• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شاگرد کا استاد سےعلمی اختلاف۔۔۔ تقلید کی دھجیاں اڑ گئیں۔۔ الحمدللہ

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جہاں دلائل سے علماء کرام کسی دوسرے موقف کو درست سمجھتے ہیں وہاں معتقدا للحقیۃ باقی نہیں رہتا۔ یوں کہہ لیں کہ وہاں اس مخصوص مسئلے میں تقلید نہیں کی جا رہی ہوتی اگر چہ اصول میں تقلید ابھجی بھی باقی ہو۔

ارے بھئی اسی تقلید کی تعریف ہی کا تو اختلاف ہے۔ تعریف کرتے وقت آپ کہتے ہیں کہ دلیل نہ دیکھو۔ اور تشریح کرتے وقت کہتے ہیں کہ دلیل دیکھیں گے۔ اب درج بالا بات کا مطلب یہ ہوا کہ امام صاحب کے ہر ہر قول کو دلیل کی روشنی میں پرکھا جائے جہاں یہ علمائے کرام کسی دوسرے مؤقف کو درست سمجھیں وہاں معتقد اللحقیۃ ختم ، ورنہ امام صاحب کا مؤقف درست۔ اوپر سے آپ تقلید کی تعریف کو بھی جامع قرار دینے پر مصر ہیں۔ مجھے شاید سمجھانا نہیں آتا یا آپ سمجھنا نہیں چاہتے۔ اور وضاحت کی کوشش میں مزید بات الجھاتے جاتے ہیں۔

اصطلاح میں اس کو سیدھے سادے الفاظ میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قید اتفاقی ہے۔ تعریفات میں قیود اتفاقیہ لگائی جاتی ہیں یہ آپ کو بھی معلوم ہوگا۔ تو یہ قید اتفاقی ہے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ طحاوی سے لے کر تقی عثمانی تک اور مزنی سے لے کر ابن حجر مکی تک سب کو مقلد کہا جاتا ہے حالانکہ یہ دلائل میں نظر کرتے تھے۔
قید اتفاقی کا مطلب یہ ہوا کہ امام کے ہر ہر قول کو دلیل پر جانچ پرکھ کر بھی عمل کیا جائے تب بھی تقلید سے خارج نہ ہوگا، درست؟
تو بھئی پھر یہ بتا دیجئے کہ بندہ تقلید سے خارج کس صورت میں ہوگا، تاکہ اختلاف کی اصل نوعیت تو واضح ہو۔
میرا گمان ہے کہ عقیدہ میں تقلید کے آپ قائل نہیں۔ اب فروع میں بھی آپ دلیل کے ساتھ تقلید کرنا چاہتے ہیں اور اس کی "ضرورت" بھی محسوس کرتے ہیں، کہ دلیل سے جانچ پرکھ کی جائے، بلکہ آپ پہلے کہیں کہہ چکے ہیں کہ آپ دلیل کی بنا پر احناف سے اختلاف بھی کرتے ہیں، تو ذرا بتائیے کہ آپ کیونکر مقلد ہی ٹھہریں گے اور ہم ہر ایک کے قول کو دلیل پر پرکھیں تو کیوں غیرمقلد کہلائیں؟

اس طرح تو میں نے اگر علم اصول حدیث اور فن جرح و تعدیل کے اختلافات بیان کیے تو آپ ان کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے؟
اصول حدیث اور فن جرح و تعدیل کے اختلافات کو آپ ان لوگوں پر بطور مثال و حجت پیش کر سکتے ہیں جو کسی ایک محدث کے حدیث پر یا راوی پر لگائے گئے ہر ہر حکم کو بلا دلیل مان لینے کو جائز و درست بلکہ عین مطلوب شریعت قرار دیتے ہوں۔ فتدبر!


لہٰذا بات وہیں کی وہیں رہی۔ آپ کی پیش کردہ تقلید کی تعریف کو جامع مان لیا جائے تو یہ بات طے ہے کہ کسی ایک شخص کی تمام باتیں بلا دلیل ماننے سے حق کے ساتھ باطل کی آمیزش ہونی ہی ہونی ہے۔ اور اس کا ثبوت ہم نے حلالہ والے دھاگے میں بھی دیکھا کہ آپ ایک جانب حلالہ کو حرام فعل بھی گردانتے ہیں اور دوسری طرف حلالہ کی جانب رہنمائی کرنے والے مفتیان کرام کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ یہی تقلید کا ناگزیر نتیجہ ہے ۔ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر یہ بتائیے کہ:
1۔ اگر آپ ایک شخص کی تمام باتوں کو کتاب و سنت کا عین سمجھتے ہوں۔
2۔ اور اس کے اقوال کی جانچ پرکھ بھی نہ کرتے ہوں۔
3۔ کبھی کبھار "ضرورت" پڑنے پر دلیل دیکھنی پڑ جائے۔
4۔ تو کیا یہ نفس کا عین تقاضا نہیں کہ اپنے امام کے حق میں رائی برابر دلیل بھی پہاڑ جیسی لگتی ہے؟ اور خصوصا ایسی شخصیت کے حق میں جس کی تعریف میں اپنے پرائے سب رطب اللسان ہوں؟
5۔ اور مخالف کی پہاڑ برابر دلیل بھی ہو تو اس کی تاویل کی فکر ہوگی؟ جیسا کہ اشرف علی تھانوی صاحب مرحوم نے بھی تسلیم کیا ۔

۔۔۔
اس طرز عمل کے بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوتا۔ کہ آپ کے "علمائے کرام" ، بوجہ ضرورت دلیل دیکھنے کے بجائے، ہر ہر معاملے میں دلیل دیکھتے؟
اور فقط ایک امام کے اقوال کو بلا دلیل حرز جان بنانتے ہوئے ان کے نام پر فرقہ بندی کے بجائے، امت کے جمیع یا کثیر علمائے کرام کے اقوال کو دیکھتے اور پھر درست و غلط کا فیصلہ کرتے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
@راجا بھائی میرا یہ خیال ہے کہ یہ بحث اس نقطے پر ہی اٹکی رہے گی اور اس سے آگے نہیں بڑھے گی۔
کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ شیخ کفایت اللہ نے تقلید کی جو تفصیل بیان کی ہے آپ اسے ملاحظہ فرما لیں؟

http://forum.mohaddis.com/threads/اہل-علم-کی-تقلید-کیوں-کی-جائے؟.15572/#post-115974

اسی طرح ایک نظر البانیؒ کے اس قول پر بھی ڈال لیں۔
http://forum.mohaddis.com/threads/حدیث-کی-تصحیح-وتضعیف-میں-اختلاف-،-عام-آدمی-کیا-کرے-؟؟.8968/
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
@راجا بھائی میرا یہ خیال ہے کہ یہ بحث اس نقطے پر ہی اٹکی رہے گی اور اس سے آگے نہیں بڑھے گی۔
کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ شیخ کفایت اللہ نے تقلید کی جو تفصیل بیان کی ہے آپ اسے ملاحظہ فرما لیں؟

http://forum.mohaddis.com/threads/اہل-علم-کی-تقلید-کیوں-کی-جائے؟.15572/#post-115974

اسی طرح ایک نظر البانیؒ کے اس قول پر بھی ڈال لیں۔
http://forum.mohaddis.com/threads/حدیث-کی-تصحیح-وتضعیف-میں-اختلاف-،-عام-آدمی-کیا-کرے-؟؟.8968/
ٹھیک ہے۔
آپ بھی ایک نظر اس فتویٰ پر ڈال لیجئے:

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=37856&limit=3&idxpg=0&qry=%3Cc%3EPAD%3C%2Fc%3E%3Cs%3EFAE%3C%2Fs%3E%3Cl%3Eur%3C%2Fl%3E

Question: 37856
فتوی(ب) 325=268-3/1433 جمعہ کا خطبہ صرف عربی زبان میں دینا مسنون ہے، عربی اور اردو دونوں زبانوں میں دینا مکروہ ہے، اور سنت کے خلاف ہے۔ اور خطبہ سے پہلے وعظ ممبر سے ہٹ کر کرسی پر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر کرنا چاہیے۔ میں سوال میں دلیل مانگا تھا مگر قرآن و حدیث کیعلاوہ اجماع و قیاس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے کیوں کہ مجھ سیپوچھنے والوں نیپوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی ممبر کے نیچے نصیحت یا بیان نہیں کی ہے اور جمعہ کا خطبہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے دیا جاتا ہے اور لوگوں کو عربی نہیں آتی، اس لیَے اردو میں سمجھاتے ہیں۔ اور اگر باالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم تامل ناڈو میں بھیجے جاتے تو آپ کی زبان تامل ہوتی کیوں کہ نبی قوم کی زبان میں بھیجا جاتا ہے۔ دوسری بات ممبر کے نیچے ایک نیا کام ہے اور دین میں نئی چیز ایجاد کرنا بد عت ہے ؟
Mar 27,2012
Answer: 37856
فتوی: 565-476/B=5/1433

جس قدر عربی میں کتب فتاویٰ متداول ہیں، ان میں کہیں دلائل نہیں لکھے ہوئے ہیں، نہ ہی ہم مقلدین کے لیے دلائل کی ضرورت ہے، دلائل تو مجتہد کے لیے درکار ہوتے ہیں، ہم تو مجتہد نہیں نہ ہی مفتی ہیں بلکہ ناقل فتاویٰ کی حیثیت رکھتے ہیں، مجازا لوگ ہمیں مفتی کہہ دیتے ہیں، مفتی تو درحقیقت مجتہد کو کہتے ہیں اور مجتہد چوتھی صدی ہجری میں ناپید ہوگئے، آج ایک ہزار برس سے کوئی مجتہد دنیا میں پیدا نہیں ہوا، جس میں تمام شرائطِ اجتہاد پائے جاتے ہوں، اس لیے ہم نے دلائل نہیں لکھے۔ کتاب الحجة اور مستدرک حاکم میں حدیث موجود ہے کہ حضرت تمیم داری خطبہ سے پہلے کچھ احادیث بیان فرماتے تھے، اسی طرح حضرت ابوہریرہ بھی بیان فرماتے تھے، اس کے بعد حضرت عمر فاروق خطبہ کے لیے ممبر پر تشریف لاتے تھے، کسی صحابی نے حتی کہ حضرت عمر نے بھی اس پر نکیر نہ فرمائی۔
جمعہ کا خطبہ صرف لوگوں کو سمجھانے کے لیے وعظ ونصیحت نہیں ، اگر یہی بات ہے تو قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تذکرہ، ذکریٰ، ہدیً للعالمین وغیرہ فرمایا ہے، یعنی قرآن لوگوں کے لیے نصیحت وہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے، لہٰذا اسے بھی اُردو میں یا ہرمقام میں وہاں کی زبان میں پڑھنا چاہیے، نماز میں ا لحمد للہ رب العالمین پڑھنے کے بجائے ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو سارے جہان کا پالنے والا ہے کہنا چاہیے۔ آپ جیسے مجتہد کی بات تسلیم کی جائے تو دین کا بیڑا غرق ہوجائے۔ اگر خطبہ سے پہلے ممبر کے نیچے یا اس سے ہٹ کر وعظ ونصیحت کرنا آپ کو نیا کام اور بدعت معلوم ہوتا ہے تو آپ کو ہم کب مجبور کررہے ہیں، آپ وعظ ونصیحت بند کردیں۔ خطبہ شرائط جمعہ میں سے ہے۔ جمعہ کا جز اور عبادت ہے، خطبہ میں باوضو ہونا اللہ کی حمدوثنا کرنا اسلام کی سرکاری زبان یعنی عربی میں دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام سے لے کر اب تک سنت متوارثہ چلی آرہی ہے، صحابہٴ کرام نے بہت سے ممالک فتح کیے وہاں کی زبان سیکھیں مگر پھر بھی جمعہ کا خطبہ عربی زبان ہی میں دیا۔ یہ ساری چیزیں دلیل ہیں جو عمل کرنے والے کے لیے کافی ہیں۔ اور اعتراض برائے اعتراض کرنے والوں کے لیے تو تمام دلائل بے سود ہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


آپ فرمائیے درج بالا طرز عمل محمود و مقصود ہےیا مذموم؟
آپ ہمارے شوق تردید میں یہ بھول جاتے ہیں کہ دلائل اور اندھی تقلید کے لحاظ سے اصل حقائق بدلے نہیں ہیں۔ آپ کا اپنا طرز عمل بے شک دوسروں سے مختلف ہوگا۔ لیکن یہ حضرات ابھی تک اندھی تقلید کے اسی جبر میں خود بھی مبتلا ہیں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہیں۔ ارے بھئی، مان لیا کہ دلیل کے بغیر بھی علماء کی پیروی کر لیں تو عامی کے لئے کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ کیا کہ کوئی دلیل مانگے بھی تو نہ دی جائے۔ اور بلکہ دلیل کی کھوج لگانے والوں کو برا بھلا کہا جائے، ان پر مجتہد کی پھبتی کسی جائے۔۔کیا یہ دلیل مانگ لینا اتنا ہی بڑا جرم ہے ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ٹھیک ہے۔
آپ بھی ایک نظر اس فتویٰ پر ڈال لیجئے:

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=37856&limit=3&idxpg=0&qry=%3Cc%3EPAD%3C%2Fc%3E%3Cs%3EFAE%3C%2Fs%3E%3Cl%3Eur%3C%2Fl%3E

Question: 37856
فتوی(ب) 325=268-3/1433 جمعہ کا خطبہ صرف عربی زبان میں دینا مسنون ہے، عربی اور اردو دونوں زبانوں میں دینا مکروہ ہے، اور سنت کے خلاف ہے۔ اور خطبہ سے پہلے وعظ ممبر سے ہٹ کر کرسی پر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر کرنا چاہیے۔ میں سوال میں دلیل مانگا تھا مگر قرآن و حدیث کیعلاوہ اجماع و قیاس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے کیوں کہ مجھ سیپوچھنے والوں نیپوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی ممبر کے نیچے نصیحت یا بیان نہیں کی ہے اور جمعہ کا خطبہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے دیا جاتا ہے اور لوگوں کو عربی نہیں آتی، اس لیَے اردو میں سمجھاتے ہیں۔ اور اگر باالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم تامل ناڈو میں بھیجے جاتے تو آپ کی زبان تامل ہوتی کیوں کہ نبی قوم کی زبان میں بھیجا جاتا ہے۔ دوسری بات ممبر کے نیچے ایک نیا کام ہے اور دین میں نئی چیز ایجاد کرنا بد عت ہے ؟
Mar 27,2012
Answer: 37856
فتوی: 565-476/B=5/1433

جس قدر عربی میں کتب فتاویٰ متداول ہیں، ان میں کہیں دلائل نہیں لکھے ہوئے ہیں، نہ ہی ہم مقلدین کے لیے دلائل کی ضرورت ہے، دلائل تو مجتہد کے لیے درکار ہوتے ہیں، ہم تو مجتہد نہیں نہ ہی مفتی ہیں بلکہ ناقل فتاویٰ کی حیثیت رکھتے ہیں، مجازا لوگ ہمیں مفتی کہہ دیتے ہیں، مفتی تو درحقیقت مجتہد کو کہتے ہیں اور مجتہد چوتھی صدی ہجری میں ناپید ہوگئے، آج ایک ہزار برس سے کوئی مجتہد دنیا میں پیدا نہیں ہوا، جس میں تمام شرائطِ اجتہاد پائے جاتے ہوں، اس لیے ہم نے دلائل نہیں لکھے۔ کتاب الحجة اور مستدرک حاکم میں حدیث موجود ہے کہ حضرت تمیم داری خطبہ سے پہلے کچھ احادیث بیان فرماتے تھے، اسی طرح حضرت ابوہریرہ بھی بیان فرماتے تھے، اس کے بعد حضرت عمر فاروق خطبہ کے لیے ممبر پر تشریف لاتے تھے، کسی صحابی نے حتی کہ حضرت عمر نے بھی اس پر نکیر نہ فرمائی۔
جمعہ کا خطبہ صرف لوگوں کو سمجھانے کے لیے وعظ ونصیحت نہیں ، اگر یہی بات ہے تو قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تذکرہ، ذکریٰ، ہدیً للعالمین وغیرہ فرمایا ہے، یعنی قرآن لوگوں کے لیے نصیحت وہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے، لہٰذا اسے بھی اُردو میں یا ہرمقام میں وہاں کی زبان میں پڑھنا چاہیے، نماز میں ا لحمد للہ رب العالمین پڑھنے کے بجائے ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو سارے جہان کا پالنے والا ہے کہنا چاہیے۔ آپ جیسے مجتہد کی بات تسلیم کی جائے تو دین کا بیڑا غرق ہوجائے۔ اگر خطبہ سے پہلے ممبر کے نیچے یا اس سے ہٹ کر وعظ ونصیحت کرنا آپ کو نیا کام اور بدعت معلوم ہوتا ہے تو آپ کو ہم کب مجبور کررہے ہیں، آپ وعظ ونصیحت بند کردیں۔ خطبہ شرائط جمعہ میں سے ہے۔ جمعہ کا جز اور عبادت ہے، خطبہ میں باوضو ہونا اللہ کی حمدوثنا کرنا اسلام کی سرکاری زبان یعنی عربی میں دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام سے لے کر اب تک سنت متوارثہ چلی آرہی ہے، صحابہٴ کرام نے بہت سے ممالک فتح کیے وہاں کی زبان سیکھیں مگر پھر بھی جمعہ کا خطبہ عربی زبان ہی میں دیا۔ یہ ساری چیزیں دلیل ہیں جو عمل کرنے والے کے لیے کافی ہیں۔ اور اعتراض برائے اعتراض کرنے والوں کے لیے تو تمام دلائل بے سود ہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


آپ فرمائیے درج بالا طرز عمل محمود و مقصود ہےیا مذموم؟
آپ ہمارے شوق تردید میں یہ بھول جاتے ہیں کہ دلائل اور اندھی تقلید کے لحاظ سے اصل حقائق بدلے نہیں ہیں۔ آپ کا اپنا طرز عمل بے شک دوسروں سے مختلف ہوگا۔ لیکن یہ حضرات ابھی تک اندھی تقلید کے اسی جبر میں خود بھی مبتلا ہیں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہیں۔ ارے بھئی، مان لیا کہ دلیل کے بغیر بھی علماء کی پیروی کر لیں تو عامی کے لئے کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ کیا کہ کوئی دلیل مانگے بھی تو نہ دی جائے۔ اور بلکہ دلیل کی کھوج لگانے والوں کو برا بھلا کہا جائے، ان پر مجتہد کی پھبتی کسی جائے۔۔کیا یہ دلیل مانگ لینا اتنا ہی بڑا جرم ہے ؟
محترم بھائی
ہر مسلک میں کچھ علماء متشدد یا غالی یا سطحی نظر رکھنے والے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ علماء پورے مسلک کی نمائندگی نہیں کرتے۔ جس طرح اہل حدیث میں بعض علماء متشدد ہوتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے پوری جماعت اہل حدیث کو متشدد نہیں کہا جا سکتا۔
اسی طرح غالبا یہ مفتی صاحب بھی ہیں۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس قسم کا جواب کسی خاص بندے کی حالت کو دیکھتے ہوئے بھی دیا جاتا ہے۔ جیسے امام احمد نےتقلید سے منع کیا ہے اور ابن تیمیہؒ نے وضاحت کی ہے کہ یہ قول علماء کے لیے ہے۔ ان کو کہا گیا ہے۔

اسی کے مقابلے میں آپ یہ سوال بمع مطالبہ دلیل لکھ کر دارالعلوم کراچی یا جامعۃ الرشید بھیج دیں۔ آپ کو وہ ان شاء اللہ ہر ممکن تفصیل کے ساتھ جواب دیں گے۔
 
Top