• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

مختصر صحیح مسلم​
اختصار:- امام حافظ زکی الدین عبدالعظیم المنذری رحمہ اللہ​

اردو ترجمہ:- محمد عیسیٰ فاضل اسلامیہ یونیورسٹی اسلام آباد​
پبلیشر:- دارالکتب سلفیہ لاہور​
کِتَابُ الإِیْمَان​
بَابٌ : اَوَّلُ الإيْمَانِ قَولُ لاَ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ
ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے​

(1) عَنْ أَبِي جَمْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ يَدَيِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَ بَيْنَ النَّاسِ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ تَسْأَلُهُ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ ؟ فَقَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنِ الْوَفْدُ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ ؟ قَالُوا : رَبِيعَةُ۔ قَالَ : مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَ لاَ نَدَامَى قَالَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَ إِنَّ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكَ هَذَا الْحَيَّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ وَ إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلاَّ فِي شَهْرِ الْحَرَامِ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرُ بِهِ مَنْ وَرَائَنَا وَنَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ قَالَ فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَ نَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ قَالَ أَمَرَهُمْ بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَ قَالَ هَلْ تَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ وحده قَالُوا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَ إِقَامُ الصَّلاَةِ وَ إِيتَائُ الزَّكَاةِ وَ صَوْمُ رَمَضَانَ وَ أَنْ تُؤَدُّوا خُمُسًا مِنَ الْمَغْنَمِ وَ نَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّائِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ قَالَ شُعْبَةُ وَ رُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ قَالَ وَ رُبَّمَا قَالَ : الْمُقَيَّرِ وَ قَالَ احْفَظُوهُ وَ أَخْبِرُوا بِهِ مِنْ وَرَائِكُمْ وَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي رِوَايَتِهِ مَنْ وَرَائَكُمْ وَ زَادَ ابْنُ مُعَاذٍ فِي حَدِيثِهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِلأَشَجِّ أَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ إِنَّ فِيكَ لخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ​

سیدنا ابو جمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے ان کے اور لوگوں کے درمیان مترجم تھا (یعنی اوروں کی بات کو عربی میں ترجمہ کر کے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سمجھاتا) اتنے میں ایک عورت آئی اور گھڑے کے نبیذ کے متعلق پوچھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے پوچھا :’’ یہ وفد کون ہیں؟ یا کس قوم کے لوگ ہیں؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ ربیعہ کے لوگ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’مرحبا ہو قوم یا وفد کو جو نہ رسوا ہوئے نہ شرمند ہوئے (کیونکہ بغیر لڑائی کے خود مسلمان ہونے کے لیے آئے، اگر لڑائی کے بعد مسلمان ہوتے تو وہ رسوا ہوتے، لونڈی غلام بنائے جاتے، مال لٹ جاتا تو شرمندہ ہوتے) ان لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم آپ کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں اور ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان کافروں کا قبیلہ مضر ہے تو ہم آپ ﷺ تک نہیں آ سکتے ، مگر حرمت والے مہینہ میں (جب لوٹ مار نہیں ہوتی) اس لیے ہم کو ایک صاف بات کا حکم کیجیے جس کو ہم بتلائیں دوسرے لوگوں کو بھی اور اس کے سبب سے جنت میں جائیں۔ آپ ﷺ نے ان کو چار باتوں کا حکم کیا اور چار باتوں سے منع فرمایا۔ اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کا ان کو حکم کیا اور ان سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ ایمان کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ایمان اس بات کی گواہی دینا ہے اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک محمد ﷺ اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور رمضان کے روزے رکھنا (یہ چار باتیں ہو گئیں، اب ایک پانچویں بات اور ہے) اور غنیمت کے مال میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا (یعنی کفار کی سپاہ یا مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں سے جو مال حاصل ہو مال غنیمت کہلاتا ہے) اور ان کو کدو کے تونبے اور سبز گھڑے اور روغنی برتن سے منع فرمایا ۔شعبہ نے کبھی یوں کہا اور نقیر سے اور کبھی کہا مقیر سے۔ (یہ لکڑی سے بنائے ہوئے برتن ہیں)۔ اور فرمایا:’’ اس کو یاد رکھو اور ان باتوں کی ان لوگوں کو بھی خبر دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔ اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے مَنْ وَرَائَكُمْْ کہا بدلے مِنْ وَرَائِكُمْ کے۔ (ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اور سیدنا ابن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں ا پنے باپ سے اتنا زیادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ عبدالقیس کے اشج سے (جس کا نام منذر بن حارث بن زیاد تھا یا منذر بن عبید یا عائذ بن منذر یا عبداللہ بن عوف تھا) فرمایا:’’ تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقل مندی، دوسرے دیر سے سوچ سمجھ کر کام کرنا جلدی نہ کرنا۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(2) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الإِيمَانُ ؟ قَالَ : أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَ مَلاَئِكَتِهِ وَ كِتَابِهِ وَ لِقَائِهِ وَ رُسُلِهِ وَ تُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ۔ الآخِرِ قَالَ ۔ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الإِسْلاَمُ ؟ قَالَ : الإِسْلاَمُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَ لاَ تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ تُقِيمَ الصَّلاَةَ الْمَكْتُوبَةَ وَ تُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَ تَصُومَ رَمَضَانَ۔ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الإِحْسَانُ ؟ قَالَ : أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنَّكَ إِنْ لاَ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ۔ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى السَّاعَةُ ؟ قَالَ : مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ وَ لَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَ إِذَا كَانَتِ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ رُئُوسَ النَّاسِ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَ إِذَا تَطَاوَلَ رِعَائُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلاَّ اللَّهُ ثُمَّ تَلاَ ﷺ { إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ } قَالَ ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ هَذَا جِبْرِيلُ جَائَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ ! ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ایمان یہ ہے کہ تو دل سے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس سے ملنے پر اور اس کے پیغمبروں پر اور قیامت کے دن زندہ ہونے پر یقین رکھے ۔‘‘ پھر وہ شخص کہنے لگاکہ یا رسول اللہ ! اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اسلام یہ ہے کہ تو اللہ جل جلالہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور تو فرض نماز قائم کرے اور تو زکوٰۃ دے جس قدر فرض ہے اور رمضان کے روزے رکھے ۔‘‘ پھر وہ شخص کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ! احسان کسے کہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تو عبادت کرے اللہ کی گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھتا (یعنی توجہ کا یہ درجہ نہ ہو سکے ) تو اتنا تو خیال رہے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ‘‘ پھر وہ شخص کہنے لگا یارسول اللہ! قیامت کب ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جس سے پوچھتے ہو قیامت کو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن اس کی نشانیاں میں تجھ سے بیان کرتا ہوں کہ جب لونڈی اپنے مالک کو جنے تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب ننگے بدن ،ننگے پاؤں پھرنے والے لوگ سردار بنیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب بکریاں یا بھیڑیں چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں تو یہ بھی قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ ’’اللہ ہی جانتا ہے قیامت کو اور وہی اتارتا ہے پانی کو اور جانتا ہے جو کچھ ماں کے رحم میں ہے (یعنی مولود نیک ہے یا بد، رزق کتنا ہے، عمر کتنی ہے وغیرہ) اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس ملک میں مرے گا۔ اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے۔‘‘ (لقمان: ۳۴) پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اس شخص کو پھر واپس لے آؤ۔‘‘ لوگ اس کو لینے کے لیے نکلیلیکن وہاں کچھ نہ پایا (یعنی اس شخص کا نشان بھی نہ ملا) ۔تب آپ ﷺ نے فرمایا:’’ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے، لوگوں کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے۔ ‘‘​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(3) عَن سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَائَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَا عَمِّ قُلْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَ يُعِيدُ لَهُ تِلْكَ الْمَقَالَةَ حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ أَبَى أَنْ يَقُولَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَمَا وَاللَّهِ لأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَ لَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ } (التوبة :113) وَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ { إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَ لَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ وَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ}(القصص :56)
سعید بن مسیب (جو مشہور تابعین میں سے ہیں)اپنے والد (سیدنا مسیب بن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی رضی اللہ عنہ، جو کہ صحابی ہیں) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ جب ابو طالب بن عبدالمطلب (رسول اللہ ﷺ کے حقیقی چچا اور مربی) مرنے لگے تو رسول اللہﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابو جہل (عمرو بن ہشام) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھے دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اے چچا ! تم ایک کلمہ لا الٰہ الا للہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لیے (یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابو طالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہیے۔انھوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا)۔‘‘ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابو طالب! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہ ﷺ برابر یہی بات ان سے کہتے رہے (یعنی کلمہ توحید پڑھنے کے لیے اور ادھر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے) یہاں تک کہ ابو طالب نے آخری بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے دعا کروں گا (بخشش کی) جب تک کہ منع نہ کیا جاؤں۔‘‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ’’پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔‘‘ (التوبۃ: ۱۱۳) اور اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ ﷺ سے فرمایا:’’آپ (ﷺ) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔‘‘(القصص:۵۶)​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّى يَقُولُوا لاَ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ
مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرارکر لیں​

(4) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَهُ وَ كَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَمَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَ نَفْسَهُ إِلاَّ بِحَقِّهِ وَ حِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهِ لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالاً كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلاَّ أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ​

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور عرب کے لوگ جنھوں کافر ہونا تھا وہ کافر ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہاکہ تم ان لوگوں سے کیسے لڑو گے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کہیں۔ پھر جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اس نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو بچا لیا مگر کسی حق کے بدلے (یعنی کسی قصور کے بدلے جیسے زنا کرے یا خون کرے تو پکڑا جائے گا) پھر اس کا حساب اللہ پر ہے۔(اگر اس کے دل میں کفر ہوا اور ظاہر میں ڈر کے مارے مسلمان ہو گیا ہو تو قیامت میں اللہ اس سے حساب لے گا۔ دنیا ظاہر پر ہے، دنیا میں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا)۔‘‘ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم !میں تو اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر وہ ایک عقال روکیں گے جو رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے اس کے نہ دینے پر بھی ضرور قتال کروں گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم! پھر وہ کچھ نہ تھا مگر میں نے یقین کیا کہ اللہ عزوجل نے سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کا سینہ لڑائی کے لیے کھول دیا ہے ۔ (یعنی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی) تب میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(5) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَ يُقِيمُوا الصَّلاَةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ إِلاَّ بِحَقِّهَا وَ حِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بیشک محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں پھر جب یہ کریں تو انھوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچا لیا مگر حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔ ‘‘

 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ :مَنْ قَتَل رَجُلاً مِّنَ الْكُفَّارِ بَعْدَ أَن قَالَ لاَ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ​

جس نے کافر کو لاالٰہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا​
(6) عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَ رَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلاً مِنَ الْكُفَّارِ فَقَاتَلَنِي فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ فَقَطَعَهَا ثُمَّ لاَذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ فَقَالَ أَسْلَمْتُ لِلَّهِ أَ فَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لاَ تَقْتُلْهُ قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ قَطَعَ يَدِي ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَهَا أَ فَأَقْتُلُهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لاَ تَقْتُلْهُ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ ۔ أَمَّا الأَوْزَاعِيُّ وَابْنُ جُرَيْجٍ فَفِيْ حَدِيْثِهِمَا : قَالَ : أَسْلَمْتُ لِلَّهِ وَ أَمَّا مَعْمَرٌ فَفِي حَدِيثِهِ فَلَمَّا أَهْوَيْتُ ۔ لِأَقْتُلَهُ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ​
سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا یا رسو ل اللہ ! اگر میں ایک کافر سے بھڑوں وہ مجھ سے لڑے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ ڈالے پھر مجھ سے بچ کر ایک درخت کی آڑ لے لے اور کہنے لگے کہ میں تابع ہو گیا اللہ کا تو کیا میں اس کو قتل کر دوں جب وہ یہ بات کہہ چکے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اس کو مت قتل کر۔‘‘ میں نے کہا یارسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا پھر ایسا کہنے لگا تو کیا میں اس کو قتل کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو قتل مت کر۔ (اگرچہ تجھ کو اس سے صدمہ پہنچا اور زخم لگا) اگر تو اس کو قتل کرے گا تو اس کا حال تیرا سا ہو گا قتل سے پہلے اور تیرا حال اس کا سا ہو گا جب تک اس نے یہ کلمہ نہیں کہا تھا۔‘‘​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(7) عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي سَرِيَّةٍ فَصَبَّحْنَا الْحُرُقَاتِ مِنْ جُهَيْنَةَ فَأَدْرَكْتُ رَجُلاً فَقَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَطَعَنْتُهُ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ قَتَلْتَهُ ؟ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنَ السِّلاَحِ قَالَ أَ فَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَ قَالَهَا أَمْ لاَ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ يَوْمَئِذٍ قَالَ فَقَالَ سَعْدٌ وَ أَنَا وَاللَّهِ لاَ أَقْتُلُ مُسْلِمًا حَتَّى يَقْتُلَهُ ذُو الْبُطَيْنِ يَعْنِي أُسَامَةَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ {وَ قَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَ يَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ } (الانفال : 39) فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَ أَنْتَ وَ أَصْحَابُكَ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونَ فِتْنَةٌ
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ ہم صبح کو حرقات سے لڑے جو جہینہ میں سے ہے۔ پھر میں نے ایک شخص کو پایا، اس نے لا الٰہ الا اﷲ کہا میں نے برچھی سے اس کو مار دیا۔ اس کے بعد میرے دل میں وہم ہوا ( کہ لا الٰہ الا اللہ کہنے پر مارنا درست نہ تھا) ،میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور تو نے اس کو مار ڈالا؟ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! اس نے ہتھیار سے ڈر کرکہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا تاکہ تجھے معلوم ہوتا کہ اس کے دل نے یہ کلمہ کہا تھا یا نہیں؟‘‘ (مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تجھے کہاں سے معلوم ہوا؟) پھر آپ ﷺ بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش !میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا (تو اسلام لانے کے بعدایسے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ اسلام لانے سے کفر کے اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں)۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں کسی مسلمان کو نہ ماروں گا جب تک اس کو ذوالبطین یعنی اسامہ نہ مارے۔ ایک شخص بولا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے: ’’اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ (شرک، بت پرستی) نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے‘‘؟ تو سیدنا سعدرضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم تو (کافروں سے) اس لیے لڑے کہ فساد نہ ہو اور تو اور تیرے ساتھی اس لیے لڑتے ہیں کہ فساد ہو۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(8) عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ أَنَّ جُنْدَبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بَعَثَ إِلَى عَسْعَسِ بْنِ سَلاَمَةَ زَمَنَ فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالَ اجْمَعْ لِي نَفَرًا مِنْ إِخْوَانِكَ حَتَّى أُحَدِّثَهُمْ فَبَعَثَ رَسُولاً إِلَيْهِمْ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَائَ جُنْدَبٌ وَ عَلَيْهِ بُرْنُسٌ أَصْفَرُ فَقَالَ تَحَدَّثُوا بِمَا كُنْتُمْ تَحَدَّثُونَ بِهِ حَتَّى دَارَ الْحَدِيثُ فَلَمَّا دَارَ الْحَدِيثُ إِلَيْهِ حَسَرَ الْبُرْنُسَ عَنْ رَأْسِهِ فَقَالَ إِنِّي أَتَيْتُكُمْ وَ لاَ أُرِيدُ أَنْ أُخْبِرَكُمْ الا عَنْ نَبِيِّكُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ بَعْثًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى قَوْمٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَ إِنَّهُمُ الْتَقَوْا فَكَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِذَا شَائَ أَنْ يَقْصِدَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَصَدَ لَهُ فَقَتَلَهُ وَ إِنَّ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَصَدَ غَفْلَتَهُ قَالَ وَ كُنَّا نُحَدَّثُ أَنَّهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمَّا رَفَعَ عَلَيْهِ السَّيْفَ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَقَتَلَهُ فَجَائَ الْبَشِيرُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَسَأَلَهُ فَأَخْبَرَهُ حَتَّى أَخْبَرَهُ خَبَرَ الرَّجُلِ كَيْفَ صَنَعَ فَدَعَاهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ لِمَ قَتَلْتَهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْجَعَ فِي الْمُسْلِمِينَ وَ قَتَلَ فُلاَنًا وَ فُلاَنًا وَ سَمَّى لَهُ نَفَرًا وَ إِنِّي حَمَلْتُ عَلَيْهِ فَلَمَّا رَأَى السَّيْفَ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَقَتَلْتَهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ إِذَا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ لِي قَالَ وَ كَيْفَ تَصْنَعُ بِلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ إِذَا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ فَجَعَلَ لاَ يَزِيدُهُ عَلَى أَنْ يَقُولَ كَيْفَ تَصْنَعُ بِلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ إِذَا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ​

صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہما نے عسعس بن سلامہ کو کہلا بھیجا جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا فتنہ ہوا کہ تم اپنے چند بھائیوں کو اکٹھا کرو تاکہ میں ان سے باتیں کروں۔ عسعس نے لوگوں کو کہلا بھیجا۔ وہ اکٹھے ہوئے تو سیدنا جندب رضی اللہ عنہ آئے، ایک زرد برنس اوڑھے ہوئے تھے ( برنس وہ ٹوپی ہے جسے لوگ شروع زمانہ ٔ اسلام میں پہنتے تھے)۔ انھوں نے کہا کہ تم باتیں کرو جو کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدنا جندب رضی اللہ عنہ کی باری آئی (یعنی ان کو بات ضرور کرنا پڑی) تو انھوں نے برنس اپنے سر سے ہٹا دی اور کہا کہ میں تمہارے پاس صرف اس ارادے سے آیا ہوں کہ تم سے تمہارے پیغمبر کی حدیث بیان کروں۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکوں کی ایک قوم کی طرفبھیجا اور وہ دونوں ملے (یعنی آمنا سامنا ہوا میدان جنگ میں) تومشرکوں میں ایک شخص تھا، وہ جس مسلمان پر چاہتا اس پر حملہ کرتا اور مار لیتا۔ آخر ایک مسلمان نے اس کو غفلت (کی حالت میں) دیکھا اور لوگوں نے ہم سے کہا (کہ) وہ مسلمان سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما تھے۔ پھر جب انھوں نے تلوار اس پر سیدھی کی تو اس نے کہا لا الٰہ الا اللہ لیکن انھوں نے اسے مار ڈالا۔ اس کے بعد قاصد خوشخبری لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے اس سے حال پوچھا۔ اس نے سب حال بیان کیا یہاں تک کہ اس شخص کا بھی حال کہا تو آپ ﷺ نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے کیوں اس کو مارا؟ (سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے) کہا یا رسول اللہ ! اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیف دی، فلاں اور فلاں کو مارا اور کئی آدمیوں کا نام لیا۔ پھر میں اس پر غالب ہوا ، جب اس نے تلوار کو دیکھا تو لا الٰہ الا اللہ کہنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’تم نے اس کو قتل کر دیا؟‘‘ انھوں نے کہا ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟‘‘ انھوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میرے لیے بخشش کی دعا کیجیے! آپ ﷺ نے فرمایا :’’تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟‘‘ پھر آپ ﷺ نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا اور یہی کہتے رہے کہ’’ تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟ ‘‘​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَنْ لَقِىَ اللَّه تَعَالَى بِالْإِيْمَانِ غَيْرَ شَاكٍ فِيْهِ دَخَل الْجَنَّةَ
جو شخص اللہ تعالیٰ کو ایمان کے ساتھ ملا اور اس کو کسی قسم کا شک نہیں وہ​

جنت میں داخل ہو گا​
(9) عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ​

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص مر جائے اور اس کو اس بات کا یقین ہو کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ جل جلالہ کے تو وہ جنت میں جائے گا۔‘‘​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(10) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ شَكَّ الأَعْمَشُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَةٌ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَذِنْتَ لَنَا فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا فَأَكَلْنَا وَ ادَّهَنَّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ افْعَلُوا قَالَ فَجَائَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ فَعَلْتَ قَلَّ الظَّهْرُ وَ لَكِنِ ادْعُهُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ ثُمَّ ادْعُ اللَّهَ لَهُمْ عَلَيْهَا بِالْبَرَكَةِ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَ فِي ذَلِكَ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نَعَمْ قَالَ فَدَعَا بِنِطَعٍ فَبَسَطَهُ ثُمَّ دَعَا بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ قَالَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِكَفِّ ذُرَةٍ قَالَ وَ يَجِيئُ الآخَرُ بِكَفِّ تَمْرٍ قَالَ وَ يَجِيئُ الآخَرُ بِكَسْرَةٍ حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَى النِّطَعِ مِنْ ذَلِكَ شَيْئٌ يَسِيرٌ قَالَ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْبَرَكَةِ ثُمَّ قَالَ خُذُوا فِي أَوْعِيَتِكُمْ قَالَ فَأَخَذُوا فِي أَوْعِيَتِهِمْ حَتَّى مَا تَرَكُوا فِي الْعَسْكَرِ وِعَائً إِلاَّ مَلَأُوْهُ قَالَ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَ فَضَلَتْ فَضْلَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ لاَ يَلْقَى اللَّهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ فَيُحْجَبَ عَنِ الْجَنَّةِ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے یہ اعمش رضی اللہ عنہ کو( جو کہ اس حدیث کے راوی ہیں) شک ہے کہ جب غزوۂ تبوک کا وقت آیا (تبوک ملک شام میں ایک مقام کا نام ہے) تو لوگوں کوسخت بھوک لگی۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہ! کاش آپ ہمیں اجازت دیتے تو ہم اپنے اونٹوں کو، جن پر پانی لاتے ہیں ذبح کرتے، گوشت کھاتے اور چربی کا تیل بناتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اچھا کر لو۔‘‘ اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے کہا کہ یارسول اللہ ! اگر ایسا کریں گے تو سواریاں کم ہو جائیں گی (اس کے بجائے) آپ(ﷺ) تمام لوگوں کو بلا بھیجئے اور کہیے کہ اپنا اپنا بچا ہوا توشہ لے کر آئیں۔ پھر اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ توشہ میں برکت دے، شاید اس میں اللہ کوئی راستہ نکال دے (یعنی برکت اور بہتری عطا فرمائے)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اچھا۔‘‘ پھر ایک دستر خوان منگوایا اور اس کو بچھا دیا اور سب کا بچا ہوا توشہ منگوایا۔ کوئی مٹھی بھر جوار لایا اور کوئی مٹھی بھر کھجور لایا۔ کوئی روٹی کا ٹکرا، یہاں تک کہ سب مل کر تھوڑا سا دستر خوان پر اکٹھا ہوا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے برکت کے لیے دعا کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اپنے اپنے برتنوں میں توشہ بھرو۔‘‘ تو سبھی لوگوں نے اپنے اپنے برتن بھر لیے یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا جس کو نہ بھرا ہو۔ پھر سب نے کھانا شروع کیا اور سیر ہو گئے۔ اس پر بھی کچھ بچ رہا ۔تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ جو شخص ان دونوں باتوں پر یقین کر کے اللہ سے ملے گا، وہ جنت سے محروم نہ ہو گا۔ ‘‘​
 
Top