دامانوی صاحب فرما رہے ہیں کے قبر میں میّت کو بٹھایا جاتا ہے اور اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں. اب جس کو یہ دنیاوی قبر ملی ہی نہ ہو ؟ اسے کس قبر میں بٹھایا جائے گا ؟ اسکا جسم ہی بلکل فنا ہو گیا ہو تو اسکو عذاب کس جسم پر دیا جائے گا ؟ فرعون کی لاش تو عبرت کے لئے دنیا میں ہی ہے اسے تو دفنایا بھی نہیں گیا تو اسے کونسی قبر میں بٹھایا گیا ہو گا ؟ ور اس کی روح کونسے جسم میں واپس لوٹی ؟ جب کے قرآن تو کہتا ہے کے
آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام ﻻئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو (سوره غافر : 46)
یعنی انھیں مسلسل صبح شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے! جبکے فرعون کی لاش تو عبرت کے لئے ہمارے سامنے (اسی دنیا میں) موجود ہے، تو جواب دیجئے کے یہ کیسی برزخ ہے ؟ یہ کیسی قبر ہے ؟ یہ کیسی آخرت ہے ؟ آپ مزید لکھتے ہیں کے "قبر کے مسلے کا تعلّق آخرت کے ساتھ ہے" آپکے عقیدے کے مطابق یہ زمینی قبر ہی برزخ اور آخرت ہے، آخرت کا تعلّق اس دنیا کے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے؟ دنیا والوں کے بناے ہوے قبرستان آخرت میں ہیں یا عالم دنیا میں ؟ آپ مزید لکھتے ہیں کے "سوال و جواب کے وقت روح کو بھی قبر کی طرف لوٹایا جاتا ہے " آئیے! اس سلسلے میں قرآن سے رجوع کریں.
یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے (سورة المؤمنون:99) کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک (سورة المؤمنون:100)
فرشتے روح کو قبض کر کے الله کے پاس لے جاتے ہیں تو روح الله سے مطالبہ کرتی ہے کے "اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں" تو مالک جواب دیتا ہے کے نہیں، ہر گز ایسا نہیں ہو گا، اور مالک تو فرماتا ہے کے روحیں قیامت والے دن ہی جسموں سے ملیں گی
اور جب روحیں (جسموں سے) ملا دی جائیں گی (سورة التكوير:7)
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1276
علی بن عبداللہ، سفیان، عمرو، جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کی قبر کے پاس پہنچے وہ قبر میں دفن کیا جا چکا تھا، آپ نے اس کو نکالنے کا حکم دیا چنانچہ وہ نکالا گیا۔ آپ نے اس کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھا اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیا اور اپنی قمیص اس کو پہنادی۔ اللہ زیادہ جانتا ہے اور اس نے ابن عباس کو قمیص پہنائی تھی، سفیان کا بیان ہے ابوہریرہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو قمیصیں تھیں تو آپ سے عبداللہ کے بیٹے نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ کو اپنی قمیص عنایت کر دیجئے جو آپ کے جسم کے ساتھ متصل ہے، سفیان نے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کو اپنی قمیص اس صلہ میں پہنائی جو اس نے (عباس رضی اللہ عنہ) کے ساتھ کیا تھا۔
عبداللہ بن ابی کو دفنایا جا چکا تھا،اگر یہی قبر برزخ ہے تو عبداللہ بن ابی کو دفنانے کے بعد کیوں نکالا گیا ؟ کیا معاذالله! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برزخ میں مداخلت کی ؟ ہرگز نہیں، بلکے انھیں اس بات کا بھرپور علم تھا کے یہ زمینی قبریں کچھ نہیں، سواے مردہ دفن کرنے کے، اوریہ زمینی قبر بھی کسی کسی کو ہی ملتی ہے.
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1278
علی بن عبداللہ، سعید بن عامر، شعبہ، ابن ابی نجیح، عطاء، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میرے والد ایک دوسرے آدمی کے ساتھ دفن کئے گئے، تو میری طبیعت کو اچھا نہ لگا تو میں نے انہیں وہاں سے نکال کر ایک دوسری قبر میں دفن کردیا۔
جابر رضی اللہ عنہ نے تو ٦ مہینے کے بعد اپنے والد کو کسی دوسری قبر میں منتقل کیا، بتاے یہ کیسی برزخ ہی ؟ یہ کیسی آخرت ہی ؟ آپکے عقیدے کے مطابق تو یہی زمینی قبریں ہی برزخ ہیں تو کیا معاذالله! جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کی برزخ تبدیل کر دی ؟ اگر یہی زمینی قبریں ہی برزخ ہوتی تو کیا کوئی صحابی اس برزخ میں عمل دخل کر سکتا تھا ؟ ہرگز نہیں، کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ دین کے سمجھنے والے ہیں ؟ کیا آپ صحابہ سے زیادہ دین کے سمجھنے والے ہیں ؟یہاں بخاری کی اس روایت کا ذکر بھی قبل غور ہے کے،
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1305
قتیبہ، لیث، سعید بن ابی سعد، ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنازہ تیار ہوجاتا ہے اور لوگ اس کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ اگر وہ نیک کار ہوتا ہے تو کہتا ہے۔ مجھے جلدی لے چلو، مجھے جلدی لے چلو، اگر وہ نیک کار نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ افسوس تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو انسان کے سوا تمام چیزیں اس کی آواز کو سنتی ہیں۔ اگر اس کو آدمی سن لے تو بیہوش ہوجائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے روح قبر میں لوٹای جاتی ہے یا جب اسکے جنازے کو کاندھوں پر اٹھا کر لے جا رہے ہوتے ہیں ؟ کیونکے اپکا عقیدہ ہے کے سوال و جواب کے وقت روح کو قبر کی طرف جسم میں لوٹایا جاتا ہے، مگر اوپر بیان کردہ حدیث سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کے روح تو پہلے ہی لوٹ چکی ہے، جب اسے کاندھوں پر اٹھا کر لے جا رہے ہوتے ہیں، اب روح کو قبر میں لوٹایا جانا کیا معنی رکھتا ہے؟
اب آپ پر اپکا اپنا قول صادق آتا ہے کے
"اس لئے اسے دنیا کی زندگی پر قیاس کرنا گمراہی ور جہالت ہے کیونکے میّت کی دنیاوی زندگی ختم ہو چکی ہے ور اب وہ آخرت کے مراحل سے گزر رہی ہے"