- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
(۲)۔ دوسری حدیث: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں اور وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد (ﷺ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول (ﷺ) ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبز و شادابی سے بھر دیا جاتا ہے۔ پھر سیدنا قتادہ رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف پلٹے یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بقیہ حدیث بیان کی۔ (رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا: اور منافق یا کافر سے کہا جاتا ہے کہ تو اس شخص (محمد ﷺ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ میں وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے۔ پس اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ قرآن پڑھا (اور اس سے رہنمائی حاصل کی) یہ کہہ کر اُسے لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز۔ باب ما جاء فی عذاب القبر۔ صحیح مسلم کتاب الجنۃ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا قول صحیح مسلم میں ہے)۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اسے قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور اس سے سوال و جواب ہوتاہے۔ مومن کو قبر میں راحت و آرام ملتا ہے جبکہ منافق و کافر کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ اس حدیث میںیہ بھی ہے کہ میت دفن کر کے واپس جانے والے ساتھیوں کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ میت یہ جان لے کہ جس اہل و عیال کے لئے اس نے آخرت کو فراموش کر رکھا تھا آج وہ اسے تنہا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور قبر میں ایمان اور نیک اعمال کے سوا کوئی چیز اسے نجات نہیں دلا سکتی۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس حصہ کو خلاف قرآن قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ حدیث خلاف قرآن نہیں بلکہ ایک استثنائی صورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے مردار کی مثال پچھلے اوراق میں بیان کی تھی۔ نیز قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے کہ ’’آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ یعنی مردوں کو سنانا آپ کے اختیار میں نہیں ہے لیکن جوتوں کی چاپ مردوں کو اللہ تعالیٰ سناتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
ان اللّٰہ یسمع من یشآء
بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا دے۔
گویا اللہ تعالیٰ اگر کسی مردے کو کچھ سنانا چاہے تو وہ اس بات پر قادر ہے جیسا کہ وہ مردوں کو دفن کے بعد جوتوں کی آواز سناتا ہے لہٰذا اس حدیث پر منکرین کا اعتراض سرے سے غلط ہے۔ میت کے جوتیوں کی آواز سننے کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے اور یہ صحیح ترین احادیث ہیں لہٰذا ان احادیث کا انکار گویا نبی ﷺ کا انکار ہے۔
’’بے شک جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں اور وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد (ﷺ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول (ﷺ) ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبز و شادابی سے بھر دیا جاتا ہے۔ پھر سیدنا قتادہ رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف پلٹے یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بقیہ حدیث بیان کی۔ (رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا: اور منافق یا کافر سے کہا جاتا ہے کہ تو اس شخص (محمد ﷺ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ میں وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے۔ پس اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ قرآن پڑھا (اور اس سے رہنمائی حاصل کی) یہ کہہ کر اُسے لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز۔ باب ما جاء فی عذاب القبر۔ صحیح مسلم کتاب الجنۃ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا قول صحیح مسلم میں ہے)۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اسے قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور اس سے سوال و جواب ہوتاہے۔ مومن کو قبر میں راحت و آرام ملتا ہے جبکہ منافق و کافر کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ اس حدیث میںیہ بھی ہے کہ میت دفن کر کے واپس جانے والے ساتھیوں کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ میت یہ جان لے کہ جس اہل و عیال کے لئے اس نے آخرت کو فراموش کر رکھا تھا آج وہ اسے تنہا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور قبر میں ایمان اور نیک اعمال کے سوا کوئی چیز اسے نجات نہیں دلا سکتی۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس حصہ کو خلاف قرآن قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ حدیث خلاف قرآن نہیں بلکہ ایک استثنائی صورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے مردار کی مثال پچھلے اوراق میں بیان کی تھی۔ نیز قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے کہ ’’آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ یعنی مردوں کو سنانا آپ کے اختیار میں نہیں ہے لیکن جوتوں کی چاپ مردوں کو اللہ تعالیٰ سناتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
ان اللّٰہ یسمع من یشآء
بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا دے۔
گویا اللہ تعالیٰ اگر کسی مردے کو کچھ سنانا چاہے تو وہ اس بات پر قادر ہے جیسا کہ وہ مردوں کو دفن کے بعد جوتوں کی آواز سناتا ہے لہٰذا اس حدیث پر منکرین کا اعتراض سرے سے غلط ہے۔ میت کے جوتیوں کی آواز سننے کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے اور یہ صحیح ترین احادیث ہیں لہٰذا ان احادیث کا انکار گویا نبی ﷺ کا انکار ہے۔