اس کے بعد اہل تاویل کا ذکر کرتے ہیں :
چہ دلاورست دزدے کہ بکف چراغ دارد
چور کیسا دلیر ہے کہ ہاتھ میں چراغ لیے ہوئے ہے
آپ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ اہل تاویل دراصل وہابیہ ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفت
استواءکی تاویلات بیان کرتے پھرتے ہیںً جبکہ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ
میں یہ کہتا ہوں کہ شنوائی ، بینائی ،قدرت، ضحک ،کلام استواء میں کوئی فرق نہیں اہل زبان کی نظر میں ان تمام اوصاف کے وہی معنی و مفہم ہوتے ہیں جو خدا کی بارگاہ اقدس کے لائق نہیں
امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں فرماتے ہیں کہ
کنا عند مالک بن انس فجاء رجل فقال یا ابا عبدا ﷲ الرحمن علی العرش استوی فکیف استوٰی ؟ قال فاطرق مالک راسہ حتی علاہ الرحضاء ثم قال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب، والمسؤل عنہ بد عۃ ، وما اراک الامبتدعا فامربہ ان یخرج ۔۳
ہم
امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی اے ابوعبداللہ! رحمن نے عرش پر استواء فرمایا یہ استواء کس طرح ہے؟ اس کے سنتے ہی امام نے سر مبارک جھکالیا یہاں تک کہ بدن مقدس پسینہ پسینہ ہوگیا، پھر فرمایا :
استواء مجہول نہیں اور کیفیت معقول نہیں اور اس پر ایمان فرض اور اس سے استفسار بدعت اور میرے خیال میں تو ضرور بدمذہب ہے، پھر حکم دیا کہ اسے نکال دو۔
(۳ ؎ کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۰ و ا۱۵)
فتویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 133
یہاں امام ما لک فرمارہے کہ استواء مجہول ہے اور کیفیت معقول نہیں اور اس پرایمان لانا فرض ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا یا پوچھنا بدعت ہے اور جو ایسا کرتا ہے وہ بد مذہب لیکن وہابیہ اس کا معنی بیان کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ "یہ استواء کس طرح کا ہے؟"
اب خود ہی غور فرمالیں کہ شاہ صاحب جو کہ امام مالک کی فضیلت کے قائل ہیں وہ امام ما لک کے ان اقوال سے رو گردانی کیوں کریں گے اور حقیقتا یہ عبارت شاہ صاحب نے وبابیہ کے اس عقیدے کے خلاف لکھی ہے کہ نعوذباللہ وہابیہ اللہ کی صفت ا ستواء کا معنی اردو میں قائم ہونا یا چڑھنا بیان کرتے ہیں جبکہ امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں فرماتے ہیں کہ
الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا رضی اللہ تعالٰی عنہم کانو الا یفسرونہ ولا یتکلمون فیہ کنحومذھبہم فی امثال ذٰلک ۔۱
۱ہمارے اصحاب متقدمین رضی اللہ تعالٰی عنہم استواء کے کچھ معنی نہ کہتے تھے نہ اس میں اصلاً زبان کھولتے جس طرح تمام صفات متشابہات میں اُن کا یہی مذہب ہے۔
( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی ، المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۰)
اُسی میں بطریق امام احمد بن ابی الحواری امام سفٰین بن عیینہ سے روایت کی کہ فرماتے:
ماوصف اﷲ تعالٰی من نفسہ فی کتابہ فتفسیرہ تلاوتہ والسکوت علیہ ۔۲
۲یعنی اس قسم کی جتنی صفات اﷲ عزوجل نے قرآن عظیم میں اپنے لیے بیان فرمائی ہیں ان کی تفسیر یہی ہے کہ تلاوت کیجئے اور خاموش رہیے۔
( ۲ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش ۲/ ۱۵۱ وباب ماذکر فی یمین والکف ۲/ ۱۵۱
بطریق اسحق بن موسٰی انصاری زائد کیا:
لیس لاحدان یفسرہ بالعربیۃ و لابالفارسیۃ ۔۳
کسی کو جائز نہیں کہ عربی میں خواہ فارسی کسی زبان میں اس کے معنی کہے۔
( ۳ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی اثبات العین المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۴۲)
اُسی میں حاکم سے روایت کی انہوں نے امام ابوبکر احمد بن اسحق بن ایوب کا عقائد نامہ دکھایا جس میں مذہب اہلسنت مندرجہ تھا اس میں لکھا ہے:
الرحمن علی العرش استوی بلاکیف ۴ ؎
رحمن کا استواء بیچون و بیچگون ہے۔
(۴ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش استوٰی المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۲)
(۱۱) اسی میں ہے :
والاثار عن السلف فی مثل ھذاکثیرۃ وعلٰی ھذہ الطریقۃ یدل مذہب الشافعی رضی اللہ تعالی عنہ والیہاذھب احمد بن حنبل والحسین بن الفضل البلخی ومن المتاخرین ابوسلیمن الخطابی ۔۱
یعنی اس باب میں سلف صالح سے روایات بکثرت ہیں اور اس طریقہ سکوت پر ایمان شافعی کا مذہب دلالت کرتا ہے اور یہی مسلک امام احمد بن حنبل و امام حسین بن فضل بلخی اور متاخرین سے امام ابوسلیمن خطابی کا ہے۔
( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۲)
امام ابوالقاسم لالکائی کتاب السنہ میں سیدنا امام محمد سردار مذہب حنفی تلمیذ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ فرماتے:
اتفق الفقہاء کلھم من المشرق الی المغرب علی الایمان بالقرآن و بالاحادیث التی جاء بہا الثقات عن رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی صفۃ الرب من غیر تشبیہ ولا تفسیر فمن فسر شیئا من ذلک فقد خرج عما کان علیہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و فارق الجماعۃ فانہم لم یصفوا ولم یفسرواولکن اٰمنوا بما فی الکتاب والسنۃ ثم سکتوا ۔۲
شرق سے غرب تک تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے کہ آیات قرآن عظیم و احادیث صحیحہ میں جو صفاتِ الہیہ آئیں ان پر ایمان لائیں بلاتشبیہ و بلا تفسیر تو جو ان میں سے کسی کے معنی بیان کرے وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے طریقے سے خارج اور جماعتِ علماء سے جدا ہوا اس لیے کہ ائمہ نے نہ ان صفات کا کچھ حال بیان فرمایا نہ اُن کے معنی کہے بلکہ قرآن و حدیث پر ایمان لا کر چپ رہے۔
( ۲ ؎ کتاب السنۃ امام ابوالقاسم لالکائی)
طرفہ یہ کہ امام محمد کے اس ارشاد و ذکر اجماع ائمہ امجاد کو خود ذہبی نے بھی کتاب العلو میں نقل کیا اور کہا محمد سے یہ اجماع لالکائی اور ابو محمد بن قدامہ نے اپنی کتابوں میں روایت کیا بلکہ خود ابن تیمیہ مخذول بھی اُسے نقل کرگیا۔و
ﷲ الحمد ولہ الحجۃ السامیۃ ( حمد ﷲ تعالٰی کے لیے ہے اور غالب حجت اسی کی ہے۔
نیز مدارک میں زیر سورہ طٰہٰ ہے:
والمذھب قول علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ الاستواء غیر مجہول والتکیف غیر معقول والایمان بہ واجب والسوال عنہ بدعۃ لانہ تعالٰی کان ولا مکان فھو علی ما کان قبل خلق المکان لم یتغیر عما کان ۔۱
مذہب وہ ہے جو مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ استواء مجہول نہیں اور اس کی چگونگی عقل میں نہیں آسکتی اُس پر ایمان واجب ہے اور اس کے معنی سے بحث بدعت ہے اس لیے کہ مکان پیدا ہونے سے پہلے اﷲ تعالٰی موجود تھا اور مکان نہ تھا پھر وہ اپنی اُس شان سے بدلا نہیں یعنی جیسا جب مکان سے پاک تھا اب بھی پاک ہے۔
( ۱ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) آیت ۳/ ۵ دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۴۸)
گمراہ اپنی ہی مستند کی اس عبارت کو سوجھے اور اپنا ایمان ٹھیک کرے
(۱۵) اسی میں زیر سورہ اعراف یہی قول امام جعفر صادق و امام حسن بصری و امام اعظم ابوحنیفہ و امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم سے نقل فرمایا ۔۲
( ۲ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) آیت ۷ /۵۴ دارالکتاب العربی بیروت ۲ /۵۶)
(۱۶) یہی مضمون جامع البیان سورہ یونس میں ہے۔
الاستواء معلوم والکیفیۃ مجہولۃ والسؤال عنہ بدعۃ ۔۳
استواء معلوم ہے اور اس کی کیفیت مجہول ہے اور اس سے بحث و سوال بدعت ہے۔(ت)
( ۳؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۱۰/۳ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۱/ ۲۹۲)
(۱۷) یہی مضمون سورہ رعد میں سلف صالح سے نقل کیا کہ:
قال السلف الاستواء معلوم و الکیفیۃ مجھولۃ ۔۴ ؎
سلف نے فرمایا : استواء معلوم ہے اور کیفیت مجہول ہے۔(ت)
( ۴ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۱۳/ ۲ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۱/ ۳۴۵)
(۱۸) سورہ طٰہٰ کی تفسیر میں لکھا ہے:
سئل الشافعی عن الاستواء فاجاب اٰمنت بلاتشبیہ واتھمت نفسی فی الادراک وامسکت عن الخوض فیہ کل الامساک ۔۱
یعنی امام شافعی سے استواء کے معنی پوچھے گئے، فرمایا : میں استواء پر ایمان لایا اور وہ معنی نہیں ہوسکتے جن میں اﷲ تعالٰی کی مشابہت مخلوق سے نکلے اور میں اپنے آپ کو اُس کے معنی سمجھنے میں متہم رکھتا ہوں مجھے اپنے نفس پر اطمینان نہیں کہ اس کے صحیح معنی سمجھ سکوں لہذا میں نے اس میں فکر کرنے سے یک قلم قطعی دست کشی کی۔
( ۱ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۲۰/ ۵ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ۲/ ۱۶و ۱۵)
(۱۹) سورہ اعراف کی تفسیر میں لکھا:
اجمع السلف علٰی ان استواء ہ علی العرش صفۃ لہ بلا کیف نؤمن بہ ونکل العلم الی اﷲ تعالٰی ۔۲
سلف صالح کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء اﷲ تعالٰی کی ایک صفت بیچون و بے چگون ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا علم خدا کو سونپتے ہیں۔
( ۲ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۷/ ۵۴ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۱ /۲۲۳)
(۲۰) طرفہ یہ کہ سورہ اعراف کی تفسیر میں تو صرف اتنا لکھا کہ اس کے معنی ہم کچھ نہیں جانتے اور سورہ فرقان میں لکھا۔
قدمرفی سورۃ الاعراف تفصیل معناہ ۔۳اس کے معنی کی تفصیل سورہ اعراف میں گزری۔
( ۳؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۲۵/ ۵۹ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۸۹)
یونہی سورہ سجدہ کی تفسیر میں لکھا
قدمر فی سورۃ الاعراف ۔۴(سورہ اعراف میں گزرا۔ ت)
( ۴ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۳۲/ ۴ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۱۵۷)
یونہی سورہ حدید کی تفسیر میں
قد مرتفصیلہ فی سورۃ الاعراف وغیرھا ۔۵ (اس کی تفصیل سورہ اعراف وغیرہ میں گزر چکی ہے۔ت)
( ۵ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۵۷ /۴ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۳۳۶)
دیکھو کیسا صاف بتایا کہ اس کے معنی کی تفصیل یہی ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے ، اب تو کھلا کہ
وہابیہ مجسمہ کا اپنی سند میں کتاب الاسماء و معالم ومدارک وجامع البیان کے نام لے دینا کیسی سخت بے حیائی تھا ۔
ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
فتویٰ رضویہ سوفٹوئیر جلد 29 صٍفحہ 19
امید اب آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی یہ عبارت کن کے خلاف ہے