• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحيح البخاري - مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ - جلد ٤ - احادیث ۲۷۸۲سے ۳۷۷۵

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
165- بَابُ إِذَا فَزِعُوا بِاللَّيْلِ:
باب: اگر رات کے وقت دشمن کا ڈر پیدا ہو ( تو چاہئے کہ حاکم اس کی خبر لے )

حدیث نمبر: 3040
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَجْوَدَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْجَعَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَجَدْتُهُ بَحْرًا يَعْنِي الْفَرَسَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد نے بیان کیا ‘ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین ‘ سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رات کے وقت اہل مدینہ گھبرا گئے تھے ‘ کیونکہ ایک آواز سنائی دی تھی۔ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر جس کی پیٹھ ننگی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے تنہا اطراف مدینہ میں سب سے آگے تشریف لے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمواپس آ کر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملے تو تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ‘ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو اسے دریا کی طرح پایا۔ (تیز دوڑنے میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ گھوڑے کی طرف تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
166- بَابُ مَنْ رَأَى الْعَدُوَّ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا صَبَاحَاهْ. حَتَّى يُسْمِعَ النَّاسَ:
باب: دشمن کو دیکھ کر بلند آواز سے یا صباحاہ پکارنا تاکہ لوگ سن لیں اور مدد کو آئیں

حدیث نمبر: 3041
حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَخْبَرَهُ قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ ذَاهِبًا نَحْوَ الْغَابَةِ حَتَّى إِذَا كُنْتُ، ‏‏‏‏‏‏بِثَنِيَّةِ الْغَابَةِ لَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَيْحَكَ مَا بِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُخِذَتْ لِقَاحُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ أَخَذَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ غَطَفَانُ وَفَزَارَةُ فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا يَا صَبَاحَاهْ يَا صَبَاحَاهْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتَّى أَلْقَاهُمْ وَقَدْ أَخَذُوهَا فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَقُولُ أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ فَاسْتَنْقَذْتُهَا مِنْهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا فَأَقْبَلْتُ بِهَا أَسُوقُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ وَإِنِّي أَعْجَلْتُهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا سِقْيَهُمْ فَابْعَثْ فِي إِثْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ إِنَّ الْقَوْمَ يُقْرَوْنَ فِي قَوْمِهِمْ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو یزید بن ابی عبید نے خبر دی ‘ انہیں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں مدینہ منورہ سے غابہ (شام کے راستے میں ایک مقام) جا رہا تھا ‘ غابہ کی پہاڑی پر ابھی میں پہنچا تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک غلام (رباح) مجھے ملا۔ میں نے کہا ‘ کیا بات پیش آئی؟ کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودہیل اونٹنیاں (دودھ دینے والیاں) چھین لی گئیں ہیں۔ میں نے پوچھا کس نے چھینا ہے؟ بتایا کہ قبیلہ غطفان اور قبیلہ فزارہ کے لوگوں نے۔ پھر میں نے تین مرتبہ بہت زور سے چیخ کر یا صباحاہ ‘ یا صباحاہ کہا۔ اتنی زور سے کہ مدینہ کے چاروں طرف میری آواز پہنچ گئی۔ اس کے بعد میں بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھا ‘ اور ڈاکوؤں کو جا لیا ‘ اونٹنیاں ان کے ساتھ تھیں ‘ میں نے ان پر تیر برسانا شروع کر دیا ‘ اور کہنے لگا ‘ میں اکوع کا بیٹا سلمہ ہوں اور آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ آخر اونٹنیاں میں نے ان سے چھڑا لیں ‘ ابھی وہ لوگ پانی نہ پینے پائے تھے اور انہیں ہانک کر واپس لا رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھ کو مل گئے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ڈاکو پیاسے ہیں اور میں نے مارے تیروں کے پانی بھی نہیں پینے دیا۔ اس لیے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیج دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اے ابن الاکوع! تو ان پر غالب ہو چکا اب جانے دے ‘ درگزر کر وہ تو اپنی قوم میں پہنچ گئے جہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
167- بَابُ مَنْ قَالَ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ فُلاَنٍ:
باب: حملہ کرتے وقت یوں کہنا اچھا لے میں فلاں کا بیٹا ہوں

وَقَالَ سَلَمَةُ:‏‏‏‏ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ.
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے ڈاکوؤں پر تیر چلائے اور کہا ‘ لے میں اکوع کا بیٹا ہوں۔

حدیث نمبر: 3042
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْرَائِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلَ رَجُلٌ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عُمَارَةَ أَوَلَّيْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْبَرَاءُ وَأَنَا أَسْمَعُ أَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"لَمْ يُوَلِّ يَوْمَئِذٍ كَانَ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذًا بِعِنَانِ بَغْلَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا غَشِيَهُ الْمُشْرِكُونَ نَزَلَ فَجَعَلَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا رُئِيَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ أَشَدُّ مِنْهُ".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے ‘ ان سے اسرائیل نے ‘ ان سے ابواسحاق نے بیان کیا کہ انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا ‘ اے ابوعمارہ! کیا آپ لوگ حنین کی جنگ میں واقعی فرار ہو گئے تھے؟ ابواسحاق نے کہا میں سن رہا تھا ‘ براء رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اپنی جگہ سے بالکل نہیں ہٹے تھے۔ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب آپ کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ‘ جس وقت مشرکین نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ سواری سے اترے اور (تنہا میدان میں آ کر)فرمانے لگے میں اللہ کا نبی ہوں ‘ اس میں بالکل جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ براء نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر اس دن کوئی بھی نہیں تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
168- بَابُ إِذَا نَزَلَ الْعَدُوُّ عَلَى حُكْمِ رَجُلٍ:
باب: اگر کافر لوگ ایک مسلمان کے فیصلے پر راضی ہو کر اپنے قلعے سے اتر آئیں ؟

حدیث نمبر: 3043
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أُمَامَةَ هُوَ ابْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا نَزَلَتْ بَنُو قُرَيْظَةَ عَلَى حُكْمِ سَعْدٍ هُوَ ابْنُ مُعَاذٍ، ‏‏‏‏‏‏بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ قَرِيبًا مِنْهُ فَجَاءَ عَلَى حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ فَجَاءَ فَجَلَسَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَهُ إِنَّ هَؤُلَاءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنِّي أَحْكُمُ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ وَأَنْ تُسْبَى الذُّرِّيَّةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ الْمَلِكِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے ‘ ان سے ابوامامہ نے ‘ جو سہل بن حنیف کے لڑکے تھے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جب بنو قریظہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال کر قلعہ سے اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (سعد رضی اللہ عنہ کو) بلایا۔ آپ وہیں قریب ہی ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے (کیونکہ زخمی تھے) سعد رضی اللہ عنہ گدھے پر سوار ہو کر آئے ‘ جب وہ آپ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ (اور ان کو سواری سے اتارو) آخر آپ اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں (بنو قریظہ کے یہودی) نے آپ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ (اس لیے آپ ان کا فیصلہ کر دیں) انہوں نے کہا کہ پھر میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان میں جتنے آدمی لڑنے والے ہیں ‘ انہیں قتل کر دیا جائے ‘ اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
169- بَابُ قَتْلِ الأَسِيرِ وَقَتْلِ الصَّبْرِ:
باب: قیدی کو قتل کرنا اور کسی کو کھڑا کر کے نشانہ بنانا

حدیث نمبر: 3044
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "اقْتُلُوهُ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن جب شہر میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر خود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسے اتار رہے تھے تو ایک شخص (ابوبرزہ اسلمی) نے آ کر آپ کو خبر دی کہ ابن خطل (اسلام کا بدترین دشمن) کعبہ کے پردے سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے وہیں قتل کر دو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

170- بَابُ هَلْ يَسْتَأْسِرُ الرَّجُلُ وَمَنْ لَمْ يَسْتَأْسِرْ، وَمَنْ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ عِنْدَ الْقَتْلِ:
باب: اپنے تئیں قید کرا دینا اور جو شخص قید نہ کرائے اس کا حکم اور قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنا
حدیث نمبر: 3045
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّوَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي زُهْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ رَهْطٍ سَرِيَّةً عَيْنًا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْهَدَأَةِ وَهُوَ بَيْنَ عُسْفَانَ ومَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُمْ:‏‏‏‏ بَنُو لَحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ قَرِيبًا مِنْ مِائَتَيْ رَجُلٍ كُلُّهُمْ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمْ تَمْرًا تَزَوَّدُوهُ مِنْ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا تَمْرُ يَثْرِبَ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ فَلَمَّا رَآهُمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى فَدْفَدٍ وَأَحَاطَ بِهِمُ الْقَوْمُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا لَهُمْ:‏‏‏‏ انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَيْدِيكُمْ وَلَكُمُ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ وَلَا نَقْتُلُ مِنْكُمْ أَحَدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِيرُ السَّرِيَّةِ:‏‏‏‏ أَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ لَا أَنْزِلُ الْيَوْمَ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةٍ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ بِالْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ الْأَنْصَارِيُّ وابْنُ دَثِنَةَ وَرَجُلٌ آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَأَوْثَقُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الرَّجُلُ الثَّالِثُ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي فِي هَؤُلَاءِ لَأُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَى فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ عَلَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَأَبَى فَقَتَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبٍ وابْنِ دَثِنَةَ حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ خُبَيْبًا بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا. فَأَخْبَرَنِيعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِيَاضٍ أَنَّ بِنْتَ الْحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُمْ حِينَ اجْتَمَعُوا اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسَى يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ ابْنًا لِي وَأَنَا غَافِلَةٌ حِينَ أَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَوَجَدْتُهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فِي وَجْهِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ تَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ فِي يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيدِ وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرٍ وَكَانَتْ تَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَرِزْقٌ مِنَ اللَّهِ رَزَقَهُ خُبَيْبًا فَلَمَّا خَرَجُوا مِنَ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُمْ:‏‏‏‏ خُبَيْبٌ ذَرُونِي أَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَتَرَكُوهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ لَوْلَا أَنْ تَظُنُّوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَطَوَّلْتُهَا اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ فَقَتَلَهُ ابْنُ الْحَارِثِ فَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ لِكُلِّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ يَوْمَ أُصِيبَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ خَبَرَهُمْ وَمَا أُصِيبُوا وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ كُفَّارِ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ لِيُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ قَدْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَبُعِثَ عَلَى عَاصِمٍ مِثْلُ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمَتْهُ مِنْ رَسُولِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى أَنْ يَقْطَعَ مِنْ لَحْمِهِ شَيْئًا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ اس سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عمرو بن سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی ‘ وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے دوست ‘ انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس صحابہ کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے بھیجی ‘ اس جماعت کا امیر عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا اور جماعت روانہ ہو گئی۔ جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کو کسی نے خبر دے دی اور اس قبیلہ کے دو سو تیر اندازوں کی جماعت ان کی تلاش میں نکلی ‘ یہ سب صحابہ کے نشانات قدم سے اندازہ لگاتے ہوئے چلتے چلتے آخر ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ نے بیٹھ کر کھجوریں کھائی تھیں ‘ جو وہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ پیچھا کرنے والوں نے کہا کہ یہ (گٹھلیاں) تو یثرب (مدینہ) کی (کھجوروں کی) ہیں اور پھر قدم کے نشانوں سے اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ آخر عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب انہیں دیکھا تو ان سب نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی ‘ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے اتر آؤ ‘ تم سے ہمارا عہد و پیمان ہے۔ ہم کسی شخص کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ مہم کے امیر نے کہا کہ میں تو آج کسی صورت میں بھی ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ اے اللہ! ہماری حالت سے اپنے نبی کو مطلع کر دے۔ اس پر ان کافروں نے تیر برسانے شروع کر دئیے اور عاصم رضی اللہ عنہ اور سات دوسرے صحابہ کو شہید کر ڈالا باقی تین صحابی ان کے عہد و پیمان پر اتر آئے، یہ خبیب انصاری رضی اللہ عنہ ابن دثنہ رضی اللہ عنہ اور ایک تیسرے صحابی (عبداللہ بن طارق بلوی رضی اللہ عنہ) تھے۔ جب یہ صحابی ان کے قابو میں آ گئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کے تانت اتار کر ان کو ان سے باندھ لیا ‘ عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا ‘ بلکہ میں تو انہیں کا اسوہ اختیار کروں گا ‘ ان کی مراد شہداء سے تھی۔ مگر مشرکین انہیں کھنچنے لگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا جب وہ کسی طرح نہ گئے تو ان کو بھی شہید کر دیا۔ اب یہ خبیب اور ابن دثنہ رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر چلے اور ان کو مکہ میں لے جا کر بیچ دیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے۔ خبیب رضی اللہ عنہ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خرید لیا، خبیب رضی اللہ عنہ نے ہی بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ آپ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قیدی بن کر رہے، (زہری نے بیان کیا) کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی اور انہیں حارث کی بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے خبر دی کہ جب (ان کو قتل کرنے کے لیے) لوگ آئے تو زینب سے انہوں نے موئے زیر ناف مونڈنے کے لیے استرا مانگا۔ انہوں نے استرا دے دیا، (زینب نے بیان کیا) پھر انہوں نے میرے ایک بچے کو اپنے پاس بلا لیا ‘ جب وہ ان کے پاس گیا تو میں غافل تھی ‘ زینب نے بیان کیا کہ پھر جب میں نے اپنے بچے کو ان کی ران پر بیٹھا ہوا دیکھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا ‘ تو میں اس بری طرح گھبرا گئی کہ خبیب رضی اللہ عنہ بھی میرے چہرے سے سمجھ گئے انہوں نے کہا ‘ تمہیں اس کا خوف ہو گا کہ میں اسے قتل کر ڈالوں گا ‘ یقین کرو میں کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ اللہ کی قسم! کوئی قیدی میں نے خبیب سے بہتر کبھی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس میں سے کھا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی روزی تھی جو اللہ نے خبیب رضی اللہ عنہ کو بھیجی تھی۔ پھر جب مشرکین انہیں حرم سے باہر لائے ‘ تاکہ حرم کے حدود سے نکل کر انہیں شہید کر دیں تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی۔ پھر خبیب رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا ‘ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں (قتل سے) گھبرا رہا ہوں تو میں ان رکعتوں کو اور لمبا کرتا۔ اے اللہ! ان ظالموں سے ایک ایک کو ختم کر دے، (پھر یہ اشعار پڑھے) جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں ‘ تو مجھے کسی قسم کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ خواہ اللہ کے راستے میں مجھے کسی پہلو پر بھی پچھاڑا جائے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو اس جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے سکتا ہے جس کی بوٹی بوٹی کر دی گئی ہو۔ آخر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے ان کو شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ سے ہی ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے) دو رکعتیں مشروع ہوئی ہیں۔ ادھر حادثہ کے شروع ہی میں عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ (مہم کے امیر) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی تھی کہ اے اللہ! ہماری حالت کی خبر اپنے نبی کو دیدے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو وہ سب حالات بتا دیئے تھے جن سے یہ مہم دو چار ہوئی تھی۔ کفار قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم شہید کر دیئے گئے تو انہوں نے نے ان کی لاش کے لیے اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہو سکتی ہو۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کر دیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

171- بَابُ فَكَاكِ الأَسِيرِ:
باب: ( مسلمان ) قیدیوں کو آزاد کرانا

عَنْ أَبِي مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس بارے میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔



حدیث نمبر: 3046
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فُكُّوا الْعَانِيَ يَعْنِي الْأَسِيرَ وَأَطْعِمُوا الْجَائِعَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُودُوا الْمَرِيضَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا۔ ان سے منصور نے بیان کیا ‘ ان سے ابووائل نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «عاني» یعنی قیدی کو چھڑایا کرو ‘ بھوکے کو کھلایا کرو ‘ بیمار کی عیادت کرو۔



حدیث نمبر: 3047
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ أَنَّ عَامِرًا حَدَّثَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ مِنَ الْوَحْيِ إِلَّا مَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللَّهُ رَجُلًا فِي الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وأن لا يقتل مسلم بكافر.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ ان سے مطرف نے بیان کیا ‘ ان سے عامر نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا ‘ آپ حضرات (اہل بیت) کے پاس کتاب اللہ کے سوا اور بھی کوئی وحی ہے؟ آپ نے اس کا جواب دیا۔ اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو (زمین) چیر کر (نکالا) اور جس نے روح کو پیدا کیا ‘ مجھے تو کوئی ایسی وحی معلوم نہیں (جو قرآن میں نہ ہو) البتہ سمجھ ایک دوسری چیز ہے ‘ جو اللہ کسی بندے کو قرآن میں عطا فرمائے (قرآن سے طرح طرح کے مطالب نکالے) یا جو اس ورق میں ہے۔ میں نے پوچھا ‘ اس ورق میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ دیت کے احکام اور قیدی کا چھڑانا اور مسلمان کا کافر کے بدلے میں نہ مارا جانا (یہ مسائل اس ورق میں لکھے ہوئے ہیں اور بس)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

172- بَابُ فِدَاءِ الْمُشْرِكِينَ:
باب: مشرکین سے فدیہ لینا
حدیث نمبر: 3048

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رِجَالًا مِنْ الْأَنْصَارِ اسْتَأْذَنُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ ائْذَنْ فَلْنَتْرُكْ لِابْنِ أُخْتِنَا عَبَّاسٍ فِدَاءَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَدَعُونَ مِنْهَا دِرْهَمًا".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا ‘ ان سے موسیٰ بن عقبہ نے ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار کے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے اجازت چاہی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں اس کی اجازت دے دیں کہ ہم اپنے بھانجے عباس بن عبدالمطلب کا فدیہ معاف کر دیں ‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے فدیہ میں سے ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔



حدیث نمبر: 3049
وَقَالَ:‏‏‏‏ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ فَجَاءَهُ الْعَبَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِنِي فَإِنِّي فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "خُذْ فَأَعْطَاهُ فِي ثَوْبِهِ".
اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بحرین کا خراج آیا تو عباس رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس مال سے مجھے بھی دیجئیے کیونکہ (بدر کے موقع پر) میں نے اپنا اور عقیل دونوں کا فدیہ ادا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر آپ لے لیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے کپڑے میں نقدی کو بندھوا دیا۔



حدیث نمبر: 3050
حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ وَكَانَ جَاءَ فِي أُسَارَى بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ".
مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں محمد بن جبیر نے ‘ انہیں ان کے باپ (جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ) نے وہ بدر کے قیدیوں کو چھڑانے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے(وہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے) انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز میں سورۃ الطور پڑھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

173- بَابُ الْحَرْبِيِّ إِذَا دَخَلَ دَارَ الإِسْلاَمِ بِغَيْرِ أَمَانٍ:
باب: اگر حربی کافر مسلمانوں کے ملک میں بے امان چلا آئے تو اس کا مار ڈالنا درست ہے
حدیث نمبر: 3051

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَيْنٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَهُوَ فِي سَفَرٍ فَجَلَسَ عِنْدَ أَصْحَابِهِ يَتَحَدَّثُ ثُمَّ انْفَتَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "اطْلُبُوهُ وَاقْتُلُوهُ فَقَتَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَفَّلَهُ سَلَبَهُ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو عمیس عتبہ بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے ایاس بن سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے ‘ ان سے ان کے باپ (سلمہ رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفر میں مشرکوں کا ایک جاسوس آیا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ ہوازن کے لیے تشریف لے جا رہے تھے) وہ جاسوس صحابہ کی جماعت میں بیٹھا ‘ باتیں کیں ‘ پھر وہ واپس چلا گیا ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تلاش کر کے مار ڈالو۔ چنانچہ اسے (سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے) قتل کر دیا ‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہتھیار اور اوزار قتل کرنے والے کو دلوا دئیے۔
 
Top