• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صفات کے نصوص کو ظاهرمعنی میں لینے کی دلیل چاهئے

شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
45
پوائنٹ
48
برصغیر کے غیر مقلد اور ابن تیمیه کے مقلد سلفی حضرات صفات رب عزوجل والے نصوص کو ظاهر معنی پر هی حمل کرتے هیں. اس خصوصیت کی خاص دلیل کیا هے؟
اللہ رب العالمین کی صفات کو اگر آپ بالکل صاف ذہن اور باظل نظریات سے صاف کرکے پڑھیں تو اللہ کی صفات میں بے جا تاویل کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ اللہ تعالی کی صفات کو بآسانی سمجھنے کے لئے اگر ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام اور ہمارے برگزیدہ اسلاف کا عقیدہ دیکھیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کی صفات کو بلا تاویل ماننا ہی صحابہ کا عقیدہ تھا اسی بنیاد پر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے صفات والی آیتوں کی تلاوت کی تو نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سوال کیا کہ اللہ کے ہاتھ کیسے ہیں یا ہم انہیں کس طرح مانیں ؟ نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی تاویل کی جب کہ آپ کتاب اللہ کی وضاحت کرنے والے تھے، بلکہ سبھی نے ان آیتوں کو ظاہر پر ہی محمول کیا۔ اگر ہم ظاہر کے علاوہ کوئی اور معنی لیتے ہیں تو اس وجہ سے دو بڑی گمراہیاں لازم آتی ہیں۔ پہلی کہ تاویل کرنے والا گویا یہ کہہ رہا ہے کہ قرآن واضح نہیں ہے، کیونکہ اگر واضح ہوتا تو اللہ رب العالمین اس کی وضاحت کردیتا یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیان فرمادیتے۔ اور دوسرا یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا کہ اسلام کی بنیادی چیز توحید کو ہی اچھے طریقے سے امت تک نہیں پہنچایا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی کوئی تاویل نہیں کی تو ہم کیوں کی تاویل کرے لہذا ظاہر پر ماننا ہی سلف کا طریقہ رہا ہے۔
اب رہا آپ کا سوال کہ ظاہر پر کیوں محمول کرتے ہیں تو اس کے کئی سارے جواب ہیں
١)اللہ رب العالمین نے ہمیں جو کتاب دیا اس کے ہر لفظ کو ظاہر پر ہی محمول کیا جاتا ہے جب تک کہ کوئی ایسی دلیل نہ آئے جو اصل معنی سے پھیرے لہذا ہم صفات والی آیتوں کو بھی ظاہر پر ہی محمول کریں گے۔ کیونکہ ہمیں ان آیتوں کو اصل معنی سے ہٹانے کے لئے کوئی دلیل چاہیئے۔
جناب صوفی صاحب! میرے اندازے کے مطابق آپ اللہ رب العالمین کے لئے علم، قدرت ، اور حکمت جیسی صفات کو ثابت ہی مانتے ہوں گے، آپ ان صفات کو ظاہر پر محمول پر کرتے ہوئے ان پر ایمان لاتے ہو ان میں کوئی تاویل نہیں کرتے ہو ۔ کیونکہ ان کا صفات کا ذکر قرآن کریم میں ہیں۔ تو پھر ید، اور دیگر صفات کا ذکر بھی تو قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ہیں تو ان پر ویسا ایمان کیوں نہیں رکھتے ہو جیسا کہ دیگر صفات پر کیا یہ اسی طرح نہیں کہ "أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ"
٢) سب میں بڑی غلطی جو صفات الہیہ کے انکار کی بنتی ہے وہ یہ کہ منکرین ہر صفت کو اپنی عقل کے مطابق سوچتے اور سمجھتے ہیں، ایمان بالغیب کا یقین ان کے اندر نہیں پایا جاتا۔ جب کہ اللہ رب العالمین کی صفات پر اسلاف کرام نے ایمان لایا بالکل ویسے ہی جیسے کہ لفظ کا تقاضہ تھا یعنی ظاہر کے مطابق لیکن بغیر تاویل اور بغیر تمثیل کے۔ اور ہم اللہ کے لئے مثل کیوں قرار دیں جب کہ وہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ اس عظیم کائنات کا خالق ہے ہم اس عظمت والی ذات کے بارے میں یہ اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کیسا ہے؟ تب ہی تو اس نے صاف طور سے بندوں تک یہ بات پہنچا دیا کہ "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ " اس آیت میں غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں اپنے لئے ہر طرح کے مثل کی نفی کی ہے وہیں ان صفات کا بھی ذکر کیا جو نوع کے اعتبار سے بندوں کے اندر بھی ہے لیکن ان صفات میں بھی وہ بندوں کے مثل نہیں بلکہ اللہ تعالی کی صفت ہونے کے اعتبار سے ہم ان کی کیفیت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔
ظاہری معنی نہ تسلیم کرنے کی وجہ اور اس کا جواب:
شبہ: در حقیقت لوگ صفات کو ظاہری معنی پر تسلیم کرنے سے اس لئے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اس سے تشبیہ اور تمثیل لازم آتی ہے۔۔۔؟
٣) یہ عقل کی کم فہمی ہے، حالانکہ ظاہری معنی تسلیم کرنے سے کوئی تشبیہ لازم نہیں آتی بلکہ جملہ کا سیاق ساری تشبیہات کو ختم کر دیتا ہے۔ کیونکہ جب کسی لفظ کی اضافت ہو جاتی ہے تو اس لفظ کے اندر تخصیص ہو جاتی ہے۔ مثلا: انسانوں کا ہاتھ ہے اور اونٹوں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے لیکن کیا ہمارے اور اونٹوں کے ہاتھ ایک جیسے ہیں؟ نہیں، بالکل نہیں۔ تو پھر وہ عظیم ذات جس کے جیسا کوئی نہیں، اس کی صفات کو ثابت کرتے وقت تشبیہ کا خوف کیوں آتا ہے؟
هاتھ, پنڈلی اورچهره جسم کے اجزاء هیں. الله عزوجل کیلئے ظاهری هاتھ,پنڈلی اور چهره ماننا محال هے اس لیے که
ا- الله جل شانه جسم سے پاک هے
ب- الله پاک اجزاء سے مرکب نهیں
٤) اہل السنہ و الجماعہ کا موقف یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے لئے ہر ان صفات کو ثابت کیا جائے گا جو اللہ رب العالمین نے اپنے لئے ثابت کیا ہے اور ہر ان صفات سے نفی کی جائے گی جن کی نفی اللہ رب العالمین نے کی ہیں، اور ان الفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں گے جن الفاظ کا استعمال اللہ رب العالمین نے نہیں کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا " وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ" (اسراء: ٣٦) اسی طرح فرمایا "قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ" (بقرۃ: ١٤٠) ان آیتوں میں ان لوگوں کے لئے ڈانٹ اور فٹکار ہے جو بغیر علم کے بات کرتے ہیں یا اللہ نے اپنی جن صفات کو ثابت کیا ہے اس میں اپنی عقل لگا کر بات کرتے ہیں جب کہ اللہ نے اپنے لئے ہاتھ اور پنڈلی اور چہرہ ثابت کیا تو ہمیں بس اتنا ثابت کرنا ہے کیونکہ جس ذات نے اپنے لئے ان الفاظ کا استعمال کیا وہ ہم سے زیادہ اپنے بارے میں جاننے والا ہے۔ اب اجزاء اور مرکب ان جیسے الفاظ کا استعمال جب اللہ نے اپنے لئے نہیں کیا تو ہم کیوں کریں؟ کیا ہم اللہ سے زیادہ جاننے والے ہیں؟
آپ کا جواب ہوگا: یہ تو اجزاء ہے اور ان کے تسلیم کرنے سے یہ لازم آتا ہے۔ یہ تو ہماری عقل کہتی ہے کہ یہ تسلیم کرنے سے یہ تو لازم آتا ہے۔ آپ وہ کیوں نہیں کرتے جو سلف نے کیا: یعنی ثابت کو تسلیم کیا، نفی شدہ کی نفی کیا اور جن کے بارے میں شریعت نے خاموشی اختیار کیا ہے ان کے بارے میں خاموشی۔ جیسا کہ عبد العزیز الکنانی رحمہ اللہ نے بشر المعتزلی سے مناظرہ کرتے وقت کہا تھا: " وعلى الخلق جميعا أن يثبتوا ما أثبت الله، وينفوا ما نفى الله، ويمسكوا عما أمسك الله" کہ تمام لوگوں پر لازم ہے کہ ان صفات کو تسلیم کریں جنھیں اللہ نے ثابت کیا ہے اور ان کی نفی کریں جن کی نفی اللہ رب العالمین نے کیا ہے اور ان سے رک جائیں جن کا ذکر اللہ رب العالمین نے نہیں کیا۔ (الحیدۃ والاعتذار فی الرد علی من قال بخلق القرآن:ص ٤٦)
 

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
هاتھ, پنڈلی اورچهره جسم کے اجزاء هیں. الله عزوجل کیلئے ظاهری هاتھ,پنڈلی اور چهره ماننا محال هے اس لیے که
ا- الله جل شانه جسم سے پاک هے
ب- الله پاک اجزاء سے مرکب نهیں

اس کے باوجود ظاهر پر اصرار ... اسی لئے دلیل درکار هے وه بھی قرآن و حدیث سے ناکے زید و بکر سے
ہمکو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اللہ تعالی نے جو صفات اپنے لیئے بیان فرمائی ہیں وہ بر حق ہیں
رہی بات انکی کیفیت کی تو ہمکو معلوم نہ ہے اس لیئے جو بیان ہوا اسی پر اکتفا کیا جائے گا
اگر ظاہری اور حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لیں گے تو کئی خرابیاں آ سکتی ہیں
ان میں سے ایک یہ کہ ہر شخص اپنا ہی معنی بیان کرے گا اس کھچڑی سے کچھ فائدہ بھی نہ ہو گا
خاص کر آآآآآآآآآآآآآپ کو
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
اللہ رب العالمین کی صفات کو اگر آپ بالکل صاف ذہن اور باظل نظریات سے صاف کرکے پڑھیں تو اللہ کی صفات میں بے جا تاویل کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ اللہ تعالی کی صفات کو بآسانی سمجھنے کے لئے اگر ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام اور ہمارے برگزیدہ اسلاف کا عقیدہ دیکھیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کی صفات کو بلا تاویل ماننا ہی صحابہ کا عقیدہ تھا اسی بنیاد پر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے صفات والی آیتوں کی تلاوت کی تو نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سوال کیا کہ اللہ کے ہاتھ کیسے ہیں یا ہم انہیں کس طرح مانیں ؟ نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی تاویل کی جب کہ آپ کتاب اللہ کی وضاحت کرنے والے تھے، بلکہ سبھی نے ان آیتوں کو ظاہر پر ہی محمول کیا۔ اگر ہم ظاہر کے علاوہ کوئی اور معنی لیتے ہیں تو اس وجہ سے دو بڑی گمراہیاں لازم آتی ہیں۔ پہلی کہ تاویل کرنے والا گویا یہ کہہ رہا ہے کہ قرآن واضح نہیں ہے، کیونکہ اگر واضح ہوتا تو اللہ رب العالمین اس کی وضاحت کردیتا یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیان فرمادیتے۔ اور دوسرا یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا کہ اسلام کی بنیادی چیز توحید کو ہی اچھے طریقے سے امت تک نہیں پہنچایا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی کوئی تاویل نہیں کی تو ہم کیوں کی تاویل کرے لہذا ظاہر پر ماننا ہی سلف کا طریقہ رہا ہے۔
اب رہا آپ کا سوال کہ ظاہر پر کیوں محمول کرتے ہیں تو اس کے کئی سارے جواب ہیں
١)اللہ رب العالمین نے ہمیں جو کتاب دیا اس کے ہر لفظ کو ظاہر پر ہی محمول کیا جاتا ہے جب تک کہ کوئی ایسی دلیل نہ آئے جو اصل معنی سے پھیرے لہذا ہم صفات والی آیتوں کو بھی ظاہر پر ہی محمول کریں گے۔ کیونکہ ہمیں ان آیتوں کو اصل معنی سے ہٹانے کے لئے کوئی دلیل چاہیئے۔
جناب صوفی صاحب! میرے اندازے کے مطابق آپ اللہ رب العالمین کے لئے علم، قدرت ، اور حکمت جیسی صفات کو ثابت ہی مانتے ہوں گے، آپ ان صفات کو ظاہر پر محمول پر کرتے ہوئے ان پر ایمان لاتے ہو ان میں کوئی تاویل نہیں کرتے ہو ۔ کیونکہ ان کا صفات کا ذکر قرآن کریم میں ہیں۔ تو پھر ید، اور دیگر صفات کا ذکر بھی تو قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ہیں تو ان پر ویسا ایمان کیوں نہیں رکھتے ہو جیسا کہ دیگر صفات پر کیا یہ اسی طرح نہیں کہ "أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ"
٢) سب میں بڑی غلطی جو صفات الہیہ کے انکار کی بنتی ہے وہ یہ کہ منکرین ہر صفت کو اپنی عقل کے مطابق سوچتے اور سمجھتے ہیں، ایمان بالغیب کا یقین ان کے اندر نہیں پایا جاتا۔ جب کہ اللہ رب العالمین کی صفات پر اسلاف کرام نے ایمان لایا بالکل ویسے ہی جیسے کہ لفظ کا تقاضہ تھا یعنی ظاہر کے مطابق لیکن بغیر تاویل اور بغیر تمثیل کے۔ اور ہم اللہ کے لئے مثل کیوں قرار دیں جب کہ وہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ اس عظیم کائنات کا خالق ہے ہم اس عظمت والی ذات کے بارے میں یہ اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کیسا ہے؟ تب ہی تو اس نے صاف طور سے بندوں تک یہ بات پہنچا دیا کہ "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ " اس آیت میں غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں اپنے لئے ہر طرح کے مثل کی نفی کی ہے وہیں ان صفات کا بھی ذکر کیا جو نوع کے اعتبار سے بندوں کے اندر بھی ہے لیکن ان صفات میں بھی وہ بندوں کے مثل نہیں بلکہ اللہ تعالی کی صفت ہونے کے اعتبار سے ہم ان کی کیفیت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔
ظاہری معنی نہ تسلیم کرنے کی وجہ اور اس کا جواب:
شبہ: در حقیقت لوگ صفات کو ظاہری معنی پر تسلیم کرنے سے اس لئے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اس سے تشبیہ اور تمثیل لازم آتی ہے۔۔۔؟
٣) یہ عقل کی کم فہمی ہے، حالانکہ ظاہری معنی تسلیم کرنے سے کوئی تشبیہ لازم نہیں آتی بلکہ جملہ کا سیاق ساری تشبیہات کو ختم کر دیتا ہے۔ کیونکہ جب کسی لفظ کی اضافت ہو جاتی ہے تو اس لفظ کے اندر تخصیص ہو جاتی ہے۔ مثلا: انسانوں کا ہاتھ ہے اور اونٹوں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے لیکن کیا ہمارے اور اونٹوں کے ہاتھ ایک جیسے ہیں؟ نہیں، بالکل نہیں۔ تو پھر وہ عظیم ذات جس کے جیسا کوئی نہیں، اس کی صفات کو ثابت کرتے وقت تشبیہ کا خوف کیوں آتا ہے؟

٤) اہل السنہ و الجماعہ کا موقف یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے لئے ہر ان صفات کو ثابت کیا جائے گا جو اللہ رب العالمین نے اپنے لئے ثابت کیا ہے اور ہر ان صفات سے نفی کی جائے گی جن کی نفی اللہ رب العالمین نے کی ہیں، اور ان الفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں گے جن الفاظ کا استعمال اللہ رب العالمین نے نہیں کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا " وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ" (اسراء: ٣٦) اسی طرح فرمایا "قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ" (بقرۃ: ١٤٠) ان آیتوں میں ان لوگوں کے لئے ڈانٹ اور فٹکار ہے جو بغیر علم کے بات کرتے ہیں یا اللہ نے اپنی جن صفات کو ثابت کیا ہے اس میں اپنی عقل لگا کر بات کرتے ہیں جب کہ اللہ نے اپنے لئے ہاتھ اور پنڈلی اور چہرہ ثابت کیا تو ہمیں بس اتنا ثابت کرنا ہے کیونکہ جس ذات نے اپنے لئے ان الفاظ کا استعمال کیا وہ ہم سے زیادہ اپنے بارے میں جاننے والا ہے۔ اب اجزاء اور مرکب ان جیسے الفاظ کا استعمال جب اللہ نے اپنے لئے نہیں کیا تو ہم کیوں کریں؟ کیا ہم اللہ سے زیادہ جاننے والے ہیں؟
آپ کا جواب ہوگا: یہ تو اجزاء ہے اور ان کے تسلیم کرنے سے یہ لازم آتا ہے۔ یہ تو ہماری عقل کہتی ہے کہ یہ تسلیم کرنے سے یہ تو لازم آتا ہے۔ آپ وہ کیوں نہیں کرتے جو سلف نے کیا: یعنی ثابت کو تسلیم کیا، نفی شدہ کی نفی کیا اور جن کے بارے میں شریعت نے خاموشی اختیار کیا ہے ان کے بارے میں خاموشی۔ جیسا کہ عبد العزیز الکنانی رحمہ اللہ نے بشر المعتزلی سے مناظرہ کرتے وقت کہا تھا: " وعلى الخلق جميعا أن يثبتوا ما أثبت الله، وينفوا ما نفى الله، ويمسكوا عما أمسك الله" کہ تمام لوگوں پر لازم ہے کہ ان صفات کو تسلیم کریں جنھیں اللہ نے ثابت کیا ہے اور ان کی نفی کریں جن کی نفی اللہ رب العالمین نے کیا ہے اور ان سے رک جائیں جن کا ذکر اللہ رب العالمین نے نہیں کیا۔ (الحیدۃ والاعتذار فی الرد علی من قال بخلق القرآن:ص ٤٦)
پیارے بھائی اس قدر لمبی بات سے زیاده سودمند هوتا اگر آپ ظاهر معنی لینے کی صریح دلیل لکھ دیتے -
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
ہمکو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اللہ تعالی نے جو صفات اپنے لیئے بیان فرمائی ہیں وہ بر حق ہیں
رہی بات انکی کیفیت کی تو ہمکو معلوم نہ ہے اس لیئے جو بیان ہوا اسی پر اکتفا کیا جائے گا
اگر ظاہری اور حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لیں گے تو کئی خرابیاں آ سکتی ہیں
ان میں سے ایک یہ کہ ہر شخص اپنا ہی معنی بیان کرے گا اس کھچڑی سے کچھ فائدہ بھی نہ ہو گا
خاص کر آآآآآآآآآآآآآپ کو
میرے بھائی اس ضمن میں سب سے زبردست بات یهی ھے که ظاھری الفاظ پر اکتفا کیا جائے اور معنی الله کو تفویض کردی جائے- جبکه آپ الفاظ کے ظاھری معنی پر هی اصرار کر رھے ھیں جس کی دلیل پانے کیلئے یه دھاگه شروع کیا گیا ھے
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
الحمد لله ايک بنيادی بات پر آپ نے اتفاق کا اظہار فرماديا ہے ۔

اس کے بعد جو آپ کا اشکال ہے اس کے حل سے پہلے توحيد أسماء و صفات کا مفہوم ذہن ميں رکھيں :

إفراد الله سبحانه وتعالى بما سمى به نفسه، ووصف به نفسه؛ في كتابه، أو على لسان رسوله صلى الله عليه وسلم، نفيا وإثباتا؛ فيثبت له ما أثبته لنفسه، وينفي عنه ما نفاه عن نفسه؛ من غير تحريف ولا تعطيل، ومن غير تكييف ولا تمثيل

مطلب :
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ صلی اللہ عليہ و سلم نے اللہ کے جو اسماء بيان کيے ہيں اور جن صفات سے متصف ٹھہرايا ہے ان پر بغير کسي تحريف ، تعطيل ، تکييف اور تمثيل کے ايمان لانا ۔
يعنی دو ہی چيزيں ہيں اسماء اللہ اور صفات اللہ

اب آپ خود فيصلہ کر ليں کہ قرآن و سنت ميں وارد عين ( آنکھ ) اور يد ( ہاتھ ) اسماء اللہ ميں سے ہيں يا صفات اللہ ميں سے ہيں ؟ يقينا آپ العين و اليد کو أسما اللہ ميں سے نہيں سمجھتے ہوں گے ۔



دونوں چیزیں ہی صفات میں سے ہیں ۔

اگر آپ مزيد اس بحث کو آگے بڑھانا چاہتے ہيں تو درج ذيل چيزوں کي وضاحت کرديں تاکہ بحث زيادہ سے زيادہ مفيد ہو سکے ۔

صفت کی کيا تعريف ہے ؟

کيا افعال صفات نہيں ہوتے ؟

آنکھ ، ہاتھ وغيرہ صفات نہيں ہيں تو پھر کيا ہيں ؟

نصوص ميں وارد عين ، وجہ اور يد وغيرہ سے ان کا حقیقی معنی( ہاتھ اور چہرہ اور آنکھ ) مراد لينا کيوں غلط ہے ؟

سابق سوال کی اگلی شق يہ ہے کہ

کيا آپ کے نزديک اللہ کی آنکھيں ، ہاتھ ، چہرہ نہيں ہيں ؟ اگر ہيں تو اس کی دليل کيا ہے ؟
میرے خیال میں ید اور عین صفات هیں

صفت خوبی کو کھتے ھیں

افعال صفات هوتے ھیں

آنکھ اور ھاتھ حقیقی / ظاھری معنوں میں جوارح (جسم کے اعضاء) ھیں - مجازی معنوں میں صفات ھیں
 

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
١ـ نعم هذا هو الحق ولکنکم تشبهون الله بالبدر و غيره ۔
2ـ تناقض قولک الاول بان الله ليس له شبيه و هنا تقرّ بالتشبيه!!!!!!
3ـ هذا هو قولنا و ليس قولکم لانکم تشابهون الله بمالخلوق۔۔۔۔ اليس القمر مخلوقا؟ فلماذا تشبّهون الله بالقمر؟
لا نعلم الذی شبه الله بالقمر من اهل السنة ان كنت تعلمه تبين
هاتوا برهانكم ان كنتم صادقين
 
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
45
پوائنٹ
48
پیارے بھائی اس قدر لمبی بات سے زیاده سودمند هوتا اگر آپ ظاهر معنی لینے کی صریح دلیل لکھ دیتے -
آپ کو صریح دلیل مل جائے گی، بس آپ اس تفصیل کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش تو کیجئے اور جو سمجھ میں نہ آئے یا کوئی اعتراض ہو تو سوال کر سکتے ہو۔
 

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
میرے بھائی اس ضمن میں سب سے زبردست بات یهی ھے که ظاھری الفاظ پر اکتفا کیا جائے اور معنی الله کو تفویض کردی جائے- جبکه آپ الفاظ کے ظاھری معنی پر هی اصرار کر رھے ھیں جس کی دلیل پانے کیلئے یه دھاگه شروع کیا گیا ھے
آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں لفظ الید الوجہ اور العین آیا ہے اسکو ویسے ہی تسلیم کیا جائے گا انکا مفہوم اپنی جانب سے مقرر نہیں کیا جائے گا وہ اللہ تعالی ہی جانتے ہیں
ہم بھی تو یہی کہتے ہیں انکی کیفیت بیان نہ کی جائے
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں لفظ الید الوجہ اور العین آیا ہے اسکو ویسے ہی تسلیم کیا جائے گا انکا مفہوم اپنی جانب سے مقرر نہیں کیا جائے گا وہ اللہ تعالی ہی جانتے ہیں
ہم بھی تو یہی کہتے ہیں انکی کیفیت بیان نہ کی جائے
هم ظاهر الفاظ پر اکتفا کرتے ھوئے صفات کا اقرار کرتے هیں ان پر ایمان لاتے هیں اور انکے معنی الله کے سپرد کرتے ھوئے تفویض بالمعنی کرتے ھیں
جبکه آپ تا ویل کرتے هوئے منصوص الفاظ کے ظاهری معنی سے چپک جاتے ھو- جس کا لازمه تجسیم ھے
البته تشبیه سے بچنے کیلئے تفویض بالکیفیه کرتے ھو-
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
آپ کو صریح دلیل مل جائے گی، بس آپ اس تفصیل کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش تو کیجئے اور جو سمجھ میں نہ آئے یا کوئی اعتراض ہو تو سوال کر سکتے ہو۔
هم کوشش کرتے ھیں
 
Top