• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
57:اعادہ روح کے سلسلہ کی دیگر احادیث​

اوپر براء عازب رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث اعادہ روح کے سلسلہ میں نقل کی گئی جو وضاحت کرتی ہے کہ دفن میت کے بعد اس میں روح لوٹائی جاتی ہے ۔اگرچہ یہ روایت اختصار کے ساتھ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں۔
’’ جب مومن اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے بھیجے جاتے ہیں پھر وہ ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی گواہی دیتا ہے ۔پس یہی اللہ تعالیٰ کے اس قول(کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو قول ثابت کے ذریعے ثابت قدم رکھتا ہے) کا مطلب ہے‘‘۔
اور یہ بٹھایا جانا اعادہ روح کے بعد ہی ہوتا ہے ۔چنانچہ مسند احمد میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں۔
’’ پس اس کی روح کو آسمان سے بھیجا جاتا ہے پھر وہ قبر میں پہنچ جاتی ہے تو نیک آدمی قبر میں بیٹھ جاتا ہے‘‘​
اس تفصیلی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن اور کافر کے روح کے اخراج کے بارے میں تفصیل بیان فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ مومن کی روح کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اس کو اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور کافر کی روح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔
اس روایت کے متعلق حافظ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ ابن القیم رحمتہ اللہ علیہ دونوں لکھتے ہیں :۔
’’ حافظ ابو نعیم الاصفہانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام روات کی عدالت حضرات محدثین کرام رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک ایک اتفاقی امر ہے‘‘۔
اس روایت کے تمام راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں چنانچہ اس کی سند یوں ہے ۔
’’ وال الامام احمد بن حنبل حدثنا حسین ابن محمد عن ابن ابی ذئب عن محمد بن عمرو بن عطا عن وعید بن یسار عن ابی ھریرۃ……(مسند احمد بحوالہ تفسیر ابن کثیر ص۵۳۳ج۲۰)
۱۔ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے استاد کا نام حسین بن محمد بن بہرام التمیمی ابو احمد وابو طی المروزی رحمتہ اللہ علیہ ہے ۔یہ بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں ۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں۔(تقریب التہزیب ص۷۵)
۲۔ حسیب بن محمد رحمتہ اللہ علیہ کے استاد کا نام محمد بن عبد الرحمن بن المغیرۃ بن الحارث بن ابی ذئب القرشی العامری ابو الحارث المدنی رحمتہ اللہ علیہ ہے ۔یہ بھی بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں۔حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ ‘فقیہ اور فاضل ہیں۔(تقریب ص۳۰۸)
۳۔ ابن ابی ذئب رحمتہ اللہ علیہ کے استاد کا نام محمد بن عمرو بن عطاء القرشی العامری المدنی رحمتہ اللہ علیہ ہے یہ بھی بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔(تقریب ص۳۱۳)
۴۔ محمد بن عمرو بن عطا رحمتہ اللہ علیہ کے استاد کا نام سعید بن یسار ابو الحباب المدنی رحمتہ اللہ علیہ ہے ۔یہ بھی بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کے مرکزی ہیں۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ اور متقن (مضبوط اور پختہ) ہیں ۔(تقریب ص۱۲۷)
۵۔ سعید بن یسار تابعی رحمتہ اللہ علیہ کے استاد ابو ہریرۃ رحمتہ اللہ علیہ ہیں جو مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس حدیث کی سند بالکل صحیح اور بہت عمدہ ہے اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی زیادہ صحیح ہے ۔اس روایت میں نہ تو کوئی شیعہ راوی ہے اور نہ ہی ضیعف راوی اور پھر دو الگ الگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے اعادہ روح الی الجسد کی روایت اس مسئلہ کو اور زیادہ مضبوط کر دیتی ہے۔
۶۔ امام قرطی رحمتہ اللہ علیہ ‘حافظ ابو نعیم رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن اور کافر کی موت کا اور ان کی ارواح کے اخراج کا تذکرہ فرمایا اس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔
’’یہاں تک کہ مردہ کو اس کی قبر میں داخل کیا جاتا ہے اور اس کی روح اس کے جسم کی طرف لوٹائی جاتی ہے‘‘​
جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایات جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت کی تائید کرتی ہیں ۔پس ثابت ہوا کہ دفن میت کے بعد سوال و جواب کے لئے مردہ کی طرف روح لوٹائی جاتی ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
58:اعادہ روح اور ائمّہ کرام​
اہل سنت والجماعت میں سے شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو اعادہ روح کا قائل نہ ہو
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
59:امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور اعادہ روح​

چنانچہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:۔
’’ اور قبر میں منکر و نکیر کا سوال حق اور ثابت ہے اور قبر میں جسم کی طرف روح کا لوٹایا جانا حق اور ثابت ہے اور قبر کا دبائو اور عذاب حق ہے جو تمام کفار کے لئے اور بعض گنہگار مومنوں کے لئے واقع ہو گا یہ بھی ٹھیک اور جائز ہے‘‘۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ان تمام باتون پر ایمان رکھتے ہیں جن کے موصوف منکر ہیں اور کیوں نہ ایمان رکھیں کہ یہ تمام چیزیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔موصوف نے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا ایک من گھڑت واقعہ جگہ جگہ عبرت کے لئے پیش کیا ہے مگر تعجب ہے کہ الفقہ الاکبر جیسی مشہور و معروف کتاب کی یہ عبارت ان سے کیسے پوشیدہ رہ گئی۔ اب موصوف کو چاہئے کہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کی طرح امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ پر بھی ’’ کفر‘‘ کا فتویٰ داغ دیں کیونکہ انہون نے صرف اسی عقیدہ کی وجہ سے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کو مشرک قرار دیا ہے اور امام احمد بن ـحنبل کا عقیدہ موصوف نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔
’’ حوض کوثر ‘شفات ‘ منکر و نکیر‘ عذاب قبر‘ ملک الموت کے ارواح کو قبض کرنے پھر ارواح کے قبروں میں جسموں کی طرف لوٹائے جانے پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس پر بھی ایمان لانا لازم ہے کہ قبر میں ایمان و توحید کے بارے میں سوال ہوتا ہے‘‘۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
60:امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ اور اعادہ روح​

اگر چہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ سے موصوف صحیح سند کے ساتھ ان کا عقیدہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن اگر ان سے یہ عقیدہ ثابت ہو جائے تو یہ صحیح احادیث سے ثابت شدہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں ہو سکتا ۔موصوف ایک جگہ لکھتے ہیں :۔

بات صاف ہو گئی اور یہ معمولی بات ہے بھی نہیں بلکہ یہ ایمان باللہ ایمان بالکتاب اور ایمان بالرسول کا معاملہ ہے ۔جس طرح عذاب قبر کا انکاری بہرحال ایماندار نہیں ہے اسی طرح جو یہ عقیدہ رکھے کہ اسی دنیاوی قبر کے مردہ میں روح واپس آ جاتی ہے ۔اسی کو اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے سوا و جواب ہوتا ہے اور اب اسی پر قیامت تک دنیاوی قبر کے اندر عذاب یا راحت کا دور گزرتا رہے گا و ہ بھی ایمان سے خالی ہے ۔ان دونوں پر اللہ کی کتاب اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجت تمام کر دی ہے ۔آج حال یہ ہے کہ ایک طرف قرآن و احادیث صحیحہ ‘اجماع صحابہ رضی اللہ عنہ امام ابو حنیفہ اور امام بخاری ہیں جن کا فیصلہ یہ ہے کہ روح بدن سے نکلنے کے بعد مردہ جسم میں قیامت سے پہلے واپس نہیں آ سکتی اور نہ دنیاوی جسم سے اس کا کسی قسم کا کوئی تعلق ہی باقی رہتا ہے ۔یہ قبر کے مردے بالکل مردہ ہیںان میں جان کی رمق تک نہیں ہوتی۔دوسری طرف…………
امام احمد حنبل رضی اللہ عنہ ‘ابن تیمیہ‘ابن ایم‘ ابن کثیر ‘ایک جم غفیر ہے جو مردہ جسم میں قیامت سے پہلے روح کے واپس آ جانے کا قائل اور اسی دنیاوی قبر میں قیامت تک مردہ پر عذاب یا راحت کے سارے حالات کے گزرنے کا اقراری ہے ۔یہ دونوں عقیدے جو قرآن وحدیث کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں ایک نہیں‘ ان میں زمین و آسمان کی دوری اور ایمان و کفر کا فر ق ہے ایک کا ماننے والا بہرحال دوسرے کا کافر ہے۔اب کہ ’’قد تبین الرشد ھن الفی ‘‘ لوگوں کو اختیار ہے جس کا جی چاہے قرآن و حدیث کی بات مانے اور جس کی مرضی میں آئے وہ گل ہائے عقیدت کی رنگینیوں کے فسوں سے ازخود فتہ ہو کر …… شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھ دے۔
امت کی بدنصیبی کہ آج ’’ عذاب قبر‘‘ کے اس عظیم مسئلہ کو فروعی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔حالانکہ دنیاوی قبر میں عذاب قبر کا اثبات ’’ حیات فی القبر‘‘کے ہم معنی اور قبر پرستی کے شرک کی اصل اور بنیاد ہے اسی لئے شیطان نے اس وقت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میت مبارکہ ابھی دفن بھی نہ ہوئی تھی امت کے دوسرے نمبر کے بزرگ ترین ولی ‘عمر بن خطاب رحمتہ اللہ علیہ کو فریب دینے کی کوشش کی تھی ۔اللہ کا کرم کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دشمن ایمان کے اس دار کو اسی پر الٹ دیا اور دو صدیوں تک اس کی ایک نہ چلی ۔پھر ۲۲۰ ؁ھ کے مسئلہ خلق القرآن کے ہیرو امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ پر اس کا وار ہوا۔ افسوس کہ وہ تاب نہ لا سکے ان کی شہرت اور ان کے ساتھ بے پناہ عقیدت کے سہارے اس ازلی دشمن کو قبر پرستی کے شرک کی بنیاد کہ ’’ مرنے والا دنیاوی قبر میں زندہ ہے‘‘ امت کے عقیدہ میں داخل کرنے اور قائم کرنے کا موقع مل گیا پھر دنیا بھی لٹی اور آخر ت بھی برباد ہو گئی اور آج ہر طرف شر ک و کفر کے سیاہ سائے راج کر رہے ہیں ۔آئیے کہ اللہ کے نام لے کر اصلاح حا ل کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیکھیں۔اور اللہ غالب و توانا پر جس نے نصرت کا وعدہ کیا ہے توکل کریں۔
اگلے صفحات پر مختلف مسالک کے مشہور علماء کے عقیدوں کے فوٹو موجود ہیں جو یہ ثابت کر رہے ہیں کہ تبع تابعین رحمتہ اللہ علیہ کا زمانہ گزرتے ہی اس باطل عقیدہ کو ہمہ گیر قبولیت حاصل ہو گئی اور آج تک حاصل ہے‘‘۔(عذاب قبر ص۲۵‘۲۶)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
61:امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ پر کفر کا فتوی؟​

غور فرمائیں کہ اس مادر پدر آزاد ڈاکٹر کی نگاہ میں امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ ‘ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ ‘ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ اور ایک جم غفیر سب کا سب کافر ومشرک ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس صدی میں کوئی اصلی موحد اور سچا مومن پیدا کیا ہے تو وہ صرف اور صرف ڈاکٹر عثمانی صاحب ہی ہیں کیونکہ موجودہ دور میں بھی کوئی ایک موحد ایسا نہیں ہے جس کا عقیدہ موصوف کے عقیدے سے لگا کھاتا ہو چونکہ یہ سب بھی مشرک ہیں تو لا محالہ ایک موصوف ہی ایسے بجتے ہیں جو صحیح موحد ہیں۔اگر خوارج کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ان میں اور موصوف میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔
اگر یہ سب کچھ شرک اور کفر ہے تو آخر آپ سے پہلے اس کے خلاف کیوں آواز نہ اٹھائی گئی اور امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ہی نے اپنے استاد امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کو مشرک کیوں نہ قرار دے دیا تو اس کا جواب دیتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں :۔
رہا اس بات کا شکورہ کہ بخاری نے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ مناسب روایہ کیون اختیار نہیں کیا تو ہم اس بات میں اپنے آپ کو معذور پاتے ہیں ۔یہ تو صرف امام بخاری کی ذمہ داری ہے اور وہی اس کے لئے جواب دہ ہیں۔(توحید خالص نمبر ۲ ص۲۸)
تعجب ہے آپ یہا ں کیسے معذور ہو گئے جب آپ نے سب ہی کو مشرک قرار دے دینے کا بیڑا اٹھایا ہے تو بسم اللہ کیجئے اور امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ پر بھی وار کر دیجئے۔ یہ کیا بزدلی ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا معاملہ آ گیا تو آپ اپنے آپ کو معذور پا رہے ہیں۔چلیئے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ تو ماضی بعید کی بات ہو گئی آخر کسی اور نے آپ کا ساتھ کیوں نہ دیا تو موصوف تقیہ کی چادر اوڑھ کر سنبھل کر ارشاد فرماتے ہیں:۔
رہی یہ بات کہ صدیاں گزر گئیں اور لوگوں نے ان غلط عقائد کے خلاف آواز کیوں نہ اٹھائی تو حقیقت یہ ہے کہ ہر زمانے میں ایک گروہ ایسا ضرور موجود رہا ہے جس نے ان منکر روایتوں اور ان روایتوں کے بھروسے پر عقیدہ کی عمارت تعمیر کرنے والوں پر تنقید کی ہے مگر ان کی آوازیں ہوا میں بکھر گئیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کے غلو اور دوسرے حضرات کی بے پناہ شہرت کے زیر اثر ان کے ساتھ عقیدت مندی نے ایک نہ چلنے دی۔بے اصل روایتوں کی تائید میں قرآن کریم کی محکم آیات کی تاویلیں کی گئیں اور متشابہات کو اپنی حمایت میں لا ڈالا گیا اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ ابن کثیر اور ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ کی شرح نے وہ کام کیا جو کسی سے بن نہ پڑا تو اس کا جواب یہ ہے کہ کاش قرآن اور حدیث کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہوتا۔(توحید خالص نمبر۲ص۲۴)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
62:ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا​

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا دین غیر محفوظ ہو گیا۔اور اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا جو وعدہ فرمایا تھاوہ غلط ثابت ہوا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:۔
’’ میری امت کا ایک گروہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گا جو کوئی انہیں نقصان پہنچانا چاہے یا ان کی مخالفت کرنا چاہے وہ انہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا حتیٰ کہ اللہ کا حکم آ جائے اس حال میں کہ وہ لوگوں پر غالب رہیں گے‘‘۔
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:۔
’’میری امت کاایک گروہ ہمیشہ حق پر ڈٹا رہے گا ‘‘۔(صحیح مسلم کتاب الامارہ)
محدثین کرام اس پر اجماع ہے کہ ان احادیث میں جس حق پرست جماعت کا ذکر کیا گیا ہے اس مراد ’’ اہل الحدیث‘‘ کی جماعت ہے ۔اس کی تفصیل اور وضاحت کے لئے میری کتاب والفرقۃ الجدیدۃملاحظہ فرمائیں۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
63:سفید جھوٹ​

موصوف ایک طرف تو یہ لکھتے ہیں کہ فتح الباری اور تفسیر ابن کثیر نہ لکھی جاتی او دوسری طف وہ اپنے عقیدہ کی تائید میں من گھڑت اور جھوٹی بات تک اپنے کتابچون میں نقل کر جاتے ہیں۔جیسا کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ غرائب نامی کسی کتاب کے حوالہ سے نقل کیا ہے ۔موصوف کے اس طرح کے جھوٹ اور دھوکہ بازی کی مثال ’’ الدین الخالص‘‘ دوسری قسط دیتے ہی دھوکا یہ بازیگر کھلا۔ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔اگر فتح الباری نہ ہوتی تو موصوف فرشتوں کو جوتیاں کہاں سے پہناتے؟
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
64:علیین وسجین​

جناب براء ن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ بھی آتا ہے :۔
’’ (مومن کے لئے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کے نامہ اعمال کو مقام علیین میں رکھو اور اس کو زمین کی طرف لے جائو……پس اللہ تعالیٰ( کافر کی روح کے بارے میں ) اس کے نامہ اعمال کو سجین میں رکھو جو نیچے زمین میں ہے ……‘‘۔
قرآن کریم میں بھی ہے کہ علیین میں نیک انسانوں کے اعمال نامے رکھے جاتے ہیں اور سجیین میں گناگاروں کے البتہ سلف میں سے بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ علیین ساتویں آسمان کے اوپر ایک مقام ہے جہاں نیک انسانوں کے اعمال ناموں کے علاوہ ان کی روحیں بھی رکھی جاتی ہیں اور علیین درحقیقت جنت ہی کا ایک مقام ہے اسی طرہ سجیین ساتویں زمین کے نیچے ایک مقام ہے جہاں گناہگاروں کے اعمال ناموں کے علاوہ ان کی روحیں بھی رکھی جاتی ہیں اور سجین بھی درحقیقت جہنم ہی کے ایک مقام کا نام ہے مگر ملیین اور سجین کی تفصیلی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا لیکن موصوف اس بات کو تسلیم نہیں کرتے چنانچہ لکھتے ہیں:۔
حیرت کی بات ہے کہ یہی حضرات جو امام احمد بن حنبل کی اس بات کو صحیح مانتے ہیں کہ ملک الموت کے روح کو قبض کرنے کے بعد اسی قبر کے مردہ کے جسم میں لوٹا بھی دیا جاتا ہے اور وہ پھر زندہ ہو جاتا ہے ۔دوران گفتگو یہ بھی کہنے لگتے ہیں کہ نیک انسانوں کی روحیں علیین اور برے لوگوں کی سجین میں رکھی جاتی ہیں اور احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس تضاد بیانی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔روحیں اگر قبض کرنے کے بعد مرنے والوں کے جسموں میں پھر لوٹا دی گئیں تو اب روحیں بچی کہاں کہ علیین اور سجین میں رکھی جائیں۔پھر اگر کہا جائے کہ علیین اور سجین روحوں کے رہنے کی جگہیں نہیں بلکہ نیکو کاروں اور بدکاروں کے اعمالناموں کے دفتر ہیں۔
جسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔
۱۔ ’’ کلا ان کتب الفجار لفی سجین ۔وما ادرک ما سجین ۔کتب مرقوم‘‘۔(المطففین ایات ۷‘۸‘۹)
ترجمہ : ہر گز نہیں فاجروں کے اعمالنامے سجین میں ہیں اور تم کیا جانو کہ سجین کیا ہے۔وہ ایک کتاب ہے لکھ ہوئی ہے۔
۲۔ ’’کلا ان کتب الابرار لفی علیین ۔ومام ادرک ما علیون کتاب مرقوم ۔یشھدہ المقربون‘‘۔(المطففین ایات ۱۸‘۱۹‘۲۰‘۲۱)
ترجمہ : ہر گزنہیں بیشک نیکو کاروں کے اعمالنامے حلیین میں ہیں اور تم کیا جانو کہ علیین کیا ہے وہ ایک کتاب لکھی ہوئی ۔اس کی نگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں۔
تو منہ دیکھنے لگ جاتے ہیں گویا یہ بات پہلی مرتبہ آج ہی سنی ہے۔(عذاب قبر ص۲۱‘۲۲)
سلف صالحین نے علیین و سجین کو اعمال ناموں کے دفاتر کے علاوہ روحوں کا جو مسکن بھی کہا ہے تو ان کی یہ بات بالکل بے دلیل نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر بھی کچھ احادیث و آثار موجود ہیں چنانچہ اس حدیث میں علیین کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:۔
عربی……………………………
’ ’ بے شک علیین والوں میں سے ایک شخص جنت والوں کو جھانکے کا گویا کہ وہ ایک روشن ستارہ ہے اور بے شک ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی انہی میں شامل ہیں اور (مرتبہ و مقام کے لحاظ سے ان سے بھی بہتر ہیں‘‘۔
گویا جنت کا اعلی ترین مقام علیین ہے جس میں جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسی ہستیاں بھی موجود ہیں اس روایت کی سند بھی صحیح ہے اس کے ایک راوی یونس بن ابی اسحق رحمتہ اللہ علیہ صحیح مسلم ‘ترمذی‘ابودائود‘ نسائی‘ابن ماجہ وغیرہ کے راوی ہیں ان کے متعلق حافظ ابن حجر العسقلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔’’ صدوق بھم قلیلا‘‘ صدوق بھی اور انہیں تھوڑا وہم ہوا ہے۔(تقیرب التہذیب ج۲ ص۸ ۳۴ رقم ۷۹۲۸)
ان پر کچھ جرح بھی ہے علامہ ذہبی رحمتہ اللہ علیہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔’’ بل ھو صدوق مابہ بائس ‘‘(میزان الاعتدال ج۴ ص۴۸۳)بلکہ وہ صدوق بھی اور اس میں کوئی حرج نہیں۔اس حدیث کے دوسرے راوی سلم بن قتیبہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔حافظ صاحب فرماتے ہیں وہ صدق ہیں۔(تقریب ج۱ص۳۷۴ رقم ۲۴۸۷)
اس حدیث کی تائید میں بھی بہت سی روایات موجود ہیں۔
عربی…………………
’’ ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک جنت والے البتہ علیین والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسا کہ تم روشن سترے کو آسمان کے افق پر دیکھتے ہو اور بے سک ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ انہیں میں شامل ہیں اور (ان سے) بہتر (مقام) پر ہوں گے‘‘۔
جناب اسماعیل بن ابی خالد رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ وہ مجالد کیساتھ غالیچہ کے فرش پر بیٹھے ہوئے تھے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ عطیہ العوض نے گواہی دی کہ جناب ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا۔
اس حدیث کا ایک راوی مجالدین سعید ہے جو اگرچہ ضعیف ہے اور امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی حدیث شواہد اور متابعت کے طور ذکر ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے راوی کی حدیث بطور متالعت کے ذکر کی جا سکتی ہے لہذا ہم نے اس روایت کو بطور متابعت کے ذکر کیا ہے ۔اس روایت کا دورا شاہد عطیۃ بن سعد بن جنادۃ العوفی الکوفی کی روایت ہے حافظ صاحب لکھتے ہیں ۔’’صدوق یخطی کثیرا کان شیعیا مدلسا ‘‘۔(تقریب ۱/۶۷۸)
مختصر یہ کہ یہ راوی بھی ضعیف ہے البتہ اس کی روایت بھی بطور شاہد کے ذکر کی جا سکتی ہے ۔عطیہ عوفی کی روایت کے علاوہ مسند احمد (۳/۵۰) سنن ابی دائود کتاب الحرون والقرائت حدیث نمبر ۱۹ (اس حدیث کے الفاظ اوپر نقل کردہ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق ہیں ) ۔المعجم الاوسط (ج۲ ص۷۶۳ رقم ۱۷۹۹ ج۲ ص۲۲۹ رقم ۵۴۸۳)شرح السنۃ (ج ۱۴ ص۱۰۰ رقم ۳۸۹۳) مشکوٰۃ المصابیح (ج۳ ص۱۷۰۹ رقم ۲۰۴۹) میں بھی عطیہ عوفی کی روایت موجود ہے ۔

ان روایات کی اصل صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہی موجود ہے اور وہ حدیث یہ ہے۔
’’ جناب ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جنتی اپنے اوپر کے بالا خانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم اس روشن ستارا کو دیکھتے ہو جو طلوع و غروب کے وقت آسمان کے افق میں ہوتا ہے اور یہ بالا خانے بزرگی اور فرق مراتب کے سبب سے ہوں گے جو جنتیوں کے درمیان پایا جائے گا ۔صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ بالا خانے انبیاء علیہم السلام کے مکانات ہوں گے اور انبیاء علیہم السلام کے سوا ان میں کوئی نہ جا سکے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان میں وہ لوگ جا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کی تصدیق کی ۔(بخاری و مسلم)
(صحیح بخاری ج۱ ص۴۶۱ صحیح مسم ج۲ بحوالہ المصابیح باب صفۃ الجنۃ واھلھا)
اس طرح کی ایک روایت جناب سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم (ج۲ ص۳۷۸) میں موجود ہے۔

یہ روایت بھی جناب ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے ہے اور اس میں اہل علیین کے بجائے اھل الغرف (بالا خانہ والے) کے الفاظ آئے ہیں ۔گویا اھل الغرف کی وضاحت دوسری صحیح حدیث میں اھل علیین سے کی گئی ہے ۔ان احادیث سے واضح ہو گا کہ علیین نیک لوگوں کے اعمال ناموں کے دفاتر کے علاوہ ان کے مسکن کا بھی نام ہے اور یہ جنت کے اعلی ترین مقامات ہیں اور کسی شعبہ سے تعلق رکھنے والے دفاتر عموماً اس شعبہ کے ساتھ ہی منسل ہوتے ہیں ۔اس سے الگ او دور واقع نہیں ہوتے۔
جناب قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں ۔سجین کی وجہ تسہیہ یہ ہے کہ کافروں کی روحیں وہاں بند کر دی جاتی ہیں اور سجین کے معنی حبس (قید خانہ) ہے سجین ساتویں زمین یا ساتویں زمین کے نیچے ہے ۔ابن مندہ ‘طبرانی اور ابو الشیخ نے حمزہ بن حبیب کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارواح اہل ایمان کے متعلق دریافت کیا گیا فرمایا سبز پرندوں (کی شکل) میں جنت کے اندر جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی پھرتی رہتی ہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کفار کی روحیں (کہاں ہوتی ہیں) فرمایا سجین میں جذ ہوتی ہیں ۔ابن مبارک ‘حکیم ترمزی ‘ابن ابی الدنیا اور ابن مندہ نے بروایت سعید بن المسیب ‘حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ کافر کی روح سجین میں ہوتی ہے ۔بغوی نے لکھا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ‘قتادہ رحمتہ اللہ علیہ مجاہد ‘ ضحاک نے بیان کیا کہ سجین سب سے نچلی ساتویں زمین میں ہے جس میں کافروںکی روحیں ہوتی ہیں میں کہتا ہوں ابن ابی الدنیا نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی قول نقل کیا ہے ۔(تفسیر مظہری اردو ترجمہ جلد ۱۲ ص۳۳۶)

مولانا عبد الرشید نعمانی رقمطراز ہیں :۔
’’ اول جمہور مفسرین کا قول ہے کہ یہ شے معین کا علم ہے پھر اس سے شے معین میں اختلاف ہے ‘اکثر تو اس طرف ہیں کہ ساتویں زمین پر زمین ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ (کا بردایت عطا نیز) قتادہ ‘مجاہد ‘ضحاک اور ابن زید کا یہی قول ہے ۔حضرت براء رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سجین ساتویں زمینوں میں سے نیچے ہے ۔عطا خراسانی کا بیان ہے کہ ابلیس اور اس کی ذریت اسی میں ہے اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سجین جہنم میں ایک گڑھا ہے کلبی اور مجاہد نے کہا کہ سجین ساتویں زمین کے نیچے ایک چٹان ہے۔(لغات القرآن جلد ۳ ص۱۸۶۸۸۵)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :۔
علیین والے اوپر ہی اوپر امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں ’’ آیۃ شریفہ لفی علیین ‘‘ میں بعض تو علیین کو سب سے اعلیٰ جنت کا نام بتاتے ہیں جس طرح سے کہ سجین سب سے بدتر دوزخ کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ درحقیقت وہاں کے رہنے والوں کے نام ہے اور عربیت کے لحاظ سے یہی معنی زیادہ قریب ہیں ۔کیونکہ یہ جمع ذوی العقول کے ساتھ مخصوص ہے یہ لوگ اس کو علی بروزن بطیخ کی جمع بتاتے ہیں اور معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ابرار بھی ان ہی لوگوں کے زمرہ میں ہوں گے (یہ قول گویا اوپر نقل کردہ ابو سعید الخدری رحمتہ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق ہے ۔عبد اللہ اس صورت میں یہ آیت فائلئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصر یقین والشھدء الصلحین سو وہ ان کے ساتھ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بختوں کے ساتھ کی طرح ہو گی ۔(ایضاً جلد ۴ ص۳۵۵)

جمہور علمائے اسلام نے علیین اور سجین کی ہی تفصیلات بیان کی ہیں ااور آج تک کسی نے ان کا انکار نہیں کیا۔بلکہ مولانا محمد حسین نیلوی صاحب نے ندائے حق میں بھی ہی تفصیل بیان کی ہے جو عذاب حق وغیرہ کے سلسلہ میں موصوف کے ہم فرما ہیں اور جن کی کتابوں سے موصوف نے بہت کچھ نقل کیا ہے ۔اسی طرح مولانا غلام اللہ خان صاحب کا بھی یہی مسلک ہے مگر اس کے باوجود ان بزرگوں نے اپنے مخالفین کو مشرک و کافر قرار نہیں دیا۔علمی طور پر کسی مسئلہ میں جمہور علماء کرام سے اختلاف کرنا ایک بات ہے اور اختلاف کی بناء پر دوسروں پر کفر و شرک کے فتوے داغنا دوسری بات ہے۔
یہ قدرتی بات ہے کہ بڑے بڑے علماء کے درمیان بعض مسائل نے معرکتہ الآرا ء مسائل کی حیثیت ضرور اختیار کی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے عدل و انصاف اور اتدال کو ہاتھ سے نہ جانے دیا انہون نے نہ تو اپنے مخالفین پر کوئی فتویٰ لگاا اور نہ ہی ان کو برا بھلا کہا بلکہ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئے اور غیبت میں بھی ان کا عہدہ الفاظ میں تذکرہ کیا۔مگر یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ذرا کسی نے ان سے کسی مسئلہ میں اختلاف کیا تو ان کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا اور بغض و عداوت اور نفرت کے آثار چہرے پر دکھائی دینے لگے اور فتوئوں کی وہ بارش شروع ہوئی کہ جو ایک مرتبہ غلطی سے اس طرف گیا دوسری مرتبہ وہاں جانے کی سکت ہی اس میں باقی نہ رہی ۔اصل بات یہ ہے کہ بقول شخص ’’ ظرف جو خالی ہو صدا دیتا ہے‘‘ ان کے پیر مغاں کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے بھی احادیث نبویہ کا صحیح اور گہرا مطالعہ نہیں کیا ہے او اگر چند احادیث کی معرفت ان کو حاصل بھی ہے توانہیں بھی اس طرح مانتے ہیں کہ جو احادیث ان کے نظریات سے ٹکراتی ہیں ان کو نہیں مانتے اور ان احادیث کو اس حد تک جھٹلاتے ہیں کہ حدیث کے مئولف تک پر شرک و کفر کے فتوے لگا دیتے ہیں ۔امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ پر کبھی خواب کے ایک مسئلہ کی بناء پر مشرک کا فتویٰ لگایا گیا ہے ۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
65:دو زندگیوں اور دو موتوں کا صحیح مفہوم​
اعادہ روح الی القر کو قرآ ن کریم کے خلاف ثابت کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:۔
کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مرنے کے بعد صرف قیامت کے دن انسان زندہ ہو گا۔
’’ ثم انکم بعد ذالک لمیتون ۔چم انکم یوم القیامۃ تبعثون‘‘۔( المئومنون ایۃ ۱۵‘۱۶)
ترجمہ : پھر اس زندگی کے بعد تمہیں موت آ کے رہے گی اور اس کے بعد قیامت کے دن تم پھر اٹھائے جائو گے ۔آخر قبر کا مردہ قیامت سے پہلے قبر میں کیسے زندہ ہو جاتا ہے تو جواب نہیں ملتا۔
پوچھا جائے کہ :۔ کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتا فاحیاکم ۔’’ ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون‘‘۔(البقرۃ ایۃ ۲۸)
ترجمہ : تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بیجان تھے ‘اس نے تم کو دنیا کی زندگی عطا فرمائی پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا پھر تم اس کی طرف لوٹائے جائو گے۔
سورۃ بقرۃ کی اس آیت سے تو ثابت ہوا کہ زندگیاں تو صرف دو ہیں آخر قبر دنیا کی یہ تیسری زندگی آپ کہاں سے لے ائے تو چپ ہو جاتے ہیں اور بس۔عرض کیا جائے کہ سورۃ المومنون میں قیامت کے فیصلہ کے وقت کفار کہیں گے :۔
’’ قالو ربنا امتنا اثنتین ۔واحییتنا اثنتین فاعترفنا بذنوبنا فہل الی خروج من سبیل ‘‘۔( سورۃ المومن ۔آیۃ ۱۱)
ترجمہ : کافر کہیں گے کہ اے ہمارے رب تو نے واقعی ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دے دی۔اب اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے ۔(المومنون آیت ۱۱)
بتائیے کہ دو زندگیوں اور دو موتوں کے بعد یہ تیسری زندگی اور تیسری موت کیسی۔(عذاب قبر ص۱۴‘۱۵)

سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ ان آیات کے متعلق فرماتے ہیں:۔
پہلی موت تو ہر انسان کی خلقت سے پہلے کی ہے جب وہ مادہ یا عنصر کی صورت میں تھا پھر زندہ ہو کر اس دنیا میں پیدا ہوا یہ اس کی پہلی زندگی ہے پھر موت آئی روح نے مفارقت کی اور جسم اپنی اگلی مادی صورت میں منتقل ہو گیا یہ دوسری موت ہوئی پھر خدا اس کی روح کو جسم سے ملا کر زدہ کرے گا یہ اس کی دوسری زندگی ہوئی جس کے بعد پھر موت نہیں۔(سیرۃ النبی جلد ۴ ص۶۳۱)
قرآن کریم میں جو زندگیوں کا بیان ہوا ہے یعنی دنیا کی زندگی اور قیامت کے دن کی زندگی تو اس سے مراد حیات ظاہر اور محسوس زندگی ہے جس میں انسان کو خوراک وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔قر کی زندگی کی نوعیت ان زندگیوں سے بالکل الگ اور جدا ہے لہذا ان زندگیوں کو بہانہ بنا کر قبر کی برزخی حیات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر برزخي زندگی کو ہم دنیا میں کسی چیز سے تشبیہ دینا چاہیں تو نیند سے تشبیہ دے سکتے ہیں ۔برزخی زندگی پر ہم پچھے صفحات میں تفصیل کے ساتھ بحث کر چکے ہیں ۔قران کریم کی ان آیات سے عذاب فی القبر کا انکار لازم نہیں آتا ہے کیونکہ قرآن کریم کی دوسری آیات اور واضح احادیث عذاب فی القبر کا ثبوت فراہم کرتی ہیں ۔مفتی صاحب فرماتے ہیں۔
اس آیت میں دنیا کی زندگی اور موت کے بعد صرف ایک حیات کا ذکر ہے جو قیامت کے روز ہونے والی ہے ۔قبر کی زندگی جس کے ذریعے قبر کا سوال و جواب اور قبر میں ثواب وعذاب ہونا قرآن کریم کی متعدد آیات اور حدیث کی متواتر روایات سے ثابت ہے اس کا ذکر نہیں۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
66:عذاب قبر اور بعثت میں مماثلت​

موصوف نے عذاب قبر کے مسئلہ کو مشکوک بنانے کے لئے جو عقلی شگوفے چھوڑے ہیں مثلاً۔
ہر ایک جانتا ہے کہ کتنوں کو جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے ۔کسی کو درندہ ہڑپ کر جاتا ہے اور کوئی مچھلیوں کے منہ کا نوالہ بن جاتا ہے ۔آخر ان مرنے والوں کو کیسے اٹھا کر بٹھایا جائے گا۔کیسے سوال و جواب ہو گا اور کس طرح ان پر عذاب و راحت کا دور قیامت تک گزرے گا۔(عذاب قبر ص۲)
اسی طرح کے عقلی شگوفے مشرکین مکہ قیامت کے دن بدن عنصری کے دوبارے اٹھائے جانے اور زندہ کئے جانے پر چھوڑا کرتے تھے ان کا یہ بھی اعتراض تھا کہ جب انسان گل سڑ جائے گا اور اس کی ہڈیاں سرمہ بن جائیں گی تو پھر اس بدن کو کس طرح دوبارہ اٹھایا جائے گا جو عقلی اعتراض موصوف کو عذاب قبر کے سلسلہ میں ہوا ہے اسی طرح کا اعتراض ان کو قیامت کے دن اس بدن عنصری کے دوبارہ زندہ کئے جانے پر تھا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشآد ہے :۔
’’ یہ کہتے ہیں کیا ہم مرکر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے تو ہم کو پھر اٹھا جائے گا؟‘‘​
’’ اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے کہتا ہے کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں؟ اس سے کہوانہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے‘‘۔
یعنی آخرت کی زندگی کے متعلق عقلی گھوڑے دوڑاتا ہے اور ہمیں بھی مخلوق کی طرح عاز سجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ہم مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتے۔
جو عقلی اعتراض مشرکین مکہ کو دوبارہ زندہ کئے جانے پر تھا اسی طرح کا عقلی اعتراض موصوف کو قبر کی زندگی کے سلسلہ میں پیش آیا ہے اور وہ راحت قبر یا عذاب قبر کو بدن عنصری کے ساتھ ہونا ممکن نہیں سمجھ رہے ہیں ۔سوچیں کہ کیا یہ ایمان اللہ ‘ایمان بالکتاب اور ایمان بالرسول ہے یا ایمان بالنفس ہے؟
وجہ یہ ہے کہ برزخی زندگی اس طرح کی نہیں ہے جو انسان کو دنیا میں حاصل ہے یا آخرت میں پھر ہو گی بلکہ ایک درمیانی صورت مثلاً خواب کی زندگی کے ہے اس کو دنیا کی زندگی کا تکملہ بھی کہا جا سکتا ہے اور آخرت کی زندگی کا مقدمہ بھی اس لئے کوئی مستقل زندگی نہیں ۔جس کا جداگانہ ذکر کیا جائے۔(معار القرآن جلد ۱ ص۱۷۳)
مولانا محمد سرفراز خان صاحب ان آیات پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
ان آیتوں میں دو دفعہ کی جس حیات کا ذکر ہے وہ حیات مطلقہ ‘حیات کاملہ ور پوری حیات ہے اور ایسی حیات یا تو دنیا میں ہوتی ہے اور یا قیامت کے دن ہو گی اور اس حیات کی علامت یہ ہے کہ اس میں روح تمام بدن میں سرایت کئے ہوئے ہوتی ہے اور روح بدن کی تدبیر اور اس میں تصرف کرتی ہے اور ایسی مطلق اور کامل حیات میں بدن کو حادۃً خوراک ‘پانی اور لباس وغیرہ جملہ ضروریات کی حاجت پڑتی ہے اور بدن میں حس و حرکت ہوتی ہے اور وہ جنبش کرتا ہے جس کا بخوبی لوگ مشاہدہ کر سکتے ہیں اور اس کی حرکات محسوس ہو سکتی ہیں اور ایسی حیات صرف دو دفعہ ہو گی ۔دنیا میں اور آخرت میں ‘رہی قبر اور برزخ کی حیات تو وہ مطلق اور کامل حیات نہیں بلکہ فی الجملہ اور نوع من الحیو ۃ ہے ۔اس میں روح کا اتصال ‘ربط اور تعلق بدن عنصری کے اہم اجزاء کے ساتھ ہوتا ہے جن سے فہم و شعور اور قبر کی راحت و کلفت کا دراک ہو سکے اور اس حیات میں بدن عنصری نہ تو خوراک اور لباس وغیرہ کا محتاج ہوتا ہے اور نہ ظاہری طور پر حسو حرکت اور جنبش کرتا ہے جس کا مشاہدہ کیا جا سکے اور اس معنی کو نہ سمجھتے ہوئے معزلہ وغیرہ باطل فرقوں کو عذاب قبر اور راحت قبر ک بارے میں بڑی الجھنیں پیدا ہوئیں مگر حقیقت کو وہ نہ پا سکے اور اہل حق سنت کی پیروی کی بدولت اس راز کو پا گئے اور ان کے لئے اس میں کوئی دقت باقی نہ رہی۔(تسکین الصدور ص۱۱۸‘۱۱۹ طبع ۲)
اللہ تعالیٰ نے عدم کو بھی موت ہی سے تعبیر کیا ہے حالانکہ ابھی جب کہ انسان پیدا بھی نہیں ہوا تو اس پر موت بک آئی ؟پھر زندگی کے بعد موت آئے گی اور روح اور جسم عنصری میں سفارقت ہو گی تو یہ حقیقی موت ہے ۔ایمان لانا ہے ۔وہ ۔شخص مومن نہیں ہے کہ جو بعض باتوں کو مانے اور بعض کا انکار کرے۔
 
Top