50:قبر کی وسعت اور تنگی
قبر کی وسعت اور تنگی کے متعلق بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں یہ اور بات ہے کہ موصوف ان سب کو نہ ماننے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں ۔موصوف چاہتے ہیں کہ قبر میں راحت یا عذاب کے جو مناظر پیش آتے ہیں وہ سب ان کو نظر آنے چاہئیں ورنہ وہ ان پر ایمان لانے کے ئے تیار نہیں۔تو ہم ان کو ضمانت دیتے ہیںکہ جب وہ قبر میں اتارے جائیں گے تو ان شاء اللہ تمام مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور انہیں عین الیقین حاصل ہو جائے گا ۔البتہ جہاں تک دلائل کا تعلق ہے وہ ہم ابھی عرض کرتے ہیں مگر پہلے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعے کے متعلق کچھ عرض کریں گے۔موصوف نے جو مسنداحمد کی روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ منر ہے تو بلاشبہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی محمود بن محمدبن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموع ضعیف ہیں۔
(مرعاۃ جلد ۱ ص۲۳۱)مگر جناب اس سلسلہ میں صحیح احادیث بھی موجود ہیں اور مسند احمد پر نکارت کا الزام لگا کہ دوسری صحیح احادیث سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ہے چنانچہ جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ (سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ) وہ شخص ہے جس کے لئے عرض نے حرکت کی اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ستر ہزار فرشتے (ان کے جنازے میں) حاضر ہوئے ۔ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی اور پھر کشادہ ہو گئی‘‘۔
یہ حدیث صحیح ہے اور قبر کی وسعت اور تنگی سے متعلق نص صریح ہے اس حدیث کی سند یوں ہے۔
عربی………………
۱۔ امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ کے استاد اسحق بن ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ کا پورا سلسلہ نسب یوں ہے ۔اسحق بن ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ بن مخلد الخنطی ابو محمد بن راہویہ المروزی رحمتہ اللہ علیہ ۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ ان کے متعلق تقریب میں لکھتے ہیں۔ثقتہ حافظ مجتہد قرین احمد بن حنبل وہ ثقہ ۔حافظ (حدیث) اور مجتہد ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھی ہیں۔
(تقریب التہذیب ص۲۷)
ان سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ‘مسلم رحمتہ اللہ علیہ ابو دائود رحمتہ اللہ علیہ ‘ ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اور نسائی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے احادیث روایت کی ہیں۔
۲۔ اسحق بن ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ کے استاد عمرو بن محمد الفقزی ابو سعید الکونی رحمتہ اللہ علیہ ہیںیہ بھی ثقہ ہیں۔ان سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں معلق احادیث نقل کی ہیں ان کے علاوہ امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ ‘ابو دائو رحمتہ اللہ علیہ ‘ ترمذی رحمتہ اللہ علیہ ‘نسائی رحمتہ اللہ علیہ اور ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ نے ان سے احادیث روایت کی ہیں۔
( تقریب ص۲۶۲)
۳۔ عمرو بن محمد العنقزی رحمتہ اللہ علیہ کے استاد عبد اللہ بن ادریس ابن یذید بن عبد الرحمن الاودی ابو محمد الکونی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔یہ ثقہ ‘فقیہ اور عابدین ان سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ‘مسلم رحمتہ اللہ علیہ ‘ ابو دائو رحمتہ اللہ علیہ ‘ ترمزی رحمتہ اللہ علیہ ‘ نسائی رحمتہ اللہ علیہ ‘ ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے احادیث روایت کی ہیں۔
(تقریب ص۱۶۷)
۴۔ عبد اللہ بن ادریس رحمتہ اللہ علیہ کے استاد عبید اللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن الخطاب العمری المدنی ابو عثمان رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔یہ ثقہ اور ثبت ہیں۔انہیں امام احمد بن صالح رحمتہ اللہ علیہ ‘امام نافع کے سلسلہ میں سند میں امام مالک رحمتہ اللہ علیہ پر فوقیت دیتے تھے اور امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ (امام الحرج و التعدیل) انہیں امام قاسم رحمتہ اللہ علیہ عن عائشہ رضی اللہ عنہ کے سلسلہ سند میں امام الزہری رحمتہ اللہ علیہ پر فوقیت دیتے تھے۔ ان سے بھی امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ‘ مسلم رحمتہ اللہ علیہ ‘ ابو دائو رحمتہ اللہ علیہ ‘ ترمذی رحمتہ اللہ علیہ ‘ نسائی رحمتہ اللہ علیہ اور ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ نے احادیث روایت کی ہیں۔
(تقریب ص۲۲۶)
۵۔ عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے استاد امام نافع ابو عبد اللہ المدنی رحمتہ اللہ علیہ ‘مولی ابن عمر رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔یہ ثقہ ثبت اور مشہور فقیہ ہیں اور ان سے بھی اسی طرح صحاح ستہ کے مئولفین نے روایات لی ہیں۔
( تقریب ص۳۵۵)
۶۔ امام نافع رحمتہ اللہ علیہ کے استاد عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔پس اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
علامہ الالبانی فرماتے ہیں وسندہ صحیح علی شرط مسلم اور حدیث کی سند صحیح مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔
(مشکوٰۃ المصابیح بتحقیق علامہ الالبانی ص۴۹ طبع بیروت)
جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس صحیح حدیث کے علاوہ عائشہ رضی اللہ عنہ ‘ ابن عباس کی صحیح احادیث بھی اس سلسلہ میں موجود ہیں۔
’’ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیشک قبر کے لئے تنگی ہے اور اگر کوئی تنگی قبر سے نجات پا سکتا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نجات پاتے‘‘۔
(مسند احمد ۔(اس حدیث کے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں ۔مجمع الزوائد جلد ۳ ص۴۶)
’’جناب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے دفن کے دن ان کی قبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اگر کوئی شخص فتنہ قبر یا قبر کے معاملے سے نجات پا سکتا تو البتہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ضرور نجات پاتے اور ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی پھر ان پر کشادہ کر دی گئی‘‘۔
(طبرانی ۔اس حدیث کے تام راوی ثقہ ہیں)(مجمع الزوائد ص۴۷)۔
ان صحیح احادیث کی موجودگی میں اگر جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی
مسند احمد ص۳۶۰‘۳۷۷ والی روایت بھی تائید میں پیش کر دی جائے جسے موصوف نے منکر قرار دیا ہے تو ایک حوالہ کا اور بھی اضافہ ہو سکتا ہے مگر ہم اس روایت کو تائید کے طور بھی پیش نہیں کر رہے ہیں۔ورنہ موصوف توضعیف احادیث حجت اور دلیل کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں ۔اگر احادیث کی کتابوں کی ورق گردانی کی جائے تو اس سلسلہ میں مزید احادیث بھی مل سکتی ہیں ۔اب اتنی صحیح احادیث کی موجودگی میں نامعلوم مسند احمد کی روایت منکر کیسے ہو سکتی؟اس کی وجہ تو عثمانی صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔
ان صحیح احادیث سے ثابت ہوا کہ جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ (جو بہت ہی بلند پایہ صحابی ہیں)پر دفن کے وقت قبر تنگ ہو گئی تھی مگر پھر ہمیشہ کے لئے کشادہ کر دی گئی اور ان پر قبر کی تنگی کی وجہ یہ تھی کہ پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط کے سلسلہ میں ان سے کوتاہی سرزدہو جایا کرتی تھی۔امام البہیقی رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ امیہ بن عبد اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے گھرانے کے بعض افراد سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد موجود ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس سلسلہ میں دریافت کیا توا نہوں نے ارشاد فرمایا کہ وہ پیشاب سے پاکیزگی کے سلسلہ میں کچھ کمی کیا کرتے تھے ۔ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ طبقات الکبریٰ میں بسند
(اخبر شبابۃ بن سواداخبرنی ابو معتر عن سعید المقبری) روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دفن کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی قبر کی تنگی اور دبانے سے بچتا تو سعد رضی اللہ عنہ ضرور بچ جاتے۔حالانکہ انہیں پیشاب کے اثر کی وجہ سے (یعنی جو بے احتیاطی سے پیشاب کرنے میں چھینٹیں پڑ جاتی ہیں ان کی وجہ سے) اس طرح دبایا کہ ان کی ادھر کی پسلیاں ادھر ہو گئیں۔
(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج۱ص۲۳۲۔
اس واقعہ کی پوری تفصیل طبقات ابن سعد‘ مرعاۃ المفاتیح ‘کتاب الروح اور سنن البہیقی وغیرہ میں موجود ہے۔
اوپر دو قبروں والا واقعہ بخاری و مسلم کے حوالے سے گزر چکا ہے جس میں مذکور ہے کہ دو شخصوں کو عذاب قبر چغل خوری اور پیشاب کی چھینٹوں سے پوری طرح احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہا تھا ۔ظاہر ہے کہ یہ قبر والے بھی مسلمان تھے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بھی تھے۔مگر ان دو کوتاہیوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوئے۔
اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قبر کا عذاب پیشاب کی وجہ سے بھی ہوتا ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے:۔
’’تنزھوا من البول فان عامدعذاب القبر منہ‘‘
’’ پیشاب سے بچو کیونکہ قبر کا عذاب اکثر پیشاب ہی کی وجہ سے ہوتا ہے‘‘۔
(علل الحدیث الامام ابن ابی حاتم الرازی (۱‘۲۶) سنن الدارقطنی (۱‘۱۲۷) طبع نشر السنہ ملتان ‘وقال الشیخ الالبانی سندہ صحیح (روا التفصیل ۱‘۳۳)
دوسری حدیث میں ہے :۔
’’اکثر عذاب القبر من البول‘‘
’’ قبر کا عذاب اکثر پیشاب (کی چھینٹوں سے نہ بچنے) کی وجہ سے ہوتا ہے‘‘۔
(مصنف ابن ابی شیبہ (۱‘۱۲۲) سنن ابن ماجہ (۳۴۸) سنن الدارقطنی (۱‘۱۲۸)مستدرک الامام حاکم (۱‘۱۸۳) ‘مسند احمد (۲‘۳۲۶‘۳۸۸‘۳۸۹) وقال الدارقطنی صحیح وقال الحاکمتہ صحیح علی شرط ۔( رواء التفصیل ۱‘۳۱۱) ووقتہ الذھبی (ابو جابر)۔
مرنے کے بعد انسان کو سب سے پہلے قبر کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خوفناک ‘خطرناک اور سخت حالات سے امت کو آگاہ فرمایا ہے۔اسی لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تم مردے ہی دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذاب قبر سنا دے جس طرح کہ میں سنتا ہوں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی قبر کے تصور سے لرزہ براندام رہتے تھے۔جناب عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو (بے اختیار ہو کر) روتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی (آنسوئوںسے) تر ہو جاتی۔عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کے ذکر سے نہیں روتے اور قبر کے تذکرے سے روتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے پس جس نے اس منزل سے نجات پائی اس کی بعد کی مزلیں آسان ہوں گی۔اور جس نے اس منزل سے نجات حاصل نہ کی اسکے بعد کی منزلیں سخت و دشوار ہوں گی۔عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کبھی کوئی منظر قبر سے زیادہ سخت نہیں دیکھا۔
(رواہ الترمذی و ابن ماجہ مشکوٰۃ ص۲۶)
ایک مرتبہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فتنہ کاذکرفرمایا جس میں انسان کو آزمایا جائے گا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (اس کے رونکٹے کھڑا کر دینے والے خوفناک مناظر کا خیال کر کے) دیر تک روتے اور چلاتے رہے۔
(بخاری ۔مشکوٰۃ ص۲۶)
بہرحال اس تفصیل سے ہمارا منشا صرف اتنا ہے کہ قبر کی تنگی اور وسعت حق ہے اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے انگلی رکھ کر بتلا دیا کہ یہی ارضی قبر تنگ اور فراخ کر دی جاتی ہے۔
موصوف نے عطیہ العونی کی روایت کو موضوع ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے مگر ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب موصوف اپنی تقاریر میں اس روایت کو خوب زور وشور سے بیان کیا کرتے تھے مگر اب ان کو معلوم ہوا ہے کہ یہ روایت موضوع ہے اور اس پر اعتقاد رکھنے والا مشرک ہے ۔حالانکہ دوسری صحیح احادیث اس روایت کے اکثر مضامین کی تائید کرتی ہیں۔چنانچہ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ (ایک طویل میں حدیث)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
’’… پھر اس مومن کی قبر کو ستر ستر گز طول و عرض میں کشادہ کر دیا جاتا ہے پھر اس کی قبر کو (انور سے) منور کر دیا جاتا ہے …منافق سے قبر میں سوال وجواب کے بعد زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کو دبا زمین اس کو دبائے گی یہاں تک اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر نکل جائیں گی اور وہ ہمیشہ اس عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے‘‘۔
( وسند حسن وھو علی شرط مسلم التعلیقات علی المشکوٰۃ ج۱ ص۴۷)
ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: وینورلہ کالقمر لیلۃ البدر یعنی (مومن کی قبر کو) اسطرح منور کیا جاتا ہے ۔جیسے چودھویں کا چاند(روشن)ہوتا ہے ۔
(موارد الظمان ص۱۹۹)
۲۔ جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ (ایک طویل حدیث میں )بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
’’ پس ایک پکارنے والا آسمان سے پکار کر کہے گا کہ میرے بندے نے سچ کہا ۔پس اس کے لئے جنت کا فرش بچھائواور اس کو جنت کا لباس پہنائو اور اس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو پس جنت کی طرف دروازہ کھول دیاجائے جس سے ہوائیں اور خوشبوئیں آئیں گئیں ورحدنظر تک اس کی قبر کوکشادہ کر دیا جائیگا‘‘۔
’’ پھر ایک پکارنے والاآسمان سے پکار کر کہے گا یہ جھوٹا ہے اس کے لئے آگ کا فرش بچھائو اس کو آگ کالباس پہنائو اور اس کے لئے جہنم کی طرف سے ایک دروازہ کھول دو ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم سے اس کے پاس گرم ہوائیں اور لوئیں آتی ہیں اور اس کی قبر اس پر تنگ کی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی پسلیاں ادھرنکل آتی ہیں‘‘۔
۳۔ جناب ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ (ایک طویل حدیث میں) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
’’…اس کے بعد ایک کھڑکی دوزخ کی طرف کھول دی جاتی ہے وہ ادھر دیکھتا ہے اور آگ کے شعلوں کو اس طرح بھڑکتا ہوا پاتا ہے کہ ایک کی پلٹ دوسروں کو کھا رہی ہے۔اور اس سے کہا جاتا ہے کہ دیکھ اس چیز کو جس سے اللہ نے تجھ کو بچایا ہے پھر ایککھڑکی جنت کی طرف کھولی جاتی ہے اور وہ جنت کی تروتازگی اور اس کی چیزوں کو دیکھتا اور اسسے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے اس سبب سے کہ تیرا اعتقاد مضبوط اور اس پر تجھ کو کامل یقین تھا۔تو اس (یقین کی) حالت میں مرا اور اسی حالت میں تجھ کو قبر سے اٹھایا جائے گا۔اگر اللہ نے چاہا…پھر (نافرمان کے لئے) جنت کی طرف ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے اور وہ جنت کی تروتازگی اورچیزوں کو دیکھتا ہے اوراس سے کہاجاتا ہے دیکھا اس چیز کیطرف جس کو اللہ نے تجھ سے پھیر لیا پھر جہنم کی طرف کھرکی کھولی جاتی ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ آگ کے تیز شعلے ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے اس شک کے سبب جس میں تو مبتلا تھا اور جس میں تیری وفات ہوئی اور اسی پر ان شاء اللہ تجھ کو قبر سے اٹھایا جائے گا‘‘۔
۴۔ جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی قرع نعالہم والی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:۔
’’ پھر ( اس مومن بندہ سے) کہا جاتاہے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کی طرف دیکھو ۔اللہ نیاسکے بدلے میںتمہیں جنت عطا کی۔وہ شخص یہ دونوں چیزیں دیکھتا ہے ۔قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ اورہم سے بیان کیا گیا کہ اس کی قبر ستر گز چوڑی کر دی جاتی ہے اور قیامت تک سر سبزی سی بھری رہتی ہے‘‘۔
جناب قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول بلا دلیل نہیں ہے بلکہ اوپر کی نمبر۱ ترمذی والی روایت اورنیچے نمبر ۲ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس کی تائید کرتی ہے۔
۵۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی (ایک طویل) روایت میں یہ الفاظ ہیں:۔
’’ پھر اس (مومن) کے لئے جہنم کی طرف سے ایک دروازہ کھولاجائیگا اور اس سے کہا جائے گا کہ اگر تو اللہ کے ساتھ کفرکرتا تو یہ تیرا مقام ہوتا مگر اب جبکہ توایمانلا چکا ہے تو پس تیرا یہ مقام ہے پھر اس کے لئے جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جائے گا تو اس سے کہا جائے گا (ابھی) یہیں (قبر میں) رہو اور اس کی قبر کشادہ کر دی جائے گی‘‘۔
۶۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میںیہ الفاظ آئے ہیں:۔
’’ …(توحید اور رسالت کی گواہی سن کرفرشتے)اس سے کہیں گے تو اسی (سچے عقیدے) پر زندہ رہا اور اسی پر مرا اور اسی پر (ان شاء اللہ قبر سے)اٹھایا جائے گا پھر اس کی قبر ستر ہاتھ پھیلا دی جاتی ہے اور روشن کر دی جاتی ہے اور جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیاجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دیکھ یہ ہے تیرا اصلی ٹھکانا۔اب تو اسے خوشی اور راحت ہی راحت پاک روحوںمیں سبز پرندوں کے قالب میں جتنی درختوںمیں رہتی ہے اوراس کے جسم کو اس مٹی کی طرف لوٹادیا جاتا ہے جس سے وہ پیدا کیا گیاتھا۔
۷۔ صحیح مسلم کی روایت میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے حق میںدعائے مغفرت کے سلسلہ میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
’’(اے اللہ)ان کی قبر ان پرکشادہ کر دے اور اسے نور سے بھر دے‘‘۔
یہ روایت پیچھے مفصل گزر چکی ہے۔
۸۔ بوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت طبرانی میں بھی ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں:۔
’’…اور پھر (مومن کی )قبر کو حد نگاہ تک وسیع کر دیا جاتا ہے…اورکافر کی قبراس پر تنگ کر دی جاتی ہے‘‘۔
’’ یہاںتک کہ اس کی پسلیاں آرپار ہو جاتی ہیں ‘‘۔
قبرکی وسعت کا معاملہ ہرشخص کے درجات کے مطابق ہوگا۔چنانچہ ان احادیث سے ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ عام مومن کی قبر ستر گز فراخ ہوتی ہے اور خواص کے لئے حد نگاہ تک وسیع ہو جاتی ہے۔
جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بچہ دفن کیا گیاپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص تنگی قبر سے نجات پاسکتا تویہ بچہ پاتا‘‘۔
(طبرانی اس حدیث کے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔مجمع الزوائد)
’’جناب انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچہ یا بچی کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص قبر کی تنگی سے بچ سکتا تو یہ بچہ بچ جاتا‘‘۔
(طبرانی ۔اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔مجمع الزوائد)
مقام عبرت ہے کہ بچہ تک بھی قبر کی تنگی سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بچون تک کیلئے عذاب قبر سے محفوظ رہنے کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔چنانچہ جناب وعید بن المسیب رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ:
میں نے ابو ہریرۃ کے پیچھے ایک بچے پر نمازجنازہ پڑھی جس نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا پس میں نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ
دعا من عذاب القبر ۔رواہ مالک پڑھتے ہوئے سنا ’’ اے اللہ اس بچہ کو عذاب قبر
(واسنادہ صحیح التعلیقات الالبانی سے بچا‘‘۔علی المشکوٰۃ المصابیح ج۱ ص۵۳۱)(موطا امام مالک)
اگرچہ قبر کی فراخی یا تنگی کے سلسلہ میں اور روایات بھی لکھی جا سکتی ہیں ہیں مگرہمارا مقصد ان سب روایات کا احاطہ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہمارے بس کی بات ہے۔عطیہ العونی کی روایت میں ستر اثردھے کے ڈسنے کا جوتذکرہ آیا ہے اس کی تائید بھی دوسری روایات سے ہوتی ہے۔
’’ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کافر پر دو اثردھے مسلط کئے جاتے ہیں ایک سر کی طرف سے اور دوسرا پیروں کی طرف سے اور یہ دونوں اسے قیامت تک ڈستے رہتے ہیں‘‘۔
(مسند احمد ‘ یہ حدیث حسن ہے ‘مجمع الزوائد)(مجمع الزوائد ج۳۰ص۵۵)
عطیۃ العونی کی ابو وسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کی طرح ایک روایت سنن دارمی ‘مسند احمد‘ صحیح ابن حبان وغیرہ میں ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے۔مگر اس کی سند میں ایک راوی دارج ہے جو مختلف فیہ ہے اور علامہ ہیثمی رحمتہ اللہ علیہ نے دارج کی اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد)
اسی طرح ایک روایت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جسے امام ابو یعلی رحمتہ اللہ علیہ نے دارج سے روایت کیا ہے ۔(مجمع) یہ دونوں روایتیں عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی موئد بن سکتی ہیں۔البتہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اثردھوں کی تعداد دو ہے جبکہ ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایات میں ان کی تعدادستر ہے ۔ان احادیث سے بھی ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ اثردھوں کی تعداد ہر شخص کے اعمال کے مطابق ہوگی۔