قاری محمد ادریس عاصم
مولانا قاری اظہار احمد تھانوی کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ علم وعمل کا آفتاب تھے جو بھی ان کی مجلس میں آیا ان سے تعلق پر فخر کرتا تھا۔ اورعلم کی جھولیاں بھر کے لے جاتا تھا۔
نظر کے نور نے روشن کیا سینے کو
اب اہل درد ترستے ہیں اس قرینے کو
حضرت الاستاذ کو علامہ شاطبی ، علامہ جزری اور علامہ دانی کا حقیقی جانشین کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا، کیونکہ حقیقت میں قاری صاحب ان علماء کے علوم کے وارث ہیں۔ صرف راقم ہی نہیں دنیا بھر کے استاد، جو اپنے فن میں ماہر ہیں، حضرت الاستاذ کی تعریف میں رطب السان ہیں۔
حضرت الاستاذ مارچ؍۱۹۸۴ء میں بحیثیت جج پاکستان کی طرف سے نامزد ہو کر مکہ مکرمہ میں ہونے والے انٹرنیشنل مقابلہ حفظ قرآن والتجوید والتفسیر میں تشریف لے گئے۔ حضرت الاستاذ اپنے مخصوص پاکستانی لباس شیروانی ، شلوار اور جناح کیپ زیب تن کئے مقابلہ کے ہال میں تشریف لائے تو عجیب شان نظر آئی وضع قطع بار عب، باوقار انداز میں تلاوت فرمائی، ایسی عمدہ اور میٹھی آواز کہ دل جکڑے۔ نہ صرف ماہرین فن بلکہ اکابرین بھی آپ کی علمی شخصیت کے معترف تھے۔ جن میں مولانا قاری عبد العزیز شوقی صاحب، مولانا قاری محمد صدیق لکھنؤ صاحب مدظلہ ، مولانا قاری سید حسن شاہ صاحب ، مولانا قاری عبد الوہاب مکی، مولانا قاری محمد شریف صاحب شامل ہیں۔مولانا قاری حسین صاحب کو سیالکوٹ سے منعقدہ محفل قراء ات کے احوال لکھنے کا کہا گیا تو انہوں نے فوراً فرمایا:
’’ بھائی اس کے لئے تو قاری اظہار احمد سے رجوع کر و وہ عالم فاضل آدمی ہیں۔ نہایت ادیبانہ انداز میں محفل کی روئیداد تحریر کریں گے۔‘‘
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اکابر بھی حضرت الاستاذ کی علمی شخصیت کے معترف تھے۔ اکابرین کا ذکر آئے تو سب سے پہلے قاری صاحب کے دیرینہ رفیق الاستاد القراء حضرت قاری محمد صدیق ہیں۔ قاری صدیق فرماتے ہیں:
’’اللہ ان خادمین قرآن کو ثواب سے فیض یاب فرمائیں اور دوسرے لوگوں کو ان کے لب ولہجہ کو اپنانے کی توفیق دے۔ (آمین)