• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شبینہ کی دینی وشرعی حیثیت

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبینہ کی دینی وشرعی حیثیت


عبدالعلیم بن عبدالحفیظ
(مترجم اسلامی دعوت سینٹریدمہ نجران سعودی عرب)

الحمدلله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده, وبعد :
برکتوں،عظمتوں، عبادتوں اور ذکر وتلاوت کا مہینہرمضان جب جب سایہ فگن ہوتاہے دنیاکےتمام مسلمان خصوصی طورسےعبادت اورذکروتلاوت میں لگ جاتےہیں اورحسب استطاعت زیادہ سے زیادہ حسنات وخیرات سے اپنےدامن کوبھرلیتےہیں،فرائض ونوافل اورسنن خصوصی طورسے اداکئےجاتےہیں ۔رمضان المبارک کی یہ خصوصیت واہمیت ابتداء سےلے کراب تک باقی ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہایت ہی ذوق وشوق کےساتھ اس ماہ مبارک میں تراویح ، تلاوت اوردیگرعبادات میں لگ جاتےتھے۔

لیکن مروروقت کےساتھ بدعت پرستوں نے اس ماہ مبارک میں کچھ ایسی بدعات کورواج دے دیاجن کاشریعت سے ادنی تعلق بھی نہیں ہے۔ تراویح ، تلاوت قرآن مجید اور شب قدرجیسی بابرکت رات میں عجیب وغریب عبادتیں گھڑی گئیں، جنہوں نےصحیح عبادتوں کی رو ح اور چاشنی کوتاراج کردیا۔ ان بدعات میں سےایک "شبینہ " کی بدعت ہے۔ ذیل کی تحریرمیں ہم کتاب وسنت اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کی روشنی میں شبینہ کی حقیقت کو واضح کریں گے، تاکہ عوام میں رائج اس بدعت کی حقیقت سامنے آسکے اور لوگ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں عبادات کوصحیح طریقہ سے ادا کرکے اجر وثواب کےمستحق ہوسکیں اورمبادا کسی بدعت میں پڑکرشریعت کے متعین کردہ ضابطوں سے نہ نکل جائیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبینہ کیاہے :

شبینہ ایک فارسی لفظ ہے جس کا مطلب ہوتاہے: حافظ قرآن کا رمضان کی کسی رات میں ( خاص طورسے شب قدرمیں ) باجماعت تراویح میں پوراقرآن مجید ختم کرنا۔

شبینہ کی مذکورہ تعریف سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں ، مثلاً:

٭ کیاشبینہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےعہدمیں ہوئی تھی ؟
٭ کیا قرآن مجید ایک رات میں ختم کرناجائز ہے ؟
٭ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پرکیا تعامل تھا؟
٭ قرآن مجید پڑھنے کےکیا آداب ہیں ؟
٭ کیاشبینہ میں تجویدوترتیل کی رعایت ہوپاتی ہے ؟
٭اورکیا شبینہ کی نمازشریعت کے متعین کردہ ضابطوں کے اندرآتی ہے ؟

ذیل کی سطورمیں ہم ان تمام نکات پر بالترتیب اختصارکےساتھ گفتگو کریں گے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبینہ دورنبوت میں :

تراویح کےسلسلے میں ایک مشہورروایت ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوتین دنوں تک تراویح پڑھائی، پھرچوتھے دن آپ گھرسے باہرنہیں نکلے اورصحابہ کرام مسجد میں آپ کا انتظار کرتے رہ گئے، صبح آپﷺ نے اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ :
" میں نے تراویح اس لئے نہیں پڑھائی کہ کہیں یہ تمہارے اوپر واجب نہ ہوجائے "عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :" آپ تاحیات اسی پرکار بند رہے" (بخاری ، کتاب التراویح :2012)۔
عائشہ رضی اللہ عنہاکی ایک دوسری روایت ہےجس میں ہے کہ :
"آپﷺ رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ کبھی نہیں پڑھتےتھے"(بخاری ،کتاب التھجد:1147 ، وکتاب التراویح :2013 ،وکتاب المناقب : 3569 ، ومسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین :738)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کےآخری دس دنوں میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے اوردیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اعتکاف کیاکرتے،لیکن کبھی بھی آپ نے ان کی جماعت بناکررات بھرنماز نہیں پڑھائی ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےکبھی بھی پوری رات ایک جماعت بناکرتراویح میں پوراقرآن مجید ختم کرنا ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ بعدکی بدعت ہے اورہر بدعت گمراہی ہے، جیساکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"كل بدعة ضلالة"(مسلم ، کتاب الجمعہ :867)
"یعنی ہربدعت گمراہی ہے "
نیز ارشادفرمایا:

"من أحدث في أمرنا هذا ماليس منه فهو رد"
یعنی "کسی نے اگرہماری اس شریعت میں کوئی نئی چیزجو اس میں سے نہیں ہے، پیداکی تو وہ مردود ہے "(بخاری ،کتاب الصلح :2697 ، ومسلم ، کتاب الاقضیہ :1218)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا پورا قرآن مجید ایک رات میں ختم کرناجائزہے ؟ :

اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم کرنے سے منع فرمایاہے ، اوراکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بھی اسی پرتھا۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :

"إقرأ القرآن في كل شهر" قال :قلت: يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال :" فأقرأه في كل عشرين " قال قلت يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال :" فأقرأه في كل خمسة عشر" قال: قلت :يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال :" فأقرأه في كل عشر" قال :قلت: يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال:"فأقرأه في كل سبع ولا تزد على ذلك " (بخاری ، فضائل القرآن :5052-5054 ، ومسلم ، کتاب الصیام :1159)
یعنی " ہرماہ میں قرآن مجید پڑھاکرو" میں نےکہا :اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہربیس دن میں پڑھاکرو" میں نےکہا : اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، توآپ نے فرمایا: "ہرپندرہ دن میں پڑھاکرو" میں نےکہا : اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہردس دن میں پڑھاکرو" میں نےکہا : اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہرسات دن میں پڑھاکرو اوراس سے زیادہ مت کرنا"
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی ہی ایک دوسری روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لم يفقه من قرأالقرآن في أقل من ثلاث " (ابودا‏ؤد، کتاب الصلاۃ :1394 ، ترمذی ، کتاب القراءۃ:2949 ، ابن ماجہ ،اقامۃ الصلاۃ :1347 ، علامہ البانی نے اس روایت کوصحیح قراردیاہے ، دیکھئے : صحیح سنن ابن ماجہ :1115) اورامام عبدالرزاق نے اسے بایں الفاظ نقل کیاہے :
"من قرأ فيما دون ثلاث لم يفهمه "
"یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کیااس نے اسے کچھ سمجھا ہی نہیں "(مصنف عبدالرزاق :3/356)۔
ابوعبید نے طیب بن سلمان کے طریق سےعن عمرۃ عن عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین دن سے کم میں قرآن نہیں ختم کیاکرتےتھے" (دیکھئے : فتح الباری :9/97)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ :
" قرآن مجید تین دن سے کم میں مت پڑھاکرو بلکہ اسے سات دنوں میں پڑھاکرو" (بیھقی :2/396 ، مصنف عبدالرزاق :3/353، ہیثمی فرماتے ہیں کہ : "اسے طرانی نے روایت کیاہے اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں "(مجمع الزوائد:2/269) حافظ ابن حجرنے بھی اسے صحیح کہاہے ، (فتح الباری :9/97) طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تین دن میں قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے " (ہیثمی فرماتےہیں کہ : "اسے طرانی نے کبیر میں دو سندوں سے روایت کیاہے اوراس میں سے ایک کے رجال صحیح کے رجال ہیں "(مجمع الزوائد:2/269) اور بیھقی کی ایک روایت میں ہےکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رمضان میں تین دن میں غیررمضان میں جمعہ سے جمعہ تک میں ختم کیاکرتےتھے۔(السنن الکبری :2/396) ایک دوسری روایت میں عبداللہ بن مسعود فرماتےہیں :

"من قرأالقرآن في أقل من ثلاث فهوراجز"
یعنی " جس نے تین دن سے کم میں قرآن مجید کو ختم کیا وہ راجز (رجزیہ اشعارپڑھنے والا) ہے" (سنن سعیدبن منصور:447، مصنف عبدالرزاق :3/353،
ہیثمی فرماتےہیں کہ : " اسے طرانی نے کبیرمیں روایت کیاہے اوراس کےرجال صحیح کے رجال ہیں "(مجمع الزوائد:2/269)۔

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ تین دن سے کم میں قرآن مجید پڑھنے کو ناپسند کرتےتھے اورخودبھی تین دن سے کم میں نہیں پڑھتےتھے۔(مصنف عبدالرزاق :2/354 ، قیام اللیل لابن نصرالمروزی :ص 63)۔

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں آتاہےکہ وہ سرعت وتیزی کے ساتھ قرآن مجیدپڑھنے کو ناپسند کرتےتھے اورسات دنوں میں ختم قرآن کو بہترجانتےتھے، کیوں کہ اس سے تدبر اورفہم میں مدد ملتی ہے ۔(مؤطا، تنویر الحوالک :1/206 ، مصنف عبدالرزاق :3/354)۔

تمیم داری رضی اللہ عنہ کے سلسلےمیں امام نووی نے لکھاہےکہ وہ ایک دن اور ایک رات میں قرآن مجید ختم کیا کرتےتھے(التبیان فی آداب حملۃ القرآن : ص 47 مطبوع مکتبۃ دارالبیان ، نیزدیکھئے :فضائل القرآن لابن کثیر:ص 81 ،والمدخل لدراسۃ القرآن الکریم /محمد ابو شہبۃ : ص 405 ، طبع :داراللواء ،ومختصرتاریخ دمشق :5/19 ، وسیر اعلام النبلاء :2/445)

جب کہ ایک دوسری روایت میں بسند صحیح وارد ہےکہ وہ سات دنوں میں ختم کیا کرتے تھے۔(الطبقات الکبری لابن سعد:3/500 ، وسیراعلام النبلاء :2/445 ، والسنن الکبری للبیھقی :2/396 ، ومختصرتاریخ دمشق :5/319)۔

ابو حمزہ فرماتےہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں نہایت ہی سرعت کےساتھ قرآن مجید پڑھاکرتا ہوں اوربسا اوقات ایک ہی رات میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ ختم کر دیاکرتا ہوں، تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " ایک رات میں صرف سورہ بقرہ تدبر وترتیل کے ساتھ پڑھنا میرے نزدیک تمہارے جیسے پڑھنے سے بہترہے ۔(السنن الکبری للبیھقی :2/396 ،وفتح الباری :9/89)۔

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ آٹھ دنوں میں قرآن مجید ختم کیا کرتےتھے۔( السنن الکبری للبیھقی :2/396 ، مصنف عبدالرزاق :3/354 ،قیام اللیل لابن نصر:ص 63 ، طبقات ابن سعد:3/500 بسند صحیح )۔

تابعین میں سے عبدالرحمن بن یزید بن علقمہ اور ابراہیم ایک ہفتہ میں ختم کیاکرتےتھے ۔(التبیان : ص 48)۔

حسین بن علی الکرابیسی فرماتے ہیں کہ میں نے آٹھ راتیں امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھ گذاریں، آپ ایک تہائی رات کےقریب نمازپڑھا کرتے تھے اوران کو میں نے ایک رکعت میں پچاس آیتوں سے زیادہ پڑھتے نہیں دیکھا۔(توالی التاسیس لابن حجر:ص68 ،مناقب الشافعی للبیھقی :2/158 ط: دارالتراث القاھرۃ)۔

معمرفرماتے ہیں کہ : قتادہ سات دنوں میں قرآن ختم کیا کرتےتھے۔( مصنف عبدالرزاق :3/353)۔

ابوعبید، احمدبن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ تین دنوں سے کم میں نہ ختم کیاجائے۔(فتح الباری:9/97)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ایک رات میں قرآن مجیدختم کرنےکےآثاراوران کاجواب :

بعض ائمہ عظام اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سعید بن جبیر اورعثمان بن عفان رضی اللہ عنہماسے کئی طرح سےثابت ہے کہ یہ لوگ ایک رات یا ایک دن میں قرآن مجیدختم کیاکرتےتھے۔(السنن الکبری للبیھقی :2/96 ، مصنف عبدالرزاق :3/354 ،سنن الترمذی ،5/197 ، الزھد للامام احمد بن حنبل :671 ،2170 ، سنن الدارمی ::رقم 3485 ،کتاب التھجد لابن ابی الدنیا:166،167 ،ومختصرتاریخ دمشق :5/319 و 16/167 )۔

ان روایتوں کے طرق میں سے اکثرکی سندیں مخدوش ہیں ، لیکن بعض صحت کے درجے کو پہنچتی ہیں ۔

لیکن ان حضرات کے عمل سے استدلال تین وجوہ سے ناقابل اعتبارہیں :

اول: ان کے عمل کی اقتداء سے صریح مرفوع اور صحیح احادیث کی مخالفت ہوتی ہے ۔
دو م: نص صریح کی موجودگی کی بناپرکسی بھی شخص کاکوئی بھی ذاتی عمل دین میں حجت نہیں ۔
سوم: جمہورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرآن مجیدکو تین دن سے کم میں پڑھنا ثابت نہیں ہے اس لئے مذکورہ دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کا انفرادی عمل شاذہے جو قابل اعتباروحجت نہیں ہے ۔

میں کہتا ہوں کہ اگر بفرض محال کوئی آدمی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کودلیل بنا بھی لیتاہے پھربھی اجتماعی طورپرایک شب میں تراویح میں پورےقرآن کو ختم کرنامحل نظرہے، جس کا ثبوت نہ خود ان صحابہ کرام سے ہے اورنہ ہی سنت نبوی سے، اور بقول امام ‏غزالی: ایک رات میں قرآن مجید ختم کرنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا نزول صرف اس لئے ہواہےکہ اسے صرف اچھی آواز میں پڑھا جائے اس کے اوامر، نواہی اور موا‏عظ سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ہے۔(دیکھئے : اصلاح المساجد من البدع والعوائدللشیخ جمال الدین القاسمی : ص 127-128 باختصارشدید)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
قرآن مجید پڑھنے اورسننے کے آداب :

قرآن مجید اللہ رب العزت کا نازل کردہ کلام ہےجس کی تلاوت عبادت ہے، اوراس عبادت کی صحیح طورسے ادائیگی کے لئے شریعت نے اس کی قراءت وتلاوت اور استماع کے کچھ آداب اورشرائط متعین کررکھے ہیں۔ ذیل میں ہم ان آداب میں سے چند کا مختصراً ذکرکرکے دیکھیں گے کہ کیا شبینہ کے اندر ان شرائط کا لحاظ رکھاجاتا ہے یا ایسی صورت میں ان کا لحاظ ممکن ہے ؟ :

1۔ قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے اپنی نیت خالص کرلینی چاہئے اورتلاوت سے اجروثواب کے حصول کا قصد ہونا چاہئے۔ لیکن شبینہ میں اخلاص کا یکثر فقدان ہوتا ہے، اکثر حفاظ کرام اپنی اجرت اور محنتانہ کی خاطرقرآن مجید پڑھتے ہیں اوربعض سامعین کھانے پینے کی لالچ میں شریک ہوتے ہیں اوراس رات کا اکثرحصہ کھانے پینے میں گذارتے ہیں، کیوں کہ شبینہ ادا کی جانے والی تقریباً تمام مساجدمیں خوردونوش کا خصوصی انتظام ہوتاہے ۔(ماہ مبارک کا منکرعظیم رسم شبینہ ازمفتی عبدالرؤوف :ص11)

2۔ تلاوت قرآن میں ترتیل کی رعایت واجب ہے، اللہ رب العزت فرماتاہے :

’’ ورتل القرآن ترتيلاً ‘‘ (سورہ مزمل :4)
یعنی قرآن مجیدسکون ، خشوع خضوع اورترتیل کے ساتھ پڑھاجائے
کیوں کہ تلاوت کا شرعی مقصدحسن تلاوت اورتدبر وفہم ہے۔ اور یہ چیز شبینہ جیسی سرعت سے کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتی ہے ۔ اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوسرعت تیزی سے پڑھنے سے منع فرمایاہے (دیکھئے :بخاری ، کتاب ‌فضائل القرآن :5044 )
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

’’ لاتحرك به لسانك لتعجل به‘‘ (سورہ القیامۃ :16)
یعنی (اے نبی ! آپ قرآن مجید کوجلدی (یادکرنے)کے لئے اپنی زبان کوحرکت نہ دیں )
اوردوسری جگہ ارشادہے

’’ ولاتعجل بالقرآن من قبل أن يقضى إليك وحيه ‘‘ (سورہ طہ :114)
یعنی (قرآن مجید پڑھنے میں جلدی نہ کیجئے اس سے پہلے کہ آپ کی طرف جووحی کی جاتی ہے وہ پوری کرلی جائے)۔
3۔ قاری وسامع دونوں کو اپنے ذہن وفکرکوقرآن کی آیات کوسمجھنے میں لگا دینا چاہئے ۔
4۔ جب رحمت کی آیت گذرے تو اس کا سوال کرے، اورعذاب کی آیت گذرے تو اس سے پناہ مانگے، تسبیح کی آیت گذرے توتسبیح بیان کرے اورسجدہ کی آیت گذرے توسجدہ کرے۔ لیکن شبینہ میں سامع کوپتہ ہی نہیں چلتا کہ کب اس نوعیت کی آیتیں گزرتی ہیں صرف یعلمون تعلمون سمجھ میں آتاہے ۔
5۔ ہرحرف کوکما حقہ ادا کرنا چاہئے، کیوں کہ قرآن مجید کے تمام الفاظ پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں ۔(ترمذی ، فضائل القرآن :2910 ، یہ روایت صحیح ہے ، دیکھئے : صحیح سنن الترمذی :2910)
6۔ تلاوت قرآن مجید کے وقت تجوید وقواعد کا لحاظ نہایت ہی ضروری ہے، اس لئے کہ اگرتجویداور مخارج کے قواعد کا لحاظ نہیں ہوگا تو الفاظ کےمعانی بدل سکتے ہیں ، اوریہ چیزسبب گناہ ہے ۔
7۔ حسب استطاعت قرآن مجید کو بہترین آوازکے ساتھ پڑھنا چاہئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"زينوا القرآن بأصواتكم"
یعنی" قرآن مجید کواپنی بہترین آوازکے ساتھ مزین کرو" (ابو دا‏‏ؤد ،کتاب الصلاۃ :1468 ، ابن ماجہ ، کتاب اقامۃ الصلاۃ :1342 ،نسائی ، کتاب الافتتاح : 2/179-180 ، روایت صحیح ہے ، دیکھئے : سلسلہ صحیحہ :772 )
8۔ جب قرآن مجید کی تلاوت ہورہی ہوتو سامعین کے لئے اسے غورسے خاموشی کے ساتھ سننا واجب ہے ، جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’ وإذا قرئ القرآن فاستمعواله وانصتوا لعلكم ترحمون ‘‘ (سورہ اعراف :204)
یعنی (جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو اسے غورسے خاموشی کے ساتھ سنو امید ہے کہ تم پررحمت ہو)
9۔ قرآ ن مجید میں ہرممکن لحن سے بچنا چاہئے۔ قرآن مجید میں مکروہ لحن وہ ہے جس کی بنیاد پرمد کو قصر، قصرکومد، ساکن کو متحرک اورمتحرک کوساکن کردیاجاتا ہے اوریہ سب طربیہ نغموں کی موافقت کے لئے کیا جاتا ہے ۔(دیکھئے : فضائل القرآن :ص 15-16 بحوالہ حاشیہ مقدمۃ التفسیرللشیخ عبدالرحمن قاسم :ص107)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبینہ میں مقتدی کی رعایت :

باجماعت نماز میں امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقتدیوں کی رعایت کرے، کیو ں کہ نماز میں بچے، بوڑھے، عورتیں، بیمار، ضرورت مند اور دور سے آنے والے سبھی ہوتے ہیں ۔ ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت ہی غصہ میں فرمایا:
"تم میں سے بعض لوگ نفرت پیدا کرنے والے ہیں، جو بھی تم میں سے نماز پڑھائے تو اسے تخفیف کرنی چاہئے " (بخاری ، کتاب العلم :90 ، مسلم ، کتاب الصلاۃ :466)
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ایک بار لمبی نماز پڑھادی تو آپﷺ نے فرمایا:
"اے معاذ ! تم لوگوں میں فتنہ پیدا کرنے والے ہو، جب تم لوگوں کونماز پڑھایا کرو تو "والشمس وضحاها" "سبح اسم ربك الأعلى" والليل إذايغشى"اور "إقرأباسم ربك"پڑھو"( مسلم ، کتاب الصلاۃ :465)
عثمان ابو العاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
"جب تم کسی قوم کی امامت کروتو ان کو ہلکی نمازیں پڑھایاکرو"( مسلم ، کتاب الصلاۃ :468)
مذکورہ روایتیں صراحت کے ساتھ بتاتی ہیں کہ کسی بھی امام کے لئے یہ جائز اور درست نہیں ہےکہ لوگوں کو مشقت وپریشانی میں ڈالے اور نمازیں لمبی کرکےفتنہ کا سبب بنے۔ تراویح کی نمازجس میں حصول ثواب کی خاطرلوگ جوق درجوق شریک ہوتے ہیں انہیں شبینہ جیسی نمازوں کے ذریعہ مشقت میں ڈال دیا جائے تو پھرتراویح جیسی عبادتوں کا اللہ ہی حافظ ہوگا، واضح رہے کہ نفس کو تھکا کراورمشقت وپریشانی میں ڈال کرکسی بھی نفلی عبادت کو ادا کرنے سے روکا گیاہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"صم وأفطروقم ونم فإن لجسدك عليك حقاً, وإن لعينك عليك حقاًوإن لزوجك عليك حقاً ......"
یعنی " تم روزہ بھی رکھو اوربلا روزہ بھی رہو، رات میں قیام بھی کرو اورسو بھی، کیوں کہ تمہارے اوپرتمہارےجسم، تمہاری آنکھ اورتمہاری بیوی کا حق ہے۔۔۔۔"( بخاری ، کتاب الصوم ؛1975،1977)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
خلاصہ کلام
خلاصہ کلام یہ کہ شبینہ جیسی نمازیں دین میں بدعت اورشریعت کے اصول وضوابط کے خلاف ہیں جن کا ثبوت نہ تو دورنبوت میں ملتاہے اورنہ ہی صحابہ کرام﷢، تابعین، محدثین اور ائمہ عظام کے دور میں ۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو ہرممکن طورپر اس قسم کی بدعت سے بچنا چاہئے اوررمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں سنت مطہرہ کے مطابق عمل کرکے زیادہ سے زیادہ حسنات سے اپنے دامن کوبھرنا چاہئے۔ کیوں کہ عبادات کی صحت کے لئے دو اساسی شرطیں ہیں جن کے بغیرکوئی بھی عبادت درست نہیں ہوسکتی ہے،
اول : عبادت خالصتاً اللہ کے لئے ہو۔
ثانی : سنت نبویﷺ کےمطابق ہورہی ہو۔
اس لئے ہمیں اپنی عبادتوں پرنظرثانی کرنی چاہئے ۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے دین کے صحیح طریقوں پرچلائے ، اوربدعات وسیئات سے دوررکھے ۔آمین یارب العالمین وصل علی خیر خلقک محمد علی آلہ وصحبہ وسلم۔

**********
 
Top