• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عباد امثالکم سے کون مراد ہیں؟

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
الحمد اللہ اللہ نے ایک دفعہ پھر یقین کو مظبوطی دی اور آپ لوگ اپنی سابقہ روٹین پر واپس آگئے ۔رہ گئی یہ بات
جتنی عقلی دلائل دی هیں خود ان دلائل کا رد بهی کردیا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنه والے واقعہ سے ۔
یہ وہ دلیل هے جو هم دیتے هیں کے اس وقت بهی اسلاف کا عمل یہی تها کے انهوں نے قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جاکر امت کیلئے طلب نہ کرتے هوئے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعاء کروائی ۔
اس فرق کا تعلق اسلام کے بنیادی عقیدہ سے هے ۔
تو جناب اس قطع نظر میں نے عقلی دلیل دی یا نقلی فی الحال عرض یہ ہے کہ جب اللہ نے فرمایا کہ کون ہے جو مصیبت میں پڑے شخص کی پکار سنے ۔تو اللہ ایک کی پکار سنتا ہے پھر کیوں لوگ حضرت ابن عباس کے پاس گئے ؟کیا اللہ نے کسی اور کی سننی نہیں تھی؟یہاں یہ گفتگو نہیں کہ زندہ کا وسیلہ جائز ہے یاوصال شدہ کا بحث یہ ہے کہ جب اللہ ہر ایک کی سنتا ہے تو لوگ کیوں ابن عباس کے پاس گئے ؟؟کیا اللہ کو واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت ہے ؟کیا یہ اللہ کو محتاج کرنا نہیں کہ وہ صرف ابن عباس کی سنتا ہے اور کسی کی ؟اب جس کی کڑاھی میں ابال آئے اسے یہ چاہییے کہ میری دونوں پوسٹوں کا مکمل جواب دے باقی جو بات شروع کرتا ہے اسے مکمل بھی کیا کرے۔یہ کیا یاک بات کر کے بھاگ جاتا ہے باقی اس کی جگہ ادھر ادھر کی پوسٹیں لگا کے تھریڈ کا مقصد فوت کر دیتے ہیں۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
کیا "من دون اللہ " سے مرادصرف بُت ہیں؟

إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَٱدْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا۟ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ ﴿194﴾

وَجَعَلُوا۟ لِلَّهِ شُرَكَآءَ ٱلْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا۟ لَهُۥ بَنِينَ وَبَنَٰتٍۭ بِغَيْرِ عِلْمٍۢ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿100﴾
قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍۢ وَمَا لَهُۥ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍۢ ﴿22﴾
ٱتَّخَذُوٓا۟ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَٰنَهُمْ أَرْبَابًۭا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوٓا۟ إِلَٰهًۭا وَٰحِدًۭا ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿31﴾
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ ٱللَّهُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحُكْمَ وَٱلنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا۟ عِبَادًۭا لِّى مِن دُونِ ٱللَّهِ
قُلْ يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ تَعَالَوْا۟ إِلَىٰ كَلِمَةٍۢ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا ٱللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِۦ شَيْا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًۭا مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۚ
إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ إِلَّآ إِنَٰثًۭا

کتاب کلمہ گو مشرک از مبشر احمد ربانی سے اقتباس​
پتہ نہین آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے بار بار اعتراض کو دہراتے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ پہلے پورا تھریڈ پڑھا لیلا کریں پھر اعتراض کیا کریں۔پہلی بات تو یہ موضوع ہے ہی نہیں کہ من دون اللہ سے مراد کون ہیں ؟ یہاں بحث یہ ہے کہ سورت اعراف کی اس آیت سے مراد کون ہیں۔اور رہ گئی آپ کی پیش کردہ آیات کی بات تو اس کا میں پہلے بھی اسی تھریڈ میں جواب دے چکا ہوں کہ جنبا جہاں عبادت کی نفی ہے وہاں تو انبیا کا غکر ہے مگر ان کو مطلقا من دون اللہ میں شامل کرنا جن سے اختیارات کی نفی ہے یہ غلط ہے اس پر کسی کو اعتراض ہے تو عرض کریں۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
السلام علیکم،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملے گی کہ انہوں نے اللہ کے سوا کسی نبی، ولی، فرشتے کو پکارنے کی ترغیب دی ہو۔ جتنے خود ساختہ ولی لوگوں نے قبر فروشی کا بزنس چلانے کے لیے بنا رکھے ہیں ان کی کیا نسبت ہو سکتی ہے ابو الانبیاء ابراھیم علیہ السلام کے ساتھ، جن کے بارے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو حکم دیا گیا "ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیفًا" ۔ ان کی کیا نسبت ہو سکتی ہے موسٰی علیہ السلام کے ساتھ جن کے بارے فرمایا و کلم اللہ موسیٰ تکلیما، ان کی کیا نسبت ہے ادریس علیہ السلام کے ساتھ جن کے بارے فرمایا و رفعناہ مکانًا علیًا۔
ہمارے یہ بھائی جو صحیح راستے سے ہٹ گئے ہیں کوئی ایک مثال پیش فرما دیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کسی ایک موقع پر ہی سہی ان سے مدد مانگنے کی ترغیب دی ہو۔ چلیں ان کا مقام و مرتبہ اس سے بلند تر تھا لیکن کیا کسی صحابی کو بھی سمجھ میں نہ آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جو مشرکوں کی مخالفت میں لگے ہوئے ہیں، کبھی طائف میں پتھر کھاتے ہیں، کبھی گھر اورشہر سے نکالے جاتے ہیں، کبھی تلوار لے کر بدرو احد اور خندق و حنین میں جنگ کرتے ہیں وہ سارا جھگڑا بس "ذاتی" اور "عطائی" کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے کتنی آسانی ہوجاتی اگر وہ کہتے میرے قریشی بھائیو! تم جن بتوں کو ذاتی اختیارات کا مالک سمجھ رہے ہو ان کے پاس اپنا کچھ نہیں ہے، سب اللہ کے دیے ہوئے اختیار ہیں، وہی اللہ جسے تم بھی زمین و آسمان کا خالق، زندگی موت دینے والا، آسمان سے پانی برسانے والا مانتے ہو اور جب کسی بڑی مصیبت میں پھنس جاتے ہو تب سب معبودوں کو چھوڑ کر اسی کے آگے آہ و زاری کرتے ہو۔ تم بس اتنا کرو کہ ان کے اختیارات کو عطائی مان لو پھر ان کے آگے چڑھاوے چڑھاؤ، مدد کے لیے پکارو کوئی حرج نہ ہوگا آخر یہ بت بھی تو نیک بندوں یا فرشتوں کے ہی ہیں۔
لیکن وہاں تو منظر ہی دوسراہے۔ بس ایک اللہ ہے جس کی وحدانیت کی پکار ہر طرف پکاری جا رہی ہے۔ وہاں تو بلال جیسے سچے ایمان والے ہیں جو "احد احد" کے سوا کچھ ماننے کو تیار نہیں۔ وہاں تو خبر دی جا رہی ہے کہ جو اللہ کے سوا کسی کو پکارتا ہوا مر گیا وہ آگ میں جائے گا۔ وہاں وہ ساری ہستیاں موجود ہیں جن کے ادنٰی کے مقابلے میں امت کے سارے ولی جمع ہو جائیں تو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن وہاں کوئی "ذاتی" اور "عطائی" کا فلسفہ بگھار کر ان کی عبادت کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ دوسروں کا ذکر ہی چھوڑیے، ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں کیسی کیسی مصیبتیں پیش نہ آئی تھیں ان میں سے کسی ایک نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر دہائی نہ دی۔
اس سیدھے سادھے مسئلے میں جو الجھاؤ پیدا کیا جاتا ہے اسے علمی اشکال نہ سمجھیے یہ کاروباری مفاد کا معاملہ ہے جس کا شکار بھولے بھالے مخلص مسلمان ہو جاتے ہیں۔
والسلام علیکم
جناب زیادہ ہی گفتگو کا شوق ہے تو الگ تھریڈ کا آغاز کریں وہ بھی پورا کر دوں گا۔باقی ادھر ادھر کی باتوں کی بجائے موضوع کے متعلق بات کرو
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
پتہ نہین آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے بار بار اعتراض کو دہراتے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ پہلے پورا تھریڈ پڑھا لیلا کریں پھر اعتراض کیا کریں۔پہلی بات تو یہ موضوع ہے ہی نہیں کہ من دون اللہ سے مراد کون ہیں ؟ یہاں بحث یہ ہے کہ سورت اعراف کی اس آیت سے مراد کون ہیں۔اور رہ گئی آپ کی پیش کردہ آیات کی بات تو اس کا میں پہلے بھی اسی تھریڈ میں جواب دے چکا ہوں کہ جنبا جہاں عبادت کی نفی ہے وہاں تو انبیا کا غکر ہے مگر ان کو مطلقا من دون اللہ میں شامل کرنا جن سے اختیارات کی نفی ہے یہ غلط ہے اس پر کسی کو اعتراض ہے تو عرض کریں۔
آپ پھر صرف ایک آیت کو کیوں دیکھ رہے ہیں، باقی آیات کو بھی مدنظر رکھئے نہ، چلیں آپ کے بقول پہلی پوسٹ میں موجود جو آیت ہے اُس سے مراد بت ہیں تو کیا شرک صرف بتوں کی عبادت کرنے سے ہوتا ہے؟ جو کام بت پرست بتوں کی عبادت کے لئے بجا لاتے ہیں، وہی کام نیک لوگوں کی قبروں پر کرنے سے کیا وہ اسلام بن جائے گا؟ ہرگز نہیں، نیز جو بت ہیں ان کو مشرکین نیک لوگوں کی طرف نسبت کر کے پوجتے تھے، ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یہ پانچ اولیاء اللہ جو نوح علیہ السلام کی قوم میں تھے، ان کے بتوں کی پوجا بھی ان نیک لوگوں کی طرف نسبت کر کے پوجتے تھے، اسی طرح لات، منات اور ہبل کے بتوں کو بھی اُن کی طرف نسبت کر کے کہ یہ نیک لوگوں کے مجسمے ہیں مشرکین مکہ پوجتے تھے، اور آج کے قبر پرست بھی نیک لوگوں کی قبروں کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ان میں نیک لوگ مدفون ہیں، اور ہمارا اصل اعتراض اسی بات پر ہے کہ چاہے بت کو محض پتھر سمجھ کر پوجا جائے یا کسی نیک آدمی کی طرف نسبت کر کے، قبر کو چاہے محض قبر سمجھ کر پوجا جائے یا کسی نیک آدمی کے دفن ہونے کی وجہ ہے، ہر صورت میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت شرک اکبر ہے، نجانے اس قدر آسان بات آپ کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی، یا آپ جان بوجھ کر سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے؟

باقی آپ دیگر اختیارات کی بات کر رہے ہیں تو آپ یہ جان لیں کہ ہر وہ کام جو عبادت میں شامل ہوتا ہے اس کو اللہ کے سوا کسی اور کے لئے بجا لانا شرک اکبر ہے، صرف کوئی نیک لوگوں کی قبروں پر سجدہ یا رکوع کرے گا تو وہ شرک میں شمار ہو گا، باقی عبادات جیسے حج، زکوۃ، روزہ، صدقہ، قربانی، نذرونیاز، پکار و ندا، استمداد، استعانت وغیرہ جتنی بھی عبادات ہیں وہ نیک لوگوں کے لئے بجا لانے سے شرک نہ ہو گا تو یہ بہت بڑی جہالت اور گمراہی ہے، اور شیطان کا بہت بڑا ہتھیار جس کے نرغے میں آنے والے کے لئے صرف جہنم ہے۔ جب کشتی بھنور میں پھنسی تو عکرمہ رضی اللہ عنہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، انہوں نے کیا کیا تھا، سجدے یا رکوع نہیں کئے تھے، صرف وہاں کھڑے کھڑے غیراللہ کو پکارا تھا کہ وہ اس مصیبت سے نجات دلائیں، لیکن وہاں ملاح نے بتا دیا کہ سوائے اللہ کے کوئی اس مصیبت سے نجات دینے والا نہیں، تب عکرمہ رضی اللہ عنہ نے جان لیا تھا کہ مافوق الاسباب مدد کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا مشکل میں کسی اور کو مافوق الاسباب پکارنے کا کوئی فائدہ نہیں، اور جب اللہ تعالیٰ اُن کو بچا کر خشکی پر لے آیا تو وہ فورا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور اسلام قبول کر لیا، کلمہ توحید کا اقرار کر لیا، اور صرف اللہ تعالیٰ کو پکارنے والے بن گئے۔ یہ تمام تفصیل لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو کھول کھول کر عقیدہ توحید سمجھا دیا جائے۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
آپ پھر صرف ایک آیت کو کیوں دیکھ رہے ہیں، باقی آیات کو بھی مدنظر رکھئے نہ، چلیں آپ کے بقول پہلی پوسٹ میں موجود جو آیت ہے اُس سے مراد بت ہیں تو کیا شرک صرف بتوں کی عبادت کرنے سے ہوتا ہے؟ جو کام بت پرست بتوں کی عبادت کے لئے بجا لاتے ہیں، وہی کام نیک لوگوں کی قبروں پر کرنے سے کیا وہ اسلام بن جائے گا؟ ہرگز نہیں، نیز جو بت ہیں ان کو مشرکین نیک لوگوں کی طرف نسبت کر کے پوجتے تھے، ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یہ پانچ اولیاء اللہ جو نوح علیہ السلام کی قوم میں تھے، ان کے بتوں کی پوجا بھی ان نیک لوگوں کی طرف نسبت کر کے پوجتے تھے، اسی طرح لات، منات اور ہبل کے بتوں کو بھی اُن کی طرف نسبت کر کے کہ یہ نیک لوگوں کے مجسمے ہیں مشرکین مکہ پوجتے تھے، اور آج کے قبر پرست بھی نیک لوگوں کی قبروں کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ان میں نیک لوگ مدفون ہیں، اور ہمارا اصل اعتراض اسی بات پر ہے کہ چاہے بت کو محض پتھر سمجھ کر پوجا جائے یا کسی نیک آدمی کی طرف نسبت کر کے، قبر کو چاہے محض قبر سمجھ کر پوجا جائے یا کسی نیک آدمی کے دفن ہونے کی وجہ ہے، ہر صورت میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت شرک اکبر ہے، نجانے اس قدر آسان بات آپ کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی، یا آپ جان بوجھ کر سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے؟

باقی آپ دیگر اختیارات کی بات کر رہے ہیں تو آپ یہ جان لیں کہ ہر وہ کام جو عبادت میں شامل ہوتا ہے اس کو اللہ کے سوا کسی اور کے لئے بجا لانا شرک اکبر ہے، صرف کوئی نیک لوگوں کی قبروں پر سجدہ یا رکوع کرے گا تو وہ شرک میں شمار ہو گا، باقی عبادات جیسے حج، زکوۃ، روزہ، صدقہ، قربانی، نذرونیاز، پکار و ندا، استمداد، استعانت وغیرہ جتنی بھی عبادات ہیں وہ نیک لوگوں کے لئے بجا لانے سے شرک نہ ہو گا تو یہ بہت بڑی جہالت اور گمراہی ہے، اور شیطان کا بہت بڑا ہتھیار جس کے نرغے میں آنے والے کے لئے صرف جہنم ہے۔ جب کشتی بھنور میں پھنسی تو عکرمہ رضی اللہ عنہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، انہوں نے کیا کیا تھا، سجدے یا رکوع نہیں کئے تھے، صرف وہاں کھڑے کھڑے غیراللہ کو پکارا تھا کہ وہ اس مصیبت سے نجات دلائیں، لیکن وہاں ملاح نے بتا دیا کہ سوائے اللہ کے کوئی اس مصیبت سے نجات دینے والا نہیں، تب عکرمہ رضی اللہ عنہ نے جان لیا تھا کہ مافوق الاسباب مدد کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا مشکل میں کسی اور کو مافوق الاسباب پکارنے کا کوئی فائدہ نہیں، اور جب اللہ تعالیٰ اُن کو بچا کر خشکی پر لے آیا تو وہ فورا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور اسلام قبول کر لیا، کلمہ توحید کا اقرار کر لیا، اور صرف اللہ تعالیٰ کو پکارنے والے بن گئے۔ یہ تمام تفصیل لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو کھول کھول کر عقیدہ توحید سمجھا دیا جائے۔
میں یہ کب کہا ہے کسی کی عبادت جاءز ہے رہ گءی بات عبادت اقسام کی تو مجھے آپ سے اتفا ق ہے سوائے ندا و پکا ر اور استعانت کو عبادت کہنے کے کیوں جو عبادت ہے وہ ہر حال ہے غیر اللہ کے لئے شرک ہے مگر ندا و استمداد نہیں
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
میں یہ کب کہا ہے کسی کی عبادت جاءز ہے رہ گءی بات عبادت اقسام کی تو مجھے آپ سے اتفا ق ہے سوائے ندا و پکا ر اور استعانت کو عبادت کہنے کے کیوں جو عبادت ہے وہ ہر حال ہے غیر اللہ کے لئے شرک ہے مگر ندا و استمداد نہیں
تو کیا آپ ندا و استمداد کو عبادت میں نہیں سمجھتے، کیا پکارنا اور مافوق الاسباب مشکلات حل کرنے کے لئے مدد طلب کرنا عبادت میں شامل نہیں ہے، کیا یہ دونوں کام ایسی ہستی کے لئے نہیں کرنا چاہئے جو ان پر قادر ہو؟ آپ سے ایک سادہ سا سوال ہے کہ اگر کوئی بیچ سمندر کے طوفان میں پھنس جائے، اور وہیں سے کسی فوت شدہ نیک انسان کو پکارنا شروع کر دے کہ وہ آ کر اس کو بچا لے تو یہ شرک اکبر ہو گا یا نہیں؟ میرے نزدیک تو یہ شرک اکبر ہے کیونکہ فوت شدہ نیک انسان مدد کرنے پر قادر نہیں اور نہ ہی اس کے پاس کوئی اختیار ہے، ایسے موقع پر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہی پکارنا ہے۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
حضرت غیرا للہ کو پکارنا مدد کے وسطے یہ حرام و ناجائز تو ہو سکتا ہے مگر شرک یا عبادت نہیں کیونکہ شرک یا عبادت ہر حال میں شرک یا عبادت ہی ہیں چاہے زندہ کے لئے ہو یا فوت شدہ کے لئے۔اتنا تو آپ بھی مانتے ہیں کے تحت الاسباب مدد جائز ہے تو کیا کسی زندہ کی عبادت جائز ہے؟اور رہ گیا کسی فوت شدہ کو پکارنا تو یہ غلط ہو سکتا ہے شرک نہیں۔باقی آپ کو کیسے پتہ کہ وہ مددکرنے کی طاقت نہیں رکھتے؟؟قرآن کی کوئی ایسی آیت پیش کریں جس میں اللہ نے کہا ہو کہ بعد از وصال کسی کو پکارنا شرک ہے یا یہ عبادت ہے یا وصال کے بعد کسی کو طاقت نہیں رہتی کچھ کرنے کی ۔میں پہلے بھی کہا تھا کہ استمداد ارواح کرتی ہیں؟اور کرواتا اللہ ہے۔یہ چیز شرک تو اس وقت ہوتی جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی طاقت سے مدد کرتے ہیں جبکہ مدد اللہ کی ہی ہوتی ہے ظاہر جس سے مرضی وہ کردے۔اور یہ پکار مجازی ہوتی ہے حقیقی نہیں۔حقیقت میں وسیلہ مراد ہوتا ہے۔جیسے جب آپ پانی پیئو تو پیاس بھجانے کی تاثیر ہوتی تو اللہ کی طرف سے ہے مگر ظاہر پانی سے ہوتی ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حضرت غیرا للہ کو پکارنا مدد کے وسطے یہ حرام و ناجائز تو ہو سکتا ہے مگر شرک یا عبادت نہیں کیونکہ شرک یا عبادت ہر حال میں شرک یا عبادت ہی ہیں چاہے زندہ کے لئے ہو یا فوت شدہ کے لئے۔اتنا تو آپ بھی مانتے ہیں کے تحت الاسباب مدد جائز ہے تو کیا کسی زندہ کی عبادت جائز ہے؟اور رہ گیا کسی فوت شدہ کو پکارنا تو یہ غلط ہو سکتا ہے شرک نہیں۔باقی آپ کو کیسے پتہ کہ وہ مددکرنے کی طاقت نہیں رکھتے؟؟قرآن کی کوئی ایسی آیت پیش کریں جس میں اللہ نے کہا ہو کہ بعد از وصال کسی کو پکارنا شرک ہے یا یہ عبادت ہے یا وصال کے بعد کسی کو طاقت نہیں رہتی کچھ کرنے کی ۔میں پہلے بھی کہا تھا کہ استمداد ارواح کرتی ہیں؟اور کرواتا اللہ ہے۔یہ چیز شرک تو اس وقت ہوتی جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی طاقت سے مدد کرتے ہیں جبکہ مدد اللہ کی ہی ہوتی ہے ظاہر جس سے مرضی وہ کردے۔اور یہ پکار مجازی ہوتی ہے حقیقی نہیں۔حقیقت میں وسیلہ مراد ہوتا ہے۔جیسے جب آپ پانی پیئو تو پیاس بھجانے کی تاثیر ہوتی تو اللہ کی طرف سے ہے مگر ظاہر پانی سے ہوتی ہے
لا حول ولا قوۃ الا باللہ، یہی تو وہ گمراہی ہے جو آپ لوگوں میں سراعت کر چکی ہے کہ اکیلے اللہ تعالیٰ معبودِ برحق کے جو اختیارات ہیں وہ غیراللہ میں ذاتی نہیں عطائی ہیں، اس عطائی کے فلسفے سے شیطان نے آپ کو خوب گمراہ کیا ہے۔ اور اسی عطائی کے فلسفے پر اوپر ایک بھائی عبداللہ حیدر صاحب نے زبردست تبصرہ کیا ہے، آپ ایک بار دوبارہ اُن کا تبصرہ غور سے پڑھ لیں، آپ کہتے ہیں کہ غیراللہ کو پکارنا ناجائز حرام اور غلط ہو سکتا ہے لیکن شرک نہیں، جناب غیراللہ کو پکارنا ناجائز، حرام اور غلط ہے ہی شرک کی وجہ سے کہ ایسا کرنے سے انسان شرک اکبر کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
آپ قرآن مجید کی آیات یہاں دیکھیں:
 
Top