عامر لیاقت صاحب اپنے مسخرے پن کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے ۔ لیکن مذکورہ کالم ان کا کم ازکم مجھے بہت پسند آیا ہے ۔ تقریبا چار پانچ سال پہلے انہوں نے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بھی بہت اچھا لکھا تھا ۔
البتہ اختلاف کو ختم کرکے اتفاق کی دعوت دینے میں ذرا ’’ غلو ‘‘ کر گئے ہیں لیکن اس بات میں دو رائے نہیں ہونی چاہییں کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ’’ قوت ‘‘ پیدا کرنےکی ضرورت ہے۔
میرے خیال سے صرف ’’ اختلاف ‘‘ نقصان دہ نہیں وہ تو قرون اولی سے ہی چلا آرہا ہے ۔ ہاں اختلاف کے نتیجے میں جو ’’ عمل یا رد عمل ‘‘ ہوتا ہے اس میں نرمی لانے کی ضرورت ہے ۔
ویسے بھی ’’ اختلاف ‘‘ ختم کرنے پر وقت صرف کرنا یہ وقت کا صحیح استعمال نہیں ہوگا ۔اتحاد کی دعوت دینے والے کیا یہ سمجھتے ہیں کہ صحابہ کو برا بھلا کہنے والے اپنے موقف سے رجوع کرلیں گے یا پھر صحابہ کا دفاع کرنے والے ہتھیار ڈال دیں گے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہونےوالا ۔
ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کا حتی الامکان خیال رکھیں اور فساد سے بچیں ۔
ایک اور بڑا بنیادی مسئلہ ہےکہ ہر مسلک ، مذہب اورجماعت کی مقدس شخصیات ہوتی ہیں اور اسی طرح بالمقابل میں کچھ شخصیات کو ناپسندیدہ بھی سمجھا جاتا ہے ۔
مثلا شیعہ حضرات اہل بیت سے محبت کا دعوی اور صحابہ سےبغض کا اظہار کرتے ہیں جبکہ سنی حضرات تمام صحابہ (بشمول اہل بیت ) سے محبت کا دعوی کرتے ہیں جبکہ صحابہ کے دشمن مثلا ابو لؤلو ، ابن سباء وغیرہ وغیرہ سے نفرت کا اظہا رکرتے ہیں ۔
اب یہ تو سیدھی سے بات ہے کہ سنی ابو لؤلؤ کو ایصال ثواب کرنے سے تو رہے اسی طرح شیعہ حضرات صحابہ کرام کے گن گائیں اس کی بھی امید نہیں رکھنی چاہیے (الا التقیہ )
یہ ہونا چاہیے کہ ہر کوئی اپنی پسندیدہ شخصیات کی تعریف کرے لیکن اپنی ناپسندیدہ شخصیات ( جو کہ فریق مخالف کے لیے قابل احترام ہوسکتی ہیں ) کے خلاف بغض عناد کا اعلانیہ اظہار نہ کرے ۔
اسی طرح کسی کے خلاف ’’ رد عمل ‘‘ اس صورت میں نہیں ہونا چاہیے کہ وہ میری نا پسندیدہ شخصیات کی تعریف کیوں کر رہا ہے ؟
میں دو باتین کہنا چاہ رہا ہوں :
1۔ کسی کے ہاں قابل احترام شخصیات کو برا بھلا نہ کہیں اس دلیل سے کہ وہ آپ کے نزدیک نا پسندیدہ ہیں ۔
2۔ اگر کوئی شخص کسی ہستی کو قابل احترام سمجھتے ہیں تو اس پر نہ چڑھ دوڑیں کہ وہ ہستیاں آپ کے نزدیک نا پسندیدہ ہیں ۔
شیعہ سنی فساد میں بلکہ اس حالیہ سانحہ راولپنڈی میں بعض شیعہ حضرات نے حملے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ حضرات حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔ کہا گیا جناب حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پیارے ہیں تو سنیوں کے بھی تو چہیتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ توجواب ملاکہ جناب وہ یزید کی تعریف کر رہے تھے اس سے بڑی حسین رضی اللہ عنہ کی کیا گستاخی ہوسکتی ہے؟ لہذا جلوس نے حملہ کردیا ۔
اگر اسی طرح جمع تفریق کرکے ہم دشمنیاں اور حملے شروع کریں گے تو بات بہت بڑھ جائے گی ۔ اب کل کو کوئی سنی جا کر شیعوں پر حملہ کردے گا کہ جناب یہ ابولولو کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاتل ہے ۔ لیکن پھر یہی یزید کے حوالے دینے والے حضرات امن اور رواداری کا درس شروع کرلیں گے ۔