بَابٌ : اَلإسْلاَمُ مَا هُوَ ؟ وَ بَيَانُ خِصَالِهِ
اسلام کیا ہے؟ اور اس کی خصلتوں کا بیان
(62) عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرَ الرَّأْسِ نَسْمَعُ دَوِيَّ صَوْتِهِ وَ لاَ نَفْقَهُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الإِسْلاَمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ فَقَالَ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ ؟ قَالَ لاَ إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ وَ صِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ ؟ فَقَالَ لاَ إِلاَّ أَنْ تَطَّوَّعَ وَ ذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الزَّكَاةَ فَقَالَ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا ؟ قَالَ لاَ إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ قَالَ فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَ هُوَ يَقُولُ وَاللَّهِ لاَ أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَ لاَ أُنْقِصُ مِنْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ وفِي رِوَايَةٍ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَفْلَحَ وَ أَبِيهِ إِنْ صَدَقَ أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَ أَبِيهِ إِنْ صَدَقَ
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجد والوں (نجد عرب میں ایک علاقہ ہے) میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آواز کی گنگناہٹ سنی جاتی تھی لیکن سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کہتا ہے، یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آیا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔'' وہ بولا کہ ان کے سوا میرے اوپر کوئی اور نماز (فرض) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' نہیں! مگر یہ کہ تو نفل پڑھنا چاہے اور رمضان کے روزے ہیں۔'' وہ بولا کہ مجھ پر رمضان کے سوا اور کوئی روزہ (فرض) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' نہیں مگر یہ کہ تو نفل روزہ رکھنا چاہے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کا بیان کیا تو وہ بولا کہ مجھ پر اس کے سوا اور کوئی زکوٰۃ (فرض) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' نہیں! مگر یہ کہ تو نفل ثواب کے لی ے صدقہ دینا چاہے۔'' راوی نے کہا کہ پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور کہتا جاتا تھا کہ اللہ کی قسم! میں نہ ان سے زیادہ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اگر یہ اپنے اس (بات کے) کہنے میں سچا ہے تو بے شک یہ کامیاب ہو گیا۔'' ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' قسم اس کے باپ کی کہ اگر یہ سچا ہے تو اس نے نجات پائی یا (یہ فرمایا) '' اس کے باپ کی قسم! اگر یہ (اپنی بات کے کہنے میں) سچا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گا۔ ''
وضاحت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: '' جو قسم اٹھانا چاہے تو وہ اﷲ کی قسم اٹھائے۔'' اور اس فرمان :'' یقینا اﷲ تمھیں باپ دادا کی قسم اٹھانے سے منع کرتاہے۔'' کے باوجود یہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باپ کی قسم کیوں اٹھائی ؟ تو اس سوال کے دو جواب ہیں کہ یہ قسم اٹھانا شاید منع کرنے سے پہلے کا واقعہ ہے یا پھر یہ بھی اہل عرب کی اس عادت کے مطابق ہے جو وہ کسی کے جواب میں عادتاً ایسے الفاظ کہہ دیتے تھے اور اس سے مراد کوئی قسم وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔ اس سے وہ حقیقی قسم مراد نہیں ہے جس میں اس کی بڑائی کا اظہار ہوتا ہے جس کی قسم اٹھائی جاتی ہے۔(محمود الحسن اسد)