بَابٌ : فِيْمَا يُصْرَفُ الْفَيْئُ إِذَا لَمْ يُوْجَفْ عَلَيْهِ بِقِتَالٍ
مال ’’فے‘‘ کیسے تقسیم ہو گا جب کہ لڑائی کی نوبت نہ آئی ہو
(1147) عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجِئْتُهُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ قَالَ فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِهِ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رُمَالِهِ مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ فَقَالَ لِي يَا مَالُ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ وَ قَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ فَخُذْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ قَالَ قُلْتُ لَوْ أَمَرْتَ بِهَذَا غَيْرِي قَالَ خُذْهُ يَا مَالُ قَالَ فَجَائَ يَرْفَا فَقَالَ هَلْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي عُثْمَانَ وَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرِ وَ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ؟ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا ثُمَّ جَائَ فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ وَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ؟ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَقَالَ عَبَّاسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَ بَيْنَ هَذَا ( وَ ذَكَرَ كَلاَمًا ) (الْكَاذِبِ الآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ) فَقَالَ الْقَوْمُ أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَاقْضِ بَيْنَهُمْ وَ أَرِحْهُمْ فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا قَدَّمُوهُمْ لِذَلِكَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اتَّئِدَا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَ الأَرْضُ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ؟ قَالُوا نَعَمْ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ وَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَ الأَرْضُ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ ؟ قَالاَ نَعَمْ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَ عَزَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِخَاصَّةٍ لَمْ يُخَصِّصْ بِهَا أَحَدًا غَيْرَهُ قَالَ { مَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ } مَا أَدْرِي هَلْ قَرَأَ الآيَةَ الَّتِي قَبْلَهَا أَمْ لاَ قَالَ فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَيْنَكُمْ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ عَلَيْكُمْ وَ لاَ أَخَذَهَا دُونَكُمْ حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَأْخُذُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ ثُمَّ قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالأَرْضُ أَتَعْلَمُونَ ذَلِكَ ؟ قَالُوا نَعَمْ ثُمَّ نَشَدَ عَبَّاسًا وَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِمِثْلِ مَا نَشَدَ بِهِ الْقَوْمَ أَتَعْلَمَانِ ذَلِكَ ؟ قَالاَ نَعَمْ قَالَ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ وَ يَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ وَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ فَوَلِيتُهَا ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَ هَذَا وَ أَنْتُمَا جَمِيعٌ وَ أَمْرُكُمَا وَاحِدٌ فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا فَقُلْتُ إِنْ شِئْتُمْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَعْمَلاَ فِيهَا بِالَّذِي كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخَذْتُمَاهَا بِذَلِكَ قَالَ أَكَذَلِكَ ؟ قَالاَ نَعَمْ قَالَ ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا وَ لاَ وَاللَّهِ لاَ أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ
سیدنا مالک بن اوس کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا اور میں ان کے پاس دن چڑھے آیا اور اپنے گھر میں ننگی(بغیر بستر کے) چارپارئی پر بیٹھے تھے اور ایک چمڑے کے تکیہ پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تیری قوم کے کچھ لوگ دوڑ کر میرے پاس آئے تو میں نے ان کو کچھ تھوڑا بہت دلا دیا ہے تو ان سب میں بانٹ دے۔ میں نے کہا کہ کاش !یہ کام آپ کسی اور سے لے لیتے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تو لے لے۔ اتنے میں یرفا (ان کا خدمتگار) آیا اور کہنے لگا کہ اے امیر المومنین! عثمان بن عفان ،عبدالرحمن بن عوف ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنھم آئے ہیں۔کیا ان کو آنے دوں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا ان کو آنے دے۔ وہ آگئے پھر یرفا آیا اور کہنے لگا کہ عباس اور علی رضی اللہ عنھما آنا چاہتے ہیں، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کو بھی اجازت دے دے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہاکہ اے امیر المومنین! میرا اور اس جھوٹے ،گنہگار ،دغاباز اور چور کا فیصلہ کر دیجیے۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں اے امیر المومنین! ان کا فیصلہ کر دیجیے اور ان کو اس مسئلے سے راحت دیجیے۔ مالک بن اوس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ان دونوں نے (یعنی سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنھما نے) سیدنا عثمان اور عبدالرحمن اور زبیر اور سعد رضی اللہ عنھم کو (اس لیے ) آگے بھیجا تھا (کہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہہ کر فیصلہ کروا دیں۔) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ٹھہرو! میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کے مال میں وارثوں کو کچھ نہیں ملتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ سب نے کہا ہاں، ہمیں معلوم ہے۔ پھر سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنھما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم دونوں کواس اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :’’ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ ان دونوں نے کہا کہ بے شک ہم جانتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بات خاص کی تھی جو اور کسی کے ساتھ خاص نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ اللہ نے گاؤں والوں کے مال میں سے جو دیا، وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے۔‘‘ مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی کہ نہیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے مال تم لوگوں کو بانٹ دیے اور اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال کو )تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور نہ یہ کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو، یہاں تک کہ یہ مال رہ گیا۔ اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سال کا اپنا خرچ نکال لیتے اور جو بچ رہتا، وہ بیت المال میں شریک ہوتا ۔پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں اس اللہ تعالیٰ کی جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کہ تم یہ سب جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، ہم جانتے ہیں۔ پھر سیدنا علی اور عباس رضی اللہ عنھما کو بھی ایسی ہی قسم دی، تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہاں ۔پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ،تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں ،تو تم دونوں آئے۔ عباس رضی اللہ عنہ تو اپنے بھتیجے کا ترکہ مانگتے تھے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناعباس رضی اللہ عنہ کے بھائی کے بیٹے تھے) اور علی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ مطہرہ کا حصہ ان کے والد صلی اللہ علیہ وسلم کے مال سے چاہتے تھے (یعنی سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے کہ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ،توتم ان کو جھوٹا ،گنہگار ،دغاباز اور چور سمجھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ سچے، نیک اور ہدایت پر تھے اور حق کے تابع تھے ۔پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ،تو تم نے مجھے بھی جھوٹا ،گنہگار ،دغاباز اور چورسمجھا جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا،نیکوکار اورحق پر ہوں، حق کا تابع ہوں ،میں اس مال کا بھی ولی رہا۔ پھر تم دونوں میرے پاس آئے اور تم دونوں ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے (یعنی اگرچہ تم ظاہر میں دو شخص ہو مگر اس لحاظ سے کہ قربت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں موجود ہے تم مثل ایک شخص کے ہو) تم نے یہ کہا کہ یہ مال ہمارے سپرد کردو،تو میں نے کہا کہ اچھا ! اگر تم چاہتے ہو تو میں تم کو اس شرط پردے دیتا ہوں کہ تم اس مال میں وہی کرتے رہو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ تم نے اسی شرط سے یہ مال مجھ سے لیا۔ پھر سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیوں ایسا ہی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تم دونوں (اب) میرے پاس فیصلہ کرانے آئے ہو ؟ نہیں اللہ تعالیٰ کی قسم میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ قیامت تک کرنے والا نہیں۔ البتہ اگر تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوتا ،تو پھر مجھے لوٹا دو۔
(1148) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرِ نِالصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَ فَدَكَ وَ مَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ۔ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم فِي هَذَا الْمَالِ وَ إِنِّي وَاللَّهِ لاَ أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ لاَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي ذَلِكَ قَالَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَ عَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلاً وَ لَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَ صَلَّى عَلَيْهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ كَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وِجْهَةٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَ مُبَايَعَتَهُ وَ لَمْ يَكُنْ بَايَعَ تِلْكَ الأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنِ ائْتِنَا وَ لاَ يَأْتِنَا مَعَكَ أَحَدٌ كَرَاهِيَةَ مَحْضَرِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ وَاللَّهِ لاَ تَدْخُلْ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَ مَا عَسَاهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي إِنِّي وَاللَّهِ لَآتِيَنَّهُمْ فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ فَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ثُمَّ قَالَ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَضِيلَتَكَ وَ مَا أَعْطَاكَ اللَّهُ وَ لَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْكَ وَ لَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالأَمْرِ وَ كُنَّا نَحْنُ نَرَى لَنَا حَقًّا لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمْ يَزَلْ يُكَلِّمُ أَبَابَكْرٍ حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي وَ أَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَ بَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الأَمْوَالِ فَإِنِّي لَمْ آلُ فِيهَا عَنِ الْحَقِّ وَ لَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلاَّ صَنَعْتُهُ فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَبِي بَكْرٍ مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةُ لِلْبَيْعَةِ فَلَمَّا صَلَّى أَبُوبَكْرٍ صَلاةَ الظُّهْرِ رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ وَ ذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ وَ تَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ وَ عُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَ تَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ وَ أَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَ لاَ إِنْكَارٌ لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَ لَكِنَّا كُنَّا نَرَى لَنَا فِي الأَمْرِ نَصِيبًا فَاسْتُبِدَّ عَلَيْنَا بِهِ فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ وَ قَالُوا أَصَبْتَ فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفَ
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مالوں میں سے اپنا ترکہ مانگنے کو بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں اور فدک میں دیے اور جو کچھ خیبر کے خمس میں سے بچتا تھا، تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے :’’ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جوکچھ ہم چھو ڑجائیں وہ صدقہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اسی مال میں سے کھائے گی۔‘‘ اور میں تو اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ کو اس حال سے کچھ بھی نہیں بدلوں گا جس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ غرضیکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کیا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غصہ آیا اور انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات چھوڑ دی اور بات نہ کی، یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی۔ (نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ ترک ملاقات وہ نہیں جوشرع میں حرام ہے اور وہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے) اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھ مہینہ زندہ رہیں (بعض نے کہا کہ آٹھ مہینے یا تین مہینے یا دو مہینے یا ستر دن بہرحال رمضان کی تین تاریخ ۱۱ ہجری کو انہوں نے انتقال فرمایا ) جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو رات کو ہی دفن کردیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہ کی (اس سے معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے اور دن کو افضل ہے اگر کوئی عذرنہ ہو) اور ان پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور جب تک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں، اس وقت تک لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے(بوجہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے) محبت کرتے تھے، جب وہ انتقال کر گئیں ،تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ میری طرف سے پھر گئے ہیں۔تب انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا مناسب سمجھا اور ابھی تک کئی مہینے گزر چکے تھے۔ انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کی تھی۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور یہ کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے آئیے آپ کے ساتھ کوئی نہ آئے کیونکہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا آنا ناپسند کرتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم اکیلے ان کے پاس نہ جاؤ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ میرے ساتھ کیا کریں گے؟ اللہ کی قسم! میں تو اکیلا جاؤں گا۔ آخر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا (جیسے خطبہ کے شروع میں پڑھتے ہیں) پھر کہا کہ اے ابوبکر! ہم نے آپ کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو دیا (یعنی خلافت) پہچان لیاہے اور ہم اس نعمت پر رشک نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی (یعنی خلافت اور حکومت)،لیکن آپ نے اکیلے اکیلے یہ کام کر لیا اور ہم سمجھتے تھے کہ اس میں ہمارا بھی حق ہے کیونکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت رکھتے تھے ۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے برابر باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں ۔جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی، تو کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا لحاظ مجھے اپنی قرابت سے زیادہ ہے اور یہ جو مجھ میں اور تم میں ان باتوں کی بابت (یعنی فدک اور نضیر اورخمس خیبر وغیرہ کا) اختلاف ہوا، تو میں نے حق کو نہیں چھوڑا اور میں نے وہ کوئی کام نہیں چھوڑا جس کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا،تو میں نے وہی کیا۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اچھا آج دو پہر کو ہم آپ سے بیعت کریں گے۔ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے، تو منبر پر چڑھے اور خطبہ پڑھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قصہ بیان کیا اور ان کا دیر سے بیعت کرنا اور جو عذر انہوں نے بیان کیا تھا وہ بھی کہا پھر مغفرت کی دعا کی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی اور یہ کہا کہ میرا دیر سے بیعت کرنا اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رشک ہے یا ان کی بزرگی اور فضیلت کا مجھے انکار ہے، بلکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس خلافت کے معاملہ میں ہمارا بھی حصہ ہے جو کہ اکیلے بغیر ہماری صلاح کے یہ کام کر لیاگیا، اس وجہ سے ہمارے دل کو یہ رنج ہوا۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوئے اور سب نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نے ٹھیک کام کیا۔ اس روز سے جب انہوں نے صحیح معاملہ اختیار کیامسلمان پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف مائل ہوئے۔
(1149) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ يَقْتَسِمُ وَ رَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَ مَئُونَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’میں جو چھوڑ جاؤں تو میرے وارث ایک دینار بھی نہیں بانٹ سکتے اور اپنی عورتوں کے خرچ اور منتظم کی اجرت کے بعد جو بچے ،وہ صدقہ ہے۔ ‘‘