• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صفات کے نصوص کو ظاهرمعنی میں لینے کی دلیل چاهئے

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
برصغیر کے غیر مقلد اور ابن تیمیه کے مقلد سلفی حضرات صفات رب عزوجل والے نصوص کو ظاهر معنی پر هی حمل کرتے هیں. اس خصوصیت کی خاص دلیل کیا هے؟
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
اہل علم کے ہاں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی کلام میں اصل یہ ہے کہ اسے اس کی حقیقت پر محمول کیا جائے۔ کسی کلام کا مجازی معنیٰ صرف اس وقت مراد لیا جائے گا جب حقیقی معنی مراد لینا ناممکن ہو۔ مثلاً اگر کوئی کہے : ’جاء الأمیر‘ ’سردار آیا۔‘ تو اس کو حقیقی معنی پر محمول کرتے ہوئے اس سے سردار کا آنا ہی مراد لیا جائے گا۔ اس کی تاویل کرتے ہوئے اس سے مراد ’سردار کا غلام آیا‘ نہیں لیا جا سکتا۔ یہ مجازی معنی صرف اس وقت مراد لیا جائے گا جب اس کے لیے کوئی دلیل موجود ہو۔ یہی معاملہ صفات باری تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ صفات کو ان کے ظاہر معنی پر ہی محمول کیا جائے گا لیکن جہاں کوئی صحیح دلیل مل جائے تو ان کی تاویل کی جائے گی۔
جو لوگ صفات کو ظاہر معنی پر محمول کرنے کے بجائے تاویل کرتے ہیں۔ تاویل کرنے کی دلیل تو ان کو دینی چاہیے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,494
پوائنٹ
964
برصغیر کے غیر مقلد اور ابن تیمیه کے مقلد سلفی حضرات صفات رب عزوجل والے نصوص کو ظاهر معنی پر هی حمل کرتے هیں. اس خصوصیت کی خاص دلیل کیا هے؟
آپ نے یہ جو گفتگو فرمائی ہے اس کا ظاہری معنی مراد لینا چاہیے یا باطنی معنی ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,494
پوائنٹ
964
میرے کلام کے سیاق سے الفاظ کا معنی و مفهوم کا تعین هوگا.
ہم بھی قرآن وسنت میں وارد صفات الہیہ کے سلسلے میں نصوص کا ظاہری و حقیقی معنی سیاق و سباق کی وجہ سے ہی کرتے ہیں ۔
مندرجہ ذیل اقتباس کو سمجھنے کی کوشش کریں :
الواجب في نصوص القرآن والسنة إجراؤها على ظاهرها دون تحريف، لا سيما نصوص الصفات، حيث لا مجال للرأي فيها.
ودليل ذلك: السمع والعقل.
أما السمع: فقوله تعالى: {نزل به الروح الأمين على قلبك لتكون من المنذرين بلسان عربي مبين} ، وقوله: {إنا أنزلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون} ، وقوله: {إنا جعلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون} ، وهذا يدل على وجوب فهمه على ما يقتضيه ظاهره باللسان العربي إلا أن يمنع منه دليل شرعي.
وقد ذم الله تعالى اليهود على تحريفهم، وبين أنهم بتحريفهم من أبعد الناس عن الإيمان، فقال: {أفتطمعون أن يؤمنوا لكم وقد كان فريق منهم يسمعون كلام الله ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه وهم يعلمون} وقال تعالى: {من الذين هادوا يحرفون الكلم عن مواضعه ويقولون سمعنا وعصينا} الآية.
وأما العقل فلأن المتكلم بهذه النصوص أعلم بمراده من غيره، وقد خاطبنا باللسان العربي المبين، فوجب قبوله على ظاهره، وإلا لاختلفت الآراء وتفرقت الأمة.

( القواعد المثلی ص ٣٣ )
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
اہل علم کے ہاں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی کلام میں اصل یہ ہے کہ اسے اس کی حقیقت پر محمول کیا جائے۔ کسی کلام کا مجازی معنیٰ صرف اس وقت مراد لیا جائے گا جب حقیقی معنی مراد لینا ناممکن ہو۔
هاتھ, پنڈلی اورچهره جسم کے اجزاء هیں. الله عزوجل کیلئے ظاهری هاتھ,پنڈلی اور چهره ماننا محال هے اس لیے که
ا- الله جل شانه جسم سے پاک هے
ب- الله پاک اجزاء سے مرکب نهیں

اس کے باوجود ظاهر پر اصرار ... اسی لئے دلیل درکار هے وه بھی قرآن و حدیث سے ناکے زید و بکر سے
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
إلا أن يمنع منه دليل شرعي.
نعم ھنا دلیل یمنع من الظواھر و ھو ان اللہ لیس کمثلہ شیء

صوفی صاحب میں آپکے اس عقیدے میں متفق ہوں مگر دلیلوں میں نہیں کیوںکہ اگر اپکے ہاں منابع حدیثی وہی ہیں جو اھل حدیث کے ہیں اپکے عقاید بلا دلیل ہیں لھذا آپ اپنے عقیدے کو اھل سنت کے کتب کے مطابق کبھی ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ کتب کی روایات نص ہیں جسم خدا پر۔۔۔

ذلكم اللّه ربّكم فاعبدوه لااله الّاهوخالق كلّ شيي‏ء فاعبدوه وهو علي كلّ شيي‏ء وكيل لاتدركه الأبصاروهو يدرك الأبصاروهو اللطيف الخبير
انعام /102 و 103
 
Top