اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
کافی پوسٹ ہو گئیں آپ کی۔ اس لیے میں وقت کے حساب سے ایک ایک کا جواب دیتا جاؤں گا۔ ویسے بھی آج کل ایک تحقیق میں مصروف ہوں اور کل سے ان شاء اللہ ایک اور مصروفیت بھی سر پر ہے۔بات یہ ہے کہ تواتر کے حکم کے ایک فرد کے بارے میں استثناء ویسا ہے ہی نہیں جیسے آپ بیان فرما رہے ہیں۔ آپ کا بیان تب درست تھا جب تواتر سے ثابت ہو کہ:
زید، عمر، بکر ایسے ایسے کریں۔
اور خبر واحد ہو
بکر ایسے نہیں ویسے کرے۔
اب یہ خبر واحد ، متواتر کے "مخالف" ہے۔ کیونکہ دونوں براہ راست ٹکرا رہی رہیں۔ بکر کے لئے خصوصی طور پر متواتر میں کچھ اور حکم ہے اور خبر واحد میں کچھ اور۔
لیکن اگر تواتر یوں ہو:
تمام لوگ ایسے ایسے کریں۔
اور خبر واحد ہو
بکر ویسے کرے۔
اب یہ خبر واحد، متواتر کے "مخالف "نہیں ہے۔ بلکہ اگر یہ خبر کسی سچے نے دی ہے تو ہم اس کی بات کا یقین کریں گے کہ واقعتا یہ حکم بکر کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ تواتر میں "نام" لے کر کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ عمومی حکم ہے، اس سے استثناء عقلا و شرعا و عرفا بالکل ہو سکتا ہے۔اور یہ استثنا یہ ظاہر کرے گا کہ "تواتر میں موجود حکم بکر کے لئے تھا ہی نہیں"۔ خلاف اس کے کہ پہلی مثال میں تواتر میں بھی بکر کے لئے خصوصی حکم موجود تھا، اور بکر کا استثناء تواتر کی مخالفت کئے بغیر ممکن نہ تھا۔
اب آتے ہیں جواب کی طرف۔
جزاک اللہ خیرا۔ یہ افہام و تفہیم کا انداز مجھے بہت پسند ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ یہ اتنا دقیق مسئلہ ہے کہ تیرہ سو سال میں حل نہیں ہو سکا تو ابھی بھی اس کا حل ہونا مشکل ہی معلوم ہوتا ہے۔ بہر حال۔
ریڈیو یا ٹی وی پر موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف اعلان کرے کہ کل سے پورے ملک میں کرفیو ہے۔ کسی کو بھی نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور جو نکلا اسے بغیر کچھ پوچھے گولی مار دی جائے گی۔ یا چیف آف آرمی اسٹاف سے دو سو بندے آپ کو یہ بتائیں۔ اور صرف ایک لڑی جس میں ایک دوسرے سے اور دوسرا تیسرے سے اور تیسرا چیف آف آرمی اسٹاف سے یہ روایت کر رہا ہو کہ آپ کو اس کرفیو میں استثنا ہے۔ آپ نکل سکتے ہیں۔ آپ کے علم کے مطابق یہ روایت کرنے والے سچے بھی ہوں تب بھی کیا آپ باہر نکلیں گے؟ آپ کو یہ خیال نہیں ہوگا کہ بغیر کچھ پوچھے آپ کو گولی ماری جا سکتی ہے اگر یہ خبر غلط ہوئی؟ کیا آپ یہ نہیں سوچیں گے کہ ان سے غلطی بھی ہو سکتی ہے؟
اگر ایسا واقعی نہیں ہے تو پھر تو آپ تخصیص بھی کیجیے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن ایک عام انسان کے ساتھ ایسا لازمی ہوتا ہے۔
بس یہی مثال اس تخصیص ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد لوگ پوری دنیا کے لیے اللہ پاک کا عمومی قانون سنا رہے ہیں اور ایک شخص آپ کا استثنا بتا رہا ہے۔ تطبیق ہو سکے تو بہت مناسب۔ ورنہ پھر زیادہ امکان یہی ہے کہ اس شخص سے غلطی ہوئی ہے۔
ذرا سوچیں ایک شخص کے بارے میں صرف آپ اپنی معلومات کی بنا پر کہ اس کا حافظہ خراب ہے اس کی روایت چھوڑ دیتے ہیں۔ اور ایک شخص کی روایت کے خلاف قرآن آ رہا ہوتا ہے اور آپ اس سے غلطی کو نہیں تسلیم کرتے؟
میرے محترم بھائی۔ ایک تو اس بات پر امت کی اکثریت کا اجماع ہے کہ فلاں رقم جیسے ربع دینار سے کم میں ہاتھ نہیں کٹے گا۔ اجماع کا مطلب یہ کہ اس سے کم کا قول چند ایک نے ہی اختیار کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن کے سامنے قرآن نازل ہوا ہے انہوں نے اور ان سے آگے لینے والوں نے اس آیت کا یہ خاص محمل سمجھا ہے۔ اسے ہم اصطلاح میں یہ کہتے ہیں کہ اجماع قطعی ہوتا ہے۔اب اسی بات کو دوسرے ر خ سے دیکھیں۔
قرآن میں کوئی عمومی حکم آیا۔مثلا چور کے لئے کہ فاقطعو ایدیھما۔
اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے استثناء کر دیا کہ مثلا ربع دینار سے کم کی چوری کرنے والے چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔
قرآن کے عمومی الفاظ کو دیکھیں تو چونکہ ایک پیسے کی چوری کرنے والا بھی چور ہی کہلاتا ہے تو اس کے ہاتھ کٹنے چاہئیں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتواتر کے حکم کے ایک فرد کو اس سے مستثنیٰ کر دیا۔
اب یہ استثناء ایک امانت دار، سچے، حافظ ، عادل مسلمان کے ذریعے ہم تک پہنچا۔
کیا خیال ہے اسے قبول کریں یا رد کر دیں؟
لیکن ایک اور بات یہ عرض ہے کہ قرآن کریم نے کہا ہے السارق
اس کا مطلب ہے الذی سرق۔ یعنی جو چوری کرے۔
اب اگر ایک روایت بطریق خبر واحد آ جائے کہ فلاں قبیلہ اس ہاتھ کٹنے کے حکم سے مستثنی ہے تو کیا یہ روایت قبول ہوگی؟ ہرگز نہیں۔
لیکن دوسری طرف یہی آیت ما سرق اور ماالسرقۃ کے بارے میں مجمل ہے۔ یعنی اس میں اس بات کا ابہام ہے کہ جو بھی چوری کرے اس کی یہ سزا ہے لیکن وہ جو بھی کیا چوری کرے اس کی کوئی وضاحت نہیں۔ عموم کے لیے عموم کے الفاظ بھی ضروری ہوتے ہیں ورنہ ایسے تو ہم ہر چیز میں عموم نکالنا شروع کر دیں گے۔ الذی سرق کے عموم کے لیے تو "ال" یا "الذی" کے الفاظ ہیں۔ لیکن "ما سرق" کے لیے کون سا لفظ ہے جو عموم پر دلالت کرے؟
اس "ما سرق" کی وضاحت احادیث میں ہوئی ہے۔
آپ جو فرما رہے ہیں کہ ایک پیسے کی چوری کرنے والا بھی چور ہے یہ مفہوم سے نکال رہے ہیں۔ جب کہ عموم الفاظ سے نکالا جاتا ہے۔
جی یقینا ہے۔آپ کہتے ہیں کہ "ایک متواتر جماعت کے مخالف کسی فرد واحد کی بات کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟"
ہم کہتے ہیں کہ پہلے اس بنیادی سوال کو حل کریں:
- کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے عمومی حکم میں استثناء کا حق حاصل ہے یا نہیں؟
کیا صرف امکانات کی بنا پر قرآن کے ایک حکم یعنی اطلاق کو رد کیا جا سکتا ہے؟اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عام حکم کو مقید کیا ہو اور ہم تک وہ فقط خبر واحد ہی سے پہنچا ہو؟ جبکہ احادیث کا اکثر ذخیرہ اخبار آحاد پر ہی مشتمل ہے؟
پھر جب ایک روایت کوئی ضعیف راوی روایت کرتا ہے جس میں یہ امکان ہوتا ہے کہ صحیح روایت کی ہو اور ہم تک اسی ضعیف راوی سے پہنچی ہو تو اسے رد کیوں کر دیا جاتا ہے؟ جب کہ احادیث کا ایک بڑا حصہ ضعیف رواۃ کی روایت پر مشتمل ہے؟
جب آپ خود دونوں کو طریقہ مان رہے ہیں تو پھر حنفی اور اہلحدیث کو ایک طرف رکھ کر سوچیئے۔ جس کے نزدیک جو طریقہ زیادہ مناسب ہوگا وہی اختیار کرے گا۔ظاہر ہے یہ عین ممکن ہے بلکہ ایسا ہوا بھی ہے۔
کون سا طریقہ بہتر ہے۔ ؟ حنفی چشمہ ایک طرف رکھ کر انصاف سے فرمائیے۔
- اب ایک طریقہ یہ ہے کہ اس استثناء کو ایک ثقہ راوی کی گواہی کی بنا پر قبول کرلیا جائے کیونکہ دین کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اور ہم اسی حد تک مکلف ہیں جتنی ہماری استطاعت ہے۔
- دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فقط "امکان" کی بنا پر کہ راوی سے غلطی ہو گئی ہوگی، حدیث رسول کو رد کر دیا جائے۔
البتہ حدیث رسول کو رد نہیں کیا جاتا بلکہ وہ حدیث اس صورت میں ثابت نہیں ہو رہی ہوتی۔
میں آپ کے ہی طریقوں کو دوسرے رخ سے دکھاتا ہوں:۔
- ایک طریقہ یہ ہے کہ غلطی کے قوی امکان کی بنا پر اس حدیث کو ثابت نہ مانا جائے۔ جیسا کہ ضعیف راوی کی حدیث کو صرف غلطی کے قوی امکان کی بنا پر ثابت نہیں مانا جاتا۔
- دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک ثقہ راوی کی روایت کی بنا پر اس بات پر بھروسہ کرتے ہوئے کہ اللہ پاک اپنے دین کی خود حفاظت کر لے گا، ہم نے کیا کرنا ہے قرآن کے حکم میں تبدیلی کر دی جائے۔
اب ذرا کچھ اور عرض کرتا ہوں:۔
قرآن کریم میں ہے:
لا تخرجوہن من بیوتہن
یہاں ضمیر "ھن" عام ہے جو مطلقہ رجعیہ اور مطلقہ ثلاثہ بائنہ دونوں کو شامل ہے۔
عمر رض کے سامنے ایک صحابیہ فاطمہ بنت قیس رض کی روایت پیش کی گئی کہ وہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے کہا تھا کہ تیرے لیے نہ سکنی ہے اور نہ نفقہ جب کہ وہ مطلقہ ثلاث تھیں۔ بجائے اس کے کہ عمر رض ان کی روایت سے اس آیت میں مطلقہ ثلاث کی تخصیص کرتے آپ نے فرمایا:۔
ما كنا لندع كتاب ربنا وسنة نبينا -صلى الله عليه وسلم- لقول امرأة لا ندري أحفظت أم لا
سنن ابی داود، حدیث صحیح
"ہم ایسے نہیں کہ اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک ایسی عورت کے قول کی وجہ سے چھوڑ دیں کہ ہم نہیں جانتے کہ اس نے یاد رکھا ہے یا نہیں۔"
حالاں کہ یہاں فاطمہ بنت قیس رض کی روایت قرآن کے مخالف نہیں تھی بلکہ قرآن کے عموم میں تخصیص کر رہی تھی۔ بعد میں ان کی روایت کی صحابہ نے مختلف توجیہات کیں۔ لیکن عمر رض کے یہ الفاظ اس اصول کو بیان کرتے ہیں۔
اس حدیث کے چند طرق ذکر ہیں:۔
حدثنا نصر بن علي، أخبرني أبو أحمد، حدثنا عمار بن رزيق
عن أبي إسحاق، قال: كنت في المسجد الجامع مع الأسود، فقال: أتت فاطمة بنت قيس عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقال: ما كنا لندع كتاب ربنا وسنة نبينا -صلى الله عليه وسلم- لقول امرأة لا ندري أحفظت أم لا
سنن ابی داود
أخبرنا جرير، عن المغيرة، عن الشعبي، قال: قالت فاطمة بنت قيس: «طلقني زوجي ثلاثا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم يجعل لي سكنى ولا نفقة» قال المغيرة فأتيت إبراهيم فذكرت ذلك له، فقال لها السكنى والنفقة، فذكرت له ما قال الشعبي: قال: كان عمر يجعل لها ذلك، فقال عمر: لا ندع كتاب ربنا وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم بقول امرأة لا ندري لعلها حفظت أم نسيت
مسند اسحاق بن راہویہ
وحثنا يوسف، قثنا محمد بن كثير، عن سفيان بمثله، وزاد قال: فذكرت ذلك لإبراهيم قال عمر: لا ندع كتاب ربنا وسنة نبينا لقول امرأة لها السكنى والنفقة
مستخرج ابی عوانہ
حدثنا ابن مرزوق , قال أخبرنا محمد بن كثير , قال أخبرنا سفيان , عن سلمة , عن الشعبي , عن فاطمة , عن النبي صلى الله عليه وسلم «أنه لم يجعل لها حين طلقها زوجها سكنى ولا نفقة» . فذكرت ذلك لإبراهيم , فقال: قد رفع ذلك إلى عمر بن الخطاب فقال: «لا ندع كتاب ربنا عز وجل , وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم لقول امرأة , لها السكنى والنفقة»
شرح معانی الآثار
أخبرنا أبو بكرة , قال: ثنا أبو أحمد محمد بن عبد الله بن الزبير , قال: ثنا عمار بن رزيق , عن أبي إسحاق , قال: كنت عند الأسود بن يزيد في المسجد الأعظم , ومعنا الشعبي , فذكروا المطلقة ثلاثا. فقال الشعبي: حدثتني فاطمة بنت قيس: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لها: «لا سكنى لك ولا نفقة» . قال: فرماه الأسود بحصاة , قال: ويلك , أتحدث بمثل هذا , قد رفع ذلك إلى عمر بن الخطاب فقال: " لسنا بتاركي كتاب ربنا وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم بقول امرأة , لا ندري لعلها كذبت , قال الله تعالى {لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن} الآية
شرح معانی الآثار
وحدثناه محمد بن عمرو بن جبلة، حدثنا أبو أحمد، حدثنا عمار بن رزيق، عن أبي إسحاق، قال: كنت مع الأسود بن يزيد جالسا في المسجد الأعظم، ومعنا الشعبي، فحدث الشعبي بحديث فاطمة بنت قيس، «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لم يجعل لها سكنى ولا نفقة»، ثم أخذ الأسود كفا من حصى، فحصبه به، فقال: ويلك تحدث بمثل هذا، قال عمر: لا نترك كتاب الله وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم لقول امرأة، لا ندري لعلها حفظت، أو نسيت، لها السكنى والنفقة، قال الله عز وجل: {لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة}
صحیح مسلم
احناف کا یہ اصول کہ کتاب اللہ میں خبر واحد سے تخریج نہیں ہو سکتی صرف اتنا سا نہیں ہے۔ بلکہ اس کی پوری تفصیل اور گہرائی یہ ہے کہ کتاب اللہ کے الفاظ سندا و متنا قطعی ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی شبہ ممکن نہیں ہے جبکہ خبر واحد میں ذرا سا شبہ آ جاتا ہے چاہے وہ شبہ اس وجہ سے ہو کہ راوی سے سننے، سمجھنے یا یاد رکھنے میں غلطی ممکن ہے یا اس وجہ سے کہ حدیث میں روایت بالمعنی جائز ہے اور بسا اوقات ذرا سے الفاظ کے فرق سے بہت کچھ بدل جاتا ہے۔
اگر کسی وقت کتاب اللہ کی مراد ظنی ہو جائے جیسے اس میں خود کتاب اللہ سے ہی تخصیص ہو جائے یا کسی بھی وجہ سے خبر واحد قطعی ہو جائے تو کتاب اللہ میں اس سے تخصیص درست نہیں بلکہ لازم ہو جاتی ہے۔ یہ خبر قطعی اس طرح بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے راوی کثیر ہوں اور دیگر طرق سے بھی جیسے کوئی صحابی خود نبی ﷺ سے سنے تو وہ اس کے لیے قطعی ہے یا امت کا اس پر تعامل ہو جائے یا صحابہ وغیرہ اسے قبول کر لیں یا مجتہد تک ایسی سند سے پہنچا ہو جس میں شبہ کا امکان نہ ہو جیسے ابراہیم نخعی بغیر سند کے عبد اللہ بن مسعود رض سے روایت کریں وغیرہ۔ میں نے اپنے ذہن سے کچھ صورتیں بیان کی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ امام مدینہؒ اور امام اعظمؒ کا دور چونکہ صحابہ و تابعین کے انتہائی قریب ہے اس لیے وہ ان کے تعامل کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ اس لیے بہت سی احادیث جو ہمارے نزدیک صرف خبر واحد ہوتی ہیں ان کے نزدیک تعامل کی وجہ سے قطعی ہو جاتی ہیں کیوں کہ ظاہر ہے یہ عقل میں آنے والی بات نہیں ہے کہ صحابہ اور اجل تابعین نبی ﷺ کی اور صحابہ کی زندگی اور آپ کے فعل کو دیکھیں گے اور پھر اس کے خلاف کریں گے۔ نسخ وغیرہ کا امکان ہوتا ہے لیکن وہ بھی چند ایک میں ہوتا ہے کہ انہیں معلوم نہیں ہوا ہوگا۔ جماعت میں تو وہ بھی نہیں ہوتا۔
اس لیے احناف کا یہ اصول صرف سطحی یا سرسری نہیں ہے جو خبر واحد کو رد کرکے اپنا مسلک ثابت کرنے کے لیے بنایا گیا ہو بلکہ یہ انتہائی گہرائی رکھتا ہے۔
آپ کی دیگر پوسٹس کے جوابات بعد میں دوں گا ان شاء اللہ۔ ابھی تو وہ پڑھی بھی نہیں ہیں۔