• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۲)۔ دوسری حدیث: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’بے شک جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں اور وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد (ﷺ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول (ﷺ) ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبز و شادابی سے بھر دیا جاتا ہے۔ پھر سیدنا قتادہ رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف پلٹے یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بقیہ حدیث بیان کی۔ (رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا: اور منافق یا کافر سے کہا جاتا ہے کہ تو اس شخص (محمد ﷺ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ میں وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے۔ پس اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ قرآن پڑھا (اور اس سے رہنمائی حاصل کی) یہ کہہ کر اُسے لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز۔ باب ما جاء فی عذاب القبر۔ صحیح مسلم کتاب الجنۃ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا قول صحیح مسلم میں ہے)۔

اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اسے قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور اس سے سوال و جواب ہوتاہے۔ مومن کو قبر میں راحت و آرام ملتا ہے جبکہ منافق و کافر کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ اس حدیث میںیہ بھی ہے کہ میت دفن کر کے واپس جانے والے ساتھیوں کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ میت یہ جان لے کہ جس اہل و عیال کے لئے اس نے آخرت کو فراموش کر رکھا تھا آج وہ اسے تنہا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور قبر میں ایمان اور نیک اعمال کے سوا کوئی چیز اسے نجات نہیں دلا سکتی۔

بعض حضرات نے حدیث کے اس حصہ کو خلاف قرآن قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ حدیث خلاف قرآن نہیں بلکہ ایک استثنائی صورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے مردار کی مثال پچھلے اوراق میں بیان کی تھی۔ نیز قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے کہ ’’آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ یعنی مردوں کو سنانا آپ کے اختیار میں نہیں ہے لیکن جوتوں کی چاپ مردوں کو اللہ تعالیٰ سناتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
ان اللّٰہ یسمع من یشآء
بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا دے۔

گویا اللہ تعالیٰ اگر کسی مردے کو کچھ سنانا چاہے تو وہ اس بات پر قادر ہے جیسا کہ وہ مردوں کو دفن کے بعد جوتوں کی آواز سناتا ہے لہٰذا اس حدیث پر منکرین کا اعتراض سرے سے غلط ہے۔ میت کے جوتیوں کی آواز سننے کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے اور یہ صحیح ترین احادیث ہیں لہٰذا ان احادیث کا انکار گویا نبی ﷺ کا انکار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عثمانی فرقہ کے بانی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے بھی اس حدیث کو صحیح مانا ہے لیکن اس کی تاویل کی ہے۔ اس کا پہلے یہ کہنا تھا کہ اس حدیث میں حقیقت نہیں بلکہ مجاز بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جوتیوں کی آواز سنی جا سکتی ہے کہ میت کے پاس فرشتے آجاتے ہیں اور یہ تأویل اس نے بعض دیوبندی علماء کی کتابوں سے اخذ کی ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اس حدیث کی دوسری تأویل یہ پیش کی کہ میت فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتی ہے۔ لیکن (اول) تو اس حدیث کا سیاق و سباق ہی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ (دوم) اس کے بعد والی صحیح بخاری کی حدیث اس حدیث کی مزید وضاحت و تشریح بیان کرتی ہے۔ اور (سوم) صحیح مسلم کی مختصر حدیث اس بات کی تأویل کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان المیت اذا وضع فی قبرہ انہ لیسمع خفق نعالھم اذا انصرفوا
’’بے شک جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے جبکہ وہ (اسے دفنا کر) واپس لوٹتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الجنتہ)۔
اس حدیث میں فرشتوں کے آنے کا ذکر ہی نہیں ہے اور صرف دفن کر کے واپس لوٹنے والوں کا ذکر ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے وہ باطل مفروضہ پاش پاش ہو جاتا ہے مگر افسوس کہ جو لوگ قرآن و حدیث کے بجائے ڈاکٹر موصوف پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ ڈاکٹر موصوف کی اس باطل تأویل کو درست مانتے ہیں اور صحیح حدیث کو رَدّ کر دیتے ہیں۔ قل بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کنتم مومنین۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حدیث قرع نعال میں ڈاکٹر عثمانی کی تحریف

ڈاکٹر موصوف نے بخاری کی اس حدیث ’’اَلْعَبْدُ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَ تُوُلِّیَ وَ ذَھَبَ اَصْحَابُہٗ حَتّٰی اِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ فَاَقْعَدَاہُ‘‘جب بندہ قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر اُن کی (فرشتوں کی) جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے آجاتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں … (ایمان خالص نمبر ۲ص:۲۴)۔ اس ترجمہ سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ گویا کسی گزرے ہوئے شخص کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ معاملہ ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے۔ موصوف نے اس حدیث میں زبردست خیانت کی ہے اور مغالطہ دیا ہے۔ حالانکہ اس حدیث کا یہ ترجمہ بالکل نہیں ہے۔ اور اس حدیث کے کئی طرق بھی موجود ہیں جس سے اس حدیث کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس حدیث کا آسان سا ترجمہ اس طرح ہے:

’’بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ پھیرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ دو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں اور اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں‘‘۔

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقال ابن التین انہ کرر اللفظ والمعنی واحد
ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ الفاظ (تولی اور ذھب) مکرر آئے ہیں اور دونوں الفاظ کا معنی ایک ہی ہے۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد۳ص:۱۶۱)۔
آگے فرمایا:
و سیأتی فی روایۃ عیاش بلفظ و تولی عنہ اصحابہ وھو موجود فی جمیع الروایات عند مسلم وغیرہ
اور عنقریب جناب عیاش (ابن الولید) رحمہ اللہ کی روایت وتولی عنہ اصحابہ کے الفاظ کے ساتھ آگے آرہی ہے اور یہ الفاظ (وتولی عنہ اصحابہ) (جو اوپر والی احادیث کے مفہوم کو صحیح طور پر متعین کرتے ہیں)۔ صحیح مسلم وغیرہ کی تمام روایات میں موجود ہیں۔ (ایضاً:۳/۱۶۱)۔

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے جس روایت کی نشاندہی کی ہے اس کے الفاظ یوں ہیں:
ان العبد اذا وضع فی قبرہ و تولی عنہ اصحابہ و انہ لیسمع قرع نعالھم اتاہ ملکان فیقعد انہ (بخاری کتاب الجنائز باب جاء فی عذاب القبر:۱۳۷۴و مسلم:۲۸۷۰)
بے شک بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں تو ابھی وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں اور اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس واضح تفصیل کے باوجود ڈاکٹر موصوف نے اس حدیث کا جو عجیب و غریب ترجمہ کیا ہے وہ ان کے الفاظ میں دوبارہ ملاحظہ فرمائیں:

’’قتادہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ بندہ جب قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر ان کی (فرشتوں کی) جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے آجاتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں‘‘۔ (ایمان خالص نمبر۲ص:۲۶)۔

اس عجیب و غریب ترجمہ کو ملاحظہ کریں۔ اس ترجمہ سے ایسا لگتا ہے کہ گویا نبی ﷺ نے کسی ایک بندے کا ذکر کیا تھا کہ جسے قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کے ساتھ یہ تمام حالات پیش آئے۔ حالانکہ یہ واقعہ یوں نہیں ہے بلکہ اس حدیث میں ایک عام قانون بیان کیا جارہا ہے کہ ’’بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے۔ آگے کے الفاظ ’’وَتُوُلِّیَ وَ ذَھَبَ اَصْحَابُہٗ‘‘ کا ترجمہ جو موصوف نے کیا ہے وہ ایک شاہکار ہے، لکھتے ہیں: ’’اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے‘‘۔ حالانکہ تولی کا یہ ترجمہ انتہائی غلط اور سخت قسم کی دھاندلی ہے۔ اور بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کہ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں اور ان کو مکرر لایا گیا ہے۔ اور پھر اس کی وضاحت عیاش بن الولید کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’وَتَوَلّٰی عَنْہُ اَصْحَابُہٗ‘‘ اور اس کے ساتھ اس سے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں۔

قرآن مجید کی بعض آیات کی وضاحت جس طرح دوسری آیات کرتی ہیں یعنی قرآن اپنی تفسیر خود کرتا ہے، بالکل اسی طرح احادیث بھی ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ اور دوسری حدیث کے پیش نظر اس حدیث کا معنی بالکل واضح ہو جاتا ہے اور موصوف کی تحریف بھی واضح ہوتی ہے۔ اس حدیث میں آگے الفاظ ہیں: حَتّٰی اِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ موصوف نے اس کا ترجمہ کیا ہے: ’’یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر ان کی (فرشتوں کی) جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ فرشتے آجاتے ہیں‘‘۔ یہاں بھی موصوف نے زبردست خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور ھم (جمع) کی ضمیر کو ملکان (تثنیہ) کی طرف پھیر دیا جو کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ ان الفاظ کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے: ’’یہاں تک کہ وہ ابھی ان (ساتھیوں) کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ دو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں۔ یعنی ھم کی ضمیر اصحاب کی طرف پلٹے گی کیونکہ فرشتے تو ابھی آئے بھی نہیں تو ضمیر کس طرح ان کی طرف پلٹے گی۔اور اس کی وضاحت بھی صحیح مسلم کی روایت سے ہوتی ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عبد بن حمید کی سند سے ذکر کیا ہے جس کے الفاظ یوں ہیں:
اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَ تَوَلّٰی عَنْہُ اَصْحَابُہٗ اِنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ قَالَ یَأتِیْہِ مَلَکَانِ فیقعد انہ … (مسلم:۲۸۷۰)
’’بے شک بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے منہ پھیر کر جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ نبی ﷺنے فرمایا: اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں‘‘۔

اس حدیث میں اِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ پر جملہ ختم ہو جاتا ہے لہٰذا لامحالہ ھم کی ضمیر اصحاب کی طرف ہی پلٹتی ہے اور آگے قَال یأتیہ ملکان سے نیا جملہ شروع ہوتا ہے جس میں ملائکہ کے آنے کا ذکر ہے۔ یہ روایت شبان ابن عبدالرحمن کے واسطے سے ہے جسے اس نے قتادہ سے روایت کیا ہے۔ اس حدیث میں اوپر کا جملہ اس بات پر ختم ہو گیا تھا کہ میت ان (ساتھیوں) کی جوتیوں کی چاپ سنتی ہے اور اس کے بعد والا جملہ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس (میت) کے پاس دو فرشتے آتے ہیں۔ پھر قبر میں فرشتے اصلی شکل و صورت میں آتے ہیں، انسانوں کی طرح جوتے پہن کر نہیں آتے کہ ان کی جوتیوں کی چاپ سنی جا سکے۔ فافھم۔اور اس طرح کی ایک مزید روایت کی وضاحت بھی امام مسلم رحمہ اللہ نے کی ہے کہ جسے سعید نے قتادہ سے روایت کیا ہے اور ایک اور روایت جو عمرو بن زرارہ کی سند سے ہے اور اس وضاحت سے موصوف کا مفروضہ بالکل پاش پاش ہو جاتا ہے۔ چنانچہ عمرو بن زرارہ رحمہ اللہ کی سند سے جو روایت ہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
اِنَّ الْمَیِّتَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ اِنَّہٗ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِھِمْ اِذَا انْصَرَفُوْا (مسلم:۲۸۷۰)
بے شک جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے جبکہ وہ (اسے دفنا کر) واپس پلٹتے ہیں۔

اس حدیث میں ملائکہ کے آنے کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ صرف دفن کر کے واپس جانے والوں کا ذکر ہے جس سے روز روشن کی طرف واضح ہو گیا کہ میت واپس جانے والے ساتھیوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔ اس حدیث کے بھی بہت سے شواہد موجود ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۳) تیسری حدیث:
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ بنو نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے کہ اچانک آپ ﷺ کا خچر بدکا اور قریب تھا کہ آپ ﷺ کو گرا دے ناگہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں معلوم ہوئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے؟ ایک شخص نے کہا میں (جانتا ہوں)۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کب مرے ہیں؟ وہ بولا شرک کے زمانے میں۔ پس آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان ھذہ الامۃ تبتلی فی قبورھا فلولا ان لا تدا فنوا لدعوت اللّٰہ ان یسمعکم من عذاب القبر الذی اسمع منہ
’’یہ اُمت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے پس اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی قبر کا عذاب سنادے جس طرح میں سنتا ہوں‘‘۔

اس کے بعد آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ ہم نے کہا کہ ہم جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قبرکے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہو۔ ہم نے کہا ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ظاہر اور باطن فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ ہم نے کہا ہم ظاہر اور باطن فتنوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگو‘‘۔ ہم نے کہا: ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الجنۃ، مشکاۃ المصابیح، مسند احمد ۵/۱۹۰، مصنف ابن ابی شیبہ ۳٭۳۷۳)۔

اس حدیث کو سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابوسعید الخدری نے بیان کیا ہے۔ اس واقعہ کو سیدنا جابر رضی اللہ عنہما (مسند احمد ۳/۲۹۶، الصحیحۃ ۱٭۲۴۳) سیدہ اُمّ مبشر r (مسند احمد ۶/۳۶۲، مصنف ابن ابی شیبہ ۳/۳۷۳، صحیح ابن حبان، الصحیحۃ ۳/۴۳۰) اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ (مسند احمد ۳/۲۰۱۔ ۱۰۳۔ ۱۵۳۔ ۱۷۵۔ ۲۸۴۔ ۱۱۱۔ ۱۷۶۔ ۲۷۲۔ النسائی:۱/۲۹۰، صحیح ابن حبان:۷۸۶) بھی بیان کرتے ہیں۔ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے متعدد روایات میں یہ واقعہ مروی ہے۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺبنو نجار کے باغوں میں سے ایک باغ میں داخل ہوئے: فسمع صوتا من قبر فسأل عنہ متی دُفن ھذا فقالوا یارسول اللّٰہ دُفن ھذا فی الجاھلیۃ و أعجبہ ذلک و قال ………… تو آپ نے ایک قبر میں سے عذاب کی آواز سنی تو آپ نے اس شخص کے متعلق پوچھا کہ یہ کب دفن کیا گیا ہے؟۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ یہ دورِ جاہلیت میں دفن ہوا۔ پس آپ ﷺ یہ بات سن کر خوش ہوئے (کہ شکر ہے کہ یہ کوئی مسلمان نہ تھا)۔ اور پھر فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تم مردے دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذاب قبر سنا دے۔ (مسند احمد۳/۱۰۳، ۱۱۴، ۲۰۱۔ سنن النسائی ۲۰۵۸، ابن حبان: ۳۱۲۶۔ اثبات عذاب القبر للبیہقی:۱۰۴۔ و قال الالبانی و شعیب الارنووط و اسنادہ صحیح (مسند للامام احمد مع الموسوعۃ ۱۹/۶۶)۔ و صححہ علیزئی فی عمدۃ المساعی فی تحقیق سنن النسائی:۲۰۶۰)۔ تفصیل ’’الدین الخالص‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔

اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ میت کو اسی ارضی قبر میں عذاب ہوتا ہے اور نبی ﷺ کی یہ تمنا تھی کہ جس طرح آپ ﷺ عذاب قبر کو سنتے ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی اُمت بھی عذاب قبر کو سنے لیکن پھر اس خوف سے کہ لوگ عذاب کو سن کر مردے دفن کرنا چھوڑ دیں گے لہٰذا آپ ﷺ نے یہ دعا نہ فرمائی۔ ظاہر ہے کہ مردے اسی ارضی قبر ہی میں دفن ہوتے ہیں، اسی لئے آپ ﷺ نے اس تمنا کا اظہار فرمایا۔ لیکن ڈاکٹر موصوف نے اس حدیث کے اہم حصہ کو نقل ہی نہیں کیا اور اسے شیر مادر سمجھ کر ڈکار گئے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ’’یہ اُمت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے، پس اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دُعا کرتا کہ وہ تم کو بھی قبر کا عذاب سنا دے جس طرح میں سنتا ہوں‘‘۔ ظاہر ہے کہ ان الفاظ کے نقل کرنے سے موصوف کی تأویل کی قلعی کھل جاتی لہٰذا اسی بنا پر اس نے یہ الفاظ ہی نقل نہیں کئے اور حدیث کے آدھے حصے کا جواب دینے ہی پر اکتفاء کیا۔ نیز سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ وضاحت بھی ہے کہ آپ نے قبر سے عذاب کی آواز سنی اور پھر صحابہ کرام سے پوچھا کہ یہ شخص کب دفن ہوا ہے؟۔ آپ ﷺ نے ھذا اسم اشارہ قریب استعمال کیا اور صحابہ کرام نے بھی جواب میں ھذا کا لفظ ہی استعمال کیا۔ اب عذاب قبر کی اس سے زیادہ وضاحت ممکن نہیں ہے۔ فافہم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۴) چوتھی حدیث:
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی پس اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے عذاب قبر کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
نعم عذاب القبر حق جی ہاں قبر کا عذاب حق ہے۔ ( بخاری:۱۳۷۲، مسند احمد ۶/۱۷۴، سنن النسائی کتاب السھو۔ باب:۶۴۔ ح:۱۳۰۸۔ الصحیحہ:۱۳۷۷)۔

اور دوسری روایت میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مدینہ کی دو بوڑھی عورتیں ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ان اھل القبور یعذبون فی قبورھم۔ بے شک قبر والے اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں۔

پس میں نے ان عورتوں کو جھوٹا قرار دیا اور مجھے یہ بات اچھی نہ لگی کہ میں ان کی بات کو سچ مانوں۔ پھر وہ عورتیں چلی گئیں اور نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے آپ ﷺ سے کہا کہ دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئی تھیں اور میں نے پورا واقعہ بیان کیا۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا:
صدقتا انھم یعذبون عذابا تسمعہ البھائم کلھا۔
’’ان دونوں نے سچ کہا ہے۔بے شک قبر والوں کو (ان کی قبروں میں) عذاب ہوتا ہے جسے تمام چوپائے سنتے ہیں‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پس اس (واقعہ) کے بعد میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی مگر اس میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگی۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من عذاب القبر ۶۳۶۶، مسلم ۱۳۲۱)۔

۱۔ اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ مردوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتا ہے۔

۲۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس عذاب کو تمام چوپائے سنتے ہیں۔ اور اس سلسلہ کی دیگر احادیث بھی موجود ہیں۔ ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں:
یسمع من یلیہ غیر الثقلین (بخاری۱۳۳۸، ۱۳۷۴)۔
(قبر میں میت کو جب لوہے کے گرز سے مارا جاتا ہے تو) اس کے چیخنے چلانے کی آواز کو (قبر کے) قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں سوائے انسان و جنات کے۔

دوسری حدیث میں ہے کہ جب میت چارپائی پر چیختی چلاتی ہے:
یسمع کل شئی الا الانسان و لو سمع الانسان لصعق (بخاری:۱۳۱۶)۔
اس کی آواز کو ہر چیز سنتی ہے لیکن انسان نہیں سن سکتا اور اگر انسان اسے سن لیتا تو بے ہوش ہو جاتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اوپر والی حدیث سے ثابت ہو گیا کہ قبر کے قریب کی تمام چیزیں عذاب قبر کو سنتی ہیں۔ اس حدیث کا اگر یہ مطلب ہوتا کہ عذاب کسی اور مقام پر ہو رہا ہے تو پھر من یلیہ کا کیا مطلب ہو گا؟ لہٰذا یہ حدیث دو ٹوک الفاظ میں عذاب قبر کو ثابت کرتی ہے۔ اور اس کے بعد والی حدیث بھی ثابت کرتی ہے کہ اسی میت کو عذاب ہوتا ہے کیونکہ میت چارپائی پر ہی چیخنے چلانے لگتی ہے۔ (کیا لوگ چارپائی بھی برزخ میں اٹھائے پھرتے ہیں؟) اب اس سے زیادہ عذاب قبر کی وضاحت کس طرح ممکن ہے؟ نیز ان احادیث سے جانوروں اور ہر چیز کے عذاب قبر کی آواز کو سننے کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔ یعنی قبر کے قریب کی ہر چیز عذاب قبر کو سنتی ہے۔

مثال: بلی کی بصارت انسان کی نسبت بہت زیادہ ہے اور وہ اندھیرے میں دیکھ سکتی ہے۔ چوپایوں کے سونگھنے، سننے اور محسوس کرنے کی حس انسان سے کہیں زیادہ ہے۔ لہٰذا وہ عذاب قبر سن سکتے ہیں جیسا کہ آجکل موبائل فون کی ٹرانسمیشن انتہائی زیادہ ہے جو کہ انسانی سماعت سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ٹرانسمیشن انسانی کان تو نہیں سن سکتا لیکن موبائل فون اُس کو سن لیتا ہے اور پھر اُسی ٹرانسمیشن کو انسانی سماعت کے مطابق ڈھال کر ہمیں سنا دیتا ہے۔

اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں: پہلی بات یہ کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی پہلے عذاب قبر کو نہیں مانتی تھیں لیکن جب نبی اکرم ﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا تو وہ فوراً اس پر ایمان لے آئیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے انکار کی وجہ غالباً یہود سے ہر معاملے میں مخالفت بھی تھی۔ لہٰذا وہ سمجھیں کہ اس مسئلہ میں بھی ان سے مخالفت ہو گی لیکن نبی ﷺ نے اس معاملہ میں یہود کی موافقت کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مسند احمد میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ سیدنا سعید بن عمرو بن سعید اُموی بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عورت اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت کیا کرتی تھی۔ اُمّ المؤمنین فرماتی ہیں کہ انہوں نے یہودیہ سے اس کے سوا کوئی نیکی کی بات نہیں پائی کہ اس نے کہا: (اے عائشہ) اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اس کے بعد رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ھل للقبر عذاب قبل یوم القیامۃ کیا قیامت سے قبل قبر میں بھی عذاب ہو گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں … عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہودیہ کا واقعہ سنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہود نے جھوٹ کہا اور اللہ پر بھی جھوٹ بات کہی ہے۔ قیامت کے عذاب کے علاوہ (اس سے قبل) کوئی عذاب نہیں ہے۔ اُمّ المؤمنین فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے کچھ دن بعد جتنا کہ اللہ نے چاہا ایک دن نبی ﷺ نصف النہار کے وقت نکلے اس حال میں کہ آپ ﷺ کپڑا لپیٹے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کی آنکھیں سرخ تھیں اور آپ ﷺ نے بلند آواز سے کہا: ’’اے لوگو! تم پر فتنے سیاہ رات کی طرح سایہ افگن ہوں گے۔ اے لوگو اگر تم ان حقیقتوں کو جان لو کہ جنہیں میں جانتا ہوں تو تمہارا رونا زیادہ ہو جائے اور ہنسنا کم ہو جائے۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگو۔ فان عذاب القبر حق پس بے شک قبر کا عذاب برحق ہے۔ (مسند احمد(۶/۸۱) فقال ابن حجر العسقلانی: ما رواہ احمد باسناد علی شرط البخاری (فتح الباری (۳/۲۳۶)۔ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس تفصیلی روایت سے یہ وضاحت بھی ہو گئی کہ نبی ﷺ بھی اس واقعہ سے پہلے عذاب قبر کی تفصیلات سے واقف نہ تھے چنانچہ اس واقعہ کے چند دن بعد اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی نبی ﷺ کو عذاب قبر کے متعلق اطلاع دی جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ کہنے لگی کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کانپ گئے اور فرمایا کہ یہود آزمائے جائیں گے۔ پھر چند راتیں گزر گئیں تو پھر
قال رسول اللّٰہﷺ ھل شعرت انہ اوحی الی انکم تفتنون فی القبور قالت عائشۃ فسمعت رسول اللّٰہ ﷺ بعد یستعیذ من عذاب القبر
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تجھے معلوم ہے کہ مجھ پر یہ وحی نازل ہوئی ہے کہ تمہاری قبروں میں آزمائش ہو گی؟

اُمّ المؤمنین عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اس دن سے نبی ﷺ کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ (صحیح مسلم۔ کتاب المساجد باب استحباب التعوذ من عذاب القبر:۱۳۱۹۔ مسند احمد ۶/۸۹)۔

بخاری و مسلم میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے چنانچہ عمرۃ' بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوال کرتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عائذا باللّٰہ من ذٰلک ۔ میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر ایک دن آپ ﷺ صبح کے وقت اپنی سواری پر سوار ہوئے پھر (اس دن) سورج کو گرہن لگ گیا۔ (آپ ﷺ نے نماز کسوف ادا فرمائی یہاں تک کہ) سورج روشن ہو گیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
انی قد رایتکم تفتنون فی القبور کفتنۃ الدجال … اسمع رسول اللّٰہ ﷺ بعد ذالک یتعوذ من عذاب النار و عذاب القبر
بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے دجال کے فتنے کی طرح۔ … میں نے اس دن کے بعد سے رسول اللہ ﷺ کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ۔ اور صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فقال ما شاء اللّٰہ ان یقول ثم امرھم ان یتعوذوا من عذاب القبر
پھر آپ نے (خطبہ میں) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ قبرکے عذاب سے پناہ مانگیں۔ (صحیح بخاری کتاب الکسوف باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف جلد۱صفحہ ۱۴۳عربی ح:۱۰۴۹۔ صحیح مسلم کتاب الکسوف ج۱صفحہ۲۹۷عربی ح:۲۰۹۸)
 
Top