• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہید ِ کربلا سیدنا حسین ؓ کی قربانی

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ابن زیاد کا دربار
ابن زیاد نے اظہارِ مسرت کے طور پر ایک دربار منعقد کیا۔ تمام قیدی سامنے کھڑے کردیے گئے اور سیدنا حسین ؓ کا سر ایک طشت میں رکھ کر اس کے سامنے لایا گیا۔ اس بدبخت نے دندان مبارک پر قمچی مار مار کر کہنا شروع کیا: کیا یہی وہ منہ ہے جس سے تم نے خلافت کا دعویٰ کیا تھا؟ اس وقت حضرت انسؓ سے ضبط نہ ہوسکا، کھڑے ہو کر فرمایا: بے ادب، گستاخ! اپنی قمچی کو ہٹا، میں نے خود نبی کریمﷺ کو دیکھا ہے وہ اُنہیں چومتے اور پیار کرتے تھے۔ حضرت زید بن ارقمؓ نے بھی اِنہیں الفاظ کا اعادہ کیا اور ابن زیاد کو اس حرکت سے ڈانٹا۔
ابن زیاد یہ الفاظ اور ڈانٹ سن کر آگ بگولا ہوگیا اور یہ کہہ کر اسی وقت حضرت انسؓ اور زید بن ارقمؓ کو دربار سے نکلوا دیا کہ
’’تمہاری صحابیت اور بڑھاپے پر رحم کرتا ہوں، ورنہ ابھی مروا ڈالتا۔ وہ یہ کہتے ہوئے باہر چلے گئے کہ تو وہ لعین ہے کہ ’’جب تو نے فرزند رسولؐ کو شہید کروا دیا تو ہماری ہستی کیا ہے؟‘‘
اس کے بعد ابن زیاد نے اس کامیابی پر کھڑے ہوکر خدا کا شکریہ ادا کیا کہ اللہ کا احسان ہے جس نے ہمیں فتح عطا کی اور ہمارے دشمنوں کو تنگی اور مصیبت میں گرفتار کیا۔
حضرت زینبؓ نے فرمایا : خدا کا احسان ہے جس نے ہمیں خاندانِ نبوت میںپیدا کرکے شرف و بزرگی عطا فرمائی۔
ابن زیاد بولاکہ ’’دیکھو لو اپنے بھائی کا انجام جس نے اسے خاک میں ملا دیا۔ یہ ہے اس کی قدرتِ جلیلہ۔‘‘ اس کے جواب میں حضرت زین العابدینؓ نے یہ آیت ِکریمہ تلاوت کی
’’ قُلْ لَّوْ کُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقَتْلُ اِلی مَضَاجِعِھِمْ ‘‘
پھر کہا کہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارا اور تمہارا معاملہ احکم الحاکمین کے سامنے پیش ہوگا۔
ابن زیاد نے جھلا کر پوچھا: یہ کون ہے؟ جب معلوم ہوا کہ حضرت حسین ؓ کا فرزند ہے تو فوراً حکم دے دیا کہ اسے قتل کردیا جائے۔ پھر بولا: میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ نسلِ حسین سے کوئی اولادِ ذکور باقی نہ رکھی جائے۔
اس حکم پرحضرت زینبؓ تڑپ گئیں اور فرمایا: ’’بدبخت ! کیا نسلِ محمدیؐ کو دنیا سے ناپید کرنا چاہتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ
یااللہ! تیرے رسول کا سب خاندان ان ظالموں کے ہاتھوں برباد ہوچکا۔ تیرے رسول کا نواسہ انتہائی مصائب اُٹھا کر شہید ہوگیا اور اب یہ شقی تیرے رسول کی نسل ہی قطع کرنے کے درپے ہے۔ فریاد ہے اے بے کسوں کے وارث! فریاد ہے۔ اپنی بندی کی سن اور اپنے رسولؐ کی نسل قائم رکھ!
اس دعا میں کچھ ایسا درد تھا کہ فوراً قبول ہوگئی اور ابن زیاد نے اپنا حکم واپس لے لیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یزید کا دربار
تیسرے روز ابن زیاد نے شمر کی نگرانی میں ایک دستہ فوج کے ساتھ حضرت حسین ؓ کے سرمبارک اور اہل بیت کو یزید کے پاس دمشق بھیج دیا۔
یزید نے میدانِ کربلا کے واقعات سنے تو روپڑا اور کہنے لگا:
خدا ابن زیاد پر لعنت کرے۔ خدا کی قسم! اگر میں وہاں ہوتا تو حسین ؓ سے ضرور درگزر کرتا۔ اللہ تعالیٰ حسینؓ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ (ابن جریر کامل، تاریخ کبیر)
شام کے وقت یزید نے اہل بیت کو اپنے سرداروں کی مجلس میں بلایا اور مشورہ کیا۔ نعمان بن بشیر نے کہا: ان کیساتھ وہی سلوک کرو جو رسول اللہﷺ انہیں اس حال میں دیکھ کرکرتے۔
حضرت فاطمہ بنت حسین ؓ نے کہا: اے یزید!
یہ رسول اللہﷺکی بیٹیاں ہیں۔ اس نسبت کے ذکر سے یزید اور اسکے درباری متاثر ہوئے اور انکی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہہ نکلے۔
اسی اثنا میں واقعات کی خبر یزیدکے حرم سرا میں پہنچی اور یزید کی بیوی ہند بنت عبداللہ منہ پرنقاب ڈال کر باہر آئی اور کہا:
امیرالمومنین کیا حسین بن فاطمہؓ بنت ِرسول اللہﷺ کا سر آیا ہے ؟ یزید نے کہا: ہاں! تم خوب روؤ رسول اللہﷺ کے نواسے اور قریش کے اصیل پر ماتم کرو، بین کرو،ابن زیاد نے بہت جلدی کی کہ اُنہیں قتل کرڈالا۔ خدا اسے بھی قتل کرے!
جب اہل بیت کی خواتین یزید کے محل میں پہنچائی گئیں تو خاندانِ معاویہؓ کی خواتین نے اُنہیں دیکھ کر بے اختیار رونا پیٹنا شروع کردیا۔
چند روز کے بعد یزید نے اہل بیت کو مدینہ کی طرف رخصت کیا۔ محافظ نے راستہ میں اس مصیبت زدہ قافلہ سے بہت اچھا برتاؤ کیا جب منزلِ مقصود پر پہنچے تو حضرت زینبؓ بنت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ بنت ِحسینؓ نے اپنی چوڑیاں اور کنگن اسے بھیجا اور کہا یہ تمہاری نیکی کا بدلہ ہے ہمارے پاس ا س کے سوا اور کچھ نہیں کہ تمہیں دیں۔
محافظ نے زیور واپس کردیئے اور کہا ۔
واللہ! میرا یہ برتاؤ کسی دنیوی طمع سے نہیں تھا۔ مجھے رسول اللہﷺ کی پاسداری مقصود تھی۔ یہ مظلوم قافلہ جب مدینہ میں پہنچاتو تمام شہر پر افسردگی اور مایوسی چھا گئی ۔ بنی ہاشم کے لوگ زاروقطار رونے لگے مگر بجزصبر و شکر کے کیا چارہ تھا۔ اور سواے انا ﷲ وانا الیہ راجعون کہنے کے اور کیا ہوسکتا تھا؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ظلم کا انتقام
یزید، ابن زیاد، عمرو بن سعد، شمر اور دیگر ظالموں نے ظلم کا خمیازہ اسی دنیا میں بہت جلد بھگتا۔ یزیدنے دردِ قولنج میں تڑپ تڑپ کر ۳۹ سال کی عمر میں جان دی، اس نے اپنے بیٹے معاویہ کو آخری وقت میں وصیت کے لئے بلایا مگر اس نے خلیفہ بننے سے صاف انکارکردیا۔
مختار ثقفی نے قوت پکڑ کر اہل بیت ِرسولؐ کے قاتلوں کو چن چن کر قتل کیا۔ ان ہی میں عمرو بن سعد، شمر اور دیگر ہزارہا اشقیا قتل ہوئے۔ آخر میں ابن زیاد کا سرطشت میں رکھ کر اسی محل میں مختار ثقفی کے سامنے پیش کیا گیا جس میں سیدنا حسین ؓ کا سر ابن زیاد کے سامنے لایا گیا تھا۔
مختار ثقفی کے بعد مصعب بن زبیرؓ نے رہے سہے ظالموں کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

قتل حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
برادرانِ اسلام
سیدنا حسین ؓ کی حیاتِ طیبہ پر غور کیجئے کہ اُنہوں نے کس صبرواستقلال،اولوالعزمی اور جوانمردی سے دنیا کے سخت سے سخت مصائب و نوائب کا مقابلہ کیا۔ آخری دم تک حوصلہ نہ چھوڑا۔ قیامِ عدل وانصاف اور حصولِ آزادی کے لئے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں کو خاک و خون میں تڑپتے دیکھا اور آخر خود بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ آخر وقت میں بھی نماز کو ادا کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہے۔
اے جوانانِ ملت! سیدناحسین رضی اللہ تعالے عنہ کی یہ عظیم الشان شہادت ہمارے لئے ایک دائمی اُسوہ حسنہ ہے۔ وہ اس مظلومیت کے علمبردار ہیں جس سے آں حضرتﷺ کی زندگی مرصع ہے۔ جب بھی فرزندانِ اسلام پرظلم و استبداد اور غلامی کا ابر ِ غلیظ مسلط ہوگا۔ حضرت سیدنا حسین ؓ کا اُسوہ حسنہ رہنمائی کرے گا۔
کاش!اہل بیت کی خصوصی محبت کا دم بھرنے والے ماتم اور تعزیہ وغیرہ مشرکانہ بدعات چھوڑ کر حضرت حسین ؓ کی عظیم الشان قربانی کے اصل مقصد پر غور کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کلمہ گو مسلمانوں کو حضرت حسینؓ کے دلیرانہ نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
 
Top