39:قبرستان میں آگ جلانے کی ممانعت
اسی طرح عمرو بن العاص ؓ نے اپنی میت کے ساتھ آگ لیجانے کی بھی ممانعت فرمائی تو اس کی اصل بھی حدیث میں موجود ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں:۔
لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالْمَتَّخِذِیْنَ عَلَیْہَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانیوالوں پر اور ان پرچراغ روشن کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔
(رواہ ابودائود،ترمذی والنسائی۔مشکاۃ ج۱ص ۷۱ والحدیث سکت عنہ ابو دائود وقال الترمذی حدیث حسن مرقاۃ ص۱۸۵ جلد ۲)
اسی مضمون کی حدیث جناب ابو ہریرۃ سے بھی مرفوعاً مروی ہے۔
(ملاحظہ ہو موارد و الظمان ص۲۰۰ وسنن الکبریٰ جلد ۴ ص۷۸ بحوالہ راہ سنت ص۱۹۲)
جناب ابو بردہ ؒ (ابو موسیٰ اشعریؓ کے صاحبزادے) ارشاد فرماتے ہیں :۔
اَوْصٰی اَبُوْ مُوْسٰی حِیْنَ حَضَرَھُ الْمَوْتُ …… وَلَا یَتْبَعُنِیْ مِجْمَرٌ وَفِیْ رَوَایَۃٍ وَلَا تَتْبَعُوْنِیْ بِمِجْمَرٍ …… قَالُوْا سَمِعْتَ فِیْہِ شَیْئًا قَالَ نَعَمْ مِنْ رِّسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد ج۴ ص ۳۹۷ وابن ماجہ و البیھقی وسندہ حسن احکام الجنائز ص ۹ منہاج المسلمین ۶۴۹)
’’ جب ابو موسیٰ اشعریؓ پر موت کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت فرمائی کہ … اور میرے جنازہ کے ساتھ انگیٹھی (جس میں آگ رکھی ہوتی ہے ) نہ لے جانا۔لوگوں نے ان سے پوچھا کہ کیا اس سلسلہ میں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ‘‘۔
جناب ہشام بن عروہ ؒ روایت کرتے ہیں کہ جناب اسما بنت ابی بکر ؓ نے اپنے گھروالوں کو (وصیت کرتے ہوئے ) فرمایا کہ جب میں مر جائوں تو …
وَلَا تَتْبَعُونِیْ بِنَارٍ یعنی اورمیرے جنازے کے ساتھ آگ نہ لے جانا‘‘۔
(موطا امام مالک جلد ۱ص۲۶۱طبع ۱ صح المطابع)
عَنْ عَبْدَالرَّحْمٰنِ بْنِ مَھْرَانٍ اَنَّ اَبَا ھُرَیْرَۃَ قَالَ حِیْنَ حَضَرَھُ الْمَوْتُ لَا تَضْرِبُوْا عَلَیَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتْبَعُوْنِیْ بِمَجْمَرٍ وَ فِیْ رَوَایَۃٍ وَلَا تَتْبَعُوْنِیْ بِنَارٍ (مسند احمد ج۲ ص ۲۹۲ و ۴۷۴)
جناب عبد الرحمن بن مہران ؒ فرماتے ہیں کہ جب ابوہریرۃ ؓ کی موت کا وقت آیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ پر (میری قبر پر) خیمہ کھڑا نہ کرنا اور میرے جنازہ کے ساتھ انگیٹھی نہ لے جانا اور ایک روایت میں ہے کہ میرے جنازے کے ساتھ آگ نہ لے جانا‘‘۔
جناب ابو ہریرۃ سے اس سلسلہ میں ایک مرفوع روایت بھی آئی ہے :۔
لَا تُتْبَعُ الْجَنَازَۃُ بِصَوْتٍ وَلَانَارٍ۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنازہ کے پیچھے آواز اور آگ نہ لے جائی جائے۔
(ابودائود مع عون المعبود ص۱۷۶ ج۳ مسند احمد ص۴۲۷۔۵۲۸ ج۲)مگر اس روایت کی سند میں دو مجہول راوی ہیں۔(مختصر ابی دائود)
البتہ ابو ہریرۃ کی وصیت (جو بسند صحیح مروی ہے )سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی وصیت کا دارومدار کوئی حدیث ہو گی۔جیسا کہ ابو موسیٰ اشعری ؓ نے جب وصیت فرمائی تو پوچھنے پر تصریح فرما دی کہ ان کی یہ وصیت حدیث کے مطابق ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ابو ہریرۃؓ کی مرفوع روایت صحیح ہو اور مجہولان کا حال معلوم نہ ہو سکا ہو مگر ہمارا استدل ابو ہریرۃؓ کی مرفوع روایت سے نہیں ہے۔
(ایک علمی نکتہ) واضح رہے کہ ابو ہریرۃ ؓ کی موقوف روایات مرفوع شمار ہوتی ہیں۔ چنانچہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی حنفی دیو بندی لکھتے ہیں:۔
’’ اور امام طحاویؒ کی شرح معانی الآثار میں حضرت ابن سیرین ؒ سے منقول ہے کہ حضرت ابو ہریرۃؓ کی کل رواتیں مرفوع ہیں گو بظاہر وہ موقوف ہوں۔
عن محمد بن سیرین انہ کان اذا حدث عن ابی ھریرۃ فقیل لہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال کل حدیث ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہی شرح معانی الآثار ص۱۱ ج۱ باب سورۃ الھرۃ۔
(حیات عیسیٰ علیہ السلام ص۵۹)نیز ملاحظہ فرمائیں : امانی الاحبار فی شرح المعانی الآثار (ج ۱ص۶۹‘۷۰) (مصنفہ مولانا محمد یوسف الکاندھلوی حنفی دیو بندی)
امام محمد بن حسن شیبانیؒ (شاگردرشید امام ابو حنیفہؒ) ابو ہریرۃؓ کے اثر کو نقل کر کے ارشاد فرماتے ہیں’
’بِھٰذَا نَاْخُذُ وھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃُ رَحِمَہُ اﷲ‘‘ اسی پر ہمارا عمل ہے اور امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہی قول ہے۔
( موطا امام محمد ص۱۳۱ اردو ترجمہ قرآن محل)
فتاوی عالمگیری میں ہے :۔
وَاِیْقَادُ النَّارِ عَلَی الْقُبُوْرِ فَمِنْ رَّسُوْمِ الْجَاھِلِیَّۃِ
’’ قبروں پر آگ جلانا جاہلیت کی رسم ہے ‘‘۔(عالمگیری جلد ۱ ص۱۷۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین آدمی وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کی رسمیں تلاش کرے۔
( صحیح بخاری۔ مشکوٰۃ جلد ۱ص۲۷)
زمانہ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ لوگ میت کے ساتھ آگ لے جایا کرتے تھے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کی اس رسم کو ختم کر دیا اوراسے باطل قرار دے دیا۔
(مرعاۃ جلد ۳ ص۵۰۷)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمرو بن العاصؓ کی وصیت بالکل صحیح تھی۔ اگر ہم صحابہ کرام ؓ کی صرف وصیتوں کو اکٹھا کر دیں تو ایک کتاب تیار ہو جائے گی چنانچہ ہم قران کریم سے جناب یعقوب علیہ السلام کی ایک وصیت نقل کرتے ہیں جو انہوں نے وفات کے وقت کی تھی اور اسی پر اس بحث کو بھی ختم کرتے ہیں:۔
اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآئَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اَبَآئِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدً وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ (بقرۃ ۱۳۳)۔
’’ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب ؑ پر موت کا وقت آیا اس وقت اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا ‘ میرے بیٹو ! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ان سب نے جواب دیا‘ ہم اسی ایک اللہ کی بندگی کریں گے جسے آپ ؑ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیمؑ ‘اسماعیلؑ اور اسحاقؑ نے
اِلٰہ مانا اور ہم اسی کے مسلم ہیں‘‘۔
اس آیت سے پہلی والی آیت میں وصیت کے الفاظ
(ووصی بھا ابراہیم بنیہ ویعقوب ) یعنی اور اسی کی وصیت جناب ابراہیم ؑ اور جناب یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں کو کی) موجود ہیں۔ غور فرمائیے کہ پیغمبروں کو اپنی اولاد کی کس قدر فکر ہے کہ ان کے بیٹے ان کی وفات کے بعد کیا کریں گے اور کس کی بندگی اختیار کریں گے ؟ حالانکہ ان کی اولاد میں پیغمبر بھی موجود ہیں۔ چونکہ یہ وصیت بھی انہوں نے موت کے وقت کی تھی اس لئے ڈر ہے کہ موصوف اس عظیم وصیت کو بھی بحرانی کیفیت سے تعبیر نہ کردیں۔
(نعوذ باللہ من ذلک) بہر حال
وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدَا۔ اللہ تعالیٰ اس جہالت سے تمام اہل ایمان کو محفوظ فرمائے۔
(آمین)
اگر عمرو بن العاصؓ نے سکرات موت میں غلط وصیت کی تھی تو ان کے صاحبزادے جناب عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ (جو خود ایک جلیل القدر اور عابد و زاہد صحابی ؓ ہیں ) کو ضرور اس غلط بات کی تردید کرنا چاہئے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا معلوم ہوا کہ ان کی وصیت کا ایک ایک لفظ بالکل صحیح اور درست تھا۔ اور یہ مشہور و معروف اصول ہے کہ ’’خاموشی رضامندی کی علامت ہوتی ہے‘‘ اور حدیث کی قسموں میں سے تقریری حدیث کا بھی یہی اصول ہے جبکہ موصوف کی جہالت ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کہتے ہیں ہاں اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ ان کے بیٹے اور دوسرے حضرات نے اس وصیت پر عمل بھی کیا۔ موصوف اس مشہور و معروف اصول سے ناواقف ہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔
جناب عمرو بن العاصؓ پر جو فتویٰ موصوف نے صادر کیا ہے وہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اب ایک دوسرے صحابیؓ کے متعلق ان کی رائے ملاحظہ فرمائیے:۔
’’ اسی طرح بعض انتہائی ہوشیار بریدۃ الاسلمیؓ کی وصیت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قبر میں کھجور کی دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت کی تھی۔ بخاری باب
’’ الجرید علی القبر‘‘ لا کر بتلاتے ہیں کہ یہ ان کی بات وصیت کے وقت کی ہے ورنہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جب عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ کی قبر پر خیمہ دیکھا تو حکم دیا
’’یا غلام انزعہ فانما یظلہ عملہ‘‘ اے لڑکے خیمہ ہٹا دے ‘ان کے اوپر تو صرف ان کا عمل سایہ کرے گا ’ خیمہ یا شاخ نہیں‘۔
(بخاری عربی ص۱۸۱ جلد ۱۔ عذاب قبر ص۱۸)
آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ جناب بریدۃ الاسلمیؓ نے جو وصیت کی تھی موصوف کے نزدیک ان کی یہ بات وصیت کے وقت کی تھی گویا موصوف کے نزدیک جو شخص بھی مرض الموت میں مبتلا ہوا وہ ضرور اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے گا۔اور ضرور بحرانی کیفیت میں مبتلا ہو۔ غور فرمائیے کہ یہ نقطہ نگاہ کس قدر غلط اور خطرناک ہے جو بات بھی موصوف کے نظریات کے خلاف ہوتی ہے وہ اسے جھٹلا دیتے ہیں۔مولانا عبد الرحمن مبارک پوری ؒ جناب بریدۃ الاسلمیؓ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:۔
’’ میں کہتا ہوں جیسا کہ حضرت بریدہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی اور قبر میں کھجور کی شاخ کو رکھنا جائز سمجھا اسی طرح اب بھی اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و اتباع کرے اور قبر میں کھجور کی شاخ گاڑے تو اس میں کچھ حرج نہیں معلوم ہوتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم اوربہت سے لوگ جو بیر کی شاخ یا انار کی شاخ قبر میں گاڑتے ہیں ‘ سو اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے ‘
(کتاب الجنائز ص۷۳)