- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,588
- پوائنٹ
- 791
آپ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ اہل تاویل دراصل وہابیہ ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفت استواءکی تاویلات بیان کرتے پھرتے ہیںً جبکہ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ
میں یہ کہتا ہوں کہ شنوائی ، بینائی ،قدرت، ضحک ،کلام استواء میں کوئی فرق نہیں اہل زبان کی نظر میں ان تمام اوصاف کے وہی معنی و مفہم ہوتے ہیں جو خدا کی بارگاہ اقدس کے لائق نہیں
آپ نے دوپہر کی روشنی میں آنکھیں بند کرکے اتنا بے بنیاد الزام اہل حق پر لگادیاکہ::
میں واری جاواں ۔۔ جو آپ نے لکھا ،حقیقت اس کے الٹ ہے ۔۔یہ اہل تاویل دراصل وہابیہ ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفت استواءکی تاویلات بیان کرتے پھرتے ہیںً
اہل حدیث تو بارہ صدیوں سے صفت ۔۔استواء ۔۔کی تاویل و تعطیل کرنے والوں سے لڑ رہے ہیں ۔۔خیر سے آپ نے الٹا انہی کو ۔۔تاویل ۔۔کا مجرم بنادیا
میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں ۔آپ اہل حدیث کا مذہب صفات کے متعلق جانتے ہی نہیں ۔۔۔۔
اور عدم علم کے باوجود خواہ مخواہ اپنی طرف سے بہتان تراش رہے ہیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات چل رہی تھی کہ ’‘ حجۃ اللہ ’‘ میں شاہ ولی اللہ ؒ نے کس کا رد کیا ہے ۔۔۔۔۔۔اس عبارت کو دھونس اور جہالت سے آپ نے الٹ مطلب دے کر پیش کیا
جب جواب نہ بن پڑا تو،،اپنے ہی خلاف مواد کاپی کر کے یہاں پھینک دیا۔۔۔آپ کی پیسٹ کردہ نص پیش ہے ۔۔
پہلے نہیں پڑھی ،تو اب پڑھ لیں ۔۔بلکہ کسی سے پڑھوالیں۔۔۔
اور اپنے بڑوں سے پوچھ لیں ،کہ ان کا اس عبارت پر بغیر تاویل عقیدہ ہے یا نہیں ۔۔۔۔
کنا عند مالک بن انس فجاء رجل فقال یا ابا عبدا ﷲ الرحمن علی العرش استوی فکیف استوٰی ؟ قال فاطرق مالک راسہ حتی علاہ الرحضاء ثم قال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب، والمسؤل عنہ بد عۃ ، وما اراک الامبتدعا فامربہ ان یخرج ۔۳
ہم امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی اے ابوعبداللہ! رحمن نے عرش پر استواء فرمایا یہ استواء کس طرح ہے؟ اس کے سنتے ہی امام نے سر مبارک جھکالیا یہاں تک کہ بدن مقدس پسینہ پسینہ ہوگیا، پھر فرمایا : استواء مجہول نہیں اور کیفیت معقول نہیں اور اس پر ایمان فرض اور اس سے استفسار بدعت اور میرے خیال میں تو ضرور بدمذہب ہے، پھر حکم دیا کہ اسے نکال دو۔‘‘
(۳ ؎ کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۰ و ا۱۵)