• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم (مختصر)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ: بَدْئُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتدا​
(74) عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةَ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَئُ فَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَائٍ يَتَحَنَّثُ فِيهِ (وَ هُوَ التَّعَبُّدُ ) اللَّيَالِيَ أُوْلاَتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَ يَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَ هُوَ فِي غَارِ حِرَائٍ فَجَائَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ أقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ { اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَق oخَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ oاقْرَأْ وَ رَبُّكَ الأَكْرَمُ o الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ } فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ ثُمَّ قَالَ لِخَدِيجَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا أَيْ خَدِيجَةُ مَا لِي وَ أَخْبَرَهَا الْخَبَرَ قَالَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ كَلاَّ أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لاَ يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا وَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَ تَحْمِلُ الْكَلَّ وَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَ تُقْرِي الضَّيْفَ وَ تُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَ رَقَةَ ابْنَ نَوْفَلِ ابْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى وَ هُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا أَخِي أَبِيهَا وَ كَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَ كَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ وَ يَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعَرَبِيَّةِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ وَ كَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا أَيْ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ قَالَ وَرَقَةُ بْنُ نَوْفَلٍ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَبَرَ مَا رَآهُ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ عَلَيْهِ السَّلاَمُِ يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَ وَ مُخْرِجِيَّ هُمْ ؟ قَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ وَ إِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا
عروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انھیں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے خبردی، انھوں نے کہا کہ پہلے پہل جو وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع ہوئی، وہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب سچے ہونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہوتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی کا شوق ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں اکیلے تشریف رکھتے، کئی کئی راتوں تک وہاں عبادت کیا کرتے اور گھر میں نہ آتے، اپنا توشہ ساتھ لے جاتے۔ پھر ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس لوٹ کر آتے اور وہ اتنا ہی اور توشہ تیار کر دیتیں، یہاں تک کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی توقع نہ تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی غار حرا میں تھے کہ فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ پڑھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں پڑھا ہوا نہیں۔ (آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)'' اس فرشتے نے مجھے پکڑ کر دبوچا، اتنا کہ وہ تھک گیا یا میں تھک گیا، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ '' پڑھ! اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔'' یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے اور گردن کے بیچ کا گوشت (ڈر اور خوف سے) پھڑک رہا تھا (چونکہ یہ وحی کا پہلا تجربہ و مرحلہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عادت نہ تھی، اس لیے ہیبت چھا گئی) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس پہنچے اور فرمایا:'' مجھے (کپڑوں سے) ڈھانپ دو، ڈھانپ دو۔'' انھوں ڈھانپ دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈرجاتا رہا ۔ اس وقت ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا:'' اے خدیجہ! مجھے کیا ہو گیا۔'' اور سب حال بیان کیا اور کہا کہ ''مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔'' ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا نے کہا ہرگز نہیں آپ خوش رہیں۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا یا کبھی رنجیدہ نہ کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ ناتے کو جوڑتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں (یعنی عیال او راطفال اور یتیم اور مسکین کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ان کا بار اٹھاتے ہیں) اور نادار کے لیے کمائی کرتے ہیں اور مہمان کی خاطرداری کرتے ہیں اور سچی آفتوں (جیسے کوئی قرض دار یا مفلس ہو گیا یا اور کسی تباہی) میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل ابن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس لے گئیں اور وہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا کے چچازاد بھائی تھے (کیونکہ ورقہ نوفل کے بیٹے تھے اور نوفل اسد کے بیٹے، اور ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا خویلد کی بیٹی تھیں اور خویلد اسد کے بیٹے تھے تو ورقہ اور خدیجہ کے کے باپ بھائی بھائی تھے) اور جاہلیت کے زمانہ میں وہ نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھنا جانتے تھے، تو جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور بہت بوڑھے تھے، ان کی بینائی (بڑھاپے کی وجہ سے) جاتی رہی تھی۔ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا نے ان سے کہا کہ اے چچا! (وہ چچا کے بیٹے تھے لیکن بزرگی کے لیے ان کو چچا کہا اور ایک روایت میں چچا کے بیٹے ہے) اپنے بھتیجے کی سنو۔ ورقہ نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تم نے کیا دیکھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیفیت دیکھی تھی سب بیان کی تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہ ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اتری تھی۔(ناموس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں) کاش !میں اس زمانہ میں جوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟'' ورقہ نے کہا ہاں! جب کوئی شخص دنیا میں وہ لے کر آیا، جسے تم لائے ہو (یعنی شریعت اور دین) تو لوگ اس کے دشمن ہو گئے اور اگر میں اس دن کو پاؤں گا تو اچھی طرح تمہاری مدد کروں گا۔''
(75) عَنْ يَحْيَى قَالَ سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ قَالَ { يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ } فَقُلْتُ أَوِ اقْرَأْ فَقَالَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ قَالَ { يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ } فَقُلْتُ أَوِ اقْرَأْ قَالَ جَابِرٌ أُحَدِّثُكُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ جَاوَرْتُ بِحِرَائٍ شَهْرًا فَلَمَّا قَضَيْتُ جَوَارِي نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَ خَلْفِي وَ عَنْ يَمِينِي وَ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِيتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِيتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا هُوَ عَلَى الْعَرْشِ فِي الْهَوَائِ يَعْنِي جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَأَخَذَتْنِي رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا فَقُلْتُ دَثِّرُونِي فَدَثَّرُونِي فَصَبُّوا عَلَيَّ مَائً فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ { يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَأَنْذِرْ o وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ o وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ }
یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ سے پوچھا کہ سب سے پہلے قرآن میں سے کیا اترا؟ انھوں نے کہا کہ {یٰٓـأَیُّھَا الْمدَثِّر} میں نے کہا کہ یا { اِقْرَأْ } (سب سے پہلے اتری؟) انھوں نے کہا کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کیا اترا تو انھوں نے کہا کہ { یٰٓـأَیُّھَا الْمدَثِّر} میں نے کہا کہ یا {اِقْرَأْ} (سب سے پہلے اتری؟) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں (غار) حرا میں ایک مہینے تک رہا۔ جب میری رہنے کی مدت پوری ہو گئی تو میں اترا اور وادی کے اندر چلا۔ کسی نے مجھے آواز دی، میں نے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں دیکھا، کوئی نظر نہ آیا۔ پھر مجھے کسی نے آواز دی، میں نے دیکھا مگر کسی کو نہ پایا۔ پھر کسی نے مجھے آواز دی تو میں نے سر اوپر پٹھاکر دیکھا تو وہ ہوا میں ایک تخت پر ہیں یعنی جبریل علیہ السلام ۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت (ہیبت کے مارے) لرزہ طاری ہوگیا۔تب میں خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو! انھوں نے کپڑا اوڑھا دیا اور پانی (ہیبت دور کرنے کے لیے) میرے اوپر ڈالا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ ''اے کپڑا اوڑھنے والے! کھڑا ہو جا اور آ گاہ کر دے اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھ ...۔'' (المدثر : ۱۔۴)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي كَثْرَةِ الْوَحْىِ وَ تَتَابُعِه
وحی کا کثرت سے اور لگا تار نازل ہونا​
(76) عَنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ تَابَعَ الْوَحْيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَبْلَ وَفَاتِهِ حَتَّى تُوُفِّيَ وَ أَكْثَرُ مَا كَانَ الْوَحْيُ يَوْمَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بے شک اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل پے درپے وحی اتاری حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور سب سے زیادہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن نازل ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : اَلإِسْرَائُ بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى السَّمَاوَاتِ وَ فَرْضُ الصَّلَوَاتِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا​
(77) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ وَ هُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَ دُونَ الْبَغْلِ يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ قَالَ فَرَكِبْتُهُ حَتَّى أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ قَالَ فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الأَنْبِيَائُ قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِإِنَائٍ مِنْ خَمْرٍ وَ إِنَائٍ مِنْ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَائِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قِيلَ وَ مَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَرَحَّبَ بِي وَ دَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَائِ الثَّانِيَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَ مَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم قِيلَ وَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِابْنَيِ الْخَالَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا فَرَحَّبَا وَ دَعَوَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَائِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَ مَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم قِيلَ وَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَ دَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَائِ الرَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قِيلَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَ مَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَرَحَّبَ وَ دَعَا لِي بِخَيْرٍ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَ رَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا } ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَائِ الْخَامِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَ مَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم قِيلَ وَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَرَحَّبَ وَ دَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَائِ السَّادِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قِيلَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَ مَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم قِيلَ وَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَرَحَّبَ وَ دَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ إِلَى السَّمَائِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَ مَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم قِيلَ وَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَ إِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ لاَ يَعُودُونَ إِلَيْهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَى السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَ إِذَا وَرَقُهَا كَآذَانِ الْفِيَلَةِ وَ إِذَا ثَمَرُهَا كَالْقِلاَلِ قَالَ فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشِيَ تَغَيَّرَتْ فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَى فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلاَةً فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ فَنَزَلْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ ؟ قُلْتُ خَمْسِينَ صَلاَةً قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ يُطِيقُونَ ذَلِكَ فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ خَبَرْتُهُمْ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي فَقُلْتُ يَا رَبِّ خَفِّفْ عَلَى أُمَّتِي فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقُلْتُ حَطَّ عَنِّي خَمْسًا قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لاَ يُطِيقُونَ ذَلِكَ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ قَالَ فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَكَ وَ تَعَالَى وَ بَيْنَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ حَتَّى قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ لِكُلِّ صَلاَةٍ عَشْرٌ فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلاَةً وَ مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةٌ فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا وَ مَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُكْتَبْ شَيْئًا فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً قَالَ فَنَزَلْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْتُ قَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میرے سامنے ایک سفید براق لایا گیا اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا، لمبا، گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا، اپنے سم وہاں رکھتا ہے جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے (تو ایک لمحہ میں آسمان تک جا سکتا ہے)۔'' فرمایا: ''میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا۔'' فرمایا:'' وہاں میں نے اس جانور کو اس حلقہ سے باندھ دیا، جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے (یہ حلقہ مسجد کے دروازے پر ہے اور باندھ دینے سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی چیزوں کی احتیاط اور حفاظت ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں) پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعت نماز پڑھی پھر باہر نکلا تو جبریل علیہ السلام دو برتن لے کر آئے، ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا۔ میں نے دودھ پسند کیا تو جبریل نے کہا، آپ نے فطرت کو پسند کیا۔ پھرجبریل علیہ السلام مجھے آسمان پر لے کر گئے، (جب وہاں پہنچے) تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، انھوں نے پوچھا کون ہے؟ جبریل نے کہا کہ جبریل ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے تھے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھولا گیا اور میں نے آدم علیہ السلام کو دیکھا تو انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبریل علیہ السلام ہمارے ساتھ دوسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ انھوں نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون شخص ہے؟ انھوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کو بلانے کا حکم ہوا تھا؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں حکم ہوا ہے۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو۔ ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لیے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبریل علیہ السلام ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا، تو فرشتوں نے کہا کہ کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کو ن ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا ان کو بلانے کے لیے پیغام گیا تھا؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں پیغام گیا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا۔ اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا۔ انھوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور نیک دعا کی۔ پھر جبریل علیہ السلام ہمیں لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا تو فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟جبریل علیہ السلام نے کہا کہ جبریل۔ انھوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کہ وہ بلوائے گئے ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریس علیہ السلام کو دیکھا۔ انھوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ اللہ جل جلالہ نے فرمایا ہے کہ ''ہم نے ادریس کو اونچی جگہ پر اٹھا لیا'' (تو اونچی جگہ سے یہی چوتھا آسمان مراد ہے)۔ پھر جبریل علیہ السلام ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے اور انھوں نے دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون؟ کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے سا تھ کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ہارون علیہ السلام کو دیکھا۔ انھوں نے مرحبا کہا اور مجھے نیک دعا دی۔ پھر جبریل علیہ السلام ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ انھوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ اللہ نے ان کو لے کر آنے کے لیے پیغام بھیجا تھا؟ جبریل علیہ السلام نے کہا، ہاں! بھیجا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا، انھوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ پھر جبریل علیہ السلام ہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ جبریل ہوں۔ پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلوائے گئے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ بیت المعمور سے اپنی پیٹھ کی ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا گناہ نہیں) اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں کہ پھر کبھی ان کی باری نہیں آئے گی۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے اتنے بڑے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور اس کے پھل قلال حجرجیسے۔ (ایک بڑا گھڑا جس میں دو مشک یا زیادہ پانی آتا ہے) پھر جب اس درخت کو اللہ تعالیٰ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی۔ پھر اللہ جل جلالہ نے میرے دل میں القاء کیا جو کچھ القاء کیا اور پچاس نمازیں رات اور دن میں مجھ پر فرض کیں۔ جب میں وہاں سے اترا اور موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہ تمہارے پروردگار نے تمہاری امت پر کیا فرض کیا؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو، کیونکہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا ہے۔ میں اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کی کہ اے پروردگار! میری امت پر تخفیف کر۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ میں لوٹ کر موسی ٰعلیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیں۔ انھوں نے کہا تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہوگی ، تم پھر اپنے رب کے پاس جاؤ اور تخفیف کراؤ۔'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں اسی طرح برابر اپنے پروردگار اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا، یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ اے محمد ! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں، اور ہر ایک نماز میں دس نمازوں کا ثواب ہے تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں۔ (سبحان اللہ! مالک کی اپنے بندوں پر کیسی عنایت ہے کہ پڑھیں تو پانچ نمازیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ملے) اور جو کوئی شخص نیک کام کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کرسکے، تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو کرے تو اس کو دس نیکیوں کا اور جو شخص برائی کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کرے، تو کچھ نہ لکھا جائے گا اور اگر کر لے تو ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے کہا کہ پھر اپنے رب کے پاس جاؤ اور تخفیف چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں اپنے رب کے پاس بار بارگیا ،یہاں تک کہ میں اس سے شرما گیا ہوں۔ (یعنی اب جانے سے شرماتا ہوں)۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : ذِكْرُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم الأَنْبِيَائَ عليهِمُ السَّلاَمُ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرنا​
(78) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَمَرَرْنَا بِوَادٍ فَقَالَ أَيُّ وَادٍ هَذَا ؟ فَقَالُوا وَادِي الأَزْرَقِ فَقَالَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَذَكَرَ مِنْ لَوْنِهِ وَ شَعَرِهِ شَيْئًا لَمْ يَحْفَظْهُ دَاوُدُ وَاضِعًا إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ لَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي قَالَ ثُمَّ سِرْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ثَنِيَّةٍ فَقَالَ أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ ؟ قَالُوا هَرْشَى أَوْ لَفْتٌ فَقَالَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَائَ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ خِطَامُ نَاقَتِهِ لِيفٌ خُلْبَةٌ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي مُلَبِّيًا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان چل رہے تھے کہ ایک وادی پر سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :'' یہ کون سی وادی ہے؟'' لوگوں نے کہا کہ وادی ازرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، (پھر موسیٰ علیہ السلام کا رنگ اور بالوں کا حال بیان کیا جو (راوی حدیث) داؤد بن ابی ہند کو یاد نہ رہا) جو انگلیاں اپنے کانوں میں رکھے ہوئے، بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی میں سے جا رہے ہیں۔'' سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم پھر چلے یہاں تک کہ ایک ٹیلے پر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہ کون سا ٹیلاہے؟ لوگوں نے کہا کہ ''ہرشٰی'' کا یا ''لفت '' کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' گویا کہ میں یونس علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ صوف کا ایک جبہ پہنے ہوئے ایک سرخ اونٹنی پر سوار ہیں اور ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے چھال کی ہے، وہ اس وادی میں لبیک کہتے ہوئے جا رہے ہیں۔ ''
(79) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم حِينَ أُسْرِيَ بِي لَقِيتُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَنَعَتَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَإِذَا رَجُلٌ حَسِبْتُهُ قَالَ مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوئَةَ قَالَ وَ لَقِيتُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَنَعَتَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَإِذَا رَيْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ يَعْنِي حَمَّامًا قَالَ وَ رَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَ أَنَا أَشْبَهُ وَلَدِهِ بِهِ قَالَ فَأُتِيتُ بِإِنَائَيْنِ فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ وَ فِي الآخَرِ خَمْرٌ فَقِيلَ لِي خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ فَقَالَ هُدِيتَ الْفِطْرَةَ أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''جب مجھے معراج کرائی گئی ،تو میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا۔'' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صورت بیان کی۔ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا (یہ شک راوی ہے) کہ ''وہ لمبے، چھریرے بدن والے، سیاہ بالوں والے جیسے شنوئۃ کے لوگ ہوتے تھے اور فرمایا:'' میں عیسیٰ علیہ السلام سے ملا۔'' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صورت بیان کی کہ وہ درمیانہ قد والے، سرخ رنگت والے جیسے کہ ابھی کوئی حمام سے نکلا ہو (یعنی ایسے تروتازہ اور خوش رنگ) تھے۔'' اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا، تو میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ ہوں۔'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب اور مجھ سے کہا گیا کہ جس کو چاہو پسند کر لو۔میں نے دودھ کا برتن لے لیا اور دودھ پیا تو اس (فرشتے نے جو یہ دونوں برتن لے کر آیا تھا) کہا کہ تم کو فطرت (ہدایت) کی راہ ملی یا تم فطرت (ہدایت) کو پہنچ گئے اور اگر تم شراب کو اختیار کرتے تو تمہاری امت گمراہ ہو جاتی۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي ذِكرِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَسِيْحَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَ الدَّجَّالَ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسیح عیسیٰ علیہ السلام اور دجال کا تذکرہ فرمانا​
(80) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمًا بَيْنَ ظَهْرَانَيِ النَّاسِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ أَلاَ إِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ عَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ قَالَ وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أُرَانِي اللَّيْلَةَ فِي الْمَنَامِ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ كَأَحْسَنِ مَا تَرَى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ رَجِلُ الشَّعْرِ يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَائً وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَ هُوَ بَيْنَهُمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا ؟ فَقَالُوا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ وَ رَأَيْتُ وَرَائَهُ رَجُلاً جَعْدًا قَطِطًا أَعْوَرَ عَيْنِ الْيُمْنَى كَأَشْبَهِ مَنْ رَأَيْتُ مِنَ النَّاسِ بِابْنِ قَطَنٍ وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کے درمیان مسیح دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: '' اللہ جل جلالہ کانا نہیں ہے اور مسیح دجال داہنی آنکھ سے کانا ہے۔ اس کی کانی آنکھ ایسی ہے جیسے پھولا ہوا انگور۔ (پس یہی ایک کھلی نشانی ہے اس بات کی کہ وہ مردود اپنے خدائی دعوے میں جھوٹا ہے)۔'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ایک رات خواب میں میں نے اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا کہ ایک گندمی رنگ کا شخص جیسے کوئی بہت اچھا گندمی رنگ کا شخص ہوتا ہے، اس کے بال کندھوں تک تھے اور بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی، سر میں سے پانی ٹپک رہا تھا اور وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مریم کے بیٹے مسیح ہیں اور ان کے پیچھے میں نے ایک اور شخص کو دیکھا جو کہ سخت گھونگھر یالے بالوں والا، داہنی آنکھ کا کانا تھا۔ میں نے جو لوگ دیکھے ان سب میں ابن قطن اس سے زیادہ مشابہ ہے، وہ بھی اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مسیح دجال ہے۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : صَلَّى النَّبيُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِالْأَنْبِيَائِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء علیھم السلام کو نماز پڑھانا​
(81) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ وَ قُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَائَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا فَكُرِبْتُ كُرْبَةً مَا كُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ قَالَ فَرَفَعَهُ اللَّهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ مَا يَسْأَلُونِي عَنْ شَيْئٍ إِلاَّ أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ وَ قَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الأَنْبِيَائِ فَإِذَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَائِمٌ يُصَلِّي فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوئَةَ وَ إِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمِ قَائِمٌ يُصَلِّي أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ وَ إِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَائِمٌ يُصَلِّي أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ يَعْنِي نَفْسَهُ فَحَانَتِ الصَّلاَةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلاَةِ قَالَ قَائِلٌ يَا مُحَمَّدُ ! هَذَا مَالِكٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّلاَمُ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں نے اپنے آپ کو حطیم میں دیکھا اور (دیکھا کہ) قریش مجھ سے میری سیر (معراج) کا حال پوچھ رہے تھے، تو انھوں نے بیت المقدس کی کئی چیزیں پوچھیں جن کو میں ذہن میں محفوظ نہیں رکھتا تھا۔ مجھے بڑا رنج ہوا، ایسا رنج کبھی نہیں ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے کر دیا، میں اس کو دیکھنے لگا اور اب جو بات وہ پوچھتے تو میں بتا دیتا تھا اور میں نے اپنے آپ کو پیغمبروں کی جماعت میں پایا، دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، وہ ایک درمیانہ قد اور گٹھے ہوئے جسم کے شخص ہیں جیسے کہ (قبیلہ) شَنُوئَةَ کے لوگ ہوتے ہیں۔ اورعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو بھی دیکھا کہ وہ بھی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، اور میں ان کے سب سے زیادہ مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کو پاتا ہوں اور دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، ان کے سب سے زیادہ مشابہ تمہارے صاحب (یعنی اپنے آپ کو مراد لیا) ہیں۔ اور پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کی اور سب پیغمبروں نے میرے پیچھے نماز پڑھی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ایک کہنے والا کہنے لگا کہ اے محمد ! یہ جہنم کا داروغہ ''مالک'' ہے اس کو سلام کرو۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے خود پہلے مجھے سلام کیا۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ: انْتِهَائُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى سِدْرَةِ المُنْتَهىَ فِي الإِسْرائِ
معراج (والی رات ) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا​
(82) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مسعودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم انْتُهِيَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَ هِيَ فِي السَّمَائِ السَّادِسَةِ إِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا يُعْرَجُ بِهِ مِنَ الأَرْضِ فَيُقْبَضُ مِنْهَا وَ إِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا يُهْبَطُ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا فَيُقْبَضُ مِنْهَا قَالَ { إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى } (النجم :16) قَالَ فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ فَأُعْطِيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلاَثًا أُعْطِيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ وَ أُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَ غُفِرَ لِمَنْ لَمْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ مِنْ أُمَّتِهِ شَيْئًا الْمُقْحِمَاتُ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا اور وہ چھٹے آسمان میں ہے۔ زمین سے جو چڑھتا ہے، وہ یہیں آ کر ٹھہر جاتا ہے پھر لے لیا جاتا ہے اور جو اوپر سے اترتا ہے، وہ بھی یہیں ٹھہرتا ہے پھر لے لیا جاتا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا:'' جبکہ سدرہ (بیری) کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو اس پر چھا رہی تھی'' (النجم :۱۶) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یعنی سونے کے پتنگے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں تین چیزیں دی گئیں۔ ایک تو پانچ نمازیں، دوسری سورئہ بقرہ کی آخری آیتیں اور تیسری اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اس شخص کو بخش دیا جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرے گا ، (باقی تمام تباہ کرنے والے گناہوں کو معاف کر دیا جاتاہے سوائے شرک کے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي قَوْلِهِ تَعَالَى :{ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى}
اللہ تعالیٰ کے فرمان {فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى } کا مطلب​
(83) عَن الشَّيْبَانِيِّ قَالَ سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم رَأَى جِبْرِيلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ
شیبانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے زِر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ''پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم۔'' (النجم :۹) کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ مجھ سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا تھا ، ان کے چھ سو پر تھے۔
(84) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى ... وَ لَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى } قَالَ رَآهُ بِفُؤَادِهِ مَرَّتَيْنِ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما اللہ تعالیٰ کے قول ''دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا ... اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا'' (النجم :۱۱۔۱۳ ) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کا یہ اپنا نقطہ ٔ نظر ہے) (م۔ع)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ: فِي رُؤْيَةِ اللهِ جَلَّ جَلاَلُهُ
اللہ جل جلالہ کے دیدار کے بیان میں​
(85) عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ كُنْتُ مُتَّكِئًا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا فَقَالَتْ يَا أَبَا عَائِشَةَ ثَلاَثٌ مَنْ تَكَلَّمَ بِوَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ قُلْتُ مَا هُنَّ ؟ قَالَتْ مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وسلم رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ قَالَ وَ كُنْتُ مُتَّكِئًا فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْظِرِينِي وَ لاَ تَعْجَلِينِي أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ { وَ لَقَدْ رَآهُ بِالأُفُقِ الْمُبِينِ}(التكوير : 23) {وَ لَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى} (النجم : 13) فَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا أَنَا أَوَّلُ هَذِهِ الأُمَّةِ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ إِنَّمَا هُوَ جِبْرِيلُ لَمْ أَرَهُ عَلَى صُورَتِهِ الَّتِي خُلِقَ عَلَيْهَا غَيْرَ هَاتَيْنِ الْمَرَّتَيْنِ رَأَيْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنَ السَّمَائِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَائِ و الأَرْضِ فَقَالَتْ أَوَ لَمْ تَسْمَعْ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ { لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ } (الانعام : 103) أَوَ لَمْ تَسْمَعْ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ { وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً... إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ } (الشورى :51) قَالَتْ وَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَتَمَ شَيْئًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ وَاللَّهُ يَقُولُ { يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ } (الْمائده :67) قَالَتْ وَ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يُخْبِرُ بِمَا يَكُونُ فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ وَاللَّهُ يَقُولُ { قُلْ لاَ يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ الْغَيْبَ إِلاَّ اللَّهُ } (النمل :56) وَ زَادَ دَاؤُدُ : قَالَتْ وَ لَوْ كَانَ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم كَاتِمًا شَيْئًا مِمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ لَكَتَمَ هَذِهِ الآيَةَ { وَ إِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَ تُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ } (الاحزاب : 37)
مسروق سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تکیہ لگائے ہوئے بیٹھا تھا تو انھوں نے کہا کہ اے ابوعائشہ! (یہ مسروق کی کنیت ہے) تین باتیں ایسی ہیں کہ جو کوئی ان کا قائل ہو، اس نے اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ میں نے کہا کہ وہ تین باتیں کونسی ہیں؟ انھوں نے کہا کہ (ایک یہ ہے کہ) جو کوئی سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق نے کہا کہ میں تکیہ لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور کہا کہ اے امّ المؤمنین! ذرا مجھے بات کرنے دو اور جلدی مت کرو۔ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا: ''اس نے اس کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔'' (التکویر: ۲۳) ''اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔'' (النجم : ۱۳) ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اس امت میں سب سے پہلے میں نے ان آیتوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ان آیتوں سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ میں نے ان کو ان کی اصلی صورت پر نہیں دیکھا سوائے دو بار کے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے تھے اور ان کے جسم کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک کے فاصلہ کو بھر دیا تھا۔'' پھر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''اس (اللہ) کو تو کسی کی نگاہ نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو دیکھ سکتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے'' (الانعام: ۱۰۳) کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے بے شک وہ برتر ہے حکمت والا ہے'' (الشوریٰ: ۵۱)؟ (دوسری یہ ہے کہ) جو کوئی خیال کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا، تو اس نے (بھی) اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''اے رسول ! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، پہنچا دیجیے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی'' (المائدہ : ۶۷)۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اور جو کوئی کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والی بات جانتے تھے (یعنی آئندہ کا حال) تو اس نے (بھی) اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ''(اے محمد !) کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب کی بات نہیں جانتا۔'' اور داؤد نے اتنا زیادہ کیا ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (یعنی قرآن) میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے جو کہ ان پر نازل کیا گیا ہے، (یعنی قرآن) تو اس آیت کو چھپاتے کہ ''(یاد کرو) جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا، جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھا، جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے۔'' (الاحزاب: ۳۷)
(86) عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لاَ يَنَامُ وَ لاَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَ يَرْفَعُهُ يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ وَ عَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ حِجَابُهُ النُّورُ وَ فِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ النَّارُ لَوْ كَشَفَهُ لِأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ایسی پانچ باتیں سنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۱) اللہ جل جلالہ سوتا نہیں اور سونا اس کے لائق ہی نہیں (کیونکہ سونا عضلات اور اعضائے بدن کی تھکاوٹ سے ہوتا اور اللہ تعالیٰ تھکن سے پاک ہے، دوسرے یہ کہ سونا غفلت ہے اور موت کے مثل ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے)۔(۲) اور وہی ترازو کو جھکاتا اور اس کو اونچا کرتا ہے۔(۳) اسی کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اٹھایا جاتا ہے۔(۴) اس کا پردہ نور ہے۔'' اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ اس کا پردہ آگ ہے۔ (۵)اگر وہ اس پردے کو کھول دے تو اس کے منہ کی شعائیں، جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے مخلوقات کو جلا دیں۔ ''
(87) عَن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّ نَاسًا قَالُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ ؟ قَالُوا لاَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ هَلْ تُضَارُّونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ ؟ قَالُوا لاَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْهُ فَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ وَ يَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ وَ يَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الطَّوَاغِيتَ الطَّوَاغِيتَ وَتَبْقَى هَذِهِ الأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى فِي صُورَةٍ غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا فَإِذَا جَائَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ تَعَالَى فِي صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ أَنْتَ رَبُّنَا فَيَتَّبِعُونَهُ وَ يُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ فَأَكُونُ أَنَا وَ أُمَّتِي أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ وَ لاَ يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلاَّ الرُّسُلُ وَ دَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ وَ فِي جَهَنَّمَ كَلاَلِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ هَلْ رَأَيْتُمُ السَّعْدَانَ ؟ قَالُوا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ غَيْرَ أَنَّهُ لاَ يَعْلَمُ مَا قَدْرُ عِظَمِهَا إِلاَّ اللَّهُ تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ فَمِنْهُمُ الْمُؤْمِنُ بَقِيَ بِعَمَلِهِ وَ مِنْهُمُ الْمُجَازَى حَتَّى يُنَجَّى حَتَّى إِذَا فَرَغَ اللَّهُ مِنَ الْقَضَائِ بَيْنَ الْعِبَادِ وَ أَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ بِرَحْمَتِهِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ أَمَرَ الْمَلاَئِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا مِمَّنْ أَرَادَ أَنْ يَرْحَمَهُ مِمَّنْ يَقُولُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَيَعْرِفُونَهُمْ فِي النَّارِ يَعْرِفُونَهُمْ بِأَثَرِ السُّجُودِ تَأْكُلُ النَّارُ مِنَ ابْنِ آدَمَ إِلاَّ أَثَرَ السُّجُودِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ فَيُخْرَجُونَ مِنَ النَّارِ وَ قَدِ امْتُحِشُوا فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَائُ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ مِنْهُ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ ثُمَّ يَفْرُغُ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْقَضَائِ بَيْنَ الْعِبَادِ وَ يَبْقَى رَجُلٌ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ عَلَى النَّارِ وَ هُوَ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولاً الْجَنَّةَ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ فَإِنَّهُ قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا وَ أَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا فَيَدْعُو اللَّهَ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَهُ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى هَلْ عَسَيْتَ إِنْ فَعَلْتُ ذَلِكَ بِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ ؟ فَيَقُولُ لاَ أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ وَ يُعْطِي رَبَّهُ مِنْ عُهُودٍ وَ مَوَاثِيقَ مَا شَائَ اللَّهُ فَيَصْرِفُ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ فَإِذَا أَقْبَلَ عَلَى الْجَنَّةِ وَرَآهَا سَكَتَ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ ثُمَّ يَقُولُ أَيْ رَبِّ قَدِّمْنِي إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ وَ مَوَاثِيقَكَ لاَ تَسْأَلُنِي غَيْرَ الَّذِي أَعْطَيْتُكَ ؟ وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ وَيَدْعُو اللَّهَ حَتَّى يَقُولَ لَهُ فَهَلْ عَسَيْتَ إِنْ أَعْطَيْتُكَ ذَلِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ ؟ فَيَقُولُ لاَ وَ عِزَّتِكَ فَيُعْطِي رَبَّهُ مَا شَائَ اللَّهُ مِنْ عُهُودٍ وَ مَوَاثِيقَ فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَإِذَا قَامَ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ انْفَهَقَتْ لَهُ الْجَنَّةُ فَرَأَى مَا فِيهَا مِنَ الْخَيْرِ وَالسُّرُورِ فَيَسْكُتُ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ ثُمَّ يَقُولُ أَيْ رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَهُ أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ وَ مَوَاثِيقَكَ أَنْ لاَ تَسْأَلَ غَيْرَ مَا أُعْطِيتَ ؟ وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ - فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ لاَ أَكُونُ أَشْقَى خَلْقِكَ فَلاَ يَزَالُ يَدْعُو اللَّهَ حَتَّى يَضْحَكَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِنْهُ فَإِذَا ضَحِكَ اللَّهُ مِنْهُ قَالَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ فَإِذَا دَخَلَهَا قَالَ اللَّهُ لَهُ تَمَنَّهْ فَيَسْأَلُ رَبَّهُ وَ يَتَمَنَّى حَتَّى إِنَّ اللَّهَ لَيُذَكِّرُهُ مِنْ كَذَا وَ كَذَا حَتَّى إِذَا انْقَطَعَتْ بِهِ الأَمَانِيُّ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى ذَلِكَ لَكَ وَ مِثْلُهُ مَعَهُ قَالَ عَطَائُ بْنُ يَزِيدَ وَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لاَ يَرُدُّ عَلَيْهِ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا حَتَّى إِذَا حَدَّثَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ اللَّهَ قَالَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ وَ مِثْلُهُ مَعَهُ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ عَشَرَةُ أَمْثَالِهِ مَعَهُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُوهُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا حَفِظْتُ إِلاَّ قَوْلَهُ ذَلِكَ لَكَ وَ مِثْلُهُ مَعَهُ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَشْهَدُ أَنِّي حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَوْلَهُ ذَلِكَ لَكَ وَ عَشَرَةُ أَمْثَالِهِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ ذَلِكَ الرَّجُلُ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولاً الْجَنَّةَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا قیامت کے روز ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا تم چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہو ؟ (یعنی اژدھام اور ہجوم کی وجہ سے) یا تمہیں چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے؟'' لوگوں نے کہا کہ نہیں یارسول اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' بھلا تمہیں سورج کے دیکھنے میں، جس وقت کہ بادل نہ ہو (اور مطلع صاف ہو) کچھ مشقت ہوتی ہے یا ایک دوسرے کو صدمہ پہنچاتے ہو ؟ لوگوں نے کہا نہیں یارسول اللہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' پھر اسی طرح (یعنی بغیر تکلیف، مشقت، زحمت اور اژدھام کے) تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ جو کوئی جس کی پوجا کرتا تھا اسی کے ساتھ ہو جائے۔ پھر جو شخص سورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور جو چاند کی پوجا کرتا تھا وہ چاند کے ساتھ اور جو طاغوت کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوت کے ساتھ ہو جائے گا۔ بس یہ امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) باقی رہ جائے گی جس میں منافق لوگ بھی ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس ایسی صورت میں آئے گا کہ جس کو وہ نہ پہچانیں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے کہ ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اور ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا پروردگار آئے گا تو ہم اس کو پہچان لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے ہوں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، تو وہ کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔ پھر وہ اس کے ساتھ ہو جائیں گے اور دوزخ کی پشت پر پل رکھا جائے گا تو میںا ور میری امت سب سے پہلے پار ہوں گے اور سوائے پیغمبروں کے اور کوئی اس دن بات نہ کر سکے گا اور پیغمبروں کا بول بھی اس وقت یہ ہو گا کہ یا اللہ! بچائیو! (یہ شفقت کی وجہ سے کہیں گے مخلوق پر) اور دوزخ میں کڑے ہیں (لوہے کے، جن کا سر ٹیڑھا ہوتا ہے اور تنور میں جب گوشت ڈالتے ہیں تو کڑوں میں لگا کر ڈالتے ہیں) جیسے سعدان جھاڑی کے کانٹے (سعدان ایک کانٹے دار جھاڑ ی ہے)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا:'' کیا تم نے سعدان جھاڑی دیکھی ہے؟'' انھوں نے کہا ہاں دیکھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' پس وہ سعدان کے آنکڑے کانٹوں کی شکل کے ہوں گے لیکن سوائے اللہ تعالیٰ کے یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کڑے کتنے بڑے بڑے ہوں گے۔ وہ لوگوں کو دوزخ میں گھسیٹیں گے (یعنی فرشتے ان کڑوں سے دوزخیوں کو گھسیٹ لیں گے) ان کے بدعملوں کی وجہ سے۔ اب بعض ان میں برباد ہوں گے جو اپنے بد عمل کے سبب سے برباد ہو جائیں گے اور بعض ان میں سے اپنے اعمال کا بدلا دیے جائیں گے، یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے سے فراغت پائے گا اور چاہے گا کہ دوزخ والوں میں سے جس کو چاہے اپنی رحمت سے نکالے، تو فرشتوں کو حکم دے گا دوزخ سے ہراس شخص کو نکالیں جس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو، جس پر اللہ نے رحمت کرنا چاہی ہو، جو کہ لاالٰہ الا اللہ کہتا ہوگا، تو فرشتے دوزخ میں ایسے لوگوں کو پہچان لیں گے اور وہ انھیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے۔ آگ آدمی کو جلا ڈالے گی سوائے سجدے کے نشان کی جگہ کے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر اس جگہ کا جلانا حرام کیا ہے۔ پھر وہ دوزخ سے جلے بھنے نکالے جائیں گے ، تب ان پر آب حیات چھڑکا جائے گا تو وہ تروتازہ ہو کر ایسے جم اٹھیں گے جیسے دانہ پانی کے بہاؤ میں جم اٹھتا ہے (پانی جہاں پر کوڑا کچرا مٹی بہا کرلاتا ہے وہاں دانہ خوب اگتا ہے اور جلد شاداب اور سرسبز ہو جاتا ہے اسی طرح وہ جہنمی بھی آب حیات ڈالتے ہی تروتازہ ہو جائیں گے اور جلن کے نشان بالکل جاتے رہیں گے) پھر جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے سے فارغ ہو گا اور ایک مرد باقی رہ جائے گا جس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا اور یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا ، وہ کہے گا کہ اے رب! میرا منہ جہنم کی طرف سے پھیر دے کیونکہ اس کی بو مجھے ایذا میں ڈالنے والی اور اس کی گرمی مجھے جلائے دے رہی ہے ۔ پھر اللہ سے دعا کرے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں تیرا سوال پورا کروں تو تو اور سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں، پھر میں کچھ سوال نہ کروں گا اور جیسے جیسے اللہ کو منظور ہوں گے وہ قول و اقرار کرے گا، تب اللہ تعالیٰ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے (جنت کی طرف) پھیر دے گا۔ جب جنت کی طرف اس کا منہ ہو گا تو جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا چپ رہے گا۔ پھر کہے گا کہ اے رب! مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو کیا کیا قول و اقرار کر چکا ہے کہ پھر میں دوسرا سوال نہ کروں گا، برا ہو تیرا، اے آدمی! تو کیسا دغا باز ہے؟ وہ کہے گا کہ اے رب! اور دعا کرے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی فرمائے گا کہ اچھا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں تو پھر تو اور کچھ مانگے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں قسم تیری عزت کی اور کیا کیا قول و اقرار کرے گا جیسے اللہ کو منظور ہوگا، آخراللہ تعالیٰ اس کو جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ جب وہاں کھڑا ہو گا تو ساری جنت اس کو دکھلائی دے گی اور جو کچھ اس میں نعمت یا خوشی اور فرحت ہے وہ سب۔ پھر ایک مدت تک جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ چپ رہے گا۔ اس کے بعد عرض کرے گا کہ اے رب! مجھے جنت کے اندر لے جا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے پختہ وعدہ اور اقرار نہیں کیا تھا کہ اب میں کچھ سوال نہ کروں گا؟ برا ہو تیرا اے آدم کے بیٹے! تو کیسا دھوکا باز ہے۔ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب! میں تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہیں ہوں گا اور دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ جل شانہ ہنس دے گا اور جب اللہ تعالیٰ کو ہنسی آجائے گی تو فرمائے گا کہ اچھا، جا جنت میں چلا جا۔ جب وہ جنت کے اندر جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ اب تو کوئی اور آرزو کر۔ وہ کرے گا اور مانگے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو یاد دلائے گا کہ فلاں چیز مانگ، فلاں چیز مانگ۔ جب اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو حق تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے یہ سب چیزیں تجھے دیں اور ان کے ساتھ اتنی ہی اور دیں۔ (یعنی اپنی خواہشوں سے دو گنا لے۔ سبحان اللہ ! کیا کرم اور رحمت ہے اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر اور اگر وہ کرم نہ کرے تو اور کون کرے؟ وہی مالک ہے وہی خالق ہے، وہی رازق ہے، وہی پالنے والا ہے) عطاء بن یزید نے کہا جو اس حدیث کے راوی ہیں کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بھی یہ حدیث روایت کرنے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے موافق تھے کہیں خلاف نہ تھے لیکن جب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور اتنی ہی اور دیں تو سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہنے کہا کہ اے ابو ہریرہ! اس کے مثل دس گنا اور بھی۔ تو سیدنا ابو ہریرہرضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے تو یہی بات یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا:'' ہم نے یہ سب تجھے دیں اور اتنی ہی اور دیں۔'' سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا:'' ہم نے یہ سب تجھے دیں اور دس حصے زیادہ دیں۔'' سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا :'' یہ وہ شخص ہے جو سب سے آخر میں جنت میں جائے گا (تو اور جنتیوں کومعلوم نہیں کیا کیا نعمتیں ملیں گی)۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ: خُرُوْجُ الْمُوَحَّدِيْنَ مِنَ النَّارِ
اللہ کی توحید کا اقرار کرنے والوں کا جہنم سے نکلنا​
(88) عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُهَا فَإِنَّهُمْ لاَ يَمُوتُونَ فِيهَا وَ لاَ يَحْيَوْنَ وَ لَكِنْ نَاسٌ أَصَابَتْهُمُ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ أَوْ قَالَ بِخَطَايَاهُمْ فَأَمَاتَهُمْ إِمَاتَةً حَتَّى إِذَا كَانُوا فَحْمًا أُذِنَ بِالشَّفَاعَةِ فَجِيئَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَ فَبُثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ ثُمَّ قِيلَ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ أَفِيضُوا عَلَيْهِمْ فَيَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَكُونُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ كَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ كَانَ بِالْبَادِيَةِ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''وہ لوگ جو جہنم والے ہیں (یعنی ہمیشہ وہاں رہنے کے لیے ہیں جیسے کافر اور مشرک) وہ تو نہ مریں گے نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے، اللہ تعالیٰ ان پر موت طاری کرے گا یہاں تک کہ وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں گے تو ان کے لیے شفاعت کی اجازت ہو گی اور یہ لوگ گروہ در گروہ لائے جائیں گے اور جنت کی نہروں پر پھیلائے جائیں گے اور حکم ہوگا کہ اے جنت کے لوگو! ان پر پانی ڈالو۔ تب وہ اس طرح سے اگیں گے جیسے دانہ اس مٹی میں اگتا ہے جس کو پانی بہا کر لاتا ہے۔'' (یہ سن کر) ایک شخص بولا کہ گویا یا رسول اللہ ! (معلوم ہوتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگل میں رہے ہیں (جبھی تو آپ کو یہ معلوم ہے کہ بہاؤ میں جو مٹی جمع ہوتی ہے اس میں دانہ خوب اگتا ہے)۔
(89) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ آخِرُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ فَهْوَ يَمْشِي مَرَّةً وَ يَكْبُو مَرَّةً وَ تَسْفَعُهُ النَّارُ مَرَّةً فَإِذَا مَا جَاوَزَهَا الْتَفَتَ إِلَيْهَا فَقَالَ تَبَارَكَ الَّذِي نَجَّانِي مِنْكِ لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ شَيْئًا مَا أَعْطَاهُ أَحَدًا مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ لِأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَ أَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا ابْنَ آدَمَ لَعَلِّي إِنْ أَعْطَيْتُكَهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا فَيَقُولُ لاَ يَا رَبِّ وَ يُعَاهِدُهُ أَنْ لاَ يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا وَ رَبُّهُ يَعْذِرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لاَ صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا وَ يَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الأُولَى فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ لِأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا وَ أَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا لاَ أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا فَيَقُولُ يَا ابْنَ آدَمَ أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لاَ تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا ؟ فَيَقُولُ لَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا فَيُعَاهِدُهُ أَنْ لاَ يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا وَ رَبُّهُ يَعْذِرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لاَ صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا وَ يَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الأُولَيَيْنِ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ لِأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَ أَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا لاَ أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا فَيَقُولُ يَا ابْنَ آدَمَ أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لاَ تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا ؟ قَالَ بَلَى يَا رَبِّ هَذِهِ لاَ أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا وَ رَبُّهُ يَعْذِرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لاَ صَبْرَ لَهُ عَلَيْهَا فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَإِذَا أَدْنَاهُ مِنْهَا فَيَسْمَعُ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ أَدْخِلْنِيهَا فَيَقُولُ يَا ابْنَ آدَمَ مَا يَصْرِينِي مِنْكَ ؟ أَيُرْضِيكَ أَنْ أُعْطِيَكَ الدُّنْيَا وَ مِثْلَهَا مَعَهَا ؟ قَالَ يَا رَبِّ أَ تَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَ أَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ فَضَحِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَلآ تَسْأَلُونِي مِمَّ أَضْحَكُ ؟ فَقَالُوا مِمَّ تَضْحَكُ ؟ قَالَ هَكَذَا ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا مِمَّ تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ مِنْ ضِحْكِ رَبِّ الْعَالَمِينَ حِينَ قَالَ أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَ أَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ فَيَقُولُ إِنِّي لاَ أَسْتَهْزِئُ مِنْكَ وَ لَكِنِّي عَلَى مَا أَشَائُ قَادِرٌ
سیدنا انس اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سب سے آخر میں جو شخص جنت میں جائے گا، وہ ایک ایسا شخص ہو گا جو چلے گا، پھر اوندھا گرے گا اور جہنم کی آگ اس کو جلاتی جائے گی۔ جب دوزخ سے پار ہو جائے گا، تو پیٹھ موڑ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ (جہنم) سے نجات دی۔ بے شک جتنا اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اتنا اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھلائی دے گا، وہ کہے گا کہ اے رب! مجھے اس درخت کے نزدیک کر دے تاکہ میں اس کے سایہ میں رہوں اور اس کا پانی پیوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو تو اور بھی سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں اے میرے رب! اورعہد کرے گا کہ پھر میں کوئی سوال نہ کروں گا اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا، اس لیے کہ وہ ایسی نعمت کو دیکھے گا جس پر اس سے صبرنہیں ہو سکتا (یعنی انسان بے صبرا ہے جب وہ تکلیف میں مبتلا ہو اور عیش کی بات دیکھے تو بے اختیار اس کی خواہش کرتا ہے)۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا اور وہ اس کے سایہ میں رہے گا اور وہاں کا پانی پیے گا۔ پھر اس کو ایک اور درخت دکھلائی دے گا، جو اس سے بھی اچھا ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے پروردگار مجھے اس درخت کے نزدیک پہنچا دے تاکہ میں اس کے سائے میں جاؤں اور اس کا پانی پیوں اور میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے عہد نہیں کیا تھا کہ میں پھر سوال نہ کروں گا؟ اور اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو پھر تو اور سوال کرے گا۔ وہ اقرار کرے گا کہ نہیں پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لیے کہ اس کو اس نعمت پر، جو وہ (شخص) دیکھتا ہے، صبر نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا، وہ اس کے سائے میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھائی دے گا جو جنت کے دروازے پر ہو گا اور وہ پہلے کے دونوں درختوں سے بہتر ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دے تاکہ میں اس کے نیچے سایہ میں رہوں اور وہاں کا پانی پیوں، اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو اقرار نہ کر چکا تھا کہ اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا؟ وہ کہے گا کہ بے شک میں اقرار کرچکا تھا، لیکن اب میرا یہ سوال پورا کر دے، پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لیے کہ وہ ان نعمتوں کو دیکھے گا جن پر وہ صبر نہیں کر سکتا۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس کردے گا۔ جب وہ اس درخت کے پاس جائے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! تیرے سوال کو کون سی چیز پورا کرے گی؟ (یعنی تیری خواہش کب موقوف ہوگی اور یہ بار بار سوال کرنا کیسے بند ہو گا) بھلا تو اس پر راضی ہے کہ میں تجھے ساری دنیا کے برابر(جنت) دے کر اتنا ہی اور دوں؟ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! تو سارے جہاں کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے اور لوگوں سے کہا کہ تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنستا ہوں؟ لوگوں نے پوچھا کہ تم کیوں ہنستے ہو؟ تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (اس حدیث کو بیان کر کے) اسی طرح ہنسے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یارسول اللہ ! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:'' رب العالمین کے ہنسنے سے، میں بھی ہنستا ہوں، جب وہ بندہ یہ کہے گا کہ تو سارے جہان کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ تو پرودرگار ہنس دے گا (اس کی نادانی اور بیوقوفی پر) اور اللہ فرمائے گا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا (مذاق کرنا میرے لائق نہیں وہ بندوں کے لائق ہے) بلکہ میں جو چاہتا ہوں کر سکتا ہوں۔ ''
(90) عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُسْأَلُ عَنِ الْوُرُودِ فَقَالَ نَجِيئُ نَحْنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَنْ كَذَا وَ كَذَا انْظُرْ أَيْ ذَلِكَ فَوْقَ النَّاسِ قَالَ فَتُدْعَى الأُمَمُ بِأَوْثَانِهَا وَ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ ثُمَّ يَأْتِينَا رَبُّنَا بَعْدَ ذَلِكَ فَيَقُولُ مَنْ تَنْظُرُونَ ؟ فَيَقُولُونَ نَنْظُرُ رَبَّنَا فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَيْكَ فَيَتَجَلَّى لَهُمْ يَضْحَكُ قَالَ فَيَنْطَلِقُ بِهِمْ وَ يَتَّبِعُونَهُ وَ يُعْطَى كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مُنَافِقٍ أَوْ مُؤْمِنٍ نُورًا ثُمَّ تَّبِعُونَهُ وَ عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ كَلاَلِيبُ وَ حَسَكٌ تَأْخُذُ مَنْ شَائَ اللَّهُ ثُمَّ يُطْفَأُ نُورُ الْمُنَافِقِينَ ثُمَّ يَنْجُو الْمُؤْمِنُونَ فَتَنْجُو أَوَّلُ زُمْرَةٍ وُجُوهُهُمْ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ سَبْعُونَ أَلْفًا لاَ يُحَاسَبُونَ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ كَأَضْوَإِ نَجْمٍ فِي السَّمَائِ ثُمَّ كَذَلِكَ ثُمَّ تَحِلُّ الشَّفَاعَةُ وَ يَشْفَعُونَ حَتَّى يَخْرُجَ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً فَيُجْعَلُونَ بِفِنَائِ الْجَنَّةِ وَ يَجْعَلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ يَرُشُّونَ عَلَيْهِمُ الْمَائَ حَتَّى يَنْبُتُوا نَبَاتَ الشَّيْئِ فِي السَّيْلِ وَ يَذْهَبُ حُرَاقُهُ ثُمَّ يَسْأَلُ حَتَّى تُجْعَلَ لَهُ الدُّنْيَا وَ عَشَرَةُ أَمْثَالِهَا مَعَهَا
ابوالزبیر نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے قیامت کے دن لوگوں کے آنے کے حال کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم قیامت کے دن اس طرح سے آئیں گے یعنی کہ اوپر سب آدمیوں کے۔ پھر سب امتیں اپنے اپنے بتوں اور معبودوں کے ساتھ پکاری جائیں گی۔ پہلی امت، پھر دوسری امت۔ اس کے بعد ہمارا پروردگار آئے گا اور فرمائے گا کہ تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ (یعنی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمائے گا) وہ کہیں گے کہ ہم اپنے پرودرگار کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہارا مالک ہوں۔ وہ کہیں گے ہم تجھ کو دیکھیں گے تو تب (معلوم ہوگا) پھراللہ ان کو ہنستا ہوا دکھائی دے گا اور ان کے ساتھ چلے گا اور سب لوگ اس کے پیچھے ہوں گے اور ہرا یک آدمی کوخواہ وہ منافق ہو یا مومن، ایک نور ملے گا۔ لوگ اس کے ساتھ ہوں گے اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور کانٹے ہوں گے، وہ پکڑ لیں گے جن کو اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور مومن نجات پائیں گے۔ تو پہلا گروہ مومنوں کا (جو ہو گا) ان کے منہ چودھویں رات کے چاند کے سے ہوں گے (وہ گروہ) ستر ہزار آدمیوں کا ہوگا جن سے حساب و کتاب نہ ہوگا۔ ان کے بعد کے گروہ کے چہرے خوب چمکتے ستارے کی طرح ہوں گے۔ پھر ان کے بعد کے گروہ ان سے کم، یہاں تک کہ شفاعت کا وقت آجائے گا اور لوگ شفاعت کریں گے اور جہنم سے وہ شخص بھی نکالا جائے گا جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر بھی نیکی اور بہتری تھی۔ یہ لوگ جنت کے صحن میں ڈال دیے جائیں گے اور جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکیں گے (جس سے) وہ اس طرح اگیں گے جیسے جھاڑ پانی کے بہاؤ میں اگتا ہے۔ اور ان کی سوز جلن بالکل جاتی رہے گی۔ پھر وہ اللہ سے سوال کریں گے اور ہر ایک کو اتنا ملے گا جیسے ساری دنیا بلکہ اس کے ساتھ دس گنا اور بھی۔ ''
(91) عَنْ يَزِيْدَ الْفَقِيرِ قَالَ كُنْتُ قَدْ شَغَفَنِي رَأْيٌ مِنْ رَأْيِ الْخَوَارِجِ فَخَرَجْنَا فِي عِصَابَةٍ ذَوِي عَدَدٍ نُرِيدُ أَنْ نَحُجَّ ثُمَّ نَخْرُجَ عَلَى النَّاسِ قَالَ فَمَرَرْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ فَإِذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَالِسٌ إِلَى سَارِيَةٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَإِذَا هُوَ قَدْ ذَكَرَ الْجَهَنَّمِيِّينَ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا هَذَا الَّذِي تُحَدِّثُونَ ؟ وَاللَّهُ يَقُولُ { إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ } وَ { كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا } فَمَا هَذَا الَّذِي تَقُولُونَ ؟ قَالَ فَقَالَ أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ ؟ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَهَلْ سَمِعْتَ بِمَقَامِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم يَعْنِي الَّذِي يَبْعَثُهُ اللَّهُ فِيهِ ؟ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّهُ مَقَامُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَحْمُودُ الَّذِي يُخْرِجُ اللَّهُ بِهِ مَنْ يُخْرِجُ قَالَ ثُمَّ نَعَتَ وَضْعَ الصِّرَاطِ وَ مَرَّ النَّاسِ عَلَيْهِ قَالَ وَ أَخَافُ أَنْ لاَ أَكُونَ أَحْفَظُ ذَاكَ قَالَ غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ زَعَمَ أَنَّ قَوْمًا يَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ بَعْدَ أَنْ يَكُونُوا فِيهَا قَالَ يَعْنِي فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمْ عِيدَانُ السَّمَاسِمِ قَالَ فَيَدْخُلُونَ نَهَرًا مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ فَيَغْتَسِلُونَ فِيهِ فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمُ الْقَرَاطِيسُ فَرَجَعْنَا قُلْنَا وَيْحَكُمْ أَتَرَوْنَ الشَّيْخَ يَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فَرَجَعْنَا فَلاَ وَاللَّهِ مَا خَرَجَ مِنَّا غَيْرُ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَوْ كَمَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ
یزید بن صہیب الفقیرسے روایت ہے کہ میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات بیٹھ گئی تھی (اور وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ پھر وہاں سے نہ نکلے گا)، تو ہم ایک بڑی جماعت کے ساتھ اس ارادے سے نکلے کہ حج کریں۔ پھر خارجیوں کا مذہب پھیلائیں گے۔ جب ہم مدینے میں پہنچے تو دیکھا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما ایک ستون کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنا رہے ہیں۔ یکایک انھوں نے دوزخیوں کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ اے صحابی ٔ رسول اللہ! تم کیا حدیث بیان کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ''اے ہمارے پالنے والے! تو جسے جہنم میں ڈالے، یقینا تو نے اسے رسوا کیا۔'' ( آل عمران: ۱۹۲) نیز ''جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے۔'' (السجدہ : ۲۰) اور اب یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟انھوں نے کہا کہ تو نے قرآن پڑھا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ انھوں نے پھر کہا کہ کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سنا ہے (یعنی وہ مقام جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز عنایت فرمائے گا)؟ میں نے کہا جی ہاں! میں نے سنا ہے۔ انھوں نے کہا یہ ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں چاہے گا، جہنم سے نکالے گا۔ پھر انھوں نے پل صراط کا حال اور اس پل پر سے لوگوں کے گزرنے کا حال بیان کیا اور اور مجھے ڈر ہے کہ شاید مجھے یاد نہ رہا ہو مگر انھوں نے یہ کہا کہ کچھ لوگ دوزخ میں جانے کے بعد اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ اس طرح نکلیں گے جیسے آبنوس کی لکڑیاں (سیاہ جل بھن کر)۔ پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے۔ یہ سن کر ہم لوٹے اور ہم نے کہا کہ تمہاری خرابی ہو! کیا یہ بوڑھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے؟ (یعنی وہ ہرگز جھوٹ نہیں بولتا، پھر تمہارا مذہب غلط نکلا)۔ اور ہم سب اپنے مذہب سے پھر گئے مگرایک شخص نہ پھرا۔ یا جیسا ابو نعیم فضل بن دکین (امام مسلم کے استاذ کے استاذ) نے بیان کیا۔
(92) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ أَرْبَعَةٌ فَيُعْرَضُونَ عَلَى اللَّهِ فَيَلْتَفِتُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ إِذْ أَخْرَجْتَنِي مِنْهَا فَلاَ تُعِدْنِي فِيهَا فَيُنْجِيهِ اللَّهُ مِنْهَا
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دوزخ سے چار آدمی نکالے جائیں گے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے کیے جائیں گے۔ ان میں سے ایک جہنم کی طرف دیکھ کر کہے گا کہ اے میرے مالک! جب تو نے مجھے اس (جہنم) سے نجات دی ہے، تو اب پھر اس میں مت لے جانا۔ اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے نجات دے دے گا۔ ''
 
Top