• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
47:حدیث کی سند پر کلام​

صحیح حدیث پر خامہ فرسائی فرمانے کے بعد آخر میں موصوف لکھتے ہیں :۔
مزید براں مسلم کی اس روایت کے متعلق اس کے شارح امام نووی نے شرح مسلم عربی جلد ۱ ص۷۶ پر لکھا ہے ’’ناما حدیث عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فتکلم فی اسنادہ و متنہ ‘‘۔(پس حدیث عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ) تو اس پر اس کی سند اور متن مضمون دونوں پر کلام کیا گیا ہے… اور اس کے راوی ابو عاصم (النلیل ‘ضحاک بن مخلد) کو عقیلی اپنی کتاب الضغفاء میں لائے ہیں اور ثبوت میں یحیٰی بن سعید القطان کا قول پیش کیا ہے۔(الضعفاء للعقیلی ص۱۷۱ )میزان الاعتدال الجز الثانی ص۳۲۵۔(عذاب قبر ص۲۰)
عذاب قبر کے پہلے ایڈیشن میں اس حدیث پر کوئی حرج نہیں کی گئی تھی اور اس کی وجہ غالباً یہ ہو گی کہ چونکہ یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اور اسے ضعیف قرار دینا اتا آسان کام نہیں ہے مگر موصوف نے سوچا ہو گا کہ اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں چنانچہ انہوں نے کسی نہ کسی طرح اس روایت کو ضعیف قرار دے دیا ۔
چنانچہ فرماتے ہیں کہ امام نودی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں فتکلم اس حدیث کی سند اور متن پر کلام کیا گیا ہے حالانکہ بات ایسی نہیں ہے بلکہ امام نودی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح (تشریح) کرنے سے پہلے یہ ارشاد فرما رہے ہیں ۔’’فام حدیث عمرو بن العاص فتکلم فی اسنادہ و متنہ ‘‘۔ہم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند اور تمن پر بات کریں گے یعنی اس کی تشریح بیان کریں گے اور آگے انہوںنے اس حدیث کے رایوں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس حدیث سے بہت سے مثال بھی اخذ کئے ہیں۔مثلاً فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے فتنہ قبر اور فرشتوں کا قبرمیں (میت سے)سوال و جواب کرنا ثابت ہوتا ہے اور یہی اہل حق کا مسلک ہے اور دفن کے بعد قبر کے قریب کھڑے ہونے کا ستحباب بھی ثابت ہوتا ہے۔وغیرہ مگر ہائے افسوس کہ عثمانی صاحب کو ان کے نظریاتنے ایسا اندھا کر دیا ہے کہ انہوں نے فن دیداری کا گر استعمال کرتے ہوئے جمع متکلم مضارع معروف کے صیغے کو واح مذکر غائب ماضی مجہول کا صیغہ بنا دیا اور اس طرح انہوں نے ایک عظیم خیانت کا ارتکاف کر کے یہود کا ریکارڈ بھی توڑ دیا کیونکہ وہ بھی یحرفون الکلم عن…۔

جس راوی پر انہوں نے خواہ مخواہ جرح کی ہے وہ ابوعاصم النبیل ضحاک بن مخلد رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور یہ اعلیٰ درجہ کے ثقہ راویوں میں شمارہوتے ہیں۔حافظ ابن عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی مختصر اور بے نظیر کتاب تقریب التہذیب میں ابو عاصم النبیل رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ابو عاصم النبیل رحمتہ اللہ علیہ البصری ثقہ اور ثبت (مضبوط اور پختہ )ہیں (ص۱۵۵) یہ چونکہ انتہائی زیرک اور سمجھدار بھی ہوتے ہیں اور ان کا حافظہ بھی اتنا مضبوط اور پختہ تھا کہ زبانی احادیث بیان کیا کرتے تھے جب کہ موصوف کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی لکھی ہوئی حدیث بھی بھول جاتے ہیں۔صیغہ بدلنے سے جب کام نہ بنا تو موصوف نے نئے ایڈیشن میں لکھ مارا:۔
مزید براں مسلم کی آیت کے متن اور سند دونوں پر کلام ہے متن میں ہے … اس بات میں ہے قرآن کی نفی ہے… سند کے لحاظ سے اس روایت میں ابو عاصم النبیل ضحاک بن مخلد ہے جس کو عقیلی اپنی کتاب ضعفاء میں لائے ہیں اور ابو العباس بناتی نے یحیٰ بن سعید القطان کا قول پیش کر کے یہیدعویٰ کیا ہے کہ وہ ضعیف ہے ۔مصنف العقیلی ورق ۱۷۱ میزان الاعتدال ج۲چ۳۲۵۔
موصوف کے نزدیک قبر میں سوال و جواب کے عقیدہ کو ماننا گویا پورے قرآن کی نفی ہے جبکہ قرآن و حدیث اور اجماع امت سے یہ عقیدہ ثابت ہے صرف باطل پرستوں اور بدعتی فرقوں نے اسکا انکار کیا ہے اور ان باطل فرقوںمیں موصوف بھی شامل ہیں اور موصوف کا یہ دعویٰ کہ یحیٰ بن سعید رحمتہ اللہ علیہ نے ابو عاصم کو ضعیف قرار دیا ہے ثابت نہیں ہے۔اس کے بعد موصوف نے اپنے رسالہ حبل اللہ میں ابو عاصم النبیل کے متعلق ایک نئی تحقیق پیش کی اور میزان الاعتدال سے نقل کیا۔احد الاثبات تنا کر العضلی وذکر فی کتابہ … ابو عاصم اثبات ہی سے ایک ہے ۔مکی عقیلی نے اسے منکر بتایا ہے اور اس کا ذکرکیا ہے اپنی کتاب (الضعفائ) میں…(حبل اللہ ص۱۰۹خاص نمبر مجلہ نمبر ۳) احد الاثبات یعنی ثبت راویوں میں سے ایک ہی اور ثبت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اعلی درجہ ثقہ راوی ہیں۔ تنا کر الصقیلی کا ترجمہ موصوف نے کیا کہ عقیلی نے اسے منکر بتایا ہے ۔یہان کیجہالت ہے اور اصول حدیث سے نا واقفی کی دلیل ہے۔تناکرکا مطلب لم یعرف یعنی علامہ ذبعی رحمتہ اللہ علیہ بتارہے ہیں کہاابو آصم النبیل نو اعلی درجہ کے ثقہ ہیں لیکن امام عقیلی رحمتہ اللہ علیہ ‘انہیں نہیں پہچان اس کیااور غلطی سے ان کا ذکر اپنی کتاب الضعفاء میں کر دیا ہے موصوف کا مبلغ علم او اسی کی بنیاد پر وہ تمام محدثین کرام کو کافر قرار دینے پرتلے ہوئے ہیں ۔مکمل تفصیل کے لئے ہماری کتاب الدین الخالص دوسری قسط ص۱۴۰ ملاحظہ فرمائیں۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
48:حدیث ان ہذہ القبور …پر اعتراض​

جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ ایک کالی عورت تھی جو مسجدکی خدمت کیا کرتی تھی یا ایک جوان تھا ۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) اسے موجودنہ پایا تو دریافت کیا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ مر گیا ہے۔ (اور ہم نے اسے دفن کر دیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی؟ گویا کہ انہوں (صحابہ رضی اللہ عنہ ) نے اس معاملہ کو اتنااہم نہ سمجھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس کی قبر بتائو‘ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی قبر بتلادی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبرپر نماز پڑھی پھر فرمایا:۔
’’یہ قبریں قبر والوںپر اندھیرا کئے رہتی ہیں اوراللہ تعالیٰ ان قبروں کو میری نماز کی وجہ سے ان پر روشن کر دیتا ہے‘‘​
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر کھرے ہو کر اور ان ھذاہ القبور (اس میں شک نہیں کہ یہ قبریں) اسم اشارہ قریب استعمال کر کے بتا دیا کہ یہ (ارضی )قبریں تاریکی سے بھری ہوتی ہیں ۔کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر کھڑے ہو کر اور اس کی طرف واضح الفاظ میں اشارہ کرنے کے باوجود اس قبر کے بجائے کوئی برزخی قبر مراد لی ہو مگر موصوف کو اس واضح حدیث کے باوجود بھی اصرار ہے کہاس سے مراد برزخی قبرہی ہے (بقول شخصے مرغ کی وہی ایک ٹانگ)چنانچہ لکھتے ہیں:۔
’’ مسلم کی ایک اور روایت لائی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر نمازادا فرمائی اور کہا کہ ان قبروں کے اندھیروں کو اللہ تعالیٰ میری دعا (اصلاتی) سے نورانی کر دیتا ہے الفاظ یوں ہیں۔ان ھذاالقبور مملوۃ طلمۃً علی اھلھا وان اللہ نیورھا لھم بصلاتی علیھم۔(مسلم جلد ۱ص۳۱۰‘۳۰۹)اگر اس سے یہی دنیاوی قبر مراد لی جاوے تو پھرتو ایک ایک قبر میں بے حساب مردے دفن ہوتے ہیں کوئی نیک کوئی بد۔بر ایککو اس کے نور فائدہ پہنچے گا۔اور اگر اصل بات یعنی برزخ کی قبر مان لیا جائے تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا۔غرض ہر صحیح روایت کے مختلف معنوں میں سے صرف اپنے پسندیدہ معنی لے کر لوگوں نے دنیاوی قبر میں مردہ کو زندہ کر دکھایا ہے ۔یہ ان حضرات کا کمال ضرور ہے لیکن افسوس یہ نہ دیکھا کہ اس طرح نصوص قرآنی اور واضح ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو انکارلازم آئے گا اس کا علاج کیا ہو گا‘‘۔(عذاب قبر ص۲۱)

جب انسان غیب پر ایمان لانے کے بجائے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتمیں عقلی گھوڑے دوڑانے لگتا ہے تو پھر وہ راہ حق سے گمراہ ہو جاتا ہے۔موصوف ہر جگہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں عقلی ڈھکوسلے بیان کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کا انکار بھی کرتے ہیںاور دوش دوسروں کو دیتے ہیں کہ دوسرے لوگ قرآن وحدیث کو جھٹلاتے ہیں ۔اسے کہتے ہیں الٹی گنگابہنا۔موصوف کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایک ایک قبرمیںچاہے بے شمارمردے دفن ہوںمگرہرایک کامعاملہ اپنے عقیدہ اور عمل کے مطابق الگ الگ ہوگا۔ مومن کی قبر کا وہ مقام نور سے منور ہو جائے گا اور حد نگاہ تک کشادہ بھی ہو جائے گا جبکہ اس کے برخلاف مشرک اور فاسق و فاجر کی قبر کا وہ مقام ظلمت سے بھر جائے گا اور اس پر تنگ بھی ہوگا۔ مگر مومن اور کافر کے درمیان پردہ حائل ہو جائیگا۔البتہ اس وسعت و تنگی اور نورد ظلمت کو ہم محسوس نہیںکر سکتے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام حقیقتیں ہم سے پردہ غیب میں رکھی ہیں۔عالم بالا کے حالات کو دنیاوی پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا ورنہ قیامت کے روزجو نیکی و بدی کے اعمال تو لے جائیں گے ان پر بھی اعتراض لازم آئے گااورسوال پیداہو گا کہ اعمال کس طرح تولے جائیں گے؟اور انکے تولے جانے کی کیا صورت ہو گی؟ جس طرح معتزلہ (عقل پرست فرقہ) نے اس کا انکار کیا ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
49:نور کا مشاہدہ​

مومن کو جونور ایمان دنیا میں بھی عطا کیا جاتا ہے اسے بھی کوئی محسوس نہیںکر سکتا اور اسی طرح کا ظلمتوں میں گرا رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
’’ کیا وہ شخص جوپہلے مردہ (مشرک) تھا پھر ہم نے اس کوزندگی بخشی اور اس کووہ نورعطاکیا جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح ان (ظلمتوں) سے نکلتا ہو؟ کافروں کے لئے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دئیے گئے ہیں‘‘۔
قیامت کے دن یہ نور اہل ایمان کو نظر آئے گا جس طرح کہ وہ قبر میں اس کا مشاہدہ کرتا ہے مگر کافر یا منافق اس سے فائدہ اٹھانے پر قادر نہ ہوں گے۔

’’ اس دن جبکہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا( ان سے کہا جائے گا) آج بشارت ہے تمہارے لئے۔جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوںگی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔یہی ہے بڑی کامیابی۔اس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہو گا کہ ہم وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تا کہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں مگر ان سے کہا جائے کہ پیچھے ہٹ جائو اور اپنا نور کہیں اور تلاش کرو۔پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا اس دروازے کے اندر رحمت ہو گی اور باہر عذاب ‘ وہ مومنوں سے پکار پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ مومن جواب دیںگے ہاں مگر تم نے اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈالا ۔موقع پرستی کی شک میں پرے رہے اور جھوٹی توقعات تمہیں فریب دیتی رہیں یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آ گیا اور آخر وقت تک وہ بڑا دھوکہ باز تمہیں اللہ کے معاملہ میں دھوکا دیتا رہا‘‘۔
ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دعا بھی اس سلسلہ میں آئی ہے ۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہ کہتیں کہ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں (موت کے وقت )پتھرا گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریفلائے اور اپنے ہاتھ سے ان کی آنکھیں بند کیں اور پھر فرمایا جب روح قبض کی جاتی ہے تو اس کی بینائی بھی روح کے ساتھ چلی جاتی ہے ۔ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے یہ سن کر سمجھ گئے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا اور وہ رونے چلانے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے نفسوں پر بھلائی کے سوا اور کوئی دعا نہ کرو اس لئے کہ اس وقت جو کچھ تمہاری زبان سے نکلتا ہے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

’’ اے اللہ ! ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو بخش دے اور ان کا مرتبہ بلند فرما کر ان لوگوں میں ان کو شامل فرما دے جن کو راہ مستقیم دکھائی گئی ہے اور ان کے پسماندگان کی کارسازی فرما اور اے تمام جہانوں کے پروردگار ہم کو اور ان کو بخش دے اور ان کی قبر میں کشادگی فرما اور اس کو (انور سے) منورکر دے۔
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے لئے قبر کو کشادہ کرنے اور قبر کونور سے منور کر دینے کی دعا فرمائی۔ثابت ہوا کہ مومن کی قبر کو اللہ تعالیٰ نور سے منور فرما دیتا ہے اور کافر یا مافق کی قبر ظلمت سے بھر دی جاتی ہے اور اسے تنگ کر دیا جاتا ہے مگر موصوف کو یہ بات تسلیم نہیں چنانچہ لکھتے ہیں۔
’’ اسی طرح ’’ قرع نعال‘‘ کی بخاری کی حدیث میں قتادہ کا یہ اضافہ کہ : وذکرلنا انہ یفسح لہ فی قبرہ۔(ہم سے ذکر کیا گیا کہ اس کی (مومن کی)قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے ‘سے یہی دنیاوی قبر مراد لینا صحیح نہیں ہے اس زمین کے حدود اربعہ میں تغیر کی گنجائش کہاں‘‘۔(عذاب قبر ص۱۸)
آگے لکھتے ہیں:۔
اب عطیہ اور اس کے استاد جعلی ابو سعید ’’ الکلبی‘‘ کی اس روایت سے یہ استدلال کہ قبر کے دو گز زمینی گڑھے میں روح پھر واپس آ جاتی ہے اور مردہ زندہ ہو کر دیکھنے سننے اور سمجھنے لگتا ہے ۔مومن ہے تو اس کی قبر کے حدوداربعہ میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہو جاتا ہے ۔یہ قبر حد نگاہ تک وسیع ہو جاتی ہے جنت کی کھڑکی اس میں کھل جاتی ہے ۔اور اگر فاجرو کافر ہے تو یہی قبر دباتی ہے یہاں تک کہ دونوں طرف کی پسلیاں ایک دوسرے میں داخل ہو جاتی ہیں اور ستر زہریلے اثردے مسلط کر دئیے جاتے ہیں جو اسے قیامت تک ڈستے اور بھنبھوڑتے رہیں گے اور ہر ایک ان میں سے ایسا زہریلا ہے کہ اگر زمین میں اگر پھونک مار دے تو قیامت تک زمین کوئی چیز نہ اگا پائے کہا جائے کہ ایک قبر میں اگر مومن اور کافر دونوں کے بدن کے اجزاء موجود ہیں تو کیا دونوں پر جنت کی ہوائیں چلیں گی اور دونوں کو زمین دبائے گی ‘مومن کے بارے میں تو یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے تو فوراً مسند احمد کی منکر روایت پیش کر دی جاتی ہے کہ کیا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو زمین نے نہیں دبایا تھا ۔معاذ اللہ جس صحابی رضی اللہ عنہ کی موت پر بخاری کی حدیث یہ بیان کرے کہ عرض الہی جنبش میں آ گیا اس کے ساتھ قبر کی زمین کا یہ سلوک۔ حالانکہ عطیہ کی اس جھوٹی روایت کے لحاظ سے تو اس کو حد نگاہ تک وسیع ہو جانا چاہئے تھا ۔کیا طرفہ تماشا کیا بو العجبی ہے‘‘۔(عذاب قبر ص۲۵)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
50:قبر کی وسعت اور تنگی​

قبر کی وسعت اور تنگی کے متعلق بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں یہ اور بات ہے کہ موصوف ان سب کو نہ ماننے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں ۔موصوف چاہتے ہیں کہ قبر میں راحت یا عذاب کے جو مناظر پیش آتے ہیں وہ سب ان کو نظر آنے چاہئیں ورنہ وہ ان پر ایمان لانے کے ئے تیار نہیں۔تو ہم ان کو ضمانت دیتے ہیںکہ جب وہ قبر میں اتارے جائیں گے تو ان شاء اللہ تمام مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور انہیں عین الیقین حاصل ہو جائے گا ۔البتہ جہاں تک دلائل کا تعلق ہے وہ ہم ابھی عرض کرتے ہیں مگر پہلے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعے کے متعلق کچھ عرض کریں گے۔موصوف نے جو مسنداحمد کی روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ منر ہے تو بلاشبہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی محمود بن محمدبن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموع ضعیف ہیں۔(مرعاۃ جلد ۱ ص۲۳۱)مگر جناب اس سلسلہ میں صحیح احادیث بھی موجود ہیں اور مسند احمد پر نکارت کا الزام لگا کہ دوسری صحیح احادیث سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ہے چنانچہ جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ (سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ) وہ شخص ہے جس کے لئے عرض نے حرکت کی اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ستر ہزار فرشتے (ان کے جنازے میں) حاضر ہوئے ۔ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی اور پھر کشادہ ہو گئی‘‘۔
یہ حدیث صحیح ہے اور قبر کی وسعت اور تنگی سے متعلق نص صریح ہے اس حدیث کی سند یوں ہے۔
عربی………………
۱۔ امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ کے استاد اسحق بن ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ کا پورا سلسلہ نسب یوں ہے ۔اسحق بن ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ بن مخلد الخنطی ابو محمد بن راہویہ المروزی رحمتہ اللہ علیہ ۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ ان کے متعلق تقریب میں لکھتے ہیں۔ثقتہ حافظ مجتہد قرین احمد بن حنبل وہ ثقہ ۔حافظ (حدیث) اور مجتہد ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھی ہیں۔(تقریب التہذیب ص۲۷)
ان سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ‘مسلم رحمتہ اللہ علیہ ابو دائود رحمتہ اللہ علیہ ‘ ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اور نسائی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے احادیث روایت کی ہیں۔

۲۔ اسحق بن ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ کے استاد عمرو بن محمد الفقزی ابو سعید الکونی رحمتہ اللہ علیہ ہیںیہ بھی ثقہ ہیں۔ان سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں معلق احادیث نقل کی ہیں ان کے علاوہ امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ ‘ابو دائو رحمتہ اللہ علیہ ‘ ترمذی رحمتہ اللہ علیہ ‘نسائی رحمتہ اللہ علیہ اور ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ نے ان سے احادیث روایت کی ہیں۔( تقریب ص۲۶۲)
۳۔ عمرو بن محمد العنقزی رحمتہ اللہ علیہ کے استاد عبد اللہ بن ادریس ابن یذید بن عبد الرحمن الاودی ابو محمد الکونی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔یہ ثقہ ‘فقیہ اور عابدین ان سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ‘مسلم رحمتہ اللہ علیہ ‘ ابو دائو رحمتہ اللہ علیہ ‘ ترمزی رحمتہ اللہ علیہ ‘ نسائی رحمتہ اللہ علیہ ‘ ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے احادیث روایت کی ہیں۔(تقریب ص۱۶۷)
۴۔ عبد اللہ بن ادریس رحمتہ اللہ علیہ کے استاد عبید اللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن الخطاب العمری المدنی ابو عثمان رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔یہ ثقہ اور ثبت ہیں۔انہیں امام احمد بن صالح رحمتہ اللہ علیہ ‘امام نافع کے سلسلہ میں سند میں امام مالک رحمتہ اللہ علیہ پر فوقیت دیتے تھے اور امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ (امام الحرج و التعدیل) انہیں امام قاسم رحمتہ اللہ علیہ عن عائشہ رضی اللہ عنہ کے سلسلہ سند میں امام الزہری رحمتہ اللہ علیہ پر فوقیت دیتے تھے۔ ان سے بھی امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ‘ مسلم رحمتہ اللہ علیہ ‘ ابو دائو رحمتہ اللہ علیہ ‘ ترمذی رحمتہ اللہ علیہ ‘ نسائی رحمتہ اللہ علیہ اور ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ نے احادیث روایت کی ہیں۔(تقریب ص۲۲۶)
۵۔ عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے استاد امام نافع ابو عبد اللہ المدنی رحمتہ اللہ علیہ ‘مولی ابن عمر رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔یہ ثقہ ثبت اور مشہور فقیہ ہیں اور ان سے بھی اسی طرح صحاح ستہ کے مئولفین نے روایات لی ہیں۔( تقریب ص۳۵۵)
۶۔ امام نافع رحمتہ اللہ علیہ کے استاد عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔پس اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
علامہ الالبانی فرماتے ہیں وسندہ صحیح علی شرط مسلم اور حدیث کی سند صحیح مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح بتحقیق علامہ الالبانی ص۴۹ طبع بیروت)
جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس صحیح حدیث کے علاوہ عائشہ رضی اللہ عنہ ‘ ابن عباس کی صحیح احادیث بھی اس سلسلہ میں موجود ہیں۔
’’ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیشک قبر کے لئے تنگی ہے اور اگر کوئی تنگی قبر سے نجات پا سکتا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نجات پاتے‘‘۔(مسند احمد ۔(اس حدیث کے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں ۔مجمع الزوائد جلد ۳ ص۴۶)
’’جناب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے دفن کے دن ان کی قبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اگر کوئی شخص فتنہ قبر یا قبر کے معاملے سے نجات پا سکتا تو البتہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ضرور نجات پاتے اور ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی پھر ان پر کشادہ کر دی گئی‘‘۔(طبرانی ۔اس حدیث کے تام راوی ثقہ ہیں)(مجمع الزوائد ص۴۷)۔

ان صحیح احادیث کی موجودگی میں اگر جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی مسند احمد ص۳۶۰‘۳۷۷ والی روایت بھی تائید میں پیش کر دی جائے جسے موصوف نے منکر قرار دیا ہے تو ایک حوالہ کا اور بھی اضافہ ہو سکتا ہے مگر ہم اس روایت کو تائید کے طور بھی پیش نہیں کر رہے ہیں۔ورنہ موصوف توضعیف احادیث حجت اور دلیل کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں ۔اگر احادیث کی کتابوں کی ورق گردانی کی جائے تو اس سلسلہ میں مزید احادیث بھی مل سکتی ہیں ۔اب اتنی صحیح احادیث کی موجودگی میں نامعلوم مسند احمد کی روایت منکر کیسے ہو سکتی؟اس کی وجہ تو عثمانی صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔
ان صحیح احادیث سے ثابت ہوا کہ جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ (جو بہت ہی بلند پایہ صحابی ہیں)پر دفن کے وقت قبر تنگ ہو گئی تھی مگر پھر ہمیشہ کے لئے کشادہ کر دی گئی اور ان پر قبر کی تنگی کی وجہ یہ تھی کہ پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط کے سلسلہ میں ان سے کوتاہی سرزدہو جایا کرتی تھی۔امام البہیقی رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ امیہ بن عبد اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے گھرانے کے بعض افراد سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد موجود ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس سلسلہ میں دریافت کیا توا نہوں نے ارشاد فرمایا کہ وہ پیشاب سے پاکیزگی کے سلسلہ میں کچھ کمی کیا کرتے تھے ۔ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ طبقات الکبریٰ میں بسند (اخبر شبابۃ بن سواداخبرنی ابو معتر عن سعید المقبری) روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دفن کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی قبر کی تنگی اور دبانے سے بچتا تو سعد رضی اللہ عنہ ضرور بچ جاتے۔حالانکہ انہیں پیشاب کے اثر کی وجہ سے (یعنی جو بے احتیاطی سے پیشاب کرنے میں چھینٹیں پڑ جاتی ہیں ان کی وجہ سے) اس طرح دبایا کہ ان کی ادھر کی پسلیاں ادھر ہو گئیں۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج۱ص۲۳۲۔اس واقعہ کی پوری تفصیل طبقات ابن سعد‘ مرعاۃ المفاتیح ‘کتاب الروح اور سنن البہیقی وغیرہ میں موجود ہے۔

اوپر دو قبروں والا واقعہ بخاری و مسلم کے حوالے سے گزر چکا ہے جس میں مذکور ہے کہ دو شخصوں کو عذاب قبر چغل خوری اور پیشاب کی چھینٹوں سے پوری طرح احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہا تھا ۔ظاہر ہے کہ یہ قبر والے بھی مسلمان تھے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بھی تھے۔مگر ان دو کوتاہیوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوئے۔
اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قبر کا عذاب پیشاب کی وجہ سے بھی ہوتا ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے:۔
’’تنزھوا من البول فان عامدعذاب القبر منہ‘‘
’’ پیشاب سے بچو کیونکہ قبر کا عذاب اکثر پیشاب ہی کی وجہ سے ہوتا ہے‘‘۔(علل الحدیث الامام ابن ابی حاتم الرازی (۱‘۲۶) سنن الدارقطنی (۱‘۱۲۷) طبع نشر السنہ ملتان ‘وقال الشیخ الالبانی سندہ صحیح (روا التفصیل ۱‘۳۳)
دوسری حدیث میں ہے :۔
’’اکثر عذاب القبر من البول‘‘
’’ قبر کا عذاب اکثر پیشاب (کی چھینٹوں سے نہ بچنے) کی وجہ سے ہوتا ہے‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ (۱‘۱۲۲) سنن ابن ماجہ (۳۴۸) سنن الدارقطنی (۱‘۱۲۸)مستدرک الامام حاکم (۱‘۱۸۳) ‘مسند احمد (۲‘۳۲۶‘۳۸۸‘۳۸۹) وقال الدارقطنی صحیح وقال الحاکمتہ صحیح علی شرط ۔( رواء التفصیل ۱‘۳۱۱) ووقتہ الذھبی (ابو جابر)۔

مرنے کے بعد انسان کو سب سے پہلے قبر کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خوفناک ‘خطرناک اور سخت حالات سے امت کو آگاہ فرمایا ہے۔اسی لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تم مردے ہی دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذاب قبر سنا دے جس طرح کہ میں سنتا ہوں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی قبر کے تصور سے لرزہ براندام رہتے تھے۔جناب عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو (بے اختیار ہو کر) روتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی (آنسوئوںسے) تر ہو جاتی۔عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کے ذکر سے نہیں روتے اور قبر کے تذکرے سے روتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے پس جس نے اس منزل سے نجات پائی اس کی بعد کی مزلیں آسان ہوں گی۔اور جس نے اس منزل سے نجات حاصل نہ کی اسکے بعد کی منزلیں سخت و دشوار ہوں گی۔عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کبھی کوئی منظر قبر سے زیادہ سخت نہیں دیکھا۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ مشکوٰۃ ص۲۶)
ایک مرتبہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فتنہ کاذکرفرمایا جس میں انسان کو آزمایا جائے گا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (اس کے رونکٹے کھڑا کر دینے والے خوفناک مناظر کا خیال کر کے) دیر تک روتے اور چلاتے رہے۔(بخاری ۔مشکوٰۃ ص۲۶)
بہرحال اس تفصیل سے ہمارا منشا صرف اتنا ہے کہ قبر کی تنگی اور وسعت حق ہے اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے انگلی رکھ کر بتلا دیا کہ یہی ارضی قبر تنگ اور فراخ کر دی جاتی ہے۔

موصوف نے عطیہ العونی کی روایت کو موضوع ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے مگر ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب موصوف اپنی تقاریر میں اس روایت کو خوب زور وشور سے بیان کیا کرتے تھے مگر اب ان کو معلوم ہوا ہے کہ یہ روایت موضوع ہے اور اس پر اعتقاد رکھنے والا مشرک ہے ۔حالانکہ دوسری صحیح احادیث اس روایت کے اکثر مضامین کی تائید کرتی ہیں۔چنانچہ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ (ایک طویل میں حدیث)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
’’… پھر اس مومن کی قبر کو ستر ستر گز طول و عرض میں کشادہ کر دیا جاتا ہے پھر اس کی قبر کو (انور سے) منور کر دیا جاتا ہے …منافق سے قبر میں سوال وجواب کے بعد زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کو دبا زمین اس کو دبائے گی یہاں تک اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر نکل جائیں گی اور وہ ہمیشہ اس عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے‘‘۔( وسند حسن وھو علی شرط مسلم التعلیقات علی المشکوٰۃ ج۱ ص۴۷)
ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: وینورلہ کالقمر لیلۃ البدر یعنی (مومن کی قبر کو) اسطرح منور کیا جاتا ہے ۔جیسے چودھویں کا چاند(روشن)ہوتا ہے ۔(موارد الظمان ص۱۹۹)
۲۔ جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ (ایک طویل حدیث میں )بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
’’ پس ایک پکارنے والا آسمان سے پکار کر کہے گا کہ میرے بندے نے سچ کہا ۔پس اس کے لئے جنت کا فرش بچھائواور اس کو جنت کا لباس پہنائو اور اس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو پس جنت کی طرف دروازہ کھول دیاجائے جس سے ہوائیں اور خوشبوئیں آئیں گئیں ورحدنظر تک اس کی قبر کوکشادہ کر دیا جائیگا‘‘۔
’’ پھر ایک پکارنے والاآسمان سے پکار کر کہے گا یہ جھوٹا ہے اس کے لئے آگ کا فرش بچھائو اس کو آگ کالباس پہنائو اور اس کے لئے جہنم کی طرف سے ایک دروازہ کھول دو ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم سے اس کے پاس گرم ہوائیں اور لوئیں آتی ہیں اور اس کی قبر اس پر تنگ کی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی پسلیاں ادھرنکل آتی ہیں‘‘۔
۳۔ جناب ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ (ایک طویل حدیث میں) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
’’…اس کے بعد ایک کھڑکی دوزخ کی طرف کھول دی جاتی ہے وہ ادھر دیکھتا ہے اور آگ کے شعلوں کو اس طرح بھڑکتا ہوا پاتا ہے کہ ایک کی پلٹ دوسروں کو کھا رہی ہے۔اور اس سے کہا جاتا ہے کہ دیکھ اس چیز کو جس سے اللہ نے تجھ کو بچایا ہے پھر ایککھڑکی جنت کی طرف کھولی جاتی ہے اور وہ جنت کی تروتازگی اور اس کی چیزوں کو دیکھتا اور اسسے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے اس سبب سے کہ تیرا اعتقاد مضبوط اور اس پر تجھ کو کامل یقین تھا۔تو اس (یقین کی) حالت میں مرا اور اسی حالت میں تجھ کو قبر سے اٹھایا جائے گا۔اگر اللہ نے چاہا…پھر (نافرمان کے لئے) جنت کی طرف ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے اور وہ جنت کی تروتازگی اورچیزوں کو دیکھتا ہے اوراس سے کہاجاتا ہے دیکھا اس چیز کیطرف جس کو اللہ نے تجھ سے پھیر لیا پھر جہنم کی طرف کھرکی کھولی جاتی ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ آگ کے تیز شعلے ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے اس شک کے سبب جس میں تو مبتلا تھا اور جس میں تیری وفات ہوئی اور اسی پر ان شاء اللہ تجھ کو قبر سے اٹھایا جائے گا‘‘۔

۴۔ جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی قرع نعالہم والی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:۔
’’ پھر ( اس مومن بندہ سے) کہا جاتاہے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کی طرف دیکھو ۔اللہ نیاسکے بدلے میںتمہیں جنت عطا کی۔وہ شخص یہ دونوں چیزیں دیکھتا ہے ۔قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ اورہم سے بیان کیا گیا کہ اس کی قبر ستر گز چوڑی کر دی جاتی ہے اور قیامت تک سر سبزی سی بھری رہتی ہے‘‘۔
جناب قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول بلا دلیل نہیں ہے بلکہ اوپر کی نمبر۱ ترمذی والی روایت اورنیچے نمبر ۲ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس کی تائید کرتی ہے۔
۵۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی (ایک طویل) روایت میں یہ الفاظ ہیں:۔
’’ پھر اس (مومن) کے لئے جہنم کی طرف سے ایک دروازہ کھولاجائیگا اور اس سے کہا جائے گا کہ اگر تو اللہ کے ساتھ کفرکرتا تو یہ تیرا مقام ہوتا مگر اب جبکہ توایمانلا چکا ہے تو پس تیرا یہ مقام ہے پھر اس کے لئے جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جائے گا تو اس سے کہا جائے گا (ابھی) یہیں (قبر میں) رہو اور اس کی قبر کشادہ کر دی جائے گی‘‘۔
۶۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میںیہ الفاظ آئے ہیں:۔
’’ …(توحید اور رسالت کی گواہی سن کرفرشتے)اس سے کہیں گے تو اسی (سچے عقیدے) پر زندہ رہا اور اسی پر مرا اور اسی پر (ان شاء اللہ قبر سے)اٹھایا جائے گا پھر اس کی قبر ستر ہاتھ پھیلا دی جاتی ہے اور روشن کر دی جاتی ہے اور جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیاجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دیکھ یہ ہے تیرا اصلی ٹھکانا۔اب تو اسے خوشی اور راحت ہی راحت پاک روحوںمیں سبز پرندوں کے قالب میں جتنی درختوںمیں رہتی ہے اوراس کے جسم کو اس مٹی کی طرف لوٹادیا جاتا ہے جس سے وہ پیدا کیا گیاتھا۔
۷۔ صحیح مسلم کی روایت میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے حق میںدعائے مغفرت کے سلسلہ میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
’’(اے اللہ)ان کی قبر ان پرکشادہ کر دے اور اسے نور سے بھر دے‘‘۔​
یہ روایت پیچھے مفصل گزر چکی ہے۔
۸۔ بوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت طبرانی میں بھی ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں:۔
’’…اور پھر (مومن کی )قبر کو حد نگاہ تک وسیع کر دیا جاتا ہے…اورکافر کی قبراس پر تنگ کر دی جاتی ہے‘‘۔
’’ یہاںتک کہ اس کی پسلیاں آرپار ہو جاتی ہیں ‘‘۔​
قبرکی وسعت کا معاملہ ہرشخص کے درجات کے مطابق ہوگا۔چنانچہ ان احادیث سے ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ عام مومن کی قبر ستر گز فراخ ہوتی ہے اور خواص کے لئے حد نگاہ تک وسیع ہو جاتی ہے۔
جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بچہ دفن کیا گیاپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص تنگی قبر سے نجات پاسکتا تویہ بچہ پاتا‘‘۔(طبرانی اس حدیث کے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔مجمع الزوائد)
’’جناب انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچہ یا بچی کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص قبر کی تنگی سے بچ سکتا تو یہ بچہ بچ جاتا‘‘۔(طبرانی ۔اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔مجمع الزوائد)
مقام عبرت ہے کہ بچہ تک بھی قبر کی تنگی سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بچون تک کیلئے عذاب قبر سے محفوظ رہنے کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔چنانچہ جناب وعید بن المسیب رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ:
میں نے ابو ہریرۃ کے پیچھے ایک بچے پر نمازجنازہ پڑھی جس نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا پس میں نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ دعا من عذاب القبر ۔رواہ مالک پڑھتے ہوئے سنا ’’ اے اللہ اس بچہ کو عذاب قبر (واسنادہ صحیح التعلیقات الالبانی سے بچا‘‘۔علی المشکوٰۃ المصابیح ج۱ ص۵۳۱)(موطا امام مالک)

اگرچہ قبر کی فراخی یا تنگی کے سلسلہ میں اور روایات بھی لکھی جا سکتی ہیں ہیں مگرہمارا مقصد ان سب روایات کا احاطہ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہمارے بس کی بات ہے۔عطیہ العونی کی روایت میں ستر اثردھے کے ڈسنے کا جوتذکرہ آیا ہے اس کی تائید بھی دوسری روایات سے ہوتی ہے۔
’’ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کافر پر دو اثردھے مسلط کئے جاتے ہیں ایک سر کی طرف سے اور دوسرا پیروں کی طرف سے اور یہ دونوں اسے قیامت تک ڈستے رہتے ہیں‘‘۔(مسند احمد ‘ یہ حدیث حسن ہے ‘مجمع الزوائد)(مجمع الزوائد ج۳۰ص۵۵)
عطیۃ العونی کی ابو وسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کی طرح ایک روایت سنن دارمی ‘مسند احمد‘ صحیح ابن حبان وغیرہ میں ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے۔مگر اس کی سند میں ایک راوی دارج ہے جو مختلف فیہ ہے اور علامہ ہیثمی رحمتہ اللہ علیہ نے دارج کی اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔(مجمع الزوائد)
اسی طرح ایک روایت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جسے امام ابو یعلی رحمتہ اللہ علیہ نے دارج سے روایت کیا ہے ۔(مجمع) یہ دونوں روایتیں عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی موئد بن سکتی ہیں۔البتہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اثردھوں کی تعداد دو ہے جبکہ ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایات میں ان کی تعدادستر ہے ۔ان احادیث سے بھی ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ اثردھوں کی تعداد ہر شخص کے اعمال کے مطابق ہوگی۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
51:اعادہ روح​

صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ دفن کے بعد روح کو سوال و جواب کے لئے میت کے جسم کی طرف لوٹایا جاتا ہے مگر موصوف اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے چنانچہ لکھتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ قیامت سے پہلے مردہ جسم میں روح واپس نہیں آ سکتی اور ظاہر ہیکہ بغیر روح کے عذاب و راحت بے معنی ہیں۔(عذاب قبر ص۱۷)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:۔
آخر جب قیامت سے پہلے روح واپس ہی نہیں لوٹتی اور مٹی جسم کو برباد کر دیتی ہے تو اس دنیاوی قبر کے مردہ سے سوال و جواب کیسا اور بغیر روح کے مردہ کا احساس راحت و الم اور اس کے چیخ و پکار کیا معنی؟(عذاب قبر ص۱۱)
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ مردہ کو ارضی قبر میں راحت یا عذاب سے دوچار کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مردہ احساس رکھتا ہے اور راحت و عذاب کو محسوس کرتا ہے مگر یہ تعلق دنیاوی زندگی کی طرح نہیں ہوتا ۔(اس کی کچھ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے) صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ مردہ کو جب دفن کیا جاتا ہے تو سوال و جواب کے لئے اس میں روح لوٹائی جاتی ہے چنانچہ اس سلسلہ میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت سب سے زیادہ مشہور ہے۔
’’ مومن کی روح کو پھر ساتویں آسمان پر پہنچا دیا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے کا نام علیین میں شامل کرو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے ان کو زمین سے پیدا کا ہے اور اسی میں ان کو لوٹائوں گا اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالوں گا ۔پس اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو بٹھلا کر من ربک سے سوال کرتے ہیں…(اسی طرح کافر کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا نام سجین میں لکھ دو جو زمین کے نیچے ہے ۔پھر اس کی روح وہاں سے پھینکی جاتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے پس گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اس کو پرندے اچک کر لے گئے یا ہوا نے گہرے گڑھے میں ڈال دیا اور پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو بٹھلا کر من ربک سے سوال کرتے ہیں…۔

ابو دائود طیالسی ص۱۰۲ میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں ’’فیرذا الی الارض وتعادروحہ فی جسدہ‘‘ یعنی اس کو زمین کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے ۔یہ روایت ابو دائو د میں بھی اختصار ًا مروی ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں ۔ ’’ وتعاد روحہ فی جسدہ‘‘۔ امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ نے یہ روایت مستدرک جلد ۱ ص۳۷ میں نقل کی ہے اور اس میں مومن کے بارے میں یہ الفاظ ہیں۔’’فترد روحہ الی جسدہ ‘‘ پھر اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے جسم میں جا پڑتی ہے۔امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ محدثانہ رنگ میں اس روایت کے کئی طرق نقل کر کے آگے ارشاد فرماتے ہیں:۔
یہ حدیث بخاری رحمتہ اللہ علیہ و مسلم رحمتہ اللہ علیہ کی شرط پر صحیح ہے کیونکہ منہال بن عمرو رحمتہ اللہ علیہ اور زاذان رحمتہ اللہ علیہ ابو عمرو الکندی رحمتہ اللہ علیہ سے بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے احتجاج کیا ہے اوراس حدیث میں اہل سنت کے لئے کئی فوائد ہیں اور اہل بدعت کے عقائد کے قلع قمع کا خاصا ثبوت موجود ہے ۔(مستدرک جلد ۱ ص۳۹)علامہ ذہبی رحمتہ اللہ علیہ اپنی تلخیص میں جو انہوں نے مستدرک پر لکھی ہے فرماتے ہیں ۔یہ روایت بخاری رحمتہ اللہ علیہ و مسلم رحمتہ اللہ علیہ کی شرط پر صحیح ہے ۔کیونکہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور مسلم رحمتہ اللہ علیہ دونوں نے منہال سے احتجاج کیا ہے ۔( تلخیص المستدرک جلد ۱ ص۳۸)
علامہ حافظ نور الدین الہثیمی رحمتہ اللہ علیہ (حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ کے استاد) فرماتے ہیں۔’’ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں‘‘۔ (مجمع الزوائد جلد ۳ ص۴۹ ۔۵۰)
علامہ منذری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام بہیقی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:۔
وھذا احدیث صحیح الاسناد ۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ ( الترغیب و الترہیب جلد ۲ ص۲۶۵)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ‘محدث ابو موسیٰ الاصبہانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہیاور منہال کے طریق سے مشہور ہے ۔(مختصرابی دائود ج۷ ص۱۴۴) دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:۔’’ امام ابو دائود اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس کے تمام راویوں سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی اپنی کتاب صحیح میں احتجاج کیا ہے ۔(الترغیب والترہیب جلد ۲ ص۳۶۵)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی تحقیق میں لکھتے ہیں:۔
’’ اس حدیث کو امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور تمام محدثین رحمتہ اللہ علیہ کا اس کے مشہور اور مستفیض ہونے پر اجماع ہے اور حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث متصل الاسناد اور مشہور ہے اور براء بن عازب رحمتہ اللہ علیہ سے ایک جماعت نے اس کو روایت کیا ہے‘‘۔( شرح حدیث النزول ص۴۷)
حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق محدثانہ رنگ میں بحث کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔ ’’فالحدیث صحیح لا شک فیہ‘‘پس یہ حدیث صحیح ہے اس میں کوئی شک نہیں‘‘۔
آگے فرماتے ہیں:۔
یہ حدیث ثابت مشہور اور مستفیض ہے اور حفاظ حدیث کی ایک بڑی جماعت نے اس کی تصحیح کی ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ ائمہ حدیث میں کسی نے اس میں طعن کیا ہو بلکہ انہوں نے اس کو اپنی کتابوں میں روایت کیا ہے اور اس کو قبول کیا ہے اور قبر کے عذاب و راحت اور منکر نکیر کے سوال اور ارواح کے قبض کرنے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے اور پھر ان کو قبر کی طرف لوٹانے کا سلسلہ میں اس روایت کو اصول دین سے قرار دیا ہے ۔(کتاب الروح ص۵۷‘۵۸)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ بھی اس روایت کو ’’کما ثبت فی الحدیث‘‘ کہہ کر صحیح کہتے ہیں۔( فتح الباری جلد ۵ ص۵۰۴ بحوالہ تسکین الصدور)

موجودہ دور کے جرح و تعدیل کے بہت بڑے ماہر علامہ محمد ناصر الدین الالبانی جو احادیث کے صحت و سقم کے بہت بڑے نباض ہیں اور جن کا حوالہ موصوف نے بھی توحید خالص نمبر ۲ ص۴ پر دیا ہے ۔ابو دائود اور مسند احمد کی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں۔’’واسنادہ صحیح ‘‘ اور اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔(مشکوٰۃ المصابیح بتحقیق محمد ناصر الدین الا لبانی ج۱ ص۴۸) دوسرے مقام پر مسند احمد کی طویل حدیث کے مسند احمد سے چار مقامات نقل کر کے فرماتے ہیں ۔’’واسناد الروایۃ الاولی ‘‘صحیح اور پہلی روایت کی سند صحیح ہے ۔(ایضاً ج۱ ص۵۱۵)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اہل علم نے نہ صرف یہ کہ اس روایت کو صحیح کہا ہے بلکہ اپنے عقیدے کی بنیاد ہی اسی صحیح احادیث پر رکھی ہے مگر موصوف اس بات کو تسلیم نہیں کرتے اور لکھتے ہیں :۔
بخاری کی اس حدیث کی تیسری شرح ان لوگوں سے منقول ہے جو قرآن و حدیث کے فیصلے کے بعد بھی اس بات پر مصر ہیں کہ دنیاوی قبر کا مردہ روح کی واپسی کے بعد پھر زندہ ہو جاتا ہے اور اسی مردہ سے سوال وجواب ہوتا ہے اور اس کے بعد اسی پر عذاب و راحت کا قیامت تک کا دور گزرتا ہے۔
اور اس بات کے ثبوت میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے منسوب زاذان کی اس روایت کو دلیل بناتے ہیں جس کو اہل علم نے منکر بتایا ہے اور بتایا ہے کہ اس کے اصل راوی زاذان میں سیعت ہے اور وہ اپنے مخصوص عقیدہ کو روایت کی شکل میں لے آیا ہے ۔(اس روایت پر تفصیلی بحث ہماری کتابوں ‘یہ قبریں یہ آستانے اور توحید خالص قسط دوم میں موجود ہے) حالانکہ بخاری کی اس صحیح حدیث کی دو اور شرحیں بھی ہیں جو نصوص قرآنی اور احادیث صحیحہ سے نہیں ٹکراتین لیکن کیا کیا جائے پسند بہرحال اپنی پسند ہوا کرتی ہے ۔(عذاب قبر ص۱۴)

معلوم نہیں کون سے اہل علم ایسے ہیں جنہوں نے اس صحیح روایت کو منکر قرار دیا ہے ۔موجودہ دور میں تو ہمیں صرف ایک ہی اھل علم نظر آتا ہے اور وہ ہیں ڈاکٹر عثمانی جو فرشتوں کو جوتے پہنانے پر مصر ہیں البتہ دور ماضی میں ایک اہل علم حافظ ابن حزم رحمتہ اللہ علیہ گزرے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے مگر انہوں نے بھی ضعیف حدیث کی وجہ زاذان رحمتہ اللہ علیہ نہیں بلکہ منہال بن عمرو رحمتہ اللہ علیہ کو بتایا ہے اور ابن حزم رحمتہ اللہ علیہ جرح کے معاملے میں بہت متشدد تھے۔اس لئے اہل علم جرح کے معاملے میں ان کی بات تسلیم نہیں کرتے ۔امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ تک کو وہ مجہول کہتے ہین ۔علامہ ذہبی رحمتہ اللہ علیہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
ابن حزم رحمتہ اللہ علیہ بڑی آزمائش میں مبتلا ہوئے اوران پر سختی بھی کی گئی اور جلا وطن بھی کئے گئے اور کئی مصائب کا شکار ہوئے کیونکہ وہ بڑے بڑے ائمہ کے حق میں زبان دراز کرتے اور ان کی توہین کا ارتکاب کرتے تھے اور حضرات ائمہ مجتہدین کے بارے میں قبیح ترین عبارتیں اور گھنائونے محاورت استعمال کرتے اور نا مناسب لہجہ میں تردید کرتے تھے۔( تزکرہ الحفاظ ص۳۲۸ ج۳)
حافظ ابن حزم رحمتہ اللہ علیہ کا معاملہ تو صرف جرج و تعدیل تک تھا مگر موصوف تو ائمہ دین اور سلف صالحین کو کھلم کھلا مشرک کہنا شروع کر دیا ہے اور ان کے کہنے کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا دور رخصت ہوتے ہی مسلمان بد عقیدگی میں مبتلا ہو گئے اور صحیح اسلام کا وجود دنیا سے مٹ گیا۔ تا آنکہ ڈاکٹر عثمانی پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی کلینک کے ساتھ ساتھ احیاء دین کا کام بھی سنبھال لیا۔ موصوف زاذان رحمتہ اللہ علیہ کو مجروح راوی سمجھتے ہیں چنانچہ ملائکہ سیاحین والی روایت کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
اس روایت میں زاذان رحمتہ اللہ علیہ راوی ہے ‘ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ تہذیب و التہذیب میں اس کے متعلق کہتے ہیں یخطی کثیرا۔ وہ بہت زیادہ خطا کیا کرتا تھا ۔شعبہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن کہیل سے زاذان کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ابو البختری میری نگاہ میں اس سے زیادہ اچھا ہے او ر ابو البختری کو جو زاذان سے زیادہ اچھا کہا گیا۔اس کے متعلق یحییٰ بن معین کہتے ہیں ’’ کان یکذب عدو اللہ‘‘ (وہ اللہ کا دشمن جھوٹا تھا) عثمان بن ابی ثیبہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں وہ دجال کی حیثیت سے اٹھایا جائے گا۔احمد رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ۔کان یضع الحدیث وضعاً ۔وہ بہت زیادہ رواتیں اپنی طرف سے گھڑا کرتا تھا۔زاذان کے متعلق ابن حجر عسقلانی تقریب التہذیب میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’ فیہ شیعۃ‘‘ (اس میں شیعت ہے)اور یہ معلوم و مشہور بات ہے کہ شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے اعمال ان کے اماموں پر پیش ہوتے رہتے ہیں اور ان کا دوسرا باطل عقیدہ یہہے کہ جب مردہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو ’’ حقوۃ‘‘ (ہنسلی) تک اس میں جان واپس آ جاتی ہے اپنے پہلے باطل عقیدہ کا اظہار زاذان نے اس روایت میں کیا ہے اور دوسرے باطل عقیدہ کا اظہار ’’ روح کے بدن میں واپس لوٹائے جانے کی غلط روایت‘‘ ہیں جو ص۱۹ پر آرہی ہے۔اصول حدیث کا فیصلہ ہے کہ ایسا راوی جو حدیث میں اپنے فاسد عقیدہ کی تائید میں روایت لائے رد کر دیا جائے گا ۔’’ان روی مایقوی بدعتہ نیرد علی المذہب المختار ‘‘۔( نجنتہ الفکر ۔ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ ص۷۳)(تہذیب التہذیب جلد ۳ ص۳۰۲‘۳۰۲‘میزان الاعتدال جلد ۳ ص۲۷۸ تقریب التہذیب ص۱۶۱ )
اب اس جھوٹی روایت کی حیثیت بھی دنیا کے سامنے ہے۔(یہ قبریں یہ آستانے ص۱۶)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
52ۛ:زاذان رحمتہ اللہ علیہ تابعی ثقہ ہیں​

موصوف نے زاذان رحمتہ اللہ علیہ پر جو اندھا دھندحرج کی ہے وہ ملاحظہ فرمائیں ۔زاذان رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق تہذیب التہذیب جیسی مطول کتاب سے انہوں سے صرف اتنا جملہ نقل کیا ہے کہ ’’ کان یخطی کثیراً‘‘۔وہ بہت زیادہ خطا کرتا تھا ۔اور دوسرا جملہ انہوں نے تقریب التہذیب سے یہ نقل کیا ہے ۔’’ فیہ شیعۃ‘‘ اس میں شیعت ہے اور بس محدثین نے جوان کی بے پناہ تعریف و توصیف کی ہے اسے نظر اندا ز کر دیا اور اسے نقل کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔زاذن رحمتہ اللہ علیہ ثقہ تابعی ہیں اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے انہوں نے حدیث کا سماع کیا ہے ۔زاذان رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق پہلے اتاموں کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔
’’ یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ (امام الجرج و العتدیل) ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ ہے اس جیسے آدمی کے متعلق سوال ہی نہ کرنا چاہئے ۔ابن عدی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ جب اس سے ثقہ راوی روایت کرے تو اس کی احادیث میں کوئی خرابی نہیں۔امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو ثقات میں شمار کر کے کہا بہت خطا کرتا ہے امام ابن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ثقہ اور کثیر الحدیث ہے اور محمد بن حسین رحمتہ اللہ علیہ البغدادی کہتے ہیں کہ میں نے ابن معین رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ زاذان رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ کیا اس نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے؟ امام بن معین رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہاں اس نے سلمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابیوں رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور وہ سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں ثقہ ہیں ۔امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا وہ محدثین کے نزدیک مضبوط نہیں۔ابن عدی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا زاذان رحمتہ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیثیں روایت کی ہیں اور ان ہی کے ہاتھ پر انہوں نے توبہ کی… خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ زاذان رحمتہ اللہ علیہ ثقہ ہیں عجلی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں زاذان رحمتہ اللہ علیہ کوفی تابعی ہیں اور ثقہ ہیں‘‘۔(تہذیب التہذیب جلد ۳ ص۳۰۳)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ محدثین کرام کی اکثریت زاذان کو ثقہ اور قابل اعتماد سمجھتی ہے جبکہ موصوف نے اکا دکا جرح کے اقوال نقل کر کے اور زاذان رحمتہ اللہ علیہ کو مجروح قرار دے کر ناقابل اعتماد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔موصوف کی عادت ہے کہ جس راوی کو وہ ناقابل اعتماد قرار دینا چاہیں تو اس کے لئے وہ اسماء الرجال کی کتابوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر جرح کے کلمات جمع کرتے ہیں اور اگر راوی پر کوئی جرح نہ بھی ہو تو اپنے طور پر ہی اسے مجروح راوی قرار دے دیتے ہیں جیسے ابو عاصم البنیلی کے سلسلہ میں انہوں نے زبردست دھوکہ دینے کی کوشش کی تھی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔اسی طرح وہ دوسرے راویان حدیث کے ساتھ یہی کچھ کرتے ہیں اور محدثین کرام نے ان راویوں کے متعلق تعدیل و توثیق کے جو کلمات کہے ہوتے ہیں ان کو بالکل حذف کر جاتے ہیں اور ان سے کوئی قرض تک نہیں کرتے۔اب ایسے متعصب شخص کی تحقیق تو صرف وہی شخص بھروسہ کر سکتا ہے کہ جو ان کا اندھا مقلد ہو ورنہ اسلام علوم میں تحقیق کرنے والا کوئی طالب علم ان کی تحقیق پر کبھی اعتماد نہیں کر سکتا۔ علامہ البانی رحمتہ اللہ علیہ زاذان کے متعلق لکھتے ہیں ۔

زاذان رحمتہ اللہ علیہ کو صاحب فضیلت ائمہ کی اس اکثریت نے ثقہ قرار دیا ہے کہ جس پر جرح و تعدیل کے باب میں اعتماد کیا جاتا ہے ۔اور ان عائمہ نحول میں سے تجھے صرف امام ابن معین رحمتہ اللہ علیہ کا قول کافی ہے چنانچہ وہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ایسے ثقہ ہیں کہ ان جیسے (کی ثقاحت) کے متعلق پوچھنا ہی نہیں چاہئے ۔اسی طرح ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ ‘ ابن عدی رحمتہ اللہ علیہ ‘ العجلی رحمتہ اللہ علیہ اور الخطیب رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ وہ بہت خطا کرتا ہے۔میں البانی کہتا ہوں کہ ان کا یہ قول منفرد اور اپنے ہی قول کے خلاف ہے کیونکہ اگر وہ بہت زیادہ خطا کرتا ہے تو ثقہ نہیں ہو سکتا اور شاید ابن حبان کے اسی قول پر اعتماد کر کے ابو احمد الحام نے بھی کہہ دیا کہ وہ محدثین کے نزدیک پختہ نہیں تھے۔لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان دو کے علاوہ کسی نے بھی ان پر کلام کیا ہو اور یہ کلام بھی مردود ہے اس لئے کہ اس دعویٰ کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف بہت سے محدثین نے ان کی توثیق بیان کی ہے اور مزید براں امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے ان سے احتجاج کیا ہے اور علامہ ذہبی رحمتہ اللہ علیہ نے ان کے ترجمہ کے شروع میں اشارہ کیا ہے کہ ان کی حدیث صحیح ہے اور حافظ ابن حجر الدسقانی رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں صدوق قرار دیا ہے۔(الضعیفہ ج۲ص۳۳۳)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
53:زاذان رحمتہ اللہ علیہ پر شیعیت کا الزام غلط ہے​

رہا کسی راوی کا شیعہ ‘قدری ‘ناصبی وغیرہ ہونا تو اصول حدیث کے لحاظ سے پہلو کا جرح نہیں ہے ۔حافظ صاحب شیعت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
(محدثین کی اصطلاح میں ) شیعہ اسے کہتے ہیں جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا ہو اور (دیگر) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے انہیں افضل سمجھتا ہواور جو انہیں ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی افضل مانتا ہو تو وہ ’’ غالی شیعہ‘‘ ہے اور اس پر رافضی کا اطلاق ہو گا اور اگر ایسا نہ ہو تو اس پر شیعہ کا اطلاق ہو گا‘‘(ھدی الساری مقدمۃ فتح الباری ص۴۵۹)
موصوف نے زاذان رحمتہ اللہ علیہ کو شیعہ قرار دے کر اس الزام کو کافی اچھالا ہے لیکن واضح رہے کہ زاذان رحمتہ اللہ علیہ پر شیعہ ہونے کا الزام واعذی کذاب رافضی نے لگایا ہے ۔تفصیل کے لئے دیکھئے ’’ دعوت قرآن کے نام پر قرآن وحدیث سے انحراف ص۱۴۲‘اندیل الدین الخالص دوسری قسط) اور ظاہر ہے کہ کذاب (بہت بڑے جھوٹے) کی بات کا اعتبار ایک کذاب ہی کر سکتا ہے۔
موصوف نے زاذان رحمتہ اللہ علیہ پر ایک عجیب انداز سے جرح کی ہے اور وہ یہ کہ سلمہ بن کہیل رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابو البختری میری نگاہ میں زاذان رحمتہ اللہ علیہ سے زیادہ اچھا ہے دو ثقہ راویوں میں سے کسی شخص کا ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا کوئی جرح نہیں ہے ۔محدثین رحمتہ اللہ علیہ کے اس قسم کے بہت سے اقوال اسماء الرجال کی کتابوں میں موجود ہیں مگر موصوف نے ان الفاظ سے جرح کا پہلو نکالا ہے اور ان کے جرح کا انداز اتنا عجیب و غریب اور مضحکہ خیز ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔جرح ہو رہی تھی زاذان رحمتہ اللہ علیہ پر کہ وہ مجروح راوی ہے کہ یکا یک جرح کا رخ زاذان رحمتہ اللہ علیہ کے بجائے ابو البختری کی طرف پھر گیا اور پھر ساری جرح ابو البختری پر کرڈالی اور جوش عداوت میں یہ بھی نہ دیکھا کہ میں کس ابو لبختری پر برس رہا ہوں اور سلمہ بن کہیل رحمتہ اللہ علیہ کس ابو البختری کا تذکرہ کر رہے ہیں ۔سلمہ بن کہیل رحمتہ اللہ علیہ نے جن ابو البختری کا ذکر کی اہے وہ ابو البختری الطائی سعید بن فیروز رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ تقریب التہذیب میں ان کے متعلق نقل فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ اور ثبت ہین(ص۱۲۵)تفصیل کے لئے دیکھئے تہذیب التہذیب جلد ۴ ص۷۲)
زاذان رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ۸۲ ؁ھ میں ہوئی (تقریب ص۱۰۵) اور ان کے ایک سال بعد ابو البختری سعید بن فیروز رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ہوئی (تقریب ص۱۲۵) اور سلمہ بن کہیل رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ۱۲۱ ؁ھ یا ۱۲۲ ؁ھ میں ہوئی۔(تہذیب التہذیب جلد ۴ ص۱۵۶)
جس ابو البختری پر موصوف نے جرح کی ہے ان کا نام دہب بن وہب ابو البختری ہے اور یہ ۲۰۰ ؁ھ میں فوت ہوئے۔(میزان الاعتدال جلد ۳ ص۲۷۸) یہ ابو البختری سلمہ بن کہیل رحمتہ اللہ علیہ کے بعد کے ہیں کیونکہ سلمہ بن کہیل رحمتہ اللہ علیہ اور ان کی وفات کے درمیان ۷۹ یا ۷۷ سال فاصلہ ہے ۔اب یہ تو ممکن نہیں کہ سلمہ بن کہیل رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے بعد آنے والے ابو البختری کے متعلق یہ پیش گوئی فرمائی ہو تو لامحالہ یہ ابو البختری سعید بن فیروز رحمتہ اللہ علیہ ہی ہیں اور موصوف بھی اس کو تسلیم کر لیا ہے مگر کھلے الفاظ میں نہیں بلکہ ان کی گرفت کی گئی تو چپکے سے ’’ یہ قبریں یہ آستانے ‘‘ میں سے ابو البختری پر کی گئی جرح غائب کر دی۔
موصوف نے دراصل زاذان رحمتہ اللہ علیہ پر یہ جرح خود نہیں کی بلکہ ندائے حق ص۲۱۱ میں سے دیکھ کر نقل کی تھی میں تو موقع کا گواہ ہوں البتہ ایک غائب گواہ کی شہادت بھی پیش کرتا ہوں چنانچہ مولانا محمد سرفراز خان صاحب لکھتے ہیں:۔

کراچی سے چند اوراق کا ایک اور کتابچہ طبع ہوا ہے جس کا نام ’’ یہ قبریں یہ آستانے ‘‘ ہے جس کا انداز بیان‘ دلائل کی ترتیب اور مفید مطلب حوالے اور پھر اس سے نتیجہ اخذ کرنا شفا الصدور اور ندائے حق سے چنداں متفادت نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہی کتابیں سامنے رکھ کر سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے اس کو مرتب کیا گیا ہے ۔یہ کتابچہ جناب کیپٹن ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی ایم بی بی ایس (اور بقول خود) فاضل علوم دینیہ اور امیر حزب اللہ نے تالیف فرما کر امت مرحومہ اور مظلومہ پر احسان عظیم کیا ہے ۔(سماع موتی ص۲۰)
اسی لئے کسی نے سچ کہا ہے کہ نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔
ابو البختری رحمتہ اللہ علیہ اور زاذان رحمتہ اللہ علیہ جناب علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں اور شاگردوں شامل ہیں چنانچہ ابو البختری رحمتہ اللہ علیہ کے ترجمہ میں زاذان رحمتہ اللہ علیہ کا تذکرہ بھی موجود ہے ۔( تہذیب التہذیب جلد ۴ ص۷۲)اور حضرت عطا بن السائب فرماتے ہیں:۔
’’ میں نے جناب علی رضی اللہ عنہ کے بہترین اصحاب کو دیکھا ہے یعنی زاذان رحمتہ اللہ علیہ ‘میسرہ رحمتہ اللہ علیہ اور ابو البختری رحمتہ اللہ علیہ ‘‘۔
پس ثابت ہوا کہ اصل جرح ابو البختری پر کی گئی ہے ۔زاذان رحمتہ اللہ علیہ پر نہیں اور ابو البختری پر بھی جو جرح کی گئی ہے اس کاحال آپ نے اوپر ملاحظہ فرمایا۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
54:جرح کاایک عجیب انداز​

اس حدیث کے دوسرے راوی منہال بن عمرو رحمتہ اللہ علیہ ہیں جو زاذان رحمتہ اللہ علیہ کے استاد ہیں اور موصوف نے ان پر بھی جرح کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں:۔
’’ اس روایت میں بھی سیعہ زاذان رحمتہ اللہ علیہ ہے جس کو سلمہ بن کہیل ابو بختری سے بھی کمتر سمجھتے ہیں اور دوسرا اس کاشاگرد منہال بن عمرو رحمتہ اللہ علیہ ہے ۔عبد اللہ کہتے ہیں کہ میرے والد احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کہتے تھے کہ ابو بشر مجھ کو منہال سے زیادہ بھلا لگتا ہے اور اس ابو بشر جعفر بن ایاس کو شعبہ نے ضعیف کہا ہے۔ابن معین منہال کی شان گراتے تھے۔حاکم نے کہا کہ یحییٰ بن القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے اور ابو محمد بن حزم بھی اس کو ضعیف کہتے تھے اور اس کی اس برا بن عاذب رضی اللہ عنہ والیروایت کو کو رد کرتے تھے ۔(تہذیب التہذیب جلد ۱۰ ص۳۱۹‘۳۲۰ ومیززن الاعتدال جلد ۳ ص۲۰۴)۔(یہ قبریں یہ آستانے ص۲۱)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
55:منہال بن عمرو رحمتہ اللہ علیہ بھی ثقہ ہے​

منہال بن عمرو رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری ‘ابو دائود ‘ترمذی ‘نسائی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا اپنی صحیح میں ان سے حدیث روایت کرنا ہی اس بات کی علامت ہے کہ وہ ثقہ ہیں ۔باقی احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا یہ کہنا کہ ابو بشر مجھے منہال سے زیادہ پسند ہیں تو یہ کوئی جرح نہیں اور ہی انہوں نے منہال رحمتہ اللہ علیہ کو ضعیف قرار دیا ہے بلکہ دو ثقہ راویوں میں سے ایک کو اوثق کہا ہے ۔(دیکھئے تہذیب ص۳۱۹‘ج۱اور میزان الاعتدال جلد ۴ ص۱۹۲ طبع بیروت)آگے چل کر موصوف نے اپنے مخصوص انداز کے مطابق منہال رحمتہ اللہ علیہ پر جرح کرنے کے بجائے ابو بشر جعفر بن ایاس رحمتہ اللہ علیہ پر جرح کر دی اور کہا ہے کہ شعبہ رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں ضعیف کہا ہے۔حالانکہ شعبہ رحمتہ اللہ علیہ نے ان کو مطلقاً ضعیف قرار نہیں دیا ۔بلکہ حبیب بن سالم رحمتہ اللہ علیہ اور مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کے سلسلہ میں ضعیف کہا ہے کیونکہ ابو بشر بخاری و مسلم رحمتہ اللہ علیہ کے راوی اور ثقہ اور ثبت ہیں اور احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ ‘ یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ ‘ابو ذرحہ رحمتہ اللہ علیہ ابو حاتم رحمتہ اللہ علیہ ‘عجلی رحمتہ اللہ علیہ ‘نسائی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے ۔(تہذیب ج۲ ص۸۲)
افسوس کہ موصوف نے اندھا دھند جرح کر کے بخاری و مسلم ہی کے نہیں بلکہ صحاح ستہ کے ایک اور مرکزی راوی کو ضعیف بنا دیا۔ آگے انہوں نے غلالی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک قول نقل کیا ہے کہ یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ منہال رحمتہ اللہ علیہ کی شان گراتے تھے ۔الفاظ یہ ہیں ’’ کان ابن معین یضع من شان منہال بن عمرو‘‘۔یعنی یحییٰ بن معین ان کی شان کچھ کم کرتے تھے تو یہ کوئی جرح نہیں کیونکہ آگے یہ بھی تو موجد ہے ۔’’ وعدو وثقہ ابن معین العجلی وغیرھما‘‘ اور تحقیق یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ ‘عجلی رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے محدثین رحمتہ اللہ علیہ نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے علامہ ذہبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’ قال ابن معین :المنہال ثقہ وقال احمد العجلی ‘ کوفی ثقۃ ‘‘۔ یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ منہال رحمتہ اللہ علیہ ثقہ ہے اور احمد العجلی رحمتہ اللہ علیہ بھی انہیں ثقہ کہتے ہیں۔پس ثابت ہوا کہ ابن معین رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بھی منہال ثقہ ہیں مگر معلوم نہیں کہ کیوں موصوف نے اس قول پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔آگے حاکم رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے ۔’’ غمزہ یحییٰ القطان ‘‘ یعنی ابن القطان نے ان کو دبایا یعنی مطعون کیا اور موصوف کے نزدیک ضعیف گردانا ہے تو یہ بھی کوئی جرح نہیں کیونکہ جرح کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ وہ مفسر ہو اور جس واقعہ (یعنی ان کے گھر سے ساز کی آواز سنی گئی تھی) کی بنا پر بعض نے ان پر جرح کی بھی ہے تو خود وہ واقعہ ہی من گھڑت ہے ۔لہذا جرح کا وجود کالعدم ہے۔علامہ ذہبی رحمتہ اللہ علیہ نے آگے منہال رحمتہ اللہ علیہ کی سند سے ایک روایت نقل کر کے اس کے متعلق فرمایا ’’ذلک اسناد صالح‘‘یعنی اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اوپر آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ بے شمار محدثین نے اعادہ روح والی روایت کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔ فن حدیث کے ان ماہرین کو بھی تو معلوم تھا کہ اس روایت کی سند میں منہال رحمتہ اللہ علیہ ہے۔رہا ابن حزم رحمتہ اللہ علیہ کا منہال رحمتہ اللہ علیہ کو ضعیف قرار دینا تو ابن حزم رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔
لطیفہ:موصوف کے کتابچے یہ قبریں یہ آستانے کے اب تک سینکڑوں ایڈیشن چھپ چکے ہیں اور اس میں زاذان رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ’’فیہ شیعۃ ‘‘کو ہر بار ’’فیہ شیعۃ ‘‘ہی نقل کیا گیا ہے جو غلط ہے۔مگر ان کی جماعت میں کوئی اتنی معمولی عربی بھی پڑھا ہوا نہیں ہے جو موصوف کو اس غلطی کی طرف توجہ دلاتا ۔علماء کے وجود کو تو موصوف نے کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہی نہیں کیا اور اگر کوئی شامت کا مارا مولوی توحید کے نشہ میں سرشار ہو کر ان کی جماعت سے آ ملا تو پھر اس پر انہوں نے ایسے فتوے داغے کہ اس مولوی بیچارے نے وہاں سے بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی ۔یہ حقیقت ہے کہ ہر سمجھدار انسان جب موصوف کی بیان کردہ توحید سنتا ہے تو وہ ایسی عجیب و غریب توحید سن کر حیران و پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ ایسی توحید موصوف کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
56:زاذان کی روایت کی متابعت​

اعادہ روح والی اس حدیث کو جناب براء بن عازب رحمتہ اللہ علیہ سے صرف زاذان رحمتہ اللہ علیہ ہی نے روایت نہیں کیا بلکہ تابعین رحمتہ اللہ علیہ کی ایک جماعت روایت کرتی ہے ۔چنانچہ مشہور محدث حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ رحمتہ اللہ علیہ (جو الامام ‘الجوال‘ محدث العصر تھے ۔تذکرہ الحفاظ جلد ۳ ص۲۳ المتوفی ۳۹۵ ؁ھ)فرماتے ہیں ۔جناب براء رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو ایک جماعت روایت کرتی ہے ۔( شرح حدیث النزول ص۴۷)
امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ اور حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جناب براء عازب رضی اللہ عنہ سے زاذان رحمتہ اللہ علیہ کے علاوہ بھی متعدد راویوں نے یہ روایت بیان کی ہے ان میں عدی بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ ‘محمد بن عقبہ رحمتہ اللہ علیہ اور مجاہد رحمتہ اللہ علیہ بھی ہیں۔(شرح حدیث النزول ص۴۷ وکتاب الروح ص۵۹ بحوالہ تسکین الصدور ص۱۱۴)
حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الروح والنفس میں اس حدیث کی مزید دو سندیں یوں ذکر فرمائی ہیں:
عربی………………
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری شخص کے جنازہ میں شریک تھے (اس طویل حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ) بیشک روحیں قبروں میں لوٹائی جاتی ہیں اور دو فرشتے میت کو بٹھاتے ہیں اور اس سے گفتگو کرتے ہیں۔
۲۔ حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ رحمتہ اللہ علیہ نے اسی حدیث کی دوسری سندیوں ذکر کی ہے :۔
عربی…………
ان روایات میں خصیف الجرزی عن مجاہد کی سند تقریباً حسن درجہ کی ہے کیونکہ خصیف مختلف فیہ راوی ہے اسے امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ نے صالح اور ایک مرتبہ ثقہ کہا اور امام ابو زرعۃ بھی ثقہ کہتے ہیں ۔جبکہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے غالباً مرجیت کی وجہ سے انہیں ضعیف کہا تو یہ کوئی جرح نہیں کیونکہ کسی راوی کا شیعہ‘ مرجیہ وغیرہ ہونا کوئی جرح نہیں جب تک کہ وہ اس کی طرف دعوت نہ دیتا ہو۔امام ابو حاتم رازی نے خراب حافظ کی وجہ سے ان پر کلام کیا ہے جبکہ یہاں ان کی روایت اس صحیح روایت کی تائید کر رہی ہے اور امام یحییٰ القطان رحمتہ اللہ علیہ نے صرف یہ کہا کہ ہم خصیف سے بچا کرتے تھے یعنی ان سے روایت نہیں کرتے تھے اور ان کی جرح بھی مبھم ہے۔جبکہ ان سب کے مقابلے امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں صالح اور ثقہ کہا اور امام ابو زرعہ بھی ان کو ثقہ کہتے ہیں تو ان کی حدیث شواہد حسن درجہ سے کم نہیں۔ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ خصیف کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان کی وہ روایات کہ جو ثقات کے مطابق ہیں قابل قبول ہیں اور جو روایات ثقات کے خلاف ہوں وہ قابل ترک ہیں اور یہ روایت زاذان رحمتہ اللہ علیہ کی روایت کی زبردست شاہد ہے اس لئے قابل قبول ہے۔البتہ دوسری سند میں عیسی بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ کو اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام دارقطنی وغیرہ نے صالح الحدیث کہا ہے ۔(لسان المیزان ۴/۴۰۵)اور ان کی روایت ان دونوں روایتوں کی تائید کرتی ہے اور شاہد کی بناء پر حسن ہے۔
ان دونوں روایات میں منہال رحمتہ اللہ علیہ اور زاذان رحمتہ اللہ علیہ کا واسطہ نہیں ہے لہذا جس علت کی وجہ سے اس حدیث کے ضعیف ہونے پر استدلال کیا گیا تھا وہ استدلال ہی باطل ہو گیا۔جناب براء بن عازب رحمتہ اللہ علیہ کی یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے اور ان سب میں منہال رحمتہ اللہ علیہ عن زاذان رحمتہ اللہ علیہ کا واسطہ زیادہ مشہور ہے اس لئے اکثر محدثین مثلاً امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ امام ابو دائود رحمتہ اللہ علیہ امام ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ ‘ امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ ‘امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ ‘ امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ ‘ امام ابو عوانہ الاسفرائینی رحمتہ اللہ علیہ ‘ امام ابودائودطیالسی رحمتہ اللہ علیہ ‘ امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے اسی واسطہ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ اس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
 
Top