کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
ابن زیاد کا دربار
ابن زیاد نے اظہارِ مسرت کے طور پر ایک دربار منعقد کیا۔ تمام قیدی سامنے کھڑے کردیے گئے اور سیدنا حسین ؓ کا سر ایک طشت میں رکھ کر اس کے سامنے لایا گیا۔ اس بدبخت نے دندان مبارک پر قمچی مار مار کر کہنا شروع کیا: کیا یہی وہ منہ ہے جس سے تم نے خلافت کا دعویٰ کیا تھا؟ اس وقت حضرت انسؓ سے ضبط نہ ہوسکا، کھڑے ہو کر فرمایا: بے ادب، گستاخ! اپنی قمچی کو ہٹا، میں نے خود نبی کریمﷺ کو دیکھا ہے وہ اُنہیں چومتے اور پیار کرتے تھے۔ حضرت زید بن ارقمؓ نے بھی اِنہیں الفاظ کا اعادہ کیا اور ابن زیاد کو اس حرکت سے ڈانٹا۔
ابن زیاد یہ الفاظ اور ڈانٹ سن کر آگ بگولا ہوگیا اور یہ کہہ کر اسی وقت حضرت انسؓ اور زید بن ارقمؓ کو دربار سے نکلوا دیا کہ
حضرت زینبؓ نے فرمایا : خدا کا احسان ہے جس نے ہمیں خاندانِ نبوت میںپیدا کرکے شرف و بزرگی عطا فرمائی۔
ابن زیاد بولاکہ ’’دیکھو لو اپنے بھائی کا انجام جس نے اسے خاک میں ملا دیا۔ یہ ہے اس کی قدرتِ جلیلہ۔‘‘ اس کے جواب میں حضرت زین العابدینؓ نے یہ آیت ِکریمہ تلاوت کی
ابن زیاد نے جھلا کر پوچھا: یہ کون ہے؟ جب معلوم ہوا کہ حضرت حسین ؓ کا فرزند ہے تو فوراً حکم دے دیا کہ اسے قتل کردیا جائے۔ پھر بولا: میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ نسلِ حسین سے کوئی اولادِ ذکور باقی نہ رکھی جائے۔
اس حکم پرحضرت زینبؓ تڑپ گئیں اور فرمایا: ’’بدبخت ! کیا نسلِ محمدیؐ کو دنیا سے ناپید کرنا چاہتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ
ابن زیاد نے اظہارِ مسرت کے طور پر ایک دربار منعقد کیا۔ تمام قیدی سامنے کھڑے کردیے گئے اور سیدنا حسین ؓ کا سر ایک طشت میں رکھ کر اس کے سامنے لایا گیا۔ اس بدبخت نے دندان مبارک پر قمچی مار مار کر کہنا شروع کیا: کیا یہی وہ منہ ہے جس سے تم نے خلافت کا دعویٰ کیا تھا؟ اس وقت حضرت انسؓ سے ضبط نہ ہوسکا، کھڑے ہو کر فرمایا: بے ادب، گستاخ! اپنی قمچی کو ہٹا، میں نے خود نبی کریمﷺ کو دیکھا ہے وہ اُنہیں چومتے اور پیار کرتے تھے۔ حضرت زید بن ارقمؓ نے بھی اِنہیں الفاظ کا اعادہ کیا اور ابن زیاد کو اس حرکت سے ڈانٹا۔
ابن زیاد یہ الفاظ اور ڈانٹ سن کر آگ بگولا ہوگیا اور یہ کہہ کر اسی وقت حضرت انسؓ اور زید بن ارقمؓ کو دربار سے نکلوا دیا کہ
اس کے بعد ابن زیاد نے اس کامیابی پر کھڑے ہوکر خدا کا شکریہ ادا کیا کہ اللہ کا احسان ہے جس نے ہمیں فتح عطا کی اور ہمارے دشمنوں کو تنگی اور مصیبت میں گرفتار کیا۔’’تمہاری صحابیت اور بڑھاپے پر رحم کرتا ہوں، ورنہ ابھی مروا ڈالتا۔ وہ یہ کہتے ہوئے باہر چلے گئے کہ تو وہ لعین ہے کہ ’’جب تو نے فرزند رسولؐ کو شہید کروا دیا تو ہماری ہستی کیا ہے؟‘‘
حضرت زینبؓ نے فرمایا : خدا کا احسان ہے جس نے ہمیں خاندانِ نبوت میںپیدا کرکے شرف و بزرگی عطا فرمائی۔
ابن زیاد بولاکہ ’’دیکھو لو اپنے بھائی کا انجام جس نے اسے خاک میں ملا دیا۔ یہ ہے اس کی قدرتِ جلیلہ۔‘‘ اس کے جواب میں حضرت زین العابدینؓ نے یہ آیت ِکریمہ تلاوت کی
پھر کہا کہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارا اور تمہارا معاملہ احکم الحاکمین کے سامنے پیش ہوگا۔’’ قُلْ لَّوْ کُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقَتْلُ اِلی مَضَاجِعِھِمْ ‘‘
ابن زیاد نے جھلا کر پوچھا: یہ کون ہے؟ جب معلوم ہوا کہ حضرت حسین ؓ کا فرزند ہے تو فوراً حکم دے دیا کہ اسے قتل کردیا جائے۔ پھر بولا: میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ نسلِ حسین سے کوئی اولادِ ذکور باقی نہ رکھی جائے۔
اس حکم پرحضرت زینبؓ تڑپ گئیں اور فرمایا: ’’بدبخت ! کیا نسلِ محمدیؐ کو دنیا سے ناپید کرنا چاہتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ
اس دعا میں کچھ ایسا درد تھا کہ فوراً قبول ہوگئی اور ابن زیاد نے اپنا حکم واپس لے لیا۔یااللہ! تیرے رسول کا سب خاندان ان ظالموں کے ہاتھوں برباد ہوچکا۔ تیرے رسول کا نواسہ انتہائی مصائب اُٹھا کر شہید ہوگیا اور اب یہ شقی تیرے رسول کی نسل ہی قطع کرنے کے درپے ہے۔ فریاد ہے اے بے کسوں کے وارث! فریاد ہے۔ اپنی بندی کی سن اور اپنے رسولؐ کی نسل قائم رکھ!