- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
ہمیں اس ۔۔بریلوی مولوی ۔۔کے رد کی کیا ضرورت ،جب آپ نے بقلم خود لکھ کر ہمارے ہاتھ میں دیا ہے :ویسے آپ کی باتوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ آپ میں سے کسی میں ان کے مذکورہ فتویٰ کو رد کرنے کی ہمت نہیں کیونکہ ایک صدی سے زائد ہوا یہ فتویٰ آئے لیکن آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے کسی مولوی نے اس کا رد کیا یا نہیں
آپ کی پیسٹ کردہ نص پیش ہے ۔۔
پہلے نہیں پڑھی ،تو اب پڑھ لیں ۔۔بلکہ کسی سے پڑھوالیں۔۔۔
یہی ہمارا عقیدہ ہے ، تبھی تو ۔۔المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۔۔نے اسے شائع کیا ہے ۔۔(شاید آپ نے خود پڑھا ہی نہیں )
’‘ کنا عند مالک بن انس فجاء رجل فقال یا ابا عبدا ﷲ الرحمن علی العرش استوی فکیف استوٰی ؟ قال فاطرق مالک راسہ حتی علاہ الرحضاء ثم قال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب، والمسؤل عنہ بد عۃ ، وما اراک الامبتدعا فامربہ ان یخرج ’‘ ۔۳
ہم امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی اے ابوعبداللہ! رحمن نے عرش پر استواء فرمایا یہ استواء کس طرح ہے؟ اس کے سنتے ہی امام نے سر مبارک جھکالیا یہاں تک کہ بدن مقدس پسینہ پسینہ ہوگیا، پھر فرمایا : استواء مجہول نہیں اور کیفیت معقول نہیں اور اس پر ایمان فرض اور اس سے استفسار بدعت اور میرے خیال میں تو ضرور بدمذہب ہے، پھر حکم دیا کہ اسے نکال دو۔‘‘
(۳ ؎ کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۰ و ا۱۵)