محترم بھائی۔
تخصیص یا زیادتی کا مطلب ہوتا ہے کسی ایک چیز میں آئے ہوئے اطلاق یا عموم کو ختم کر کے اس میں قید پیدا کرنا۔
اب آپ بتائیں۔ اطلاق آئے تواترا اور قید آئے خبر واحد سے یا اطلاق آئے سب کے لیے عموما تواتر سے اور ایک شخص کا استثنا ہو جائے خبر واحد سے یعنی اس کے بارے میں صرف ایک شخص یہ کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں تواتر سے آنے والی خبر ثابت نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری جماعت تواتر سے ایک حکم ثابت کر رہی ہے جس میں مثال کے طور پر زید، عمرو، بکر سب کے بارے میں حکم شامل ہے اور ایک شخص خالد یہ روایت کر رہا ہے کہ یہ حکم زید کے بارے میں نہیں ہے۔ یعنی وہ تواتر کے حکم کے ایک فرد کے بارے میں حکم کے مخالف روایت کر رہا ہے تو اس کی روایت اس پوری متواتر جماعت کے مخالف کیسے قبول ہو سکتی ہے؟۔
عموم کی تخصیص کو معارض قرار دینا ہی اصل غلط فہمی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمام مردار حرام ہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیں کہ سمندر کا مردار حلال ہے اور یہ بات صحیح سند سے فقط ایک ہی روایت میں مروی ہو تو اس کی تخصیص بالکل جائز و درست ہوگی کیونکہ اصلا یہ روایت قرآن کے معارض ہوگی ہی نہیں۔ ہاں قرآن کی تبین و تشریح اور حکم کے اجمال کی توضیح قرار دی جا سکتی ہے ۔ ۔
خبر واحد جو ثقہ راویان سے ہم تک پہنچتی ہے وہ دین ہی ہے۔ اور ہم اسی حد تک مکلف ہیں جتنا ہماری استطاعت میں ہے۔ قرآن کے صریح قطعی الدلالۃ حکم رضاعت دو سال کو قیاس سے بدل دینے والوں کے لئے صحیح حدیث کو رد کرنے کا یہ خود ساختہ اصول کچھ اتنا عجیب نہیں لگتا ہوگا۔ ۔
بخاری کی روایت ہے:۔
لم يكذب إبراهيم إلا ثلاثا
لفظی ترجمہ یہ ہے: ابراہیم نے جھوٹ نہیں بولا مگر تین بار۔"
اس کذب کا اطلاق ابراہیمؑ پر کرنے کے بجائے اس میں تاویلات کیوں کی جاتی ہیں کہ جھوٹ نہیں ہوگا جھوٹ کی طرح ہوگا یا حالت طفولیت میں ہوگا اور ان کی اہلیہ ان کی اسلامی بہن ہوں گی وغیرہ؟
۔
اب آئیں ذرا آپ کے اصول کی طرف۔ "ابراہیمؑ کا استثنا صحیح سند سے ہو رہا ہے لہذا یہ رسولوں کے عام حکم سے مستثنی ہوں گے۔ پس ثابت ہوا کہ ابراہیم نے جھوٹ کہا ہے۔"
اس میں سب باتیں آپ کے اصول کی پائی جاتی ہیں۔ سند بھی صحیح ہے، عام حکم کے مخالف بھی نہیں کیوں کہ ایک شخص کا استثنا ہو رہا ہے۔ کیا آپ یہ جھوٹ ان کے لیے ثابت کریں گے؟
اور مزے کی بات یہ کہ یہاں صرف عقل کے ذریعے حدیث میں تاویل کی جارہی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
اور اگر ابن عقیل کی ہی تاویل کے مطابق یہ کہیں کہ یہ جھوٹ تو تھے لیکن حالت خوف میں ہونے کی وجہ سے جائز تھے تو پھر شیعوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ان کے اماموں کا تقیہ ناجائز ہے؟
یہ بعینہ وہی اعتراض ہے جو منکرین حدیث پیش کرتے ہیں ۔ الحمدللہ ایک دوسرے فورم پر منکرین حدیث کے اس اعتراض کا شافی جواب دیا تھا، جسے محترم کنعان بھائی نے یہاں محدث فورم پر بھی منتقل کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
http://forum.mohaddis.com/threads/ابوہریرہ-رضی-اللہ-عنہ-نے-بیان-کیا-کہ-ابراہیم-علیہ-السلام-نے-تین-مرتبہ-جھوٹ-بولا-تھا.20170/#post-156931
مختصراً عرض ہے کہ : حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جن تین باتوں کو حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ان میں سے دو باتیں خود قرآن ہی سے ثابت ہیں۔ لہٰذا یہ استثناء تو ویسے ہی درست نہ ہوا کیونکہ جو اعتراض آپ حدیث پر کر رہے ہیں، وہ حدیث سے پہلے خود قرآن پر جاری ہوتا ہے۔ دوسری بات کذب کے معنی میں جھوٹ کے علاوہ احتمالات موجود ہیں ، جس کی مفصل وضاحت درج بالا مراسلہ میں موجود ہے۔ تیسری بات اسے عموم اور استثناء قرار ہی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ قرآن نے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باقاعدہ نام لے کر انہیں سچا قرار دیا ہے۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَۚإِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (19:41)
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بےشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے۔
لہٰذا بدقسمتی سے آپ کی مثال یہاں بالکل فٹ نہیں آتی۔
آخری بات یہ کہ خبر واحد سے قرآن یا حدیث متواتر کی تخصیص وغیرہ کے اصول کو تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روایت و درایت کے تمام اصول بالائے طاق رکھ کر فوری فیصلہ دے دیا جائے۔ جمع و تطبیق، ناسخ و منسوخ، مختلف مفاہیم ، مختلف شان نزول یا مختلف مخاطبین کی بنیاد پر کئی دیگر طریقوں سے حدیث کو قبول کیا جاتا ہے۔ جہاں گنجائش ہو۔
اب دیکھئے جو اعتراض آپ ہم پر کر رہے ہیں۔ اگر ہم پلٹ کر آپ پر کر دیں کہ آپ کے اصول کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کا من چاہا مفہوم پہلے خود کشید کر لیں اور پھر صحیح حدیث کو اس وجہ سے رد کر دیں کہ وہ آپ کے پسندیدہ مفہوم کے خلاف کسی اور مفہوم کی جانب رہنمائی کر رہی ہے ۔ تو کیا یہ اعتراض درست ہوگا؟ حالانکہ یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ عملاً احناف کی اکثریت اسی روش میں مبتلا بھی ہے۔ حلالہ والا مسئلہ اس کی نہایت عمدہ مثال ہے۔
میرے محترم بھائی!
یہ ایک دقیق مقام ہے۔ میں اس پر آپ کو اور بھی کئی مثالیں دے سکتا ہوں لیکن میں آپ کو منوا نہیں سکتا۔ جس کا ذہن جس طرف جائے وہ اس کا مکلف ہے۔
بس اتنا یاد رکھیے کہ صرف سند ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ مسلم نے مقدمہ میں لکھا ہے:۔
حدثنا داود بن عمرو الضبي، حدثنا نافع بن عمر، عن ابن أبي مليكة، قال: كتبت إلى ابن عباس أسأله أن يكتب لي كتابا، ويخفي عني، فقال: «ولد ناصح أنا أختار له الأمور اختيارا، وأخفي عنه»، قال: فدعا بقضاء علي، فجعل يكتب منه أشياء، ويمر به الشيء، فيقول: «والله ما قضى بهذا علي إلا أن يكون ضل»
"علی رض کے فیصلے منگوائے اور ان سے چیزیں لکھنے لگے۔ اور کسی چیز پر سے گزر جاتے تھے اور کہتے تھے: قسم بخدا علی اس کا فیصلہ تب ہی کر سکتے ہیں جب وہ گمراہ ہوں۔"
یہاں دیکھیں۔ ابن عباس رض نے سند کی کوئی بحث نہیں کی۔ بس صرف عقل سے رد کر دیا۔ ظاہر ہے فیصلے کی ساری کتاب ایک ہی شخص نے لکھی ہوگی۔ اس کی بعض چیزیں قبول کر لیں اور بعض قبول نہیں کیں لیکن سند کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی۔
اس لیے صرف سند صحیح ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔
یہ بات جزوی طور پر بالکل درست ہے کہ سند صحیح ہی سب کچھ نہیں ہوتی،صحیح سند سے ایک روایت کے ثبوت کے بعد بھی محدثین کے ہاں روایت و درایت کے دیگر اصول ہیں، جن پر اس روایت کو پرکھا جا سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر اس کے قبول و رد کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن دوسری طرف اسی صحیح مسلم کے مقدمہ میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ بھی آپ ملاحظہ کریں کہ:
’’
الإسناد من الدین ولو لا الإسناد لقال من شاء ما شائ‘‘
’’اسناد دین کا حصہ ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو کوئی جو چاہتا کہہ دیتا۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم )
کیا آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں؟
باقی آپ کا ابن عباس کی مجمل و محمل بات سے یہ نتیجہ نکالنا کہ عقل کے زور پر صحیح احادیث کی تردید کی جا سکتی ہے، نہایت خطرناک بات ہے۔ اگر آپ واقعی یہ اصول رکھتے ہیں کہ عقل کی بنیاد پر اخبار آحاد کو رد کیا جا سکتا ہے تو وضاحت کیجئے ہم علیحدہ دھاگا ہی کھول لیتے ہیں پھر۔اور اگر یہ اصول نہیں تو پھر ابن عباس کی بات سے جو مفہوم آپ اخذ کر رہے ہیں وہ ثابت نہیں ہوتا، ورنہ اس کے آپ بھی اتنے ہی جواب دہ ہوں گے جتنے کہ ہم۔
محترم! مفتی صاحب کو اس استدلال کا کوئی جواب نہیں ملا۔ حالاں کہ یہ بہت واضح ہے اور میں پہلے بھی جواب دے چکا ہوں اس میں "عد" کا ذکر ہے اور "عد" افعال قلوب میں سے ہے۔ افعال قلوب کے ذریعے حدیث مرفوع کے حکم میں نہیں آتی کیوں کہ افعال قلوب پر تقریر رسول ﷺ موجود نہیں ہوتی۔ لہذا یہ ابن عمر رض کا اجتہاد ہے۔
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ثابت کیجیے۔
پھر وہی خلط مبحث۔ ہم نے آپ سے اس حدیث کا درست محل کب معلوم کیا ہے؟
ارے بھائی اعتراض کو سمجھیں پھر جواب دیں۔
چلیں آپ کو لولی لنگڑی کوئی تاویل سمجھ آ گئی ، لیکن اعتراض ہے تقی عثمانی صاحب پر، کہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس حدیث کا کوئی جواب نہیں ہے ان کے پاس۔ لیکن چونکہ یہ خبر واحد ہے لہٰذا اس سے قرآن پر زیادتی ممکن نہیں۔
اور تقی عثمانی صاحب نے فقط اس ایک زریں اصول کی بنیاد پر ایک صحیح حدیث کو رد کر دیا۔اب یا تو اصول غلط مانئے اور یا تقی عثمانی صاحب (اور ان جیسے دیگر فقیہان حرم ) کے نکتہ نظر سے ان کا دفاع پیش کیجئے۔ کہ کیا ان کا ایسے حدیث کو رد کرنا درست و جائز تھا؟
اب آپ کی تاویل پر بھی دو لفظ:
پہلی بات یہ کہ جیسے حلالہ والے مراسلے میں انس صاحب نے بدلائل وضاحت کی تھی کہ :
صحابی کا یہ کہنا
كنا نعده على عهد رسول الله سفاحاً سنتِ مبارکہ ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ معاشرتی مسئلہ ہے ۔ صحابی کا اجتہاد یا قلبی فعل نہیں کہ جی سے کچھ گھڑ کر بیان کر دیا ہو۔ اور خصوصا یہ کہنا کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حلالہ کو زنا سمجھتے تھے، اس میں اجتہاد کی گنجائش ہی نہیں۔ اور ان کا تفرد بھی نہیں کیونکہ یقینا ایک سے زائد صحابہ کا یہی عقیدہ رہا ہوگا۔اور صحابی اسی کی بنیاد پر نکاح حلالہ منعقد نہ ہونے کا فتویٰ جاری فرما رہے ہیں۔
تیسری بات یہ اگر واقعی آیت عموم پر ہے اور اس سے استثناء جائز ہی نہیں، تو پھر نکاح متعہ بھی ثابت ہوا۔ کیونکہ نکاح متعہ کی حرمت بھی خبر واحد ہی سے ثابت ہے۔بلکہ نکاح متعہ تو پھر کسی زمانے میں حلال بھی رہا ہے، نکاح حلالہ تو دور نبوی سے حرام و زنا ہی ہے۔
۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس قسم کے مقامات پر بڑے گناہ کا ذکر زجرا و تشدیدا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: لا ایمان لمن لا امانۃ لہ۔ "اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت نہیں۔"
آپ کا کیا خیال ہے جو امانت دار نہ ہو وہ کافر ہو جاتا ہے؟ جس طرح یہاں عدم ایمان کا ذکر صرف تشدیدا و زجرا ہے اسی طرح اس روایت میں بھی زنا کا ذکر زجرا و تشدیدا ہے۔
اگر ایک جگہ آپ نصوص سے قرینہ ڈھونڈ کر مراد بدل دیتے ہیں تو دوسری جگہ کیوں نہیں؟
یہ بھی احناف کی تاویلات باطلہ میں سے ایک باطل تاویل ہے۔۔جس کا بطلان خود حدیث کے الفاظ سے ثابت ہے۔
پہلے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے تردید کی کہ یہ نکاح نہیں ہوتا۔
پھر فرمایا کہ ہم دور نبوی میں اسے زنا گردانتے تھے۔
آپ نکاح منعقد نہ ہونے کو بطور زجر و تشدید مان لیں یا شریعت کا حکم مان لیں۔ دونوں صورتوں میں نکاح بہرحال منعقد نہیں ہوگا۔ ۔پھر زجرو تشدید کے لئے کوئی قرینہ ہو تو پیش کیجئے، جبکہ حدیث سے صریح سوال کا صریح جواب جو ملتا ہے، اہلحدیث اسی کو مانتے ہیں۔
آپ کی مثال میں امانت دار کے کافر نہ ہونے کے حق میں دیگر دلائل موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ نکاح حلالہ کے منعقد ہو جانے کے حق میں آخر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟
"جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جاوے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو"
بحث اس میں ہے کہ جمعہ ہونا کہاں ہے۔ یعنی جمعے کی اذان کہاں دی جائے گی۔ آیت میں ذکر فعل بعد کا ہے کہ جب جمعہ کی شرائط پائی جائیں اور جمعہ کی اذان دے دی جائے تب یہ کرو۔
مجھے بتائیے جمعہ کے لیے جماعت تو تمام فقہاء کے نزدیک شرط ہے۔ اور مزے کی بات اس پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔ پھر کیا یہ اس آیت کے خلاف ہے؟
اور آپ کا اپنا کیا مسلک ہے کہ جمعہ کے لیے کم از کم کتنے لوگ ہونے چاہئیں؟ اس پر کوئی دلیل بھی ہے آپ کے پاس؟
اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ یہ آیت شرائط جمعہ پائے جانے کے بعد کے عمل کے بارے میں ہے۔
غلط، اصل مسئلہ یہ نہیں کہ جمعہ ہونا کہاں ہے۔ عموم اس آیت میں خطاب کی وجہ سے ہے جو کہ آیت کے شروع میں یا ایھا المؤمنین کہہ کر تمام مومنوں سے کیا جا رہا ہے۔
اذان کا تذکرہ فقط وقت کے تعین کے لئے ہے۔ کہ جب اذان ہو تب خریدو فروخت چھوڑ کر دوڑو۔
ورنہ فرض کی حد تک تمام مؤمنین پر قرآن کی رو سے جمعہ یکساں طور پر فرض ہے
اگرفرضیت جمعہ کو اذان سے نتھی کیا جائے تو جس شخص تک اذان کی آواز نہ پہنچے اس سے جمعہ ہی ساقط ہو جائے گا اور اس کا تو کوئی بھی قائل نہیں۔
اب قرآن تو کہے کہ تمام مؤمن جمعہ کے لئے جائیں ،
اور آپ فرمائیں کہ دیہات والے جمعہ کو نہ جائیں۔
کس وجہ سے ؟ ایک حدیث (اثر علی) سے تخصیص کر کے۔ جبکہ خود آپ خبر واحد سے تخصیص کے روا دار نہیں۔
اس سب سے اور کچھ ثابت ہوا یا نہیں۔ یہ بات ضرور اظہر من الشمس ہو گئی کہ جہاں آپ کا مفاد ہو وہاں آیت و حدیث میں دور دراز کی کوڑی لا کر بھی جمع و تطبیق کا سامان پیدا کر لیتے ہیں۔جیسے دیہات میں جمعہ کا مسئلہ۔
اور جہاں مفاد بالعکس ہو ، وہاں قرآنی آیت کی سیدھی سیدھی توضیح میں بھی ہزار لیت و لعل کر کے حدیث کو رد کر دیتے ہیں، جیسے نکاح حلالہ۔