64:علیین وسجین
جناب براء ن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ بھی آتا ہے :۔
’’ (مومن کے لئے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کے نامہ اعمال کو مقام علیین میں رکھو اور اس کو زمین کی طرف لے جائو……پس اللہ تعالیٰ( کافر کی روح کے بارے میں ) اس کے نامہ اعمال کو سجین میں رکھو جو نیچے زمین میں ہے ……‘‘۔
قرآن کریم میں بھی ہے کہ علیین میں نیک انسانوں کے اعمال نامے رکھے جاتے ہیں اور سجیین میں گناگاروں کے البتہ سلف میں سے بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ علیین ساتویں آسمان کے اوپر ایک مقام ہے جہاں نیک انسانوں کے اعمال ناموں کے علاوہ ان کی روحیں بھی رکھی جاتی ہیں اور علیین درحقیقت جنت ہی کا ایک مقام ہے اسی طرہ سجیین ساتویں زمین کے نیچے ایک مقام ہے جہاں گناہگاروں کے اعمال ناموں کے علاوہ ان کی روحیں بھی رکھی جاتی ہیں اور سجین بھی درحقیقت جہنم ہی کے ایک مقام کا نام ہے مگر ملیین اور سجین کی تفصیلی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا لیکن موصوف اس بات کو تسلیم نہیں کرتے چنانچہ لکھتے ہیں:۔
حیرت کی بات ہے کہ یہی حضرات جو امام احمد بن حنبل کی اس بات کو صحیح مانتے ہیں کہ ملک الموت کے روح کو قبض کرنے کے بعد اسی قبر کے مردہ کے جسم میں لوٹا بھی دیا جاتا ہے اور وہ پھر زندہ ہو جاتا ہے ۔دوران گفتگو یہ بھی کہنے لگتے ہیں کہ نیک انسانوں کی روحیں علیین اور برے لوگوں کی سجین میں رکھی جاتی ہیں اور احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس تضاد بیانی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔روحیں اگر قبض کرنے کے بعد مرنے والوں کے جسموں میں پھر لوٹا دی گئیں تو اب روحیں بچی کہاں کہ علیین اور سجین میں رکھی جائیں۔پھر اگر کہا جائے کہ علیین اور سجین روحوں کے رہنے کی جگہیں نہیں بلکہ نیکو کاروں اور بدکاروں کے اعمالناموں کے دفتر ہیں۔
جسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔
۱۔
’’ کلا ان کتب الفجار لفی سجین ۔وما ادرک ما سجین ۔کتب مرقوم‘‘۔
(المطففین ایات ۷‘۸‘۹)
ترجمہ : ہر گز نہیں فاجروں کے اعمالنامے سجین میں ہیں اور تم کیا جانو کہ سجین کیا ہے۔وہ ایک کتاب ہے لکھ ہوئی ہے۔
۲۔
’’کلا ان کتب الابرار لفی علیین ۔ومام ادرک ما علیون کتاب مرقوم ۔یشھدہ المقربون‘‘۔(المطففین ایات ۱۸‘۱۹‘۲۰‘۲۱)
ترجمہ : ہر گزنہیں بیشک نیکو کاروں کے اعمالنامے حلیین میں ہیں اور تم کیا جانو کہ علیین کیا ہے وہ ایک کتاب لکھی ہوئی ۔اس کی نگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں۔
تو منہ دیکھنے لگ جاتے ہیں گویا یہ بات پہلی مرتبہ آج ہی سنی ہے۔
(عذاب قبر ص۲۱‘۲۲)
سلف صالحین نے علیین و سجین کو اعمال ناموں کے دفاتر کے علاوہ روحوں کا جو مسکن بھی کہا ہے تو ان کی یہ بات بالکل بے دلیل نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر بھی کچھ احادیث و آثار موجود ہیں چنانچہ اس حدیث میں علیین کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:۔
عربی……………………………
’ ’ بے شک علیین والوں میں سے ایک شخص جنت والوں کو جھانکے کا گویا کہ وہ ایک روشن ستارہ ہے اور بے شک ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی انہی میں شامل ہیں اور (مرتبہ و مقام کے لحاظ سے ان سے بھی بہتر ہیں‘‘۔
گویا جنت کا اعلی ترین مقام علیین ہے جس میں جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسی ہستیاں بھی موجود ہیں اس روایت کی سند بھی صحیح ہے اس کے ایک راوی یونس بن ابی اسحق رحمتہ اللہ علیہ صحیح مسلم ‘ترمذی‘ابودائود‘ نسائی‘ابن ماجہ وغیرہ کے راوی ہیں ان کے متعلق حافظ ابن حجر العسقلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔
’’ صدوق بھم قلیلا‘‘ صدوق بھی اور انہیں تھوڑا وہم ہوا ہے۔
(تقیرب التہذیب ج۲ ص۸ ۳۴ رقم ۷۹۲۸)
ان پر کچھ جرح بھی ہے علامہ ذہبی رحمتہ اللہ علیہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
’’ بل ھو صدوق مابہ بائس ‘‘(میزان الاعتدال ج۴ ص۴۸۳)بلکہ وہ صدوق بھی اور اس میں کوئی حرج نہیں۔اس حدیث کے دوسرے راوی سلم بن قتیبہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔حافظ صاحب فرماتے ہیں وہ صدق ہیں۔
(تقریب ج۱ص۳۷۴ رقم ۲۴۸۷)
اس حدیث کی تائید میں بھی بہت سی روایات موجود ہیں۔
عربی…………………
’’ ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک جنت والے البتہ علیین والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسا کہ تم روشن سترے کو آسمان کے افق پر دیکھتے ہو اور بے سک ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ انہیں میں شامل ہیں اور (ان سے) بہتر (مقام) پر ہوں گے‘‘۔
جناب اسماعیل بن ابی خالد رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ وہ مجالد کیساتھ غالیچہ کے فرش پر بیٹھے ہوئے تھے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ عطیہ العوض نے گواہی دی کہ جناب ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا۔
اس حدیث کا ایک راوی مجالدین سعید ہے جو اگرچہ ضعیف ہے اور امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی حدیث شواہد اور متابعت کے طور ذکر ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے راوی کی حدیث بطور متالعت کے ذکر کی جا سکتی ہے لہذا ہم نے اس روایت کو بطور متابعت کے ذکر کیا ہے ۔اس روایت کا دورا شاہد عطیۃ بن سعد بن جنادۃ العوفی الکوفی کی روایت ہے حافظ صاحب لکھتے ہیں ۔’’صدوق یخطی کثیرا کان شیعیا مدلسا ‘‘۔
(تقریب ۱/۶۷۸)
مختصر یہ کہ یہ راوی بھی ضعیف ہے البتہ اس کی روایت بھی بطور شاہد کے ذکر کی جا سکتی ہے ۔عطیہ عوفی کی روایت کے علاوہ
مسند احمد (۳/۵۰) سنن ابی دائود کتاب الحرون والقرائت حدیث نمبر ۱۹ (اس حدیث کے الفاظ اوپر نقل کردہ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق ہیں ) ۔المعجم الاوسط (ج۲ ص۷۶۳ رقم ۱۷۹۹ ج۲ ص۲۲۹ رقم ۵۴۸۳)شرح السنۃ (ج ۱۴ ص۱۰۰ رقم ۳۸۹۳) مشکوٰۃ المصابیح (ج۳ ص۱۷۰۹ رقم ۲۰۴۹) میں بھی عطیہ عوفی کی روایت موجود ہے ۔
ان روایات کی اصل صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہی موجود ہے اور وہ حدیث یہ ہے۔
’’ جناب ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جنتی اپنے اوپر کے بالا خانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم اس روشن ستارا کو دیکھتے ہو جو طلوع و غروب کے وقت آسمان کے افق میں ہوتا ہے اور یہ بالا خانے بزرگی اور فرق مراتب کے سبب سے ہوں گے جو جنتیوں کے درمیان پایا جائے گا ۔صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ بالا خانے انبیاء علیہم السلام کے مکانات ہوں گے اور انبیاء علیہم السلام کے سوا ان میں کوئی نہ جا سکے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان میں وہ لوگ جا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کی تصدیق کی ۔
(بخاری و مسلم)
(صحیح بخاری ج۱ ص۴۶۱ صحیح مسم ج۲ بحوالہ المصابیح باب صفۃ الجنۃ واھلھا)
اس طرح کی ایک روایت جناب سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے
صحیح مسلم (ج۲ ص۳۷۸) میں موجود ہے۔
یہ روایت بھی جناب ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے ہے اور اس میں اہل علیین کے بجائے اھل الغرف (بالا خانہ والے) کے الفاظ آئے ہیں ۔گویا اھل الغرف کی وضاحت دوسری صحیح حدیث میں اھل علیین سے کی گئی ہے ۔ان احادیث سے واضح ہو گا کہ علیین نیک لوگوں کے اعمال ناموں کے دفاتر کے علاوہ ان کے مسکن کا بھی نام ہے اور یہ جنت کے اعلی ترین مقامات ہیں اور کسی شعبہ سے تعلق رکھنے والے دفاتر عموماً اس شعبہ کے ساتھ ہی منسل ہوتے ہیں ۔اس سے الگ او دور واقع نہیں ہوتے۔
جناب قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں ۔سجین کی وجہ تسہیہ یہ ہے کہ کافروں کی روحیں وہاں بند کر دی جاتی ہیں اور سجین کے معنی حبس (قید خانہ) ہے سجین ساتویں زمین یا ساتویں زمین کے نیچے ہے ۔ابن مندہ ‘طبرانی اور ابو الشیخ نے حمزہ بن حبیب کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارواح اہل ایمان کے متعلق دریافت کیا گیا فرمایا سبز پرندوں (کی شکل) میں جنت کے اندر جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی پھرتی رہتی ہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کفار کی روحیں (کہاں ہوتی ہیں) فرمایا سجین میں جذ ہوتی ہیں ۔ابن مبارک ‘حکیم ترمزی ‘ابن ابی الدنیا اور ابن مندہ نے بروایت سعید بن المسیب ‘حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ کافر کی روح سجین میں ہوتی ہے ۔بغوی نے لکھا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ‘قتادہ رحمتہ اللہ علیہ مجاہد ‘ ضحاک نے بیان کیا کہ سجین سب سے نچلی ساتویں زمین میں ہے جس میں کافروںکی روحیں ہوتی ہیں میں کہتا ہوں ابن ابی الدنیا نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی قول نقل کیا ہے ۔
(تفسیر مظہری اردو ترجمہ جلد ۱۲ ص۳۳۶)
مولانا عبد الرشید نعمانی رقمطراز ہیں :۔
’’ اول جمہور مفسرین کا قول ہے کہ یہ شے معین کا علم ہے پھر اس سے شے معین میں اختلاف ہے ‘اکثر تو اس طرف ہیں کہ ساتویں زمین پر زمین ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ (کا بردایت عطا نیز) قتادہ ‘مجاہد ‘ضحاک اور ابن زید کا یہی قول ہے ۔حضرت براء رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سجین ساتویں زمینوں میں سے نیچے ہے ۔عطا خراسانی کا بیان ہے کہ ابلیس اور اس کی ذریت اسی میں ہے اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سجین جہنم میں ایک گڑھا ہے کلبی اور مجاہد نے کہا کہ سجین ساتویں زمین کے نیچے ایک چٹان ہے۔
(لغات القرآن جلد ۳ ص۱۸۶۸۸۵)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :۔
علیین والے اوپر ہی اوپر امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں
’’ آیۃ شریفہ لفی علیین ‘‘ میں بعض تو علیین کو سب سے اعلیٰ جنت کا نام بتاتے ہیں جس طرح سے کہ سجین سب سے بدتر دوزخ کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ درحقیقت وہاں کے رہنے والوں کے نام ہے اور عربیت کے لحاظ سے یہی معنی زیادہ قریب ہیں ۔کیونکہ یہ جمع ذوی العقول کے ساتھ مخصوص ہے یہ لوگ اس کو علی بروزن بطیخ کی جمع بتاتے ہیں اور معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ابرار بھی ان ہی لوگوں کے زمرہ میں ہوں گے (یہ قول گویا اوپر نقل کردہ ابو سعید الخدری رحمتہ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق ہے ۔عبد اللہ اس صورت میں یہ آیت
فائلئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصر یقین والشھدء الصلحین سو وہ ان کے ساتھ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بختوں کے ساتھ کی طرح ہو گی ۔
(ایضاً جلد ۴ ص۳۵۵)
جمہور علمائے اسلام نے علیین اور سجین کی ہی تفصیلات بیان کی ہیں ااور آج تک کسی نے ان کا انکار نہیں کیا۔بلکہ مولانا محمد حسین نیلوی صاحب نے ندائے حق میں بھی ہی تفصیل بیان کی ہے جو عذاب حق وغیرہ کے سلسلہ میں موصوف کے ہم فرما ہیں اور جن کی کتابوں سے موصوف نے بہت کچھ نقل کیا ہے ۔اسی طرح مولانا غلام اللہ خان صاحب کا بھی یہی مسلک ہے مگر اس کے باوجود ان بزرگوں نے اپنے مخالفین کو مشرک و کافر قرار نہیں دیا۔علمی طور پر کسی مسئلہ میں جمہور علماء کرام سے اختلاف کرنا ایک بات ہے اور اختلاف کی بناء پر دوسروں پر کفر و شرک کے فتوے داغنا دوسری بات ہے۔
یہ قدرتی بات ہے کہ بڑے بڑے علماء کے درمیان بعض مسائل نے معرکتہ الآرا ء مسائل کی حیثیت ضرور اختیار کی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے عدل و انصاف اور اتدال کو ہاتھ سے نہ جانے دیا انہون نے نہ تو اپنے مخالفین پر کوئی فتویٰ لگاا اور نہ ہی ان کو برا بھلا کہا بلکہ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئے اور غیبت میں بھی ان کا عہدہ الفاظ میں تذکرہ کیا۔مگر یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ذرا کسی نے ان سے کسی مسئلہ میں اختلاف کیا تو ان کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا اور بغض و عداوت اور نفرت کے آثار چہرے پر دکھائی دینے لگے اور فتوئوں کی وہ بارش شروع ہوئی کہ جو ایک مرتبہ غلطی سے اس طرف گیا دوسری مرتبہ وہاں جانے کی سکت ہی اس میں باقی نہ رہی ۔اصل بات یہ ہے کہ بقول شخص ’’ ظرف جو خالی ہو صدا دیتا ہے‘‘ ان کے پیر مغاں کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے بھی احادیث نبویہ کا صحیح اور گہرا مطالعہ نہیں کیا ہے او اگر چند احادیث کی معرفت ان کو حاصل بھی ہے توانہیں بھی اس طرح مانتے ہیں کہ جو احادیث ان کے نظریات سے ٹکراتی ہیں ان کو نہیں مانتے اور ان احادیث کو اس حد تک جھٹلاتے ہیں کہ حدیث کے مئولف تک پر شرک و کفر کے فتوے لگا دیتے ہیں ۔امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ پر کبھی خواب کے ایک مسئلہ کی بناء پر مشرک کا فتویٰ لگایا گیا ہے ۔