• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عباد امثالکم سے کون مراد ہیں؟

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
کچھ لوگ سورت اعراف کی آیت نمبر ١۹۴ کو دلیل بناتے ہیں کہ من دون اللہ سے فقط بت ہی نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (194) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ بھی تمہاری مثل بندے ہیں تو ثابت ہوا یہاں فقط بت نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں۔
جوابا عرض ہے کہ یہاں عباد امثالکم سے بت ہی مراد ہیں اور رہ گئی بات ان کو عباد کہنے کی تو ان کو عباد مخلوق مملوک کے معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ بھی تمہاری طرح مخلوق ہیں پھر اس سے اگلی آیت بھی اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ یہاں بت ہی مراد ہیں۔اللہ فرماتا ہے أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (195)اس آیت میں کہا گیا کہ کیا ان کے ہاتھ ہیں ؟ِ کیا ان کے پاوں ہیں یا ان کی آنکھیںِ ہیںِ؟یعنی ان سے ان اشیا کی نفی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ جس طرح تم مخلوق ہو وہ بھی مخلوق ہیں مملوک ہیں بلکہ وہ تو تم سے بھی کم تر ہیں نہ ان کی آنکھیں ہیں نہ ہاتھ۔
تفسیر خازن میں ہے
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ يعني أن الأصنام التي يعبدها هؤلاء المشركون إنما هي مملوكة لله أمثالهم
قاضی بیضاوی فرماتے ہیں
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة. عِبادٌ أَمْثالُكُمْ من حيث إنها مملوكة مسخرة.(تفسیر بیضاوی)
تفسر قرطبی میں ہے
(إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ) حَاجَّهُمْ فِي عِبَادَةِ الْأَصْنَامِ." تَدْعُونَ" تَعْبُدُونَ. وَقِيلَ: تَدْعُونَهَا آلِهَةً." مِنْ دُونِ اللَّهِ" أَيْ مِنْ غَيْرِ اللَّهِ. وَسُمِّيَتِ الْأَوْثَانُ عباد الأنها مَمْلُوكَةٌ لِلَّهِ مُسَخَّرَةٌ. الْحَسَنُ: الْمَعْنَى أَنَّ الْأَصْنَامَ مخلوقة أمثالكم.
تفسیر مدراک میں ہے
{إِنَّ الذين تَدْعُونَ مِن دُونِ الله} أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة {عباد أمثالكم} أى مخلقون مملوكون أمثالكم
ان تمام تفاسیر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں بت مراد ہیں اور ان کو عباد مملوک ہونے کی حثیت سے کہا گیا ہے ۔
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
قادری بھائی اس کا جواب نفی یا اثبات میں تو کوئی عالم ہی دے گا
بس ہمیں ایک سوال کا جواب درکار ہے
جن بتوں کی پوجا کی جاتی ہے کیا بت پرست اس کو صرف پتھر سمجھ کر پوجتا ہے ؟
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
حضرت الگ سے تھریڈ شروع کریں وہاںتفصیل سے اس موضوع پر بھی بحث ہو جائے گی یہاں پر برائے مہربانی موضوع سے ہٹ کر بحث مت فرمائیں۔شکریہ
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
قادری رانا بھائی۔ایک چھوٹی سی درخواست ہے اور وہ یہ ہے کہ جب آ پ عربی لکھیں یا مضمون میں شامل کریں تو "عربی کے الفاظ پر عربی ٹیگ لگا دیا کریں جس کا بٹن باکس میں موجود ہے۔اس سے آپ کی عربی عبارت پڑھنے میں آسانی ہوگی۔شکریہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ان تمام تفاسیر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں بت مراد ہیں اور ان کو عباد مملوک ہونے کی حثیت سے کہا گیا ہے ۔
واہ واہ ۔۔۔کیا بات ہے ۔
یہاں اس آیت میں ’’ عباد ‘‘ سے مراد بت ہیں ۔۔اور بتوں کو پکارنا شرک ہے ۔۔اس لئے قبر پرستوں کیلئے خوشخبری : دھڑلے سے مردوں کی قبروں کو چاٹو ۔
بلکہ قبروں کو عرق گلاب سے دھو دھو کر نوش جاں کرو ۔تاکہ شرک تمہاری رگ و پے میں گھل کر جسم کے کونے کونے سے توحید کا اثر مٹا ڈالے۔
اور سارے قبر چاٹنے والے قرآن پاک میں بنی اسرائیل کےبچھڑے کے پجاریوں کے مصداق ::
( وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ)
ان کے اسی کفر کی وجہ سے بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دی گئی تھی۔ آپ ان سے کہئے کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارا یہ ایمان تمہیں کیسی بری باتوں کا حکم دیتا ہے
کا زندہ نمونہ بن جاؤ ۔شاباش مردہ پرستی میں کوئی کسر نہ چھوڑو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سے قریب اک ہزار سال پہلے مشہور صوفی ’’ عبد الكريم بن هوازن القشيري (المتوفى: 465هـ) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا تھا :
مشکل جمع مشکل =بلائے عظیمہ ، مصیبت کبیرہ
جب ایک مخلوق اپنے جیسی دوسری مخلوق سے استعانت کرے ،تو یقینی ہے کہ مراد سے مزید فاصلے پیدا ہوں ۔اور تصور کرو کیا صورت حال ہو جب ایک مشکل میں دہائی دینے والا ، اپنے جیسے دوسرے محتاجی کی دہائی دینے والے کو مدد کیلئے پکارے ؟

إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ (194)
إذا قرنت الضرورة بالضرورة تضاعف البلاء، وترادف العناء فالمخلوق إذا استعان بمخلوق مثله ازداد بعد مراده عن النّجح. وكيف تشكو لمن هو ذو شكاية؟! هيهات! إن ذلك خطأ من الظن، وباطل من الحسبان ‘‘ انتہی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حضرت الگ سے تھریڈ شروع کریں وہاںتفصیل سے اس موضوع پر بھی بحث ہو جائے گی یہاں پر برائے مہربانی موضوع سے ہٹ کر بحث مت فرمائیں۔شکریہ
یہی موضوع یہاں بھی تو زیر بحث ہے ، نیا تھریڈ شروع کرنے میں کیا حکمت ہے ؟
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
واہ واہ ۔۔۔کیا بات ہے ۔
یہاں اس آیت میں ’’ عباد ‘‘ سے مراد بت ہیں ۔۔اور بتوں کو پکارنا شرک ہے ۔۔اس لئے قبر پرستوں کیلئے خوشخبری : دھڑلے سے مردوں کی قبروں کو چاٹو ۔
بلکہ قبروں کو عرق گلاب سے دھو دھو کر نوش جاں کرو ۔تاکہ شرک تمہاری رگ و پے میں گھل کر جسم کے کونے کونے سے توحید کا اثر مٹا ڈالے۔
اور سارے قبر چاٹنے والے قرآن پاک میں بنی اسرائیل کےبچھڑے کے پجاریوں کے مصداق ::
( وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ)
ان کے اسی کفر کی وجہ سے بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دی گئی تھی۔ آپ ان سے کہئے کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارا یہ ایمان تمہیں کیسی بری باتوں کا حکم دیتا ہے
کا زندہ نمونہ بن جاؤ ۔شاباش مردہ پرستی میں کوئی کسر نہ چھوڑو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سے قریب اک ہزار سال پہلے مشہور صوفی ’’ عبد الكريم بن هوازن القشيري (المتوفى: 465هـ) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا تھا :
مشکل جمع مشکل =بلائے عظیمہ ، مصیبت کبیرہ
جب ایک مخلوق اپنے جیسی دوسری مخلوق سے استعانت کرے ،تو یقینی ہے کہ مراد سے مزید فاصلے پیدا ہوں ۔اور تصور کرو کیا صورت حال ہو جب ایک مشکل میں دہائی دینے والا ، اپنے جیسے دوسرے محتاجی کی دہائی دینے والے کو مدد کیلئے پکارے ؟

إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ (194)
إذا قرنت الضرورة بالضرورة تضاعف البلاء، وترادف العناء فالمخلوق إذا استعان بمخلوق مثله ازداد بعد مراده عن النّجح. وكيف تشكو لمن هو ذو شكاية؟! هيهات! إن ذلك خطأ من الظن، وباطل من الحسبان ‘‘ انتہی
جناب اتنی درشت گفتگو سے حقائق چھپتے نہیں اوریہ کونسی تفسیر ہے کتاب کا نام لکھیں اور پہلے جو باتیں میں نے کی ہیں ان کا جواب دیں۔اور میرے خیال سے آپ جیسے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ایسی باتیں مت بتائیں تاکہ آپ بتوں والی آیات انبیا اولیا پر فٹ کر کے مسلمانوں کا خون و مال حلال قرار دیں دے؟؟اور یہ جو آپ نے زبان استعمال کی ہے قبروں کو چاٹو اور وہ قوم بنی اسرائیل کا ،صداق بن جاو کیا ایک علمی بندی کو یہ گفتگو زیب دیتی ہے ؟اور کیا ہم قبروں کو چاٹتے ہیں؟ایک تو آپ لوگوں کے جھوٹ ہی ختم نہیں ہوتی ۔مولوی حمزہ صاحب نے پاکپتن کے سفر کی روئداد بیان رتے ہوئے ایسے جھوٹ بولے ہیں کہ میں حیران ہی ہو گیا کہ اتنے سال ہوگئے ہمیں یہاں رہتے ہوئے ہم نے تو ایسا کچھ نہیں دیکھا ۔بہرحال جو بات کی جاتی ہے اس کا جواب دیا کریں ادھر ادھر کی الزام تراشی سے پرہیز۔اور یہاں بات اس لئے شیئر کی جاتی ہے تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے لیکن پھر جانبداری سے ایسی گفتگو رنا یہ آپ کو زیب نہیں دیتا
یہی موضوع یہاں بھی تو زیر بحث ہے ، نیا تھریڈ شروع کرنے میں کیا حکمت ہے ؟
کسی اور تھریڈ میں عامر یونس صاحب کی پوسٹ پہ یہ آیت دیکھی تھی پھر بعد میں مولانا جرجیس انصاری کی ویڈیو بھی دیکھی سوچا اس ا جواب الگ سے دینا بھی زیادہ مفید رہے گا۔کیونکہ بیشتر یہی آیت پیش کی جاتی ہے
 
Last edited:
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
واہ واہ ۔۔۔کیا بات ہے ۔
آج سے قریب اک ہزار سال پہلے مشہور صوفی ’’ عبد الكريم بن هوازن القشيري (المتوفى: 465هـ) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا تھا :
مشکل جمع مشکل =بلائے عظیمہ ، مصیبت کبیرہ
جب ایک مخلوق اپنے جیسی دوسری مخلوق سے استعانت کرے ،تو یقینی ہے کہ مراد سے مزید فاصلے پیدا ہوں ۔اور تصور کرو کیا صورت حال ہو جب ایک مشکل میں دہائی دینے والا ، اپنے جیسے دوسرے محتاجی کی دہائی دینے والے کو مدد کیلئے پکارے ؟

إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ (194)
إذا قرنت الضرورة بالضرورة تضاعف البلاء، وترادف العناء فالمخلوق إذا استعان بمخلوق مثله ازداد بعد مراده عن النّجح. وكيف تشكو لمن هو ذو شكاية؟! هيهات! إن ذلك خطأ من الظن، وباطل من الحسبان ‘‘ انتہی
پھر تو سیلاب زدگان کی مدد کے لئے چندہ بھی نہ مانگا جائے وہ کیوں مانگتے ہو۔اورپھر یہاں جو بات ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ ًکسی قسم کی مدد میں ہمیشہ اللہ پر نگا ہ ہونی چاہیے کہ جو کچھ ہوتا ہے اس کے اذن سے ہوتا ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
کچھ لوگ سورت اعراف کی آیت نمبر ١۹۴ کو دلیل بناتے ہیں کہ من دون اللہ سے فقط بت ہی نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (194) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ بھی تمہاری مثل بندے ہیں تو ثابت ہوا یہاں فقط بت نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں۔
جوابا عرض ہے کہ یہاں عباد امثالکم سے بت ہی مراد ہیں اور رہ گئی بات ان کو عباد کہنے کی تو ان کو عباد مخلوق مملوک کے معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ بھی تمہاری طرح مخلوق ہیں پھر اس سے اگلی آیت بھی اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ یہاں بت ہی مراد ہیں۔اللہ فرماتا ہے أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (195)اس آیت میں کہا گیا کہ کیا ان کے ہاتھ ہیں ؟ِ کیا ان کے پاوں ہیں یا ان کی آنکھیںِ ہیںِ؟یعنی ان سے ان اشیا کی نفی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ جس طرح تم مخلوق ہو وہ بھی مخلوق ہیں مملوک ہیں بلکہ وہ تو تم سے بھی کم تر ہیں نہ ان کی آنکھیں ہیں نہ ہاتھ۔
تفسیر خازن میں ہے
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ يعني أن الأصنام التي يعبدها هؤلاء المشركون إنما هي مملوكة لله أمثالهم
قاضی بیضاوی فرماتے ہیں
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة. عِبادٌ أَمْثالُكُمْ من حيث إنها مملوكة مسخرة.(تفسیر بیضاوی)
تفسر قرطبی میں ہے
(إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ) حَاجَّهُمْ فِي عِبَادَةِ الْأَصْنَامِ." تَدْعُونَ" تَعْبُدُونَ. وَقِيلَ: تَدْعُونَهَا آلِهَةً." مِنْ دُونِ اللَّهِ" أَيْ مِنْ غَيْرِ اللَّهِ. وَسُمِّيَتِ الْأَوْثَانُ عباد الأنها مَمْلُوكَةٌ لِلَّهِ مُسَخَّرَةٌ. الْحَسَنُ: الْمَعْنَى أَنَّ الْأَصْنَامَ مخلوقة أمثالكم.
تفسیر مدراک میں ہے
{إِنَّ الذين تَدْعُونَ مِن دُونِ الله} أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة {عباد أمثالكم} أى مخلقون مملوكون أمثالكم
ان تمام تفاسیر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں بت مراد ہیں اور ان کو عباد مملوک ہونے کی حثیت سے کہا گیا ہے ۔
محترم -

ذرا غور کرکے بتائیں کہ کیا اس آیت سے بھی مراد "بت" ہیں ؟؟- کیا بت زندہ یا مردوں کی فہرست میں آتے ہیں ؟؟ اور کیا ان کا بھی تعلق شعور یا لا شعور سے ہوتا ہے ؟؟

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ -أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢٠-٢١
اور جنہیں (یہ مشرک) الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں--وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں شعور نہیں رکھتے کہ کب ( زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے-

نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سمیت تمام انبیاء کا مقصد کیا صرف یہ تھا کہ لوگوں کو صرف بتوں کی عبادت سے روکا جائے؟؟ - لیکن لوگ صالحین کی عبادت شوق سے کرتے رہیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ؟؟ (نعوز باللہ )
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
محترم -

ذرا غور کرکے بتائیں کہ کیا اس آیت سے بھی مراد "بت" ہیں ؟؟- کیا بت زندہ یا مردوں کی فہرست میں آتے ہیں ؟؟ اور کیا ان کا بھی تعلق شعور یا لا شعور سے ہوتا ہے ؟؟

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ -أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢٠-٢١
اور جنہیں (یہ مشرک) الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں--وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں شعور نہیں رکھتے کہ کب ( زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے-

نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سمیت تمام انبیاء کا مقصد کیا صرف یہ تھا کہ لوگوں کو صرف بتوں کی عبادت سے روکا جائے؟؟ - لیکن لوگ صالحین کی عبادت شوق سے کرتے رہیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ؟؟ (نعوز باللہ )
جناب یہاں زندہ یا مردہ کی بات نہیں ہورہی بلکہ یہاں بات یہ ہورہی کہ وہ بھی مخلوق ہیں اور تم بھی مخلوق ۔باقی نعوزباللہ کون کہتا ہے کہ صالحین کی عبادت کی جائے دیکھیں جب عبادت کی نفی آئے تب تو اس میں انبیا و اولیا بھی شامل ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں مگر دوسری طرف انکو ان آیات کا مصداق بنانا جن میں اختیارات کی نفی ہے یا جو آیت آپ نے لکھی ہے یہ غلط ہے۔اور حضرت عیسی نے تو خود نسبت مجازی کرتے ہوئے کہا کہ میں تخلیق کرتا ہوں مٹی سے پرندہ ۔اب ان کو من دون اللہ کا مصداق بنانا یہ غلط ہے۔اور یہ جو آیت آپ نے پیش کی اس سے مراد بھی بت ہیں تفاسیر اس کی گواہ ہیں باقی اگر آپ نے من دون اللہ کے حوالے سے بھث کرنی ہے تو الگ تھریڈ بنائے یہاں صرف اس آیت کے متعلق بحث ہو گی
 
Top