بندہ نے یہ ویڈیو مکمل سنی ہے ،اس لئے چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ پہلی بات یہ کہ قاسمی صاحب کی گفتگو یہ کہتی ہے کہ ہر بندے کو اجتہاد کرنا چاہئیے جیسا کہ انہوں نے ایک شخص کی مثال دی کہ رات کو قبلہ رخ معلوم کرنے کے لئے اس شخص نے کیا ۔ اس لئے یہ بتائیں کہ مجتھد کسے کہتے ہیں ؟کیا ہر عامی کو اجتہاد کرنا چاہئیے؟اگر ہر آدمی کو اجتھاد کی اجازت دی جائے تو اس آیت کا کیا مطلب ہوا (فسئلو اہل الذکر ان کنتم لا یعلمون) اس آیت میں اہل ذکر سے کون لوگ مراد ہیں؟
دوسری بات یہ کہ قاسمی صاحب نے اپنی بات ثابت کرنے کے لئے ایک واقعہ نقل کیا امام مالک اور امام شافعی کا لیکن اسکا ماخذ ان دونوں اماموں کی کوئی کتاب نہیں بلکہ ایک تاریخی کتاب "البدایہ والنہایہ" سے۔ اس واقعی کی سند بمہ توثیق نقل کریں؟
اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے قاسمی صاحب نے امام مالک کے ذمہ ایک جھوٹ گڑھا کہ امام مالک نے کہا کہ جا تیری بیوی پر ایک طلاق ہوئی؟(اگر اسکی بیوی پر ایک طلاق ہوئی ہوتی تو اس شخص کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی)معلوم ہوا کہ طلاق تو تین ہی وقع ہوئی تھیں یہی امام مالک کا فتوی ہے۔دوسری بات اس وقعہ سے یہ ثابت ہوئی کہ خیر القرون کے فقہا بغیر دلیل کے فتوی دیا کرتے تھے اور لوگ اُن سے دلیل کا مطالبہ کئے بغیر اِن فتاوی پر عمل کرتے تھے۔
اب آتا ہوں اس دھاگہ کہ مین "ہیڈ لائن" کی طرف (شاگرد کا استاد سےعلمی اختلاف۔۔۔ تقلید کی دھجیاں اڑ گئیں) یہ سرخی لگا کر امام مالک سے امام شافعی کا اختلاف ذکر کیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ تقلید کی دھجیاں اُڑ گئیں؟ تقلید کی دھجیاں تو اُڑیں گی بعد میں پہلے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ "تقلید " دوسری صدی میں رائج تھی اور امام شافعی امام مالک کے مقلد تھے؟یہ دونوں باتیں مانے بغیر اس واقعہ سے تقلید کی دھجیاں کوئی نہیں اُڑا سکتا؟
اسے کہتے ہیں سو سُنار کی اور ایک لوہار کی
اس واقعہ میں امام مالک کی رائے کو امام شافعی نے حدیث سے ہر گز رد نہیں کیا بلکہ حدیث کے ایک لفظ سےقیاس کرتے ہوئے کہا کہ طلاق نہیں ہوئی۔ ماننا پڑے گا کہ خیر القرون میں فقہا قیاس کیا کرتے تھے اور لوگ اس قیاس پر عمل کیا کرتے تھے۔