جہاں دلائل سے علماء کرام کسی دوسرے موقف کو درست سمجھتے ہیں وہاں معتقدا للحقیۃ باقی نہیں رہتا۔ یوں کہہ لیں کہ وہاں اس مخصوص مسئلے میں تقلید نہیں کی جا رہی ہوتی اگر چہ اصول میں تقلید ابھجی بھی باقی ہو۔
ارے بھئی اسی تقلید کی تعریف ہی کا تو اختلاف ہے۔ تعریف کرتے وقت آپ کہتے ہیں کہ دلیل نہ دیکھو۔ اور تشریح کرتے وقت کہتے ہیں کہ دلیل دیکھیں گے۔ اب درج بالا بات کا مطلب یہ ہوا کہ امام صاحب کے ہر ہر قول کو دلیل کی روشنی میں پرکھا جائے جہاں یہ علمائے کرام کسی دوسرے مؤقف کو درست سمجھیں وہاں معتقد اللحقیۃ ختم ، ورنہ امام صاحب کا مؤقف درست۔ اوپر سے آپ تقلید کی تعریف کو بھی جامع قرار دینے پر مصر ہیں۔ مجھے شاید سمجھانا نہیں آتا یا آپ سمجھنا نہیں چاہتے۔ اور وضاحت کی کوشش میں مزید بات الجھاتے جاتے ہیں۔
قید اتفاقی کا مطلب یہ ہوا کہ امام کے ہر ہر قول کو دلیل پر جانچ پرکھ کر بھی عمل کیا جائے تب بھی تقلید سے خارج نہ ہوگا، درست؟اصطلاح میں اس کو سیدھے سادے الفاظ میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قید اتفاقی ہے۔ تعریفات میں قیود اتفاقیہ لگائی جاتی ہیں یہ آپ کو بھی معلوم ہوگا۔ تو یہ قید اتفاقی ہے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ طحاوی سے لے کر تقی عثمانی تک اور مزنی سے لے کر ابن حجر مکی تک سب کو مقلد کہا جاتا ہے حالانکہ یہ دلائل میں نظر کرتے تھے۔
تو بھئی پھر یہ بتا دیجئے کہ بندہ تقلید سے خارج کس صورت میں ہوگا، تاکہ اختلاف کی اصل نوعیت تو واضح ہو۔
میرا گمان ہے کہ عقیدہ میں تقلید کے آپ قائل نہیں۔ اب فروع میں بھی آپ دلیل کے ساتھ تقلید کرنا چاہتے ہیں اور اس کی "ضرورت" بھی محسوس کرتے ہیں، کہ دلیل سے جانچ پرکھ کی جائے، بلکہ آپ پہلے کہیں کہہ چکے ہیں کہ آپ دلیل کی بنا پر احناف سے اختلاف بھی کرتے ہیں، تو ذرا بتائیے کہ آپ کیونکر مقلد ہی ٹھہریں گے اور ہم ہر ایک کے قول کو دلیل پر پرکھیں تو کیوں غیرمقلد کہلائیں؟
اصول حدیث اور فن جرح و تعدیل کے اختلافات کو آپ ان لوگوں پر بطور مثال و حجت پیش کر سکتے ہیں جو کسی ایک محدث کے حدیث پر یا راوی پر لگائے گئے ہر ہر حکم کو بلا دلیل مان لینے کو جائز و درست بلکہ عین مطلوب شریعت قرار دیتے ہوں۔ فتدبر!اس طرح تو میں نے اگر علم اصول حدیث اور فن جرح و تعدیل کے اختلافات بیان کیے تو آپ ان کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے؟
لہٰذا بات وہیں کی وہیں رہی۔ آپ کی پیش کردہ تقلید کی تعریف کو جامع مان لیا جائے تو یہ بات طے ہے کہ کسی ایک شخص کی تمام باتیں بلا دلیل ماننے سے حق کے ساتھ باطل کی آمیزش ہونی ہی ہونی ہے۔ اور اس کا ثبوت ہم نے حلالہ والے دھاگے میں بھی دیکھا کہ آپ ایک جانب حلالہ کو حرام فعل بھی گردانتے ہیں اور دوسری طرف حلالہ کی جانب رہنمائی کرنے والے مفتیان کرام کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ یہی تقلید کا ناگزیر نتیجہ ہے ۔ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر یہ بتائیے کہ:
1۔ اگر آپ ایک شخص کی تمام باتوں کو کتاب و سنت کا عین سمجھتے ہوں۔
2۔ اور اس کے اقوال کی جانچ پرکھ بھی نہ کرتے ہوں۔
3۔ کبھی کبھار "ضرورت" پڑنے پر دلیل دیکھنی پڑ جائے۔
4۔ تو کیا یہ نفس کا عین تقاضا نہیں کہ اپنے امام کے حق میں رائی برابر دلیل بھی پہاڑ جیسی لگتی ہے؟ اور خصوصا ایسی شخصیت کے حق میں جس کی تعریف میں اپنے پرائے سب رطب اللسان ہوں؟
5۔ اور مخالف کی پہاڑ برابر دلیل بھی ہو تو اس کی تاویل کی فکر ہوگی؟ جیسا کہ اشرف علی تھانوی صاحب مرحوم نے بھی تسلیم کیا ۔
۔۔۔
اس طرز عمل کے بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوتا۔ کہ آپ کے "علمائے کرام" ، بوجہ ضرورت دلیل دیکھنے کے بجائے، ہر ہر معاملے میں دلیل دیکھتے؟
اور فقط ایک امام کے اقوال کو بلا دلیل حرز جان بنانتے ہوئے ان کے نام پر فرقہ بندی کے بجائے، امت کے جمیع یا کثیر علمائے کرام کے اقوال کو دیکھتے اور پھر درست و غلط کا فیصلہ کرتے؟