• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
37:قبر پر دفن کے بعد ثابت قدمی کی دعاء کرنا​

قرآن کریم اور احادیث کی ان تصریحات سے ثابت ہوا کہ جب میت کو دفن کیا جائے تو دفن کرنے والے قبر کے چاروں طرف کھڑے ہو جائیں اور میت کی مغفرت اور اس کی ثابت قدمی کی دعاء کریں کیونکہ میت کے لئے یہ انتہائی اہم موقع ہوتا ہے اور اس نازک موقع پر اسے دوسرے مسلمانوں کی دعاؤں کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ میت کے لئے دفن کے بعد دعاء مانگتے وقت ہاتھ اٹھانا بھی مسنون ہیں جیسا کہ ابوعوانہ کی حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ اور صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع قبرستان میں تشریف لے گئے:
حَتّٰی جَآئَ الْبَقِیْعَ فَاَقَامَ فَا طَالَ القِیَامَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ… فَقَالَ اِنَّ رَبَّکَ یَأمُرُکَ اَنْ تَأتِیَ اَھْلَ الْبَقِیْعِ فَتَسْتَغْفِرْ لَھُمْ (صحیح مسلم کتاب الجنائز باب مَا یقال عن دخول القبور والدعاء لاھلھا ج اول ص ۳۱۳۔ ۳۱۴ رقم ۲۲۵۶)
یہاں تک کہ آپ بقیع پہنچے پس آپ کھڑے ہوئے پس آپ نے وہاں طویل قیام فرمایا پھر آپ نے تین مرتبہ ہاتھ اٹھا کر( دعاء کی)‘‘
اس حدیث کے آخر میں ہے:
’’جناب جبریل ؑ نے فرمایا ‘ ’’بے شک آپ کا رب آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ بقیع والوں کے پاس جائیں اور ان کے لئے مغفرت کی دعاء فرمائیں‘‘۔ (مسلم) صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں دعاء کے یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں : اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاھْلِ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ ’’اے اللہ بقیع غرقد والوں کو بخش دے‘‘ ۔ (صحیح مسلم ج ۱ ص ۳۱۳) ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ بقیع غرقد جا کر اہل بقیع کے لئے مغفرت کی دعاء فرمائیں۔ اور آپ نے عملی طور پر مغفرت کی دعاء کرتے ہوئے بقیع میں طویل قیام کیا اور بار بار ہاتھ اٹھا کر ان کی مغفرت کے لئے دعا مانگی۔
رب غفور رحیم کی شان فیاضی کو ملاحظہ فرمائیں کہ وہ اپنے گناہ گار بندوں کی مغفرت کیلئے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے اٹھا کر حکم دیتا ہے کہ میرے بندوں کے لئے مغفرت کی دعاء طلب کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دعاء کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر طویل دعائیں مانگے ہیں۔اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زیارت قبور کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعاء مغفرت مانگنی چاہیئے اور دفن میت کے موقع پر چونکہ مغفرت کی دعاء کا خصوصی حکم دیا گیا ہے اس لئے اس موقع پر تو بدرجہ اولیٰ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی چاہیئے۔ اور جناب عمرو بن العاص ؓ کی وصیت کے مطابق اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے اتنی دیر تک قبر پر ٹھہرا جائے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
38: میت پر نوحہ کرنے کی ممانعت​

عمرو بن العاص ؓ نے سکرات موت کے وقت یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ جب میںمر جائوں تو کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ نہ جائے اور نہ آگ ساتھ لی جائے ‘‘۔
عمرو بن العاص ؓ نے جو کچھ فرمایا اس کا ایک ایک لفظ احادیث سے ثابت ہے۔ مرفوع حدیث میں آیا ہے کہ میت پر آواز کے ساتھ رونا ‘بین اور نوحہ کرنا اہل جاہلیت کا کام ہے اور نوحہ کرنا جمہورسلف و خلف کے نزدیک حرام ہے اورامام نووی ؒ لکھتے ہیں کہ ’’ نوحہ کی حرمت پر اجماع ہے‘‘۔ (شرح مسلم جلد ۱ ص۳۰۳)اگر اس سلسلہ کی صحیح احادیث نقل کی جائیں تو سلسلہ کلام کافی طویل ہو جائے گا چنانچہ موصوف کی کتاب ہی سے ایک روایت نقل کرتے ہیں:۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ قَاَل لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلنَّائِحَۃَ وَالْمُسْتَمِعَۃَ​

’’ جناب ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے نوحہ گر پر اور نوحہ کو سننے والے پر‘‘۔(ابو دائود ص۲۴۶ بحوالہ اندھیروں پر اندھیرے ص۴) علامہ الالبانی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں…(رواہ ابو داؤد) بسند ضعیف ‘فیہ محمد بن الحسن بن عطیۃ (العوفی) عن ابیہ ‘ عن جدہ وثلاثتھم ضعفاء )۔ امام ابو دائود ؒ نے اسے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی محمدبن حسن ہیں جو اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں اور یہ تینوںضعیف ہیں۔(مشکوٰۃ بتحقیق علامہ الالبانی جلد۱ص۵۴۳) موصوف نے یہاں اس روایت کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور اس کے راویوں سے کوئی تعرض نہیں کیا لیکن عذاب قبر کے سلسلہ میں ایک روایت اسی سند سے آئی ہے تو موصوف نے اس پر زبردست جرح نقل فرمائی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں عذاب قبر ص ۲۴ تا ۲۶۔ گویا موصوف کے لینے کے باٹ کچھ اور دینے کے کچھ ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَیْلٌ لِّلْمُطَّفِّفِیْنَ (ڈنڈی مارنے والوں کے لئے تباہی ہے) تفصیل کے لئے ہماری کتاب الدین الخالص دوسری قسط ملاحظہ فرمائیں۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
39:قبرستان میں آگ جلانے کی ممانعت​

اسی طرح عمرو بن العاص ؓ نے اپنی میت کے ساتھ آگ لیجانے کی بھی ممانعت فرمائی تو اس کی اصل بھی حدیث میں موجود ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں:۔
لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالْمَتَّخِذِیْنَ عَلَیْہَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانیوالوں پر اور ان پرچراغ روشن کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔ (رواہ ابودائود،ترمذی والنسائی۔مشکاۃ ج۱ص ۷۱ والحدیث سکت عنہ ابو دائود وقال الترمذی حدیث حسن مرقاۃ ص۱۸۵ جلد ۲)
اسی مضمون کی حدیث جناب ابو ہریرۃ سے بھی مرفوعاً مروی ہے۔ (ملاحظہ ہو موارد و الظمان ص۲۰۰ وسنن الکبریٰ جلد ۴ ص۷۸ بحوالہ راہ سنت ص۱۹۲)
جناب ابو بردہ ؒ (ابو موسیٰ اشعریؓ کے صاحبزادے) ارشاد فرماتے ہیں :۔
اَوْصٰی اَبُوْ مُوْسٰی حِیْنَ حَضَرَھُ الْمَوْتُ …… وَلَا یَتْبَعُنِیْ مِجْمَرٌ وَفِیْ رَوَایَۃٍ وَلَا تَتْبَعُوْنِیْ بِمِجْمَرٍ …… قَالُوْا سَمِعْتَ فِیْہِ شَیْئًا قَالَ نَعَمْ مِنْ رِّسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد ج۴ ص ۳۹۷ وابن ماجہ و البیھقی وسندہ حسن احکام الجنائز ص ۹ منہاج المسلمین ۶۴۹)
’’ جب ابو موسیٰ اشعریؓ پر موت کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت فرمائی کہ … اور میرے جنازہ کے ساتھ انگیٹھی (جس میں آگ رکھی ہوتی ہے ) نہ لے جانا۔لوگوں نے ان سے پوچھا کہ کیا اس سلسلہ میں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ‘‘۔
جناب ہشام بن عروہ ؒ روایت کرتے ہیں کہ جناب اسما بنت ابی بکر ؓ نے اپنے گھروالوں کو (وصیت کرتے ہوئے ) فرمایا کہ جب میں مر جائوں تو … وَلَا تَتْبَعُونِیْ بِنَارٍ یعنی اورمیرے جنازے کے ساتھ آگ نہ لے جانا‘‘۔(موطا امام مالک جلد ۱ص۲۶۱طبع ۱ صح المطابع)
عَنْ عَبْدَالرَّحْمٰنِ بْنِ مَھْرَانٍ اَنَّ اَبَا ھُرَیْرَۃَ قَالَ حِیْنَ حَضَرَھُ الْمَوْتُ لَا تَضْرِبُوْا عَلَیَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتْبَعُوْنِیْ بِمَجْمَرٍ وَ فِیْ رَوَایَۃٍ وَلَا تَتْبَعُوْنِیْ بِنَارٍ (مسند احمد ج۲ ص ۲۹۲ و ۴۷۴)
جناب عبد الرحمن بن مہران ؒ فرماتے ہیں کہ جب ابوہریرۃ ؓ کی موت کا وقت آیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ پر (میری قبر پر) خیمہ کھڑا نہ کرنا اور میرے جنازہ کے ساتھ انگیٹھی نہ لے جانا اور ایک روایت میں ہے کہ میرے جنازے کے ساتھ آگ نہ لے جانا‘‘۔

جناب ابو ہریرۃ سے اس سلسلہ میں ایک مرفوع روایت بھی آئی ہے :۔
لَا تُتْبَعُ الْجَنَازَۃُ بِصَوْتٍ وَلَانَارٍ۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنازہ کے پیچھے آواز اور آگ نہ لے جائی جائے۔ (ابودائود مع عون المعبود ص۱۷۶ ج۳ مسند احمد ص۴۲۷۔۵۲۸ ج۲)مگر اس روایت کی سند میں دو مجہول راوی ہیں۔(مختصر ابی دائود)
البتہ ابو ہریرۃ کی وصیت (جو بسند صحیح مروی ہے )سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی وصیت کا دارومدار کوئی حدیث ہو گی۔جیسا کہ ابو موسیٰ اشعری ؓ نے جب وصیت فرمائی تو پوچھنے پر تصریح فرما دی کہ ان کی یہ وصیت حدیث کے مطابق ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ابو ہریرۃؓ کی مرفوع روایت صحیح ہو اور مجہولان کا حال معلوم نہ ہو سکا ہو مگر ہمارا استدل ابو ہریرۃؓ کی مرفوع روایت سے نہیں ہے۔
(ایک علمی نکتہ) واضح رہے کہ ابو ہریرۃ ؓ کی موقوف روایات مرفوع شمار ہوتی ہیں۔ چنانچہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی حنفی دیو بندی لکھتے ہیں:۔
’’ اور امام طحاویؒ کی شرح معانی الآثار میں حضرت ابن سیرین ؒ سے منقول ہے کہ حضرت ابو ہریرۃؓ کی کل رواتیں مرفوع ہیں گو بظاہر وہ موقوف ہوں۔
عن محمد بن سیرین انہ کان اذا حدث عن ابی ھریرۃ فقیل لہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال کل حدیث ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہی شرح معانی الآثار ص۱۱ ج۱ باب سورۃ الھرۃ۔ (حیات عیسیٰ علیہ السلام ص۵۹)نیز ملاحظہ فرمائیں : امانی الاحبار فی شرح المعانی الآثار (ج ۱ص۶۹‘۷۰) (مصنفہ مولانا محمد یوسف الکاندھلوی حنفی دیو بندی)
امام محمد بن حسن شیبانیؒ (شاگردرشید امام ابو حنیفہؒ) ابو ہریرۃؓ کے اثر کو نقل کر کے ارشاد فرماتے ہیں’’بِھٰذَا نَاْخُذُ وھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃُ رَحِمَہُ اﷲ‘‘ اسی پر ہمارا عمل ہے اور امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہی قول ہے۔ ( موطا امام محمد ص۱۳۱ اردو ترجمہ قرآن محل)
فتاوی عالمگیری میں ہے :۔
وَاِیْقَادُ النَّارِ عَلَی الْقُبُوْرِ فَمِنْ رَّسُوْمِ الْجَاھِلِیَّۃِ
’’ قبروں پر آگ جلانا جاہلیت کی رسم ہے ‘‘۔(عالمگیری جلد ۱ ص۱۷۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین آدمی وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کی رسمیں تلاش کرے۔ ( صحیح بخاری۔ مشکوٰۃ جلد ۱ص۲۷)
زمانہ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ لوگ میت کے ساتھ آگ لے جایا کرتے تھے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کی اس رسم کو ختم کر دیا اوراسے باطل قرار دے دیا۔(مرعاۃ جلد ۳ ص۵۰۷)

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمرو بن العاصؓ کی وصیت بالکل صحیح تھی۔ اگر ہم صحابہ کرام ؓ کی صرف وصیتوں کو اکٹھا کر دیں تو ایک کتاب تیار ہو جائے گی چنانچہ ہم قران کریم سے جناب یعقوب علیہ السلام کی ایک وصیت نقل کرتے ہیں جو انہوں نے وفات کے وقت کی تھی اور اسی پر اس بحث کو بھی ختم کرتے ہیں:۔
اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآئَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اَبَآئِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدً وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ (بقرۃ ۱۳۳)۔
’’ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب ؑ پر موت کا وقت آیا اس وقت اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا ‘ میرے بیٹو ! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ان سب نے جواب دیا‘ ہم اسی ایک اللہ کی بندگی کریں گے جسے آپ ؑ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیمؑ ‘اسماعیلؑ اور اسحاقؑ نے اِلٰہ مانا اور ہم اسی کے مسلم ہیں‘‘۔
اس آیت سے پہلی والی آیت میں وصیت کے الفاظ (ووصی بھا ابراہیم بنیہ ویعقوب ) یعنی اور اسی کی وصیت جناب ابراہیم ؑ اور جناب یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں کو کی) موجود ہیں۔ غور فرمائیے کہ پیغمبروں کو اپنی اولاد کی کس قدر فکر ہے کہ ان کے بیٹے ان کی وفات کے بعد کیا کریں گے اور کس کی بندگی اختیار کریں گے ؟ حالانکہ ان کی اولاد میں پیغمبر بھی موجود ہیں۔ چونکہ یہ وصیت بھی انہوں نے موت کے وقت کی تھی اس لئے ڈر ہے کہ موصوف اس عظیم وصیت کو بھی بحرانی کیفیت سے تعبیر نہ کردیں۔(نعوذ باللہ من ذلک) بہر حال وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدَا۔ اللہ تعالیٰ اس جہالت سے تمام اہل ایمان کو محفوظ فرمائے۔ (آمین)

اگر عمرو بن العاصؓ نے سکرات موت میں غلط وصیت کی تھی تو ان کے صاحبزادے جناب عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ (جو خود ایک جلیل القدر اور عابد و زاہد صحابی ؓ ہیں ) کو ضرور اس غلط بات کی تردید کرنا چاہئے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا معلوم ہوا کہ ان کی وصیت کا ایک ایک لفظ بالکل صحیح اور درست تھا۔ اور یہ مشہور و معروف اصول ہے کہ ’’خاموشی رضامندی کی علامت ہوتی ہے‘‘ اور حدیث کی قسموں میں سے تقریری حدیث کا بھی یہی اصول ہے جبکہ موصوف کی جہالت ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کہتے ہیں ہاں اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ ان کے بیٹے اور دوسرے حضرات نے اس وصیت پر عمل بھی کیا۔ موصوف اس مشہور و معروف اصول سے ناواقف ہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔
جناب عمرو بن العاصؓ پر جو فتویٰ موصوف نے صادر کیا ہے وہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اب ایک دوسرے صحابیؓ کے متعلق ان کی رائے ملاحظہ فرمائیے:۔
’’ اسی طرح بعض انتہائی ہوشیار بریدۃ الاسلمیؓ کی وصیت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قبر میں کھجور کی دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت کی تھی۔ بخاری باب ’’ الجرید علی القبر‘‘ لا کر بتلاتے ہیں کہ یہ ان کی بات وصیت کے وقت کی ہے ورنہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جب عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ کی قبر پر خیمہ دیکھا تو حکم دیا ’’یا غلام انزعہ فانما یظلہ عملہ‘‘ اے لڑکے خیمہ ہٹا دے ‘ان کے اوپر تو صرف ان کا عمل سایہ کرے گا ’ خیمہ یا شاخ نہیں‘۔(بخاری عربی ص۱۸۱ جلد ۱۔ عذاب قبر ص۱۸)

آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ جناب بریدۃ الاسلمیؓ نے جو وصیت کی تھی موصوف کے نزدیک ان کی یہ بات وصیت کے وقت کی تھی گویا موصوف کے نزدیک جو شخص بھی مرض الموت میں مبتلا ہوا وہ ضرور اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے گا۔اور ضرور بحرانی کیفیت میں مبتلا ہو۔ غور فرمائیے کہ یہ نقطہ نگاہ کس قدر غلط اور خطرناک ہے جو بات بھی موصوف کے نظریات کے خلاف ہوتی ہے وہ اسے جھٹلا دیتے ہیں۔مولانا عبد الرحمن مبارک پوری ؒ جناب بریدۃ الاسلمیؓ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:۔
’’ میں کہتا ہوں جیسا کہ حضرت بریدہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی اور قبر میں کھجور کی شاخ کو رکھنا جائز سمجھا اسی طرح اب بھی اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و اتباع کرے اور قبر میں کھجور کی شاخ گاڑے تو اس میں کچھ حرج نہیں معلوم ہوتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم اوربہت سے لوگ جو بیر کی شاخ یا انار کی شاخ قبر میں گاڑتے ہیں ‘ سو اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے ‘(کتاب الجنائز ص۷۳)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
40:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی​

موصوف نے عمرو بن العاص ؓکی وصیت کو غلط ثابت کرنے کے لئے واقعہ قرطاس سے غلط استدلال کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی بحرانی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ (معاذ اللہ ) ہم نے اوپر عذاب قبر سے پوری عبارت نقل کر دی ہے۔ حدیث قرطاس پر جو اظہار خیال موصوف نے فرمایا ہے اس کا جواب دیتے ہوئے مسعود احمد صاحب فرماتے ہیں:۔
’’۱۔ تحریف لفظی : صحیح بخاری میں’’ اَھْجَرَ ‘‘ نہیں ہے بلکہ’’ اَھَجَرَ‘‘ہے عثمانی صاحب نے’’اَھَجَرَ‘‘ کو ’’اَھْجَرَ‘‘ بنا دیااورپھر سوالیہ جملہ کو جملہ خبر یہ میں تبدیل کردیا۔
۲۔ تحریف معنوی: ’’ اھجر‘‘ دو معنی لفظ ہے اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ ’’کیاآپ (دنیاکو) چھوڑ رہے ہیں‘‘ ؟اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں ‘ آپ کو بحران ہو گیا ہے۔ ’’ یا ‘‘ کیا آپ کو بحران ہوگیا ہے‘‘؟
عثمانی صاحب نے دوسرے معنی اختیارکئے اور وہ بھی خبرکے معنی میں‘سوال کے معنی میں نہیں۔عثمانی صاحب کوچاہئے تھا کہ معنی کرتے وقت شان رسالت کا تو لحاظ کرتے لیکن انہوں نے اپنے نظریہ کی حمایت کو مد نظر رکھتے ہوئے شان رسالت کا کوئی لحاظ نہیں کیا۔ کیا یہ نظریہ پرستی نہیں اور کیا نظریہ پرستی شرک نہیں؟
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
حدیث کا متن عثمانی صاحب کے معنی کی تکذیب کرتا ہے​

حدیث میں ہے :۔
’’ صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حالت ہے ؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم رخصت ہو رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے پوچھ لیں (کہ کیا معاملہ ہے) الغرض وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے لگے‘‘۔
اگر عثمانی صاحب کے ترجمہ کو صحیح مانا جائے تو یہ عجیب چیز سامنے آتی ہے کہ ایک طرف تو صحابہ رضی اللہ عنہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحران ہو گیا ہے اور دوسری طرف وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصل حقیقت بھی دریافت کر رہے ہیں۔بحران زدہ شخص سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ بحران زدہ شخص سے استصواب کیا جائے۔بحران زدہ شخص سے استصواب کرنا اس بات کی علامت ہے کہ استصواب کرنے والا خود بحران کا شکار ہے ۔کیا سب کو بحران ہو گیا تھا ۔نعوذ باللہ من ذلک۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
42: کیا یہ کفر نہیں؟​

عثمانی صاحب نے تو حد ہی کر دی ‘وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :۔
’’ رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا وہ جو کچھ کہتا ہے وحی ہوتی ہے‘‘​
وہ رسول جس نے خود اپنے متعلق فرمایا تھا :۔
’’ اس زبان سے سوائے حق کے اور کچھ نہیں نکلتا‘‘​
اسی صادق و مصدوق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ گستاخی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بحران کا شکار تھے ۔اللہ اللہ ! کیا یہ الفاظ ایمان کی غماذی کرتے ہیں ؟ کیا مندرجہ بالا آیت و حدیث کی روشنی میں کوئی مسلم یہ کہہ سکتا ہے کہ دینی معاملات میں یاوصیت اور نصیحت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے غلط بات نکل جا یا کرتی تھی۔ نعوذ باللہ منذلک
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
43:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتیں​

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے لکھوانے کے زبانی ہی وصیتیں کر دیں مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا‘‘۔
’’ وفود کو اسی طرح عطیات دئیے رہنا جس طرح میں دیا کرتا تھا‘‘۔
بتائیے ان وصیتوں میں کون سا بحران پایا جاتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں جو باتیں یا وصیتیں کیں ان کاخلاصہ یہ ہے:۔
۱۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اسی مرض میںمیری روح قبض ہو گی ‘ میرے اہل میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرو گی ۔( صحیح بخاری کتاب المغازی ) یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری۔
۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ ان لوگوں کا مجھے رفیق بنا دے جن پر تو نے انعام کیا (حوالہ مذکور)
۳۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ رفیق اعلیٰ میں (مجھے پہنچا دے) ۔(حوالہ مذکور)
۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ میری مغفرت فرما‘مجھ پر رحم فرما اور رفیق (اعلے) سے مجھے ملا دے ۔(حوالہ مذکور۹
۵۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ یہوداور انصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروںکو مسجد بنا لیا۔
۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں۔بے شک موت کے وقت سکرات ہوتی ہے ۔(حوالہ مذکور)
۷۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر دوا لگائی گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے منع بھی کیا لیکن گھر والے نہیں مانے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تم کو دوا لگانے سے منع نہیں کیا تھا ؟ گھر والوں نے جواب دیا ‘ ہم نے خیال کیا کہ مریض تو دوا سے کراہت کیا ہی کرتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گھر میں جتنے بھی ہیں سب کے منہ میںدوا لگائی جائے گی سوائے عباس رضی اللہ عنہ کے اس لئے کہوہ تمہارے ساتھ شریک نہیں تھے۔( حوالہ مذکور)
اس پیشن گوئی کے مطابق سب کے منہ پر دوا لگائی گئی۔(رواہ محمدبن سعد‘ فتح الباری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم جزء ۹ ص۲۱۴)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ مرض الموت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا ہوش تھا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ دوا لگانے میں شریک نہیں تھے۔جس نبی کا یہ حال ہو اس کے متعلق یہ کہنا کہ بحران تھاسراسر نادانی ہے۔

کیا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت بیماری کی حالت میں بھی عام مریضوں کی سی نہیں ہوتی تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری میں جو کچھ فرمایا وہ حق تھا۔ گھر والوں کا خیال غلط تھا ۔مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں جو پیشن گوئی فرمائی وہ حرف بحرف پوری ہوئی ۔کیا یہ سب چیزیں بحران کی علامت ہیں؟
۸۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی ۔(حوالہ مذکور)
۹۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو روانہ کر دینا۔ (حوالہ مذکور)
۱۰۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ لوگ (یعنی اہل کتاب)جب ان میں سے کوئی صالح آدمی مرتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیا کرتے تھے ۔پھر اس میں تصویریں بنایا کرتے تھے۔یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
۱۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں وہ اپنے انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی قبروں کو مسجدبنا لیا کرتے تھے ۔ـخبردار تم قبرون کو مسجد نہ بنانا۔ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔(صحیح مسلم)
۱۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہل حجاز کے یہودیوںکو اور اہل نجران کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور جان لو کہ سب سے بدتر لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مسجد بنا لیا‘‘۔(رواہ احمد وسندہ ‘صحیح ۔تمذیر المساجد الالبانی ص۲۲)
۱۳۔ بخارکی شدت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی مسلم کو جب کوئی مصیبت پنچتی ہے خواہ وہ کانٹا چھبنے کی تکلیف ہو یا اس سے زیادہ تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ وغیرہ)
کیا یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت و صداقت کی غمازی کرتی ہیں یا بحران و ہذیان کی۔ایمان والوں کے لئے تو یہ باتیں حق و صداقت کا روشن مینار ہین۔
الغرض تمام وصیتیں اور باتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض کی شدت میں کیں اور اپنی زندگی کے آخری دن کیں وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بحران کی نسبت کی تکذیب کرتی ہیں۔
عثمانی صاحب ذہن پرستی کے عمیق غار میں جا پڑے ہیں ۔ذہن پرستی کی اتنی مکروہ مثال ملنا مشکل ہے۔
اللہ تعالیٰ انہیں صحیح ایمان دے۔ان کو حق تسلیم کرنے اور احترام رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حترام صحابہ کی توفیق عطا فرمائے اور ذہن پرستی سے نجات دے۔(ذہن پرستی قسط نمبر ۴ص۷ تا ۱۱)
مسعود احمد صاحب کا بصیرت افروز تبصرہ آپ نے ملاحظہ فرمایا۔بہتر ہے کہ صحیح بخاری کی اس روایت پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا جائے۔

اس حدیث کو پڑھنے پر ایک عام تاثر یہ لیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسی چیز لکھوانا چاہتے تھے جس کے لکھوائے جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ میری امت گمراہی سے بچ جائے۔مگر سوال یہ ہے کہ قرآن کریم جو کتاب ہدایت ہے اور جس کے شروع ہیں میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ھدی للمتقین یعنی ہدایت ہے متقیوں کے لئے اور کہیں اسے ھدی للناس یعنی لوگوں کے لئے ہدایت قرار دیا گیا تو کیا کتاب ہدایت کے بعد بھی کوئی اہم بات چھوٹ گئی تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تحریر کروانا چاہتے تھے او جس کی عدم موجودگی گمراہی کا موجب بن سکتی تھی؟ اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تئیس سالہ زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو دکھائی دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس کس طرح دین حق کی خاطر مصائب و مشکلات کو انگیز کیا اور امت کے لئے قیامت تک کے لئے اپنا بہترین اسوہ حسنہ چھوڑا جو سراسر ہدایت و رحمت ہے ۔کیا کتاب و سنت کے بعد بھی کوئی ایسی اہم بات باقی رہ گئی تھی جسے اپ لکھوانا چاہتے تھے ؟ تو اگر حدیث کے الفاظ لا تضلو پر غور کیا جائے تو یہ لفظ ہمیشہ دینی گمراہی ہی کے لئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ دنیاوی کوتاہیوں پر بھی اس کا استعمال ہوتا ہے ۔مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے برادران یوسف کا یہ قول نقل کیا ہے :۔
’’ بلاشبہ ہمارے والد صریح خطار پر ہیں‘‘۔​
’’ یعنی دینوی نقطہ نظر سے اپنے نفع او نقصان کا صحیح موازنہ نہیں کرتے اور بے تدبیری کی وجہ سے سخت غلطی میں مبتلا ہیں۔یوسف علیہ السلام کے بھائی کافر نہ تھے ایک پیغمبر کے متعلق دینی گمراہی کا فتویٰ تو کجا اس کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے‘‘۔(ماخوذ فضل الباری شرح اردو صحیح بخاری جلد ۲ ص۱۵۲)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی ایسی ہی چیز لکھوانا چاہتے تھے تا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپس میں اختلاف نہ کریں۔ مگر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوانے کا ارادہ ترک کر دیا چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں (کہ میرے سر میں درد تھا )میں نے کہا میرے سر میں در دہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کاش تو اسی درد سر میں مبتلا رہ کر مر جاتی اور میں تیرے لئے دعائے مغفرت کرتا اور دعا کرتا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا افسوس واللہ میرا تو خیال ہے آپ رضی اللہ عنہ میرا مرنا پسند کرتے ہیں ‘اگر ایسا ہوا تو اس کے دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دوسری بیویوں کے ساتھ رات گزاریں گے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں خود درد سر میں مبتلا ہوں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت کی ابتداء شروع ہو گئی)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
44:جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی تحریری وصیت؟​

’’ اور میں نے چاہا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور ان کو (خلافت کی) وصیت کروں تا کہ کوئی کہنے والا کچھ کہہ نہ سکے پھر میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ (دوسرے کی خلافت کو ) ناپسند کرتا ہے اور مومن بھی اس کو منظور نہ کریں گے یا یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دفع کرے گا اور مسلمان بھی پسند نہ کریں گے‘‘۔
’’ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض موت میں فرمایا ‘ میری طرف سے اپنے باپ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اپنے بھائی کو بلا بھیجو تا کہ میں ایک تحریر لکھ دوں اس لئے کہ مجھ کو یہ اندیشہ ہے کہ کہیں کوئی آرزو نہ کرے (یعنی خلافت کی آرزو) اور مجھ کو یہ ڈر ہے کہ کہیں کوئی کہنے والا نہ کہے کہ میں (خلافت کا مستحق) ہوں اور منع کرے گا اللہ اور مومن لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ (کی خلافت) کے سوا دوسرے (کی خلافت) کو۔
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق تحریر لکھوانا چاہتے تھے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے بھروسے پر اسے ترک کر دیا۔البتہ آپ نے اپنے طرز عمل کے ذریعے ظاہر کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ بنیں ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آپ وہ تین باتیں تحریر کروانا چاہتے تھے جو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی ہی وصیت فرمائیں اور جن کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
جمعرات کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کچھ زیادہ خراب تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض کا غلبہ تھا لیکن اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار دن تک زندہ رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی حالت بھی پہلے سے بہتر تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار دنوں کے دوران اس بات کا تذکرہ نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وصیت کا لکھوانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری نہیں سمجھا۔رہا جناب عمر رضی اللہ عنہ کا حسبنا کتاب اللہ ۔ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے تو انہوں نے ایک اصولی بات ارشاد فرمائی تھی اور ان کی اس بات سے کوئی اختلاف بھی نہیں کر سکتا۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
45:کتاب اللہ سے قرآن و حدیث دونوں مراد ہیں​

مگر کتاب اللہ سے مراد یہاں صرف قرآن کریم ہی نہیں ہے کیونکہ کتاب اللہ کا اطلاق کتاب و سنت دونوں پر ہوتا ہے اور حدیث میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو شخص (ایک مسئلہ میں) جھگڑتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا ۔اقض بیننا بکتاب اللہ ( آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے) دوسرے نے بھی کہا اے اللہ کے رسول ‘ فاقض بیننا بکتاب اللہ ۔( پس ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے)۔ اور مجھ کو واقعہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔اس نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدوری کرتا تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا والزی نفسی بیدہ لا قضین بینکما بکتاب اللہ ۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں ضرور تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق ہی فیصلہ کروں گا… تیرے بیتے کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انیس رضی اللہ عنہ تو اس عورت کے پاس جا اگر وہ جرم کا اعتراف کرے تو اس کو سنگسار کر دے۔عورت نے اقرر کیا اور انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر دیا۔(بخاری ومسلم)

رحم کا حکم قرآن کریم میں مذکور نہیں ہے لیکن بے شمار احادیث میں اس کا تذکرہ آیا ہے مگر اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحم پر بھی کتاب اللہ کا اطلاق فرمایا۔پس ثابت ہوا کہ کتاب اللہ سے کتاب و سنت دونوں مراد ہیں۔لہذا کوئی وجہ نہیں کہ جناب عمر رضی اللہ عنہ کو منکر حدیث کہاجائے کیونکہ وہ تو جس قدر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے تھے اس کی مثال دنیا کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ہم اس کی کچھ مثالیں ضرور پیش کرتے مگر یہ چیز ہمارے موضوع سے خارج ہے۔
لا تضلو بعدی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ میری وفات کے بعد تم اس بات کو بھول ہی نہ جائو لہذا بہتر ہے کہ لکھوا ہی دوں۔ ضلال کا مطلب لغت عرب میں بھولنے اور فراموش کر دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور یہی معنی یہاں قرین قیاس بھی ہیں۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
46:بحرانی کیفیت​

بحرانی کیفیت اس حالت کو کہتے ہیں کہ جس پر یہ طاری ہو جائے وہ بیہودہ بکواس بکتا ہے اور اول فول کہنے لگتا ہے جسے دوسرے الفاظ میں دیوانے کی بڑ بھی کہتے ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو اس کے تصور ہی سے ایمان غارت ہو جاتا ہے چہ جائیکہ اس کا اظہار کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بحران ہو گیا تھا ۔جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ بیان فرمائے۔
’’ تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو اور بے شک تمہارے لئے ایسا اجر ہے جو ختم ہونے والا نہیں اور بے شک تم عظیم اخلاق پر (فائز ) ہو۔پس تم عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے ‘‘۔
اس وضاحت کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے متعلق بحرانی کیفیت کا عقیدہ رکھنا ’’ کفر خالص‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔اس کفر خالص کو سینہ سے لگا کر موصوف دنیا سے کوچ کر گئے اور اپنے نیچے اندھے عقیدت مندوں اور غالی مقلدین کی جوجماعت وہ چھوڑ گئے ہیں انہوں نے بھی قرآن وحدیث کی واضح نصوص کو چھوڑ کر عثمانی عقائد کو نظریات کو سینہ سے لگا رکھا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح احادیث کو چھوڑ کر عثمانی تشریحات کو قبول کر لیا ہے اس طرح گویا ان عقیدت مندوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقا م پر ڈاکٹر عثمانی کو فائز کر دیا۔

موصوف نے بظاہر توحید خالص کو سمجھانے کے لئے یہ تمام جتن کئے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل خلاف ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا تقریباً تین چوتھائی حصہ توحید کے اور اس مسئلہ میں کسی قسم کی کوئی کجی نہیں چھوڑی۔اگرتوحید کے لئے صرف قرآن وحدیث ہی پر انحصار کیا جائے تو یہی سبیل الرشاد ہے ۔لیکن افسوس کہ موصوف نے اپنی شخصیت کا لوہا منوانے کے لئے کچھ خود ساختہ نظریات کو توحید کی بنیاد قرار دیا پھر اس کے نتیجے میں محدثین کرام پر کفر کے فتوے داغے اور پھر تمام اہل ایمان کو اسلام سے خارج قرر دے ڈالا۔اور اس دوڑ دھوپ میں موصوف نے قرآن و حدیث کے نصوص کو بھی جھٹلا دیا اور نفس پرستی کی زبردست مثال قائم کر دی۔
 
Top