کِتَابُ اللِّعَانِ
لعان کے مسائل
بَابٌ :فِي الَّذِيْ يَجِدُ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً
اس آدمی کے متعلق جو اپنی عورت کے پاس (غیر) مرد کو پائے
(865) عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدِ نِالسَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلاَنِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَائَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَهُ أَ رَأَيْتَ يَا عَاصِمُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَوْ أَنَّ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً أَ يَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ فَسَلْ لِي عَنْ ذَلِكَ يَا عَاصِمُ ! رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَسَائِلَ وَ عَابَهَا حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَائَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ يَا عَاصِمُ ! مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ عَاصِمٌ لِعُوَيْمِرٍلَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا قَالَ عُوَيْمِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهِ لاَ أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَسَطَ النَّاسِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رَجُلاً وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً أَ يَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ ؟ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ نَزَلَ فِيكَ وَ فِي صَاحِبَتِكَ فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا قَالَ سَهْلٌ فَتَلاَعَنَا وَ أَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ عُوَيْمِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَكَانَتْ سُنَّةَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ
سیدنا سہل بن سعد ساعد ی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ ، عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے عاصم! بھلا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے تو کیا اس کو مار ڈالے؟ (اگر وہ مار ڈالے)تو پھر تم (اس مرد) کو (قصاص میں) مار ڈالو گے؟ یا وہ کیا کرے؟ یہ مسئلہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے سوالوں کو ناپسند کیا اور ان کی برائی بیان کی۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ ان پر شاق گزرا۔ جب وہ اپنے گھر لوٹ کر آئے تو عویمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے عویمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو میرے پاس اچھی چیز نہیں لایا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (تیرے لیے یہ) مسئلہ پوچھنا ناگوار گزرا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو باز نہ آؤں گا جب تک یہ مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھوں گا۔ پھر عویمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تمام لوگوں (کی موجودگی) میں آئے اور عرض کی یارسول اللہ! آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس غیر مرد کو دیکھے تو (کیا) اس کو مار ڈالے؟ پھر آپ اس (مرد) کو (قصاص میں) مار ڈالیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو چکا ہے، تو جا اور اپنی بیوی کو لے آ۔'' سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا۔ جب وہ فارغ ہوئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ! اگر میں اب اس عورت کو رکھوں تو میں جھوٹا ہوں۔ پھر سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے قبل ہی تین طلاق دے دیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ ٹھہر گیا۔
(866) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! لَوْ وَجَدْتُ مَعَ أَهْلِي رَجُلاً لَمْ أَمَسَّهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَائَ ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم نَعَمْ قَالَ كَلاَّ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنْ كُنْتُ لَأُعَاجِلُهُ بِالسَّيْفِ قَبْلَ ذَلِكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ إِنَّهُ لَغَيُورٌ وَ أَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو کیا میں اس کو اس وقت ہاتھ نہ لگاؤں جب تک چار گواہ نہ لے آؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ہاں! بے شک۔'' سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہر گز نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجاہے کہ میں تو اس کا علاج تلوار سے جلد ہی کر دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں ذرا غور سے سنو۔ وہ بڑے غیرت دار ہیں اور میں ان سے زیادہ غیرت دار ہوں اور اللہ جل جلالہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت رکھتا ہے۔ ''
(867) عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلاَعِنَيْنِ فِي إِمْرَةِ مُصْعَبٍ أَ يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا ؟ قَالَ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ فَمَضَيْتُ إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِمَكَّةَ فَقُلْتُ لِلْغُلاَمِ اسْتَأْذِنْ لِي قَالَ إِنَّهُ قَائِلٌ فَسَمِعَ صَوْتِي فَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ ؟ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ ادْخُلْ فَوَاللَّهِ مَا جَائَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلاَّ حَاجَةٌ فَدَخَلْتُ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْذَعَةً مُتَوَسِّدٌ وِسَادَةً حَشْوُهَا لِيفٌ قُلْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلاَعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا ؟ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ نَعَمْ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَرَأَيْتَ أَنْ لَوْ وَجَدَ أَحَدُنَا امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ ؟ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ وَ إِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ قَالَ فَسَكَتَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَاهُ فَقَالَ إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدِ ابْتُلِيتُ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلآئِ الآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ { وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ } (النور:6-9) فَتَلاَهُنَّ عَلَيْهِ وَ وَعَظَهُ وَ ذَكَّرَهُ وَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ قَالَ لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا ثُمَّ دَعَاهَا فَوَعَظَهَا وَ ذَكَّرَهَا وَ أَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ قَالَتْ لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کی خلافت میں مجھ سے لعان کرنے والوں کا مسئلہ پوچھا گیا کہ کیا ان میں تفریق کر دی جائے گی؟ تو میں کچھ سمجھ نہ پایا کیا جواب دوں، تو میں مکہ میں واقع سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے مکان کی طرف چلا اور ان کے غلام سے کہا کہ میرے لیے اجازت طلب کرو۔ اس نے کہا کہ وہ (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ) قیلولہ (دوپہر کے کھانے کے بعد کی نیند) کررہے ہیں۔انہوں نے میری آواز سنی تو کہا کہ کیا ابن جبیر ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ تو انہوں نے کہا کہ اندر آجاؤ، اللہ کی قسم! اس وقت تم کسی کام سے ہی آئے ہو گے۔ میں اندر گیا تو وہ ایک کمبل بچھائے ایک تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ! کیا لعان کرنے والوں میں جدائی کی جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ! بے شک جدائی کی جائے گی اور سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ یارسول اللہ! آپ کیا سمجھتے ہیں اگر ہم میں سے کوئی اپنی عورت کو برا کام کراتے دیکھے تو کیا کرے۔ اگر منہ سے نکالے تو بری بات اور اگر چپ رہے تو ایسی بری بات سے کیونکر چپ رہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چپ ہو رہے اور جواب نہیں دیا۔ پھر وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یارسول اللہ! جو بات میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی میں خود اس میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں جو سورئہ نور میں ہیں ''اور وہ لوگ جو اپنی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ...'' (النور:۶۔۹ ) آخر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اس کو نصیحت کی اور سمجھایا :'' دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔'' (یعنی اگر تو جھوٹا طوفان باندھتا ہے تو اب بھی بول دے حد قذف کے اسی کوڑے پڑ جائیں گے مگر یہ جہنم میں جلنے سے آسان ہے) وہ بولا قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے عورت پر جھوٹ نہیں باندھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایاا ور اس کو ڈرایا، سمجھایا اورفرمایا:'' دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے۔'' وہ بولی کہ قسم اس کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے کہ میرا خاوند جھوٹ بولتا ہے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد سے شروع کیا اور اس نے چار مرتبہ حلفاً گواہی دی کہ یقینا وہ سچا ہے اور پانچویں بار یہ کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر عورت کو بلایا اور اس نے چار مرتبہ حلفاً گواہی دی کہ یقینا مرد جھوٹا ہے اور پانچویں بار میں یہ کہا کہ اگر مرد سچا ہو تو اس عورت پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی۔
(868) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لاَ سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي ؟ قَالَ لاَ مَالَ لَكَ إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا وَ إِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ مِنْهَا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں کو فرمایا:'' تم دونوں کاحساب اللہ تعالیٰ پر ہے اور تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند سے فرمایا:'' اب تیرا عورت سے کوئی واسطہ نہیں کیونکہ وہ تجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی۔'' مرد بولا کہ یارسول اللہ! میرا مال، جو اس نے لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' مال تجھے نہیں ملے گا۔ کیونکہ اگر تو سچا ہے تو اس مال کا بدلا ہے جو اس کی شرمگاہ تجھ پر حلال ہو گئی اور اگر تو جھوٹا ہے تو مال اور دور ہو گیا (یعنی بلکہ تیرے اوپر جھوٹ کااور وبال ہوا)۔ ''
(869) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلاً لاَعَنَ امْرَأَتَهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَيْنَهُمَا وَ أَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّهِ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ایک مرد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لعان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور بچے کا نسب ماں سے لگا دیا۔
(870) عَنْ مُحَمَّدٍ ( وَ هُوَ ابْنُ سِيْرِيْنَ ) قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ أَنَا أَرَى أَنَّ عِنْدَهُ مِنْهُ عِلْمًا فَقَالَ إِنَّ هِلاَلَ بْنَ أُمَيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَذَفَ امْرَأَتَهُ بِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَائَ وَ كَانَ أَخَا الْبَرَائِ بْنِ مَالِكٍ لِأُمِّهِ وَ كَانَ أَوَّلَ رَجُلٍ لاَعَنَ فِي الإِسْلاَمِ قَالَ فَلاَعَنَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيئَ الْعَيْنَيْنِ فَهُوَ لِهِلاَلِ بْنِ أُمَيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ إِنْ جَائَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَائَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا جَائَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے (لعان کے بارے میں) پوچھا اور میں یہ سمجھتا تھا کہ انہیں معلوم ہے۔ پس انہوں نے کہا کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کی طرف شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی نسبت کی اور شریک بن سحماء، براء بن مالک رضی اللہ عنہ کا مادری بھائی تھا اور اس نے اسلام میں سب سے پہلے لعان کیا۔ راوی نے کہا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا تو رسول اللہ نے فرمایا:'' اس عورت کو دیکھتے رہو اگر اس کا بچہ سفید رنگ کا سیدھے بالوں والا، سرخ آنکھوں والا پیدا ہو تو وہ ہلال بن امیہ کا ہے اور جو سرمگیں آنکھوں والا، گھو نگھریالے بالوں والا اور پتلی پنڈلیوں والا پیدا ہو تو وہ شریک بن سحماء کا ہے۔'' سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی کہ اس عورت کا لڑکا سرمگیں آنکھوں، گھونگھریالے بالوں اور پتلی پنڈلیوں والا پیدا ہوا۔