• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(11) عَنِ الصُّنَابِحِيِّ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَ هُوَ فِي الْمَوْتِ فَبَكَيْتُ فَقَالَ مَهْلاً لِمَ تَبْكِي ؟ فَوَاللَّهِ لَئِنِ اسْتُشْهِدْتُ لَأَشْهَدَنَّ لَكَ وَ لَئِنْ شُفِّعْتُ لَأَشْفَعَنَّ لَكَ وَ لَئِنِ اسْتَطَعْتُ لَأَنْفَعَنَّكَ ثُمَّ قَالَ وَاللَّهِ مَا مِنْ حَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَكُمْ فِيهِ خَيْرٌ إِلاَّ حَدَّثْتُكُمُوهُ إِلاَّ حَدِيثًا وَاحِدًا وَ سَوْفَ أُحَدِّثُكُمُوهُ الْيَوْمَ وَ قَدْ أُحِيطَ بِنَفْسِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ مَنْ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ النَّارَ
صنابحی ، سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے۔ میں رونے لگا تو انھوں نے کہا کہ ٹھہرو، روتے کیوں ہو؟ اللہ کی قسم اگرمیں گواہ بنایا جاؤں گا تو تیرے لیے (ایمان کی) گواہی دوں گا اور اگر میری سفارش کام آئے گی تو تیری سفارش کروںگا اور اگر مجھے طاقت ہو گی تو تجھ کو فائدہ دوں گا۔ پھر کہا اللہ کی قسم ! کوئی ایسی حدیث نہیں جو کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی اور اس میں تمہاری بھلائی تھی مگر یہ کہ میں نے اسے تم سے بیان کر دیا ،البتہ ایک حدیث میں نے اب تک بیان نہیں کی، وہ آج بیان کرتا ہوں، اس لیے کہ میری جان جانے کو ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے :’’جو شخص گواہی دے (یعنی دل سے یقین کرے اور زبان سے اقرار) کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بے شک محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔‘‘ (یعنی ہمیشہ جہنم میں رہنے کو یا جہنم کے اس طبقہ کو جس میں ہمیشہ رہنے والے کافر ڈالے جائیں گے)۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(12) عَن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ وَ عُمَرُ فِي نَفَرٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا وَ خَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا وَ فَزِعْنَا فَقُمْنَا فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا شَأْنُكَ ؟ قُلْتُ كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا فَكُنْتُ أَوَّلَ مِنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ وَ هَؤُلآئِ النَّاسُ وَرَائِي فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَ أَعْطَانِي نَعْلَيْهِ قَالَ اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَائِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَاتَانِ النَّعْلاَنِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ هَاتَانِ نَعْلاَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاَسْتِي فَقَالَ ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَجْهَشْتُ بُكَائً وَ رَكِبَنِي عُمَرُ فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاَسْتِي فقَالَ ارْجِعْ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ يَا عُمَرُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ : فَلاَ تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَخَلِّهِمْ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ اور آدمیوں میں سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے) پھر آپ نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ کو ڈھونڈھنے کے لیے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچا۔ (بنی نجار انصار کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف دروازے کو دیکھتے ہوئے چکر لگایا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں۔ (شاید اس باغ میں دروازہ ہی نہ ہو گا یا اگر ہو گا تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو گھبراہٹ میں نظر نہ آیا ہو گا) دیکھا کہ باہر کنویں میں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے، میں لومڑی کی طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا ابوہریرہ ہے؟‘‘ میں نے عرض کی ہاں، یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا بات ہے؟‘‘ میں نے عرض کی کہ یارسو ل اللہ! آپ ہم لوگوں میں تشریف فرماتھے، پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )باہر چلے آئے اور واپس آنے میں دیر لگائی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو ہم سے جدا دیکھ کر نہ ستائیں، ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو سمیٹ کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابو ہریرہ!‘‘ اور مجھے اپنے جوتے (نشانی کے طور پر)دیے (تاکہ لوگ میری بات کو سچ سمجھیں) اور فرمایا:’’ میری یہ دونوں جوتیاں لے جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو یہ سنا کر خوش کر دے کہ اس کے لیے جنت ہے۔‘‘ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جوتیاں لے کر چلا) تو سب سے پہلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا۔ انھوں نے پوچھا کہ اے ابو ہریرہ ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، دل سے یقین کر کے، تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔ یہ سن کر سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا۔ پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا؟‘‘ میں نے کہا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور جو پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکر بھیجا تھا پہنچایا تو انھوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے کہا :’’تو نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ انھوں نے عرض کی کہ یارسو ل اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دیکربھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ہاں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں) ایسا نہ کیجیے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو عمل کرنے دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اچھا ان کو عمل کرنے دو۔‘‘​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(13) عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْسَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ إِلاَّ مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ فَقَالَ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَارَسُولَ اللَّهِ وَ سَعْدَيْكَ ثُمَّ سَارَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ سَعْدَيْكَ ثُمَّ سَارَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ سَعْدَيْكَ قَالَ هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ ؟ قَالَ قُلْتُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَ لاَ يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ثُمَّ سَارَ سَاعَةً قَالَ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَارَسُولَ اللَّهِ وَ سَعْدَيْكَ قَالَ هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ ؟ قَالَ قُلْتُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَنْ لاَ يُعَذِّبَهُمْ
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان سوائے پالان کی پچھلی لکڑی کے کچھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اے معاذ بن جبل!، میں نے عرض کی کہ میں حاضر ہوں آپ کی خدمت میں اور آپ کا فرمانبردار ہوں یارسول اللہ ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا:’’ اے معاذ بن جبل!‘‘ میں نے کہا یارسول اللہ ! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا:’’ اے معاذ بن جبل!‘‘ میں نے کہا یارسول اللہ ! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تو جانتا ہے اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے پھر فرمایا:’’ اے معاذ بن جبل!‘‘ میں نے کہا یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا فرمانبردار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تو جانتا ہے کہ جب بندے یہ کام کریں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟‘‘ (یعنی اسی کی عبادت کریں، کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کریں) میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وہ حق یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ کرے۔‘‘​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(14) عَن مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عِتْبَانَ فَقُلْتُ حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكَ قَالَ أَصَابَنِي فِي بَصَرِي بَعْضُ الشَّيْئِ فَبَعَثْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنِّي أُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَنِي فَتُصَلِّيَ فِي مَنْزِلِي فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى قَالَ فَأَتَى النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ مَنْ شَائَ اللَّهُ مِنْ أَصْحَابِهِ فَدَخَلَ وَ هُوَ يُصَلِّي فِي مَنْزِلِي وَ أَصْحَابُهُ يَتَحَدَّثُونَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ أَسْنَدُوا عُظْمَ ذَلِكَ وَ كُبْرَهُ إِلَى مَالِكِ بْنِ دُخْشُمٍ قَال وَدُّوا أَنَّهُ دَعَا عَلَيْهِ فَهَلَكَ وَ وَدُّوا أَنَّهُ أَصَابَهُ شَيئ فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّلاَةَ وَ قَالَ أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ قَالُوا إِنَّهُ يَقُولُ ذَلِكَ وَ مَا هُوَ فِي قَلْبِهِ قَالَ لاَ يَشْهَدُ أَحَدٌ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَيَدْخُلَ النَّارَ أَوْ تَطْعَمَهُ قَالَ أَنَسٌ فَأَعْجَبَنِي هَذَا الْحَدِيثُ فَقُلْتُ لِاِبْنِي اكْتُبْهُ فَكَتَبَهُ
سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں آیا تو عتبان سے ملا اور میں نے کہا کہ ایک حدیث ہے جو مجھے تم سے پہنچی ہے (پس تم اسے بیان کرو) ۔عتبان نے کہا کہ میری نگاہ میں فتور ہو گیا (دوسری روایت میں ہے کہ وہ نابینا ہو گئے اور شاید ضعف بصارت مراد ہو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ میں چاہتا ہوںکہ آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو جائے نماز بنا لوں(یعنی ہمیشہ وہیں نماز پڑھا کروں اور یہ درخواست اس لیے کی کہ آنکھ میں فتور ہو جانے کی وجہ سے مسجد نبوی میں آنا دشوار تھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جن کو اللہ نے چاہا اپنے اصحاب میں سے ساتھ لائے۔ آپ اندر آئے اور نماز پڑھنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ (منافقوں کا ذکر چھڑ گیا تو ان کا حال بیان کرنے لگے اور ان کی بری باتیں اور بری عادتیں ذکر کرنے لگے) پھر انھوں نے بڑا منافق مالک بن دخشم کو کہا (یا مالک بن دخیشم یا مالک بن دخشن یا دخیشن ) اور چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے بددعاکریں اور وہ مر جائے اور اس پر کوئی آفت آئے (تو معلوم ہوا کہ بدکاروں کے تباہ ہونے کی آرزو کرنا برا نہیں) اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا:’’ کیا وہ (یعنی مالک بن دخشم ) اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کی وہ تو اس بات کو زبان سے کہتا ہے لیکن دل میں اس کا یقین نہیں رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جو سچے دل سے لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھر وہ جہنم میں نہ جائے گا یا اس کو انگارے نہ کھائیں گے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہاکہ یہ حدیث مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی تو میں نے اپنے بیٹے سے کہاکہ اس کو لکھ لے، پس اس نے لکھ لی۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : اَلْإِيْمَانُ مَا هُوَ وَ بَيَانُ خِصَالِهِ​

ایمان کیا ہے؟ اور اس کی اچھی عادات کا بیان​
(15) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أُنَاسًا مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّا حَيٌّ مِنْ رَبِيعَةَ وَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ وَ لاَ نَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلاَّ فِي أَشْهُرِ الْحُرُمِ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نَأْمُرُ بِهِ مَنْ وَرَائَنَا وَ نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ إِذَا نَحْنُ أَخَذْنَا بِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَ أَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ لاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَ أَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَ آتُوا الزَّكَاةَ وَ صُومُوا رَمَضَانَ وَ أَعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْغَنَائِمِ وَ أَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ عَنِ الدُّبَّائِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ وَالنَّقِيرِ قَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَا عِلْمُكَ بِالنَّقِيرِ قَالَ بَلَى جِذْعٌ تَنْقُرُونَهُ فَتَقْذِفُونَ فِيهِ مِنَ الْقُطَيْعَائِ قَالَ سَعِيدٌ أَوْ قَالَ مِنَ التَّمْرِ ثُمَّ تَصُبُّونَ فِيهِ مِنَ الْمَائِ حَتَّى إِذَا سَكَنَ غَلْيَانُهُ شَرِبْتُمُوهُ حَتَّى إِنَّ أَحَدَكُمْ أَوْ إِنَّ أَحَدَهُمْ لَيَضْرِبُ ابْنَ عَمِّهِ بِالسَّيْفِ قَالَ وَ فِي الْقَوْمِ رَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَرَاحَةٌ كَذَلِكَ قَالَ وَ كُنْتُ أَخْبَؤُهَا حَيَائً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْتُ فَفِيمَ نَشْرَبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ فِي أَسْقِيَةِ الأَدَمِ الَّتِي يُلاَثُ عَلَى أَفْوَاهِهَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَرْضَنَا كَثِيرَةُ الْجُرْذَانِ وَ لاَ تَبْقَى بِهَا أَسْقِيَةُ الأَدَمِ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ إِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ وَ إِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ وَ إِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ قَالَ وَ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِأَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ إِنَّ فِيكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالقیس قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ ! ہم ربیعہ کی ایک شاخ ہیں اور ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ میں قبیلہ مضرکے کافر ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حرام مہینوں کے علاوہ (کسی اور مہینے میں) نہیںآ سکتے تو ہمیں ایسے کام کا حکم کیجیے کہ جسے ہم ان لوگوں کو بتلائیں جو ہمارے پیچھے (رہ گئے) ہیں اور ہم اس کام کی وجہ سے جنت میں جائیں، جب کہ ہم اس پر عمل کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں وہ یہ ہیں کہ) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کے مالوں میں سے پانچواں حصہ ادا کرو اور میں تمہیں چار چیزوں سے منع کرتا ہوں۔ کدو کے تونبے اور سبز لاکھی برتن اور روغنی برتن اور نقیر سے۔‘‘ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! نقیر آپ نہیں جانتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کیوں نہیں جانتا، نقیر ایک لکڑی ہے، جسے تم کھود لیتے ہو، پھر اس میں قطیعاء (ایک قسم کی چھوٹی کھجور، اس کو شریر بھی کہتے ہیں) بھگوتے ہو۔ (سعید نے کہا یاتمر بھگوتے ہو۔) پھر اس میں پانی ڈالتے ہو، جب اس کا جوش تھم جاتا ہے تو اس کو پیتے ہو یہاں تک کہ تم میں سے ایک اپنے چچا کے بیٹے کو تلوار سے مارتا ہے۔‘‘ (نشہ میں آکر جب عقل جاتی رہتی ہے تو دوست دشمن کی شناخت نہیں رہتی، اپنے بھائی کو جس کو سب سے زیادہ چاہتا ہے تلوار سے مارتا ہے۔ شراب کی برائیوں میں سے یہ ایک بڑی برائی ہے، جسے آپ نے بیان کیا) راوی نے کہا کہ ہمارے لوگوں میں اس وقت ایک شخص موجود تھا (جس کا نام جہم تھا) اس کو اسی نشہ کی وجہ سے ایک زخم لگ چکا تھا اس نے کہا لیکن میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرم کے مارے چھپاتا تھا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! پھر کس برتن میں ہم شربت پئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ چمڑے کی مشقوں میں پیو، جن کا منہ (ڈوری یا تسمے سے) باندھا جاتا ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے ملک میں چوہے بہت ہیں، وہاں چمڑے کے برتن نہیں رہ سکتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :چمڑے کے برتنوں میں پیو ،اگرچہ چوہے ان کو کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں۔‘‘ (یعنی جس طور سے ہو سکے چمڑے ہی کے برتن میں پیو، چوہوں سے حفاظت کرو لیکن ان برتنوں میں پینا درست نہیں کیونکہ وہ شراب کے برتن ہیں)۔ راوی نے کہا کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالقیس کے اشج (سردار) سے فرمایا:’’ تجھ میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقلمندی اور دوسری سہولت اور اطمینان۔ (یعنی جلدی نہ کرنا)۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(16) عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ الإِيمَانُ بِاللَّهِ وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِهِ قَالَ قُلْتُ أَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ أَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا وَ أَكْثَرُهَا ثَمَنًا قَالَ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ قَالَ تُعِينُ صَانِعًا أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَ رَأَيْتَ إِنْ ضَعُفْتُ عَنْ بَعْضِ الْعَمَلِ ؟ قَالَ تَكُفُّ شَرَّكَ عَنِ النَّاسِ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ مِنْكَ عَلَى نَفْسِكَ
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا، میں نے کہا کونسا بندہ آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو بندہ اس کے مالک کو عمدہ معلوم ہو اور جس کی قیمت بھاری ہو۔‘‘ میں نے کہا کہ اگر میں یہ نہ کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو کسی صانع کی مدد کر یا کسی بے ہنر شخص کے لیے مزدوری کر (یعنی جو کوئی کام اور پیشہ نہ جانتا ہو اور روٹی کا محتاج ہو)۔‘‘ میں نے کہا اگر میں خود ناتواں ہوں تو؟ (یعنی کام نہ کر سکوں یا کوئی کسب نہ کر سکوں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تو لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کر دے، یہی تیرا اپنے نفس پر صدقہ ہے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِي الْاَمْرِ بِالايْمَانِ وَالاِسْتِعَاذَةِ بِاللَّهِ عِنْدَ وَسْوَسَةِ الشَّيْطَانِ​
ایمان کا حکم اور شیطانی وسوسہ کے وقت اللہ کی پناہ مانگنا​


(17) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ يَزَالُ النَّاسُ يَسْأَلُونَكُمْ عَنِ الْعِلْمِ حَتَّى يَقُولُوا هَذَا اللَّهُ خَلَقَنَا فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ ؟ قَالَ وَ هُوَ آخِذٌ بِيَدِ رَجُلٍ فَقَالَ صَدَقَ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ قَدْ سَأَلَنِي اثْنَانِ وَ هَذَا الثَّالِثُ أَوْ قَالَ سَأَلَنِي وَاحِدٌ وَ هَذَا الثَّانِي​


سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ لوگ تم سے علم کی باتیں پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہیں گے کہ اللہ نے تو ہمیں پیدا کیا، پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟‘‘ راوی نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا سچ کہا اللہ اور اس کے رسول نے ،مجھ سے دو آدمی یہی پوچھ چکے اور یہ تیسرا ہے یا یوں کہا کہ ایک آدمی پوچھ چکا ہے اور یہ دوسرا ہے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(18) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ يَزَالُونَ يَسْأَلُونَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ حَتَّى يَقُولُوا هَذَا اللَّهُ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ ؟ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا فِي الْمَسْجِدِ إِذْ جَائَنِي نَاسٌ مِنَ الأَعْرَابِ فَقَالُوا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ هَذَا اللَّهُ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ ؟ قَالَ فَأَخَذَ حَصًى بِكَفِّهِ فَرَمَاهُمْ ثُمَّ قَالَ قُومُوا قُومُوا صَدَقَ خَلِيلِي
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا :’’‘ اے ابوہریرہ! لوگ تجھ سے (دین کی باتیں) پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یوں کہیں گے کہ بھلا اللہ تو یہ ہے اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟، کہتے ہیں کہ ایک بار میں مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں کچھ دیہاتی آئے اور کہنے لگے کہ اے ابو ہریرہ! اللہ تو یہ ہے، اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ یہ سن کر سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مٹھی بھر کنکریاں ان کو ماریں اور کہاکہ اٹھو، اٹھو! سچ کہا تھا میرے دوست (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )نے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : فِي الْاِيْمَانِ بِاللّهِ وَالْإِسْتِقَامَةِ​

اللہ پر ایمان لانے اور اس پر ڈٹ جانے کے متعلق بیان​
(18) عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قُلْ لِي فِي الإِسْلاَمِ قَوْلاً لاَ أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ وَ فِي حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ غَيْرَكَ قَالَ قُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ​
سیدنا سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے اسلام میں ایک ایسی بات بتا دیجیے کہ پھر میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (اور ابو اسامہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا) کسی سے نہ پوچھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر قائم رہ۔ ‘‘​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِي آيَاتِ النَّبِىِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَالْإِيْمَانِ بِه
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور ان پر ایمان لانے کے متعلق​

(19) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَا مِنَ الأَنْبِيَائِ مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ قَدْ أُعْطِيَ مِنَ الآيَاتِ مَا مِثْلُهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَ إِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ​

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہر ایک پیغمبر کو وہی معجزے ملے ہیں جو اس سے پہلے دوسر ے پیغمبر کو مل چکے تھے پھر اس پر لوگ ایمان لائے لیکن مجھے جو معجزہ ملا وہ قرآن ہے جو اللہ نے (صرف) میرے پاس بھیجا (ایسا معجزہ کسی پیغمبرکو نہیں ملا)، اس لیے میں امیدکرتا ہوں کہ میری پیروی کرنے والے قیامت کے دن سب سے زیادہ ہوں گے۔ ‘‘​
 
Top