عملی زندگی
قاری صاحب نے ۱۹۵۲ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ’’منشی فاضل‘‘ اور ۱۹۵۴ء میں ’’ مولوی فاضل ‘‘ کا امتحان پاس کیا۔ اور کچھ عرصہ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ قاری صاحب نے پرانی انار کلی چرچ روڈ پر دار العلوم اسلامیہ کی بنیاد رکھی، پھر اسی مدرسہ میں حضرت قاری عبد المالک سے تحصیل فن تجوید وقراء ت کے بعد المقری قاری اظہار احمد تھانوی بن گئے۔
استاد القراء مولانا قاری عبد المالک صاحب سے تھانہ بھون میں قاری صاحب کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ قاری اظہارصاحب تا عمر قاری عبد المالک صاحب کے عربی لہجے اور حسن قراء ت کو نہ بھول سکے ۔ دونوں حضرات ایک دوسرے سے بہت محبت رکھتے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تقریباً ایک طرح کے حالات میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔ دونوں کی وفات کا وقت ایک تھا اسکے علاوہ دونوں کی نماز جنازہ دو دفعہ پڑھی گئی۔
اک گل کے مرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام مچا
اک چہرہ کمھلا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے
قاری صاحب کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ انہوں نے تدریس کے پیشے کیلئے کسی فرقہ کی تخصیص نہیں کی۔ ۱۹۵۸ ء سے ۱۹۶۳ء تک مدرسہ اہل حدیث چینیانوالی مسجد میں بطور صدر مدرس کام کیا۔ ۱۹۶۳ء میں چینیانوالی میں مسجد سے علیحدگی اختیار کی اور جامع مسجد اور مدرسہ تجوید القرآن کے شعبہ تجوید کو رونق بخشی۔
قاری اظہار صاحب نے اپنی بقیہ عمر اسی مدرسہ میں تجوید القرآن ہی میں گزاری آپ کی آمد اس مدرسہ کے لئے بہت با برکت ثابت ہوئی اور آپ سے کسب فیض کرنے والوں نے بہت نام کمایا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو شخص علم کی دولت سے مالا مال تھا وہ شخص خانگی امور میں انتہائی پریشان رہا۔