• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبادت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2: نفسانی خواہشات (الہوی):
خواہش نفسانی اس وقت طاغوت بن جاتی ہے جب حق اور باطل کے تعین میں خواہش نفسانی کو ہی مصدر مانا جا رہا ہو۔ یعنی جس چیز کو نفس حق کہے اسی کو حق مانا جائے اور جسے نفس باطل کہہ دے اسے باطل کہا جائے اگرچہ یہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح دوستی اور دشمنی میں نفسانی خواہشات کی پیروی کو حق سمجھے۔ یعنی انسان اس سے دوستی رکھے جس کے بارے میں اس کا نفس خواہش کرتا ہو اور اس میں شرعی تقاضے کا خیال نہ رکھے ، اسی طرح اس سے دشمنی رکھے جس کے بارے میں اس کا نفس دشمنی رکھنے کا متقاضی ہو اگرچہ شریعت اس سے دوستی رکھنے کی متقاضی ہی کیوں نہ ہو۔
اس صورت میں نفسانی خواہشات طاغوت کہلاتی ہیں کیونکہ خواہشات کی پیروی کے اندر اپنے لیے خیر اور مصلحت سمجھنے والا خود کو کسی ضابطہ کا پابند نہیں سمجھتا وہ درحقیقت اپنی خواہشات کوخیر و شر کے تعین میں مصدر مان کر اللہ تعالیٰ کا شریک بناتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا ﴿٤٣﴾} (الفرقان)
"کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے۔ کیا آپ اس کے ذمہ دار بن سکتے ہیں؟"
{أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ} (الجاثیہ: ۲۳)
"کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے علم کے باوجود گمراہ کر دیا ہے۔"
نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرنے والا گناہ گار مسلمان ہے لیکن جو خواہش نفس کو حق اور باطل کے تعین میں مصدر مانے اور اسی بنیاد پر ولاء والبراء کرنے کو حق سمجھے تو یہ کبیرہ گناہ نہیں بلکہ کفر ہے۔

3: اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کو مرجع بنائے بغیر فیصلہ کرنے والا:
ارشاد باری تعالی ہے :
{إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ} (یوسف: ۴۰)
"(سن رکھو کہ) اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی دین حق ہے۔"
اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے ایمان کی نفی فرمائی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہر معاملے میں حاکم اور فیصل نہیں مانتا۔
{ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} (النساء ۶۵)
“تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کرو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اسے خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔"
تحاکم ایک قسم کی عبادت ہے جس میں فیصلے کرنے والا عبادت کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص اپنی زندگی کے تمام عام و خاص معاملات میں اللہ وحدہ لا شریک کی شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے وہ اللہ تعالی کا عبادت گذار ہے۔ جو کسی غیر کے قانون کو مرجع بناتے ہوئے شریعتِ اسلام کے خلاف فیصلے کرتا ہے، یہ غیر خواہ کوئی بھی کیوں نہ ہو اور یہ فیصلہ خواہ زندگی کے کسی کمترین معاملے کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو ایسا کرنے والا اس غیر کا عبادت گزار ہوتا ہے کیونکہ شریعت سازی، قانون اور دستور وضع کرنا الوہیت کی خصوصیات ہیں۔ جس نے ان خصوصیات میں سے کسی ایک کو بھی اپنی طرف منسوب کیا تو اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعوی کیا اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کا شریک بنا لیا۔ اسی طرح جس نے اللہ تعالی کے علاوہ یا اس کے ساتھ کسی دوسرے کے بارے میں قانون سازی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلے کروانے کے لیے اس کی طرف رجوع کیا وہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر اس کی بندگی کرنے والا ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کو مرجع بنائے بغیر فیصلہ کرنے والا سرکشی اور ظلم میں سب سے بڑھ کر ہوتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تجاوز اور اعراض کر کے اسے جاہلیت کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے بدلنے کا مرتکب ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} (المائدہ: ۴۴)
"جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔"
{وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} (المائدہ:۴۵)
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔"
{وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ} (المائدہ: ۴۷)
"اورجو اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔"
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ} (المائدہ: ۵۰)
"کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟"
اللہ تعالیٰ کے حکم کے علاوہ ہر حکم جاہلیت کا حکم تصور ہو گا آیت کریمہ اسی بات کی وضاحت کر رہی ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے کسی دوسرے کے قانون کو مرجع بناتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا طلبگار ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہے جو جاہلیت کے احکام کا نفاذ چاہتے ہیں۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ طاغوت کی تعریف میں تو یہ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز یا شخص ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جائے۔ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے غیر اللہ کے قانون کو مرجع بناتے ہوئے لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے والے کی کس طرح عبادت ہوتی ہے جس بنا پر آپ اسے طاغوت کہہ رہے ہیں۔
اس اعتراض کے متعدد جوابات ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو مرجع مانے بغیر فیصلہ کرنے والے حاکم کو خود اللہ تعالیٰ نے طاغوت کہا ہے :
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا} (النساء: ۶۰)
"کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ طاغوت کے پاس فیصلہ کروانے جائیں حالانکہ یقینا انہیں اس کا کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر دور کی گمراہی میں ڈال دے۔"
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس آیت مبارکہ میں ان لوگوں کے طریقے پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب یعنی قرآن پر بھی ایمان لائے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء پر نازل شدہ کتابوں پر بھی ایمان لائے ہیں۔ لیکن عملی طور پر وہ ایسی بات کے مرتکب ہوتے ہیں جو ان کے اس دعوی کے بطلان کا باعث ہے اور اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کا مذکورہ دعوی جھوٹ پر مبنی ہے۔ عملی طور پر وہ ہر فیصلہ اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب سے کروانے کی بجائے طاغوت سے کرواتے ہیں یہ ان کے دعوی کے بطلان کا باعث ہے حالانکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل شدہ کتابوں میں طاغوت کے انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔" (فتح القدیر: ۱/ ۴۸۲)
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان: {یَزْعُمُونَ} ان کے دعوی ایمان کی تکذیب کے لیے ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ بنیادی طور پر ایمان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے کسی دوسرے سے فیصلہ کروانا یہ دونوں باتیں ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔" (رسالۃ تحکیم القوانین)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہاں طاغوت سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کتاب و سنت سے اعراض کرتے ہوئے باطل کے ذریعے فیصلے کرتا ہے اور لوگ فیصلے کروانے کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں"۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو مرجع بنائے بغیر فیصلہ کرنے والا حاکم جو بھی فیصلہ کرتا ہے لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف اس کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں تو اس طرح وہ ان کا معبود بن جاتا ہے کیونکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو چھوڑ کر اس کی بات تسلیم کر کے اس کی غیر مشروط اطاعت کرتے ہیں۔
یاد رکھئے کہ غیر مشروط اطاعت کرنا عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ اُس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے۔
ارشاد ربانی ہے:
{وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا} (سورۃ الکہف:26)
"اور وہ اپنے حکم میں سے کسی کو شریک نہیں کرتا"
مفسر قرآن علامہ محمد امین شنقیطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کے حکم اور فیصلہ میں کسی دوسرے کو اس کا شریک نہ بنائے۔ حکم صرف اور صرف اللہ تعالی کا ہے کسی بھی صورت میں غیر اللہ کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ حلال وہی ہے جسے اللہ تعالی نے حلال قرار دیا اور حرام وہی ہے جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا۔ دین وہی ہے جسے اللہ تعالی نے متعین فرمایا ہے اور فیصلہ وہی ہے جو اللہ تعالی نے صادر فرمایا ہے۔ مذکورہ ارشاد ربانی {وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا} میں حکم اللہ تعالی کے تمام فیصلوں کو شامل ہے۔ اللہ تعالی کے فیصلوں میں شریعت سب سے پہلے داخل ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ نے جس مسئلہ کو بیان کیا ہے کہ حکم کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہے کوئی دوسرا اس میں اس کا شریک نہیں ہو سکتا اس مفہوم کی وضاحت قرآن کریم کی متعدد دوسری آیات سے بھی ملتی ہے"۔
{إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ} (یوسف: ۶۷)
"فرمانروائی صرف اللہ تعالی ہی کی ہے اسی پر میں نے توکل کیا"۔
{وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ} (الشوری:۱۰)
"اور جس جس بات میں تم اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ ہی کی طرف ہے"۔
{كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ} (القصص: ۸۸)
"اس کی ذات (پاک) کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ حکم اسی کا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے"۔
{أَفَغَيْرَ اللَّـهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا} (الأنعام: ۱۱۴)
"(کہو) کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور منصف تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہاری طرف کتاب بھیجی ہے جس میں ہر بات تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔"
اِن آسمانی نصوص سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ وضعی (انسان ساختہ) قوانین کے پیچھے چلتے ہیں جو کہ درحقیقت شیطان کی شریعت ہے جسے شیطان نے اپنے چیلوں کے ذریعے مقرر کی، یہ اُس شریعت سے متصادم ہے جسے اللہ جلال اور بلندی کے مالک نے اپنے رسولوں کے ذریعے مقرر فرمائی.. اِن لوگوں کے کفر و شرک میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا سوائے اُس شخص کے جس کی بصیرت کو اللہ نے مسخ کر دیا ہو اور جس کو وحی کی روشنی دیکھنے سے اندھا کر دیا ہو.. . پس معاشرے کے اموال اور جائدادوں کے معاملہ میں، ان کی عزتوں آبروؤں کے مسائل میں، ان کے انساب، ان کی عقول اور ان کے دین کے معاملہ میں.. اِن سب معاملات میں طاغوتی نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرنے والا گناہ گار مسلمان ہے لیکن جو خواہش نفس کو حق اور باطل کے تعین میں مصدر مانے اور اسی بنیاد پر ولاء والبراء کرنے کو حق سمجھے تو یہ کبیرہ گناہ نہیں بلکہ کفر ہے۔ نظام کو فیصل ٹھہرانا کفر ہے اُس ذات کے ساتھ جو زمین اور آسمانوں کی خالق ہے، اور یہ بغاوت ہے اُس آسمانی نظام کے خلاف جس کو وضع کرنے والی وہ ذات ہے جو ساری مخلوقات کی خالق ہے اور جو اپنی مخلوقات کی مصلحت سے خود ہی سب سے بڑھ کر واقف ہے۔
پاک اور نہایت بلندہے اِس سے کہ اُس کے ساتھ کسی اور کو بھی ضابطے صادر کرنے کا حق حاصل ہو۔ (تفسیر اضواء البیان، الکہف، آیۃ ۲۶)
۳۔ جو حاکم اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے دوسرے قوانین کو مرجع اور قانون عام بناتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندوں کو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے نکال کر شرک، کفر اور جاہلیت کے اندھیروں میں ڈال دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ایسے ہی حاکم مراد ہیں:
{وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ} (البقرۃ: ۲۵۷)
"اور کافروں کے اولیاء طاغوت ہیں۔ جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ اہل دوزخ ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے۔"
ایسے حکمران جو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے دوسرے قوانین کو مرجع اور قانون عام بناتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں آج کل مسلمانوں کے ملکوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اس بارے میں بعض اہل علم کے اقوال آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں:
امام اسماعیل بن عمر بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ {أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ} (المائدہ:۵۰) کی تفسیر کے تحت رقمطراز ہیں:
"اللہ تعالیٰ اس انسان کی مذمت بیان کر رہا ہے جو اس کے محکم اور مضبوط قانون سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کو چھوڑ کر دوسری آراء، نظریات اور اصطلاحات کی طرف رجوع کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہر بھلائی کے کام پر مشتمل ہے اور ہر برائی سے روکنے والا ہے، اور دوسری آراء و نظریات خالصتاً انسانی ذہن کی پیداوار ہیں اور انہیں و ضع کرنے کے لیے شریعت سے راہنمائی نہیں لی گئی۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ نفسانی خواہشات اور ذاتی نظریات کے ذریعے وضع کردہ اصول و قواعد کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ تاتاری اپنے بادشاہ چنگیز خان کی وضع کردہ قانون کی کتاب کے ذریعے اپنے ملکی معاملات میں فیصلے کرتے ہیں۔ چنگیز خان کی وضع کردہ یہ قانون کی کتاب ایسے احکام و ضوابط کا مجموعہ ہے جو اس نے مختلف شریعتوں مثلا یہودیت، عیسائیت اور اسلام سے اخذ کیے ہیں۔ اور اس میں بہت سے ایسے احکام بھی ہیں جو خالصتاً اس کے اپنے نقطہء نظر اور سوچ پر مبنی ہیں۔ تاتاریوں کے نزدیک یہ مجموعہ ایک ایسی شریعت کا روپ دھار چکا ہے جسے وہ فیصلہ کرنے کے لحاظ سے کتاب و سنت سے زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ جو کوئی ایسا کرے گا وہ کافر ہے اور اس سے جہاد کرنا واجب ہے جب تک وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا مأخذ مان کر اس کی طرف رجوع نہ کرے۔ خواہ کوئی چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے بغیر کسی سے فیصلہ نہ کروائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ} یعنی وہ جاہلیت کے قوانین کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔ {وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ} ”حالانکہ یقین کرنے والوں کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہو سکتا۔" (تفسیر ابن کثیر ۲/۷۰)
شیخ محمد حامد الفقی رحمۃ اللہ علیہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام پر اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"جو شخص قتل، زناکاری یا چوری وغیرہ کے مقدمات میں فرنگیوں کے قوانین کے ذریعے فیصلے کرتا ہے اور ان قوانین کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم کرتا ہے وہ بھی تاتاریوں جیسا ہے بلکہ ان سے بھی بدتر ہے۔ ایسا شخص اگر اسی طریقے پر ڈٹا رہے اور اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا راستہ اختیار نہ کرے تو وہ بلا شک و شبہ کافر اور مرتد ہے۔ اسے نہ تو مسلمانوں کا کوئی نام فائدہ دے سکتا ہے اور نہ ہی ظاہری اعمال مثلا نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ کا اسے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔" (حاشیہ فتح المجید، صفحہ: ۳۹۶)
علامہ احمد شاکر، ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہم کے گذشتہ اقوال پر اضافہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
"کیا شرعی طور پر یہ جائز ہے کہ مسلمان اپنے ملکوں میں ایسے قوانین کے ذریعے فیصلے کریں جو کہ بت پرست اور ملحد یورپ کے قوانین سے اخذ کیے گئے ہیں۔ بلکہ یہ قوانین ان کی اپنی ذاتی خواہشات اور آراء پر مبنی ہوتے ہیں جن میں یہ اپنی مرضی سے تغیر و تبدل کرتے رہتے ہیں اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ آیا یہ قوانین شریعت کے موافق ہیں یا اس کے مخالف؟ ان قوانین کے بارے میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ ایسا کھلا کفر ہے جس میں کسی قسم کا کوئی اخفاء نہیں ہے، اور مسلمانوں کے لیے یہ کسی صورت جائز نہیں کہ وہ ان قوانین کو تسلیم کریں، ان کے سامنے اپنا سر جھکائیں اور ان کے مطابق عمل کریں۔" (عمدۃ التفاسیر)
شیخ الاسلام ابو العباس احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"دنیا کی ہر قوم کے نزدیک ان کے اندر ہونے والے فیصلوں کی بنیاد عدل پر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے ہاں عدل ان کے آباء و اجداد کے نظریات کا نام ہوتا ہے۔ بلکہ اکثر ایسے لوگ بھی جو اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں اپنے قبائلی رسوم و رواج کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں کیے ہوتے۔ پھر یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت کی بجائے انہیں کے ساتھ فیصلے کرنا زیادہ مناسب ہے۔ یہ بات کفر ہے۔ ان لوگوں کو جب یہ معلوم بھی ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا درست نہیں تو وہ پھر بھی اس کا التزام (اختیار) نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلہ کرنے کو (عملا) حلال کر لیں، یہ لوگ کافر ہیں۔ ورنہ پھر وہ جاہل گمراہ اور حقیقت سے ناواقف ہیں" (فتاوی ابن تیمیہ ۳/۳۱۷)
علامہ مفتی الدیار السعودیہ شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ اپنے نازل کردہ حکم کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ فیصلہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق کہہ رہا ہے۔ یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کافر کہے اور وہ کافر نہ ہوں، ہرگز نہیں یہ لوگ پکے کافر ہیں۔ ہاں کفر اعتقادی یا عملی ہو سکتا ہے …پھر مفتی صاحب اعتقادی کفر کی چھ صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اولاً…: جو شخص بھی دین کے اصولوں میں سے کسی ایک اصول یا کسی متفق علیہ شرعی مسئلہ یا نبی علیہ السلام کی لائی ہوئی کسی بھی قطعی بات سے ایک حرف کا بھی انکار کرے تو وہ کافر ہو گا اور اس کا کفر اسے ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہو گا۔
ثانیا…: جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم اور فیصلہ کے حق ہونے کا انکار تو نہ کرے لیکن یہ اعتقاد رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کا حکم آپ کے حکم سے زیادہ اچھا اور زیادہ مکمل ہے اور یہ انسانی قانون لوگوں کی آج ضرورت ہے۔ تو ایسا شخص کافر ہو گا
ثالثاً…: جو شخص وضعی قانون کو اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے اچھا تو نہیں مگر اس جیسا ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے تو یہ بھی کافر ہونے میں پہلی دو قسموں کی مانند ہے یعنی یہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کرتا ہے کیونکہ اس بات سے خالق اور مخلوق میں برابری ہوتی ہے۔
رابعاً…: جو شخص اللہ کے نازل کردہ احکام کے علاوہ دوسری کسی چیز سے فیصلہ کرنے کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے مشابہ اور بہتر ہونے کا اعتقاد تو نہیں رکھتا لیکن اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے علاوہ دوسری کسی چیز سے فیصلہ کرنا جائز سمجھتا ہے۔
خامساً…: اللہ تعالیٰ کی مخالفت کے اعتبار سے یہ سب سے بڑی صورت ہے یہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے سامنے تکبر، مخالفت اور شرعی عدالتوں کی ریس ہے۔ جہاں یہ غیر اللہ کا حکم نافذ کرنے والے ادارے شرعی عدالتوں کی طرح ہی قائم کیے جاتے ہیں، ان کی باقاعدہ امداد اور سپورٹ کی جاتی ہے، ان کو اصول و فروع اور اشکال و انواع کے اعتبار سے شرعی عدالتوں کا ہی مقام دیا جاتا ہے، ان کے فیصلوں کو ویسا ہی مانا اور بزور منوایا جاتا ہے، ان کو ویسے ہی مستند اور مرجع قرار دیا جاتا ہے جس طرح شرعی عدالتوں کا مرجع و ماخذ کتاب و سنت ہے اسی طرح ان خود ساختہ عدالتوں کا مرجع و ماخذ بہت سی شریعتوں اور قوانین سے لیا ہوا قانون کا پلندا ہوتا ہے جس کو فرانسیسی، امریکی، برطانوی اور دیگر قوانین سے اخذ کیا گیا ہوتا ہے۔ بعض بدعت پر مبنی مذاہب اور اس جیسی دوسری چیزیں بھی اس کی بنیاد میں شامل کی جاتی ہیں اس مذکورہ نہج پر تیار شدہ عدالتوں کے دروازے اسلامی ممالک میں آپ کو جابجا کھلے ملیں گے، لوگ گروہ در گروہ ان میں جا رہے ہیں، ان ملکوں کے حکام اپنے عوام کے درمیان کتاب و سنت کے مخالف وضعی قانون کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور ان پر ان عدالتوں کے فیصلے لاگو کیے جاتے ہیں، ان فیصلوں کا ان سے اقرار کروایا جاتا ہے تو پھر اس کفر سے بڑھ کر اور کفر کیا ہو سکتا ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی کی مخالفت اور اس سے انحراف اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا؟
سادساً…: اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے علاوہ کسی دوسری چیز کے ساتھ فیصلہ کرنے کی وہ ہے جس کے ساتھ دیہاتوں میں قبیلوں کے سردار فیصلے کرتے ہیں یہ فیصلے ان کے باپ دادا کے قصے، کہانیوں اور رسم و رواج سے اخذ کیے گئے ہوتے ہیں اور ان کو ورثہ میں ملے ہوتے ہیں (اور ہمارے ہاں اسے پنچائت، ثالثی کمیٹی اور جرگہ کا نام دیا جاتا ہے) یہ باپ دادا کے انہیں جاہلانہ احکام کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور رسول کریم کے حکم سے منہ پھیرتے اور بے رغبتی کرتے ہوئے اپنی اور باپ داداکی جاہلیت پر اڑے رہتے ہیں۔
لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ (رسالہ تحکیم القوانین)
شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ لوگوں کے احکام و آراء اللہ تعالی کے احکام سے بہتر ہیں یا ان کے ہم مثل یا مشابہ ہیں، یا وہ شخص اللہ تعالی کے احکام کو چھوڑ کر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو ان کا قائم مقام قرار دیتا ہے اس کا کوئی ایمان نہیں۔ اگرچہ اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالی کے احکام بہترین، زیادہ مکمل اور درست ہیں… جو اللہ تعالی کا مطیع ہو اور اس کی وحی کے مطابق فیصلہ کروائے وہی اس کا عبادت گزار ہے۔ اور جو کسی غیر کا مطیع ہو جائے اور اس کی شریعت کے مطابق فیصلے کروائے وہ طاغوت کا عبادت گزار اور اس کا مطیع بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
{يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ} (النساء: ۶۰)
"وہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اس کا کفر کریں۔"
کلمہء شہادت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ جس کا ہم اقرار کرتے ہیں اس کے تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ طاغوت کی بندگی اور اس سے فیصلہ کروانے کا انکار بھی کیا جائے۔" (رسالۃ وجوب تحکیم شرع اللہ)
دیکھئے! شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے کس خوبی کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ اللہ تعالی کی شریعت کو چھوڑ کر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو ان کا قائم مقام قرار دینے سے ہی انسان کے ایمان کی مطلقا نفی ہو جاتی ہے۔ اگرچہ وہ شخص اللہ تعالی کی شریعت اور اس کے حکم کے بارے میں درست عقیدے کا دعویدار ہو جیسا کہ موجودہ دور میں ہمارے اکثر قانونی اداروں کی حالت زار ہے۔ طاغوتی عدالتوں سے فیصلے کروانا اُس صورت میں کفر اور حرام ہے کہ جب شریعت اسلام سے فیصلہ کروانا ممکن ہو اور اس سے اعراض کرتے ہوئے غیر اللہ کی قانون سے فیصلہ کروایا جائے۔ رہا موجودہ دور میں اپنے حقوق حاصل کرنیکی خاطر طاغوتی عدالتوں کی طرف رجوع کرنا تو اسلامی عدالتی نظام کے نہ پائے جانے کے سبب اہل علم نے اسے جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ دل میں ان سے بغض و عداوت رکھا جائے۔ :
شریعت ساز (فرد واحد، نظام یا پارلیمینٹ) قانون نافذ کرنے والے حاکم سے مختلف ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں انہیں قانون ساز اداروں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان کا قانون نافذ کرنے والی انتظامیہ سے ایک گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کیونکہ جو قوانین اور دستور یہ ادارہ وضع کرتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان قوانین کو لاگو کرنے اور منوانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ قانون ساز ایک شخص بھی ہو سکتا ہے، ایک ادارہ، جماعت یا اسمبلی بھی ہوسکتی ہے جو کہ بہت سے قانون سازوں سے ملکر بنتی ہے۔ یا اس سے مراد وہ صوفی اور مشایخ وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے اوپر دین کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کے لیے قرآن و سنت سے آزاد شریعت بناتے ہیں۔ اس بارے میں عمومی طور پر یہ بات کہی جائے گی کہ: جو شخص شریعت سازی یعنی کسی چیز کو حلال و حرام یا اچھا و برا قرار دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے لیے خاص کرلیتا ہے، اور وہ اپنے نظریے اور خواہش کے مطابق لوگوں کے لیے شریعت بنانا شروع کر دیتا ہے ایسا شخص طاغوت ہے۔ اسے کافر قرار دینا اور اس کا کفر کرنا واجب ہے۔
یہ لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے خلاف بہت بڑی جرأت کا اظہار ہے کہ انہوں نے اپنے اور اپنی قوموں کے لیے ایسی قانون ساز اسمبلیاں وضع کر لی ہیں جنہیں قومی اسمبلیوں کا نام دے رکھا ہے۔ ان اسمبلیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اللہ کی شریعت سے آزاد قانون سازی کر سکتی ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو چھوڑ کر لوگوں کے لیے قوانین وضع کرتی ہیں۔ وہ اسمبلی جسے قرآن و سنت سے آزاد قانون سازی کا غیر مشروط حق حاصل ہو وہ یقینا طاغوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کی مخالفت میں وضع کردہ قوانین بذات خود طاغوت ہیں۔
ارشاد ربانی {يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ} سے یہی مفہوم مراد ہے۔ طاغوت کی اس قسم میں انسانوں کے بنائے ہوئے وہ قوانین اور دستور بھی شامل ہیں جنہیں ملکوں اور معاشروں پر نافذ کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ ملکی انتظامیہ کے ہاں یہ قوانین ایک مقدس دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ان کی ہر ہر شق کو نافذ کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ہاں دستور اور قانون ہر چیز سے بالاتر ہے اور کوئی چیز بھی قانون اور دستور سے بالاتر نہیں ہو سکتی۔ قانون اور دستور کا لوگوں کے دلوں پر ایک خاص رعب ہوتا ہے اس لیے وہ ہر چیز سے خروج برداشت کر سکتے ہیں اور ہر چیز پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن قانون اور دستور کے دائرے سے نکلنا ان کے لیے محال ہوتا ہے اور وہ اسے تنقید سے بالا تر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دستور بھی طاغوت ہے اور اسے بنانے والے بھی طاغوت ہیں۔ تباہی و بربادی ہے ان لوگوں کے لیے جو دستور کو اس قدر تقدس اور احترام کا درجہ دیتے ہیں۔
ایسی کتابیں جو کفر کی ترویج اور اس کی طرف دعوت دینے کا سبب ہیں وہ بھی طاغوت کی اس قسم میں شامل ہیں۔ خاص طور پر وہ کتابیں جو لادین اور کافر گروہوں کے عقیدہ و منہج کی مبادیات پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان جماعتوں کے لیے اہم مراجع و مصادر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جو کتاب کفر و شرک کی دعوت پر مبنی ہو وہ ایک دستاویز ہے جو ہمیشہ اپنا جال پھیلائے رکھتا ہے اور اس انتظار میں رہتا ہے کہ کوئی اس کے پھندے میں پھنسے اور اس کی تعلیمات کے مطابق عمل کرے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ: طاغوت تو وہ ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جائے تو قوانین کی عبادت کس بات میں پوشیدہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: قانون کی عبادت اس کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس کی بات ماننے میں پوشیدہ ہے، کیونکہ قانون کی بات بغیر کسی رد و بدل اور اعتراض کے مانی جاتی ہے۔ یہ تمام باتیں لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے عبادت کے مفہوم میں داخل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی طرف نہیں پھیرا جا سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
6: اقوام متحدہ:
یہ بھی طاغوتی ادارہ ہے کیونکہ…
۱۔ رکن ممالک اقوام متحدہ کے چارٹر کی پابندی کا عہد کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی اسمبلی ہے جو اپنے قوانین وضع کرنے کے لیے کتاب وسنت کے تابع نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف عالمی طاغوتی طاقتوں کے مفادات اور خواہشات کا تحفظ کرتی ہے۔
۲۔ یہ ایک ایسی اسمبلی ہے کہ اقوام عالم اور ممالک اپنے باہمی اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کروانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجائے اس کے قوانین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
۳۔ اس طاغوتی ادارے کے بارے میں اقوام عالم کا نظریہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا چارٹر ہر قسم کی تنقید اور اعتراض سے بالاتر ہے اور اس کے ہر حکم اور قانون کو قبول اور نافذ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجے جانے والے طواغیت میں سے اس سے بڑھ کر اور کون سا طاغوت ہو سکتا ہے؟ حیرت ہے کہ اس کے باوجود بھی مسلم ممالک اس کی حاکمیت اور بالا دستی کا اعتراف کرنے اور اس ادارے کی رکنیت قبول کرنے میں تردد نہیں کرتے۔
اقوام متحدہ کے منشور کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ:
مساوی حقوق: اقوام متحدہ (ہندو، عیسائی، کیمونسٹ اور مسلمان کے) مساوی حقوق کے اصولوں کا احترام کرتے ہوئے قوموں کے مابین دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے“
جبکہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے:
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (التوبہ ۲۹)
"جہاد کرو ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اس چیز کو حرام نہیں ٹھہراتے جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے، دین حق قبول نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اس حال میں کہ وہ ذلیل ہوں۔"
یہ مساوی حقوق کے علمبردار کیسے گوارا کریں گے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کو ذلیل کر کے ان سے جزیہ وصول کیا جائے؟
اقوام متحدہ کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ: "کوئی کسی دوسرے ملک کی آزادی کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرے ہر ملک کو اندرونی طور پر ہر طرح کی آزادی حاصل ہو۔" جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ (البقرۃ ۱۹۳)
"اور ان سے جہاد کرو حتیٰ کہ فتنہ (شرک و کفر) باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے"۔
جب اللہ تعالیٰ نے خلافت اسلامیہ کو قوت عطا فرمائی تو اس نے ایران، روم اور ہندوستان پر حملے کیے۔ اور آج بھی یہ حکم منسوخ نہیں۔ جو ملک اقوام متحدہ کے منشور پر ایمان لا کر اس بات کا اقرار کرے کہ وہ کسی دوسرے ملک کی آزادی کے خلاف طاقت استعمال نہ کرے گا وہ اللہ کے اس حکم پر کیسے عمل کرے گا؟

7: جمہوریت:
جمہوریت ایک ایسا دستورِ ہے جو وجودِ کائنات، زندگی اور انسان کے بارے میں اپنا ایک خاص نظریہ رکھتا ہے۔ یہ لادینیت کے پرچار کی ایک شکل ہے جس کی بنیاد ملک اور زندگی کے معاملات سے دین کو جدا کر دینے پر قائم ہے۔ جمہوریت کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صرف مسجدیں، گرجے اور دوسرے عبادت خانے ہیں جبکہ زندگی کے باقی تمام معاملات قیصر (بادشاہ وقت) کے لیے ہیں۔
قومی مصلحت کے تقاضا کے تحت قیصر کو مکمل اختیار ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص امور یعنی عبادت اور عبادت گاہوں کے معاملات میں دخل اندازی کر سکتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کو قیصر کے معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ ’دینِ جمہوریت، کے اس نظریے کے خلاف اگر کوئی تحریک اٹھائی جاتی ہے تو یہ الزام لگا کر اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دین کو سیاست میں شامل کیا جا رہا ہے یا سیاست کو دین سے آلودہ کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ تحریک اٹھانے والوں پر بنیاد پرست اور دہشت گرد ہونے کا الزام لگا کر ایسی تحریک کو مکمل طور پر ختم کر دیا جاتا ہے۔
جمہوریت کے مندرجہ ذیل نکات ایسے ہیں جو اسے اسلام سے جدا کرتے ہیں:
۱: قوم اپنا فیصلہ خود ہی کرے گی۔ یعنی جمہوریت کی نگاہ میں شریعت ساز اور اطاعت کے لائق اللہ تعالیٰ کی بجائے خود اس ملک کے لوگ ہیں۔
۲: آزادی فکر، اگرچہ اس کا نتیجہ دین سے ارتداد کی صورت میں ہی کیوں نہ نکلتا ہو۔
۳: آزادی اظہار: اگرچہ اس کا نتیجہ دین پر طعن و تشنیع کی صورت میں ہی کیوں نہ نکلتا ہو۔ کیونکہ جمہوریت اور اس کے داعیوں کی نگاہ میں دین اعتراض، تنقید اور معاقبہ سے بالاتر نہیں ہے۔
۴: شخصی آزادی: لوگوں کو جمہوریت کے سائے میں ہر کام کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ اگرچہ وہ حیوانیت پر ہی کیوں نہ اتر آئیں۔
۵: اکثریت کی رائے پر اعتماد کرنا اور اسے مقدس اور محترم سمجھنا اگرچہ وہ باطل ہی کیوں نہ ہو۔
۶: ہر چیز میں ووٹنگ اور چناؤ پر انحصار کرنا اگرچہ وہ مقدس چیز اور اللہ تعالیٰ کے دین کا کوئی معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔
۷: ووٹنگ اور چناؤ میں ایک جاہل ترین شخص کی رائے کا ایک بہت بڑے عالم کی رائے کے برابر ہونا۔
۸: معیشت میں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے مضمرات پر انحصار کرنا۔
۹: سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں کی تشکیل کی مکمل آزادی، وہ جماعتیں اور پارٹیاں خواہ کسی بھی عقیدہ و فکر اور تفردات کی حامل ہی کیوں نہ ہوں۔
یہ بات واضح ہو گئی کہ جمہوریت اور اس کے داعیوں کے ہاں انسان اور اس کی خواہشات معبود اور قابل اطاعت ہیں۔ اس جدید دین میں لوگ اس قدر غلو کا شکار ہیں کہ وہ اس کی بنا پر محبت کرتے اور اسی کی بنا پر دشمنی روا رکھتے ہیں، اسی کی بنا پر جنگ کرتے ہیں اور اسی پر صلح کرتے ہیں۔ جو دین جمہوریت کو اختیار کر لے اس سے ان کی صلح اور محبت ہوتی ہے اور جو اس کا انکار کر دے اس سے جنگ کرتے اور دشمنی رکھتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
معبودان باطلہ کی اقسام
دوسری قسم
جسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ ذاتی طور پر محبوب سمجھا جائے محبت و نفرت اور دوستی و دشمنی عبادت کے مفہوم میں شامل ہے۔ اللہ تعالی کا مکمل عبادت گذار بننے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ وہ اسی چیز سے محبت کرے جس سے اللہ تعالی محبت کرتا ہو اور اس چیز کو ناپسند کرے جو اللہ تعالی کو نا پسند ہو، اور جو اللہ اور اس کے رسول کا دوست ہو اس سے دوستی رکھے اور جو اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہو اس سے دشمنی رکھے، اور اس بات سے خوش ہو جس سے اللہ تعالی خوش ہوتا ہو اور اس بات سے ناراض ہو جس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہو۔ جو غیر اللہ کو یہ حق اور مقام دے کہ محبت و نفرت اور دوستی و دشمنی اس کی بنیاد پر ہو تو ایسا شخص اس غیر کا عبادت گذار ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے اللہ تعالی کے لیے محبت کی، اور اللہ تعالی کے لیے دشمنی رکھی، اللہ تعالی کے لیے عطا کیا اور اللہ تعالی کے لیے ہی روکا اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔" (أبوداؤد ا۴۶۸۰ صححہ البانی)
"ایمان کا سب سے مضبوط سہارا اللہ تعالی کے لیے دوستی رکھنا، اللہ تعالی کے لیے دشمنی رکھنا، اللہ تعالی کے لیے محبت کرنا اور اللہ تعالی کے لیے بغض رکھنا ہے۔" (أحمد، صحیح الجامع الصغیر: ۲۵۳۹)
ان تمام چیزوں کو ایمان کا سب سے مضبوط سہارا اس وجہ سے کہا گیا ہے کیونکہ ان تمام امور کے ذریعے سے بندگی درجہ کمال اور اعلی ترین مرتبے کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے جس کسی نے دوستی اور دشمنی کا یہ معیار غیر اللہ کے لیے روا رکھا اس نے عبودیت اور بندگی کو اپنے اعلی ترین مراتب کے ساتھ غیر اللہ کے لیے ثابت کر دیا۔
اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جس ذات کو بھی سب سے بڑھ کر محبوب سمجھا جائے وہ طاغوت ہو گا۔ کیونکہ پھر اسی کی وجہ سے محبت کی جاتی ہے اور اسی کی خاطر دشمنی رکھی جاتی ہے اور اس بارے میں حق یا باطل کو نہیں پرکھا جاتا۔ ایسا شخص طاغوت بن جاتا ہے کیونکہ اسے ایسی چیز میں اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیا گیا ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{دُونِ اللَّـهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّـهِ} (البقرۃ: ۱۶۵)
"بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو غیر اللہ کو اللہ کا شریک ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے۔"
جس سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ ذاتی طور پر محبت کی جائے وہ طاغوت ہوتا ہے اور اسکی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ کبھی یہ حاکم، بزرگ یا جماعت کے لیڈر کی شکل میں ہوتا ہے، کبھی یہ وطن، قوم، قبیلہ، عورت یا مال کی شکل میں ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"درہم کا بندہ تباہ ہو گیا۔" (صحیح بخاری: ۲۸۸۷)
اور فرمایا کہ "جو شخص ہمیشہ مال بڑھانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے وہ طاغوت کے راستے میں ہے اور وہ شیطان کے راستے میں ہیں۔" (السلسلۃ الصحیحۃ ۲۲۳۲)

۱: وطن پرستی:
وطن اس وقت طاغوت کے مفہوم میں داخل ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ الہٰ بن جائے گا جب وطن اور اس کی جغرافیائی وحدت کی طرف نسبت کی وجہ سے الولاء والبراء کو قائم کیا جائے۔ اور اسی کی بنیاد پر تمام حقوق اور واجبات کو تقسیم کیا جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جو کوئی اس وطن کی طرف منسوب ہے اور اس کی حدود میں رہنے والا ہے اگرچہ وہ سب سے بڑا کافر کیوں نہ ہو اسے تمام حقوق اور سہولیات ملیں۔ اور جو کوئی سکونت اور شہریت کے اعتبار سے اس وطن کا باشندہ نہ ہو اسے وہ حقوق اور سہولیات کبھی نہیں مل سکتیں جو یہ کافر حاصل کر رہا ہے اگرچہ وہ سب سے زیادہ متقی اور افضل ترین انسان ہی کیوں نہ ہو۔
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء کے فتاوی میں یہ بات مذکور ہے:
"جو شخص یہودیوں، عیسائیوں، تمام کافروں اور مسلمانوں کے درمیان صرف وطن کا ہی فرق رکھتا ہے اور ان کے احکام ایک جیسے سمجھتا ہے وہ شخص کافر ہے"۔ (۱۔۵۴۱)
اس شخص کے کافر ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس نے عقیدہ الولاء والبراء میں وطن کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا اور اس بارے میں عقیدہ و دین کی بجائے وطن اور مٹی کو معتبر سمجھا۔ بہت سے شرعی دلائل اس عقیدے اور نظریے کا رد پیش کرتے ہیں کیونکہ ان دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ الولاء والبراء کے لیے دین اور عقیدہ کو معیار بنانا واجب ہے۔
لوگوں نے وطن کی تعظیم اور اس کو الہٰ بنانے میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ ملکی نظام تعلیم اور میڈیا کے ذریعے قوم کی تربیت اس طرح کی کہ وہ اپنے ہر عمل کی غرض و غایت وطن ہی کو قرار دے، لوگ وطن کے لیے جہاد کرتے ہیں، وطن کے لیے عطیات دیتے ہیں، وطن کے لیے جان قربان کرتے ہیں اور اسی طرح دوستی اور دشمنی بھی صرف وطن کے لیے ہی روا رکھتے ہیں۔ اور اس طرح ہر وہ کام جو صرف اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی رضا مندی کے حصول کے لیے کیا جانا چاہیے اسے وہ صرف اور صرف وطن کی خاطر انجام دیتے ہیں۔
ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا:
"ایک شخص غنیمت کے حصول کے لیے لڑتا ہے، ایک شخص شہرت کے لیے لڑتا ہے اور ایک شخص اپنا آپ دکھانے کے لیے لڑتا ہے ان سب میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جو شخص اللہ تعالیٰ کے کلمے کی سر بلندی کے لیے قتال کرے وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہے"۔ (صحیح بخاری ۲۸۱۰ صحیح مسلم ۱۹۰۴)
شرعی طور پر صرف وہی قتال محبوب اور قابل قبول ہے جس کا مقصد صرف اور صرف زمین میں اللہ تعالیٰ کے کلمے کی سر بلندی ہو۔ اس کے علاوہ تمام لڑائیاں جھوٹی ہیں کیونکہ ان کی غرض و غایت بھی جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لیے یہ طاغوت کے راستے کے قتال شمار ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ} (النساء: ۷۶)
"جو لوگ ایمان لائے وہ تو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔"
قتال کی دو ہی قسمیں ہیں تیسری کوئی قسم نہیں۔ یا تو اللہ تعالیٰ کے راستے کا قتال ہے یا پھر طاغوت کے راستے کا قتال ہے۔ یہ دونوں بالکل واضح ہیں ان میں کسی قسم کے خلط ملط ہونے یا الجھاؤ کا کوئی شائبہ نہیں۔ ہر وہ قتال جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں نہیں ہے وہ طاغوت کے راستے کا قتال ہے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ دو متضاد امور ہیں ایک طرف تو یہ ہے کہ آدمی کے لیے وطن کے راستے میں قربانی دینا اور قتال کرنا جائز نہیں ہے اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ارض اسلام اور مسلمانوں کے اوطان کا دفاع کرنا ایک شرعی فریضہ ہے اور ہر مسلمان کو یہ فریضہ ضرور سر انجام دینا چاہیے ان دونوں امور میں کس طرح تطبیق دی جائے گی؟ اسی طرح حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ: "جو آدمی اپنے مال یا عزت کی خاطر قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے اس کا کیا مفہوم ہے؟
اس کا جواب یہ ہے: الحمد للہ ان امور کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اور اس کے کلمے کی سر بلندی کے لیے کسی چیز کے دفاع میں لڑنے کو اسلام نے مشروع قرار دیا ہے اور ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ بندے کے لیے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے افضل ترین عمل ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کسی تعصب (وطن، قوم یا برادری) کی حمیت کی خاطر اس کے دفاع کے لیے لڑنا باطل ہے اور شرک کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس سے اعمال کا غیر اللہ کی طرف پھیرنا لازم آتا ہے۔
اسی طرح وطن کی محبت اور اس کی طرف میلان کا ہونا جو کہ شرعی طور پر ایک جائز عمل ہے جبکہ اس کی بنیاد پر الولاء والبراء قائم کرنا ناجائز عمل ہے۔ انسان کا مقصد حیات یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے تمام اعمال صرف اور صرف وطن کی خاطر ہو رہے ہوں۔ یہ بات شرعی طور پر جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے وطن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا لازم آتا ہے۔ اکثر لوگ ان دونوں امور کے درمیان خلط ملط کا شکار ہو جاتے ہیں۔
محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ تمام روئے زمین سے زیادہ عزیر تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے زیادہ محبوب اور اس کا مرتبہ سب سے اعلی و ارفع تھا۔ اسی لیے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی جائے پیدائش، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن اور جوانی کے گزرنے کی جگہ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب وطن مکہ سے ہجرت کرنے کا حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی خاطر یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ صحابہ رضی اللہ عنھم اور تابعین بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طریقے پر چلتے رہے۔ اور ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طریقے کی اقتداء کرنے والے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۲: قوم اور قومیت:
تاریخ، ملک، زبان اور رنگ و نسل یہ چند ایک ایسی مبادیات ہیں جن پر نظریہ قوم اور قومیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ جو قوم ان خصائص و مبادیات کی بنا پر وجود میں آتی ہے دین اور عقیدہ سے قطع نظر صرف ان بنیادوں پر ان کے درمیان دوستی اور تعاون قائم ہوتا ہے کیونکہ نظریہ قومیت اور اس کے داعیوں کے ہاں دین اور عقیدے کی کوئی خاص وقعت اور حیثیت نہیں ہوتی۔ نظریہ قومیت ان لا دین اور غیر مذہب کافر طاقتوں کا خود کاشتہ پودا ہے جو دین کو امور حیات اور امور سلطنت سے علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں۔
جو قوم ان اساسیات اور مبادیات کے ساتھ تشکیل میں آتی ہے وہ طاغوت کے زمرے میں آتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں الولاء والبراء اور حقوق و واجبات کی تقسیم اس قوم کی طرف نسبت کی بنیاد پر ہی عمل میں آتی ہے۔ جو اس قوم سے تعلق رکھنے والا ہے اسے دوستی اور مدد ملے گی اور وہ تمام حقوق کا حقدار ہو گا اگرچہ وہ زمین کا سب سے بڑا سرکش انسان ہی کیوں نہ ہو۔ اور جو اس قوم سے تعلق نہیں رکھتا اسے ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا اگرچہ وہ زمین کا سب سے نیک انسان ہی کیوں نہ ہو۔ نظریہ قومیت کا اعتقاد رکھنا اور اس کی مدد کرنا طاغوت کا اعتقاد رکھنے اور اس کی مدد کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ جبکہ اسلام دین اور عقیدے کی بنیاد پر دوستی اور اخوت کو واجب قرار دیتا ہے اور اس نے رنگ و نسل اور قومیت سے قطع نظر تقوی اور عمل صالح کو لوگوں کے درمیان افضلیت اور شرف کا معیار قرار دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃ} (الحجرات: ۱۰)
"بے شک سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔"
سب مسلمان بھائی بھائی اور ایک دوسرے کے دوست ہیں اگرچہ وہ مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے ہوں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ} (التوبہ: ۷۱)
"مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ،معاون اور) دوست ہیں۔"
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} (الحجرات: ۱۳)
"اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو تمہارے کنبے اور قبیلے بنائے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سے معزز ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ بلا شبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔"
اللہ تعالیٰ نے تقوی اور عمل صالح کو فضیلت اور شرف کا معیار قرار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"میرے خاندان کے یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دوسرے لوگوں کی نسبت میرے زیادہ قریب ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، تم میں سے میرے زیادہ قریب وہ ہے جو متقی ہے وہ جو کوئی بھی ہو اور جہاں کہیں بھی ہو۔" (السنہ از ابن ابی عاصم، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
"کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوی کے۔" (مسنداحمد ۲۳۵۳۶)
"اللہ تعالیٰ نے تم سے زمانہ جاہلیت کا کبر و غرور اور آباء و اجداد کے ساتھ فخر کرنے کو ختم کر دیا ہے۔ مومن متقی ہے اور فاجر بدبخت ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ قوموں کی بنیاد پر فخر کرنا چھوڑ دیں۔ ایسے لوگ جہنم کا ایندھن ہوں گے، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں سیاہ رنگ کے بدبودار حشرات الأرض سے بھی زیادہ ذلیل ہیں۔" (ابو داود: ۵۱۱۶)
"جس نے زمانہ جاہلیت کے کسی تعلق کی تمنا کی وہ جہنم کے گروہوں میں سے ہے۔ ایک آدمی کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگرچہ وہ شخص نماز پڑھتا ہو اور روزے رکھتا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ وہ نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہو۔ تم اللہ کی طرف اپنی نسبت کرو جس نے تمہارا نام "مسلم"، "مومن" اور "اللہ کے بندے" رکھا ہے۔" (صحیح ترغیب لترھیب ۵۵۳)
اور فرمایا: "ایسا شخص ہم میں سے نہیں جس نے جاہلیت کی پکار لگائی"۔ (صحیح نسائی ۱۷۵۶) امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جاہلیت کی پکار سے مراد قبیلوں اور عصبیت کی پکار لگانا ہے، اسی میں فقہی مذاہب، مختلف گروہوں اور اپنے اپنے مشائخ کے لیئے تعصب کرنا، انہیں ایک دوسرے پر فضیلت دینا، ان کے لیے محبت اور دشمنی کرنا یہ سب جاہلیت کی پکار ہے۔" (فتح المجید ۳۱۹)
اسلام کے علاوہ ہر نسبت جاہلیت کی نسبت ہے۔ ہر وہ تعلق جو عقیدہ، دین، عمل صالح اور خشیت الٰہی کے علاوہ کسی دوسری بنیاد پر قائم ہو وہ جاہلیت کا تعلق ہے۔ اس تعلق کو ختم کر دینا اور اس سے برأت کا اظہار کرنا واجب ہے۔
قومیت کے بارے میں ہم نے جو رائے پیش کی ہے یہ اس قبیلہ اور خاندان کے بارے میں ہے جس کے ہاں دوستی اور دشمنی کا معیار دین اور اخلاق سے قطع نظر صرف اور صرف قبیلہ یا خاندان کی طرف نسبت ہو۔ صرف وہی شخص دوستی اور مدد کا مستحق ہو جو اپنے قبیلہ یا خاندان کی طرف منسوب ہو اور اس قبیلہ کے رسوم و رواج اور قوانین کو اپنانے والا ہو اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اس مدد اور دوستی کا مستحق وہ شخص نہیں ہو سکتا جو اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والا نہیں ہے خواہ وہ بہترین مسلمان اور مومن ہی کیوں نہ ہو۔
اس صورت میں قبیلہ اور اس کے رسم و رواج اہل قبیلہ کی نگاہ میں ایک ایسا معبود ہوتا ہے جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جا رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ قبیلہ کے رسم و رواج جس بات کو لازم ٹھہراتے ہیں اسے تسلیم کیا جاتا ہے اگرچہ وہ شریعت میں حرام ہی کیوں نہ ہو۔ جس بات سے قبیلہ کے رسم و رواج اور قوانین روک دیں اس سے رک جایا جاتا ہے اگرچہ وہ کام شریعت میں واجب ہی کیوں نہ ہو۔ یہ واضح شرک اور کفر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ} (الأنعام : ۱۲۱)
"اور اگر تم نے ان لوگوں کی اطاعت کی تو یقینا تم مشرک ہو جاؤ گے۔ "
یعنی اگر اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کرنے اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام کرنے میں ان کی بات مانو گے تو تم بھی انہیں کی طرح مشرک ہو جاؤ گے۔ بعض قبائل اور خاندانوں میں دوستی اور محبت کی ایک یہ صورت بھی معروف ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے کارنامے بڑے فخریہ انداز سے بیان کرتے رہتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ وہ دین پر قائم بھی تھے یا نہیں۔ بلا شک و شبہ اسلام نے اس بات سے منع کیا ہے اور بڑی سختی سے اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"موسی علیہ السلام کے زمانہ میں دو آدمیوں نے اپنا نسب نامہ بیان کیا۔ ایک کہنے لگا: میں فلاں ہوں اور فلاں کا بیٹا ہوں اپنی نو پشتیں گنوانے کے بعد دوسرے کو گالی دے کر کہنے لگا کہ تو کون ہے؟ دوسرا کہنے لگا: میں فلاں ہوں فلاں کا بیٹا اسلام کا بیٹا۔ اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ ان دونوں نسب بیان کرنے والوں سے کہہ دو: پہلا شخص جو نو لوگوں کی طرف اپنی نسبت بیان کرنے والا ہے وہ نو لوگ سب کے سب جہنمی ہیں اور تو دسواں بھی ان کے ساتھ جہنمی ہے۔ دوسرا شخص جو دو کی طرف نسبت بیان کرنے والا ہے وہ دونوں جنتی ہیں اور یہ تیسرا بھی ان کے ساتھ جنتی ہے۔" (نسائی صحیح جامع ۱۴۹۲)

۳: انسانیت پرستی:
انسانیت پرستی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ہونے کے ناطے تمام لوگ یکساں حقوق و واجبات کے مستحق ہیںاگرچہ وہ مختلف مذاہب و عقائد کے حامل ہی کیوں نہ ہوں۔ اس طرح لوگوں میں نیک ترین اور سب سے اعلی اخلاق کا حامل شخص انسان ہونے کے ناطے دنیا کے سب سے بڑے کافر اور بد بخت ترین شخص کے برابر ہوتا ہے۔ جب تک یہ دونوں ایک ہی اصل نسل انسانی کی طرف منسوب ہیں ان دونوں کے حقوق و واجبات میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جائے گاجبکہ اسلام میں مؤمن کے حقوق کافر کے حقوق سے بالکل مختلف ہیں بلکہ ایک فاسق مسلمان حقوق و واجبات میں متقی شخص کے برابر نہیں ہو سکتا۔
جب انسانیت پرستی انسان کی زندگی کا ایک خاص شعار بن جائے اور اسی کی بنیاد پر وہ دوستی اور دشمنی کو اختیار کرے، اسی کی خاطر جان و مال کی قربانی پیش کرے اور اسی کے لیے صلح و جنگ کا اعلان کرے تو اس صورت میں اس کا یہ شعار طاغوت کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔
اس قسم کی محبت کے نقصانات میں سے یہ نقصان بھی ہے کہ اس کا دعویدار جو بھی عمل کرتا ہے اس میں اللہ کے رضا مقصود نہیں رہتی نہ وہ جنت کے حصول اور جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے یہ عمل کرتا ہے اس طرح وہ انسانیت کو اللہ کا شریک بنا دیتا ہے۔ ایسا شخص جب بھی کوئی رفاہ عامہ کا کام کرتا ہے تو اسے انسانیت کے نام پر کرتا ہے۔ اگر کبھی اپنا مال خرچ کرے تو انسانیت کے نام پر خرچ کرتا ہے۔ اگر قتال کرے تو انسانیت کے نام پر قتال کرتا ہے۔ اگر مر جائے تو انسانیت کے نام پر مرتا ہے۔ غرض جو بھی عمل کرتا ہے اسے اللہ کی رضا کے بجائے انسانیت کے نام پر کرتا ہے۔ انسانوں کے ہاں انسانیت ایک الٰہ کا روپ دھار چکی ہے جسے وہ دوستی اور دشمنی کا معیار مانتے ہیں۔
اسلام میں لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق کی صلہ رحمی، بے کسوں کا بوجھ اٹھانا، جو کما نہیں سکتے انہیں کما کر دینا، مہمان نوازی اور حق کے سلسلے میں جو تکالیف آئی ہیں ان میں مدد گار ہونا معروف ہے۔ وہ انسانوں کے ساتھ احسان و سلوک کی خوبیوں سے متصف تھے۔ لیکن مختلف مذاہب یعنی ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان کے یکساں حقوق و واجبات تسلیم کرنا اور انسانیت کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی کو اختیار کرنا کفار کے ساتھ حسن سلوک میں داخل نہیں بلکہ انسانیت کو اللہ کا شریک بنانا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
معبودان باطلہ کی اقسام
تیسری قسم
ساحر (جادوگر)
ساحر بھی طاغوت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس کا دعوی ہوتا ہے کہ وہ مارنے، بیمار کرنے، کاروبار کی بندش کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی، صحت اور پریشانیوں سے نجات دینے پر قادر ہے یعنی وہ جس پر چاہے تکلیف نازل کر دے اور جس کی چاہے تکلیف دور کر دے۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک اہم ترین صفت ہے۔
اس کے باوجود اکثر لوگ توحید سے لاعلمی اور اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے حق سے بے خبری کی وجہ سے ساحروں کی اس حوالے سے عبادت کرتے ہیں کہ وہ ان کے اس دعوے کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ نفع اور نقصان کے مالک ہیں۔ وہ ان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے لیے فلاں فلاں فوائد حاصل کر سکتے ہیں اور مریض سے دکھ اور تکلیف کو دور کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ساحر طاغوت اور کافر ہے، اسلام میں اس کی حد یہ ہے کہ اس کی گردن پر اس قدر شدت کے ساتھ ضرب لگائی جائے کہ اس کا سر تن سے جدا ہو جائے۔
اس کے کافر ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
{وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ} (البقرۃ: ۱۰۲)
"اور وہ (یہود) ان جنتروں منتروں کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے دور حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے سلیمان نے کفر کبھی نہیں کیا بلکہ کفر تو وہ شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے اور (یہ یہود اس کے بھی پیچھے لگ گئے) جو بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتوں پر اتاری گئی تھی یہ فرشتے کسی کو کچھ نہ سکھلاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو تمہارے لیے آزمائش ہیں تو تم کافر نہ بنو۔"
امام قرطبی آیت کریمہ {وَمَا کَفَرَ سُلَیْْمَانُ} کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
"اللہ تعالیٰ نے سلیمان کو کفر سے بری قرار دیا ہے۔ جبکہ پیچھے آیت میں کہیں بھی اس بات کا تذکرہ نہیں ہوا کہ کسی نے سلیمان علیہ السلام کو کفر کی طرف منسوب کیا تھا، البتہ یہودیوں نے انہیں سحر یعنی جادو کی طرف منسوب کیا تھا۔ جب سحر کو کفر قرار دیا گیا تو ان کی سحر کی طرف نسبت ایسے ہی ہے گویا کہ انہیں کفر کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ اس لیے فرمایا: {وَلَـکِنَّ الشَّیْْاطِیْنَ کَفَرُوْا} گویا سحر کی تعلیم دینے کی وجہ سے شیاطین کا کفر ثابت ہو گیا۔"
شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے جادو اور اس کے مطابق عمل کرنے کو نواقض الاسلام میں شامل کیا ہے جس سے بندہ ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ (الرسائل الشخصیہ: ۶۹۔)
جزیرہ عرب کے علمائے توحید نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔

چوتھی قسم
کاہن
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو غیب کی خبریں دیتے ہیں۔ یہ غیب اور زمانہ مستقبل کی خبریں جاننے کے دعویدار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے ہے کہ غیب کا علم اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
{وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ} (الأنعام: ۵۹)
"اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اللہ کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا۔"
اس لیے مخلوق میں سے جو کوئی بھی علم غیب اور مستقبل کی خبریں دینے کا دعوی کرے وہ کاہن، طاغوت اور سرکشوں کا امام ہے۔ جو اس کے اس دعوی کو ثابت کرے گا اس نے اس کے لیے الوہیت کے خصائص کو ثابت کر دیا اور اسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ اپنا معبود بنا لیا۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"طواغیت کی بہت سی اقسام ہیں جن میں بڑے بڑے پانچ ہیں۔ ان میں ایک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ علم غیب کا دعوی کرتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ} (الجن)
"وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا۔ سوائے ان کے جنہیں رسول کی حیثیت سے منتخب فرماتا ہے"۔ (مجموعۃ التوحید۔)
پیالے گھمانے والے، ہاتھ دیکھنے والے، فال نکالنے والے اسی طرح ستاروں اور برجوں کا علم جو اکثر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں شائع ہوتا ہے بھی کہانت اور کاہن کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اور یہ علم غیب کی وہ قسم ہے جسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"فال نکالنے والا اور جس کے لیے فال نکالی جا رہی ہو، کاہن اور جسے کہانت کی خبریں دی جا رہی ہوں، جادوگر اور جس کے لیے جادو کیا جار ہا ہو ان سب کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں۔" (صحیح جامع الصغیر ۵۴۳۵)
اور فرمایا:
"جو کسی نجومی یا کاہن کے پاس آیا اور اس کی باتوں کو سچا سمجھا، اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی شریعت کا انکار کیا۔" (احمد۔ صحیح الجامع ۹۳۹)
موجودہ دور میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بہت سے پوجے جانے والے طواغیت ہیں اور وہ مختلف اقسام اور شکل و صورت کے حامل ہیں۔ ایک کتاب میں ان کا شمار بہت مشکل ہے۔ اس لیے طواغیت کی پہچان کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ: ہر وہ چیز جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جا رہی ہو اور اس کے لیے عبادت کا کوئی بھی پہلو اختیار کیا جا رہا ہو، وہ اس پر راضی بھی ہو تو یہ طاغوت ہے جس سے اجتناب کرنا اور اس کا کفر کرنا واجب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبادت کے مراتب
بنیادی طور پر عبادت کی دو صورتیں ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں نیک اعمال کو بجا لانا۔
(۲) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کاموں کو ترک کر دینا۔

پہلی صورت:
نیک اعمال کی ادائیگی: اس کے درج ذیل مراتب ہیں:
(۱) فرائض:
ان کی مزید آگے دو صورتیں:
(الف) جن پر عمل کرنا توحید اور ترک کفر ہے:
جیسے اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کرنا، اس کی نافرمانی اور عذاب سے ڈرنا، مشکلات میں اسی کو پکارنا، اسی کے قانون کے مطابق فیصلے کرنا اور کروانا، اہل سنت کے جمہور علماء کے مطابق پنجگانہ نماز ادا کرنا وغیرہ۔ یہ وہ اعمال ہیں جن کے ترک سے انسان کفر اکبر کا مرتکب ہو کر دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
(ب) جن پر عمل کرنا فرض اور ترک گناہ ہے:
نماز کے علاوہ دیگر فرائض کو ادا کرنا، والدین رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا، دعوت و جہاد کا فریضہ ادا کرنا، ایفائے عہد، سچ بولنا، مہمان نوازی جیسے دیگر بیسیوں سماجی، اخلاقی، انفرادی اور اجتماعی فرائض کا تعلق اسی صورت سے ہے۔

(۲) مستحبات:
فرائض سے ہٹ کر اسلام کی وہ تعلیمات کہ جن پر عمل سے ایک طرف انسان کی دنیا سنورے تو دوسری طرف جنت میں بلند درجات نصیب ہوں۔ جیسے نوافل نمازیں اور صدقات، اپنے پر ظلم کرنے والے کو معاف کر دینا اور اس سے بدلہ نہ لینا، قرض خواہ کو مہلت دینا وغیرہ۔

(۳) مباحات:
مباحات بھی اللہ کی عبادت میں داخل ہیں جبکہ یہ اس نیت سے کیے جائیں کہ ان کے ذریعے حاصل ہونے والی تازگی، خوشی اور قوت کو انسان اللہ کے دین کے لئے استعمال کرے گا یا مباح کام کر کے وہ گناہ کے کاموں سے بچے گا، جیسے سیر و تفریح کرنا، بامقصد کھیل کود وغیرہ۔

دوسری صورت:
نافرمانی کے امور سے اجتناب
اللہ کی نافرمانی والے کاموں سے اجتناب کرنا بھی اللہ کی عبادت ہے۔ نافرمانی کے امور کے درج ذیل مراتب ہیں:
(۱) محرمات: ان کی دو صورتیں ہیں:
(الف) کفر تک پہنچنے والی: اس کی مزید دو صورتیں:
(۱) کفر اکبر تک پہنچنے والے امور:
غیر اللہ کی بندگی کی جملہ صورتیں اس میں داخل ہیں جیسے اللہ کے سوا کسی اور کو مشکل کشا، حاجت روا، داتا، دستگیر، غریب نواز یا گنج بخش سمجھنا یا اللہ کے سوا کسی اور کو ایسے معاملات میں مدد کے لئے پکارنا کہ جن میں اللہ ہی کو پکارا جاتا ہے، یا پھر اللہ کے نازل کردہ کے سوا کسی اور قانون و دستور کو نافذ کرنا یا حلال و حرام طے کرنے کا اختیار کسی اور کو دینا وغیرہ۔ یہ اعمال انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔
(۲) کفر اصغر تک پہنچنے والے امور:
الفاظ سے خالق اور مخلوق کی برابری کا شائبہ دینا جیسے یوں کہنا کہ جو اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی، ریاء کاری، کسی مسلمان کا مسلمان سے قتال کرنا، ایک حاکم کا کہ جس کا دستور اور قانون اسلام ہو اس کا کسی معین معاملہ میں اللہ کے نازل کردہ کے خلاف فیصلہ کر دینا بشرطیکہ وہ اُس غیر اسلامی فیصلے کو قانونِ عام (ایسا قانون جس کی پیروی ہر عام و خاص پر لازم ہو) نہ بنائے، وغیرہ۔ یہ امور کفر تو ہیں مگر ایسا کفر نہیں جو انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کرتے ہو۔
(ب)کفر کے سوا دیگر محرمات
یہ وہ اعمال ہیں جو کفر تک تو نہیں پہنچتے البتہ یہ اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرائے ہیں اور ان کے ارتکاب پر عذاب کی وعید ہے۔
اس کی بھی دو صورتیں ہیں :
(۱) کبیرہ گناہ
(۲) صغیرہ گناہ
کبیرہ گناہ: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم کبیرہ گناہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"ایسا گناہ جس کے ارتکاب پر دنیا میں حد، سخت وعید، دنیا و آخرت میں لعنت یا غضب کا ذکر ہو یا آخرت میں سخت عذاب کی دھمکی ہو"
جیسے جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، مال میں خیانت کرنا، ناحق قتل کرنا، حرام کھانا، زنا کا ارتکاب کرنا، غیبت اور چغلی کرنا، بیوی بچوں کے حقوق ادا نہ کرنا وغیرہ۔
صغیرہ گناہ: ایسے گناہ جن سے شریعت نے منع تو کیا ہو البتہ اس کے ارتکاب پر لعنت، اللہ کے غضب ناک ہونے یا جہنم کی وعید نہ سنائی ہو یہ صغیرہ گناہ ہیں۔ جیسے غیر محرم کو دیکھنا وغیرہ۔

(۵) مکروہات:
یہ وہ امور ہیں جنہیں شریعت نے حرام قرار تو نہیں دیا البتہ یہ اللہ کی یاد سے غافل کرنے والے، فضول کاموں میں وقت کو ضائع کرنے والے امور ہیں ۔جیسے بے مقصد گفتگو کرنا، حد سے زیادہ ٹھٹھے مار کر ہنسنا، بے حد کھانا پینا وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبادت کے مفہوم کی جامعیت
انسان کے پورے وجود کی غایت:
انسان کے پورے وجود کی غایت ہی عبادت ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶)
"اور میں نے جن و انس کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔"
اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی آخری شریعت نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ کے احکامات انسان کی زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں نازل ہوئے۔ یہ زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی، گھریلو ہو یا سماجی، معاشی ہو یا سیاسی، انسان خوشی میں ہو یا غمی میں، محبت میں ہو یا نفرت میں، جنگ میں ہو یا امن میں، عورت ہو یا مرد، بچہ ہو یا بوڑھا الغرض انسانی وجود کے ہر پہلو کو اللہ کی عبادت گھیرے ہوئے ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ بھی عبادت سے خارج نہیں۔ چونکہ انسان کے وجود میں آنے کا کوئی مقصد ہی نہیں سوائے اس کے کہ اللہ کی عبادت کرے، لہٰذا زندگی کا کوئی پہلو کس طرح بندگی سے باہر ہو سکتا ہے؟ اللہ اپنی مخلوق کو احکامات صادر کرتا ہے:
﴿وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖوَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ (النساء:۳۶)
"اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان لونڈیوں اور غلاموں سے جو تمہارے قبضے میں ہیں سلوک و احسان کرو۔"
﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا﴿٥٨﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴿٥٩﴾ (النساء)
"اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن حکام کی جو تم میں سے ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں جھگڑا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔"
﴿فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۚ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ (النساء:۷۴)
"پس چاہئے کہ وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے عوض بیچ چکے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کریں اور جو شخص اللہ کی راہ میں لڑتا ہے پھر چاہے وہ شہید ہو جائے یا غالب آجائے، ہم عنقریب اس کو بہت بڑا اجر عطا کریں گے۔"
﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّـهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ﴾ (الانفال: ۶۰)
"اور تم لوگ جہاں تک ممکن ہو کفار کے مقابلے کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے دشمنوں کو خوف زدہ کر سکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز بے انصافی نہ ہو گی۔"
﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ (النساء: ۱۹)
"ان (اپنی بیویوں) کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو گو وہ تمہیں ناپسند ہوں بہت ممکن ہے کہ تم کسی ایسی چیز کو ناپسند کرو جس میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بہت بھلائی رکھ دی ہو۔"
﴿هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ﴾ (الملک:۱۵)
"وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ اللہ کا رزق۔"
﴿وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ﴾ (الرحمن: ۹)
"انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔"
اور پھر اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان کو احکامات دیتا ہے:
"علم حاصل کرنا ایک فریضہ ہے۔" (ابن ماجہ)
"اللہ نے ہر چیز میں احسان فرض کر رکھا ہے۔ پس جب تم قتل کرو تو بھی احسان سے۔ اور ذبح کرو تو بھی احسان سے، اور چاہئے کہ آدمی اپنی چھری تیز کر لے، اور جانور کو ذبح کرتے وقت راحت پہنچائے۔" (مسلم)
"سات تباہ کاریوں سے بچو۔ عرض کی گئی: وہ کیا ہیں اے اللہ کے رسول؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک۔ جادو۔ ناحق قتل، سوائے اس کے جو ازروئے شریعت درست ہو، سود خوری۔ یتیم کا مال کھانا۔ جہاد میں مڈبھیڑ کے روز پشت دکھانا۔ پاکدامن بے خبر مومنہ خواتین پر تہمتیں لگانا۔" (مسلم)
"تم میں سے جب کوئی شخص کھائے تو داہنے ہاتھ سے کھائے، پیے تو داہنے ہاتھ سے؛ کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔" (مسلم)
"برخوردار! بسم اللہ پڑھو، داہنے ہاتھ سے کھاؤ، اور اپنے آگے سے کھاؤ۔" (مسلم)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم فرمایا اور سات باتوں سے ممانعت فرمائی۔ ہمیں حکم دیا کہ مریض کی عیادت کریں۔ جنازوں کے پیچھے چلیں۔ چھینک لینے والے کو یرحمک اللہ کہیں۔ کوئی قسم ڈال دے تو اس کی لاج رکھیں۔ مظلوم کی نصرت کریں۔ دعوت قبول کریں۔ اور سلام کو عام کریں۔ اور ممانعت فرمائی سونے کی انگوٹھی سے۔ چاندی کے برتن میں پینے سے۔ نیز ریشمی گدیوں سے، اور ریشم سے خواہ وہ قسی ہو یا حریر یا استبرق یا دیباج۔" (مسلم)
"جو بھی نبی اللہ نے مجھ سے پہلے کسی امت میں مبعوث فرمایا، امت میں سے اُس کے اصحاب اور حواری ہوتے تھے، جو اس کی سنت پر چلتے اور اس کے دستور کی اقتداء کرتے۔ پھر ان کے بعد ناخلف لوگ آجاتے، وہ کہتے جو وہ کرتے نہ تھے، اور وہ کرتے جن کا اُن کو حکم نہ تھا۔ پس جو ان کے ساتھ جہاد کرے ہاتھ کے ساتھ وہ مومن ہوا، اور جو ان کے ساتھ جہاد کرے زبان کے ساتھ وہ مومن ہوا، اور جو اُن کے ساتھ جہاد کرے دل کے ساتھ وہ مومن ہوا، اور اس سے کم رائی برابر ایمان بھی نہیں رہتا۔" (مسلم)
غرض اسی طرح کے بیسیوں فرائض، کہیں سیاسی تو کہیں سماجی، تو کہیں اقتصادی، تو کہیں فکری و روحانی و اعتقادی تو کہیں اخلاقی…اب یہ جو فرائض بیان ہوئے… یہ سب وہ "عبادت" ہیں، جو انسان کے وجود میں آنے کی غایت ہے۔
افسوس آج عبادت کا مفہوم تبدیل ہو گیا ہم نے عبادت کو صرف نماز روزہ ،حج اور زکوٰۃ تک محدود کر دیا اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے اعراض کرتے ہوئے شیطان کی اطاعت و بندگی شروع کر دی۔ آج سیاست میں ہم اللہ کی بجائے جمہور کے نمائندوں کی، معیشت میں سودی سرمایہ دارانہ نظام کی، معاشرت میں یورپ کے ننگے کلچر کی، تعلیم میں لارڈ میکالے کے الحادی نظریات کی اتباع کر رہے ہیں۔ زندگی کے ان اجتماعی پہلوؤں میں اللہ کی بجائے اوروں سے ہدایات لیتے ہیں جو کہ شیطان کی عبادت ہے۔
جب ہم پیدا ہی اللہ کی بندگی کے لئے ہوئے ہیں تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چند شعائرِ عبادت میں وہ پوری "عبادت" مکمل ہو جائے جو کہ درحقیقت اس کے پورے وجود نے کرنی تھی؟ یہ "شعائرِ عبادت" دن رات میں کل کتنا وقت لے لیں گے؟ عمر کا کتنا حصہ آخر "شعائرِ عبادت" میں گزر سکتا ہے؟
جبکہ باقی عمر؟ آپ کی باقی توانائی؟ بقیہ وقت؟ یہ سب کہاں جائے گا؟ کہاں خرچ ہو گا؟ "عبادت" میں صَرف ہو گا یا "غیر عبادت” میں؟ اور اگر "غیر عبادت" میں صرف ہو گا تو وجودِ انسانی کی وہ غایت کیسے پوری ہوئی جو کہ – ازروئے آیت – ہے ہی "عبادت" میں محصور؟ نیز انسان کے لیے یہ جائز کس طرح ہو گیا کہ وہ خود اپنے پاس سے اپنے وجود کے لیے – یا اپنے وجود کے کسی حصے کے لیے – کوئی ایسی غایت وضع کر لے جو اللہ نے مقرر نہیں ٹھہرائی؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
زندگی تو زندگی موت بھی عبادت ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِيكَ لَهُ﴾ (الانعام)
"کہو، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں۔"
یہ ہے وہ "عبادت" جس کا انسان مکلف کیا گیا ہے۔ جس میں نماز اور مناسک بھی آتے ہیں (شعائرِ عبادت)، اور پوری زندگی بھی۔ "عبادت" بذاتِ خود وہ چیز ہے جو انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے، صرف زندگی کو نہیں بلکہ انسان کے مرنے اور جان دینے تک کو (وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي)!
"مرنا" بذات خود "عبادت" کیسے ہو سکتا ہے؟ یعنی ایک ایسا فعل جس میں انسان کا اپنا کوئی اختیار ہی نہیں؟ اس فرمانِ (وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِين) سے مراد دراصل یہ ہے کہ انسان مرے تو اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو۔ یہ انسان کے بوقتِ موت، حالتِ "عبادت" میں ہونے کی، کم از کم سطح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ جانتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، جنت میں داخل ہو گا۔" (مسلم :۲۶)
جبکہ اس کی اعلیٰ ترین سطح یہ ہے کہ انسان کا مرنا شہادت فی سبیل اللہ ہو یعنی اللہ سے وابستگی کی وہ جیتی اور بولتی شہادت جو انسان اپنی جان قربان کر دینے کی صورت میں پیش کرتا ہے… اور ایسی موت "عبادت" کی معراج ہے…
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں "ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ احد کے روز عرض کیا کہ اگر میں قتل کر دیا جاؤں تو کہاں ہوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں۔" (بخاری ۴۰۴۶، مسلم ۱۸۹۹)

ہر حال میں اللہ کا ذکر
﴿الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ﴾ (آل عمران: ۱۹۱)
"جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہتےہیں۔"
یہ "اللہ کو یاد کرنا"زبان سے یا دل سے یاد کرنے میں قید نہیں… اِس "یادِ الٰہی"کا ذریعہ ایک مسلمان کا عمل، کردار، رویہ اور سرگرمی بھی ہے؛ جو وہ "عبادت"کے جذبے سے ہی سر انجام دیتا ہے۔
دورِ اول کے مسلمان کار زارِ حیات میں شریک رہتے ہوئے عبادت سے عہدہ برآ ہو رہے ہوتے تھے۔ زندگی کے ہر ہر میدان میں "عبادت"کی کوئی نہ کوئی صورت ان کی منتظر ہوتی۔ وہ اللہ کو یاد کرتے تو یہ سوال ان کے سامنے آکھڑا ہوتا کہ وہ جس موقع، جس صورت یا جس مقام پر ہیں کیا وہ اللہ کو راضی کرنے کا موجب ہے یا اُسے ناراض کرنے کا۔ اگر وہ رب کو راضی کرنے والا ہوتا تو اپنے مالک کی حمد اور تعریف کرتے، اور اگر صورت دوسری ہوتی تو تائب ہونا، رب ذوالجلال کی جانب پلٹ آنا اور مغفرت کا سوال زبان پر لانا ہی ان کے لیے "ذکرِ الٰہی" ہوتا:
﴿ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (آل عمران:۱۳۵)
"اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے گناہوں پر استغفار کرنے لگتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو اور وہ جانتے بوجھتے اپنے برے کاموں پر اصرار نہیں کرتے۔"
جب وہ اللہ کو یاد کرتے تو یہ سوال ان کے سامنے آئے بغیر نہ رہتا کہ یہ لحظہ جو اُن کو اِس وقت درپیش ہے اس میں اللہ اُن سے کیا چاہتا ہے؟ یعنی اِس لمحے اور اِس حالت میں اللہ کی جانب سے اُن پر کیا فرض عائد ہوتا ہے…؟ پس ان فرائض کو ادا کرنا ہی ذکر الٰہی کرنا تھا۔ چاہے یہ فرض نماز، روزے اور دیگر شعائر عبادت کا ہو یا یہ فرض گھریلو زندگی میں بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا ہو یا یہ فرض میدان جہاد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا ہو۔ یا پھر حلال روزی تلاش کرنے کا یا حتیٰ کہ شغل و تفریح اور خوشی منانے کا، یہ سب ہی عبادت ہے۔

اسلام میں رہبانیت نہیں
اسلام میں عبادت کا ایسا کوئی تصور نہیں کہ ایک مسلمان دنیا سے لا تعلق ہو کر اللہ سے تعلق قائم کرے۔ پہاڑوں اور جنگلوں میں نکل کر تسبیح کے دانے پھیرے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسا کوئی ذکر ثابت نہیں۔ اس گوشہ نشینی والے ذکر کا جب چند مسلمانوں کو خیال آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوٹوک انداز میں ممانعت فرما دی، جیسا کہ تین صحابہ رضی اللہ عنہم نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے گھر آئے اور آپ کی عبادت کا حال پوچھا۔ جب ان کو بتلایا گیا تو انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا ہمارا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقابلہ۔ ان کے تو اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا کبھی ناغہ نہیں کروں گا۔ دوسرے نے کہا میں ساری رات نماز پڑھا کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا۔ کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ آپ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے پوچھا تم نے اس اس طرح کہا ہے۔ خبردار اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا، اس کا سب سے زیادہ خوف دل میں رکھنے والا ہوں۔ میں روزے بھی رکھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں۔ پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ میں سے نہیں۔
(بخاری، کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح ۔ح۔۵۰۶۳۔ مسلم: کتاب النکاح باب استحباب النکاح۔ح۔۱۴۰۱)

عبادت کے تقاضوں کی درجہ بندی
ابتداء اِس بات سے کہ یہ اللہ کی توحید پر ایمان لائے… یعنی اس بات کا اقرار کہ "نہیں کوئی الٰہ مگر اللہ"جو کہ وحدہ لا شریک ہے اپنے پروردگار ہونے میں، اپنے لائقِ عبادت ہونے میں، اور اپنے تمام اسماء و صفات اور افعال میں:
﴿وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا﴾ (النساء:۳۶)
"اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔"
"اللہ کی عبادت کرو" کا مطلب یہ ہے کہ– پورے اسلام پر عمل کیا جائے، ہاں! ان سب تقاضوں کی پابندی ایک درجے میں نہیں: ان میں سے کچھ کا تعلق اصلِ ایمان سے ہے؛ جیسا کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ہونے دینا، شعائرِ عبادت کو تنہا اُسی کے لیے مخصوص کر رکھنا، اور اُس ایک کی شریعت کی تحکیم کرنا… یہ وہ تقاضے ہیں جن کو چھوڑ دینے کے بعد آدمی مومن ہی نہیں رہتا۔ پھر ان میں سے کچھ کا تعلق کمالِ ایمان سے ہے (نہ کہ اصلِ ایمان سے)، مانند اخلاقیات، وہ سب باقی ماندہ فرائضِ دین جو اللہ نے انسان پر عائد کر رکھے ہیں۔ یہ وہ تقاضے ہیں جن کے بغیر آدمی کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبادت اور عقیدہ
عبادت کی ابتداء لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان سے ہوتی ہے ۔اللہ اکیلے کو ہر قسم کی عبادت کا مستحق جاننا اور شرک کی مکمل نفی کرنے سے عبادت شروع ہوتی ہے۔ اگر یہ ایمان نہ ہو تو پھر باقی جو کچھ ہے وہ عبادت تسلیم نہیں ہوتا۔ اللہ کے سوا کسی اور کو مشکل کشا اور حاجت روا ماننا یا غیر اللہ کے قانون کی تحکیم پر راضی برضا ہونا کلمہ توحید کی نفی ہے۔ اگر کوئی شرک صریح میں پڑا ہوا ہے تو یہ رکوع و سجود، یہ عمرے اور حج اس کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتے ۔ کیونکہ عبادت کے لیے ایمان پہلی شرط ہے۔ شرک کرنے والوں کے حق میں ایمان کی شہادت نہیں دی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ اس قانون کی انتہائی بالادستی یوں بیان فرماتا ہے۔
﴿وَ لَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (الانعام: ۸۸)
"اور اگر یہ (انبیاء و مرسلین) شرک کرتے تو جو کچھ یہ عمل کرتے تھے سب ضائع ہو جاتا۔"
آج کے مسلمان کے ہاں "عبادت" نماز سے شروع ہوتی ہے نہ کہ لا الٰہ الا اللہ سے، یہ "عبادت" اس کے تصور میں نماز سے شروع ہوتی ہے تو روزہ، زکوٰۃ، حج اور کچھ ذکر اذکار پر ختم بھی ہو جاتی ہے! "عبادت" کی ابتداء اللہ وحدہٗ لا شریک کے لیے اپنی عبدیت کے اقرار اور اظہار سے نہیں ہوتی! شرک کی نفی کرنے سے نہیں ہوتی! بلکہ اس کے ہاں، نماز روزہ، پایا جاتا ہے تو "عبادت" میں کیا خلل ہے؟! اگرچہ آدمی اللہ کے سوا کسی اور کو مشکل کشا، حاجت روا سمجھ کر پکارتا اور اس کے نام پر چڑھاوے چڑھاتا ہو؟! بھلا نماز روزہ کرنے کے بعد بھی مسلمان ہونے میں کیا شک رہ جاتا ہے! اگرچہ کہ آدمی شریعتِ غیر اللہ کی تحکیم پر ہی راضی برضا کیوں نہ ہو؟! آج کون ہے جو یہ مانتا ہو کہ اللہ کی شریعت کو دستور ٹھہرانے کا "ایمان" یا "عبادت" سے کوئی تعلق ہے؟! بھائی عبادت اور چیز ہے اور یہ سیاسی معاملات اور چیز۔
غور کریں! کتنے ایسے لوگ تھے جن کو محض اس وجہ سے مرتد قرار دیا گیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو نبی ماننے لگے تھے۔ ان کا نمازیں پڑھنا، مساجد آباد کرنا، چہروں پر داڑھیاں سجانا انہیں کافر قرار دینے سے نہ روک سکا۔ آج لوگ مقام نبوت کے انکار سے کہیں آگے بڑھ کر رب ذوالجلال کے مقام کا انکار کر رہے ہیں۔ یہاں نمازیں اور روزے رکھنے والے، بیت اللہ کا حج کرنے والے اپنے ہی جیسے مجبور انسانوں کو مشکلات میں پکارتے اور ان کے در پہ ماتھے ٹیکتے نظر آتے ہیں۔
ذرا غور کریں! کتنے لوگ ایسے تھے زکوٰۃ کی ادائیگی سے رک جانے پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ کر ڈالا تھا؟ جبکہ وہ نمازیں بھی پڑھتے تھے اور روزے بھی رکھتے تھے! ان کے حق میں ایمان کی شہادت نہیں دی گئی۔ ان "نمازیوں" کے خلاف قتال ہی ہوا، کیونکہ انہوں نے اللہ کے احکامات میں سے ایک حکم سے اعراض کر لیا تھا، جبکہ بقیہ احکامِ شریعت کے وہ بدستور اقراری تھے بلکہ پابند بھی۔ تو پھر ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اللہ کی پوری شریعت سے اعراض کیے بیٹھا ہو اور اللہ کی شریعت کے ماسوا کسی اور شریعت کو ہی اپنا دستور بنا چکا ہو اور اسی پر راضی برضا ہو؟!
الغرض عبادت کی اصل اور بنیاد عقیدہ ہے، اسی سے عبادت شروع ہوتی ہے اور اسی پر لوٹتی ہے۔ لہٰذا عبادت کی ابتداء توحید سے ہوتی ہے نہ کہ نماز سے۔

عبادت اور دنیاوی امور
دنیا کے کام چاہے ان کا تعلق سیاست کے امور سے ہو یا معیشت سے، تہذیب تمدن سے ہو یا زمین آباد کرنے سے، روزی کمانے سے ہو یا تفریح کے سامان سے یہ تمام امور اللہ کی عبادت ہیں۔ انہیں ’عبادت‘ بنا دینے والے دو بنیادی وصف ہیں:
ایک: اس عمل کو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔
دوسرا: اِس پورے عمل کو اللہ کے احکامات کے تابع کر دیا جائے۔
یہ دو وصف اُس کی جملہ سرگرمیِٔ حیات کو "عبادت" بنا دیتے ہیں اور اِس پر اُس کو اللہ کے ہاں ثواب کا مستحق ٹھہراتے ہیں۔
ایک مسلمان جس وقت "کام" کو عبادت سمجھ کر کرے گا تو اس وقت وہ خیانت، بددیانتی، کام چوری، جھوٹ، دو نمبری، دھوکہ دہی، دوسروں کا حق مارنا اور ظلم و جور کی صورت میں ان کا استحصال کرنا یا محض کسی وقتی فائدے کے لیے حرام اشیاء کا ارتکاب کرنا… اس کام کا حصہ نہیں رہے گا۔
جس وقت راحت اور آسائش عبادت کا معنیٰ لیے ہوئے ہو گی… اس وقت آدمی گھٹیا اور سفلہ پن کی طرف نہیں جائے گا۔ نہ ہی وہ اپنی انسانیت کی سطح سے گرے گا جیسا کہ معاصر جاہلیت کے اندر ہو رہا ہے، جہاں “تفریح” لچرپن اور غلاظت کا ہم نام ہو گئی ہے اور جہاں “دل لگی” فحاشی اور بدکاری کا عنوان بن گئی ہے، بلکہ پہلے یہ بدکاری کا نام تھا اور اب تفریح کا۔
دوسرا عبادت کے جذبے سے کیے گئے عمل کا نتیجہ اُس کام سے کہیں زیادہ بہتر ہو گا جو محض اپنی خواہشات کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اسلامی تاریخ میں جب مسلمانوں کے ہاں عبادت کا حقیقی مفہوم پایا جاتا تھا تو مسلمانوں نے دنیا کے علوم، فلاح و بہبود کے کام اور سائنسی ترقی میں اپنے جوہر کے کمال دکھائے اور پھر اس سارے عمل میں وہ اللہ کے احکامات کے تابع اور فرمانبردار رہے۔
امتِ اسلامیہ کا کارنامہ محض کشور کشائی اور غلبہ و سیادت کا حصول نہیں تھا۔ امتِ اسلام کا اصل کارنامہ محض وہ سائنسی و تمدنی پیشرفت یا وہ زمینی ترقی بھی نہیں تھا جو اِس امت کے ہاتھوں رونما ہوا۔ یہ تو اللہ کا انعام ہے جو کچھ ہمت دکھا لینے کے عوض کافروں کو بھی مل جایا کرتا ہے اور مومنوں کو بھی:
﴿كُلًّا نُّمِدُّ هَـٰؤُلَاءِ وَهَـٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا﴾ (بنی اسرائیل: ۲۰)
"اِن کو بھی اور اُن کو بھی، دونوں فریقوں کو ہم (دنیا میں) سامان دنیا دیے جا رہے ہیں، یہ تیرے رب کا عطیہ ہے، اور تیرے رب کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔"
مسلم امت کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ تمدن، تعمیرِ ارض اور حصولِ قوت کا یہ سارا عمل اِس نے اللہ کے احکامات کی روشنی میں کر کے دکھایا۔ یہاں پر اسلامی اقدار اور شرعی معیارات قائم کر کے دکھائے۔ اپنی قوت اور برتری سے جہان میں اخلاق کا بول بالا کیا اور یہ کارنامہ پوری تاریخ میں اس سطح پر صرف اور صرف امتِ اسلامیہ کے ہاتھوں رونما ہوا۔

عبادت اور سیاست
توحیدکا ایک اہم باب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ہے، یہ زمین اللہ کی ہے اور اس پر حکم و دستور بھی اللہ کا چلنا چاہیے، حلال و حرام، جائز و ناجائز طے کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ اسی کے احکامات پر عمل کرنے سے دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
"لتنقضن عُرَى هذا الدينِ عروةً عروةً، فأولها نقضاً الحكمُ، وآخرُها نقضاً الصلاةُ." (احمد)
"اس دین کی کڑیاں یقیناً ایک ایک کر کے ٹوٹیں گی۔ اس کی جو پہلی کڑی ٹوٹے گی وہ حکم (اسلام کا اقتدار) ہو گا، اور آخری کڑی جو ٹوٹے گی وہ نماز ہے۔"
توحید کی یہ کڑی یعنی اسلام کا اقتدار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مطابق ٹوٹ کر رہا۔ زمین پر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین سے فیصلے ہونے لگے اور اللہ کا دین بطور قانون و دستور ریاستوں میں قائم نہ رہا۔ افسوسناک معاملہ محض اسلام کے اقتدار کا ختم ہونا نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر امت کے لئے جو افسوس ناک بات ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی حاکمیت کو جو مقام اللہ نے دیا تھا وہ مسلمانوں کی اکثریت کے ذہنوں سے نکل چکا ہے۔ وہ بھول گئے کہ اللہ کا حکم نافذ کرنا اور اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کروانا توحید اور عبادت ہے۔
عبادت کو "شعائر" میں محصور کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست کو عبادت سے جدا کر دیا گیا۔ اب سیاست کا اللہ کی عبادت سے کوئی تعلق نہیں سمجھا جاتا۔ اللہ کی شریعت کو فیصل ماننا، ریاستوں کی پالیسیاں قرآن سے لینا، دوستی، دشمنی کے اصول سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے لینا، جائز و ناجائز کا سوال شریعت سے کرنا، ہیرو کون اور زیرو کون، عزت والا کون اور ذلت والا کون اس کا پتا دین سے لگانا، حکمرانی کا حقدار کون اور تختۂ دار پر لٹکنے کا حقدار کون اس کا علم وحی سے حاصل کرنا توحید نہ رہا! عبادت نہ رہا۔ اس سب کو سیاست بنا کر دین سے جدا کر دیا گیا اور پھر اس میں ہدایت اللہ رب العزت سے لینے کی بجائے اور خداؤں سے لینے لگے۔ کہیں پارلیمنٹ کو خدا کے درجہ پر فائز کیا تو کہیں خود ساختہ دستور اور قانون کو! کہیں وقت کی کفریہ طاقتوں کو سجدہ کیا تو کہیں انسانی فلسفوں کو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے کو افضل جہاد قرار دیا۔ "إن من أعظم الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر" (ترمذی:۲۱۷۴) گویا سیاست میں حصہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی کے حکم پر ہے، یہ امت کی اجتماعی ذمہ داریوں میں سے ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اس وجہ سے یہ امت بہترین امت قرار دی گئی ہے۔ مگر سیاست کو عبادت سے خارج کرنے کی وجہ سے اسلام کا اقتدار قائم نہیں رہا۔
سیاست کو عبادت سے الگ کرنا، حاکم کا احتساب اور حق پر قائم رہتے ہوئے اس کے لیے ہمدردانہ نصیحت و اصلاح نیز حاکم کو معروف کی جانب توجہ دلانا اور منکر سے روکنا تاکہ حکومت کا معاملہ اللہ کی شریعت کے مطابق صحیح سلامت چلتا رہے اور وہ عدل و انصاف کی اُس صورت پر قائم رہے جو مسلم معاشرے کے حق میں اللہ کا حکم ہے اور اِس کے نتیجے میں اسلام کا بول بالا رہے اور معاشرہ اسلام کے وہ ثمرات سمیٹتا رہے جو حق اور عدل پر قائم رہنے کا نتیجہ ہے اور جو کہ اللہ کی جانب سے اتمامِ نعمت کا ایک لازمی تقاضا ہے (ازروئے آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا … (المائدہ :۳)) غرض حاکم کا احتساب اور اس سے ملحقہ یہ سب امور "عبادت" سے باہر ہو گئے۔ یہ بہت اچھے کام سہی مگر"عبادت" نہیں؛ "عبادت" وہی جو "شعائر"کی صورت میں ادا ہو!
اللہ رب العزت فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (النساء:۵۹)
"اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں جھگڑا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی بات بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی اچھی ہے۔"
یہ آیتِ مبارکہ مسلم معاشرے کے اندر "اختیارات کے سرچشمہ"کا نہایت واضح تعین کرتی ہے، یعنی "اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم"۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلق اطاعت، ہر ہر امر میں، ہر ہر نہی میں، کتاب اور سنت میں وارد ایک ایک حکم کی اطاعت بلا چوں و چراں کی جائے۔ ہاں! اس کے بعد اولیٰ الامر کی اطاعت ہے، جوکہ مطلق اور قائم بالذات اطاعت نہیں کہ جس طرح اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پلٹ کر پوچھنا جائز نہیں کہ یہ حکم کیوں اور کیسے دیا ویسے ہی حکمران کو ہر قسم کی جوابدہی سے بالاتر رکھا جائے۔ یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے تابع ایک اطاعت ہے۔ یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی پابند ایک اطاعت ہے؛ یعنی جہاں یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے خروج کر لے وہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں: إنما الطاعة في المعروف "اطاعتِ امیر معروف کے دائرہ کے اندر اندر ہے۔" پھر یہ آیت اُس مرجع کا تعین کرتی ہے کہ جب نزاع ہو جائے تو سب اُس کی جانب رجوع کریں اور اس کے علاوہ کوئی مرجع نہیں۔ پھر مسلم معاشرہ کا یہ دستور (جھگڑوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حتمی مرجع ٹھہرانا) بتا دینے کے بعد اس کو "اللہ اور یوم آخرت پر ایمان"کی شرط ٹھہرایا جاتا ہے، یعنی یہ عقیدہ اور ایمان کا مسئلہ ہے۔
"جو بھی نبی اللہ نے مجھ سے پہلے کسی امت میں مبعوث فرمایا، امت میں سے اُس کے اصحاب اور حواری ہوتے رہے، جو اس کی سنت پر چلتے اور اس کے دستور کی اقتداء کرتے۔ پھر یوں ہوتا کہ ان کے بعد ناخلف لوگ آجاتے، وہ کہتے جو وہ کرتے نہ تھے، اور وہ کرتے جن کا اُن کو حکم نہ تھا۔ پس جو ان سے ہاتھ کے ساتھ جہاد کرے وہ مومن ہوا، اور جو ان سے زبان کے ساتھ جہاد کرے وہ مومن ہوا، اور جو اُن سے دل کے ساتھ جہاد کرے وہ مومن ہوا، اور اس سے کم رائی برابر ایمان بھی نہیں رہتا۔"(مسلم)
یہ حدیث اس بات کا تعین کرتی ہے کہ جہاں اللہ کا حکم اور دستور توڑا جائے وہاں امت کا کیا رویہ ہونا چاہئے۔ حدیث نہایت واضح طور پر طے کرتی ہے کہ جہاں اللہ کی شریعت کو توڑا جائے وہاں مزاحمت فرض ہے ہاتھ کے ساتھ یا زبان کے ساتھ یا دل کے ساتھ، جب تک کہ معاملہ شریعت کی طرف لوٹا نہ دیا جائے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت والی وہ صورتحال بحال نہ ہو جائے۔ پھر اس مسئلہ کو بھی براہِ راست "ایمان" کے ساتھ جوڑا جاتا ہے؛ یعنی جو شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کہ شریعت کو توڑا جا رہا ہے، اس کے خلاف مزاحمت کے لیے اٹھ کھڑا نہیں ہوتا اور اس مزاحمت کے تین درجوں میں سے کسی ایک درجے میں آنہیں جاتا … تو اس کی بابت کہا جا رہا ہے: وليس وراء ذلك من الإيمان حبة خردل "اس سے کم درجہ پر رائی برابر ایمان نہیں۔"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبادت اور اخلاق
اخلاق وہ جامع اور وسیع دائرہ ہے جو انسان کے تمام معاملات کو اپنی زد میں لیتا ہے۔ انسان کی زندگی میں کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں جو اخلاق کے دائرۂ کار میں نہ آتی ہو۔ انسان کا رویہ و سلوک، اس کی فکر، اس کے احساسات و جذبات، میل جول، رہن سہن، سیاست، سماج، معیشت، آرٹ کوئی چیز "اخلاق"سے مستثنیٰ نہیں۔ انسان کی تمام سرگرمی کو دراصل اسلامی اخلاقی ضابطے سے پھوٹنا ہے۔
﴿أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿١٩﴾ الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَلَا يَنقُضُونَ الْمِيثَاقَ ﴿٢٠﴾ وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ ﴿٢١﴾ وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ﴿٢٢﴾ (الرعد : ۱۹۔۲۲)
"بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اِس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں؟ نصیحت تو عقل والے ہی قبول کیا کرتے ہیں۔ اور اُن کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعد نہیں توڑتے۔ اُن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔"
یہ عہد اعتقاد، رویے اور ذہنیت سے متعلقہ کچھ عظیم ترین امور پر مشتمل ایک چیز ہے۔ یہ اعلیٰ درجہ کی ایک اخلاقی تصویر ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام میں اخلاقی پابندی کا اصل منبع عبادتِ الٰہی ہے، جس سے پہلے اللہ کی الوہیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے ہوئے ایک ایک لفظ کی صداقت پر یقین پختہ کرایا گیا ہے۔ یعنی ایک اعلیٰ اخلاقی کردار رکھنا "لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ"پر ایمان کا براہِ راست تقاضا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث دیکھتے ہیں تو اخلاق کا ایمان سے ایک ایسا اٹوٹ رشتہ سامنے آتا ہے گویا اخلاق ہے تو ایمان ہے اور اخلاق نہیں تو ایمان بھی نہیں:
"من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليحسن إلى جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليسكت" (مسلم)
"جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرے۔ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کرے یا پھرخاموش رہے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں۔" صحابہ کرام رٰضی اللہ عنہم نے پوچھا: "کون یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟"فرمایا: "جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔" (بخاری: ۶۰۱۶۔ مسلم: ۴۶)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الإيمان بضع وسبعون (أو بضع وستون) شعبة فأفضلها قول لا إله إلا الله ، وأدناها إماطة الأذى عن الطريق. والحياء شعبة من الإيمان." (بخاری:۹، مسلم:۳۵)
"ایمان کی ستر یا ساٹھ سے اوپر شاخیں ہیں۔ افضل شاخ لا الہ الا اللّٰہ ہے۔ کم تر شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔"
"أربع من كن فيه كان منافقا خالصا، ومن كان فيه خلة منهن كان فيه خلة من النفاق حتى يدعها: إذا حدّث كذب، وإذا عاهد غدر، وإذا وعد أخلف، وإذا خاصم فجر۔" (بخاری :۳۴۔ مسلم:۵۸)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "منافق کی چار نشانیاں ہیں ۔جس میں وہ چاروں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی۔(۱) بات کہے تو جھوٹ بولے۔ (۲) وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ (۳) امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (۴) جب جھگڑے تو بدزبانی کرے۔"
"سئلت عائشة – رضي الله عنها – عن خلق رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فقالـت : كان خلقه القرآن." (أخرجه مسلم)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بابت دریافت کیا گیا تو ام المؤمنین نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق خود قرآن ہی تھا۔
کتاب اور سنت کے اس پورے بیان سے یہ عیاں ہے کہ دین میں "اخلاق" ایک نہایت مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ نیز یہ کہ اخلاق براہِ راست "ایمان"سے پھوٹتا ہے اور مومن کا اخلاق سے آراستہ ہونا عبادتِ الٰہی کی ایک نہایت عظیم صورت ہے۔

اخلاق کو عبادت سے باہر کرنے کے نتائج
"عبادت" کا مفہوم جب سکیڑ دیا گیا، یہاں تک کہ اس کو "شعائر" میں محصور جان لیا گیا… تو (عقیدہ کی طرح) اخلاق بھی رفتہ رفتہ "عبادت" کے مفہوم سے باہر ہوتا چلا گیا… جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ… مسلم معاشرے میں یہ بات کسی کے کان کھڑے کر دینے والی نہ رہی کہ ایک آدمی مسجد کا باقاعدہ نمازی ہے بلکہ مسجد اس کی ’روٹین‘ ہے مگر پرلے درجے کا جھوٹا اور بددیانت ہے! ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ پھر پوچھا گیا: کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ (موطا مالک)
پھر… یہ بات کسی کو حیران تک نہیں کرتی کہ آدمی مسجد میں نماز پڑھ کر باہر آئے، ٹھگی اور فراڈ کرے! جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (من غشنا فليس منا) (مسلم) "جس نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں")
اور… یہ بات کسی کو متعجب نہیں کرتی کہ ایک آدمی مسجد میں نماز پڑھ کر باہر آئے اور اپنی اس امانت یا ذمہ داری میں جو اس کو سونپ رکھی گئی ہے خیانت کرے یا وعدہ خلافی کرے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے علاماتِ نفاق میں شمار فرمایا ہے۔
انہونی بات یہ نہیں کہ لوگوں میں اخلاقی قیود سے جان چھڑانے کے رجحانات پرورش پانے لگیں؛ کیونکہ اخلاقی قیود پر پورا اترنا اِلا ماشاء اللہ واقعتاً ایک مشکل کام ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اخلاق کا “عبادت” سے کوئی تعلق نہیں! بھائی عبادت کچھ مخصوص اعمال (شعائر) کا نام ہے، آپ وہ کر رہے ہیں تو عبادت تو ہو رہی ہے! ٹھیک ہے یہ اخلاقی خرابیاں ایک بڑی لعنت ہیں اور خود ہمارے واعظ، اللہ کا شکر ہے، کوئی خطبہ اس پر بات کیے بغیر نہیں چھوڑتے، مگر بھائی اس کو "عبادت"کے ساتھ خلط مت کریں، عبادت جس چیز کا نام ہے وہ بہرحال نماز، روزہ اور ذکر اذکار اور وظائف وغیرہ ہی ہے!
یہاں تک کہ امت کے حق میں یہ شرمناک واقعہ پیش آیا کہ معاصر جاہلیت (مغرب) اپنا یہ امتیاز پیش کرنے لگی کہ روزمرہ معاملات میں اس کے ہاں سچ کا التزام زیادہ ہے! (جھوٹ کا سارا استعمال، غیر روز مرہ امور اور سیاسی ہتھکنڈوں کے لیے بچا رکھا جاتا ہے!) دیانتداری اسکے ہاں زیادہ ہے، کرپشن اور دو نمبری اسکے ہاں ہماری نسبت کم ہے، جبکہ ہماری یہ ’امتِ اسلامیہ‘؟ الامان والحفیظ، سرتاپا بددیانتی، غبن، جھوٹ، خیانت اور وعدہ خلافی! … یہ مسلمانوں کے اخلاق ہی تھے جو کبھی لوگوں کو اسلام میں لانے کا موجب تھے اور آج یہ مسلمانوں کے اخلاق ہی ہیں جو اللہ کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں!
داعیانِ اسلام اقوامِ مغرب کو اسلام کے متعلق جو بھی اعلیٰ سے اعلیٰ بات بتائیں وہ زبانِ حال یا زبانِ قال سے بہرحال یہی کہتے ہیں کہ تمہارے پاس اگر واقعی کوئی ایسا خوبصورت دین ہے تو تمہارا اپنا معاملہ اس قدر بدصورت کیوں ہے؟! یہ کرپشن، جھوٹ، دھوکہ دہی، دونمبری، وعدہ خلافی، آپس کی بدسلوکی، اختلاف اور نزاع، یہاں تک کہ کسی ایک چیز پر اکٹھے نہیں ہو سکتے!
یوں ہم مسلمان ہی دعوتِ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں انسان صرف ہماری وجہ سے اسلام سے دور ہیں! اس کے باوجود… یہ سب دیکھ کر افسوس ضرور کر لیا جائے گا، سرد آہیں ضرور بھر لی جائیں گی، مگر "اخلاق"اور "عبادت"رہیں گے دو الگ الگ دائرے! یعنی اخلاق کو "توحید"اور "عبادت"کا اصل جزو بہرحال نہ مانا جائے گا!
 
Top