں"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 683 ).

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم ميں ہر ايك اپنا كندھا دوسرے كے كندھے اور پاؤں پاؤں كے ساتھ ملا كر ركھتا تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 683 ). اھـ
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے" كندھے كے ساتھ كندھا اور پاؤں كے ساتھ پاؤں ملانے كا باب " باندھا ہے، اور اس كے بعد كہتے ہيں: نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: ميں ديكھتا تھا كہ ہم ميں مرد اپنا كندھا اور ٹخنہ اپنے ساتھ والے كے كندھے اور ٹخنے سے ملاتا تھا. اھـ.

شيخ عبد العظيم آبادى نے " التعليق المغنى " ميں كہا ہے:
" ان احاديث ميں صف بندى اور برابر كى اہميت پر واضح دلالت پائى جاتى ہے، اور يہ كہ صف برابركرنا اتمام نماز ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ كہ كوئى بھى شخص كسى دوسرے سے آگے پيچھے نہ ہو، اور يہ كہ اپنا كندھا اور پاؤں اور گھٹنا اپنے ساتھ والے كے كندھے اور پاؤں اور گھٹنے سے ملا كر ركھے، ليكن آج يہ سنت ترك كى جا چكى ہے، اگر آپ ايسا كريں تو لوگ نيل گائے كى طرح بدك جاتے ہيں!! انا للہ وانا اليہ راجعون. اھـ
ديكھيں: عون المعبود ( 2 / 256 ).
المنكب بازو اور كندھے كو ملا كر كہتے ہيں.
الكعب: پاؤں كے دونوں طرف ابھرى ہوئى ہڈى كو كہتے ہيں.
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
عبادات ميں زبان سے نيت كرنے كا حكم!!!

كيا مسلمان عبادات كرتے وقت زبان سے نيت كرے مثلا ميں وضوء كى نيت كرتا ہوں، اور ميں نماز كى نيت كرتا ہوں اور ميں روزے كى نيت كرتا ہوں ؟

الحمد للہ:
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا نماز وغيرہ دوسرى عبادات شروع كرنا زبان سے نيت كى محتاج ہيں، مثلا كوئى كہے: ميں نے نماز كى نيت كى، اور ميں نے روزے ركھنے كى نيت كى ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:

الحمد للہ:
طہارت يعنى غسل يا وضوء يا تيمم اور نماز روزہ اور زكاۃ اور كفارات وغيرہ دوسرى عبادات ميں بالاتفاق انسان زبان سے نيت كرنے كا محتاج نہيں، بلكہ نيت دل سے ہوتى ہے اس پر سب آئمہ كا اتفاق ہے، اس ليے اگر اس نے اپنى زبان سے دل كے مخالف الفاظ نكالے تو اعتبار دل كا ہو گا نہ كہ جو اس نے زبان سے الفاظ نكالے ہيں.
اس ميں كسى نے بھى اختلاف نہيں كيا، ليكن متاخرين اصحاب شافعى رحمہ اللہ نے اس ميں ايك وجہ سے اسے كو غلط قرار ديا ہے، علماء كرام كا اس ميں تنازع ہے كہ آيا نيت كے الفاظ زبان سے ادا كرنے مستحب ہيں يا نہيں ؟
اس ميں دو قول پائے جاتے ہيں:

پہلا قول:
اصحاب ابو حنيفہ اور شافعى اور احمد زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كو مستحب كہتے ہيں كيونكہ يہ زيادہ تاكيدى ہے.

دوسرا قول:
اصحاب مالك اور احمد وغيرہ كہتے ہيں زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنےمستحب نہيں؛ كيونكہ يہ بدعت ہے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت نہيں ملتا، اور نہ ہى صحابہ كرام سے ايسا كرنا منقول ہے، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت ميں سے كسى كو زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كا حكم ديا ہے، اور نہ كسى مسلمان كو اس كى تعليم دى.
اگر يہ مشروع ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں سستى نہ كرتے، اور نہ ہى صحابہ كرام اس ميں اہمال سے كام ليتے، باوجود اس كے كہ امت كو اس كى ہر روز صبح و شام ضرورت تھى.
يہ دوسرا قول زيادہ صحيح ہے، بلكہ زبان سے نيت كى ادائيگى تو عقلى اور دينى دونوں طرح سے نقص معلوم ہوتا ہے دينى نقص اس ليے كہ يہ بدعت ہے، اور عقلى نقص اس طرح كہ يہ بالكل كھانے كھانے كى جگہ ہے جيسے كوئى كھانا چاہے تو كہے: ميں برتن ميں ہاتھ ڈالنے اور اس سے لقمہ لينے كى نيت كرتا ہوں اور وہ لقمہ اپنے منہ ميں ڈال كر چباؤنگا، پھر اسے نگل لونگا تا كہ پيٹ بھر سكوں، اگر كوئى ايسا كرے تو يہ حماقت اور جہالت ہے.
اس ليے كہ نيت علم كے تابع ہے، لہذا جب بندے كو اپنے فعل كا علم ہو جائے تو ضرورتا اس نے نيت كر لى، اس ليے علم كى موجودگى ميں نيت نہيں ہو سكتى، اور پھر علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ بلند آواز اور تكرار سے نيت كرنا مشروع نہيں ہے بلكہ جو ايسا كرنے كا عادى ہو اسے ادب سكھايا جائے اور ايسى سزا دى جائے جو عبادات ميں بدعت كى ايجاد ميں مانع ہو، اور بلند آواز كر كے لوگوں كو اذيت دينے سے باز ركھے.
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 1 / 214 - 215 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
آمین​


آمین
اولا
جس طرح نہ آپ اپنے آپ کو یا اس بچہ کو اہل حدیث ثابت کرسکے اور قرطبی والے واقعہ میں کوئي شرکیہ بات نکال سکے وہاں بھی آپ کو صحیح حدیث سے جواب دیا گيا ، اسی طرح آپ کہیں بھی ثابت نہیں کرسکتے کہ احناف نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر امام کا قول اپنایا ہو
اگر آپ کا زعم صحیح ہے تو مجھے صرف ایک حنفی (عربی ہو یا عجمی ، موجودہ زمانہ میں ہو یا ماضی میں ) دکھادیں جس نے ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ کی بات پر عمل کیا اور کہیں بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے خلاف نہ چلا ہو

ثانیا
اختلاف اس میں نہیں اگر امام کا قول قرآن و حدیث کے خلاف معلوم ہو تو امام کا قول رد ہو گا یا نہیں بلاشبہ رد ہو گا ،
اختلاف اس میں ہے کہ اس کو کون رد کرسکتا ہے
۔ ہم کہتے ہیں کہ صرف وہ شخص جو اجتھادی صفات سے متصف ہے اگر وہ اپنے اجتھاد سے سمجھتا ہے کہ امام کا قول قران و حدیث سے مخالف ہے تو وہ امام کے قول پر نہیں چلے گا (کئی حنفی فقہاء نے بالکل ایسا ہی کیا ) اور
آپ کہتے ہیں کہ ہر شخص کو یہ اختیار ہے وہ صرف ترجمہ پڑھ کر مجتھدانہ استنباط کرسکتا ہے اور امام کے قول کو رد بھی کرسکتا ہے خواہ اس کی عقل کشمش کے دانے کے برابر ہو ، خواہ وہ صرف دوسروں کے مقالات کو کاپی پیسٹ کرکے خود کو محدث سمجھنے لگ جائے ۔



آمین
تلمیذنے کہا ہے-
اسی طرح آپ کہیں بھی ثابت نہیں کرسکتے کہ احناف نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر امام کا قول اپنایا ہو

تلمیذ بھائی یہ جتنی بھی پوسٹ جو اوپر کی ہیں کیا آپ لوگوں نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر امام کا قول نہیں اپنایا


http://forum.mohaddis.com/threads/شان-صحانہ-رضی-اللہ-عنہ-ایک-ننھے-اھل-الحدیث-کے-منہ-سے.16441/page-5#post-121490

http://forum.mohaddis.com/threads/شان-صحانہ-رضی-اللہ-عنہ-ایک-ننھے-اھل-الحدیث-کے-منہ-سے.16441/page-5#post-121491


http://forum.mohaddis.com/threads/شان-صحانہ-رضی-اللہ-عنہ-ایک-ننھے-اھل-الحدیث-کے-منہ-سے.16441/page-5#post-121498

اور آپ ان سب پوسٹ کو غیر متعلق کہا ہیں کیا یہ سب غلط ہے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
تلمیذ بھائی مجھے آپ سے محبت ہے اس پوری پوسٹ کو پورا پڑھنا اور پھر فیصلہ کرنا کہ کل قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کو ھم کیا جواب دیں گیں کیا یہ تکبر نہیں :

اللہ تعالیٰ آپ کو حق سمجھنے کی توفیق دے - آمین




صحيح حديث كو رد كرنے والے كا حكم

كيا صحيح حديث رد كرنے والے كو كافر قرار ديا جائيگا ؟

ايك بھائى صحيح بخارى اور مسلم ميں وارد شدہ بعض احاديث كو اس حجت سے رد كرتے ہيں كہ يہ احاديث قرآن كے ساتھ متصادم اور معارض ہيں، صحيح حديث كو رد كرنے والے كا حكم كيا ہو گا، آيا اسے كافر كہا جائے ؟

الحمد للہ:
اول:
سنت نبويہ تشريع ميں دوسرا مصدر ہے، جس طرح قرآن مجيد جبريل امين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر لاتے تھے اسى طرح سنت بھى لاتے تھے، اس كا مصداق اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:
{ اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے }النجم ( 3 - 4 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام اور ان كى حديث اور حكم كو مكمل تسليم كرنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى قسم اٹھا كر كہا ہے كہ جس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام سنى اور پھر اسے قبول نہ كيا بلكہ رد كر ديا تو اس ميں ايمان كى رتى بھى نہيں ہے.
اللہ تعالى كا ارشاد ہے:
{ تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں }النساء ( 65 ).
اسى ليے اہل علم كے مابين اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بھى عمومى شكل ميں حجيت حديث كا انكار كيا، يا پھر اسے علم ہو كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہے اسے جھٹلا ديا تو وہ شخص كافر ہے، اس ميں ادنى سے درجہ كا اسلام اور اللہ اور اس كے رسول كے اطاعت نہيں.
امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے " انتہى
اور سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا " انتہى
ديكھيں: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 ).
اور علامہ ابن وزير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كا علم ہوتے ہوئے حديث كا انكار كرنا صريحا كفر ہے " انتہى
ديكھيں: العواصم والقواصم ( 2 / 274 ).
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى
ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى
ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 604 ) اور ( 13206 ) اور ( 77243 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
ليكن جو شخص حديث نبوى كو اس اعتبار سے نہيں مانتا اور رد كرتا ہے كہ يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث نہيں ہو سكتى تو يہ پہلى قسم كى طرح نہيں، ہم ديكھتے ہيں كہ " تنويرى " قسم كے نئے لوگ وہ ہيں جنہوں نے اپنى آراء اور توجھات كے ساتھ حديث پر حكم لگايا ہے، اور يہ بات كوئى نئى نہيں، بلكہ اپنے سے قبل بدعتيوں كا ہى ٹولہ ہے، جن كے متعلق اہل علم نے ان كے شبہات بيان كيے ہيں.
ان اور اس طرح كے لوگوں كو ہم كہينگے:
حديث رد كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث ہونے سے انكار كرنے سے قبل علمى منہج تقاضا كرتا ہے كہ اس پر غور كيا جائے ذيل ميں ہم اس كى شروط پيش كرتے ہيں:
پہلى شرط:
حديث ميں جو بيان ہوا ہے اور جو قرآن ميں وارد ہے اس ميں مكمل تناقض ہو اور يہ تناقض كسى واضح دلالت سے ثابت ہو جو منسوخ نہ ہو، يہاں ہم پھر " مكمل تناقض " كى قيد كى تاكيد كرتے ہيں، يہ تناقض صرف ظاہرى نہيں ہونا چاہے جو بادى النظر ميں جلدى سے ذہن ميں آئے.
اميد ہے جو لوگ انكار حديث كا سوچتے ہيں وہ بھى ہمارے ساتھ اس قيد ميں متفق ہونگے؛ كيونكہ اكثر لوگوں كے ذہن ميں آنے والے ظاہرى تعارض كى كوئى حقيقت نہيں، بلكہ يہ تو اعتراض كرنے والے كے ذہن ميں قائم ہوا ہے، اس كا جواب تامل اور غور كرنے اور لغت كى وجوہات تلاش كرنے اور اس كا اصول شريعت اور اس كے مقاصد كى موافقت كے ساتھ جواب ديا جا سكتا ہے.
جو كوئى بھى علامہ ابن قتيبہ الدينورى كى كتاب " مختلف الحديث " پر غور اور تامل كرے وہ اس بے تكى كى قدر معلوم كر سكتا ہے جو ان منكرين حديث نے بےتكى مارى ہيں كہ يہ قرآن كے موافق نہيں، يا پھر عقل اس كى تصديق نہيں كرتى.
پھر جب ابن قتبيہ اس كتاب ميں ان احاديث كى علماء كرام سے صحيح شرح بيان كرتے ہيں تو واضح ہوتا ہے كہ اس كى صحيح وجہ بھى ہے جو شريعت كے موافق ہے، اور قرآن كے تعارض والا تو صرف ايك فاسد قسم كا وہم ہى ہے.
ہم ان اور ان جيسے سنت كو رد كرنے كى جرات كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پر طعن كرنے والوں سے بغير كسى علمى منہج، يا مقبول تنقيدى اصول، اور بغير كسى علمى اصول كے فيصلے جس كى يہ بات اور بحث كرتے ہيں سے سوال كرتے ہيں:
كيا آپ يہ خيال كر سكتے ہيں كہ ناقد كو يقين ہو كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے نہيں اور يہ ممكن ہو كہ وہ مكمل طور پر قرآن كے ساتھ تعارض و تناقض ركھے، اس كے باوجود ہم ديكھيں كہ صحابہ كرام كے دور سے ليكر آج تك علماء اسلام اس حديث كو قبول اور اس كى شرح اور تفسير اور اس سے استدلال اور اس پر عمل كرنے پر متفق ہوں ؟!
كيا عقل سليم ـ جس كو يہ حاكم تسليم كرتے ہيں ـ يہى فيصلہ نہيں كرتى كہ اہل تخصص كے كسى امر پر فيصلے كا احترام كيا جائے جو اپنے فن اور تخصص ميں ماہر ہوں ؟!
كيا كوئى شخص مثلا كے طور فيزيا يا كيماء يا رياضى يا علوم تربيہ يا اقتصادى علوم كے ماہرين كو غلط كہنے كى جرات كرتا ہے جب وہ كسى ايك معاملہ پر سب متفق ہوں، خاص كر جب اس علم كے متخصصين ميں سے كوئى شخص بھى ان پر اعتراض كرنے والا نہ پايا جائے، بلكہ انتہائى طور پر يہى ہو گا كہ بعض نے اس كے متعلق كچھ كالم يا كوئى كتاب پڑھ لى جو علم كو بيان كرتى ہو يا پھر سب لوگوں كے علم كے ليے، كيا كوئى ايسى جرات كر سكتا ہے ؟!
دوسرى شرط:
اسناد ميں ضعف كا پايا جانا جو متن ميں وارد خطا كى متحمل ہو:
اور ہمارا خيال بھى ـ يہى ـ ہے كہ يہ شرط منہجى اور صحيح ہے، علمى نقد كے اصول كو تھوڑا سا بھى سمجھنے والے شخص كو اس كى مخالفت نہيں كرنى چاہيے، اور وہ يہ كہ متن كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہونے سے انكار كرنا يہ معنى ركھتا ہے كہ سند ميں ضعف كا پايا جانا ہى ہميں يہ وہم دلاتا ہے كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے ہے، حالانكہ يہ ـ بالفعل ـ ايسا نہيں.
امام شافعى رحمہ اللہ كون امام شافعى جو كہ علم و ايمان ميں ايك اونچا مرتبہ ركھتے ہيں، جنہوں نے علم اصول فقہ ميں پہلى كتاب تصنيف كى ان كا كہنا ہے:
" جب حديث كو ثقات راوى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كريں تو يہ اس كا ثبوت ہے "
ديكھيں: كتاب الام كے ضمن ميں اختلاف الحديث ( 10 / 107 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" صدق اور كذب حديث كا استدلال مخبر يعنى خبر دينے والے كے صدق پر ہوتا ہے، مگر قليل سى خاص حديث ميں "
ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1099 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" مسلمان عدول ہيں: وہ اپنے آپ ميں عدول اور صحيح الامر ہيں.... اور ان كا اپنے متعلق خبر دينے اور ان كا نام صحيح سلامتى پر ہے، حتى كہ ہم ان كے فعل اس كا استدلال كريں جو اس كى مخالفت كرتا ہو، تو ہم اس خاص خيال كريں جس ميں ان كے فعل نے اس كى مخالفت كى ہے جو ان پر واجب ہوتا تھا "
ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1029 - 1030 ) اور كتاب الام ( 8 / 518 - 519 ).
امام شافعى رحمہ اللہ اس موضوع كے متعلق كچھ علمى اصول بيان جو كہ ان كي مختلف كتب ميں بہت زيادہ بيان ہے كے بعد ہمارے ليے اپنا فيصلہ ذكر كرتے ہيں جس ميں كچھ ہم نے يہاں نقل كيا وہ فردى اجتھاد يا ان كا شخصى مذہب نہيں، بلكہ وہ ايسا اصول ہے جس پر اس سے قبل اہل علم بھى متفق اور جمع ہيں امام شافعى كہتے ہيں:
" ميں نے اپنى اس كتاب كے شروع ميں جو لكھا ہے اس كا عام معنى كتاب و سنت كا علم ركھنے والے، اور مختلف لوگوں اور قياس اور معقول كا علم ركھنے والے متقدم علماء ميں سے كئى ايك كے سامنے بيان كيا تو ان ميں سے كسى ايك نے بھى كسى ايك كى مخالفت نہ كى، اور ان كا كہنا تھا:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام، اور تابعين عظام اور تبع تابعين كا مذہب يہى ہے، اور ہمارا مذہب بھى يہى ہے؛ اس ليے جو بھى اس مذہب كو چھوڑے گا ہمارے نزديك وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور ان كے بعد آج تك كے اہل علم كى راہ چھوڑ رہا ہے، اور وہ جاہل لوگوں ميں شامل ہوتا ہے.
ان سب كا كہنا تھا: اس راہ كى مخالفت كرنے والے كو ہمارى رائے ميں سب اہل علم كے اجماع ميں جاہل قرار ديا گيا ہے الخ... "!!
ديكھيں: اختلاف الحديث ـ كتاب الام ـ ( 10 / 21 ) اور اسى طرح كى كلام آپ الرسالۃ فقرۃ ( 1236- 1239 ) ميں ديكھ سكتے ہيں.
اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب حديث كو رد كرنے والے شخص پر سب سے پہلے يہ واجب اور ضرورى ہے كہ وہ يہ تلاش كرے اور بيان كرے كہ اس كو بيان كرنے والے راويوں ميں سے كون ہے جس نے نقل كرنے ميں غلطى كى ہے، اور اگر رد كرنے والے كو سند ميں كوئى ايسا سبب نہ ملے جو اس حديث كے انكار ميں مقبول سبب بن سكتا ہو تو يہ اس كے منہج كى غلطى كى علامت ہے، اور پھر يہ اس كى بھى علامت ہے كہ اسے حديث اور قرآن كى فہم اور مقاصد شرعيۃ كى فہم كا مراجعہ كرنے كى ضرورت ہے.
اور پھر جب كوئى حديث زمين پر موجود سب سے صحيح ترين سند كے ساتھ موجود ہو، بلكہ وہ حديث بہت سارے طرق سے مروى ہوں ـ جيسا كہ اكثر وہ احاديث جنہيں تنويرى رد كرتے ہيں ـ اور صحابہ كرام كى ايك جماعت سے مروى ہوں انہيں رد كرنا كيسا ہو گا؟!
تيسرى شرط:
سارے معاملہ كو احتمال اجتھاد كى طرف منسوب كرنا، اور يقين و حسم اور مخالف پر مسلمانوں كى عقلوں ميں طعن و تہمت زنى ترك كرنا، يہ اس وقت ہے جب اس ميں كوئى ايسى وجہ ہو جو اس احتمال كو ركھتى ہو، اور اس سلسلہ ميں كلام كرنے والا اہليت بھى ركھتا ہو ـ ضرورى بحث كے لوازمات ـ تا كہ وہ اس كا ادراك كر سكے اور اس ميں بحث كرے، كسى معين علت كى بنا پر كسى ايك عالم كو حديث ضعيف لگتى ہے، ليكن جس نے حديث قبول كى وہ اس پر تہمت كى زبان استعمال نہ كرے.
لہذا جو شخص ان تين شروط كى مخالفت كرتا اور حديث كا انكار اور اس كى تكذيب كرنے پر اصرار كرتا ہے تو وہ خطرناك راہ پر ہے، كيونكہ كسى بھى مسلمان كے ليے بغير كسى شروط و ضوابط كے منہج ميں تاويل كرنا جائز نہيں، وگرنہ وہ گناہ اور حرج ميں پڑيگا.
امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كو رد كيا تو وہ ہلاكت كے كنارے پر ہے " انتہى
اور حسن بن على بربھارى كہتے ہيں:
" جب تم كسى شخص كو حديث و اثار ميں طعن كرتے سنو، يا پھر وہ آثار كو رد كرتا يا آثار يعنى احاديث كے علاوہ كچھ اور چاہتا ہو تو آپ اس كے اسلام ميں تہمت لگا سكتے ہيں، اور آپ اسے بلاشك و شبہ بدعتى اور صاحب ہوى و خواہشات سمجھ سكتے ہيں.
اور جب آپ سنيں كہ كسى شخص كے پاس حديث آتى ہے تو وہ حديث نہيں چاہتا بلكہ قرآن چاہتا ہے، تو آپ اس ميں شك نہ كريں كہ وہ زنديق ہے، آپ اس كے پاس سے اٹھ جائيں اور اسے چھوڑ ديں " انتہى
ديكھيں: شرح السنۃ ( 113 - 119 ) اختصار كے ساتھ.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے رب سے جو بيان كيا ہے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے ہم اس كا معنى جانتے ہوں يا نہ جانيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صادق المصدوق ہيں، اس ليے جو بھى كتاب و سنت ميں آيا ہے ہر مومن شخص كے ليے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے وہ اس كا معنى نہ بھى سمجھتا ہو " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 3 / 41 ).
مزيد آپ سوال نمبر (245 ) اور ( 9067 ) اور ( 20153 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تلمیذ بھائی مجھے آپ سے محبت ہے اس پوری پوسٹ کو پورا پڑھنا اور پھر فیصلہ کرنا کہ کل قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کو ھم کیا جواب دیں گیں کیا یہ تکبر نہیں :

اللہ تعالیٰ آپ کو حق سمجھنے کی توفیق دے - آمین
ہمارے محلے میں کافی عرصہ پہلے ایک فیملی کرائے کے مکان میں رہتی تھی ، ان کی ایک بیٹی جو سب سے چھوٹی غالبا 4 یا 5 سال کی تھی کچھ نفسیاتی تھی ۔ اس سے بات ہم اسکول کی پوچھتے تھے تو جواب میں اس نے جو کھانا رات کو کھایا ہوتا تھا اس کی تفصیل بتاتی تھی ، اگر اس کے بہن بھائیوں کے متعلق کچھ ہنسی مذاق میں کچھ دریافت کیا جاتا تو جواب میں اپنی ٹیچر کے متعلق کچھ بتادیتی
آپ سے گفتگو کرنے کے بعد نجانے مجھے وہ معصوم و ذھنی عدم توازن کا شکار بچی کیوں یاد آرہی ہے
آپ کے گفتگو کے دوران بھی کچھ یوں ہی ہوتا ہے موضوع کچھ ہوتا ہے اور آپ غیر متعلق امور کاپی پیسٹ کرنا شروع کردیتے ہیں

آپ نے یہاں ایک موضوع چھیڑا ہے کہ صف بندی کے دوران طریقہ کار کیا ہونا چاہئیے۔ ٹھیک ہے اسی موضوع پر بات کرلیتے ہیں اور آپ صرف اسی کے متعلق گفتگو کریں گے اور کوئی دوسرے موضوع نہ چھيڑیں گے اس تھریڈ کی حد ٹک نہ آپ سجدہ کے مسائل چھیڑیں گے نہ روزہ کے متعلق و علی ھذا القیاس
اگر کا پی پیسٹ بھی کریں گے تو صف بندی کے متعلق کریں گے ۔ اگر آپ یہ وعدہ کریں تو بات کو آگے بڑھالیتے ہیں اور دیکھ لیتے ہیں
جو مسئلہ آپ نے چھيڑا ہے اس میں حدیث پر عامل کون ہے غیر مقلد یا احناف
اگر اب بھی غیر متعلق جواب آیا تو پھر میری طرف سے کسی جواب کی امید نہ رکھیں
 
Top