اہل علم کے ہاں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی کلام میں اصل یہ ہے کہ اسے اس کی حقیقت پر محمول کیا جائے۔ کسی کلام کا مجازی معنیٰ صرف اس وقت مراد لیا جائے گا جب حقیقی معنی مراد لینا ناممکن ہو۔ مثلاً اگر کوئی کہے : ’جاء الأمیر‘ ’سردار آیا۔‘ تو اس کو حقیقی معنی پر محمول کرتے ہوئے اس سے سردار کا آنا ہی مراد لیا جائے گا۔ اس کی تاویل کرتے ہوئے اس سے مراد ’سردار کا غلام آیا‘ نہیں لیا جا سکتا۔ یہ مجازی معنی صرف اس وقت مراد لیا جائے گا جب اس کے لیے کوئی دلیل موجود ہو۔ یہی معاملہ صفات باری تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ صفات کو ان کے ظاہر معنی پر ہی محمول کیا جائے گا لیکن جہاں کوئی صحیح دلیل مل جائے تو ان کی تاویل کی جائے گی۔
جو لوگ صفات کو ظاہر معنی پر محمول کرنے کے بجائے تاویل کرتے ہیں۔ تاویل کرنے کی دلیل تو ان کو دینی چاہیے۔