- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
بَابٌ: بَدْئُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتدا
(74) عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةَ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَئُ فَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَائٍ يَتَحَنَّثُ فِيهِ (وَ هُوَ التَّعَبُّدُ ) اللَّيَالِيَ أُوْلاَتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَ يَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَ هُوَ فِي غَارِ حِرَائٍ فَجَائَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ أقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ { اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَق oخَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ oاقْرَأْ وَ رَبُّكَ الأَكْرَمُ o الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ } فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ ثُمَّ قَالَ لِخَدِيجَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا أَيْ خَدِيجَةُ مَا لِي وَ أَخْبَرَهَا الْخَبَرَ قَالَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ كَلاَّ أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لاَ يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا وَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَ تَحْمِلُ الْكَلَّ وَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَ تُقْرِي الضَّيْفَ وَ تُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَ رَقَةَ ابْنَ نَوْفَلِ ابْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى وَ هُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا أَخِي أَبِيهَا وَ كَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَ كَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ وَ يَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعَرَبِيَّةِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ وَ كَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا أَيْ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ قَالَ وَرَقَةُ بْنُ نَوْفَلٍ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَبَرَ مَا رَآهُ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ عَلَيْهِ السَّلاَمُِ يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَ وَ مُخْرِجِيَّ هُمْ ؟ قَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ وَ إِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًاعروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انھیں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے خبردی، انھوں نے کہا کہ پہلے پہل جو وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع ہوئی، وہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب سچے ہونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہوتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی کا شوق ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں اکیلے تشریف رکھتے، کئی کئی راتوں تک وہاں عبادت کیا کرتے اور گھر میں نہ آتے، اپنا توشہ ساتھ لے جاتے۔ پھر ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس لوٹ کر آتے اور وہ اتنا ہی اور توشہ تیار کر دیتیں، یہاں تک کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی توقع نہ تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی غار حرا میں تھے کہ فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ پڑھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں پڑھا ہوا نہیں۔ (آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)'' اس فرشتے نے مجھے پکڑ کر دبوچا، اتنا کہ وہ تھک گیا یا میں تھک گیا، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ '' پڑھ! اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔'' یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے اور گردن کے بیچ کا گوشت (ڈر اور خوف سے) پھڑک رہا تھا (چونکہ یہ وحی کا پہلا تجربہ و مرحلہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عادت نہ تھی، اس لیے ہیبت چھا گئی) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس پہنچے اور فرمایا:'' مجھے (کپڑوں سے) ڈھانپ دو، ڈھانپ دو۔'' انھوں ڈھانپ دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈرجاتا رہا ۔ اس وقت ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا:'' اے خدیجہ! مجھے کیا ہو گیا۔'' اور سب حال بیان کیا اور کہا کہ ''مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔'' ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا نے کہا ہرگز نہیں آپ خوش رہیں۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا یا کبھی رنجیدہ نہ کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ ناتے کو جوڑتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں (یعنی عیال او راطفال اور یتیم اور مسکین کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ان کا بار اٹھاتے ہیں) اور نادار کے لیے کمائی کرتے ہیں اور مہمان کی خاطرداری کرتے ہیں اور سچی آفتوں (جیسے کوئی قرض دار یا مفلس ہو گیا یا اور کسی تباہی) میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل ابن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس لے گئیں اور وہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا کے چچازاد بھائی تھے (کیونکہ ورقہ نوفل کے بیٹے تھے اور نوفل اسد کے بیٹے، اور ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا خویلد کی بیٹی تھیں اور خویلد اسد کے بیٹے تھے تو ورقہ اور خدیجہ کے کے باپ بھائی بھائی تھے) اور جاہلیت کے زمانہ میں وہ نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھنا جانتے تھے، تو جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور بہت بوڑھے تھے، ان کی بینائی (بڑھاپے کی وجہ سے) جاتی رہی تھی۔ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا نے ان سے کہا کہ اے چچا! (وہ چچا کے بیٹے تھے لیکن بزرگی کے لیے ان کو چچا کہا اور ایک روایت میں چچا کے بیٹے ہے) اپنے بھتیجے کی سنو۔ ورقہ نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تم نے کیا دیکھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیفیت دیکھی تھی سب بیان کی تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہ ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اتری تھی۔(ناموس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں) کاش !میں اس زمانہ میں جوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟'' ورقہ نے کہا ہاں! جب کوئی شخص دنیا میں وہ لے کر آیا، جسے تم لائے ہو (یعنی شریعت اور دین) تو لوگ اس کے دشمن ہو گئے اور اگر میں اس دن کو پاؤں گا تو اچھی طرح تمہاری مدد کروں گا۔''
(75) عَنْ يَحْيَى قَالَ سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ قَالَ { يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ } فَقُلْتُ أَوِ اقْرَأْ فَقَالَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ قَالَ { يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ } فَقُلْتُ أَوِ اقْرَأْ قَالَ جَابِرٌ أُحَدِّثُكُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ جَاوَرْتُ بِحِرَائٍ شَهْرًا فَلَمَّا قَضَيْتُ جَوَارِي نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَ خَلْفِي وَ عَنْ يَمِينِي وَ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِيتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِيتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا هُوَ عَلَى الْعَرْشِ فِي الْهَوَائِ يَعْنِي جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَأَخَذَتْنِي رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا فَقُلْتُ دَثِّرُونِي فَدَثَّرُونِي فَصَبُّوا عَلَيَّ مَائً فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ { يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَأَنْذِرْ o وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ o وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ }
یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ سے پوچھا کہ سب سے پہلے قرآن میں سے کیا اترا؟ انھوں نے کہا کہ {یٰٓـأَیُّھَا الْمدَثِّر} میں نے کہا کہ یا { اِقْرَأْ } (سب سے پہلے اتری؟) انھوں نے کہا کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کیا اترا تو انھوں نے کہا کہ { یٰٓـأَیُّھَا الْمدَثِّر} میں نے کہا کہ یا {اِقْرَأْ} (سب سے پہلے اتری؟) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں (غار) حرا میں ایک مہینے تک رہا۔ جب میری رہنے کی مدت پوری ہو گئی تو میں اترا اور وادی کے اندر چلا۔ کسی نے مجھے آواز دی، میں نے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں دیکھا، کوئی نظر نہ آیا۔ پھر مجھے کسی نے آواز دی، میں نے دیکھا مگر کسی کو نہ پایا۔ پھر کسی نے مجھے آواز دی تو میں نے سر اوپر پٹھاکر دیکھا تو وہ ہوا میں ایک تخت پر ہیں یعنی جبریل علیہ السلام ۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت (ہیبت کے مارے) لرزہ طاری ہوگیا۔تب میں خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو! انھوں نے کپڑا اوڑھا دیا اور پانی (ہیبت دور کرنے کے لیے) میرے اوپر ڈالا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ ''اے کپڑا اوڑھنے والے! کھڑا ہو جا اور آ گاہ کر دے اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھ ...۔'' (المدثر : ۱۔۴)۔